خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع مجلسِ شوریٰ انگلستان 2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ۔اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ۔أِنۡ یَّنۡصُرۡ کُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ج وَأِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنم بَعۡدِہٖ ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ آل عمران آیت160۔161)

بعد ازاں حضورِ انور نے ان آیات کا انگریزی ترجمہ بیان فرمایا۔ ذیل میں اس کا اردو ترجمہ درج ہے۔

ترجمہ:’’پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے توُ ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر توُ تُند خُو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دور بھاگ جاتے۔ پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکّل کر۔ یقینًا اللہ توکّل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اگر اللہ تمہاری نصرت کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے خلاف تمہاری مدد کرے گا؟ اور چاہئے کہ مومن اللہ ہی پر توکّل کریں۔‘‘(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ )

حضورِ انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جماعتِ احمدیہ انگلستان کی مجلسِ شوریٰ کا آج اختتام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیاتِ قرآنی میںشوریٰ کی اہمیت اور لوگوں سے حسنِ معاملہ کرنے کا مضمون بیان فرمایا ہے نیز اس سلسلہ میںکچھ ہدایات بھی دی ہیں۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس نے اپنی خاص رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے تیرے دل میںتمام مخلوق کے لیے نرمی اور شفقت کا خاصہ رکھ دیا ہے۔ یقینا اگر آپؐ    کا دل سخت گیر ہوتا تو لوگ اس طرح آپ ؐکے ارد گرد محبت و عقیدت کے ساتھ ہر گز جمع نہ ہوتے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بھی آگاہ فرمادیا کہ آپؐ کے متبعین غلطیاں بھی کریں گے اور پھر آپؐ کے پاس معافی کے خواستگار ہوتے ہوئے بھی آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم کا سلوک فرماتے ہوئے انہیں معاف کر دینا چاہیے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے انتظامی معاملات میں مشورہ کرنا چاہیے۔ اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے لوگ جن سے ماضی میں غلطیاں ہوئیں ان کا مشورہ بالکل تسلیم ہی نہ کیا جائے یا ان پر غور ہی نہ کیا جائے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے فرمایاکہ بظاہر تو یہ ہدایات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہیں لیکن درحقیقت یہی ہدایات خلیفۂ وقت کے لیے بھی اورپھرجماعتی عہدیداران کے لیے بھی ہیں۔اس لیے وہ تمام عہدیدران جن کے نام الیکشن میں پیش کیے گئے ہیںیا جن کی منظوری میری طرف سے آئے گی انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ وہ اپنے ماتحت عہدیداران اور دیگر ممبرانِ جماعتِ احمدیہ سے محبت، شفقت ،لحاظ اور احترام سے پیش آئیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ضمنی طور پر میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں کو اس الیکشن میں کسی خاص عہدے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں انہیں کی منظوری میری طرف سے دی جائے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے جماعتِ احمدیہ میں’ عہدہ ‘کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر عہدیدار کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ جماعت میں بنیادی طور پرہر عہدہ ایک ’امانت‘ ہے۔ اورامانتوں پر پورا اترنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات موجود ہیں۔فرمایا:میں نے بھی کئی مواقع پر اس پر روشنی ڈالی ہے، بلکہ چند ماہ پہلے ہی میں نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی خطبہ جمعہ بھی دیا تھا، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اس شورٰی میں یہ خطبہ یا غالبًا اس کا کچھ حصہ آپ کو عہدیداران کے انتخاب سے پہلے سنوایا گیا ہے۔ الغرض تمام عہدیداران کوکوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس امانت کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریںجو ان کے سپرد کی گئی ہے۔ اورامانت کا حق اداکرنے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ جو بھی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اسے اپنے پورے دل اور پوری جان، نیک نیتی، انتہائی درجہ کی ایمانداری اورمتانت سے پورا کرنے کی کوشش کریں۔اس لیے ہر عہدیدارکا نمونہ ایسا ہو کہ وہ اپنے وقت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیاررہے اور ہردم اپنے کاموں کو بہترطور پر کرنے کے لیے سوچ اورتدبیر میں لگارہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے عہدیداران کواحبابِ جماعت سے شفقت کا سلوک روا رکھنے کی بابت توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسروں سے شفقت سے پیش آنے کے حکم کے مخاطَب صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں تھے بلکہ وہ تمام لوگ بھی یکساں طور پراس ارشاد کے مخاطَب ہیں جنہیں ذمہ داریوں کا امین ٹھہرایا گیا ہے۔ آج احمدی ہی وہ لوگ ہیں جو اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کادعویٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی پوری کوشش بھی کرتے ہیںکہ ہم اس دعویٰ کو سچا ثابت کرنے والے بنیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ نظامِ جماعت احمدیہ کلّی طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے والا ایک نظام ہو۔ لہٰذا یہ تمام باتیں تقاضا کرتی ہیں اور جیسا کہ میں پہلے ذکر بھی کرآیا ہوں کہ وہ تمام افراد جنہیں عہدہ کی ذمہ داری سونپ کر ایک لحاظ سے امین ٹھہرایا گیا ہے انہیں لوگوں کے ساتھ شفقت ، محبت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے دل نرم اور ممبرانِ جماعتِ احمدیہ کی محبت سے پُر ہوں۔ وہ اپنے ماتحتوں یا اپنے سٹاف سے صرف نرمی اور محبت کا سلوک ہی نہ کرتے ہوںبلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنابھی ان کی ترجیحات میں شامل ہو۔ ان کے دل اس قدر صاف اور شفیق ہوں کہ لوگ ان کی طرف محبت سے کھنچے چلے آئیں اور وہ بھی انہیں سینے سے لگانے والے ہوں۔کجا یہ کہ ان کے اخلاق لوگوں کو دور بھگانے والے بنیں۔کیونکہ اگر ان کے دلوں میں سختی ہوگی تو وہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہیں گے جس کے نتیجہ میں احمدی ایک عجیب سے تذبذب کا شکار ہو نے لگیں گے۔اورچند عہدیداران کے ناروا سلوک کی وجہ سے بعض احمدی نہ صرف یہ کہ مایوس ہوں گے بلکہ آہستہ آہستہ نظامِ جماعت سے بھی ہٹتے چلے جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وجہ سے وہ جماعت سے ہی قطع تعلقی اختیار کر لیں اور خلیفۂ وقت کے بارے میں ایک غلط تاثر اپنے ذہنوں میں رکھ لیں۔ چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ممبرانِ جماعت سے حسنِ سلوک نہ رکھنے کی وجہ سے بہت گہرے منفی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ میری طرف سے منظور شدہ ہر جماعتی عہدیدار کو لازمًا یہ پہلو پیشِ نظر رکھنے چاہئیں۔ مزید برآں وہ تمام لوگ جوعہدیدار تو نہیںلیکن آج بحیثیت نمائندہ مجلسِ شوریٰ یہاں موجود ہیں اور کوئی نہ کوئی جماعتی خدمت بجا لاتے ہیں ان پر بھی لازم ہے کہ و ہ بھی کام کرتے ہوئے ان امور کو پیشِ نظر رکھیںجن کا میں نے ذکر کیا ہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے ٹیمیں بنا کر کام کرنے کی حکمت بیان فرماتے ہوئے ہر کامیابی کا دارومدار دعا کو قرار دیا۔ نیزفرمایا کہ باقاعدہ طور پر مقرر کیے جانے والے جماعتی عہدیداران کورضاکاران کی ٹیمیں بنا کر کام کرنا چاہیے ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کاموں میں معاون و مددگار ہو ں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے والوں کی ایک کھیپ تیار ہوتی جائے گی جو مستقبل میں جماعتی ذمہ داریوں کو سنبھالنے والے ہوں گے۔ پھر اس ٹیم کا مقصد صرف یہی نہ رہ جائے کہ اس نے حکم کی تعمیل میں کام کرنا ہے بلکہ کام لینے کے ساتھ ساتھ عہدیداران کویہ بھی چاہیے کہ وہ گاہے بگاہے اپنی ٹیم کے ممبران سے تبادلہ خیال کریں،مختلف کاموں میں مزید بہتر ی لانے کے لیے  ان سے مشورہ کریںاورجب آپس میں تبادلہ خیال ، سوچ بچار اور مشورہ کر لینے کے بعد ایک حتمی لائحہ عمل طے پا جائے تو پھر اس تمام عمل کے سب سے ضروری پہلو کو نظر انداز نہ ہونے دیں یعنی یہ کہ آپ نہایت عجز و انکسار اورمستقل مزاجی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اس تدبیر میں جو آپ نے اپنے مفوضہ امور کی انجام دہی کے لیے سوچی ہے برکت عطا فرما دے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے توکّل کا حقیقی مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل کا یہ مطلب نہیں کہ کسی معاملے کے بارے میں ایک فیصلہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ پر سچا توکّل اس بات کا متقاضی ہے کہ جب لوگوں کو کسی فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے کہا جائے توانہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے دعاؤں میں لگ جائیں کہ اے ہمارے خدا ! ہم نے اپنی محدود ذہنی استعدادوں اور ناقص علم کے مطابق اس کام کو کرنے کے لیے یہ لائحہ عمل طے کیا ہے۔ اب ہم یہ معاملہ تیرے سپرد کرتے ہیں اور تیرے حضور دعا گو ہیںکہ یہ کام جماعت کے لیے ہر لحاظ سے خیر و برکت کے نتائج پیدا کرے اور یہ کہ جماعت پہلے سے بڑھ کر ترقی کی طرف گامزن ہوجائے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے جماعتی عہدیداران کو عبادت کے معیار کو بلند کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور توکّل صرف اور صرف دعا کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ جہاں دعائیں اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان اور توکل بڑھاتی ہیں وہاں یہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کو کھینچ لاتی ہیں۔ لہٰذا جماعتی عہدیداران پر یہ امر فرض اور لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں اور اس کی عبادات میں اپنے آپ کو فنا کر دیں۔ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی میں باقاعدگی اختیار کرنے والے ہوں۔ بعض اوقات مجھے جماعتی عہدیداران کے قریبی عزیزوں بلکہ بعض اوقات ان کی بیویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ بہت سا جماعتی کام کرتے ہیں لیکن وہ فرض نمازیں ادا نہیں کرتے۔ یاد رکھیں! ہمیں ایسے کسی جماعتی عہدیدار کی ضرورت نہیں جو نماز ادا نہیں کرتاکیونکہ کسی بھی جماعتی عہدیدار کی بنیادی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ تمام نمازیں باقاعدہ اداکرنے والا ہو اور اس بات کی ہر ممکن کوشش کرنے والا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جائے اور اس کا  خدا تعالیٰ کی ذات سے ایک پختہ تعلق پیدا ہو جائے۔ ہمیں ایسے عہدیداران کی قدرہے جواس بات پریقینِ کامل رکھتے ہیں کہ جماعتی ترقی کا دارومدار دعاؤںپر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر اس کی مدد کسی بندے کے شاملِ حال ہو جائے تو کوئی ہستی اسے کامیابی اور فتح حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ اگر کوئی بندہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے بے بہرہ ہو تو چاہے وہ کتنا ہی ذہین یاچالاک کیوں نہ ہو ترقی اور کامیابی کسی بھی صورت اس کا مقدر نہیں بن سکتی۔ ایک سچا مومن وہی ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر سچا ایمان اور توکّل رکھتا ہے۔ اور وہی شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر حقیقی توکل رکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے جھکتا ہے اور فرض نمازوں اور نوافل کی ادائیگی میں باقاعدہ ہے۔

حضورِ انور نے مجلسِ شوریٰ میں پیش ہونے والی تجاویزکی منظوری کے بعد ان پر عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب شوریٰ میں پیش ہونے والی تجاویز کی منظوری میری طرف سے آ جائے تو پھر اس کے بعد اس پر عملدرآمد کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ جہاں تک ملکی عاملہ کا تعلق ہے تو جب کسی کے شعبہ کے متعلق شوریٰ میں تجویز پیش ہو کر مجھ سے منظور ہو جائے تو پھر یہ ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ ان فیصلہ جات کو عملی جامہ پہنائیں۔ اور ظاہرہے کہ ایسا کرنے کے لیے انہیں لازمی طور پرتفصیلی لائحہ عمل طے کرنے ہوں گے، سکیمیں بنانی پڑیں گی اوران پالیسیوں کو بنیاد بناتے ہوئے مرکز کی طرف سے جو بھی رہنمائی یا ہدایات جاری ہوں گی مرحلہ وار ریجنل اور لوکل جماعتیں سب کو مل کر اس پر عملدرآمد کروانا ہو گا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہر فردواحد چاہے وہ نیشنل عاملہ ، ریجنل عاملہ یا کسی بھی لوکل عاملہ میں شامل ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام تر کام ایمانداری اور خلوص پر مبنی ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اسی سے مدد چاہنے والا ہو۔ یہ وہ گُرہیںجن سے کامیابی بھی ملتی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹنے والا بھی بن جاتا ہے۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے ایسے ممبرانِ مجلسِ شوریٰ کو جو کسی جماعتی عہدہ پر فائز نہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے نمائندگانِ مجلسِ شوریٰ کو جو کسی جماعتی عہدہ پر فائز نہیں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک یا دو روز کے لیے مجلسِ شوریٰ کے ممبر نہیں منتخب کیے گئے بلکہ ان کا انتخاب پورے سال کے لیے ہوا ہے۔ لہٰذا یہ ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں اس بات کا خیال رکھیں کہ جو تجاویز مجلسِ شوریٰ میں پیش ہو کر خلیفۃ المسیح سے منظور ہوئی ہیں ان پرکما حقہ عملدرآمد ہو رہا ہو۔ انہیںاپنی اپنی جماعتوں میں اس بات کی نگرانی کرنی چاہیے کہ مجلسِ شوریٰ میں جو فیصلے کیے گئے تھے آیا ان پر عمل بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر انہیں محسوس ہو کہ اس میں کوئی کمزوری یا سستی کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو انہیں اپنے لوکل صدریا عہدیداران کو آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اگرایسا ہوکہ لوکل عہدیداران اس کے سدِّ باب کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھا رہے تو پھر ایمانداری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انہیں یہ بات نیشنل امیر کو بھجوانی چاہیے۔ اگربالفرض نیشنل امیر کی طرف سے بھی کوئی مناسب کارروائی عمل میں نہیں آتی تو انہیں پھر مجھے لکھنا چاہیے اور اپنے تحفظات سے مجھے آگاہ کردینا چاہیے۔ اس بات کی نگرانی کرنا کہ آیا مجلسِ شوریٰ کی منظور شدہ تجاویز پر عملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں ان کے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی واضح ہو کہ ایسے ممبرانِ شوریٰ جو عہدیدارنہیں ان کو مجلسِ عاملہ کے کاموں میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ سب ان اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک جذبہ سے کام کریں گے تو آپ دیکھ لیں گے کہ جماعت کے کام بہت تیزی سے ہوتے چلے جائیں گے اور جماعت احمدیہ ترقی کے زینوں کوجلدی جلدی طے کرنے لگے گی۔ انشاء اللہ۔اور آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں موسلا دھار بارش کی طرح آپ پر نازل ہورہی ہوں گی۔ نتیجۃً جماعت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی۔ انشاء اللہ۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے MTAاور خاص طور پر حضورِ انور کے خطبہ ٔ جمعہ سے استفادہ کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک اور بات جس کی طرف میں عہدیداران اور نمائندگانِ مجلسِ شوریٰ کوخاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں اور ان کے افرادِ خانہ کوجتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہو سکے MTAسے استفادہ کرنا چاہیے۔بلکہ آپ لوگ دیگر دوستوںکو بھی MTAسے فائدہ اٹھانے کی تلقین کریں۔ ابتدائی طور پر آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت MTAپراپنی دلچسپی کے پروگرامز دیکھنے کے لیے مخصوص کرلیں۔ مثلًا ایسے دوست جو انگریزی پروگرامز سننا پسند کرتے ہیں ان کے لیے بعض بہت عمدہ انگریزی پروگرامزہیں جو روزانہ کی بنیادوں پرMTAسے نشر کیے جاتے ہیں۔ انہیں وہ پروگرامز باقاعدگی سے دیکھنے چاہئیں۔

 سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہونے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں ۔اور دیگر ایسے پروگرامزبھی دیکھیں جن میں میری شمولیت ہوتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں سے خطابات ہیں یا جلسہ پر کی جانے والی میری تقریریں ہیں یا دیگر مجالس وغیرہ ۔ ان پروگرامز کو دیکھنا انشاء اللہ آپ لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گااور اسی مقصد سے آپ لوگوں کویہ پروگرامز دیکھنے چاہئیں۔ جب ہماری جماعت کے مبلغین اور علماء خلیفۃ المسیح کے پروگراموں کو دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ ان کے پاس علم بھی ہے اور ان کی ایک لمبی ٹریننگ اس لحاظ سے ہوئی ہوتی ہے وہ بھی اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ان خطبات ،تقاریراورو مجالس وغیرہ میں ایسے نِکات بیان ہوتے ہیں جن سے ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے یا کم ازکم دوہرائی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا  اس صورت میں کہ یہ پروگرامز علماء کے لیے فائدہ کا موجب بنتے ہیں تو اس میں تو شک ہی نہیں رہتاکہ ایک عام احمدی کے لیے یہ مجالس کس قدر فائدہ مند ثابت ہوتی ہوں گی۔ پھر ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ چاہے کسی کو نئے علمی نکات ملیں یا اس کی دوہرائی ہو رہی ہو، ہر دو صورتوں میں ان باتوں کے سننے سے اس کی توجہ ان باتوں پر عمل کرنے کی طرف ہوجائے گی۔

حضورِ انور ایدہ اللہ نے ایک اور ضروری بات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے عقیدے اور عمل میں یک رنگی اور استقلال ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ جن باتوں پر ہم ایمان رکھتے ہیں ہمیں اپنے عمل سے ان کا نمونہ بھی دینا ہو گا۔ اور اس بارے میں مَیں بارہا توجہ دلا چکا ہوں، بلکہ میرے گزشتہ دو خطباتِ جمعہ کا یہی مضمون تھا۔ یاد رکھیں ہم تب ہی اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثالی نمونہ قائم کر سکتے ہیں جب ہمارا قول اور ہمارافعل ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والے ہوں،ہمارا عمل ہمارے عقائد کی عکاسی کرتا ہو۔اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم کامیابی سے ہمکنار ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی حفاظت کرنے والے بن سکتے ہیں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا کہ آخر میں مَیں ایک نہایت اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ  ہر دم اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دعاؤں میں لگے رہیں کیونکہ دعا کے بغیرہم نہ تو اپنی نسلوں کی تربیت کا اہم فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آج جو باتیں میں نے آپ لوگوں سے کی ہیں وہ آپ کو ان کی حقیقت سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں