خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 30جون2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء:108)اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت پر نظر ڈال کر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی حرف بہ حرف تصدیق ہوتی ہے۔ آپؐ کی رحمت بے پایاں کے نظارے آپ کے سلسلۂ بیعت میں آنے والے صحابہ نے بھی دیکھے اور غیروں نے بھی دیکھے۔ حتیٰ کہ دشمنوں نے بھی دیکھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ تیرہ سال تک دشمنوں کی طرف سے آپ کے ماننے والوں، آپ کے عزیزوں اور خود آپ کو اس ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیاکہ جس کی مثال نہیں ملتی اور پھر آپ کو ختم کرنے کے لئے آپ پر فوج کشی کی گئی۔ لیکن سراپا رحمت و شفقت جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوتے ہیں، جب ظلموں کی داستانیں رقم کرنے والے خود اپنے ظلموں کو یاد کر کے آپ سے چھپتے پھرتے ہیں یا مکہ سے فرار ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کے عزیزوں کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں کہ اگر امن سے رہنے کا وعدہ کرتے ہو تو مکّہ کی گلیاں اور بازار اور گھر آج بھی تمہیں آزادی سے رہنے کا حق دیتے ہیں۔ آج تمہارا واسطہ اللہ تعالیٰ کے اُس عظیم رسول سے پڑا ہے جو رحمۃٌ للعالَمین بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پس آج یہ عظیم رسول تمہارے تمام سابقہ ظلموں کو معاف کرتے ہوئے تمہیں اس شہر میں امن سے رہنے کی اجازت دینے کا اعلان کرتا ہے اور یہ حُسن ِ سلوک دیکھ کر دشمن یہ اعلان کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ واقعی آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور خدا تعالیٰ نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پس اس سراپا رحمت سے صرف اپنوں نے فیض نہیں پایا بلکہ دشمنوں نے بھی اس کے حیرت انگیز نظارے دیکھے۔ حتیٰ کہ جانور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے فیضیاب ہوئے۔ کہیں اونٹوں پر غیر ضروری بوجھ لادنے سے آپ منع فرما رہے ہیں
(مسند احمد بن حنبل جلد1صفحہ544مسندعبداللہ بن جعفرحدیث نمبر1745مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)
تو کہیں چڑیا کے انڈے اٹھائے جانے کے ظلم سے آپ اپنے ساتھیوں کو منع فرما رہے ہیں
(مسند احمد بن حنبل جلد2صفحہ 76،77مسند عبداللہ بن مسعودحدیث نمبر3835مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998)
تو کہیں چیونٹیاں جن کو مسلنے سے انسان گریز نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے فیض پارہی ہیں۔
(سنن ابی داؤدکتاب الجھادباب کراھیۃ حرق العدوبالنارحدیث نمبر2675)
پس یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ رحمۃ للعالمین ہیں جن سے ہر ایک نے فیض پایا اور پھر صرف مادی، دنیاوی، اورمعاشرتی زندگی سے تعلق رکھنے والی باتوں میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے چشمے جاری نہیں ہوئے بلکہ اس ربّ العالَمین نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃً للعالَمین کہہ کر مخاطب کر کے فرمایا تو پھر اپنی روحانی پرورش کا فیض بھی اس رحمۃً للعالَمین کے ذریعے جاری فرمایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایک ایسی کامل شریعت جاری فرمائی اور قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آپ پر اتاری جو ایک کامل اور مکمل ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف روحانی بلکہ معاشی، معاشرتی، اخلاقی، علمی، سائنسی غرضیکہ ہر پہلو ہر مضمون کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور ایسے مخفی خزانے اس کتاب میں ہیں جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والوں اور رحمۃً للعالمین کے کامل پیروئوں کو ملتے ہیں۔
لیکن اس وقت ہمیں فکر پیدا ہوتی ہے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بھی سنتے ہیں کہ میرے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کچھ عرصہ تو میرے حقیقی متبعین اس آخری کتاب پر عمل کرنے والے ہوں گے لیکن پھر قرآن کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ اس پر عمل کرنے والے مشکل سے ملیں گے۔ علماء کہلانے والے جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قرآن کے علوم و معارف سکھائیں گے، رحمۃ للعالمین کے ذریعے خدا تعالیٰ نے جو ہم پر احسان کیا ہے اس کے خزانے لٹائیں گے لیکن جب ان عالم کہلانے والوں کے پاس لوگ ان علوم و معارف کی تلاش میں جائیں گے تو وہاں جہالت کے سوا کچھ نہیں دیکھیں گے۔ فتنہ و فساد اور خود غرضیوں کے سوا اُن میں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ امن و سلامتی کی تلاش کرنے والا انسان، رحمۃٌ للعالمین کی تعلیم سے فیض پانے کی خواہش کرنے والا انسان، رحمۃ للعالمین کی سیرت پڑھ کر اس سے متأثر ہونے والا انسان، اس بات کی تلاش میں سرگرداں انسان جب علماء کے نمونے دیکھے گا تو اسے پریشانی کے سواکچھ نہیں ملے گا۔ قرآن کریم کے اس دعویٰ کی سچائی دیکھنے کی جستجوکرنے والا انسان کہ یہ کامل اور مکمل کتاب ہے جب علماء کے پاس جائے گا تو خالی ہاتھ آئے گا۔ ایسے میں وہ پریشان ہوگا کہ اگر یہ کتاب سچ ہے اگر اسوئہ حسنہ میں رحمۃ للعالمین نے ہمیں نمونے دکھائے ہیں وہ سچ ہیں تو کیا وہ رحمت و ہ فیض وہ خدا تعالیٰ کے فضل صرف چودہ صدیاں پہلے تک ہی محدود رکھے گئے تھے۔ رحمۃٌ للعالمین کا فیض تو تمام عالَموں اور تمام زمانوں تک پھیلا ہوا ہونا چاہئے تھا۔ کیا اب ہم صرف پرانے قصے کہانیاں پڑھ کر ہی خوش ہو جائیں گے کہ چودہ صدیاں پہلے یہ فیض مسلمانوں نے پایا۔ بلکہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے غیر مسلموں نے بھی پایا۔ کیا ہم صرف اسی پر خوش ہوں گے؟ اب صرف پہلی کہانیاں سنا کر دنیا کو متأثر کریں گے؟ اور پھر ہم اس وقت مزید مایوس ہو جاتے ہیں جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پڑھتے ہیں کہ خلافت تھوڑے عرصے بعد ہی ملوکیت میں بدل جائے گی اور پھر ایک ایسا اندھیرا زمانہ آئے گا جو سینکڑوں سالوں پر محیط ہوگا ۔جیسا پہلے انبیاء کے ماننے والے اور علماء نے دین میں بگاڑ پیدا کردیا تھا مسلمانوں میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ پس اندھیرے زمانے کی اطلاع کی حدیث، علماء کے بگڑنے کی حالت کی خبر اور عملاً یہ سب کچھ دیکھ کر ایک درد مند مسلمان تڑپ کر کہے گا کہ اے اللہ! اے ربّ العالمین! تُو تو سب عالموں کا رب ہے! تُو تو سب زمانوں کا رب ہے۔ تُو نے تو ہر زمانے کی روحانی اور مادی پرورش کرنے کے سامان کا اعلان کیا ہے۔ تو پھر آج ہم اس روحانیت سے کیوں محروم ہیں۔ ہم رحمۃ للعالمین کی رحمت سے فیضیاب کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس وقت ہمارے خدا کی ان حق کے متلاشیوں کو یہ آواز آئے گی کہ اس رحمۃ للعالمین کی اگلی پیشگوئیوں کو بھی تو دیکھو۔ اور جب ہم آگے دیکھتے ہیں تو وہاں محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین کے یہ جانفزا اور دل کو خوش کرنے والے الفاظ نظر آتے ہیں کہ قرآن کریم کے ان الفاظ کو بھی پڑھو کہ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) اور ایک دوسری قوم بھی ہے جو پہلوں سے ملی نہیں لیکن ملے گی اور یہ سب کچھ دیکھے گی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میرے مسیح اور مہدی کی قوم ہے۔ مسیح موعود کا آنا میرا آنا ہوگا۔ اس کے ذریعے سے پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا اجراء ہوگا جو قیامت تک جاری رہے گی۔
(مسند احمدبن حنبل جلد6صفحہ 285حدیث النعمان بن بشیرحدیث نمبر18596مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998)
رحمۃ للعالمین کی رحمت کے نظارے تمہیں ان میں نظر آئیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر چلنے کی کوشش کرنے والوں کے نظارے تم ان میں دیکھو گے۔ قرآن کریم کے علوم و معرفت کے خزانے وہ مسیح موعود لٹائے گا۔ قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے اس کے ماننے والے ہوں گے جس کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق بنا کر بھیجاہے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ایک شان سے پوری ہوئی۔ رحمۃٌ للعالمین کو اپنی امت کے بگڑنے کی جو فکر تھی اس کو ربّ العالمین نے اپنے وعدہ کے مطابق دور فرمایا اور وہ عاشق صادق اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نشانات کے جلو میں دنیا میں آیا اور دنیا میں قرآنی علوم و معرفت کے خزانے لٹاتا ہوا اپنے کام کی تکمیل کرکے اور اپنے بعد خلافت کے نظام کے جاری رہنے کی خوشخبری دے کررخصت ہوا۔
آپ نے خلافت کے نظام کے جاری رہنے اور جماعت کی ترقیات کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کابھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ305)
پھر آپ فرماتے ہیں: خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ (ماخوذازتحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17صفحہ62)
پس آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ جو خدا تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے ذریعہ ترقیات کا وعدہ کیا ہے یہ رحمۃ للعالمین کا ہی جاری فیض ہے تاکہ دنیا اپنے خدا کی پہچان کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے والی ہو۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو سلسلہ احمدیہ کی کامیابی اور خلافت کے نظام کے جاری رہنے کا فرمایا تھا اوریہ خوشخبری دی تھی اس کا ایک ایک لفظ سچ نکل رہا ہے۔ دشمن نے خلافت اولیٰ میں سمجھا کہ بڑی عمر کا کمزور شخص خلیفہ بنا ہے اب جماعت ختم ہوئی کہ اب ختم ہوئی۔ لیکن اس کمزور شخص نے جو دنیا کی نظر میں کمزور تھا خلافت کے نظام کو اس طرح مضبوط بنیادوں پر قائم کیا کہ مخالفین احمدیت حیران و پریشان ہوگئے۔ پھر خلافت ثانیہ کا دور آیا تو یہ سمجھے کہ ایک نوجوان ہے اس نے جماعت کو کیا سنبھالنا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جماعت کے جوبہت سے سرکردہ افراد تھے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خلافت کا انکار کرتے ہوئے خلافت کی بیعت سے باہر نکل گئے۔ لیکن خلافت ثانیہ کا باون سالہ دور گواہ ہے کہ وہ دور دنیا میں جماعت کی ترقیات اور جماعت کے اندر انتظامی مضبوطی کا ایک شاندار دور ثابت ہوا ۔ پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا تو جہاں خدمت انسانیت کے نئے راستے کھلے جماعتی ترقیات نے نئی راہیں دیکھیں وہاں مخالفین احمدیت نے حکومت اور طاقت کے زور پر قانوناً جماعت کی ترقیات کو روکنے کی مذموم کوشش کی۔ لیکن یہ قافلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ پھر خلافت رابعہ کا وقت آیا تو دشمن نے اپنے زعم میں جماعت کے ہاتھ پائوں کاٹ دیئے۔ لیکن جن ہاتھوں اور پائوں کے سلامت رہنے کی خدا تعالیٰ نے ضمانت دی ہوئی تھی اس کو دشمن کس طرح کاٹ سکتا تھا۔ جماعت نے ترقی کی نئی منازل طے کیں اور دنیا کے ایک حصے میں MTA کے ذریعے سے احمدیت کا پیغام پہنچنا شرو ع ہو گیا۔ اور دشمن جو جماعت کے ہاتھ پیر کاٹنے کی کوشش میں تھا وہ خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آکر فنا ہو گیا۔ پھر خلافت خامسہ کا دور آیا تو پھر بعض غیروں کی نظریں اس طرف ہوئیں کہ اب دیکھتے ہیں جماعت کی حالت کیا ہوتی ہے۔ لیکن وہ خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تسلی دلائی تھی کہ خلافت کے نظام کے ذریعے جماعت کی ترقی ہوگی، وہ خدا جس نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خلافت علی منہاج النبوۃ کی خوشخبری دی تھی تاکہ اس ذریعے سے دنیا رحمۃ للعالمین کے جاری چشمے سے فیضیاب ہوتی رہے اس نے مجھ جیسے کمزور اور کم علم انسان کے ذریعے سے جماعتی ترقیات کے نئے دروازے کھولے۔ رحمۃ للعالمین کے پیغام کو دنیا کے ہر طبقے تک پہنچانے کا کام میرے ذریعے سے بھی اور افراد جماعت کے ذریعے سے بھی خدا تعالیٰ نے کروایا۔ جیسا میں گزشتہ خطبوں میں بھی پہلے بتا چکا ہوں کہ گزشتہ دنوں امریکہ اور کینیڈا کے دوروں میں میڈیا کے ذریعے دو کروڑ سے زائد افراد تک اسلام کا خوبصورت پیغام اور رحمۃ للعالمین کی خوبصورت سیرت پہنچانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔
یہاں جرمنی میں بھی اس دورے میں مسجدوں کے افتتاح میڈیا نے، اخباروں اور ٹیلیویژن نے گزشتہ دوروں کی نسبت زیادہ کور(cover) کئے ہیں۔دنیا نے جب اس محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین کی زندگی پر حملے کئے اور اسلام کو بدنام کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دینے کے بھی نئے راستے کھول دیئے۔ نئے راستے سمجھائے، نئے طریقے سمجھائے۔ اسلام کی امن پسند اور بھائی چارے کی تعلیم دنیا کو بتانے کی بھی توفیق ملی۔ گزشتہ دنوں میں نے برٹش پارلیمنٹ میں دوبارہ خطاب کیا تو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی بتائی۔وہاں علاوہ دوسروں کے ایک پاکستانی جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ ایک پاکستانی اردو اخبار کے نمائندے ہیں یا وہاں لندن کے ایڈیٹر ہیں وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ ان کو میں نے کہا کہ تم پاکستان میں تو ہمیں غیر مسلم کہتے ہو۔ اب میں تمہیں مانوں گا کہ اگر تم صحیح انصاف پسند جرنلسٹ ہو تو اپنے اخبار میں یہ لکھو کہ مرزا مسرور احمد نے برٹش پارلیمنٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی۔ پس یہ لوگ جو گھر بیٹھے ختم نبوت کے نعرے لگاتے ہیں یہ نہ ہی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ختم نبوت دنیا کو بتا سکتے ہیں اور نہ ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ بتا سکیں اور نہ اتنا علم ہے کہ بتا سکیں۔ پس آج احمدی ہی ہیں جو اس کام کو لے کر اٹھے ہوئے ہیںاور یہ بیڑا ہم نے اٹھایا ہے اور ہم ہی ہیں جنہوں نے اس کو انشاء اللہ انجام تک پہنچانا ہے۔
آج دنیا کا میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ یہ اسلام جو جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہر ایک کے علم میں آنا چاہئے کیونکہ یہ دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ یہ دنیا میں محبت اور بھائی چارہ پھیلانے کی ضمانت ہے۔ بلکہ بہت سا پڑھا لکھا طبقہ اور بعض سیاسی لیڈروں نے بھی کہا کہ اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہمارے سامنے کبھی بھی نہیں آئی۔ کینیڈا میں ایک اخبار کے نمائندے نے یا اخبار کے مالک نے جنہوں نے ڈینش کارٹونوں کو لے کے بھی اپنے اخبار میں شائع کیا تھا، وہ بھی اس پریس میٹنگ میں آیا ہوا تھا۔ اس نے اب اپنے اخبار میں آرٹیکل لکھا اور اس نے یہ کہا کہ میں اسلام کے خلاف بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔ لیکن آج مرزا مسرور احمد نے مجھے جو اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دکھایا ہے اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام امن پسند مذہب ہے۔ بلکہ بعض فنکشنز میں مسلمان پڑھا لکھا طبقہ بعض اسلامی ملکوں کے قونصلیٹ اور ایمبیسیڈر وغیرہ بھی اور ایسی تنظیمیں جو شدت پسندی کے خلاف ہیں ان کے سربراہان بھی، ان کے مسلمان لیڈر بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے مجھے کہاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کے جوابات ہمیں نہیں آتے تھے اور ہم ٹال مٹول سے کام لیتے تھے۔ کھل کے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ آج تم نے یہ جواب دے کر اور ہمیں سمجھا کر ہمارے سر اونچے کردیئے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا کوئی چھوٹے ملک نہیں ہیں۔ فاصلوں کے لحاظ سے ملک کے ایک حصے سے دوسرے تک بذریعہ جہاز سفر کریں تو بھی چار پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں یا اس سے زیادہ بھی لگ جاتا ہے اور ایک حصے سے دوسرے حصے میں وقت کا فرق بھی دو تین گھنٹے سے زائد تک کا ہے۔ یورپ میں تو اتنے فاصلے میں چار پانچ ملک آجاتے ہیں جتنا وہ ایک ملک ہے۔ پس وہاں کے ہر طبقے تک یہ پیغام پہنچنا خلافت احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کی دلیل ہے۔ امریکہ کے دو بہت بڑے اخباروں اور کینیڈا کے ٹی وی چینل جو پورے ملک کو کور(cover)کرتا ہے بی بی سی کے برابر ہے۔ ان ٹی وی چینلز اور اخباری نمائندوں کو میں نے یہ بھی کہا تھا کہ آج تم اسلام کے پیغام کو نہیں مانو گے تو تمہاری نسلیں ضرور اس کی آغوش میں آئیں گی۔ یہی ایک مذہب ہے جسے رب العالمین نے رحمۃ للعالمین کے ذریعے دنیا کی بھلائی کے لئے بھیجا ہے۔
لیکن ہم جو احمدی کہلاتے ہیں، جو رحمۃ للعالمین کے غلام صادق کے ماننے والوں کی جماعت ہیں،ہم جو اس بات کو لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے دنیا کو تباہی سے بچانا ہے ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا جو خدا تعالیٰ کو بھول رہی ہے جو خدا تعالیٰ سے دور ہٹ رہی ہے یہ کوئی نئی حالت نہیں ہے یہ دور آتے رہتے ہیں۔ جب یہ حالت آج سے چودہ سو سال پہلے تھی تو رحمۃٌ للعالمین کی راتوں کی نیندیں ختم ہوگئی تھیں، دل بے چین تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ کیا تُو اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔(سورۃ الشعراء:4)
پس اگر آج ہم رحمۃٌ للعالمین سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں بھی دنیا کو خدا تعالیٰ کے آگے جھکانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس زندہ خدا کے آگے جھکنے والا بنانے کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے جو ہماری کوششوں سے زیادہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سے کئے گئے وعدے کے مطابق کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘(تذکرہ صفحہ260ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)خود ہی ایسے سامان پیدا فرما رہا ہے کہ اسلام کا پیغام اس کی حقیقی روح کے ساتھ دنیا میں پھیل رہا ہے۔ وہی مثال ہے کہ ہم تو صرف لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا غیر معمولی طور پر میڈیا کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر طبقے تک یہ پیغام پہنچا رہا ہے۔
کئی لوگ سفر کے دوران مجھے ملتے ہیں۔ امریکہ میں بھی دوردراز علاقوں میں بعض جگہوں پر میں گیا ہوں، کہیں سیر پر جائوں، یا سروسز پر پیٹرول اسٹیشنوں پر اگر کھڑے ہو تو بعض لوگ ملتے ہیں کہ ہم نے تمہارے بارے میں ، تمہارے پیغام کے بارے میں فلاں اخبار میں پڑھا تھا یا انٹرنیٹ پر پڑھا تھا۔ یا فلاں خبر میں دیکھا تھا۔ تو ان کو مزید لٹریچر دینے کا موقع مل جاتا ہے اور تعارف بڑھتا ہے۔پس یہ چیز ہے، ہماری کوشش تو بے شک معمولی ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ خودبخود ایسے راستے کھول رہا ہے جس سے تبلیغ کے میدان بھی وسیع تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ خود نیک فطرتوں کو،مسلمانوں میں بھی اور غیروں میں بھی، رحمۃٌ للعالمین کی حقیقی تعلیم کے ساتھ جڑنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ مسلمانوں میں سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو اس بات کی تلاش میں ہیں کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیم کہاں پائیں۔ رحمۃٌ للعالمین کا حقیقی اُسوہ کہاں دیکھیں۔ اور غیر مسلموں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو دل کے سکون اور چین کے لئے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے بے چین ہیں۔ ایسے لوگ جن تک ہمارا پہنچنا مشکل ہو ان تک خود خدا تعالیٰ پہنچتا ہے۔ یا پھر ایسے بھی لوگ ہیں جن کے دل کسی دلیل سے قائل نہیں ہوتے ان کو بھی خدا تعالیٰ خود راہنمائی فرماتا ہے۔ پس جس طرح ہمارے آقا کا دل بے چین تھا کہ کیوں لوگ ہدایت کی طرف نہیں آتے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس آقا کے غلام کا دل بھی بے چین تھا۔ انہوں نے بھی رو رو کر بڑی دعائیں کیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بڑی گریہ و زاری کی کہ دنیا ہدایت پاجائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ایک قانون اس طرح بھی چلتا ہے کہ اپنے وقت پر ان دعائوں کے طفیل کچھ نیک فطرتوں کو ہدایت دیتا ہے۔ ان دعائوں کو سنتا ہے اور لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی چند مثالیں اور نمونے بھی میں نے لئے ہیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بے شمار ہزاروں نمونے ایسے ہوتے ہیں چند ایک مثالیں مَیں دیتا ہوں۔
بورکینا فاسو جو افریقہ کا ایک دور دراز ملک ہے وہاں Tenkodogo ریجن ہے۔ اس کے گائوں میں ایک ہمارے مسلمان دوست وارے ادریس صاحب ہیں، ان سے بحث ہو رہی تھی۔ تو انہی دنوں میں انہوں نے ایک خواب دیکھی کہ وہ ایک ہجوم میں کھڑے ہیں اور حیرانی سے دیکھ رہے ہیںکہ اتنی زیادہ مخلوق اکٹھی ہے۔ اسی اثناء میں دیکھا کہ اس جم غفیر کے درمیان ایک شخص نہایت سفید پگڑی سر پر باندھے کھڑا ہے۔ ساتھ ہی ان کو آواز آئی کہ یہ مہدی ہیں اور یہ سب مہدی کے ماننے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں آنکھ کھلنے پر میں سمجھ نہ سکا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ مگر معلم صاحب تھے الیاس صاحب جن سے ان کی یہ بحث ہوتی تھی ان کے منہ سے انہوں نے مہدی کا لفظ بار بار سنا تھا ۔ تو فوراً معلم صاحب کے گھر گئے اور کہا کہ تم کسی مہدی کی بات کیا کرتے تھے ان کی تصویر تو دکھائو۔ اور جب تصویر دیکھی تو اللہ اکبر پکار اٹھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویردیکھ کر کہا کہ یہی وہ مہدی ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوگئے۔
فرانس کے ایک نو احمدی وقاص صاحب کی والدہ نے خواب بیان کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ میں نماز ادا کررہی تھی۔ میرے آگے ایک باریش شخص کھڑا ہے اور کچھ نہیں کہتا۔ یہ خواب پانچ چھ سال قبل کا ہے۔ کہتی ہیں کہ ایک سال پہلے میں اپنے بیٹے کے ساتھ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ یہی وہ بزرگ تھے جن کو پانچ چھ سال قبل میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ اس پر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جلسہ سالانہ کے پروگرام میں خلیفہ وقت کو دیکھا۔ ان تمام واقعات نے میری زندگی پر گہرا اثر کیا۔ جب واپس آئی تو میں نے بیٹے سے کہا اب مجھے احمدی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چنانچہ یہ خاتون بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوگئیں۔
ناروے کا ایک واقعہ ہے، پرانا واقعہ ہے کہ آٹھ دس سالقبل کا میرا خطبہ لگا ہوا تھا ۔ایک غیر از جماعت دوست نے فون کیا اور ملنے کی خواہش کی۔ ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ خطبہ جمعہ سن کر ان میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور ان کی دنیا ہی گویا بدل گئی ہے۔ انہیں دعوۃ الامیر اور چند کتب دی گئیں اور چند دنوں کے بعد انہوں نے بیعت پر اصرار کیا۔ ان پر واضح کیا گیا کہ احمدیت کے قبول کرنے کے بعد بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ محض خدا کی خاطر اس صداقت کو اپنانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔
پھر گیانا کا ایک واقعہ ہے ۔ وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر پولیس دس سال قبل پہلے عیسائی تھے پھر مسلمان ہوئے۔ کچھ سال پہلے جب ان کو احمدیت کا تعارف ہوا تو بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ بیعت کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ قرآن کریم میں خلافت کا ذکر ہے جو کہ سوائے جماعت احمدیہ کے کہیں اور نہیں ہے۔ پس یہی سچی جماعت ہے۔ اب ان کے پاس یہ مضبوط دلیل ہے ۔ جب مسلمانوں سے گفتگو ہو تو یہی کہتے ہیں احمدیت کا ایک خلیفہ ہے اگر تم خلیفہ پیش کرسکتے ہو تو بات ہوگی۔ جس پر دوسرے مسلمان لاجواب ہو جاتے ہیں۔
بلغاریہ میں بھی مخالفین نے مخالفت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ہمارے بعض احمدی احباب کو مفتی بلغاریہ کے آدمیوں نے لالچ وغیرہ دے کر جماعت سے انکار کرنے کے لئے بھی کہا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام جماعت تمام احباب نہ صرف ایمان پر قائم ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر اخلاص کا نمونہ دکھا رہے ہیں اور خلافت احمدیہ کے ساتھ وفا کا تعلق ثابت کررہے ہیں۔ ایک خاتون تھیں ان کے پاس تین افراد گئے اور جماعت سے انکار اور اپنے ساتھ شامل ہونے اور مدد کرنے کا کہا۔ اس پر ہماری اس مجاہدہ نے کہا کہ احمدیت سچی ہے اور میں اپنے خلیفہ سے مل کر آئی ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے تین چار خوابیں دکھائی ہیں اور بتا دیا ہے کہ یہ جماعت سچی ہے اس لئے اسے چھوڑنے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر الجزائر کی ایک خاتون ہیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میں افراد خانہ کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہوں اور چینل گھما رہی ہوں کہ اچانک مجھے ایم ٹی اے مل گیا۔ جہاں نومبائعین کے بارے میں کوئی پروگرام ہے۔ معمول سے مختلف ہے۔ وہ پروگرام ایک دریا یا سمندر میں ایک کشتی کے اوپر ہورہا ہے۔ جس میں دو افراد سوار ہیں اور کمپیئر مختلف احباب سے قبول احمدیت کی وجہ پوچھ رہا ہے۔ کہتی ہیں اس کے بعد مجھے خلیفۃ المسیح الخامس دور سے آتے نظر آئے۔ میں آپ کو بڑی توجہ سے دیکھ رہی ہوں لیکن وہ میرے ارد گرد کے لوگوں سے متوجہ ہوتے ہیں لیکن لوگ کوئی توجہ نہیں کرتے۔ میں اپنے دل میں کہتی ہوں کہ یہ لوگ توجہ کیوں نہیں کرتے۔ اتنے میں مجھے ایک غیر معمولی آواز سنائی دیتی ہے جو میرے دل اور کانوں کویہ کہتے ہوئے چیرتی ہوئی گزر جاتی ہے کہ یہ خدا کا نور ہے۔ وہ جس کے دل میں چاہتا ہے اسے ڈالتا ہے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ سننے کے بعد میں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَاوَمَا کُنَّا لِنہْتدِیْ لَوْلَا اَنْ ہَدَانا اللّٰہُ اور یہی پڑھتے ہوئے میری آنکھ کھل گئی۔
کبابیر کی ایک مثال ہے کہتے ہیں کہ 2012 ء میں پروگرام مجالس الذکر میں عراق سے ایک دوست شامل ہوئے اور بذریعہ فون اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ چند سال قبل کی بات ہے کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا اور میں عراق میں مسلمانوں کے بدتر حالات کی وجہ سے بہت مغموم اور اداس تھا۔ میں اپنے دل میں کہنے لگاکہ پھر نماز اور روزے وغیرہ اور عبادات کا کیا فائدہ ہے؟ چنانچہ ایک رات بڑے غم کی حالت میں لیٹ گیا۔ اس رات خواب میں ایک صاحب نظر آئے جو بڑی جلالی آواز میں فی البدیہہ تقریر کررہے تھے۔ خواب میں سمجھایا گیا کہ یہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ چنانچہ اثنائے خطاب آ پ نے ایک شعر پڑھا جو اس طرح تھا۔
تَرَکْنَاھٰذِہِ الدُّنْیَا لِوَجْہٍ
وَ اٰثَرْنَاالْجَمَالَ عَلَی الْجَمَالِ
بیدار ہونے پر میں نے فوراً اس شعر کو اس طرح لکھ دیا۔ اس شعر کے علاوہ کوئی اور بات مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اس خواب سے بہت متاثر ہوا۔ اس دن سے اس شعر کی تلاش میں لگا۔ کئی قسم کی کتب اور دیوان دیکھتا رہا۔ مگر کہیں شعر کا کچھ پتہ نہ چلا۔ایک عرصے بعد اتفاقاً ٹی وی چینل سیٹ کررہا تھا کہ اچانک ایک چینل سے اسی شعر کی آواز آئی جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا تھا اور اسی چینل یعنی MTA میں اس قصیدہ کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک شخص کی تصویر نظر آئی۔ یہ بالکل وہی شخص تھا جس کو میں نے خواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روپ میں دیکھا تھا۔ اس تصویر کے نیچے نام تحریر تھا، الامام المہدی والمسیح الموعود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام، اس واقعہ نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ میں ایک ہفتہ تک کانپتا رہا اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوگیا۔
ایک نو مبائع دوست مراکش کے رہنے والے ہیں بیان کرتے ہیںکہ میں نے بچپن میں خواب دیکھا کہ میں دادا اور دادی کے گھر ہوں۔ گھر کا صحن بہت بڑا ہے جس کے آگے گھر کا بہت بڑا دروازہ ہے۔ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں جلدی سے دروازے کی طرف دوڑا کہ سب سے پہلے دروازہ کھولوں۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر ایک بہت خوبصورت آدمی بڑا کوٹ پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں تاکہ وہ اندر داخل ہوجائے۔ جب وہ شخص اندر صحن میں داخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ بہت روشن ہے۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ کچھ عرصہ قبل جب وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے تو چینل گھماتے ہوئے ایم ٹی اے نظر آیا۔ دلچسپی بڑھی اور ایک دن ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی۔ تب انہیں اپنا خواب یاد آیا کہ ہمارے گھر میں بڑا کوٹ پہنے کوئی شخص داخل ہوئے تھے۔ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے۔ تب انہوں نے اپنی فیملی میں سب سے پہلے بیعت کی۔ پھر ان کے بیوی بچوں نے بھی بیعت کرلی۔
پھر اسی طرح سوڈان سے ایک خاتون ہیں ام محمد صاحبہ ۔کہتی ہیں میں نے کافی عرصہ قبل تین خوابیں یکے بعد دیگرے دیکھیں۔ پہلی میں آسمان پر کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِللّٰہ مُحَمّدٌ رَّسَوْلُ اللّٰہ آگ سے لکھا ہوا دیکھا ۔ دوسری خواب میں چاندی کے رنگ سے لکھا ہوا دیکھا۔ اور تیسری خواب میں ایک کمرہ دیکھا جس کے گرد ایک بہت بڑی جماعت ہے اور مجھے کہا گیا کہ اندر جائو تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے دستخط کردیں۔میں داخل ہوئی تو ایک شخص سفید لباس میں ملبوس ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہے لیکن اس کا چہرہ واضح نہیں ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھ سے ایک سفید کاغذ لیا اور اس پر احمد نام سے دستخط کردیئے اور کاغذ مجھے دے دیا۔ جب باہر نکلی تو باہر موجود لوگوں نے پوچھا کہ کیا دستخط کردیئے گئے ہیں۔ میں نے ہاں کہہ کر اثبات میں جواب دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ کہتی ہیں میں اس دن سے خدا سے دعا کررہی ہوں کہ اس راز کو منکشف کرے۔ پھر میں نے حال ہی میں جب اپنے خاوند کو بتایا تو انہوں نے یہ تاویل کی کہ اس سے مراد بیعت ہے۔ میں شروع میں ان لوگوں سے متعجب ہوتی تھی اور ان کے بارے میں پوچھتی تھی جنہیں وہ ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خود مجھے وہ سب سننے میں مزا آنے لگا اور میرا شرح صدر ہوگیا۔
اسی طرح الجزائر سے ایک خاتون ہیں۔ کہتی ہیں دو سال قبل بیعت کی ہے۔ اس سے قبل میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور کبھی حضرت مصلح موعود کو اور کبھی خلیفہ رابع کو خوابوں میں دیکھا کرتی تھی۔(کیونکہ ہو سکتا ہے ٹیلیویژن کے ذریعے پہلے انہوں نے دیکھ لیا ہو۔) کہتی ہیں کہ ایک خواب میں نے دیکھی کہ میں مسجد میں ہوں جس کی کھڑکیاں اور دروازے سبز رنگ کے ہیں۔ یہ خوابوں کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ میرے بھائی نے جب بیعت کی تو میں نے کہا کہ روز نئی جماعت آجاتی ہے۔ یہ سب افتراء ہیں اور بجائے توحید اور اتحاد کے ملت فرقوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ لیکن جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ قرآن کریم کی مدح میں ’’لَمَّاأرَی الْفُرْقَان…‘‘سنا تو میں نے کہا اس ترتیب سے مختلف حروف کا قصیدے میں استعمال کرنا اس زمانے میں اور اس عمدگی اور مہارت سے کسی شاعر یا کاتب کا کام نہیں ہے اور ناممکن ہے کوئی ایسا قصیدہ لکھ سکے جو اپنے الفاظ اور ترتیب اور انداز میں جاہلی دور میں لکھے گئے فصیح و بلیغ اشعار سے بھی بالا ہے۔ بہرحال میں نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی اور ان خوابوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ ایک خواب میں دیکھا کہ میں ایک مسجد میں ہوں جس کی بہت سی کھڑکیاں اور دروازے ہیں اور اس کا رنگ سبز ہے اور بالکل وہی منظر ہے جو میں نے ایم ٹی اے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کا دیکھا جو مسجد کے ساتھ ملحق ہے۔ اس کے ایک سال کے بعد میں نے کمپیوٹر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو مجھے وہم لگا کیونکہ جو پہلے شخص دیکھا تھا اور یہ شخص مجھے آپس میں بہت مشابہ لگے۔ اس پر میں نے استخارہ کیا تو دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی کشتی پر سوار ہوں اور میرا دم گھٹ رہا ہے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے بیعت کرلی۔
پھر یمن سے ایک خاتون ہیں مجھے لکھتے ہوئے کہتی ہیںکہ بیعت سے قبل خلافت اور خلفاء کے بارے میں گاہے بہ گاہے خوابیں آتی تھیں اور بعض خلفاء سے ملاقات ہوتی تھی جن میں آخری حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ہوئی جو مجھے بعد میں علم ہوا کہ خلیفہ رابع ہیں۔ پہلے شکل دیکھتی رہی لیکن علم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ بعد میں پتہ لگا کہ وہ ہیں۔ ان خوابوں کے بعد میں خود سے سوال کرتی اور میاں سے بھی ذکر کرتی کہ کیا دوبارہ خلافت قائم ہو سکتی ہے؟ تو یہی جواب ملتا کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے والی اور کئی اختلاف رکھنے والی جماعتوں میں تو بہرحال خلافت نہیں ہو سکتی۔ ایک خواب میں دیکھا کہ ایک مسکراتے ہوئے خوش و خرم شخص آئے ہیں اور انہوں نے میری طرف بڑی شفقت اور مہربانی سے دیکھا اور بڑی وضاحت سے سورۃ اخلاص پڑھی جو میں نے بھی دوہرائی۔ پھر انہوں نے سورۃ ابراہیم پڑھی جو پہلی طرح واضح نہیں تھی۔ کہتی ہیںاس کے ایک ہفتے بعد اتفاق سے ایم ٹی اے تھری (3) پر اس شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ لیکن جب سنا کہ مسیح موعود اور مہدی ہونے اور وحی کے نزول کے مدعی ہیں تو اسی ایک بات کو ان سے اعراض کے لئے کافی سمجھا اور چینل چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر خواب میں آئے اور فرمایا کہ مجھے وحی ہوتی ہے اور میں مہدی ہوں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو سچا نہیں سمجھتی اور یہ کہہ کر آپ کو چھوڑکر جانے لگی تو آپ نے دعا کے لئے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے اور عابدانہ حلیہ میں کہا کہ میرے بارے میں یونہی فیصلہ نہ کرو بلکہ میں جو پیغام لایا ہوں اسے سنو۔ اس کے بعد میں نے باقاعدہ ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا۔ اور میرے میاں نے کتابیں ڈائون لوڈ کیں جن کے مطالعہ کے بعد میرے لئے تقویٰ سے کام لیتے ہوئے آپ کی تصدیق کے سوا کوئی گنجائش نہ رہی۔ خدا کی قسم میں نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق پایا اور بیعت کا فیصلہ کرلیا۔ بیعت سے قبل میں نے تیسری بار خواب میں دیکھا گویا قیامت آگئی ہے اور پہاڑ اڑائے جا رہے ہیں اور زمین اندر دھنس گئی ہے۔ میں اس حال میں بعض لوگوں کو اور چرنے والے جانوروں کو اکٹھا کر رہی ہوں۔ لوگ بڑی تضرع سے خدا کے حضور دعا کررہے ہیں اور اپنے نجات دہندہ مہدی علیہ السلام کا انتظار کررہے ہیں۔ اچانک آپ مجھے کسی قدر فاصلہ پر نظر آ جاتے ہیں۔ میں آپ کی طرف بڑھنے لگتی ہوں۔ تو ایک بڑے خوفناک سانپ نے میرا راستہ روکا۔ جس کے کئی منہ تھے لیکن میں سیدی و حبیبی حضرت احمد علیہ السلام کی طرف آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے تھی۔قبول احمدیت کے بعد مجھے ایک قریبی کا فون آیا جس نے مجھے کافر کہا اور حدیث سنائی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمہیں ایک سفید راستے پر چھوڑ رہا ہوں جس سے سوائے ہلاک ہونے والے کے کوئی نہیں ہٹے گا۔ اس حدیث کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا اور میں ڈر گئی کہ گمراہ نہ ہو جائوں۔ چنانچہ میں نے خوب تضرع سے خدا کے حضور دعا کی اور مجھے یقین تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے خائب و خاسر نہیں کرے گا۔ الحمد للہ کہ اسی رات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نئے دل لبھانے والے لباس میں دیکھا۔ آپ نے مجھے بڑی تاکید سے فرمایا۔ مَیں مسیح موعود ہوں میرے پیغام کی تبلیغ کرو۔ اس راہنمائی پر میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اگلے دن وہی شخص ایک اور آدمی کے ساتھ ہمارے گھر آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیں اور چلا گیا۔ اگلے دن اس کے بیٹے نے بتایا کہ وہ شخص بستر پر پڑا ہے اور حالت بہت تشویش ناک ہے اور اس نے اپنے باپ کو پہلے کبھی اس حالت سے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ بھی بعض دفعہ ساتھ ہی قرض چکا دیتا ہے۔
بیت المقدس کے ایک حسام صاحب ہیں۔ کہتے ہیںکہ تقریباً دس سال قبل مَیں ایک بہت ایماندار صوفی تھا اور خدا تعالیٰ سے مجھے بہت زیادہ محبت تھی تاہم میرا کسی سیاسی یا مذہبی فرقے یا جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا اور شدت محبت الٰہی کی وجہ سے قریب تھا کہ میں ہوش کھو بیٹھوں۔ اسی حالت میں مَیں نے خود سے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح اگر مومنوں کے دلوں کو لبھانے والے ایک نغمے میں ڈھل جائے تو کیسی لگے۔ تو اس سوال کا جواب خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب میں اس طرح ملا کہ میں نے خود کو بلند فضا میں مختلف سیاروں کے درمیان پایا۔ جہاں اچانک مجھے ایک عجیب سریلی آواز میںلَا اِلٰہَ اِللّٰہ مُحَمّدٌ رَّسَوْلُ اللّٰہ کی آواز سنائی دی۔ یہ مسحور کن اور لذت بھری آواز میرے کانوں میں رچ بس گئی۔ پھر چند ماہ قبل مختلف چینل بدل رہا تھا کہ ایم ٹی اے العربیہ پر آپ کی پیاری آواز سنی تو میں نے فوراً پہچان لیا کہ وہ جو تسبیح کی مسحورکن آواز میں نے سنی تھی وہ یہی پیاری آواز تھی وہ آپ ہی کی تسبیح کی آواز تھی۔ پھر میں نے اسی چینل پر حضرت امام مہدی مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی اور یہ عین اس شخص کی تصویر تھی جسے میں نے اسی عرصے میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے دیکھا تھا اور اس نے عربی چوغہ پہنا ہوا تھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اس دیکھنے کے انداز سے مجھے ایسے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کیونکہ میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ ایک اندازہ ہی تھا۔ اس کے کافی عرصہ کے بعد دیکھا تھا کہ میں ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوں لیکن ساتھ ہی دیکھتا ہوں کہ بکثرت لوگ ہمارے سے برعکس طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری طرح منظم نہ کھڑے تھے بلکہ ایسے تھے کہ گویا وہ کسی بازار میں ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا قبلہ بھی ہم سے مختلف تھا۔ میں ڈرا کہ کہیں میں اور میرے ساتھ والی جماعت ہدایت سے ہٹ تو نہیں گئے۔ لیکن پھر مجھے خواب کے ذریعے خدا تعالیٰ نے تسلی کرائی اور میں نے دیکھا کہ میری روح جسم کو چھوڑ کر بلند آسمانوں کی طرف چلی گئی ہے اور میں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور آنکھوں سے شدت فرحت سے آنسو بہنے لگے۔ آج بیعت کی قبولیت کا خط وصول کر کے ان خوابوں کی تعبیر سمجھ آگئی۔یہ پچھلے سال 2012 ء کی بات ہے۔
ڈنمارک کے اخبار میں توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کے تعلق میں جو مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت پر کئی خطبات دیئے تھے ان کے متعلق امیر صاحب بورکینافاسو بیان کرتے ہیں کہ آپ کے خطبات ہم نے لوکل زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ اپنے ریڈیو اسٹیشن پر نشر کئے۔ ان خطبات کو سن کر ایک عیسائی شخص نے کہا کہ میں اگرچہ مذہباً عیسائی ہوں لیکن جس عمدہ انداز سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سننے کو ملا ہے اس سے میرا دل اسلام کے قریب ہوا ہے۔ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تصویر آج مجھے دکھائی گئی ہے اگر یہ واقعی سچ ہے تو خدا کی قسم اسلام جیسا مذہب دنیا میں کوئی نہیں۔ ان کے گرد بہت سے مسلمان بھی بیٹھے تھے۔ ان صاحب نے کہا کہ آج اگر میں عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوتا ہوں تو سوائے احمدیت کے میں کہیں اور نہیں جائوں گا کیونکہ جب بھی ان کا پروگرام سنا ہے دل ہمیشہ مطمئن ہوا ہے۔ جو مسلمان قریب بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ احمدیت تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارتی ہے آپ کیسے ان کو سچا مان رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ جو کچھ آج میں نے سن لیا ہے اس نے میرے دل کو پھیرا ہے اس سے قبل میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بھی سننا پسند نہیں کرتا تھا اور ہمیشہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو Terrorist سمجھتا تھا اور آج اس پروگرام کے بعد مجھے حقیقی چہرہ دکھائی دیا ہے اور میرا دل بدل گیا ہے۔
پھر برکینا فاسو کے امیر صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان نے یہاں بیعت کی ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ کی بیعت کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ اس بات پر غور کرتا تھا کہ آخر کیوں سب مسلمان صرف احمدیوں کے خلاف ہیں۔ ایک روز میں ریڈیو احمدیہ پر خلیفۃ المسیح کا نیا خطبہ سن رہا تھا جس میں انہوں نے کارٹونوں کے مغربی پروپیگنڈا کا جواب دیاتھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو اپنانے کی نصیحت فرمائی تھی۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ اس قدر حکمت اور دانائی کی نصیحتیں تو آج تک کسی مولوی نے ہمیں نہیں کیں۔ چنانچہ میں نے ریڈیو پر ہر ہفتے خلیفۃ المسیح کا خطبہ جمعہ سننا شروع کردیا اور باقاعدگی سے سنتا رہا۔ ان خیالات نے میری کایا پلٹ دی اور میں نے بیعت کرلی۔ مجھے میرے سوالات کا جواب مل گیا کہ سب اس لئے احمدیوں کے مخالف ہیں کہ یہ اصل میں خدا تعالیٰ کی ہی جماعت ہے اور یہی سچوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ پس کیا یہ کسی انسان کا کام ہے کہ یوں مجبور کر کے لوگوں کے دلوں کو احمدیت کی طرف مائل کرے، حقیقی اسلام کی طرف مائل کرے۔ یہ ثابت کرے کہ رحمۃ للعالمین کا فیض تمام زمانوں تک جاری ہے۔ آج نیک فطرتوں کی راہنمائی فرما کر اللہ تعالیٰ اپنے رب العالمین ہونے کا ثبوت دے رہا ہے، یہ ثابت کررہا ہے کہ روحانی پرورش کے سامان بند نہیں ہوگئے۔ یا کیایہ دلی خواہشات کسی جادو کا اثر ہے؟ یقینا یہ رحمۃ للعالمین کے ساتھ رب العالمین کے وعدوں کا نتیجہ ہے کہ وہ سب طاقتوں کا مالک خدا تا قیامت انسانیت کو شیطان کے پنجے سے بچانے کے لئے راہنمائی فرماتا رہے گا۔ اس جماعت میں شامل کرتا رہے گا جو رحمۃ للعالمین کے حقیقی غلام کی جماعت ہے تاکہ دنیا کے سب پاک فطرت رحمۃ للعالمین کے رواں فیض سے بھی حصہ پاتے رہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس راہنمائی کے ساتھ جو وہ خود پاک فطرت لوگوں کی کر رہا ہے، ان لوگوں کی راہنمائی کر رہا ہے جن پر اس کی رحمت کی نظر ہے، ہماری بھی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ اپنے عملوں سے اور اپنی تبلیغ سے رحمۃ للعالمین کے پیغام کو دنیا تک پہنچا کر اسے تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچائیں۔ اپنی سجدہ گاہوں کو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا ذریعہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کے لئے اپنی سجدہ گاہوں کو اپنے آنسوؤں سے تر کرتے رہیں۔ انسانیت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ایک تڑپ اپنے اندر پیدا کریں۔
پس اے غلامانِ مسیحِ محمدی! اے رحمۃ للعالمین کے عاشق صادق کے غلامو! اور اے رحمۃ للعالمین کی محبت کا دم بھرنے والو! اٹھو اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے ساتھ اپنی سوچوں کو ملائو، اپنے عملوں کو ملائو، اپنی دعائوں کو ملائو اور دنیا میں جلد تر رحمۃ للعالمین کا جھنڈا لہرانے میں حصہ دار بن جائو ۔
یہ تڑپ آج جرمنی میں رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ضروری ہے اور امریکہ میں رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ضروری ہے اور کبابیر کے رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ رحمۃ للعالمین کی انسانیت پر رحمت کی تڑپ کا ادراک ہم نے عرب کو بھی کروانا ہے اور عجم کو بھی کروانا ہے۔ یورپ کو بھی کروانا ہے اور امریکہ کو بھی کروانا ہے اور دنیا کے ہر خطے کو کروانا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے جمعہ پر بھی ذکر کیا تھا امریکہ اور کبابیرکے بھی جلسے ہو رہے ہیں۔ان کے افراد جماعت اس وقت اپنے ممالک میں اپنی جلسہ گاہوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور جنہوں نے اپنے جلسوں کے ذکر اور پیغام کا بھی آج مجھے کہا ہے۔ تو اس کا فائدہ تبھی ہے جب محسن انسانیت اور رحمۃٌ للعالمین کا خوبصورت چہرہ اپنے ملک کے ہر فرد کو دکھانے کا عہد کریں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو اپنے ملک کے چپے چپے میں پھیلانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اب دعا کر لیں۔ نعرے بعد میں لگائیں۔ پہلے دعا کرلیں ۔(آمین)
