خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 06اکتوبر2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں اپنی بات اُن آیات کے مضمون سے ہی شروع کروں گا جو ہمارے سامنے تلاوت کی گئی تھیں۔ اس وقت ان کی تفسیر اور تفصیل تو بیان نہیں ہو گی۔ بہر حال خلاصۃً اس کے چند نکات یہاں پیش کر دیتا ہوں۔
پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ ایک حقیقی مومن کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتا ہے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حوالے سے توجہ دلائی جائے تو ایک حقیقی مومن ہمیشہ یہی جواب دیتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب یہ ردّعمل تمہارا ہو گا، جب یہ جواب تمہارا ہو گا تو سمجھ لو کہ تمہیں تمہارا مقصد حاصل ہو گیا۔ مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا۔ پھر یہ کہ کسی خوف یا منافقت سے یہ نہیں کہنا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، بلکہ تقویٰ کا اظہار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی محبت اور اُس کی رضا مدّنظر رہتے ہوئے اطاعت کے نمونے دکھانے چاہئیں۔ اپنے خاندان، اپنے عزیزوں یا کسی ذاتی مفاد کی خاطر یہ اطاعت کرنے کے اظہار نہ ہوں۔ صرف وہاں اظہار نہ ہو جہاں اپنے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اطاعت کرنے کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا مقام بلند فرماؤں گا۔ تمہیں کامیابیاں نصیب ہوں گی۔ پھر یہ کہ منہ سے دعوے نہ کرو کہ ہمیں حکم ملے تو ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے۔ زبانی دعوے نہ ہوں کہ ہم جماعت کی خاطر ہر قربانی دینے والے ہیں۔ وقت آئے گا تو یہ نہ ہو کہ بہانے اور تاویلیں پیش کرنے لگ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے واقف ہے اس لئے اپنے قول و فعل کو ایک کرو۔ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
پھر اللہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کو تمہاری باتوں اور بلند بانگ دعووں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وقت آئے تو ثابت کرو کہ کسی بھی قربانی سے تم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
پھر فرمایا کہ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں، رسول کا کام اُن کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے اور نصیحت کرنا ہے۔ اگر لوگ اُس پر عمل نہیں کرتے تو رسول اُس کا جواب دہ نہیں ہے۔ فرماتا ہے کہ اگر تم بات نہیں سنتے، نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو اس کا بار تم پر پڑے گا، نہ کہ رسول پر۔
پھر آگے فرماتا ہے کہ اگر بات سنو گے اور عمل کرو گے تو ہدایت یافتہ کہلاؤ گے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ اور انعام کیا ہے؟ فرمایا کہ تم ایک لڑی میں پروئے جاؤ گے۔ ایمان میں مضبوطی پیدا ہو گی اور خلافت کے فیض سے فیضیاب ہو گے۔
پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اُس دین پر قائم کرے گا جو اُس نے تمہارے لئے پسند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کونسا دین پسند فرمایا ہے۔ دوسری جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دینِ اسلام ہے۔ گویا خلافت کے ساتھ جڑے رہنے والے حقیقی مسلمان ہوں گے کیونکہ اسلام کی روح اکائی میں ہے، وحدت میں ہے۔ پھر فرمایا جب تم ایک اکائی بن جاؤ گے تو تمہیں تمکنت اور مضبوطی عطا ہو گی۔ بحیثیت جماعت تمہاری طاقت مضبوطی اور اکائی ایک قوت کا اظہار کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خوف کے حالات بھی پیدا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ سے تمہارے لئے تسکین کے سامان پیدا فرماتا رہے گا اور خوف کو امن میں بدل دے گا۔ پھر فرمایا کہ پس تم خلافت کے انعام کے شکرگزار رہو تا کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کے نظارے دیکھتے رہو۔ فرمایا کہ انعام اُنہیںملے گا جو حقیقی عبادت گزار ہوں گے۔ نمازوں کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے، عبادتوں کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ فرمایا کہ پس تم اس عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے، انعامات کے مستحق بننے کے لئے اپنی نمازوں کی طرف توجہ دو، اُنہیں قائم کرو، وقت پر ادا کرو، باجماعت ادا کرو، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ادا کرو۔ پھر فرمایا عبادت کے معیار بلند کرنے کے ساتھ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ کرو تا کہ تبلیغِ اسلام بھی ہو سکے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہو سکے۔ پھر آخر میں فرمایا کہ یہ باتیں اور مالی قربانیاں تبھی ثمر آورہوں گی، تبھی تمہیں فائدہ دیں گی جب تم رسول کی کامل اطاعت کر رہے ہو گے اور اُس کے بعد نظامِ خلافت کی اطاعت کر رہے ہو گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے امیر کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اللہ تعالی اطیعوااللہ واطیعواالرسول…حدیث 7137)
پس اس آیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو دیکھیں تو خلافت کی اطاعت اُسی طرح لازم ہے جس طرح رسول کی اطاعت۔ اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اگر اطاعت کا یہ مادہ ہو تو بظاہر دنیاوی کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کامیابیاں عطا ہوں گی۔ اگر اطاعت نہیں اور ایک واجب الاطاعت خلیفہ نہیں تو جتنی چاہے کثرت ہو، کامیابیاں نہیں مل سکتیں۔ خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حوالے سے بات ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی حقیقی اطاعت ہی انعامات کا وارث بناتی ہے۔ اور خلافت سے مستفیض کرتی ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے جس کو آیتِ استخلاف بھی کہتے ہیں۔
اگر جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج روئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ کوئی جماعت نہیں جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اس رہنما اصول کے مطابق ایک نظام سے وابستہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے احکامات پر چلنے کی کوشش کرنے والی ہو۔ اور خلافت کے نظام سے کامل طور پر وابستگی ہو۔ جماعت احمدیہ کے سچا ہونے اور نظامِ خلافت کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہونے کے لئے یہی دلیل بہت بڑی ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعداد اس وقت باقی مسلمان فرقوں کی تعداد سے انتہائی کم ہونے کے باوجود اسلام کی خوبصورت تعلیم کی جوتبلیغ ہے وہ جماعت احمدیہ کر رہی ہے اور پھر اس تبلیغ کے ذریعہ سے یہ تعداد ہر روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم جہاد نہیں کرتے۔ اس وقت زمانے کی ضرورت کے مطابق حقیقی جہاد جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ خلافت کا اُن لوگوں سے جو عملِ صالح کر رہے ہیں وعدہ ہے، اور عملِ صالح کا مطلب ہے کہ ایسا عمل جو موقع اور محل کے لحاظ سے ہو۔ اور موقع اور محل کے لحاظ سے اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی ہے، تلوار کے جہاد کو ختم کر دیا گیا ہے اور صرف قلمی جہاد ہی ہے جو آج کی وقت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کے ذریعہ جہاد ہے جو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بار بار اطاعت پر زور دیا ہے اور پھر آخر میں جو آیت ہے، اس میں نماز اور زکوۃ کے ساتھ رسول کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کو حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آنے والے مسیح و مہدی کو قبول کر لینا تا کہ تم پر رحم ہو اور ایک لمبے عرصے کے تاریک زمانے کے بعد پھر خلافت کا نظام مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ سے شروع ہوجو خاتم الخلفاء بھی ہے۔پس اس خاتم الخلفاء نے آ کر بتانا تھا کہ حقیقی اطاعت کیا ہے اور حقیقی جہاد کیا ہے اور اس کو کس طرح سرانجام دینا ہے۔ سنگاپور میں انڈونیشین غیرازجماعت کا ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی آیا ہوا تھا۔ پروفیسرز تھے، ڈاکٹرز تھے، اخباروں کے نمائندے تھے۔ وہاں انہوں نے کہا کہ آپ کے خلاف یہ الزام ہے کہ آپ جہاد کے قائل نہیں ہیں۔ میں نے کہا ہم جہاد کے قائل ہیں، جہاد کے خلاف ہم نہیں۔ اس وقت جو جہاد کی ضرورت ہے اُس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اس وقت کوئی حکومت یا کوئی تنظیم اسلام پر بحیثیت مذہبِ اسلام کے ، بحیثیت مذہب حملہ آور نہیں ہے۔ سیاسی لڑائیاں ہیں، اسلام کے نام پر کوئی حملہ نہیں کیا جا رہا۔ اسلام پر حملہ اگر کیا جا رہا ہے، وہ تلوار کے ذریعہ سے نہیں بلکہ پریس کے ذریعہ سے، میڈیا کے ذریعہ سے، تبلیغ کے ذریعہ سے ہے۔ اور انہی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی آج ہمیں ضرورت ہے تا کہ جو ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں اُسی سے ہم جواب دیں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ اس وقت قلم سے تلوار کا کام لو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 231۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)پس آجکل کے جہاد کا یہی ہتھیار ہے جس کے ذریعہ سے اسلام نے اس زمانے میں ترقی کرنی ہے۔ انشاء اللہ۔
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نتیجہ ہے جو جماعت ہر روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ اسلام میں ہر سال شامل ہوتے ہیں۔ نیک فطرت مسلمان بھی حقیقت جان کر اُس حقیقی اسلام میں شامل ہو رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا اور جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جو آپ نے حقیقی عمل بھی کر کے دکھایا تھا ۔ اور وہی تعلیم قرآنِ کریم میں ہے۔ اور دوسرے مسلمان تعداد زیادہ ہونے کے باوجود نہ تبلیغ کے کام کر رہے ہیں، نہ ہی کوئی اور اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔ ہاں جہاد جہاد کا شور مچاتے ہیں۔ جہاد قتل و غارت نہیں ہے۔ جہاد اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، اُس کی خوبصورت تعلیم دنیا پر واضح کرنا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اکثریتی جوطبقہ ہے، خاموش ہے۔ کہتا تو ہے کہ جہاد ہونا چاہئے لیکن جہاد کرتا نہیں۔ اور دوسرا طبقہ جہاد کے نام پر ظلم کر کے دنیا کے امن کو برباد کر رہا ہے۔ا ور یوں اسلام کو بھی بدنام کر رہا ہے۔ اور دنیا کی نظر میں یہ لوگ حقیر سے حقیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کیونکہ جو حرکتیں یہ کرتے ہیں اُس کے بعد نہ ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے، نہ کہیں ان کی کوئی پذیرائی ہوتی ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کا وقار دنیا میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اصل میں تو یہ جماعت احمدیہ کا وقار نہیں بلکہ اسلام کا پیغام ہے جو دنیا میں پہنچ رہا ہے اور اسلام کی تعلیم دنیا میں روشن تر ہو کے ظاہر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
مختلف زبانوں میں قرآنِ کریم کی اشاعت ہے تو جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ لٹریچر اسلام کے حق میں شائع ہو رہا ہے اور مخالفین کے جواب دئیے جا رہے ہیں تو آج یہ جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ ایک بہت بڑا ذریعہ ہماری تبلیغ کا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہے جو چوبیس گھنٹے مختلف زبانوں میں اسلام اور احمدیت کا حقیقی پیغام پہنچا رہا ہے۔ اور دنیا اس سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ خود مسلمانوں کو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے حقیقی اسلام کی تعلیم کا پتہ چل رہا ہے۔ اور اکثریت کے باوجود، یا باوجود اس کے کہ دوسرے مسلمان اکثریت میں ہیں، ان کے سر جھکے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی اعتراض جو اسلام پر ہو، اس کا جواب دینے کے قابل نہیں۔ لیکن اب جب سے ان لوگوں نے، ایسے لوگوں نے جن تک ایم ٹی اے کی رسائی ہے یا وہ پہنچے ہیں، انہوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ ہم اپنے سر اونچے کر کے چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں۔ بعضوں نے سن کے احمدیت قبول کر لی اور بعض ایسے بھی ہیں جو احمدی تو نہیں ہوئے لیکن تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔
الجزائر سے ہمارے ایک دوست عبدالکریم صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ 2007ء میں ایک روز اچانک ایم ٹی اے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جہاں تین نوجوان گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ امام مہدی ظاہر ہو گیا ہے۔ ان کی باتوں نے ہلا کر رکھ دیا۔ ہانی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی غلط روایات کا ردّ کر رہے تھے جنہوں نے ایک عرصے سے مجھے پریشان کر رکھا تھا۔ مسیح موعود کے بارے میں کئی سوال پیدا ہوئے۔ سارا وقت پروگرام دیکھا اور آہستہ آہستہ شکوک دور ہو کر یقین بڑھتا چلا گیا۔ پھر مصطفی ثابت صاحب کی کتاب ’’السیرۃ المطھرۃ‘‘ میں آیت میثاق النبیین کی تشریح پڑھی تو گویا اُس نے ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد ایم ٹی اے کے یہ پروگرام ریکارڈ کرنے شروع کر دئیے اور ان کوبار بار سننا شروع کیا۔ گھر والوں کو بتایا تو انہوں نے بھی فوراً قبول کر لیا لیکن کامل یقین نہ کیا۔ وقت گزرتا گیا اور سوالات ذہن میں رہے اور فیصلہ کیا کہ ان کے حل ہونے پر بیعت کروں گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میری غلطی تھی کہ مَیں نے انتظار کیا۔ مجھے فوراً بیعت کرنی چاہئے تھی۔ پھر یمن سے ایک علی صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ خدمت کرنے والوں کا مَیں جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ تمام کارکنان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو بہتر اجر عطا فرمائے۔ ابھی تک جماعت احمدیہ کی جتنی بھی کتب کا مطالعہ کیا ہے، اُن میں مجھے اپنی گم شدہ چیزیں ملیں اور ان کتابوں سے حقیقی اسلام نظر آیا۔
اب دیکھیں اگر آپ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے منسلک کر لیں گے تو ہر احمدی کا علم بھی بڑھے گا۔ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا علم بھی بڑھے گا۔ اس لئے میں بار بار کہا کرتا ہوں کہ ایم ٹی اے پر جو ہم اتنا خرچ کرتے ہیں ہر احمدی کو روزانہ کچھ وقت مقرر کر کے اس کا کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور سننا چاہئے۔ پھر ایک عرب ملک کے احمد صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں مَیں پہلی مرتبہ آپ سے ہمکلام ہو رہا ہوں۔ پہلی بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ کی تفاسیر احسن ترین تفاسیر ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مَیں آپ تک یہ خوشخبری بھی پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ کے اس چینل کو دنیا میں عربی بولنے والے ملینز کی تعداد میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اور اس بات میں ذرّہ بھی شک نہیں ہے کیونکہ میں نے بیشمار لوگوں سے اس بارے میں سنا ہے اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
پھر الجزائر سے ایک دوست کمال صاحب ہیں، کہتے ہیں مَیں اماز یعنی الجزائری نوجوان ہوں۔ بیس سال کی عمر تک تو میں اسلام کو جانتا تک نہیں تھا۔ پھر کچھ علماء کی سی ڈیز (CDs)اور ایک اسلامی چینل کی وجہ سے کچھ اثر ہوا۔ مگر چند ماہ تک یہ اثر زائل ہو گیا کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ ان کی باتوں میں باہم تضاد بھی ہے، نیز وہ عقل سے بھی ٹکراتی تھیں۔ پھر میرا تعارف الحوار المباشر کے توسط سے جماعت احمدیہ سے ہوا۔ میں گاہے گاہے ایم ٹی اے دیکھتا تھا۔ ایک دن ایک سلفی مولوی کو دیکھا کہ وہ جماعت کے خلاف گند بک رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیوں یہ مولوی گالیاں دیتے ہیں اور جماعت کے عقائد کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ میں نے ایم ٹی اے کو مزید دیکھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی۔ اب انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کرنے کے بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کیا اور اپنی کمیاں دور کیں اور شرائطِ بیعت پر پوری طرح کاربند ہونے کا عزم کیا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی پرندے پیدا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ میری حالت تو اس شخص کی سی ہے جو سویا ہوا جاگے تو سورج کو اچانک اپنے سامنے چمکتا ہوا پائے۔ میری تو ایک ہی خواہش ہے کہ میں شرائطِ بیعت پر پوری طرح کاربند ہوں۔
یہ ہے نئے آنے والوں کا معیار۔
پھر ایک عرب دوست ہیں عبداللہ صاحب، لکھتے ہیں تقریباً دو سال قبل میں ٹی وی پر مختلف چینل گھما رہا تھا کہ ایم ٹی اے العربیۃ مل گیا۔ شروع میں تو کوئی توجہ نہیں دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’الحوار المباشر‘‘ اور ’’لقاء مع العرب‘‘ پروگرامز میں مسیح موعود اور امام مہدی کے ظہور کی بات کو سنا اور ایسی عظیم تفسیرِ قرآن سنی جو سیدھی دل میں جا بیٹھی تھی۔ قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی شرح سن کر روز بروز بصیرت میں اضافہ ہونے لگا۔ اور یوں محسوس ہونے لگا کہ نئی پیدائش ہو رہی ہے۔ دعا اور نماز کا حقیقی ادراک نصیب ہوا۔ اور میرے دل نے گواہی دی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں تبلیغ شروع کر دی۔ مگر وہ بالمقابل قصے کہانیاں اور خرافات پیش کرتے۔ میں نے ایم ٹی اے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حقیقت میں یہ سب علوم وہی خزائن ہیں جو مسیح موعود لٹانے آئے تھے۔ پس مبارک ہو اُسے جو سنے، سمجھے اور قبول کرے۔میں گھر پر ہی نماز پڑھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں۔یعنی کیونکہ احمدی ہو گئے ہیں، اب مولوی کے پیچھے نماز باجماعت پڑھنا نہیں چاہتے اس لئے کہ اس عمل میں منافقت ہے۔
پھر مراکش کے ایک دوست ہیں انس صاحب، کہتے ہیں جماعت سے میرا پہلا تعارف ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعہ 2010ء میں ہوا۔ مجھے احمدی طرزِ فکر بہت پسند ہے۔ خصوصاً وہ پروگرام جو ایم ٹی اے پر عیسائیت کے بارے میں آتے ہیں۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ہے۔ جو تصویر ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دکھائی جاتی ہے وہ میرے لئے ایک surprise ہے کیونکہ اٹھارہ سال قبل مَیں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس کے دائیں ہاتھ میں تلوار تھی اور بائیں ہاتھ میں نیزہ۔ وہ میری طرف بڑھ رہا تھا سو میں بھی اُس کی طرف بڑھا۔ اور تیزی سے بڑھتے ہوئے اُن کے داہنے ہاتھ سے تلوار لے لی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ جب مَیں جاگا تو اس خواب کا میرے دل پر بہت اثر تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ شکل ضرور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی۔ پھر جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو یہ ہو بہو وہی شکل تھی جسے میں نے اٹھارہ سال قبل خواب میں دیکھا تھا۔
پھر عرب ہی نہیں، افریقہ کے ممالک میں بھی جس طرح اللہ تعالیٰ رہنمائی فرما رہا ہے، بورکینا فاسو سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان نے بیعت کی ہے۔ جب اُن سے پوچھا کہ آپ کی بیعت کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ اس بات پر غور کرتا تھا کہ آخر کیوں سب مسلمان صرف احمدیوں کے خلاف ہیں۔ ایک روز میں نے ریڈیو احمدیہ پر خلیفۃ المسیح کا خطبہ سنا جس میں حضور نے (یعنی میری بات بتا رہے ہیں کہ انہوں نے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا تھا اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو اپنانے کی نصیحت فرمائی تھی۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ اس قدر حکمت اور دانائی کی نصیحتیں تو آج تک کسی مولوی نے ہمیں نہیں کیں۔ چنانچہ میں نے ریڈیو پر ہر ہفتہ خطبہ سننا شروع کر دیا اور باقاعدگی سے سنتا رہا۔ ان خطبات نے میری کایا پلٹ دی ہے اور میں نے بیعت کر لی۔ مجھے میرے تمام سوالات کے جوابات ان خطبات سے مل گئے۔ یہ سب احمدیوں کے مخالف اس لئے ہیں کہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کی ایک سچی جماعت ہے اور سچوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔
پھر اردن کا بہت بڑا اخبار ہے ’’الراعی‘‘ اُس نے اپنے 3فروری 2013ء کے شمارے میں ایم ٹی اے کے پروگرام ’’الحوار المباشر‘‘ کے بارے میں لکھا کہ جماعت احمدیہ جو انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں قائم ہوئی، کا معاملہ چاہے کچھ بھی ہو اور مرزا غلام احمد کے دعویٰ کے بارے میں ہماری رائے کچھ بھی ہو، مگر یہ بات عیاں ہے کہ اس جماعت کے بعض افراد اور عیسائی پادریوں کے درمیان تورات اور انجیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو نے ثابت کر دیا ہے کہ کلیسا کا لاہوتی نظریہ نہایت بودہ، منطق اور علم سے عاری اور ازمنہ وسطیٰ کی پیداوار ہے۔ جیسا کہ سب پر واضح ہے کہ جماعت احمدیہ کے علمِ کلام کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو وہ ہے جس میں وہ امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں اپنے عقائد کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں ہم اُن کے سامنے ٹھہر کر کئی طرح سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ (یہ بھی ان کی بات غلط ہے، بہر حال اپنے پڑھنے والوں کے لئے انہوں نے لکھ دیا، یہ یہاں بھی ٹھہر نہیں سکتے) دوسرے کہتے ہیں کہ جبکہ ان کے علم کلام کے دوسرے پہلو میں یہ لوگ کتابِ مقدس کی روشنی میں یہودی اور عیسائی عقائد پر بحث کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے مناظروں کو عیسائی پادریوں کے بالمقابل واضح برتری حاصل ہے۔ پادریوں کے مقابلہ میں کیا معلومات کی وسعت میں اور کیا منطق اور دلیل کی قوت میں ہر لحاظ سے اُن کو واضح برتری حاصل ہے۔ احمدی چینل دیکھنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ اختلافی مسائل کے بارے میں بحث کے دوران احمدی مناظرین میں روحانی بردباری اور حسنِ اخلاق کی خوشبو نظر آتی ہے۔ اور دلیل اور منطق کی قوت اُن کے پاس ہے۔ شاید یہ چینل اس بات میں منفرد ہے کہ اس پر گفتگو کرنے والوں کے پاس پادری زکریا پطرس کے اعتراضات کے بے شمار جواب ہیں۔ خصوصاً اُن اعتراضات کے جوابات جو اس پادری نے قرآنِ کریم کی زبان کے بارے میں کئے ہیں۔
ہم جواب دیتے ہیں ہر اُس اعتراض کا جو قرآنِ کریم پر کیا جائے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جائے) کسی کے خلاف ہم نہیں بولتے لیکن جہاں اسلام پر حملہ ہو گا، ہم ضرور اُس کا جواب دیتے ہیں، پھر وہ مقابلے میں جواب دینا پڑتا ہے لیکن اصل تبلیغ یہی ہے کہ اسلام کی خوبصورتی دنیا پر واضح کی جائے۔
پھر لکھتے ہیں کہ ’’الحوار المباشر‘‘ پروگرام کے دوران دینی اختلافات اور بحث کا یہ تجربہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ باہم دینی اختلاف رکھنے والے لوگوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور عقلی اور شعوری بنیادوں کو سمجھنے کے لئے ’’الحوار المباشر‘‘ کی طرز پر گفتگو کریں۔ بات کو سمجھنا اور دوسرے فریق کے ساتھ افہام و تفہیم کا رویہ اپنانا ہی دوسری قوموں اور تہذیبوں سے تعارف کا دروازہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ۔(الحجرات:14)آجکل عربوں کے بہت سے چینل ہیں لیکن ان میں سے اکثر کم علمی، تنگ نظری کا نمونہ ہیں۔ ان کے یہ چینل بے راہ روی پھیلاتے اور طرح طرح کے جاہلانہ اور اخلاق سوز پروگرام پیش کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ یہ اخلاق سوز پروگرام پیش کر رہے ہیں، یہ مسلمان ہیں اور ہم جو قرآنِ کریم کی پُرحکمت تعلیم کو دنیا پر واضح کر رہے ہیں، ہم غیر مسلم۔
کہتے ہیں کہ لیکن ان کے برخلاف اور شاذ ونادر کے طور پر مفید گفتگو پیش کرنے والا الحوار المباشر کا پروگرام بھی ہے جو کہ احمدیوں کے چینل پر آتا ہے۔ ہم پسند کرتے ہیں کہ اس طرح کے پروگرام بکثرت ہوں تا کہ یہ ایسی نورانی لہر بن جائیں جس کے سوا کوئی اور چیز ظلمات اور اندھیروں کو دور نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ سب جاننے والے جانتے ہیں۔
اب یہ اُن کا تبصرہ ہے۔ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے بیشک انکار کریں لیکن یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ اسلام کی حقیقی تبلیغ اور جہاد جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔ اور اسلام کی خوبصورت تعلیم جماعت احمدیہ ہی پیش کر رہی ہے۔ اور مخالف کے مقابل پر اسلام کے دفاع کے لئے جماعت احمدیہ ہی کھڑی ہے۔ یہ تو اپنوں کے اور مسلمان کہلانے والوں کے خیالات ہیں جن میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرنے کی توفیق بھی عطا فرما دی۔ لیکن میں مختلف موقعوں پر، اپنے مختلف خطابات میں، تقریروں میں، مختلف فنگشنز میں بھی پیش کر چکا ہوں کہ غیر مسلم بھی یہ برملا اظہار کرتے ہیں اور یہ اظہار ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ میں بھی چھپتے رہے ہیں، بعض رپورٹوں میں بھی چھپتے رہے ہیں کہ یہ غیر ، جو غیر مسلم ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں حقیقی اسلام کا آج پتہ چلا ہے، ورنہ ہم اسلام میں جہاد کے نظریے کو دہشت گردی اور قتل و غارت ہی سمجھتے تھے۔ یہاں بھی مجھے یہاں کے پریس کے بعض نمائندوں نے سوال کیا کہ یہ اسلام جو تم پیش کر رہے ہو، یہ تو مختلف ہے۔ میرا ان کو یہی جواب ہوتا ہے کہ یہی حقیقی اسلام ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا اوراس پر عمل کر کے دکھایا۔ دو دن پہلے یہاں کے بڑے چینل اے بی سی(ABC) کے نمائندے آئے ہوئے تھے ،انہوں نے بھی یہی کہا اور ساتھ یہ کہنے لگے کہ، لیکن ایک بات ہے کہ آسٹریلین لوگوں کو تمہارا یہ پیغام پہنچ نہیں سکا۔ پس یہ بات ہمارے لئے شرمندگی والی ہے کہ ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہ خوبصورت پیغام کیوں نہیں ہمیں پہنچایا جا رہا۔ اُس کو تو میں نے کہا، اب تم نے میرا انٹرویو لیا ہے تو اس کو پہنچاؤ اور تمہارے ذریعہ سے ایک طبقہ تک تو پہنچے گا لیکن بہر حال ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس پیغام کو پہنچائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی ہیں۔ خلافت کے نظام کے ذریعہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچنے کے وعدے بھی ہیں، لیکن ہر جگہ ہر ایک احمدی کا بھی فرض ہے کہ اس پیغام کو پہنچائے۔ کیونکہ وعدے مشروط ہیں۔ ایک حد تک تو پورے ہوں گے لیکن وہ لوگ جو اس میں اپنے آپ کو شامل نہیں کریں گے، اُس سے باہر کر رہے ہوں گے۔ دیر سے وہ وعدے پورے تو ہو جائیں گے لیکن جو نہ عمل کرنے والے ہیں، وہ محروم ہو جائیںگے۔
تعارفی لیف لیٹس آپ نے ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کئے۔ ابھی ایک صاحب نے بیس ہزار تقسیم کئے اُن کو انعام بھی ملا۔ لیکن مَیں نے تو یہ کہا تھا کہ ایک سال میں کم از کم بڑے ممالک جو ہیں، پانچ فیصد اور چھوٹے ممالک دس فیصد آبادی تک اسلام کا یا امن کا پیغام پہنچائیں۔ بعض جماعتوں نے تو یہ کام کیا ہے کہ ملینز کی تعداد میں یہ پیغام پہنچا دیا ہے اور دنیا اُن کو جاننے لگ گئی ہے۔ بعض جماعتیں سینکڑوں میں ہیںلیکن اُنہوں نے لاکھوں میں یہ پیغام پہنچایا ہے۔ آپ ابھی تک ہزاروں میں پہنچے ہوئے ہیں یا لاکھ دو لاکھ تک بھی اگر پہنچ گئے تو یہ کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کو بڑھانا چاہئے۔ تمام ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اس میں تیزی پیدا کرے کہ دس فیصد تک ہر سال پیغام پہنچائیں۔ اور اگر یہ آپ ٹارگٹ رکھیں گے تب بھی آپ کو اس ملک میںجماعت احمدیہ کا یا اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لئے دس سال کا عرصہ چاہئے۔دنیا چاہتی ہے کہ اب اُس تک یہ محبت اور پیار کا پیغام پہنچے، اسلام کی حقیقی تصویر پہنچے۔ پس یاد رکھیں کہ بیشک تبلیغ کے اور ذرائع بھی کام کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی دنیا میں سعید فطرت لوگوں کی رہنمائی فرما رہا ہے جیسا کہ میں نے بعض واقعات بھی پیش کئے ہیں لیکن ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ ہر تحریک جو خلافت کی طرف سے ہوتی ہے، اُس کے لئے بھرپور کوشش کرے۔ ضروری نہیں کہ جماعتی نظام پہلے توجہ دلائے، افراد بھی نظام کے پیچھے پڑ جائیں کہ ہمیں اس تبلیغی مہم میں شامل کرنے کے لئے مواد مہیا کرو۔
پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ نماز اور مالی قربانی کے ساتھ یہ وعدہ ہے۔ یعنی ہمارے کام میں برکت اُس وقت پڑے گی جب ہم اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ نمازوں کی ادائیگی کو بوجھ اور ٹیکس سمجھ کر نہیں ادا کریں گے بلکہ ایک لذت اور حظّ اس میں محسوس کر رہے ہوں گے اور اس کی ادائیگی ہماری سب سے بڑی ترجیح ہو گی نہ کہ دنیا کے اَور کام۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ہم میں سے ہر ایک کو اُس مقام تک پہنچنے کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی ہو گی، جہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھناچاہتے ہیں۔
بعض نئے آنے والے جب اپنے واقعات لکھتے ہیں کہ کس طرح احمدیت قبول کرنے کے بعد اُن کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا اور کس طرح اُن کو نمازوں میں حظّ اور سرور حاصل ہونا شروع ہوا تو حیرت ہوتی ہے ان چیزوں کو دیکھ کے۔
ایک لبنانی نو احمدی نے لکھا کہ پہلے میں نماز پڑھتا تھا تو زیادہ سے زیادہ تین منٹ لگتے تھے، اور اب یہ حال ہے کہ حضرت مصلح موعود کی تفسیر سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد گھنٹہ مجھے سورۃ فاتحہ پڑھنے میں گزر جاتا ہے۔ اب مجھے نماز کی بھی حقیقت سمجھ آئی ہے اور قرآن کی بھی حقیقت سمجھ آئی ہے۔ ایک عرب ملک کے دوست لکھتے ہیں کہ تقریباً دو سال قبل مَیں ٹی وی پر مختلف چینل گھما رہا تھا کہ ایم ٹی اے العربیہ مل گیا لیکن مَیں نے شروع میں تو کوئی توجہ نہ دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’الحوار المباشر‘‘ اور ’’لقاء مع العرب‘‘ پروگرامز میں مسیح موعود اور امام مہدی کے ظہور کی بات کو سنا اور ایسی عظیم تفسیرِ قرآن سنی جو سیدھی دل میں جا بیٹھی۔ اور روز بروز قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی شرح سن کر بصیرت میں اضافہ ہونے لگا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ نئی پیدائش ہوئی ہے۔ (اور یہ پیدائش ہر احمدی کی ہونی چاہئے، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا) پھر کہتے ہیں کہ دعا اور نماز کا حقیقی ادراک نصیب ہوا اور میرے دل نے گواہی دی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں اور آپ کی بعثت کے دلائل واضح ہیں۔ آپ کی بعثت کے بارے میں بہت سی احادیث مَیں پہلے پڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں اس مامورربانی کی تبلیغ قرآن و حدیث کی روشنی میں کرنی شروع کر دی۔ اور وہ بالمقابل قصوں، کہانیوں اور خرافات کو پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں حق پہچاننے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تو یہ انقلاب ہے جو دنیا میں آ رہا ہے، اُن لوگوںمیں جو اپنی بیعت کی حقیقت کو سمجھ رہے ہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر خلافت کی اہمیت کو بھی پہچان رہے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اُن کی تسکینِ قلب کے سامان بھی پیدا فرما رہا ہے۔ تسکینِ دل کے لئے روپیہ پیسہ نہیں چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل چاہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل کی تلاش کرنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل ملتا ہے اُس کی کامل فرمانبرداری سے، اُس کی کامل اطاعت سے۔
پس اگر جماعت سے جڑنے کا عہد کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعام کا فیض پانا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے ہوں گے۔ جو دنیا کے کام ہیں ان کو ثانوی حیثیت دینی ہو گی اور عبادت کو مقدم کرنا ہوگا۔ پھر اجتماعی عبادت ہے تو اس کی مثال جمعہ کی نماز کی ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ رمضان میں آخری جمعہ پڑھ لیا اور فارغ ہو گئے۔ بلکہ باقاعدگی سے ہر جمعہ کوشش کر کے ہر ایک کو پڑھنا چاہئے اور پھر جو جمعہ کاخطبہ آتا ہے، میں نے کچھ واقعات بھی سنائے کہ کس طرح ایک شخص نے کہا کہ میرے ہر سوال کا جواب مل گیا اور میری تربیت ہوتی رہی۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے کونے کونے میں جو خطبے کا پیغام پہنچتا ہے، یہ بھی سنیں۔ کہیں دن ہے، کہیں رات ہے لیکن خلافت کی آواز خطبہ جمعہ کے ذریعہ سے ہر جگہ بیک وقت پہنچ رہی ہے۔ دنیا کے اس براعظم میں گزشتہ خطبہ جو میں نے دیا وہ تمام دنیا نے دیکھا اور سنا۔ یہ خوبصورتی آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے نظام کے ساتھ وابستہ کر کے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو عطا فرمائی ہے۔ خطبہ میں دنیا کے حالات کے مطابق رہنمائی ہوتی ہے اور یہ رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور اُس کے فضل سے ہوتی ہے۔ مختلف موضوعات ہیں، اُن پر خطبات دئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے مسائل ہیں،اُن کے لئے دعاؤں کی تحریک ہے، یہ سب اجتماعی عبادت جو ہے، اس کا نظارہ آج جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبادتوں کے ساتھ زکوۃ اور مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ دو تو تمہیں ترقیات نصیب ہوں گی۔ جماعت کی مالی تحریکات دنیا میں محروموں اور غریبوں کی خدمت کے لئے کئی پراجیکٹ چلا رہی ہیں اور پھر تبلیغ کا ذکر ہو چکا ہے، تو اس کے لئے بھی مالی تحریکات سے ہی اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے میدانِ جہاد کے لئے مبلغین تیار کئے جاتے ہیں۔ آج دنیا میں ہندوستان میں، پاکستان میں، کینیڈا میں، یوکے میں، جرمنی میں، گھانا میں ایسے جامعات ہیں جہاں مبلغین سات سال کورس کر کے تیار ہوتے ہیں۔ پھر معلمین کے لئے علیحدہ ادارے ان مختلف ممالک میںہیں۔ تو ان سب کی تعلیم کا جونصاب ہے وہ بھی ایک ہے۔ یہ بھی ایک اکائی ہے، جماعت احمدیہ کی خوبصورتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف قوموں کے لوگ (میںانڈونیشیا کا ذکر کرنابھول گیا، وہاں بھی جامعہ ہے۔) علم حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ایک اکائی کی طرف ایک ہی نصاب کو follow کر رہے ہیں۔ پس یہ اکائی بھی خلافت کے نظام کی وجہ سے ہے۔ پھر قرآنِ کریم کے تراجم ہیں۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔ اور ہر ایک کو اسلام کی حقیقی تعلیم اور قرآنِ کریم کا حقیقی پیغام اُن کی اپنی زبان میں پہنچایا جا رہا ہے۔ پھر مختلف لٹریچر ہے۔ پھر ایم ٹی اے کا ذکر پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس کے ذریعہ سے تو تربیتی اور تبلیغی کام بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ میں نے کچھ واقعات پیش کئے تھے۔ بعض واقعات اور بھی ہیں جو پیش کرتا ہوں۔
کویت سے ایک منصور صاحب ہیں، لکھتے ہیں،انہوں نے مجھے ہی لکھا ہے کہ میں نے تین ماہ سے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا جس نے مجھے اندھیروں اور توہمات سے نکال کر روشنی عطا فرمائی۔ نماز جو اس سے قبل ایک جسمانی exercise سے زیادہ کچھ نہ لگتی تھی، اب اس میں روحانی لذت محسوس ہوتی ہے۔ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش کے درمیان ہوں۔ کیونکہ جن لوگوں سے بھی میں بات کرتا ہوں وہ میری مخالفت کرتے اور کافر ٹھہراتے ہیں۔ اور جس بات نے مجھے احمدیت کی صداقت کا قائل کیا ہے وہ مولویوں کا جماعت کے خلاف بولنا ہے، اور وہ بولا گیا جھوٹ ہے۔ جب میں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ آپ لوگ حق و صداقت پر ہیں۔
پھر مراکش سے ایک صاحب ہیں، لکھتے ہیں کہ میری والدہ اَن پڑھ ہیں اور احمدیت کے بارے میں بالکل کچھ نہیں جانتیں، تاہم ایک روز میں ایم ٹی اے دیکھ رہا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر بے اختیار کہنے لگیں کہ یہ تو انبیاء جیسی صورت ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو یہ خیال کیسے آیا۔ کہنے لگیں کہ بس میرے دل کا یہ احساس ہے۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل ظاہر کرتا جاتا ہے۔
پھر مصر سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ میں نے پانچ چھ سال قبل خواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مجھے زور سے بھینچا اور مجھے ایک خالی جگہ لے گئے۔ اُس وقت بعض خاص حالات کی وجہ سے میں غصہ میں تھا۔ آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس سامنے والی عمارت کی طرف دیکھو، اُسی وقت وہاں سے ایک شیطان کی سی شکل کا مسخ شدہ انسان نکلا۔ آپ نے فرمایا کہ جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اُس وقت یہ شیطان اُس پر غالب ہوتا ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ غصہ نہ کیا کرو۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ پھر آپ نے مجھے گلے لگایا اور چلے گئے۔ میں خوشی سے کہنے لگا کہ میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نصیحت فرما رہے تھے۔ پھر کہتے ہیں جب میں جاگا تو سوچنے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل تو نہیں تھی، میں نے کسی کو خواب میں دیکھا ہے۔ مجھے اُس وقت کچھ سمجھ نہ آئی۔ کچھ مدت کے بعد میں ٹی وی پر چینل بدل رہا تھا تو میں نے اپنے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی۔ میں نے کہا خدایا یہ تو وہی بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس کے باوجود میں نے بیعت نہ کی۔ یہ چار سال قبل کی بات ہے۔ اب چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں نیند سے جاگا تو کسی کو زور سے یہ کہتے ہوئے سنا تم ہر چیز پر ایمان رکھتے ہو، مگر مرزا غلام احمد قادیانی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے رسول بنا کر بھیجا ہے، اُن پر ایمان نہیں لاتے؟ کہتے ہیں مَیں اُٹھا اور میں نے اپنے بچوں کو کہا کہ تم لوگ آج سے احمدی ہو، میں اس بات کی تمہیں اور اپنی اہلیہ کو وصیت کرتا ہوں۔ اگر تمہیں موت آئے تو احمدی ہونے کی حالت میں آئے۔
پھر اردن سے ہمارے تمیم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون حنان صاحبہ، کویتی ہیں اور وہ اردن میںایم فِل کر رہی ہیں۔ اُن کا جماعت سے تعارف ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہوا۔ بیعت کے بعد اُنہیں ’حقیقۃ الوحی‘ دی گئی۔ جو انہوں نے کویت واپس جاتے ہوئے جہاز میں پڑھنی شروع کر دی۔ بعد میں انہوں نے مجھے میسج (message)بھیجا کہ میں اس کتاب کو پڑھتی جا رہی تھی اور روتی جا رہی تھی۔ جو چاہے سورج کی لطیف اور روشن کرنوں سے منہ موڑ لے اور جو چاہے اُس سے لطف اندوز ہو لے۔ شکریہ کہ آپ لوگوں نے مجھے سورج دکھایا۔
پھر الجزائر سے ایک صاحب ہیں اسامہ صاحب، کہتے ہیں کہ حال ہی میں مجھے بیعت کی توفیق ایم ٹی اے دیکھنے سے ملی۔ جہاں ’’الحوار المباشر‘‘ پروگرام میں وفاتِ مسیح کی بات ہو رہی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ واقعی حضرت مسیح عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں یا ابھی تک زندہ ہیں۔ بہر حال ایم ٹی اے کے پروگرام خصوصاً ’’لقاء مع العرب‘‘ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی زبانی بڑی واضح اور معقول تفسیرِ قرآن سنی۔ اس پروگرام میں مجھے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصویر بھی نظر آئی جسے دیکھ کر مجھے ایک پرانی خواب یاد آ گئی کہ میں سونے کی چارپائی پر لیٹا ہوں اور ایک داڑھی والے بزرگ میرے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ایم ٹی اے پر حضور علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہی وہ بزرگ تھے اور یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ان آیات میں بار بار اطاعت کا ذکر آتا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی اطاعت کے بعد خلافت کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اور یہاں فرمایا کہ معروف فیصلے پر عمل کرو۔ اور معروف فیصلہ یہ ہے جو شریعت کے مطابق ہے۔ یہ چند لوگوں کے واقعات جو میں نے سنائے ہیں، جنہوں نے بیعت کی اور اپنے ایمان اور اخلاص میں اتنا بڑھ رہے ہیں اور خلافت سے محبت اور وفا میں اتنا بڑھ گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے دیکھ کے اور یہ چون و چرا کا سوال نہیں کرتے بلکہ خلافت کی طرف سے جو بات کی جاتی ہے، اُس کو ہمیشہ یہ معروف فیصلہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ معروف فیصلہ وہ ہے جو شریعت کے مطابق ہے۔ اور ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفہ کبھی شریعت کے خلاف فیصلہ نہیں دے گا۔ کیونکہ خلیفہ کا کام ہی نبی کے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ جب مسیح موعود کی آمد کے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کے دائمی ہونے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کے تسلسل کو خلافت نے ہی جاری رکھنا ہے۔ پس خلافت سے وابستہ ہونا اور اس کی باتوں پر عمل کرنا ہر اُس شخص کا کام ہے جو اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرتا ہے۔ ہر اُس مومن کا فرض ہے جو اپنے آپ کو خلافت کے انعام کا حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ بعض واقعات میں نے سنائے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی رہنمائی بھی فرمائی اور انہوں نے خلیفہ وقت کو بھی دیکھا ۔ بہت سارے ایسے واقعات بھی آتے ہیں، میں نے بیان نہیں کئے، ایک آدھ میں نے سنایا بھی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ ان لوگوں کو دکھانا چاہتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کا نظام ہی ہے جو اب جاری ہو چکا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی ہے کہ یہ جاری رہنا ہے۔
پس ہر احمدی بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورت پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ اسلام کی ترقی اب خلافت کے ساتھ وابستہ ہے، نہ کہ کسی مولوی یا کسی گروہ اور کسی حکومت کے ساتھ۔ پس یہی وجہ ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو دنیا کا رہنما بنایا ہے جو حقیقی اسلام پیش کر رہی ہے، جو خاتم الخلفاء کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی شرط کو پورا ہوتے دیکھ رہی ہے، جو انفرادی اور اجتماعی عبادتوں میں بھی ترقی کر رہی ہے اور روحانی اور مالی اور جانی قربانیوں میں بھی آگے بڑھ رہی ہے اور اطاعت کے اعلیٰ نمونے بھی دکھا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا، اُس کی شرطیں پوری کرنے والے تو پیدا ہوتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی تھی، وہ تو پوری ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ، لیکن ہر احمدی کو یہ فکر بھی ہونی چاہئے کہ وہ اور اُس کی نسلیں کہیں اس شرط کو پورا نہ کر کے انعام سے محروم نہ ہو جائیں۔
پس بڑے فکر کا مقام ہے، جماعت احمدیہ کا یہ قافلہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی ترقی کو نہیں روک سکتی۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا، دعاؤں کے ساتھ اور قربانیوں کے ساتھ اور کامل اطاعت کے ساتھ اپنے آپ کو اس کا حصہ بنائیں، اس کی برکات سے فیضیاب ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور وہ مشن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت اُسوہ کو دنیا پر ثابت کرنا۔ قرآنِ کریم کی روشن تعلیم دنیا کو بتانا۔ مسلمانوں کو بھی دینِ واحد پر جمع کرنا اور غیر مسلم کو بھی خدا تعالیٰ کے آگے جھکانا۔پس اُٹھیں اور اپنے اس فریضہ کو پورا کرنے کے لئے صرف منہ سے نہیں بلکہ اپنے ہر عمل سے اس کوشش میں جُت جائیں۔ جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کا عملی مظاہرہ کر کے اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں جنہوں نے قیامت تک اس وعدے کے پورا ہونے کا مصداق بنتے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔ (
