خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع صدسالہ جوبلی انگلستان پارلیمنٹ ہاوؐس 11؍جون 2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

تمام معزز مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سب سے پہلے تو مَیں ان دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ انگلستان کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر برطانوی پارلیمنٹ میں اس تقریب کا انعقاد کیا تا وہ ہم سے اپنی دوستی اور اچھے تعلقات کا اظہار کرسکیں۔ اسی طرح مَیں تمام مہمانوں کا بھی شکریہ اداکرتا ہوں جن کی شمولیت اس تقریب کو کامیاب اور قابل ذکر بنارہی ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ ایک بڑی تعداد دیگراجلاسا ت اور اپنی مصروفیات کو چھوڑ کر میری باتیں سننے کے لئے یہاں بیٹھی ہوئی ہے ۔

آپ لوگوں کے اس طرز عمل پرمَیں اپنے شکریہ کے جذبات کے اظہار کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ میں امید رکھتا ہوں اور میری خلوص دل سے یہ دعا بھی ہے کہ غیر معمولی آب و تاب کی مظہر اس خوبصورت عمارت کے احاطہ میں مصروف عمل تمام تر حکومتی شعبہ جات اور ان میں خدمات بجا لانے والے افراد اس ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں کی فلاح و بہبودکے لئے کماحقہ کام کرتے رہیں۔

اسی طرح میری دعا اورخواہش ہے کہ آپ لوگ دیگر اقوام عالم سے بہتر تعلقات کے لیے بھی ہر ممکنہ کوشش کریں۔ نیز آپ لوگوں کو انصاف پر قائم رہتے ہوئے سب کے لئے خیر کا موجب بننے والے فیصلے کرنے کی توفیق ملتی رہے۔یقین رکھیں کہ اگر یہ لائحہ عمل اپنایاگیاتویقینا اس کے نتائج بہت عمدہ ہوں گے جن سے بین الاقوامی محبت و اخوت اور بھائی چارہ کے جذبات کو فروغ حاصل ہو گا اوراس کے لازمی نتیجہ کے طورپر یہ دنیا امن اور ترقی کے قائم ہونے سے حقیقی جنت کا نظارہ پیش کرنے لگے گی۔

میری ان دعاؤں اور تمناؤںمیں تمام احمدی مسلمان بھی شریک ہیں کیونکہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اپنے وطن سے سچی محبت کرنا اور پھر تمام انسانیت کی خیرخواہی کرنا ہرمومن پر لازم ہے۔ یقینا ہر احمدی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اپنے ملک کی محبت اس کے ایمان کا جزو لازم ہے کیونکہ بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پرزور انداز میں یہ حکم دیا اور اس تعلیم کوعام کیا۔

پس میں علی الاعلان کہتاہوں کہ ہر احمدی مسلمان جو برطانوی شہری ہے ، خواہ وہ یہاں پیدا ہوا ہے یا کسی دوسرے ملک سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوا ہے وہ اس ملک کا مکمل وفادار ہے اور اس ملک سے سچی محبت رکھتا ہے اور وہ اس عظیم قوم کی ترقی اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔

انگلستان میں غیرقوموں کے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اوربہت سے اندازوں کے مطابق یہ لوگ ملک کی کل آباد ی کاپندرہ فیصد بنتے ہیں۔یہاںمیں برطانوی قوم کی وسعت حوصلگی اور عظیم خصوصیات کا تذکرہ کئے بغیر آگے نہیںبڑھ سکتا۔ جس طرح انہوں نے ہجرت کرکے آنے والوںکاکھلی بانہوں سے استقبال کیا اور نوواردین کی برطانوی معاشرے کا فعال حصہ بننے میں مدد کی۔اس لحاظ سے یہاں آکر آباد ہونے والوں کی بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ملک میں اپنا وفادار شہری ہونا ثابت کریںاور بد انتظامی و کشمکش دور کرنے کی حکومتی کوششوں کی پرزور حمایت جاری رکھیں۔ اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے توا س کے ممبران دنیا کے جس میں ملک میں بھی رہتے ہیں وہ وہاںانہی اصولوں پر کاربند رہتے ہیں۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم اِن دنوں جماعت احمدیہ انگلستان کی صد سالہ تقریبات منا رہے ہیں اور گزشتہ سو سال اس امر پر گواہ ہیں کہ احباب جماعت نے ہمیشہ اپنے ملک سے وفاداری کے تقاضے نبھائے ہیں اور ہر طرح کی دہشتگردی،بغاوت اور بدامنی سے اپنا دامن بچا کر رکھا ہے او ر حقیقت یہی ہے کہ احمدی احباب جماعت کی اس وفاشعاری اور پر خلوص طرزِ عمل کی واحد وجہ یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ مسلمہ حقیقی طور پراسلامی احکامات پر عمل پیرا جماعت ہے۔ ہماری جماعت دین اسلام کی پُرامن تعلیم کو دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچانے میں یکتائے روزگار ہے اور ہم مسلسل کوشاں ہیں کہ دنیا ان سچی تعلیمات کو حقیقی اسلام کے طور پر قبول کرلے۔

چند تعارفی کلمات کے بعد اب میں پھر اپنے خطاب کے مرکزی مضمون کی طرف آتا ہوں۔ہماری جماعت امن وامان، مفاہمت اور ہم آہنگی کے قیام اور پھیلاؤمیں امتیازی مقام رکھتی ہے اور ہمارا تو نعرہ ہی ’’محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے غیر مسلم جوہمیںجانتے ہیں بلکہ ہم سے قریبی تعلق رکھنے والے ہیں وہ بہت حیران ہوتے ہیں کہ احمدیہ مسلم جماعت اس امن اور بھائی چارے کے پیغام کا استنباط اسلامی تعلیم سے کرتی ہے۔ ان کی حیرت اور استعجاب اس بنا پر ہے کہ دیگر بہت سے نام نہاد مسلمان علماء اور تنظیموں کا قول وفعل اس کے بالکل برعکس ہے اور یہ لوگ بالکل مختلف پیغام پھیلارہے ہیں ۔اس اختلاف کی وضاحت کرنے کے لئے میں کہوںگا کہ ہم احمدی مسلمان اس زمانہ میں تلوار کے ساتھ خونی جہاد کے نظریہ کو سراسر غلط مانتے ہیں اور یہ تصورہے بھی غلط ،جبکہ بعض دوسرے مسلمان علماء نہ صرف اس کا پرچار کرتے ہیں بلکہ عملی طور پر ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اوراس غلط نظریہ نے دنیا کے مختلف خطوں میں آباد مسلمانوں میںانتہاپسنداور دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا ہے۔

یہ بات اب صرف چند تنظیموں تک نہیں رہی بلکہ بعض دفعہ انفرادی طور پر بھی بعض لوگ اٹھ کر ان غلط نظریات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناواجب افعال کر بیٹھتے ہیں۔جس کی تازہ مثال لندن کی گلیوں میں ایک معصوم برطانوی فوجی کی دردناک ہلاکت کاواقعہ ہے۔ اس حملہ کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلامی تعلیم تو ایسے افعال کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔دراصل ایسی مذموم وارداتیں ہی حقیقی اسلامی تعلیم اور کجَ رو خیالات کے درمیان حدّ فاصل ظاہر کرنے والی ہیں اوریہ کج روی ہی بعض نام نہاد مسلمانوں سے ایسے گھناؤنے افعال کرواتی ہے  جو دراصل ان کے اپنے ہی مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مَیں یہ کہوں گا کہ یہاںکے بعض مقامی گروہوں کا ردعمل بھی درست نہ تھا ،یاد رہے کہ ایسا طرز عمل معاشرے کا سکون غارت کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔

 ہمارے عقائد اورحقیقی اسلامی تعلیمات میں کوئی بھی تناقض نہ ہونے کے متعدد دلائل ہیں۔ مثلاً تلوار اور طاقت کے استعمال کی صرف وہاں اجازت ہے جہاں اسلام کے خلاف مذہبی جنگ کا آغاز ہوچکا ہو۔جبکہ عصرحاضر میں کسی بھی ملک یا مذہب کی طرف سے اسلام پرمحض مذہب کی بنا پر جنگ یا حملہ نہیں ہورہا ہے۔ پس کسی بھی مسلمان کے لئے قرین انصاف نہیں ہے کہ وہ کسی فریق پر مذہب کا نام لے کر حملہ کردے کیونکہ اس کا یہ فعل اسلامی تعلیم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ٹھہرے گا۔

قرآن کریم صرف ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جو جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں اور اسلام کے خلاف تلوار اٹھاتے ہیںاور اس اجازت میں بھی اہم ترین امر یہ ہے کہ اس دوران بھی اگر کوئی شہری اپنے ملک یا ہم وطنوں کو نقصان پہنچارہا ہے تو وہ اسلامی تعلیم کی خلاف ورزی کرنے والا ٹھہرے گا۔ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایاہے کہ جو کسی معصوم کا خون بہاتا ہے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایسے قاتلوں کو ناقص الایمان اور گنہگار قراردیا ہے۔

اب میں بعض اور پہلوؤں کا ذکر کرتا ہوں جواس بات کو خوب واضح کردیں گے کہ اسلام کی تعلیم کتنی روشن اور خالص واقع ہوئی ہے اور میں واضح کروں گا کہ بعض نام نہاد مسلمان گروہ اسلام کا جو چہرہ دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ کسی بھی صورت میں حقیقی اسلامی تعلیم نہیں ہے او ریہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنی قابل نفرت کارروائیاں کررہے ہیں ۔

اسلام تو مذہبی رواداری پر اتنا زور دیتا ہے کہ اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے جبکہ بعض لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جب تک وہ دوسرے مذاہب کو جھوٹا ثابت نہ کرلیں ان کا اپنا دین سچا ثابت ہی نہیں ہوتا۔ اس کے مقابل پر اسلام کہتا ہے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے جو تمام بنی نو ع انسان کے واسطے ہے اور خدا تعالیٰ نے دنیا کی تمام قوموں اور نسلوں کے لئے اپنے انبیاء مبعوث فرمائے۔یہ حقیقت قرآن کریم میں واضح الفاظ میں درج ہے اور تمام انبیا ء اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور اخوت کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ ان سب نبیوں پر ایمان لانا ہرحقیقی مسلمان پر فرض ہے۔ پس آج کوئی بھی اسلام کی طرح دیگر مذاہب اورغیر اقوام کی کھلے دل سے سرعام تعریف نہیں کررہا کیونکہ حقیقی مسلمان مختلف اقوام اور علاقوں کی طرف مبعوث ہونے والے انبیاء کو کبھی بھی جھوٹا قرار نہیں دیتا۔ اسی لئے کوئی مسلمان اللہ کے کسی بھی نبی کی بے عزتی کرنا، ان سے تمسخر کرنا یا ان کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا  اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو مجروح کرسکتا ہے۔مگر افسوس ہے کہ بعض غیر مسلموں کا طرز عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے اور ایسے لوگ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور تمسخر کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے او راس طرح یہ لوگ مسلمانوں کے جذبات کوبھی مجروح کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم اپنے عقائد کی بنا پر سچے دل سے مذہبی رواداری اور باہمی ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے بعض مخصوص عناصر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں تو بعض مسلمان بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشتعال میں آکر سراسر غلط اقدام کربیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رد عمل اور افعال کا اسلام کی حقیقی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیںہے۔ اسی وجہ سے آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی احمدی مسلمان خواہ اس کو کتنا ہی مشتعل کیا جائے،کبھی بھی منفی طور پر اپنا رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔

بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے انتہاپسندی کی تعلیم دی ہے اور اسلام کا پیغام پھیلانے کے لئے طاقت کے استعمال کو پروان چڑھایا ہے۔ اس الزام کا تجزیہ کرنے اور حقیقت کی تلاش کے لئے ہم قرآن کریم کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اور اگر اللہ (ہدایت کے معاملہ میں )اپنی (ہی) مشیّت کو نافذ کرتا تو( جس قدر) لوگ زمین پر موجود ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے،(پس جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا )تو کیا تُولوگوں کو (اتنا)مجبور کرے گا کہ مومن بن جائیں۔‘‘ (سورۃیونس:آیت نمبر 100)۔ یہ آیت کھول کر بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق ہے ، اگر چاہتا تو سب لوگوں کو زبردستی ایک ہی دین پر قائم کردیتا لیکن اس نے بنی نوع انسان کو اختیار بخشا ہے کہ وہ چاہیں تو ایمان لے آئیں اور چاہیں تو نہ ایمان لائیں۔

اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو اختیار کی آزادی عنایت کررکھی ہے تو کس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کا کوئی پیروکار لوگوں کو زبردستی مسلمان بنا سکتا ہے؟

 خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایاہے : ’’اور( لوگوں کو) کہہ دے (کہ) یہ سچائی تمہارے رب کی طرف سے ہی (نازل ہوئی )ہے۔ پس جو چاہے (اس پر) ایمان لائے اور جو چاہے (اس کا) انکار کر دے۔ ‘‘ (سورۃالکہف: آیت نمبر30)۔ یہ ہے اسلام کی حقیقت اور اس کی حقیقی تعلیم ۔ اب اگر کسی انسان کا دل چاہے تو وہ اسلام قبول کرنے میں آزاد ہے اور اگر دل نہ قبول کرے تو وہ اسلام کو رد کرنے میں بھی آزاد ہے۔ پس اسلام جبر اور انتہا پسندی کے انتہائی خلاف ہے اور معاشرے کے ہر طبقہ میں امن و آشتی کا داعی ہے۔

جب اسلام کا نام ہی امن سے رہنا اور دوسروں کو امن فراہم کرنا ہے تو کس طرح یہ مذہب تشدد اور جبر سکھانے والا کہلا سکتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود ہمارے مذہبی جذبات پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے ہیں جن سے ہمارے سینے چھلنی ہوجاتے ہیں۔نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کہا جانے والا ہر نامناسب جملہ ہمارے سینوں کو چیرتا ہو ا ہمارے دلوں کو خون کے آنسو رُلاتا ہے۔ حالانکہ یہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے ہمارے دلوں میں خداکی محبت اور ا س کی مخلوق کے لئے شفقت کے جذبات کو پروان چڑھایا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود باجود تھا جس نے ہمارے اندر تما م بنی نو ع انسان اور تمام مذاہب کے واسطے محبت اور احترام کے بیج بوئے۔

 اسلامی تعلیم کے پُرامن ہونے کا سب بڑا ثبوت تو معاندین کا وہ رویہ ہے جب بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تبلیغ کی اورانہیں اسلام کا پیغام پہنچایا تو مخالفین خود اقرار ی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغِ اسلام ظلم و گناہ کے افعال کی طرف دعوت نہ تھی بلکہ اس کے برعکس بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے کی صورت میں مخالفین کی اپنی دولت اور جاہ وحشمت ہی ظالموں کے ہاتھوں معرض خطر میں پڑ رہی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام تر زور امن اور صلح پر تھا۔ یوں یہ مخالفین اس خوف کے اسیر رہے کہ قبول اسلام کے بعد ان کو اردگرد بسنے والے لوگوں، قبیلوں حتی کہ ہمسایہ اقوام سے امن و صلح کاری کی پالیسی اپنانی پڑے گی جس سے فائدہ اٹھا کر یہ لوگ ہمیں برباد کردیں گے۔ الغرض اگر اسلام فساد کا پرچارک ہوتا اور مسلمانوں کو تلواریں سونت کر جنگ وجدال کرنے کی تعلیم دیتا تب یقینا کافر لوگ کبھی بھی اپنی متذکرہ بالا توجیہ میں درست نہ ٹھہرتے اور کبھی نہ کہتے کہ ہماری قبول اسلام سے محرومی اس خوف کی وجہ سے ہے کہ امن و صلح کی تعلیمات ہمیں دنیا دار لوگوں کے ہاتھوں برباد کرنے والی ہیں۔

قرآن کریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت سلام بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ امن کا منبع۔ اب اگر خدا واقعی امن دینے والا ہے تو اس کا دائرہ ایک مخصوص گروہ تک محدود رکھنا ناانصافی ہے بلکہ اس کے امن کو اس کی تمام مخلوق اور تمام بنی نوع انسان کے لئے عام ہونا چاہئے۔ اور اگر اس کی امن دینے کی صفت محض چند لوگوں تک محدود ہے تو وہ رب العالمین کیسے ٹھہرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالہ سے قرآن کریم میں فرمایاہے : ’’اور ہم کو اس( رسول) کے اس قول کی قسم جب اس نے کہا تھا کہ اے میرے رب! یہ قوم تو ایسی ہے کہ کسی سچائی پر ایمان نہیں لاتی۔ سو (ہم نے اس کو جواب دیا تھا کہ) ان سے درگزر کر اور صرف اتنی دعا کردیا کر کہ تم پر خدا کی سلامتی نازل ہو۔ تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ( حق کو) جاننے لگ جائیں گے۔ ‘‘(سورۃالزخرف: آیت نمبر 90-89)۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لائے ہیں وہ تمام انسانوں کے واسطے رحم اور مہربانی سے بھری ہوئی ہے اورہر ایک کے لئے امن کی ضامن ہے۔ مزید برآں یہ آیت بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام امن کو آپ کے معاندین نے نہ صرف ردّکیا بلکہ ان لوگوں نے آپ ؐ کی توہین اور گستاخی کا بھی ارتکاب کیا۔ نیز یہ لوگ اپنی مخاصمت اورشورش میں حد سے بڑھ گئے تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور ملتجی ہوئے کہ میں تو ان کو سلامتی دینا چاہتا ہوں مگر یہ لوگ مجھے امن سے رہنے نہیں دیتے بلکہ یہ تو مجھے تکا لیف اور دکھوں میں مبتلا کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ ان کے افعال کو نظر انداز کرواوران سے پرے ہٹ جاؤ۔ تمہارا واحد مقصد دنیا میں امن کا پرچار اور اس کاقیام ہے۔ پس ان کی تمام نفرت اور ظلموں کا جواب ’’سلام‘‘کہہ کر دیا کرو اور ان کو متنبہ کردو کہ میں نے تم تک پیغامِ امن پہنچادیا ہے۔

پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ساری زندگی دنیا میں امن پھیلانے کے عظیم مقصد میں صرف ہوئی۔ یقینا وہ دن دور نہیں جب دنیا والوں کو یہ احساس اور شعور نصیب ہوجائے گا کہ آپؐ انتہاپسندی کی تعلیم لے کر نہیں آئے تھے اوردنیا یہ مان لے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو امن ،محبت اور شفقت کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ اسی طرح اگر اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے دعویدار بھی ہر ظلم و نا انصافی کا جواب اسی محبت کے انداز میں دیں گے تو بلاشبہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم پر اعتراض کرنے والے بھی ایک دن اس کی سچائی اور حسن کے گرویدہ ہوجائیں گے۔

مسلم جماعت احمدیہ انہی اصولوں اور تعلیمات پر کاربند ہے اور ہم اکناف عالم میں ہم آہنگی، برداشت اور محبت کا پیغام پھیلارہے ہیں۔ ہم بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاریخی اور بے مثل اُسوہ پر عمل پیرا ہیں جب آپ  برس ہا برس تک مظالم،تلخیوں اور ظلم وستم کا نشانہ بننے کے بعد فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ کی گلیوں میں وارد ہوئے تھے۔ کئی سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس اصحاب بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم رکھے گئے۔ اتنی سختی تھی کہ یہ لوگ قُوت ِلایموت اور پانی کی بوندوں کو ہی ترس گئے۔ آپ کے متعدد اصحاب ظالم دشمن کے ہاتھ لگے تو ان پر وہ بہیمانہ مظالم کئے گئے کہ بعض کو اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا۔ اس ظلم سے نہ مسلمان عورتیں محفوظ تھیں اور نہ بڑی عمر کے مسلمان مرد حتی کہ مسلمانوں کے چھوٹے بچے بھی اس اذیتناک،بہیمانہ سلوک کا نشانہ بنتے رہے۔ اس سب کے باوجود جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاتح بن کر مکہ مکرمہ کو لوٹے تو کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا۔بلکہ یہ اعلان کیا کہ جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں ہے میں نے تم کو معاف کیا۔ میں محبت اور امن کا پیغامبر ہوں۔ میں خداکی صفت ’’اَلسَّلام‘‘ کا سب سے زیادہ عرفان رکھنے والا ہوں۔ یقینا یہ اللہ ہی ہے جو سلامتی عطا کرتا ہے ،پس میں تمہاری تمام گزشتہ سفَّاکیاں معاف کرتے ہوئے تمہیں آئندہ کے لئے سلامتی اور امن کی ضمانت عطا کرتا ہوں۔ تم کو مکہ میں رہنے اور اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل اجازت ہے اور کسی کو بھی طاقت کے بل بوتے پرقبولِ اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد مخالفین میں سے کچھ لوگ سزا کے خوف سے مکہ سے بھاگ گئے کیونکہ تمام دشمن معصوم مسلمانوں پراپنی زیادتیوں اور سفاکیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ لیکن اہل مکہ نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پایاں محبت و شفقت اور امن و صلح کے انوکھے سلوک سے حیران ہوکر اپنے ان شریک جرم ساتھیوں کے پیچھے آدمی دوڑائے کہ کہاں جاتے ہو، لو ٹ آؤ۔ پس جب ان کو اطلاع دی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف امن و سلامتی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو وہ سب واپس آگئے۔ یوں اسلام کے اشد مخالفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیع رحمت و شفقت سے متاثر ہوکر اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے لگے۔

میں نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے وہ معلوم تاریخ کا حصہ ہیں اور بہت سے غیر مسلم مؤرخین اور مستشرقین بھی ان کی ثقاہت کی گواہی دیتے آئے ہیں۔ پس یہ حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں اور یہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔ اس کے بعد بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشتگرد قرار دے کر بیہودہ الزاما ت کا نشانہ بنانا ،قابل شرم ناانصافی کی انتہاہے اور بلاشبہ ایسے تمام جھوٹے الزامات ہمارے دل کو حزین بنادیتے ہیں۔

مَیں اس موقع پردوبارہ کہوں گا کہ آج صرف ہماری جماعت، احمدیہ مسلم جماعت ہی ہے جو پُرامن حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق کام کررہی ہے۔ اور اسی طرح میں یہ بھی پھر سے باور کروانا چاہتاہوں کہ آج جو یہ انتہاپسند تنظیمیں یا افراد قابل نفرت مکروہ کام کرتے پھر رہے ہیں ان کا حقیقی اسلامی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

حقیقی انصاف کا تقاضا ہے کہ ذاتی مفادات کے لئے کام کرنے والے افراد یا گروہوں کی کارروائیوں کو مذہب کی تعلیمات سے نہ جوڑا جائے اور نہ ہی ایسی کارروائیوں کو بہانہ بنا کر مذہب اور بانی مذہب کے خلاف ناواجب طریق پر الزام تراشی کی جائے۔امن عالم کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے لہذاہر ایک کودوسروں کے لئے اور دیگر مذاہب کے لئے محبت باہمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ بہت بڑی بربادی منہ کھولے کھڑی ہے۔

آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور یہاں محبت باہمی کے فقدان اورمل جل کر امن سے رہنے کی کوششوں کی ناکامی کسی محدود خطہ یا شہر یا ملک کوہی گزند نہیں پہنچائے گی بلکہ یہ خرابی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور کسی سے بھی پچھلی دوعالمگیر جنگوں کی تباہ کاریاں پوشیدہ نہیں ہیں۔

بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ اپنا منہ کھولے کھڑی ہے۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی ممالک بھی اس کے تباہ کن اور دیرپا منفی اثرات سے محفوظ نہ رہیں گے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنے دامن کو ایسی اندوہناک تباہی سے بچا لیں۔آئیں ہم سب مل کر اپنی آئندہ نسلوں کو اس خطرناک جنگ کی تباہی اور ہولناک نتائج سے بچا لیں۔ عین ممکن ہے کہ اس دفعہ ہونے والی عالمی جنگ ایک ایٹمی جنگ ہو۔ اس لرزہ خیز انجام سے بچنے کے لیے ہمیں انصاف، خلوص اور ایمانداری جیسے اخلاق پر کاربند ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ان معدودے چند گروہوں کا ناطقہ بند کرناہو گا جو نفرت کے سوداگر ہیں اور ان کا واحدمقصدِ حیات دنیا کے امن کو تباہ کر دینا ہے۔

میری خواہش اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی عالمی طاقتوں کو انصاف و دیانت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اس بارہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق نصیب کرے۔ آمین۔

میں ایک مرتبہ پھر آپ لو گوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ وقت نکال کر ،کوشش کرکے یہاں شامل ہونے کے لئے پہنچے۔ بہت بہت شکریہ۔

دعا کے ساتھ ا س تقریب کا اختتام ہوا اور اس کے بعد مہمانانِ گرامی نے فردًا فردًا حضورِ انور سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں