خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے 07جون 2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
الحمد للہ کہ آج خدام الاحمدیہ یوکے(UK) کے اجتماع کا یہ آخری دن کا آخری سیشن ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے اجتماع کامیاب رہا۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ حاضری کے لحاظ سے اس دفعہ بہت زیادہ اچھی رسپانس خدام الاحمدیہ نے اور اطفال الاحمدیہ نے بھی دکھائی ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ خدام الاحمدیہ یعنی وہ نوجوان جو احمدیت کے خادم ہیں، اُن کا ایک عہد ہے جو آپ نے اس فنگشن میں دہرایا اور ہمیشہ دہراتے ہی رہتے ہیں۔ اور خدا کو حاضر ناظر جان کرایک وعدہ کر تے ہیں۔پس ہمیشہ اس عہد کو اپنے سامنے عام حالات میں بھی رکھتے رہا کریں اور جب دہرایا کریں تو اُس پر غور کریں کہ کیا ہم اس عہد کو پورا کر بھی رہے ہیں کہ نہیں، کیونکہ نوجوان ہی وہ لوگ ہیں جو قوموں کے مستقبل کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قوموں کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے، چاہے وہ دنیاوی لحاظ سے قوموں کی ترقی ہو یا دینی لحاظ سے قوموں کی ترقی ہو۔
انبیاء کی تاریخ میں بھی نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں، عیسائیوں کے بارے میں قرآنِ کریم میں سورۃ کہف میںجو ذکر آتا ہے، وہ یہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نوجوان تھے جب انہوں نے کہا رَبَّنَآ اٰتِنَامِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًوَّھَیِّیْٔ لَنَامِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (الکھف:11)کہ اے ہمارے رب! اپنے حضور سے رحمت عطا کر، اور ہمارے لئے ہمارے معاملہ میں رُشد و ہدایت کے سامان کر۔
اللہ تعالیٰ نے بھی یہ جو لفظ یہاں استعمال فرمایا ہے ’’فِتْیَۃٌ ‘‘ کا ،یعنی نوجوانوں کا۔ اس کا مطلب صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو فیاض ہیں، جو سخی ہیں، جو اپنے کاموں کو کرنے کے لئے، اپنے وعدوں کو نبھانے کے لئے اپنے وعدے بھی پورے کرتے ہیں۔
پھر اسی جگہ دو تین آیتیں چھوڑ کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی (الکہف:14)
کہ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر حقیقی ایمان لائے تھے اور ہم نے اُنہیں ہدایت میں آگے بڑھا دیا۔ پہلے سے زیادہ اُن میں ترقی پیدا کر دی۔پس یہ نوجوانوں کی اہمیت ہر جگہ اور ہر موقع پر ہوتی ہے۔ یہاں لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’’مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا‘‘ اور ’’رَشَدًا‘ ‘کا مطلب ہے آزادی بھی اور کامیابی کا راستہ بھی۔ اب یہ آزادی کس طرح ہو گی؟ یہ کامیابی کس طرح ہو گی؟ آپ لوگ وہ ہیں جو صرف اپنی آزادی کے لئے نہیں بلکہ دنیا کو دنیا کی لہو و لعب سے آزاد کرانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔پس یہ آزادی صرف جسمانی آزادی نہیں ہے بلکہ یہ آزادی جسمانی آزادی کے لحاظ سے لغویات سے آزادی ہے، شیطان کے چنگل سے آزادی ہے اور کامیابی کے راستے آپ نے تلاش کرنے ہیں۔
پس اس طرف ہمیشہ توجہ دیں کہ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی آزادی کے سامان بھی پیدا کرنے ہیں، دنیا کو کامیابی سے ہمکنار کرانا ہے۔ اور دنیا کی کامیابی یا اپنی کامیابی کس طرح ہو گی؟ یہ اُس وقت ہو گی جب آپ دین کو سیکھیں گے۔ جب آپ کو اپنے دین کا پتہ ہو گا جس پر آپ عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جس کو آپ ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر خود آپ کو دین کاعلم نہیں ہے ، تو دنیا کو کیا سکھائیں گے۔ اور پھر دین کے علم کے ساتھ ایک تربیت کا پہلو ہے۔ تربیت بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنا علم سیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر تربیت کے آپ اپنے اوپر اُس علم کو لاگو نہیں کر سکتے۔ گویا کہ جو علم آپ سیکھ رہے ہیں اُس کی عملی تصویر آپ کی تربیت ہے۔ اور پھر جب اس تربیت کی عملی تصویر بن جائیں گے، لوگوں کی آپ کی طرف توجہ پیدا ہو گی، آپ کو دینی علم بھی ہو گا تو پھر اگلا رستہ تبلیغ کا ہے۔ دنیا کو آزادی دلوانے کا ہے، دنیا کو شیطان کے چُنگل سے آزاد کرانے کا ہے۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکانے کا ہے، دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کا ہے۔ پس جب یہ چیزیں ہوں گی تبھی آپ وہ لوگ کہلا سکتے ہیں جو اُن نوجوانوں میں شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزادی دے، ہمیں رُشد دے، ہمیں ہدایت دے اور پھر اللہ تعالیٰ اُن دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور دیتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص ایک مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی سے جھکے، اور مقصد بھی وہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہے، اُس کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے آئے، جھکے، اپنا سر رکھے ، سجدوں میں پڑے اور پھر خدا تعالیٰ اُسے کامیابی عطا نہ فرمائے۔ پس یقینا یہ کامیابی آپ کے لئے مقدر ہے لیکن آپ لوگوں کو خود بھی اس کے بارے میں کوشش کرنی ہو گی۔ اپنے دینی علم کو بڑھانا ہو گا، اپنی تربیت کرنی ہو گی اور پھر اس درد کے ساتھ اس پیغام کو آگے دنیا تک بھی پہنچانا ہو گا۔ اور اس سے پھر انشاء اللہ تعالیٰ آپ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے چلے جائیں گے۔
یہ نوجوان جن کا قرآنِ کریم میں سورۃ کہف میں ذکر ہے جن کے بارے میں مَیں نے بتایا ہے یہ تین سو سال سے زیادہ کوشش کرتے رہے، آخر وہ وقت آیا جب عیسائیت کو کامیابیاں نصیب ہوئیں اور دنیا میں پھیل گئی۔ پس مسیح موسوی کے ماننے والے وہ نوجوان جن کے لئے یہ مقدر نہیں تھا، اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے نہیں تھے کہ انہوں نے تمام دنیا کو اپنے زیرِ اثر کرنا ہے، اُن کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیابیاں عطا فرمائیں تو وہ نوجوان جو مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں، جن کے لئے وعدہ ہے، جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے بھی، اُن کے لئے کامیابیاں تو یقینا مقدر ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو ان کامیابیوں کی راہ میں حائل ہو سکے۔ بشرطیکہ آپ خود اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ پس ہمارے نوجوانوں کے لئے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کو سمجھیں اور ایک عہد کریں کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو اُس عہد کے مطابق ڈھالنا ہے جو ہم یہاں خدام الاحمدیہ کا بھی کرتے ہیں، خدام الاحمدیہ میں ہر اجتماع پر کرتے ہیں، اپنے اجلاسوں میں کرتے ہیں اور اُس عہد کے مطابق بھی ڈھالنا ہے جو ہم نے بیعت کا عہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے۔ اگر یہ سوچ آپ کی ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ کامیابیاں جو مقدر ہیں جماعت کے لئے، وہ آپ کے لئے آپ کے زمانے میں آسان ہوتی چلی جائیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔
اسی طرح صرف یہی نہیں کہ حضرت عیسیٰ کی مثال ہے تو وہاں نوجوانوں نے کام کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے جو صحابہ تھے اُن میں سے بھی اکثریت 90 فیصد جوانوں کی تھی جنہوں نے کام کئے، کام دکھائے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی کامیابیاں عطا فرمائیں۔ انہوں نے اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن تبدیلیوں کے عوض اپنی رضا کا پروانہ جاری کیا اور نہ صرف یہ بلکہ دنیاوی کامیابیوں سے بھی ہمکنار کیا۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر احمدی کی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہدِ بیعت میں آتا ہے، دنیاوی کامیابیاں بھی اور دینی کامیابیاں بھی اس بات پر منحصر ہیں کہ آپ کس حد تک اپنے عہد کو نبھانے والے ہیں۔ پس جب آپ کہتے ہیں مَیں جان، مال اور وقت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا تو صرف کھوکھلا دعویٰ نہ ہو، الفاظ نہ ہوں بلکہ آپ کی یہ سوچ ہو کہ جب بھی موقع ملے میری جان بھی حاضر ہے، میرا مال بھی حاضر ہے، میرا وقت بھی حاضر ہے اور جب یہ سوچ ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے کہا پھر کامیابیاں بھی آپ کا مقدر بنتی چلی جائیں گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نوجوانوں کو ایک ماٹو دیا تھا، یا ایک نصیحت کی تھی کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘ ۔مَیں نے اس پر مختلف ممالک کی خدام الاحمدیہ کی تنظیموں کو اور یوکے(UK)کو بھی یہ کہا تھا کہ ایک بَیج(Badge) بنوائیں۔ اُس بَیج پر یہ لکھا ہو کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی‘‘۔ اور میں نے دیکھا ہے اکثر خدام کے سینے پر یہ بیج لگا بھی ہوا ہے۔ یہ بیج صرف خوبصورتی کے لئے نہیں تھا، یہ بیج صرف اس اظہار کے لئے نہیں تھا کہ ہم نے یہ بیج لگا لیا اور ہم وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں۔ بلکہ یہ بیج اس لئے تھا کہ ہم وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں اور یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری اصلاح ہو۔ اور ہماری اصلاح صرف ہماری ذات کی خاطر نہ ہو بلکہ قوموں کی اصلاح کے لئے ہو، قوموں کی ترقی کے لئے ہو، جماعت کی ترقی کے لئے ہو۔ پس یہ بہت بڑا نعرہ ہے جو آپ کو دیا گیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نصیحت ہے جو آپ کو کی گئی ہے کہ جب ایک دوسرے کے سینے پر لگے ہوئے بیج پڑھیں تو صرف پڑھنا ہی کافی نہ ہو۔ بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر اس طرف توجہ پیدا ہو کہ ہم نے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے اور اصلاح کی طرف توجہ اس لئے دینی ہے تا کہ جماعت کے اندر بھی ہمارا تربیت کا معیار بلند ہوتا چلا جائے اور دنیا کو بھی صحیح راستے پر چلانے والے بن سکیں۔ پس اس بَیج کا فائدہ تبھی ہے جب آپ لوگ اس کے مضمون کو سمجھ سکیں، اس نصیحت کو سمجھ سکیں۔ ہمیشہ خدام کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا جماعت پر، نوجوانوں پر ، اطفال پر اور باقی تنظیموں پر بہت بڑا احسان ہے جو آپ نے یہ تنظیمیں قائم فرمائیں تا کہ ہم اپنے ماحول میں آزادانہ طور پر، اپنے طرز پر اپنی تنظیمی ترقی کے سامان کر سکیں، اپنی اصلاح کے سامان کر سکیں۔ اپنی علمی ترقی کے سامان کر سکیں، اپنی روحانی ترقی کے سامان کر سکیں۔ پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا مقصد ہی یہی تھا کہ آپ لوگ، وہ نوجوان جو پندرہ سال سے چالیس سال تک ہیں، وہ اطفال جو سات سال سے پندرہ سال تک ہیں اپنی ذمہ داریوں کو شروع ہی سے سمجھنا شروع کر دیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ جماعتی نظام نے ہمیں رہنمائی کرنی ہے بلکہ خود اپنی رہنمائی کے سامان کریں، اپنی تربیت کے سامان کریں، اپنے پروگرام بنائیں تا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار پہلے سے بڑھ کر ہو۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار‘۔پس وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ تھے، پھر اُن کو دیکھنے والے تھے، پھر اُن کی تربیت میں کچھ صحابہ کے دیکھنے والوں کی تربیت میں زندگی گزارنے والے تھے، وہ لوگ اپنا اپنا وقت گزار کر آہستہ آہستہ رخصت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کچھ رخصت ہو گئے، صحابہ چلے گئے، پھر اُن کے دیکھنے والے رخصت ہوئے، پھر آگے تربیت والے رخصت ہوئے۔پس آپ یاد رکھیں کہ یہ بار جو آپ پر پڑا ہے اس کو آپ نے نبھانا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بزرگ لوگ رخصت ہو گئے تو بس کام ختم ہو گیا۔ بلکہ آپ لوگوں نے زمانے کی رفتار کے ساتھ اپنے آپ کو مزید تیز کرنا ہے تا کہ یہ کام پہلے سے بڑھ کر آگے بڑھتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی خدام الاحمدیہ ایکٹو (active)ہے یا لجنہ ایکٹو(active) ہے یا اطفال ایکٹو(active) ہیں یا دوسری تنظیمیں ایکٹو(active) ہیں وہاں جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے(UK) بھی اُن لوگوں میں شامل ہے۔ اور آپ کی یہ حاضری اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگوں کو یہ احساس ہے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے ترقی کرنی ہے ہم نے اپنی اصلاح کے ساتھ دنیا کی اصلاح کا جو بیڑا اُٹھایا ہے اُس کو بھی پورا کرنا ہے۔
ہمیشہ ہمیں نوجوانوں کو بھی، بڑوں کو بھی ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے اور نوجوانوں نے کیونکہ آئندہ مستقبل میں جماعت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اس لئے اُن کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر بعض ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ آپ نے بڑے درد سے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم نے ذمہ داریاں ادا نہ کیں تو تم مجھے بدنام کرنے والے ہو گے۔ آپ فرماتے ہیں میری طرف منسوب ہو کر، ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کرو۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت دنیا میں قائم کرنی ہے اور آپ کی عزت اس لئے نہیں قائم کرنی کہ آپ کوئی علیحدہ مذہب لے کر آئے، بلکہ آپ کی عزت اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا جب اسلام بگڑ جائے گا، باتوں کے علاوہ کچھ نہیں رہے گا، مسجدیں ویران ہو جائیں گی، قرآنِ کریم پر عمل ختم ہو جائے گا، اُس وقت جب مسیح موعود کا ظہور ہو گا تو اُس کی جماعت جو ہو گی وہ دنیا کو ان تمام باتوں سے جو اسلام کی حقیقت ہیں، آگاہ کرنے والی ہو گی۔ اور یہ جو بدعات پیدا ہو گئی ہیں مذہب میں اُن کو ختم کرنے والی ہو گی۔ اور آپؐ نے وہ مقام دیا اپنے مسیح موعود اور مہدی موعود کا کہ فرمایا کہ ہمارے مسیح موعود اور مہدی معہود کا جب ظہور ہو گاتو جو چاند اور سورج کے گرہن کی نشانی ہے، وہ ایسی نشانی ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی اور یہاں آپ نے بڑے پیار سے ’ہمارا مہدی‘ کہہ کے مخاطب کیا۔ پس یہ پیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے الفاظ میں استعمال کیا اور اس کا اظہار کیا، یہ ہمیں اس بات پر توجہ دلاتا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھیں، آپ کے مقصد کو سمجھیں، آپ کے مشن کو سمجھیں اور آپ کی بدنامی کے بجائے آپ کے اُس مشن کو پورا کرنے والے بنیں۔ اس لئے کہ آپ کا مشن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دنیا کو لا کر ڈالنا ہے۔ مختلف نصائح آپ نے فرمائی ہیں، اُن کا خلاصہ مَیں پیش کروں گا۔ آپ ہمارے سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ اُن توقعات کا ذکر مَیں کروں گا۔
آپ نے فرمایا کہ مجھے ماننے والوں کا میری بیعت میں آنے کامقصد تب پورا ہو گا جب تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھے گا۔ اگر نہیں تو تمہارے احمدی ہونے کا یا بیعت میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا اور نہ صرف یہ کہ تمہارے بیعت میں آنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا پھر اس سلسلے کے قائم ہونے کا بھی مقصد پورا نہیں ہوتا ۔ اگر مقصد پورا نہیں ہوتا تو کیا مطلب ہے اس کا؟ یا یہ سلسلہ غلط ہے، یا ہم غلط ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ سلسلہ کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی مسیح موعود کے ذریعہ سے جماعت قائم ہو گی، وہ تو غلط نہیں ہو سکتا۔ اس جماعت کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے بڑے وعدے فرمائے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ تو غلط نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر ہم نے اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں بڑھایا، اپنے ایمان میں اضافہ نہیں کیا تو ہم غلط ہوں گے اور جو بھی غلط ہو گا وہ پھر اُس شاخ کی طرح درخت سے کاٹا جاتا ہے جو اُس درخت کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتی۔ پس ہمیشہ سوچیں کہ ہم نے اپنا ایک مقصد بنانا ہے جو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہو اور اُس سے تعلق پیداہو۔
پھر ایک اور نصیحت جو آپ نے جماعت کوفرمائی ، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا مَیں ایسی جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھتی ہو۔ جب ایمان کامل ہو گا تو پھر محبت بھی بڑھے گی اور جب محبت بڑھے گی تو اللہ تعالیٰ اُس محبت کا جواب بھی محبت سے دیتا ہے۔ پھر آپ لوگوں کا ایک ایسا سلسلہ ایمان میں بڑھنے کا شروع ہو جائے گا جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بن جائے گا۔پس ہر ایک خادم کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے ہم کتنی محبت کرتے ہیں اور ہم اس محبت میں کتنا بڑھ رہے ہیں؟
پھر آپ نے فرمایا کہ میری جماعت کا ہر فرد جو ہے وہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہئے۔ جہاں بھی مجھے ملنے کا موقع ملتا ہے، دنیا میں مختلف ممالک میں بہت سارے فنگشن میں نے اٹینڈ(attend) کئے ہیں،اکثر جگہ مجھے غیر بھی یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ایک خاص بات ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دوسروں سے منفرد ہے۔ دوسرے مسلمانوں میں اور جماعت احمدیہ کے افراد میں بڑا فرق ہے۔ یہ مسلمان وہ مسلمان ہیں جو لگتا ہے کہ اِن کا مذہب ہی کچھ اور ہے۔پس یہ جو فرق ہے، جو غیروں کو نظر آتا ہے ، ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ یہ کہیں صرف چند ایک نمونے تو نہیں جو غیروں کے سامنے ہوتے ہیں۔ اور جن پر یہ اظہار کر رہے ہیں۔ یا یہ فرق صرف عارضی طور پر اُن غیروں کو دکھانے کے لئے تو نہیں؟
پس ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم میں وہ ایمان ہونا چاہئے، وہ اسلام کی عملی تصویر ہونی چاہئے جو دوسروں کے لئے نمونہ ہو اور اُن بلندیوں کو ہم چھونے والے ہوں، اُن رفعتوں کو ہم حاصل کرنے والے ہوں جن تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا کہ آپس میں ہمدردی اور محبت کو اتنا بڑھاؤ کہ تم ایک نمونہ بن جاؤ۔ صرف غیروں کے لئے نہیں نمونہ بننا بلکہ آپس میں بھی محبت اور ہمدردی اور پیار اتنا بڑھ جائے کہ ایک نمونہ بن جاؤ۔ اور اگر یہ چیز جماعت کے ہر فرد میں پیدا ہو جائے، نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو بہت سارے جھگڑے اور فساد، چاہے وہ آپس کے تعلقات میں ہوں، کاروباروں میں ہوں، لین دین میں ہوں، میاں بیوی کے تعلقات میں ہوں یا جماعتی طور پر بعض عہدیداروں کے ساتھ رنجشوں میں ہوں، ہر قسم کے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر ایک دوسرے سے ہمدردی کے لئے اپنا ہاتھ بڑھانے والا ہوگا۔ پس اس سوچ کے لحاظ سے بھی اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔
پھر آپ نے فرمایا، اس کا مختصراً ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے، لیکن خاص طور پر بھی زور دے کر آپ نے فرمایا ہے کہ صرف نام کے احمدی نہ بنو، اعتقادی طور پر احمدی نہ ہو کہ ہم نے بیعت کر لی اور ہم احمدی ہو گئے بلکہ تمہارا قول اور فعل ایک ہو۔ اگر تم یہ یقین رکھتے ہو، یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم تمام اراکینِ اسلام پر عمل کرنے والے ہیں، اراکینِ ایمان پر ایمان لانے والے ہیں تو پھر تمہارے عمل اُس کے مطابق ہونے چاہئیں۔ صرف باتیں نہ ہوں، نمازیں ہیں تمہاری تو پانچ وقت نمازوںکی تمہیں ایک درد سے فکر ہو۔ رمضان آ رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ چند دنوں بعد رمضان کے روزے ہیں، عبادات ہیں، ان کی فکر ہو۔ یہ نہ ہو کہ دن لمبے ہو گئے تو ہم روزے کس طرح رکھیں گے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت ہے تو اس کی فکر ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اس کتاب کو پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے۔ دوسرے دینی پروگرام ہیں اُن کی فکر ہو۔ یعنی ہر قسم کی عبادات جو ہیں اُس کی ہمیں تاک میں رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُس میں اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو بندوں کے حقوق ہیں اُن کو ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پس یہ چیزیں ہیں جو ہم میں سے ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئیں اور جیسا کہ میں نے کہا خدام الاحمدیہ وہ لوگ ہیں جو آئندہ زمانے میں جماعت کی لیڈرشپ سنبھالنے والے ہیں، جماعت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں۔ اگر آپ لوگوں نے اصلاح نہ کی اور دنیا میں اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے انتہا قومیں اسلام اور احمدیت کو قبول کر چکی ہیں،تو پھر اُن میں سے لوگ آگے بڑھیں گے اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لئے ہمیں بہت زیادہ فکر کرنی چاہئے، اُن لوگوں کو جن کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی، جنہوں نے احمدیت قبول کر کے ہم پر بہت بڑا احسان کیا کہ ہم نے کبھی اُن کے نام کو بٹّہ نہیں لگنے دینا۔پس اس لحاظ سے بھی ہر خادم کو اور ہر ہوش مند طفل کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مستقل مزاجی سے، استقامت سے اپنے نمونے قائم کرو اور پھر اس درخت کی حفاظت کرو۔ یہ احمدیت کا درخت ہے جس کی تم نے حفاظت کرنی ہے اور وہ اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب تمہاری عبادتیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوں اور تمہارے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اُس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو، تبھی ہم میں سے ہر شخص اس درخت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درخت ہے اُس کی سرسبز شاخیں بن سکتے ہیں۔ تبھی ہم اس درخت کی حفاظت کرنے والے بن سکتے ہیں۔
پھرآپ نے فرمایا کہ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہو، غور کرو۔ تزکیہ نفس بہت ضروری ہے۔ جب یہ ہو گا تبھی تم لوگ جماعت کے حقیقی فرد بن سکو گے۔ اگر یہ نہیں تو پھر محض دعویٰ ہے۔ فرمایا میں جماعت کے لوگوں سے پسند کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ہنگاموں سے بچیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ جب ہمدردی ایک دوسرے کے لئے پیدا ہو گی تو ہر قسم کے فسادوں اور ہنگاموں سے آپ بچتے چلے جانے والے ہوں گے۔ صبر اور حوصلہ وہ دکھائیں جس کی مثال دنیا میں نہ ملتی ہو۔ آجکل جس طرح دنیا میں مادیت بڑھ رہی ہے، بے چینی بڑھ رہی ہے، خواہشات بڑھ رہی ہیں، صبر اور حوصلے میں کمی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہر احمدی کا عموماً اور ہر خادم کا خاص طور پر یہ معیار جو صبر اور حوصلے کا ہے وہ بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے۔ اس کے بھی جائزے لیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی بھی توفیق عطا فرمائے ۔
پھر آپ نے فرمایا کہ استغفار بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ استغفار ایسی چیز ہے جو آپ کے دنیاوی مسائل بھی حل کرے گی، دینی مسائل بھی حل کرے گی، گھریلو مسائل بھی حل کرے گی، تجارتی اور مالی مسائل بھی حل کرے گی۔ اگر حقیقت میں استغفار کو سمجھ کر اور غور کر کے پڑھیں۔ پس اس طرف بھی بہت توجہ دیں کہ یہ آپ کی زندگی سنوارنے کے لئے ایک بہت عمدہ ہتھیار ہے۔ تقویٰ کی ہم باتیں کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بار بار ہمیں تقویٰ کی نصیحت فرماتے ہیں اور یہ بار بار نصیحت اس لئے ہے کہ قرآنِ کریم میں بیشمار جگہ تقویٰ کے بارے میں ذکر آیا ہے۔ اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کوئی ایک نیکی نہیں ہے۔ تقویٰ صرف نمازیں پڑھنا نہیں ہے۔ تقویٰ روزے رکھنا نہیں ہے۔ تقویٰ کھڑے ہو کے تقریریں کر لینا نہیں ہے۔ تقویٰ جماعت کے لئے چندے دے دینا نہیںہے۔ تقویٰ جماعت کی خدمت کر لینا نہیں ہے۔ بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ کوئی نیکی چاہے وہ عبادات کی نیکی ہے، چاہے وہ حقوق العباد کی نیکی ہے، وہ ضائع نہ ہو۔ تقویٰ یہ ہے کہ ہر نیکی حقوق اللہ کی بھی اور حقوق العباد کی ادائیگی کی جو نیکیاں ہیں وہ انسان بجا لانے والا ہو، تبھی وہ تقویٰ پر چلنے والا ہو سکتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی ہر خادم کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ دیکھیں کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے جو عہد کیاہے اُس کو مَیں کس حد تک پورا کر رہا ہوں۔ یہ نہ دیکھیں کہ ہمارے بعض بڑے عہدیدار کس نہج پر چل رہے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ آئندہ جماعت کی باگ ڈور میرے سپرد ہونی ہے تو میں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کس طرح جماعت کی خدمت کرنی ہے اور کس نہج پر چلانا ہے۔ کیا مَیں اُن باتوں پر عمل کرنے والا ہوں جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتائی ہیں۔ کیا مَیں اُس طرز پر اپنی زندگی گزارنے والا ہوں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھتے رہے کہ ہمارا وہاں فلاں صدر جماعت یا فلاں سیکرٹری اس طرح کام کر رہا ہے یا وہ کام نہیں کر رہا، اس لئے میں بے دل ہو کے کام چھوڑ دوں، dishearted ہو جاؤں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ آپ نے اپنے حلقے میں، اپنے دائرے میں، اپنی حد تک اپنے فرائض پورے کرنے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا جب آپ اُن لوگوں کی جگہ لینے والے ہوںگے جو صحیح کام نہیں کر رہے۔ پس اس لحاظ سے اپنے جائزے لیں اور اپنی تربیت پر ہر وقت غور کرتے چلے جائیں۔
پھر میں یہی کہوں گا آپ خدام احمدیت ہیں اور اے خدامِ احمدیت! اے مسیح محمدی کے ماننے والو! خدام الاحمدیہ کے 75سال پورے ہونے پر آپ نے اس اجتماع میں خاص طور پر بعض غیروں کو، دوسرے ملکوں کے نمائندوں کو بھی بلایا، دعوتیں بھی دیں، کچھ عہد بھی کئے۔ آج اس 75سال پورے ہونے پر اگر آپ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بننا چاہتے ہیں تو یہ عہد کریں کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں گے نہ صرف منہ سے بلکہ دل سے اور اپنے ہر عمل سے۔ یہ عہد کریں کہ اپنی پہلی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ ہر خادم میں، ہر شخص میں کچھ نہ کچھ غلطیاں ہوتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ عہد کریں کہ خلافت کے قیام کے لئے ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔ یہ عہد کریں کہ جماعت کے نظام سے پختہ تعلق ہمیشہ رکھیں گے۔ یہ عہد کریں کہ اپنی ذمہ داریوں کو بحیثیت خادم جو آپ پر عائد ہوتی ہیں ہمیشہ پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ عہد کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ سے جو توقعات رکھی ہیں اُن پر ہمیشہ پورا اترنے کی کوشش کریں گے ورنہ 75سالہ جوبلی ہو یا 100سالہ جوبلی ہو، یہ جوبلیاںبے فائدہ چیزیں ہیں۔ 75سال میں کیاحاصل کیا؟ یہ آپ نے دیکھنا ہے اور آئندہ 25سال کے بعد 100سال میں کیا آپ نے حاصل کرنا ہے، یہ دیکھنا ہے۔ آئندہ اگلی صدی میں آپ نے کیا حاصل کرنا ہے ،یہ دیکھنا ہے۔ پس یہ روح اپنے آئندہ آنے والوں میں اگر آپ پھونکتے چلے جائیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ کی ترقی کا بھی باعث ہو گی اور جماعت احمدیہ کی ترقی کا بھی باعث ہو گی۔ آج دنیا کو آپ کی ضرورت ہے۔جیسا کہ میں نے کہا آئندہ دنیا کی رہنمائی، آپ نے کرنی ہے۔ اور اگر آپ لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو دنیا کو یہ شکوہ ہو گا اور بجا شکوہ ہو گا کہ ہمیں وقت پر یہ پیغام کیوں نہیں پہنچایا گیا، وقت پر ہماری رہنمائی کیوں نہیں کی گئی۔پس اس ذمہ داری کو سمجھیں، اس اہمیت کو سمجھیں اور اپنے عَہدوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
جیسا کہ مَیں نے کہا دَوروں پر لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ امریکہ میں بھی وہاں کے سیاستدانوں نے اور پڑھے لکھے طبقے نے اور بہت سارے اُن کے تھنک ٹینک(Think Tank) کے لوگ بھی مجھے ملے، پروفیسر بھی مجھے ملے، اور جگہوں پر بھی ملتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلام جو تم لوگ پیش کرتے ہو اگر یہ صحیح اسلام ہے تو دنیا کو بتاتے کیوں نہیں؟ پس اگر ہم میں سے ہر ایک نے اس ذمہ داری کو نہ سمجھا تو صرف اگر آپ کا خیال ہے کہ مربیان کے ذریعہ سے یا چند عہدیداران کے ذریعہ سے یہ پیغام پہنچے گا تو یہ نہیں پہنچ سکتا۔ ہر خادم کو، ہر طفل کو، ہر ناصر کو، ہر لجنہ کی ممبر کو اس بات میں کمر کسنی ہو گی کہ ہم نے اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو پہنچانا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کو لے کر آنا ہے۔اور صرف غیروں کی بات نہیں جن تک ہم اسلام کا صحیح پیغام پہنچاتے ہیں بلکہ بہت سے مسلمان لیڈروں نے بہت ساری مسلمان تنظیموں کے آرگنائزرز نے، صدران نے، اُن کے ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبروں نے مجھے یہ بات کہی جہاں بھی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی، جیسا کہ پہلے بھی مَیں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں۔ ہمیشہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بہت ساری باتیں، بہت سے اعتراضات جو اسلام پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآنِ کریم پر غیر کرتے ہیں، اُن کے جواب جس طرح آپ دیتے ہیں یا جماعت کے افراد دیتے ہیں یہ چیزیں ہیں جو ہمیں ایمان میں بھی پختہ کرتی ہیں اور اس بات پر یقین دلاتی ہیں کہ اسلام یقینا سچا مذہب ہے۔ امریکہ میں بھی گزشتہ دنوں جب مَیں گیا ہوں مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ بہت سارے مسلمان لیڈروں نے مجھے کہا کہ بعض اعتراضات ایسے ہیں جس پر ہمارے لوگ جواب دینے سے ہچکچاتے ہیں یا ڈرتے ہیں یا اُن کے پاس جواب نہیں لیکن آپ نے اُن کا اس طرح جواب دیا ہے کہ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے کہ اسلام وہ مذہب ہے جو تمام دنیا کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا پر غالب آئے گا۔
پس اسلام کے خوبصورت پیغام کو پہنچانے کے لئے آپ نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اُٹھنے والے ہر تیر کو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی طرح آپ نے اپنے سینے اور ہاتھوں پر لینا ہے تا کہ اسلام کا نہ صرف صحیح طرح دفاع کر سکیں بلکہ اسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچا کر دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بھی بچا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی رہنمائی بھی آپ نے ہی کرنی ہے اور غیر مذاہب کے ماننے والوں کی رہنمائی بھی آپ نے کرنی ہے۔ پس اُٹھیں اور اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے سینہ سپر ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب میں دعا کراؤں گا، میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں۔
