خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یکم ستمبر2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ۔ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ۔ ھُوَ مَوْلٰکُمْ۔ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔(الحج:79)
اور اللہ کے تعلق میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں چن لیا ہے اور تم پر دین کے معاملات میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ یہی تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب تھا۔ اس یعنی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی، تاکہ رسول تم سب پر نگران ہو جائے اور تاکہ تم تمام انسانوں پر نگران ہو جاؤ۔ پس نماز کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ وہی تمہارا آقاہے۔ پس کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
اسلام اور مسلمان ایسے لفظ ہیں جن کے معنی پر اگر غور کریں تو ایک خوبصورت نام، خوبصورت کام اور خوبصورت اُمّت کا تصور ابھرتا ہے اور ابھرنا چاہئے کیونکہ اسلام یا مسلمان کے الفاظ جن حروف سے بنے ہیں اُن کی ہر ترکیب اور ہر ترتیب حفاظت، امن، کامل فرمانبرداری، کمزوریوں سے آزادی، غلطیوں سے آزادی، اخلاقی برائیوں سے آزادی کے معنی دیتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا مطلب ہے خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اور اُس سے مضبوط تعلق کا قائم ہونا اور دوسرے بنی نوع انسان سے نیک سلوک، باہم محبت، اتفاق و اتحاد کا پیدا کرنا اور فتنہ و فساد کا مٹانا۔ پس جب خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا ہو جائے اور اُس کی کامل فرمانبرداری بندہ اختیار کر لے اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی کوشش ہو تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے حصار میں آ جاتا ہے اور دنیا کو سلامتی اور امن دینے والا بن جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے جو شخص خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلیۃً ڈال دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرتا ہے، کامل فرمانبردار بن جاتا ہے، وہی مسلم ہے۔ اسی طرح جو اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ شرارتوں، خیانتوں، ظلموں میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ جھوٹ، فریب، بغض اور کینے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے وہی مسلم ہے۔ اور ان سب باتوں کو کرنے والا حقیقی مسلمان ہے۔ اور ان سب باتوں کی تعلیم ہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے۔ اور اس تعریف کی رُو سے جو شخص اس کے خلاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا نہیںکرتا، امن و سلامتی کے بجائے فتنہ و فساد کا موجب بنتا ہے، وہ چاہے لاکھ اپنے آپ کو مسلمان کہے، صرف نام کا مسلمان ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لمبے عرصے کے اندھیرے زمانے کے بعد اسلام کا یہ حقیقی ادراک ہمیں عطا فرمایا۔ آپ علیہ السلام اسلام کے لغوی معنی اور اس کی تعریف میں بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’واضح ہو کہ لغتِ عرب میں اسلام اُس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صُلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔ اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیت کریمہ میں اُس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:113)یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے۔ یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اُس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھرنیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لیے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے۔مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔
’’اعتقادی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اُس کی اطاعت اور اُس کے عشق اور محبت اور اُس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور ’’ عملی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ خالصًا للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے۔ مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 57-58)
پس حقیقی مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرتا ہے اور بندوں کے حقوق بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ادا کرتا ہے اور ان حقوق کی تفصیل ہمیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے بتا دی، جیسا کہ مَیں نے تعریف میں مختصر ذکر کیا ہے کہ مسلمان کون ہے۔دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر کام کرنا اور اُس کی مخلوق کو ہر شر سے محفوظ رکھنا، یہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ:
’’ یاد رکھو، یہ دونوں حقوق تم اُس وقت ادا کر سکتے ہو جب اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھو، اس کے بغیر نہیں۔ جب ہر عمل کے وقت یہ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے ہے۔ تمہارا ہر عمل خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے والا بن جائے، ہر عمل خواہ وہ عبادتوں کا معیار حاصل کرنے کا ہو یا بنی نوع انسان کا حق ادا کرنے کا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو۔اور اللہ تعالیٰ کے قریب ترکرنے کے لئے ہو۔‘‘
پھر آ پ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر مُلقّب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود مع اُس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے، اور اپنی اَنانیت سے مع اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔ پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفسِ امّارہ کا نقشِ ہستی معہ اُس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن لِلّٰہ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے۔ اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعتِ خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 60-61)
اسلام کی اور مسلمان کی یہ خوبصورت تصویر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھینچی ہے۔ ایسی خوبصورت تعریف وہی بیان کر سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو۔ پس اس وضاحت کے بعد کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اسلام اور مسلمان کے الفاظ خوبصورت الفاظ نہیں ہیں اور ایسی تعلیم پر عمل کرنے والی قوم خوبصورت اُمّت نہیں ہو سکتی۔ یہ تو ان باتوں سے واضح ہو گیا کہ اسلام کے اور مسلمان کے معنی کیا ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے والا ہی حقیقی مسلمان ہے۔ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا اس کے عملی نمونے ہمیں اس زمانے میں نظر آتے ہیں؟ اگر آتے ہیں تو کہاں؟ اسلام میں بہتّر فرقے ہیں۔ کیا ہر فرقہ اس تعریف کی رُو سے اپنے آپ کو اور دوسرے فرقے کو مسلمان سمجھتا ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسلام کی تعریف ہر فرقے کے مطابق کیا ہے؟ کیونکہ ہر فرقے کا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ سوال مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی اُٹھتے ہیں اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں بھی اُٹھتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان بے چین ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! اس خوبصورت نام اور اس خوبصورت تعلیم کے عملی نمونے ہم کہاں حاصل کریں کیونکہ جب ہم اپنے علماء کی طرف نظر کرتے ہیں تو وہاں تو ہمیں حقوق کی ادائیگی کے معیاروں کی بجائے دھوکے کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کے بجائے خود غرضیوں میں ڈوبے ہوئے کردار نظر آتے ہیں۔ محبتوں کی تعلیم کے بجائے نفرتوں کے لاوے ابلتے نظر آتے ہیں۔ امن کی فضاؤں کے بجائے معصوموں کے خون سے رنگے ماحول نظر آتے ہیں۔ انصاف کے قیام کے بجائے حقوق غصب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ اور رسول کی تعلیم کے نام پر دہشتگردی کے بازار گرم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کے بجائے انتہا سے بڑھی ہوئی نافرمانی ہر مسلمان کہلانے والے ملک میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر اسلام کو استہزاء اور ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اور اسلام کے خلاف دنیا میں نفرتیں پھیلانے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رہے حتی کہ ہمارے پیارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملوں کا بھی کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
پس یہ باتیں ایک درد رکھنے والے انسان کو پریشان کر رہی ہیں کہ افراد سے باہر نکل کر آج ہم اسلام کو اور اُمّت مسلمہ کو کہاں تلاش کریں؟ کس جماعت میں تلاش کریں جبکہ اس وقت جو بہتّر فرقے ہیں اُن میں ہر فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دوسرے فرقے کو کافر کہتا نظر آتا ہے۔یہ باتیں کوئی آج کی باتیں نہیں ہیں بلکہ جب سے فیج اعوج کا زمانہ شروع ہوا ہے، جب سے اندھیرا دور شروع ہوا ہے یہ کفر کے فتوے عام ہونے شروع ہوئے اور آج تک دئیے جا رہے ہیں۔ چند نمونے ان فتاویٰ کے مَیں پیش کردیتا ہوں۔ ان فتاویٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو بے چین کر دیا ہے۔ وہ تعلیم جو پیار اور محبت اور بھائی چارے کی تعلیم ہے، جو کہتی ہے کہ ’’رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ‘‘ آپس میں پیار اور محبت اور ملاطفت سے رہو اور پیش آؤ، وہ تعلیم جو کہتی ہے وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا(النساء:95)۔اور جو تمہیں سلام کہے اُسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اس پیار سے رہنے کی بجائے نفرتیں پنپ رہی ہیں۔ سلام پھیلانے والوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مومن نہیں کافر ہو۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک دوسرے کے خلاف فتووں کے انبار ہیں، چند نمونے پیش کر دیتا ہوں۔
1883ء کے فتوے ہیں، بہت پرانے زمانے سے شروع ہوئے ہیں کہ علمائے اہلِ سنّت سے پوچھا گیا کہ جو غیر مقلدین گروہ ہے اُن کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ پس جواب ملتا ہے۔
’فرقہ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہری اس ملک میں آمین بالجہر (یعنی آمین پکار کر کہنا) اور رفع یدین اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے اَلْحَمد پڑھنا، اہلسنّت سے خارج ہے اور مثل دیگر فرقہ ضالہ، رافضی، خارجی وغیرہما کے ہیں۔ کیونکہ ان کے بہت سے عقائد اور مسائل مخالف اہلسنّت کے ہیں‘۔
پھر کہتے ہیں کہ غیر مقلّدوں سے مخالطت اور مجالست کرنا، ملنا جلنا اور اُن کو اپنی خوشی سے اپنی مسجد میں آنے دینا شرعاً ممنوع ہے کیونکہ مسائل مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہلِ بدعت ہیں نہ اہلسنّت اور مجالست اور مخالطت اہل بدعت سے شرعاً ممنوع ہے۔
پھر ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیںمسائل مذکورہ سے معلوم ہوا کہ اُن کے پیچھے نماز درست نہیں ہے کیونکہ مسائل مذکورہ اور عقائد مذکورہ بعض موجب کفر اور بعض مفسد نماز ہیں۔ (نقل فتویٰ مطابق اصل مطبوعہ رمضان 1300ھ مطبع فیض محمد واقعہ لکھنؤ۔ دھرم سھائیک پریس لودیانہ باہتمام منشی مادھو سروپ صاحب۔ مطبوعہ 15 اکتوبر 1883ء بحوالہ فتاویٰ کفر صفحہ66)
پھر پچاس ساٹھ سال پہلے 1952ء میں، اس زمانے کے ایک مولوی منور دین صاحب منگلا چک، سرگودھا کے تھے، فتویٰ دیتے ہیں کہ اگر یہ لوگ برسرِاقتدار آ گئے تو عمر بن عبدالوہاب یا اسماعیل شہید تو اُن کے ہاتھ نہ لگیں گے، ہم ہی ہیں جو اُن کی گولی کا اوّلین نشانہ بنیں گے۔ ہم کو ان لوگوں سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنی چاہئے اور مرزائیوں سے بڑھ کر ان لوگوں کے عقائدِ شرکیّہ کو ردّ کرنا چاہئے۔ اگر مرزائی اس وجہ سے کافر بن سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک انسان میں وہ صفات اور کمالات ثابت کئے جو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انسانوں میں پہلے پائے جاتے تھے تو یہ لوگ جو ہزاروں انسانوں میں خدا ئی صفات ثابت کرتے ہیں، یقینا مشرک اور اذلّ ہیں۔
(مکتوب بنام علماء صفحہ 12-13(1952ء)منجانب مولوی منور الدین۔ مطبوعہ خالد پریس سرگودھا، بحوالہ فتاویٰ کفرصفحہ81)
پھر ایک مفتی محمد خلیل خان صاحب قادری تھے، انہوں نے 1983ء میں فتویٰ دیا۔ یہ 1974ء میں ہمیں خارج کرنے کے بعد کا فتویٰ ہے کہ دیو بندی اپنے عقائدِ کفریہ کے باعث اسلامی برادری سے خارج ہیں۔ نہ اُن کی نماز نماز ہے، نہ جماعت جماعت ہے۔ مولائے کریم ہمیں اور آپ کو اہلسنت پر ثابت قدمی بخشے۔
(احسن الفتاویٰ المعروف فتاویٰ خلیلیہ جلد اول صفحہ 342 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ایڈیشن 2008ء)
پھر مجموعہ فتاویٰ بریلوی جو 2004ء میں شائع ہوا، اس میں کہتے ہیں کہ دیو بندی عقیدے والے بسبب توہین اللہ اور رسول ، کافر و مرتد بے دین ہیں اور ایسے کہ علمائے حرمین شریفین نے فرمایا۔ مَنْ شَکَّ فِیْ کُفْرِہٖ وَعَذَابِہٖ فَقَدْ کَفَرَ۔ کہ جو اُن کے کفریات پر مطلع ہو کر اُن کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی اُنہی کی طرح ہے۔ اُن کی نماز جنازہ پڑھنی پڑھانی حرام قطعی و گناہِ شدید ہے۔عزّ وجل فرماتا ہے وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ۔اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَھُمْ فَاسِقُوْنَ۔(التوبۃ:84)کبھی نماز نہ پڑھ اُن کے کسی مردے پر، نہ اُس کی قبر پر کھڑا ہو۔ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور مرتے دم تک بے حکم رہے لہٰذا زید اور جن لوگوں نے دیوبندی جانتے ہوئے اُس کے جنازے کی نماز پڑھی اور اُس کے لئے دعائے مغفرت کی، وہ لوگ توبہ و استغفار کریں اور بعد تجدیدِ ایمان، بیوی والے ہوں تو تجدیدِ نکاح بھی کریں۔ (مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف صفحہ90 مطبوعہ زاویہ پبلشرز لاہور ایڈیشن اول 2004)
پھر گورنر پنجاب جنہوں نے ایک عیسائی لڑکی کی حمایت کی تھی کے بارے میں فتویٰ تھا کہ سلمان تاثیر صاحب دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہے اور اُن کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر گستاخ رسول، آسیہ کو چھڑوانے کی وجہ سے مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے۔ اُن کا نکاح ٹوٹ گیا۔ جب تک وہ توبہ نہ کریں گے، منافق اور مرتد کے زمرے میں رہیں گے۔ اور مرتدہ آسیہ واجب القتل ہے۔ اگر عدالت کا فیصلہ نہ بھی آتا تو اسلام کی ُرو سے وہ واجب القتل ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اس پر امتِ مسلمہ کا چودہ سو سال سے اجماع ہے۔ دارالعلوم حزب الاحناف میں جیّد مفتیانِ عظام اور شیخ الحدیث اور علمائے دین کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت صاحبزادہ علامہ پیر سید مفتی مصطفی اشرف رضوی نے کی اجلاس میں متفقہ طور پر جاری کیا گیا کہ گورنر سلمان تاثیر مرتد اور منافق ہے۔ اسلام کی رُوسے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ (روزنامہ پاکستان لاہور 25 نومبر 2010ء صفحہ 2، 5)
تو یہ ہے ان لوگوں کے فتووں کا حال۔ ہمیں کافر کہنے کے بعد جو خود مسلمان بنے تھے وہ بھی آپس میں کافر کہہ رہے ہیں۔ یہ ان فتاویٰ کی ایک جھلک ہے اور آج نہیں، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمیشہ سے یہ علماء ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیتے آئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کو کافر کہتے ہیں لیکن اپنے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی قائم ہیں۔ اگر ہمیں کافر کہتے ہیں تو یہ فکر کی بات نہیں ہے، یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی۔ روایت کرنے والے بیان کرتے ہیں حضرت معاویہ بن سفیان ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور انہوں نے بیان کیا کہ سنو یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ سنو یقینا تم سے پہلے اہلِ کتاب بہتّر(72) فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے اور یقینا یہ ملّت تہتّر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی۔ بہتّر (72) آگ میں ہوں گے اور ایک جنّت میں ہو گا اور وہ جماعت ہو گی۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب شرح السنۃ حدیث نمبر 4597)
پھر حضرت عوف بن مالک کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امّت ستّر سے زائد فرقوں میں منقسم ہو جائے گی۔ میری امّت میں فتنہ کے لحاظ سے سب سے بڑی وہ قوم ہو گی جو معاملات کو اپنی آراء پر قیاس کریں گے جس کے نتیجہ میں وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے۔
(المستدرک للحاکم جلد 6صفحہ 2266کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر مناقب عوف بن مالک الاشجعی حدیث نمبر 6325 مکتبہ نزار مصطفی الباز سعودی عرب 2000ء)
ان احادیث پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے، صرف اتنا کہوں گا کہ آج رُوئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ کوئی جماعت نہیں جو بحیثیت جماعت ایشیا میں بھی جانی جاتی ہے اور یورپ میں بھی۔ افریقہ میں بھی جانی جاتی ہے اور امریکہ میں بھی۔ آسٹریلیا میں بھی جانی جاتی ہے اور جزائر میں بھی۔ اور یہی ایک جماعت ہے جس کے خلاف باقی بہتّر(72) فرقوں کے فتوے موجود ہیں۔باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ جیسا حدیث میں ذکر ہے کہ خود ہی بغیر دلیل کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہہ دیتے ہیں۔ ان کے اندرونے میں جھانکیں تو شرم آتی ہے کہ اللہ اور رسول کے نام پر اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لئے قرآن کے واضح احکامات کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔ بعض ایسی باتیں پتہ لگتی ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بہر حال یہ تو ان کے عمل ہیں، ان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو گا، ہم ان پر کوئی فتویٰ نہیں لگاتے۔
اس وقت میں یہ بتاؤں گا کہ خدا تعالیٰ کیسے عمل کرنے والوںکو اور کس طرح زندگیاں گزارنے والوں کو مسلمانوں میں شمار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس کو مسلمان کہتا ہے۔پہلے میں اس حوالے سے قرآن شریف کی دو آیات پڑھ بھی آیا ہوں، یہ سورۃ بقرۃ کا حوالہ ہے۔ فرمایا قُوْلُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ(البقرۃ:137)کہ تم کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب اور اس کی اولاد کی طرف اتارا گیا۔ اور جو موسی اور عیسیٰ کو دیا گیا اور اس پر بھی جو سب نبیوں کو ان کے ربّ کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مُسلم وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لاتا ہے۔ کامل فرمانبرداری تبھی ہوتی ہے۔ اور نبی ہونے کے لحاظ سے کسی نبی میںفرق نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں دوسری جگہ فرماتا ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۔(البقرۃ:286) اور ہم اس کے رسولوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے ہیں۔ پس ہمیں جن انبیاء کا علم قرآنِ کریم سے دیا گیا ہے، اُن پر تو نام کے لحاظ سے ایمان لاتے ہیں اور باقی جن کا ذکر نہیں اُن پر اس ارشاد کے تحت کہ ہر قوم میں خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادے بھیجے، نبی بھیجے جو قوم کو ڈرائیں اور صحیح راستے پر لائیں۔ پس ہم خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق اس یقین پر قائم ہیں اور ہر مسلمان کو ہونا چاہئے کہ ہر قوم میں خدا تعالیٰ کا نبی آیا اور ہم سب کو سچا سمجھتے ہیں جتنے بھی آئے۔ پس جو تمام نبیوں کی نبوت کا اقرار کرے وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق مسلم ہے۔
پس جب ہم حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور مسلمان کہلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی اس بات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4)کہ آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا تو اس کا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ہی ہو گا کیونکہ وہ آپ کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ہی آئے گا۔ اور پھر احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو نبی اللہ قرار دیا ہے
(صحیح مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ حدیث نمبر7373)
جس کی نشانیاں بھی بتائیں کہ کیا کچھ ہو گا۔ جماعت احمدیہ کا لٹریچر ان بیان کردہ نشانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس وقت اس مضمون کو میں یہاں بیان نہیں کر رہا۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے ہر نبی کے ماننے والے کو مسلم قرار دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو نبی اللہ فرمایاہے۔ اس زمانے میں تمام تر نشانوں کے ساتھ موعودہ مسیحیت کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کی ذات میںپورا ہو چکا ہے۔ پس ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ کرتا ہے، آپ کے دعویٰ کو بے توجہی سے دیکھنے کے بجائے غور کرے، دعا کرے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے۔ کَل میںنے بعض واقعات بیان کئے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے والوں کی خدا تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے اور فرمائی اور حقیقت اُن پر واضح ہو گئی اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو انہوں نے قبول کر لیا۔ مسلم وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق تمام نبیوں کو قبول کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا، کیونکہ آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی فرمایاہے اس لئے آپ کی نبوت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ اٰل عمران میں فرماتا ہے۔ سورۃ اٰل عمران کی آیت 103ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقوی کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔
پہلے مذاہب کا زوال تقویٰ کی کمی کی وجہ سے ہوا تھا، یہودیوں کی مثال بھی دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو بھی تنبیہ کی گئی ہے، ہوشیار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سامنے رکھنا ورنہ تمہارا انجام بھی ویسا ہی ہو سکتاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث جو پڑھی گئی تھی اس میں جو یہود کے فرقوں کے طرف اشارہ کیا ہے، تو اس لئے کہ یہ حالت تقویٰ میں کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ گے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اُن پر غور کرو۔ جن کاموں کے فیصلے خداتعالیٰ نے کرنے ہیں، تمہیں اس کا اختیار نہیں کہ اُن پر فتوے لگاتے پھرو کہ یہ کافر ہے اور یہ مومن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تمہیں سلام کرے وہ بھی مومن ہے۔ اللہ تعالیٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ یہ اعلان کردو کہ قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔(الانبیاء:109) تو کہہ دے مجھ پر تو صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے۔ پس کیا تم مانو گے نہیں؟ یا کیا تم فرمانبرداری اختیار نہیں کرو گے؟یعنی یہ اعلان کر کے کہ خدا ایک ہے، تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہو گے جو مسلمان ہیں؟ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اعلان تمہیں مسلمان بناتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنے فتووں کے بجائے خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ کسی کو نہیں پتہ کہ موت کا وقت کیا ہے۔ اگر تم نے کامل تقویٰ اختیار نہ کیا، اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نشانات پر غور نہ کیا، اگر تم نے اُس کے رسول کی باتوں پر کان نہ دھرے تو یہ نہ ہو کہ تمہاری موت نافرمانوں کی موت ہو۔ پس خدا تعالیٰ کی اس تنبیہ پر غور کرو اور کامل فرمانبرداروں میں شامل ہو جاؤ۔ حقیقی مسلمانوں میں سے بنو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمان کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچاتے ہیں، عملِ صالح بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے کامل فرمانبردار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرماتا ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(حٰم سجدۃ:34) اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ مَیں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
آج رُوئے زمین پر کون سی جماعت ہے جو من حیث الجماعت تبلیغ کے کام کو سرانجام دے رہی ہے۔ کون ہے جو خدا تعالیٰ اور اسلام کی طرف بلا رہا ہے۔ کون ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان دنیا پر ظاہر کر رہا ہے؟ کل میں نے چند مثالیں اس کی بھی پیش کی تھیں کہ کس طرح لوگوں پر اثر ہوتا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی کیا تعریف کی ہے اور اپنی اُمّت کو کیا نصیحت اور تلقین فرمائی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔حضرت عبداللہؓ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا۔ تم کھانا کھلاؤ اور سلام کہو ہر اُس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ اب یہ نہیں فرمایا کہ سلام کرو جسے تم جانتے ہو کہ یہ مسلمان ہے تو اُسے سلام کرو باقیوں کو نہ کرو۔ جسے جانتے ہو یا نہیں جانتے اُس کو سلام کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر 12)
پاکستان میں آج کوئی احمدی کسی کو سلام کر دے تووہ قانونی گرفت میں آ جاتا ہے، اُس کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر از جماعت کسی احمدی کو سلام کر دے تو اُس پر تُو تکار شروع ہو جاتی ہے۔ اُس کو لعن طعن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ جو اتنا فساد ہے پاکستان میں، یہ اسی خوف کی وجہ سے ہے۔ بہت سارے شرفاء لوگ ایسے بھی ہیں جو ڈر کے مارے اور لوگوں کے خوف سے احمدیوں سے کلام اور سلام نہیں کرتے۔
پھر حضرت انسؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے بتایا، یہ بخاری کی حدیث ہے اور ایسا ہی علی بن عبداللہ نے کہا کہ خالد بن حارث نے ہم سے بیان کیا کہ حُمید نے ہمیں بتلایا۔ کہا کہ میمون بن سیاح نے حضرت انسؓ بن مالک سے پوچھا، کہا ابو حمزہ آدمی کے خون کو اور اُس کے مال کو کونسی چیز محفوظ کر دیتی ہے۔ تو انہوں نے کہا جو شخص یہ اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھائے۔ پس وہ مسلمان ہے اُس کے لئے وہی حقوق ہیں جو مسلمان کے لئے ہیں اور اُس پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مسلمان پر ہیں۔(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب فضل استقبال القبلۃحدیث نمبر 393)
یہ تعریف ہے مسلمان کی۔ اور یہ تعریفیں ہیں مُلّاؤں کی جو آپ نے پہلے سنیں۔ پھر بخاری کی حدیث ہے۔زبید بیان کرتے ہیں کہ میںنے ابو وائل سے مرجئہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وھو لا یشعر حدیث نمبر 48)
(آجکل یہ جو سب کچھ اسلامی دنیا میں ہو رہا ہے، اور وہ جو مسلمان کر رہے ہیںاوریہ دہشتگرد کر رہے ہیں، یہ اس حدیث کے مطابق کیا ہے؟ )
پھر حضرت اسامہؓ بن زید سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پر بھیجا۔ صبح کے وقت ہم جہینہ کے حُرقات (ایک جگہ کا نام ہے) پہنچے، وہاں ایک شخص کو میں نے جا لیا۔ اُس نے کہا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ مگر میں نے اُسے نیزہ مارا۔ پھر اس سے میرے دل میں خلش پیدا ہوئی تو میں نے اُس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا اُس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہا اور تم نے اُسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو اُس نے ہتھیار کے ڈر سے کہا تھا۔ فرمایا تو تم نے کیوں اُس کا دل نہ چیرا تا کہ تم جان لیتے کہ اُس نے یہ دل سے کہا تھا یا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے یہ بات دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ خواہش کی کہ کاش میں نے اس دن ہی اسلام قبول کیا ہوتا۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، خدا کی قسم میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا یہاں تک کہ یہ ذوالبُطین یعنی اسامہ کسی کو قتل کرے۔ ایک آدمی نے کہا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہ۔(الانفال:40) اورتم ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین خالصۃً اللہ کے لئے ہو جائے۔ حضرت سعد نے کہا ہم لڑتے رہے یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہا۔ اور تم اور تمہارے ساتھی چاہتے ہو کہ تم لڑتے رہو تاکہ فتنہ فسادہو۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر… حدیث نمبر 277) (آجکل کی جو لڑائیاں ہیں وہ فتنہ فساد ہیں، فتنہ ختم کرنے کے لئے نہیں)۔
پھر حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور دھوکے دینے کے لئے قیمت نہ بڑھاؤ اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو، نہ ہی ایک دوسرے سے بے رخی کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو وہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ ہی وہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، نہ ہی اُس کی تحقیر کرتا ہے۔ اور آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ آدمی کے لئے یہی شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ ہر مسلمان کا خون، اُس کا مال اور اُس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ حدیث نمبر 6541)
اور آجکل کے عمل دیکھ لیں۔
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے جو باتیں بیان کی ہیں،اُن میں سے یہ بھی ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے میرے بندو! میںنے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کیا ہے اور اُسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے۔ پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ تم سب گمراہ ہو سوائے اُس کے جسے مَیں ہدایت دوں۔ پس مجھ سے ہدایت طلب کرو۔
( یہی ہدایت طلب کرنے کا نسخہ ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بیان فرمایا ہے۔)
اور فرمایا کہ: ’’اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اُس کے جسے میں کھانا کھلاؤں، پس تم مجھ سے کھانا مانگو مَیں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب برہنہ ہو مگر جسے میں پہناؤں۔ پس مجھ سے کپڑے مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم رات دن غلطیاں کرتے ہو اور میں تمہارے سب گناہ بخشتا ہوں۔ پس مجھ سے مغفرت مانگو مَیں تمہیں بخش دوں گا۔ تم ہرگز طاقت نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور نہ مجھے نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہو۔ اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّ تم میں سے سب سے زیادہ متقی دل رکھنے والے کی طرح ہو جائیں تو یہ میری بادشاہت میں ذرا بھی اضافہ نہ کر سکے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّ تم میں سے سب سے زیادہ فاجر دل رکھنے والے آدمی کی طرح ہو جائیں تو یہ میری بادشاہت میں کچھ کمی نہ کر سکے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جنّ ایک میدان میں کھڑے ہوں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب عطا کروں تو یہ اس میں سے کچھ بھی کمی نہ کرے گی جو میرے پاس ہے، سوائے اس قدر جو ایک سوئی کم کرتی ہے جبکہ وہ سمندر میں ڈالی جائے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں۔ میں تمہارے اعمال ہی تمہارے لئے محفوظ رکھتا ہوں۔ پھر مَیں تمہیں وہ پورے پورے دوں گا۔ پس جو خیر پائے تو اُسے چاہئے کہ وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا کچھ پائے تو صرف اپنے نفس کو یہ ملامت کرے۔ ‘‘
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الظلم حدیث نمبر 6572)
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم تمام انبیاء پر ایمان لانے والوں کو مسلمان کہتا ہے۔ ہر نبی کے زمانے کے لوگ اُس نبی کے ماننے والے مسلمان ہیں۔ خدا تعالیٰ کو ایک ماننے والے بھی مسلمان ہیں۔ مختلف حوالوں سے قرآنِ کریم نے مختلف لوگوں کو مُسلمین اور مُسلمُون کے لفظ سے نوازا ہے۔ لیکن باقی نبیوں کے ماننے والے مسلمان نہیں کہلاتے۔ کسی کا یہ نام نہیں رکھا۔ یہ اعزاز صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کو حاصل ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کی دیواروں کو کھڑا کرتے ہوئے جو دعا کی تھی اُس میں اپنے دونوں کے لئے مسلمان بننے کی دعا کے ساتھ اپنی نسل میں سے امّت مسلمہ بنانے کی دعا کی تھی۔ پس وہ عظیم نبی جو اُن کی نسل میں سے مبعوث ہوا اُس کی امّت کا نام مسلمان رکھا گیا جس کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ حج کی آیت 79 میں یہ فرمایاتھا کہھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا۔ کہ اُس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے بھی اور اِس قرآن میں بھی۔ پس بیشک ہر نبی کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہیں لیکن اُن کی امّت کا نام، اُن کے ماننے والوں کا نام مسلمان نہیں رکھا گیا۔ مسلمان ہونے کی معراج صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملنی تھی، اس لئے کہ پہلے نبیوں کے ماننے والوں کے احکامات محدود سوچ اور علاقائی تھے، وہ اپنے دائرے میں اُن پر عمل کر کے بیشک اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے والے بنے لیکن مسلمان ہونے کی وسعت تک وہ نہیں پہنچ سکے تھے۔ اُن کا اسلام بھی محدود تھا۔ یہ نام اُس وقت ممکن تھا جب اللہ تعالیٰ کی تعلیم انسانی تقاضوں کا احاطہ کر کے اپنی انتہا کو پہنچنی تھی۔ یہ اُس وقت ممکن تھا جب یہ اعلان ہونا تھا کہ واَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدہ:4)۔یعنی آج کے دن مَیں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی اور میں نے اسلام کو تم پر دین کے طور پر پسند کر لیا۔ یہ اُسقت ممکن تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کے طور پر مبعوث ہو کر اپنی امّت اور کُل انسانیت کے لئے کامل اُسوۂ حسنہ بننا تھا۔ یہ اُس وقت ممکن تھا جب امن کے پارسا علماء بھی بنی اسرائیل کے انبیاء جتنا درجہ پانے والے تھے۔ یہ اُس وقت ممکن تھا جب نبوت کے راستے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت سے مشروط کرنے تھے۔
آج ہم جو احمدی کہلاتے ہیں،ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْن، کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں کہ ہم نے تمام منزلوں کو طے کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو پا لیاہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق پر ہمارے مخالف الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو نبی اللہ کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا مقام اپنے آپ کو دیتے ہیں اور اس لئے اسلام کے دائرے سے خارج ہیں۔ اگر ان اندھوں کی عقل کی آنکھ ہو، اگر ان کے جہالت کے پردے اتریں تو ان کو نظر آئے کہ حقیقی اسلام کا ادراک تو بانی جماعت احمدیہ نے ہمیں دیا ہے، آپ کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لُبّ لُباب یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ ہمارااعتقادجو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے، یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسَلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت بمرتبہ اِتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتااور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکا م فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافرہے۔ اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسلؐ کے حاصل ہو سکیں۔ کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے۔ اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیل منازل سلوک کرچکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور ان میں بعض ایسے جُزئی فضائل ہیں جو اَب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتے۔غرض ہمارا اُن تمام باتوں پر ایمان ہے جو قرآن شریف میں درج ہیں اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کی طرف سے لائے اور تمام مُحدثات اور بدعات کو ہم ایک فاش ضلالت اور جہنم تک پہنچانے والی راہ یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3صفحہ169-170)
فرمایا کہ: ’’ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ جنت حق ہے اور آگ حق ہے اور حشر اجساد بھی حق ہے اور انبیاء کے معجزات بھی حق ہیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ نجات صرف اسلام اور ہمارے نبی سید الوریٰ کی اتباع میں ہے اور ہر وہ چیز جو اسلام کے خلاف ہے ہم اُس سے بیزار ہیں۔ اور ہم ہر اُس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے خواہ ہم اُن کی بلند حقیقت کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔ اور جو اس کے خلاف ہمارے بارے میں کچھ کہے تو اس نے یقینا ہم پر کذب اور افتراء کیا۔… اور جان لو کہ میرا دین اسلام ہے اور توحید باری تعالیٰ پر میرا یقین ہے اور میرا دل نہ تو گمراہ ہوا ہے اور نہ ہی سرکش ہوا ہے۔ اور جس نے قرآن کو ترک کیا اور قیاس کی پیروی کی تو وہ اُس انسان کی مانند ہے جو کہ درندے کی درندگی کا شکار ہو گیا ہے اور مہلک گڑھے میں گر گیا اور ہلاک ہو کر فنا ہو گیا۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں عاشقِ اسلام ہوں اور حضرت خیر الانام کا فدائی ہوں اور احمدِ مصطفی ؐکا غلام ہوں۔‘‘ (اردو ترجمہ از عربی،التبلیغ روحانی خزائن جلد5صفحہ387-388)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’جہاں تک ہمارے عقائد کا تعلق ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ثابت قدم رکھا ہے تو اے میرے بھائی تُو جان لے کہ ہم اللہ کو رب سمجھتے ہوئے اُس پر ایمان لائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی سمجھتے ہوئے ایمان لائے۔ اور ہم اس پر بھی ایمان لائے کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ اور ہم فرقان پر ایمان لائے کہ وہ اللہ رحمان کی طرف سے ہے۔ اور ہم ہر اس بات کو جو قرآن کے بیانات اور اُس کے محکمات اور اُس کے قصوں کے مخالف ہے ہرگز قبول نہیں کرتے خواہ وہ عقلی امر ہی کیوں نہ ہو یا ان آثار میں سے ہو جنہیں اہلِ حدیث حدیث کے نام سے موسوم کرتے ہیں یا وہ اقوالِ صحابہ میں سے یا تابعین میں سے ہو۔ کیونکہ قرآنِ کریم وہ کتاب ہے جس کا لفظ لفظ تواتر سے ثابت ہے اور وہ وحی متلوّ اور قطعی یقینی ہے۔اور جو اس کی قطعیت کے بارے میں شک کرے وہ ہمارے نزدیک کافر، مردود اور فاسقوں میں سے ہے۔ قرآن قطعیت تامہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ اپنے مرتبے میں ہر کتاب اور ہر وحی سے برتر ہے کیونکہ یہ مسِّ انسانی سے پاک ہے۔ اس کے علاوہ اور کتابیں یا آثار اس مقام کو نہیں پہنچتیں۔ اور جو اس کتاب کے علاوہ دوسری کتاب کو اس پر ترجیح دیتا ہے تو یقینا اس نے شک کو یقین پر ترجیح دی۔ ‘‘ (اردوترجمہ از عربی عبارت تحفہ بغداد روحانی خزائن جلد7صفحہ31)
یہ مختلف حوالے مختلف سالوں کے حساب سے مَیں نے لئے ہیں۔ پہلی روحانی خزائن کی جلد سات ہے۔ اس سے آگے تین سے شروع کئے ہیں،اگلی مختلف جلدیں ہیں تا کہ پتہ لگے تواتر سے مختلف جگہوں پر آپ کے بیان کس طرح آ رہے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ :
’’ یاد رہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھیراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص مع اس کی تمام جماعت کے عقائدِ اسلام اور اصولِ دین سے برگشتہ ہے۔ یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ افتراء ہیں کہ جب تک کسی دل میں ایک ذرہ بھی تقوی ہو ایسے افتراء نہیں کر سکتا۔ جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنا رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ‘‘ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں۔ بالخصوص قصّوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہٗ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اِباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہلَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ اور اسی پر مریں۔ اور تمام انبیا اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنّت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اورجو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے۔ اور قیامت میں ہمارا اس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں۔ اَلآ اِنَّ لَعۡنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الۡکَاذِبِیۡنَ وَالۡمُفۡتَرِیۡن۔‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ322تا324)
پس کون ہے جو اس بیان کے بعد کہہ سکے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرایا ہے اور اسلام کی اُس تعریف سے باہر نکلے ہیں جو قرآنِ کریم نے کی ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان فرمایا ہے۔
جو یہ کہتے ہیں مَیں نے ان کے فتوے جو خود ایک دوسرے کے خلاف ہیں وہ بھی پڑھ کر سنائے۔ آج جماعت احمدیہ کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ یا جماعت نہیں جو کلمہ گوؤں کے خلاف کفر کے اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے نہ دیتی ہو۔ ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو کافر کہنے والوں اور آپ پر کفر کا فتویٰ دینے والوں کو یہ ضرور فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو کلمہ گو کو کافر کہتا ہے وہ خود اسی الزام کے نیچے آتا ہے۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجّال نہیں ہو سکتا۔ ہاں ضالّ اور جادۂ صواب سے منحرف ضرور ہوگا۔ اورمَیں اُس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا۔ ہاں مَیں ایسے سب لوگوں کو ضالّ اور جادہ صدق وصواب سے دُور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں۔ مَیں بلا شبہ ایسے ہر ایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے۔ لیکن مَیں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیںخود کافر نہ بنا لیوے۔ سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا۔ میرے لئے فتویٰ طیار کیا۔ میں نے سبقت کر کے اُن کے لئے کوئی فتویٰ طیار نہیں کیا اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر مَیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ اُن پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں۔‘‘ جیسا کہ حدیث میں سنا۔ ’’سو مَیں اُن کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ ٔنبویؐ کے نیچے آتے ہیں۔‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ432-433)
پس اے مخالفینِ احمدیت! تم جو عامّۃ المسلمین کے جذبات کو انگیخت کر کے اُنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے خلاف مغلّظات بکنے پر مجبور کرتے ہو اور آپ کی قائم کردہ جماعت کے خلاف جہاں بس چلتا ہے ظلموںکی دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہو اپنے گریبانوں میں جھانکو کہ تمہارے یہ فعل خدا تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے تیزی سے تمہیں لاتے جا رہے ہیں۔ عامّۃ المسلمین سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ مومن میں تو بڑی فراست ہوتی ہے، تم یہ دیکھو کہ آج تبلیغِ اسلام ہم کر رہے ہیں یا یہ تکفیر کے فتوے لگانے والے۔ لاکھوں سعید روحیں اسلام کی آغوش میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ سے آ رہی ہیں۔ کل ہی میں نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک مولوی صاحب افریقہ میں ہماری کتابیں لٹریچر لے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ اسی علم کی وجہ سے تو میں اب تک انیس عیسائیوں کو مسلمان بنا چکا ہوں۔ آج قرآنِ کریم کی اشاعت ہم کر رہے ہیں یا یہ تکفیر کے فتوے لگانے والے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں سے ہم دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں یا یہ تکفیر کے فتوے لگانے والے۔ آج دنیا میں مسجدوں کی تعمیر ہم کر رہے ہیں یا یہ کفر کے فتوے لگانے والے۔ آج دنیا میں انسانیت کی خدمت صحت میں، تعلیم میں، خوراک میں، پانی پہنچانے میں اور دوسری ضروریات پوری کرنے میں ہم کر رہے ہیں یا یہ تکفیر کے فتوے لگانے والے۔ سعید فطرت خود اعتراف کر رہے ہیں ہزاروں خط مجھے آتے ہیں، دفتروں میں آتے ہیں، ہمارے ایم ٹی اے کو آتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھ کر ہمیں تسلی ہے کہ کوئی تو اسلامی جماعت ہے جو اسلام کے خوبصورت نام کی حفاظت کر رہی ہے اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے منہ بند کر رہی ہے۔
اس وقت مَیں پھر چند واقعات پیش کر دیتا ہوں۔
امریکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بننے والی گستاخانہ فلم کے حوالے سے بینن سے ہمارے مبلغ صاحب مجھے لکھتے ہیں کہ جب آپ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر خطبہ دیا تو نیشنل امام کو جو ملک کا نیشنل امام تھا، خطبہ دینے کے بعد جب ہمارے معلمین اور صدر صاحب اس خطبہ جمعہ کا فرنچ ترجمہ تقسیم کرنے کی غرض سے ایک اور بڑی مسجد میں پہنچے تو ایک بڑے مولوی نے یہ خطبہ ان سے لیا۔ چند لفظ پڑھنے کے بعد اُس نے کہا کہ ہمارے لئے نہایت شرم کا مقام ہے کہ جن کو ہمارے علماء مسلمان نہیں سمجھتے وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور حفاظت میں سب سے سبقت لے گئے ہیں۔ ہم اُن سے کیا مقابلہ کریں گے۔ پھر بینن کے نیشنل امام کو جب میرا یہ خطبہ پہنچایا گیا تو اُن کے منتظمین میں سے ایک علّامہ صاحب نے کہا کہ بینن میں اسلام کے عَلم بردار ہونے کا تو ہم دعویٰ کرتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں جماعت احمدیہ ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اگر کوئی جماعت حقیقی اسلام کی پیروی کر رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔
پھر بورکینا فاسو سے ایک شخص لکھتے ہیں کہ مَیں ایک لا مذہب شخص تھا، ایک دن دل میں خیال آیا کہ یا تو عیسائی ہو جاؤں یا پھر اسلام قبول کر لوں۔ رات کو خواب میں مجھے کسی نے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ۔ کہتے ہیں اتفاقاً ایک دن اُن کی ملاقات ہمارے معلم صاحب سے ہوئی اور گھر کے ریڈیو پر خطبہ لگا ہوا تھا، انہوں نے وہ سنا۔ انہوں نے کہا خطبہ کے الفاظ اور انداز اور اسلام کی ایسی حسین تعلیم میں نے کہیں سے کبھی نہیں سنی۔ اور خصوصاً مسلمان علماء نے تو کبھی ان باتوں کا ذکر نہیں کیا۔ اس خطبہ نے میرے دل پر ایسا اثر کیا کہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں تمام فیملی سمیت احمدیت میں داخل ہو گیا۔
پھر بیلجیم سے ایک مقامی دوست لوگو پیوگو (Logho Piergho) صاحب امسال جلسہ جرمنی میں شامل ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے خلیفۃ المسیح کا جرمن مہمانوں سے خطاب سنا تو اس نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو جاؤں گا۔
پھر فرانس سے ایک صاحب لکھتے ہیں، اپنی فیملی کے تین افراد کے ساتھ انہوں نے بیعت کی تھی، اور اٹھارہ سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے یہ ویلنسیا پہنچے تھے۔ اپنی قبولِ احمدیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ہمیشہ یہ بات میرے ذہن میں آتی تھی کہ جس اسلام پر آج کے مسلمان چل رہے ہیں یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام نہیں ہے۔ جب بھی یہ خیال میرے ذہن میں آتا تو مجھے بے چین کر دیتا اور مَیں اس حالت میں خداتعالیٰ کے حضور بہت روتا کہ وہ میری رہنمائی کسی ایسی جماعت کی طرف کر دے جو سچے اور حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ 2012ء میں وہ اپنے دوست کو ملے اور اپنی حالت بھی اُن کے سامنے بیان کی تو اُن کے دوست نے جواب دیا کہ میری بھی یہی حالت تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ایک جماعت کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے۔ کہتے ہیں دوست کے بتانے پر مَیں نے باقاعدگی کے ساتھ ایم ٹی اے دیکھنا شروع کر دیا۔ پھر ایم ٹی اے دیکھ کر اور خطبات سن کر میں احمدیت کی سچائی کا قائل ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ مجھے حقیقی اسلام مل گیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ چنانچہ میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بیعت کر کے اسلام اور احمدیت میں شامل ہو گیا۔
پس مولویوں کے فتووں کے پیچھے چلنے کی بجائے ان کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
پھرنائیجر سے ایک صاحب متاری عمر صاحب جو مذہباً مسلمان ہیںکہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات تھے مجھ سے دیکھے نہیں جاتے تھے اور میں اس فکر میں رہتا تھا کہ اسلام کیسے ترقی کرے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت سے تعارف ہونے کے بعد مجھے خلافت اور اُس کی برکات کا مسئلہ جلد ہی سمجھ آ گیا۔ مَیں اس جماعت کو پا کر بہت خوش ہوا جس کا ایک امام اور ایک خلیفہ ہے۔ کیونکہ اسلام نے تب تک ہی ترقی کی جب تک اُن میں خلافت رہی۔ کہتے ہیں کہ مجھے اس جماعت میں سب سے اچھی جو بات لگی وہ یہ ہے کہ جماعت ہمیشہ جو بھی بات پیش کرتی ہے اُس بات کی تائید میں ہمیشہ قرآن اور حدیث کا حوالہ دیتی ہے۔ جلسہ جرمنی کے آخری دن یہ صاحب بھی بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے۔
پھر ابوزیدی حسین صاحب، ان کا تعلق نائیجر سے ہے اور مذہبًا مسلمان ہیں۔ بیلجیم میں رہتے ہیں۔ بیلجیم سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کے لئے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ جلسہ میں آنے سے قبل مَیں احمدی نہیں تھا لیکن جلسہ نے میری کایا پلٹ دی ہے۔ اب میں کہتا ہوں کہ سب کو جماعت میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ یہ جماعت اُسی حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا۔ وہ کہتے ہیں مَیں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں۔ چنانچہ یہ دوست بھی اتوار کے روز اُس دن بیعت ہوئی تھی تو شامل ہو گئے۔
پھر ہالہ شیانہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ مجالس الذکر کا پروگرام بھی اب الحوار کی طرح ہو گیا ہے۔ اس وقت امّتِ مسلمہ کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی باتوں کی سخت ضرورت ہے۔ آئندہ بھی اسی قسم کے مسائل پیش کیا کریں جو امّتِ مسلمہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور امّت کی مشکلات کا حل ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس طرح لوگ امام الزمان کی طرف مائل ہوں گے۔ اس قسم کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ عرب میڈیاکاہے جو کہ ان دنوں جھوٹ اور فساد سے پُر ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے، جھوٹ پھیلانے اور دین کے حوالے سے خبث پھیلانے کو اپنا شیوہ بنایا ہوا ہے۔ ( یہ صرف وہاں نہیں بلکہ آپ دیکھ لیں ہر مسلمان ملک کایہی حال ہے۔) اور ان دنوں عربی میڈیا ہی اسلام کو بدنام کرنے کااوّلین کردار ادا کر رہا ہے۔ اس قسم کے ہزاروں عربی چینلز کے مقابل پر صرف ایک واحد چینل ایم ٹی اے ہے جس سے اسلام کا حقیقی نور ظاہرہوتا ہے۔ کہتی ہیں مَیں سمجھتی ہوں کہ امام مہدی علیہ السلام کا پیغام دنیا میں اُسی وقت پہنچا ہے جبکہ بہت سے دجّالی فتنوں سے بھرے اس فاسد میڈیا نے دنیا میں جگہ لی ہوئی ہے۔ افسوس ہے اُن لوگوں پر جو دجال کی پیروی کر رہے ہیں اور حقیقتِ اسلام سے بہرے ہیں۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ پھر ابادان شہر کے امام نمائش دیکھنے آئے اور یہ لکھا کہ جو کوئی بھی احمدیوں کو کافر کہتا ہے وہ یقینا اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ مَیں نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے لکھے گئے مختلف خطوط پڑھے ہیں، اُن کو پڑھنے کے بعد مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مختلف بادشاہوں کو امن کی طرف بلانے والے خطوط یاد آ گئے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدی مسلمان ہیں اور احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور ایک امن پسند جماعت ہے۔
پھر غیر بھی جماعت احمدیہ سے اسلام کا پیغام سن کر کیا کہتے ہیں،اس کی بھی ایک دو مثالیں پیش کر دیتا ہوں۔
پیٹی اوِلار (Pete Aguilar) صاحب لاس اینجلیز کے قریب ریڈلینڈز کے میئر سٹی ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا خطاب سننے سے پہلے مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق بہت کم تجربہ تھا۔ میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم حاصل کرنے میں گزاری ہے۔ اس لحاظ سے مجھ پر ایک نئے پہلو کا انکشاف ہوا کہ کس طرح اسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا میں امن اور برداشت پھیلانے میں ممد ہو سکتی ہیں۔ مجھے امام جماعت کی اس بات سے اتفاق ہے کہ امن اُس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک جابرانہ نکتہ ہائے نظر اور ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ مَیں امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں اس دنیا کو بہتر جگہ بنانے کی خاطر اپنی زندگی اُن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزاروں گا۔
پھر استقبالیہ میں ایک مہمان دوست ڈاکٹر فریڈ آئے تھے، کہتے ہیں امام جماعت احمدیہ نے مذہب کی جو تصویر پیش کی ہے اُس کے متعلق میرا علم بہت کم تھا۔ مذہب کے متعلق امام جماعت احمدیہ کے الفاظ میری سوچ کی عکاسی کر رہے تھے۔ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا پیغام بہت زبردست تھا۔ ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا کہ صرف ایک خدا ہے۔ جو اُس کا خدا ہے وہی میرا خدا ہے، امام جماعت احمدیہ کے لبوں سے نکلا ہوا ہر حرف سچا تھا۔ا ُن کی دنیا میں قیامِ امن کے لئے کوششوں اور ایٹمی جنگ کے متعلق انتباہ پر دنیا کے حکمرانوں کو کان دھرنے چاہئیں۔ مَیں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
پھر کالسروئے جرمنی سے ہمارے ایک احمدی لکھتے ہیں کہ اس سال جلسہ سالانہ جرمنی 2013ء پر ایک جرمن دوست تشریف لائے، وہ پیشے کے لحاظ سے گورنمنٹ ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر مذہب سے بیزار ہو چکے ہیں لیکن اُن کے اندر بہر حال ایک طلب موجود تھی کہ سچا مذہب کون سا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے خواب میں آواز آئی کہ اپنے دشمن کے لئے دعا کرو۔ مجھے اس فقرے کی بالکل سمجھ نہ آئی۔ کہتے ہیں میںنے جب اس فقرے کو جرمن زبان میں انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو میں ایک ایسے پلیٹ فارم پر پہنچ گیا جہاں اس مضمون کے تحت مختلف مذہبی لوگوں کی طرف سے بیانات درج تھے۔ اُن میں سے ایک یہ بیان بھی درج تھا کہ تم اُس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتے جب تک تم اپنے دشمنوں کے لئے دعا نہ کرو اور اس کے نیچے لکھا تھا، ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘۔ کہتے ہیں مَیں نے جب اس نام کو سرچ کیا تو میں جماعت احمدیہ کی ویب سائٹ پر چلا گیا جہاں پر امام جماعت احمدیہ کا یوکے پارلیمنٹ والا خطاب موجود تھا۔ اس خطاب کو سن کر میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور میرے دل سے اس شخص کے لئے دعائیں نکلیں کہ آج اس دنیا میں یہ واحد فرد ہے جو اپنے دشمنوں کے لئے دعائیں کر رہا ہے۔ اسی دوران مَیں نے دیکھا کہ کالسروئے میں جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ ہو رہا ہے جو میرے گھر سے تقریباً چار سو کلو میٹر ہے۔ مَیں ساری رات سوچتا رہا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ مجھے وہ اندر داخل ہونے بھی دیں گے یا نہیں؟ بہر حال میں نے یہ سوچتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اگر وہ مجھے جلسہ میں شامل نہ بھی ہونے دیںگے مگر میرے دل کی تسلی اور میری نیت کا ثواب مجھے ضرور مل جائے گا۔ چنانچہ وہ آئے اور تینوں دن جلسے سے فیضیاب ہوئے اور تبلیغی گفتگو ہوئی اور بہت تسلی اُن کی ہوئی ہے۔ جماعت کے قریب آ چکے ہیں۔ احمدی تو نہیں ہوئے لیکن قریب آ چکے ہیں۔ پس یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تأثرات سن کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلام اور مسلمان کی اندرونی خوبصورتی کا ادراک جتنا جماعت احمدیہ کے افراد کو ہے کسی اور کو ہو سکتا ہے؟ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں، اگر میں بیان کرنی شروع کروں تو گھنٹوں لگ جائیں اور ختم نہ ہوں۔ پس جو مختلف حوالوں سے میں نے کچھ تفصیلی بیان کئے ہیں، اس لئے کہ وقتاً فوقتاً مختلف زاویوں سے کبھی ایک ذریعہ سے کبھی دوسرے ذریعہ سے احمدیت کے خلاف کفر کے فتووں کا اُبال اُٹھتا رہتا ہے۔ اس کا ردّ اپنوں جن میں نئے شامل ہونے والے اور نوجوان نسل ہے، اُن کو بھی ہونا چاہئے، اس لئے میںنے کچھ بیان کر دئیے۔ جو حق کی تلاش میں ہیں ان کو بھی ہو جائے، جو مخالفین کی اندھی تقلید کرتے ہیں اُن کو بھی ہو جائے۔
پس خلاصہ یہ کہ ہم مسلمان ہیں اُس شخص کے اپنے قول کے مطابق جس کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تمام تر روشن نشانوں کے ساتھ اس زمانے کا امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہر اُس تعریف کے مطابق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی کی ہے اور جس کی رو سے کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگانے والا جو ہے خود اپنے آپ کو اسلام سے محروم کرلیتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں خدا تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق جس نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، جس نے وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) کا اعلان فرما کر ہمیں اُن حقیقی مسلمانوں میں شامل فرما دیا جن کی ابتدا بھی اسلام ہے اور جن کی انتہا بھی اسلام ہے۔ ہم مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ( حٰم سجدۃ:34)۔ آج کون سی جماعت ہے جو بحیثیت جماعت اللہ کی طرف مشرق میں بھی بلا رہی ہے اور مغرب میں بھی بلا رہی ہے۔ شمال میں بھی بلا رہی ہے اور جنوب میں بھی بلا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب کے پیغام کو یورپ میں بھی پھیلا رہی ہے اور امریکہ میں بھی پھیلا رہی ہے ایشیا میں پھیلا رہی ہے اور افریقہ میں بھی پھیلا رہی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی پھیلا رہی ہے اور جزائر میں بھی پھیلا رہی ہے۔ عرب کے شرفاء بھی قائل ہو رہے ہیں جیسا کہ میں نے کل اور آج بھی کچھ مثالیں دی تھیں کہ آج دلائل اور برہان اور منطقی طریق پر جس طرح جماعت احمدیہ اسلام کا مقام بلند کررہی ہے، اسلام کا پیغام دے رہی ہے، دنیا میں اسلام کا کوئی اور فرقہ، گروہ یا عالم نہیں دے رہا۔ اسلام کا مقام غیروں کے سامنے جس طرح جماعت احمدیہ قائم کر رہی ہے کوئی اسلامی تنظیم اس کے قریب بھی نہیں پھٹک رہی۔ ہم مسلمان ہیں خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق جس کا اِدراک ہمیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل فرما کر دیا ہے کہ فَاَقِیْمُوا الصَّلوٰۃ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ۔(الحج:79)آج روئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ کوئی جماعت نہیں جو بحیثیت جماعت تمام دنیا میں قیامِ نماز کا اہتمام کر رہی ہو۔ کوئی جماعت نہیں جو دین کی خاطر مالی قربانی اور زکوۃ کا اہتمام کر رہی ہو۔ کوئی جماعت نہیں جو خلافتِ راشدہ کے ساتھ جڑ کر خدا تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہو۔ پس آج ہمیں ہی اس نظام سے جڑنے کی وجہ سے یہ خوشخبری ہے کہ تم مسلمان اور حقیقی مسلمان ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا مولیٰ اور تمہارا مددگار ہے۔ فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نِعْمَ النَّصِیْر۔ پس کیا ہی اچھا آقا اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے، کل بھی میں نے کچھ واقعات سنائے تھے اور آج بھی جیسا کہ میں نے بتایا اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کے حیرت انگیز نظارے دکھا رہا ہے۔ کیا یہ نظارے خدا تعالیٰ اُنہیں دکھاتا ہے جن کو وہ اسلام سے خارج کرتا ہے؟ کیا یہ نظارے وہ اُنہیں دکھاتا ہے جن کا وہ مولیٰ اور نصیر نہیں؟ یقینایہ سوچ جاہلانہ سوچ ہے۔
پس آج ہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ وہ مسلمان ہے اور احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے ہمارے مخالفین کی ایک کے بعد دوسری نسل اس دنیا سے گزرتی چلی جائے گی لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کو نہ کبھی نقصان پہنچا سکے ہیں اور نہ پہنچا سکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔نہ یہ لوگ ہم سے کبھی حقیقی مسلمان ہونے کا اعزاز چھین سکے اور نہ چھین سکیں گے۔ ہم مسلمان تھے ، ہم ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ رہیں گے۔ مَیں مخالفینِ احمدیت سے بھی کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے نہ لڑو ۔بعض مخالفین ایسے ہیں جو صرف مولویوں کے پیچھے چل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ پس نام نہاد علماء کی مخالفت کی آواز کے بجائے خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کی آواز کو سنو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو بھی ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے۔ اب اس کے بعد دعا ہو گی، دعا میں خاص طور پرپاکستان کے احمدی جو بڑی تکلیف میں ہیں اُن کو بھی یاد رکھیں اور جہاں جہاں بھی احمدی تکلیف میں ہیں اُن کو یاد رکھیں۔ دنیائے اسلام کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ سب محروموں کے لئے، ضرورتمندوں کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی اپنی منزلِ مقصود تک خیریت سے پہنچائے، آمین۔ دعا کر لیں۔
