خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ 1اگست2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرُ رَّحِیْمٌ۔(النحل:19)اور اگر تم اللہ کی نعمت کو شمار کرنا چاہو تو اُسے احاطہ میں نہ لا سکو گے۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
عموماً جیسا کہ روایت ہے اس وقت آج کی تقریر میں اللہ تعالیٰ کے جو جماعت احمدیہ پر گزشتہ سال میں یا دورانِ سال میں افضال ہوئے ہیں، اُن کا ذکر ہوتا ہے۔ اُس کی کچھ رپورٹ پیش ہوتی ہے، تو وہ میں پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک دنیا کے 204 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ دو زائد ممالک ملے ہیں۔ دورانِ سال دو نئے ممالک Costa Ricaاور Montenegro ہیں جہاں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔
Costa Rica ،یہ ملک سینٹرل امریکہ میں واقع ہے اور سپینش زبان یہاں بولی جاتی ہے۔ یہاں کی آبادی چار اعشاریہ چھ ملین ہے۔ ہمارے مبلغ انچارج(گوئٹے مالا)ایک مقامی دوست داؤد گونزالیس صاحب(David Gonzalez) جو ہمارے جنرل سیکرٹری ہیں، اُن کے ساتھ اپریل میں گئے تھے اور وہاں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا اور بعض نومسلم افراد جو عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کر چکے تھے اُن سے رابطہ ہوا۔ مجالسِ سوال و جواب ہوئیں اور اس سفر کے دوران ایک خاتون نے بیعت کر لی۔ پھر جولائی میں دوبارہ سفر اختیار کیا اور مزید تین افراد کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔
اسی طرح Montenegro ۔ یہ ملک البانیا کے شمال اور بوسنیا کے جنوب میں واقع ہے۔ یورپ کا ملک ہے۔ چھوٹا سا ملک ہے۔ چھ لاکھ پچیس ہزار اس کی آبادی ہے اور مسلمانوں کی تعداد یہاں بائیس ہزار کے قریب ہے۔ اور جماعت کی مخالفت یہاں مولویوں کے ہونے کی وجہ سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ معلمین نے وہاںدورہ کیا اوریہاں سے ایک دوست جرمنی کے جلسے(2010ء) میں بھی آئے تھے، مجھ سے ملے بھی تھے۔ واپس جب گئے ہیں تو مولویوں نے ان کی کافی مخالفت کی۔ بہر حال ایک نوجوان کو یہاں احمدیت قبول کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔
دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 45ممالک میں وفود بھجوا کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے، اُن کے تربیتی اور تعلیمی پروگرام بنائے گئے، وہاں نظام قائم کرنے کے لئے ضروریات پوری کی گئیں۔ لائبریریوں میں لٹریچر رکھوایا گیا، اخبارات میں انٹرویو شائع ہوئے۔ اس طرح بیعتیں بھی ملیں ۔
دورانِ سال یونان میں باقاعدہ مرکزی مبلغ کا تقرر ہوا۔ یہاں مشن ہاؤس کرائے پر لے لیا گیا ہے۔ باقاعدہ نظامِ جماعت تو پہلے تھا لیکن مشنری کے جانے سے اُس میں مزید بہتری پیدا ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ، وہ شامل نہیں ہے اس میں، جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 565 ہے۔ ان جماعتوں کے علاوہ ممالک کے مختلف شہروں میں 1052 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔
نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں غانا سرِ فہرست ہے۔ یہاں اس سال 68 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سیرالیون ہے۔ یہاں 56مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔تیسرے نمبر پر سینیگال ہے۔ یہاں 47 جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بورکینا فاسو 41، آئیوری کوسٹ 39۔ مالی میں34، یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ، ٹوگو میں 32، انڈیا میں 29، نائیجیریا اورکانگو کنشاسا میں 25،25، گیمبیا میں 22، لائبیریا 18، نائیجر 12، نیپال میں 9، تنزانیہ8، یوگنڈا، تیونس اور یوکے میں 7،7، اسی طرح انڈونیشیا اور جرمنی وغیرہ میں6،6۔
جماعتوں کے قیام کے بارے میں جو واقعات بعض سامنے آتے ہیں اُن میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں۔
مالی میں ججنی(Didjni) کے علاقے میں، ایک گاؤں سے وہاں ہمارے مبلغ کو فون آیا کہ ہم لوگ بت پرست ہیں مگر ایک لمبے عرصے سے آپ کا ریڈیو سننے کی وجہ سے اب اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے گاؤں میں آکر ہماری بیعت لیں۔ مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ میں معلم کے ساتھ وہاں چلا گیا ۔ کہتے ہیں ان کا گاؤں ہمارے ریڈیو سٹیشن سے تقریباً ستر اسّی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستہ جنگل سے گزرتا تھا، اس لئے ہم رستہ بھول گئے۔ جنگل میں کسی اور سمت نکل گئے جہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو گاڑی روک کر ہم نے اذان دی اور نماز ادا کی اور نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ دو نوجوان ہماری طرف آ رہے ہیں۔ ہم نے ان سے راستہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ غلط سمت میں آئے ہیں۔ بہر حال وہ پھر ہمارے ساتھ چلے گئے، وہاں ہم گئے، وہاں جا کے تبلیغ کی تو 617 افراد نے بیعت کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط جماعت قائم ہو چکی ہے اور نظام میں شامل ہے۔
اسی طرح بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ تبلیغی دوروں کے دوران اکثر جگہ لوگوں نے تبلیغ سننے اور بیعت کرنے سے انکار کر دیا تو بڑی بے چینی شروع ہوئی اور مجھے بھی انہوں نے دعا کے لئے خط لکھا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھی کہ ایک جگہ ہے، پہاڑی علاقہ ہے کثرت سے پانی بہہ رہا ہے تو اس سے مجھے خیال آیا کہ تبلیغ کے لئے ایسے علاقے میں نکلنا چاہئے اللہ تعالیٰ کامیابی دے گا۔ ایک گاؤں کوسوکا (Kossouka)ہے وہاں کا دورہ کیا۔ جب وہاں پہنچے تو کہتے ہیں مَیں نے گاؤں بالکل ویسا دیکھا جیسا خواب میں دیکھا تھا اور دل کو تسلی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کامیابی دے گا۔ چیف نے ہمارا بڑا اچھا استقبال کیا۔ رات کو تبلیغ کے لئے مسجد میں بلب وغیرہ لگوا دئیے اور کہتے ہیں کہ خاکسار اور لوکل مشنری نے رات کو تبلیغ کی۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی اور ستّر(70) احباب نے بیعت کر لی۔
اس علاقے میں ایک اور گاؤں ہے، وہاں بھی کہتے ہیں ہم نے دورہ کیا وہ لوگ مسلمان تھے اور وہاں رات کو تراویح کے بعد تبلیغ شروع ہوئی۔ تین سو کے قریب لوگ موجود تھے۔ تبلیغ سننے کے بعد فوراً گاؤں کے سرکردہ نے اُسی وقت اعلان کر دیا کہ آج ہم پر حقیقت کھل گئی ہے اور امام مہدی کا پیغام ہم تک پہنچ گیا ہے اور ہم امام مہدی کو سچا مان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس گاؤں میں 500 کے قریب لوگ سب کے سب احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی مضبوط نظام قائم ہو چکا ہے۔
پھر تنزانیہ سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ اَمْبِیا شہر تنزانیہ کا چوتھا بڑا شہر ہے جس کی پچانوے فیصد آبادی عیسائی ہے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ جماعت بھی چھوٹی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے اَمْبیا شہر سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ایلونگو میں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں تھا، وہاں مختلف تبلیغی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا لیکن مسلسل چار مہینوں کی کوشش کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ پیدا نہیں ہوا۔ لیکن کہتے ہیں مَیں پُر امید تھا، اپنے ساتھیوں سمیت گھر گھر جاتا اور جماعت کا لٹریچر تقسیم کرتا، جماعت کا تعارف کرواتا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پانچ مہینے کی کوشش کے بعد تیرہ افراد نے احمدیت قبول کر لی۔ پھر کہتے ہیں کہ جب یہ پروگرام وسیع ہوتا گیا۔ تبلیغ اور تربیت کے لئے پروگرام بنے تو مزید تیس افراد کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی اور احبابِ جماعت نے لٹریچر لے کر وہاں کے مولوی صاحب کو دیا اور کہا کہ ہمیں آپ اسکی حقیقت بتائیں کہ یہ کون ہیں اور کیسے لوگ ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں کیونکہ جو افواہیں پھیلائی گئی ہیں کہ یہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ احمدرسول اللہ پڑھتے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ ساتھ ہی مولوی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ لوگ ہمارے گاؤں میں تبلیغ کر رہے ہیں، لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں جبکہ میں نے سنا ہے کہ آپ نہیں ہیں۔ خیر اُن سے بات چیت ہوئی۔ مولوی صاحب کو بتایا گیا کہ جو آپ نے سنا ہے وہ درست نہیں ہے۔ ہمارا کلمہ ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ‘‘ ہے اور ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ اس پر مولوی نے دوبارہ ہم کو گاؤں میں بلایا۔ سوال جواب ہوئے، مجلس ہوئی، مولوی صاحب کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور بہر حال ہمیں وہاں تبلیغ کے مواقع پیدا ہو گئے اور پھر اُس مولوی نے بھی بیعت کر لی اور پھر اُس نے کہا کہ ملحقہ گاؤں میں بھی اب جائیں وہاں بھی تبلیغ کریں۔ چنانچہ اس طرح احمدیت کے پھیلانے کے مزید موقعے میسر آ گئے۔
اس سال میں نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد جو ہیں، اُن کی مجموعی تعداد 394 ہے۔ 136 مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں۔ 258مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔
اور اس میں کینیڈا میں دورانِ سال مسجد بیت الرحمان وینکوور کا افتتاح ہوا۔ جرمنی میں چار مساجد تعمیر ہوئیں۔ سپین میں دوسری مسجد Valenciaکی مسجد تعمیر ہوئی اور ہندوستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آٹھ مساجد کا اضافہ ہوا۔ انڈونیشیا میں اس وقت 29مساجد زیرِ تعمیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں باوجود مخالفت کے کام جاری ہے۔ غانا میں چودہ نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔ اسی طرح دنیا میں مختلف ممالک میں ہیں۔ سیرالیون میں بارہ تعمیر کی گئیں، 41 بنی بنائی ملیں۔ بورکینا فاسو میں 28 مساجد کا اضافہ ہوا۔ مالی میں احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے 45 مساجد بنی بنائی مل گئیں اور 6 مساجد جماعت نے تعمیر کیں۔ گنی کناکری میں ایک دو منزلہ مسجد تعمیر ہوئی ہے اور ایک مسجد بنی بنائی عطا ہو گئی ہے۔ یہاں بھی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے۔
مختلف ممالک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر ۔ ان میں نیوزی لینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال جماعت کی پہلی مسجد، اب تعمیر ہو گئی ہے پہلے یہاں سینٹر تھا، ہال تھا، باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ اور آئر لینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی مسجد تعمیر ہو گئی ہے، تقریباً آخری مراحل میںہے، finishing ہو رہی ہے۔ جاپان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی مسجد تعمیر ہو جائے گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ اُس کے لئے زمین لے لی گئی ہے۔ اسی طرح اور بعض ممالک ہیں۔
مساجد کی تعمیر کے ضمن میں واقعات۔ مالی کے معلم ہیں ادریس صاحب، وہ کہتے ہیں ان کے مشن ہاؤس میں ایک بزرگ عبداللہ جارا (Abdullah Diarra)صاحب آئے۔ انہوں نے مالی کے ایک گاؤں بابلے بُوغو(Bable Bougou) میں احمدیہ مسجد کو دیکھا اور حیران ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بالکل وہی مسجد ہے جو خدا تعالیٰ نے اُنہیں خواب میں دکھائی ہے۔ پھر انہوں نے اپنا خواب بتایا جس میں وہ دیکھتے ہیں کہ تمام دنیا خوبصورت مساجد سے بھری ہوئی ہے۔ خواب میں اُنہیں بتایا گیا کہ یہ تمام مساجد احمدیوں کی ہیں اور احمدی سچے مسلمان ہیں۔ پھر خواب میں اُنہیں ایک پُر زور آواز آئی کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ تمام دنیا پر غالب آ جائیں گے۔ یہ خواب بتا کر انہوں نے بیعت کر لی۔
مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مسجد جو یہاں ملی تھی، ہم نے دیکھی وہ finish نہیں ہوئی تھی ۔ میں نے اُن کو کہا کہ اس کو مکمل کریں، finishing کروائیں۔ کہتے ہیں اس کا واقعہ یوں ہے کہ سکاسو (Sikasso)میں جب ریڈیو احمدیہ لگا تو امام امین گینڈو صاحب(Ameen Gendou) نے بیعت کی۔ امام امین گینڈو صاحب نے بتایا کہ کافی عرصہ پہلے وہ ایک مسجد کے منتظم تھے۔ وہاں کے امام کے غلط عقائد اور خلافِ اسلام باتوں کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اپنے خرچ سے یہ مسجد بنوائی تھی۔ جب یہ مسجد بنی تو سابقہ مسجد کے امام اور دیگر لوگوں نے مجھے فتنہ پرداز اور فسادی کہا۔ یہ مسجد بنائی تو تھی لیکن finish نہیں ہوئی تھی۔ کہتے ہیں میری مسجد کو برے القابات دئیے گئے، بہت سخت مخالفت کی اور مجھے بہت بدنام کیا جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے بڑی دعا کی کہ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرا مقصد نمازوں کا قیام اور صحیح اسلامی تعلیمات کا فروغ ہے۔ اس کے بعد ایک دن اپنے اس دکھ کا اظہار اپنے ایک دوست امام سے کیا تو انہوں نے کہا کہ تم اس مسجد کے متعلق فکر نہ کرو میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ اس مسجد میں کچھ سفید فام لوگوں کے ہمراہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب انہوں نے بیعت کی اور مسجد جماعت کو دی تو تب اُن کو اس خواب کی سمجھ آئی اور ان کی یہ خواب پوری ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ہمارے مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں 121 کا اضافہ ہوا ہے اور 108 ممالک میں مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کی کل تعداد اب 2563 ہو چکی ہے۔ تبلیغی مراکز کے قیام میں انڈیا کی جماعت سرِ فہرست ہے جہاں دورانِ سال 25 مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا۔ انڈونیشیا دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں 17 تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا۔ اور پھر اس کے علاوہ دوسرے ممالک ہیں جہاں تھوڑا تھوڑا اضافہ ہوتا رہا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ یورپ میں بھی اور باقی جگہوں پر بھی جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز ہے کہ بہت سا کام یہ وقارِ عمل سے کرتے ہیں۔ چنانچہ 68ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق جواٹھارہ ہزار سے اوپر وقارِ عمل کئے گئے اور اس کے ذریعہ سے تقریباً 35لاکھ 32ہزار سے اوپر U.S. Dollar کی بچت ہوئی ہے جو جماعت نے وقارِ عمل کر کے بچائے۔
قرآنِ کریم کے تراجم۔ گزشتہ سال تک قرآنِ کریم کے ستّر زبانوں میں تراجم شائع کئے جا چکے تھے۔ اس سال ایک زبان Yao میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے اور اس طرح 71 زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ میانمر زبان میں پارہ نمبر 11 تا 20 کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ پہلے دس پاروں کا اس سے پہلے ترجمہ کیا گیا تھا۔جاوانیز (Javanese)زبان میں بھی پہلے دس پاروں کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ مورے زبان میں پہلا پندرہ پاروں کا ترجمہ شائع کیا جا چکا ہے۔ فرانسیسی زبان کے ترجمہ کے ساتھ قرآنِ کریم کافی عرصہ سے out of stock تھا جو امسال دوبارہ نظرِ ثانی کر کے اور کچھ نوٹس وغیرہ دے کر، سورتوں کے تعارف دے کر دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
نیامینا(Niamina) ڈسٹرکٹ گیمبیا کے ایک عالم کو تبلیغ کی گئی اور اس کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ لمبا چلتا رہا لیکن اُس نے احمدیت قبول نہ کی۔ ایک دن اُسے قرآنِ کریم کا فُولا زبان میں، جو وہاں کی مقامی زبان تھی، ترجمہ دیا گیا۔ جب اُس نے فُولا زبان کے ساتھ قرآنِ کریم وصول کیا تو کہا کہ ہاں اب مَیں یقین کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سچی ہے کیونکہ ایک جھوٹا قرآنِ کریم کی خدمت اس طرح نہیں کر سکتا جیسا کہ جماعت احمدیہ کر رہی ہے اور پھر اُس نے بیعت کر لی۔
اس سال شائع ہونے والی کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف ’’ستارہ قیصریہ‘‘ کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ہے۔مختلف جگہوں پر دنیا میں پھر امن کے بارے میںمیرے جو مختلف لیکچر تھے، اُن کو اکٹھا کر کے کتاب world crisis and pathway to peaceتیار کی گئی ہے۔ اس کا عربی میں، مالٹی میں، چینی میں، جرمن میں، فرانسیسی میں ترجمہ ہے یہ شائع ہو چکی ہے اور لوگ کافی اس کو پسند کر رہے ہیں اور سپینش اور سویڈش اور نارویجین میں ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جو حضرت بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ہے اُس کا دوسری جلد کا بھی انگریزی میں ترجمہ اس سال شائع ہو گیا ہے۔ Life of Muhammad جو ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ کا حصہ ہے جو میں نے کہا تھا شائع کی جائے۔ وسیع پیمانے پر اُس کی اشاعت اور اُس کی تقسیم کی گئی ہے۔
اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ کا انگریزی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔
پھر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ جو حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ہے اُس کا ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ پہلے بھی یہ ترجمہ شائع ہوا تھا لیکن اس کو دوبارہ revise کیا گیا ہے اور بعض اکانومسٹ جو ہیں اُن کو بھی دکھایا گیا ہے تا کہ جو کمیاں ہیں اُس کو پورا کیا جائے۔
’’برکاتِ خلافت‘‘ جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ہے اُس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ اسی طرح مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک قصیدے پر اپنی کمنٹری لکھی تھی اُس کو بھی انگریزی میں شائع کیا گیا ہے ۔ اسماعیل صاحب پانی پتی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بچوں کے لئے کتاب ہے ’’ہمارا آقا‘‘ اُس کو انگریزی میں شائع کیا گیا ہے۔
’’تحریکِ جدید ایک الٰہی تحریک‘‘ کے نام سے مجلس تحریکِ جدید کتب شائع کر رہی ہے، اُس میں اب اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے 1982ء سے 1987ء تحریکِ جدید کے متعلق ارشادات شامل کئے گئے ہیں۔
اسی طرح ریسرچ سیل کی طرف سے جو میر محمود احمد ناصر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریرات پر مشتمل کتاب ’’کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْاٰن‘‘ ہے، اُس کی دوسری جلد شائع ہو گئی ہے۔
پھر خطباتِ محمود کی جلد 24 اور 25 فضل عمر فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے جس میں 1943ء سے 1944ء تک کے خطبات شامل ہیں۔
مصالح العرب جلد اول و دوم شائع ہوئی ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہدِ مبارک سے لے کر 2011ء تک عربوں میں جماعت احمدیہ کی تاریخ، خلفائے احمدیت کے پیغامات، تبلیغ و ترقیات اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ ہوا ہے۔
صلحاء العرب و ابدالِ شام جلد اول۔ اس میں بھی عرب صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالاتِ زندگی اور قبولِ احمدیت کے واقعات کے علاوہ مختلف عرب ممالک سے احمدیت قبول کرنے والے صلحاء العرب اور ابدالِ شام کی سیرت اور قبولِ احمدیت اور خلافت سے عشق اور قربانی کے واقعات درج کئے گئے ہیں۔
عربی کتب جو اس سال شائع ہوئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ’’تذکرہ‘‘ عربی ترجمہ میں شائع کیا گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصانیف ’’براہینِ احمدیہ‘‘ پہلے چار حصے جو روحانی خزائن کی جلد اوّل ہے، ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ اور ’’ضرورۃ الامام‘‘، ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ اور ’’کشتیٔ نوح‘‘ یہ عربی میں شائع کی گئی ہیں۔
چینی کتب میں بھی ایک تو جیسا کہ میں نے بتایا world crisis and pathway to peace کو شائع کیا گیا ہے۔ میرے بعض خطبات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ہیں وہ شائع کئے گئے ہیں۔
فرانسیسی میں بھی یہ کتاب شائع کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب “Women in Islam” کو فرانسیسی میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ہے۔
رشین میں ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف ہے، وہ شائع کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف لٹریچر ہے۔
پرتگیزی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی کتاب “Chiristianity, A journey from facts to fiction” شائع کی گئی ہے۔ اسی طرح فارسی میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ revise کیا گیا ہے۔
سواحیلی میں جو اس سال کتب شائع ہوئی ہیں۔’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘۔ ’’ضرورۃ الامام‘‘۔ ’’تحفہ قیصریہ‘‘ اور اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کتاب ’’دعوت الامیر‘‘ شائع کی گئی ہے۔
اسی طرح مختلف ملکوں میںمختلف لٹریچر ہیں۔
’’رسالہ الوصیت‘‘ کے ترجمہ کے متعلق میں نے کہا تھا وسیع پیمانے پر شائع کریں۔ گزشتہ سال تک ستائیس زبانوں میں یہ رسالہ شائع ہو چکا تھااور دورانِ سال تین مزید زبانوں میں جو وولف اور فولا اور مینڈینکا ہیں، شائع کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ دورانِ سال مختلف زبانوں میں 213 کتب اور فولڈرز تیار کروائے گئے۔ 48 زبانوں میں 741کتب اور فولڈرززیرِ تیاری ہیں۔
ایک رسالہ موازنہ مذاہب ریسرچ سیل کی طرف سے شائع ہوتا ہے۔ مواد وہاں سے آتا ہے، شائع یہاں سے ہوتا ہے اور اب انشاء اللہ وہ قادیان سے بھی شائع ہونا شروع ہو جائے گا۔ یہ کافی علمی رسالہ ہے، اس کو بھی لوگوں کو لینا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دیباچہ قرآن میں ہے۔ جب یہ کتاب ایک جرمن کو دی گئی جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں تو انہوں نے کہا کہ اتنی زبردست کتاب میری زندگی میں پہلی دفعہ میری نظر سے گزری ہے۔ میں اس کو بہت مزے لے کر پڑھ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ میں اب تک اس طرح کی کتاب سے کیونکر محروم رہا۔ پھر ایک انڈیا سے رپورٹ ہے کہ وہاں کے ایک منسٹر کو کتاب دی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں اس طرح کی نادر کتاب لوگوں میں تقسیم کرنا یقینا بہت بڑی خدمت ہے جو جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ جو کچھ جماعت احمدیہ کر رہی ہے اگر یہی ان کا عقیدہ ہے تو یہ ضرور دنیا والوں کو اچھی راہ پر لے آئیں گے۔
جرمنی سے ہی ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے جرمنی کے بچوں کے مشہور ڈاکٹر کو یہ کتاب “Life of Muhammad” دی تو کہتے ہیں یہ کتاب پڑھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب ایک دن کہنے لگے کہ میں نے ان خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے لوگ کبھی نہ سنے اور نہ ہی دیکھے تھے۔ کہتے ہیں میں نے پوچھا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے آپ کا دیا ہوا لٹریچر پڑھنے کے بعد آپ لوگوں کے بارے میں سب معلومات انٹرنیٹ سے بھی اکٹھی کی ہیں۔
وکالتِ اشاعت کی رپورٹ کے مطابق 64 ممالک سے موصولہ رپورٹ میں 625 مختلف کتب، پمفلٹ اور فولڈرز شائع ہوئے ہیں جن کی تعداد ستاون لاکھ ستر ہزار ہے۔
نمائشوں اور کے ذریعہ سے چار لاکھ چوہتر ہزار تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ بک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ سے چوبیس لاکھ سے اوپر لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔
بینن سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی نمائش کے دوران ایک عیسائی پادری جو اس نمائش کو دیکھنے آئے تھے انہوں نے نمائش دیکھ کر جماعت کی اس کاوش کو بہت سراہا اور فرنچ ترجمہ والا قرآن مجید یہ کہتے ہوئے خریدا کہ یہ بات میرے لئے حیران کن ہے کہ جماعت احمدیہ ہر ایک کو بغیر مذہب و ملّت کے فرق کے قرآن مہیا کر رہی ہے کیونکہ غیر احمدی مسلمان تو عیسائیوں کو قرآنِ کریم کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتے۔ انہوں نے کہا کہ میں عیسائی ہوں اور یہ کہتے ہوئے ذرا بھی عار محسوس نہیں کر رہا کہ جماعت احمدیہ اسلام کی اصلی تصویر اپنے عملی نمونے سے پیش کر رہی ہے اور کوشش کر کے قرآن کو عام کر رہی ہے تا کہ ہر طبقۂ فکر تک قرآن پہنچے اور وہ اس کو خود پڑھ کر اور سمجھ کر اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ ہوں۔
مورو گورو سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ تنزانیہ کے صنعتی میلے میں جماعتی کتب کی نمائش کی توفیق ملی۔ آٹھ ہزار سے زائد افراد نے ہماری کتب کی نمائش کو وزٹ کیا۔ ایک دن ایک غیر احمدی مولوی ہماری نمائش پر آئے اور ایک کتاب کے بارے میں پوچھا جس میں مختلف موضوعات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خود اپنے الفاظ میں پیش کردہ دلائل کو جمع کر کے سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں خاکسار نے مولوی سے پوچھا کہ آپ تو ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہماری کتب بھی خرید رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جو بھی ہو، آپ کے دلائل میں بہت جان ہے۔ اس کتاب میں درج دلائل کو استعمال کر کے میں اب تک 19 عیسائیوں کو مسلمان کر چکا ہوں۔
جرمنی کی نمائشوں کے بارے میں تأثرات میں ایک تاثر ہے، لکھتے ہیں کہ ایک جرمن دوست نے کہا ہماری خواہش ہے کہ آپ کی جماعت قرآن کی جس رنگ میں تفسیر کرتی ہے وہ تعلیم پھیل جائے۔ میں نے یہاں پر بعض ایسی چیزیں پڑھی ہیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔
پھر ایک صاحب اپنے تاثر میں لکھتے ہیں مجھے اب تک مذہبِ اسلام میں کوئی زندگی نظر نہیں آ رہی تھی، لیکن آپ کے اسلامی نظریے کو دیکھتے ہوئے مجھے اب امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ پھر جرمنی میں ایک اخباری نمائندہ نمائش دیکھنے کے لئے آیا وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ پیغام ساری دنیا اپنا لے تبھی دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
قرآنِ کریم کی اور دیگر کتب کی نمائش پر نائیجیریا سے ایک خاتون کہتی ہیں،یہ صاحبہ نائیجیریا کی مسلم خواتین کی لیڈر ہیں انہوں نے نمائش دیکھنے کے بعد پیغام دیا کہ ’’ احمدیو! آپ کے بارے میں جو آپ کے خلاف ساری دنیا میں لکھا جا رہا ہے، میری نظروں سے گزرتا ہے۔ بڑے ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں کہ آپ کی قدر و منزلت اور اللہ کے جو آپ پر فضل اور رحم کا تعلق ہے اُسے نہیں پہنچانتے۔ ہمارے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں بھی آپ جیسا بنادے۔‘‘ اللہ کرے ان کو قبولِ احمدیت کی توفیق مل جائے۔
اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی اشاعت کے بارے میں جو رپورٹ ہے اُس کے مطابق مجموعی طور پر ایک ہزار اٹھاسی(1088) اخبارات نے چار ہزار چار سو باسٹھ جماعتی مضامین، آرٹیکلز اور خبریں وغیرہ شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد تقریباً سولہ کروڑ پچاسی لاکھ اٹھاسی ہزار سے اوپر ہے۔
شعبہ پریس اور پبلیکیشنز کے ذریعہ سے دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل سے مرکز میں بھجوائی جانے والی پریس ریلیز چھیاسی اور اخبارات اور اُن کے ایڈیٹرز کے نام بھجوائے جانے والے خطوط چالیس، ریڈیو انٹرویوز اور میڈیا انٹرویوز اسّی۔اس کے علاوہ مختلف خبریں جو دیتے رہتے ہیں جو بھی پرسیکیوشن وغیرہ احمدیوں کی ہو رہی ہے۔
لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کا جو منصوبہ تھا، مختلف ممالک کو میں نے کہا تھا کہ بڑی زیادہ تیزی سے اس پر کام کریں۔ اس وقت تک فلائرز، لیف لیٹس کے ذریعہ سے پیغام پہنچانے کے لحاظ سے جو نمایاں ممالک ہیں اُن میں یوایس اے ہے۔ انہوں نے اس سال دو لاکھ ستر ہزار فلائر تقسیم کئے، ان میں سے تیس ہزار فلائر سپینش زبان میں سپین میں تقسیم کئے گئے۔ اسی طرح گزشتہ تین سالوں میںامریکہ میں چھبیس لاکھ تریسٹھ ہزار فلائر سارے ملک میں تقسیم ہو چکے ہیں ۔
پھر اس کے علاوہ بک فیئرز اور نمائشوں اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ سے جو احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچا ہے وہ ستّر ملین افراد تک پہنچا ہے۔
کینیڈا نے اس سال پانچ لاکھ سے زائد فلائر تقسیم کئے اور مختلف ذریعوں سے پچاسی ملین سے زائد افراد تک احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا۔ جرمنی نے اب تک چار ملین سے زائد لیف لیٹس تقسیم کئے ہیں۔ وہاں مختلف ذرائع سے تیس ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچایا جا چکا ہے۔ سویڈن میں جماعت نے مجموعی طور پر بیس لاکھ سے زائد فلائر تقسیم کئے اور اس ذرائع سے دو ملین چار لاکھ افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا۔ سوئٹزر لینڈ میں سات لاکھ سینتیس ہزار فلائر تقسیم کئے گئے اور اکیس لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ ٹرینیڈاڈ میں اس سال پینتیس ہزار اور گوئٹے مالا میں سولہ ہزار فلائر تقسیم کئے گئے۔ اسی طرح جمیکا میں نوہزار، سرینام میں تین ہزار پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔ یوکے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اعشاریہ آٹھ ملین فلائر تقسیم کئے گئے اور بیس ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ آئر لینڈ میں ایک لاکھ لیف لیٹس تقسیم کئے گئے، چار لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ ناروے نے اب تک مجموعی طور پر دو لاکھ پچاسی ہزار فلائر تقسیم کئے۔ بیلجیم میں اس سال دس ہزار اور مجموعی طور پر چار لاکھ دس ہزار، ہالینڈ میں اس سال اسّی ہزار، مجموعی طور پر چھ لاکھ باسٹھ ہزار، سپین میں پچیس ہزار، مجموعی طور پر ایک لاکھ انتالیس ہزار، فرانس نے اس سال دو لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم کئے اور دو لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچایا۔ پرتگال میں اکتیس ہزار سے زائد، مالٹا میں پندرہ ہزار سے زائد تقسیم ہوئے۔ آسٹریا نے بھی اس سال کچھ کام کیا ہے۔ فن لینڈ میں بھی اس سال پہلی مرتبہ کام ہوا ہے۔ ڈنمارک کام میں پیچھے ہے۔
افریقن ممالک میں فلائر تقسیم کرنے میں اور لیف لیٹس تقسیم کرنے میں نائیجیریا تین لاکھ ایک ہزار، کانگو کنشاسا تین لاکھ باون ہزار، تنزانیہ ایک لاکھ تیئس ہزار، کینیا تراسی ہزار، ٹوگو چھوٹا سا ملک ہے پینتالیس ہزار، بینن بھی چھوٹا سا ملک ہی ہے، دو لاکھ ستائیس ہزار، بورکینا فاسو اور مالی اور باقی بہت سارے ملک ہیں۔ غانا میں اس بارے میں تھوڑا کام ہوا ہے۔ ان کو زیادہ کرنا چاہئے۔ انڈیا میں اس سال تین لاکھ پچانوے ہزار سے زائد فلائر تقسیم کئے گئے جس کے ذریعہ سے پانچ لاکھ بتیس ہزار افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ بنگلہ دیش میں بھی ساٹھ ہزار کے قریب، نیپال میں اکیس ہزار، وہ بھی چھوٹا سا ملک ہے۔ اسی طرح اور ملک ہیں۔باقی معمولی تعداد ہزاروں میں ہے۔
فلائرز کی تقسیم کے بعض واقعات بھی ہیں۔ امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ہم فرانس کے شہر Tours میں پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے تو الجزائر کے ایک نوجوان کو جب پمفلٹ دیا تو اُس نے ہمارا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ کیا تم بجلی، پانی اور کھانا تقسیم کر رہے ہو؟ خاکسار نے اُسے کہا کہ یہ پانی تم نے پہلے نہیں پیا ہو گا۔ بعد میں ہم پمفلٹ تقسیم کرتے رہے۔ وہی نوجوان کچھ دیر بعد ہمارے پاس آیا، اس کے ساتھ اور بھی لڑکے تھے، وہ آ کر کہنے لگا کہ میں معافی چاہتا ہوں، مَیں آپ کو غلط سمجھاتھا، ہم سب لڑکے اس پمفلٹ کو آپ کے ساتھ تقسیم کریں گے۔ اس طرح اس نوجوان نے دیکھتے دیکھتے سارے پمفلٹ خاکسار کے ساتھ اس شہر میں تقسیم کر دئیے۔ غیروں نے بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیا یہ دیکھ کر کہ امن کا پیغام ہے۔
فرانس کے ایک شہر chatelleraul میں ایک بڑی عورت نے پمفلٹ پڑھنے کے بعد کہا مجھے اور پمفلٹ دیں مَیں اپنے علاقے کے امام اور اُس کے بیوی بچوں کو بھی یہ پمفلٹ دینا چاہتی ہوں۔ یہ بہت اچھا پمفلٹ ہے۔ میں اُسے اپنی مسجد میں تقسیم کروں گی۔یہ مسلمان تھیں۔ نارتھ افریقن وہاں کافی ہیں۔ جب اس خاتون کو مزید پمفلٹ دئیے گئے تو اُس نے کچھ پیسے بھی دینے چاہے لیکن جب اس کو پتہ چلا کہ مفت میں تقسیم ہو رہے ہیں تو کہنے لگی کہ یہ کام تو ہم لوگوں کو کرنا چاہئے، آپ باہر سے آ کر کر رہے ہیں۔
اسی طرح وہاں فرانس میں معلم ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے تو تقسیم کے دوران پولیس آ گئی اور پمفلٹ تقسیم کرنے سے روک دیا۔ اس پر سارے واپس آ گئے۔ کافی پریشانی ہوئی کہ تبلیغ کیسے ہو گی ہماری تو اس ریجن میں کوئی جان پہچان بھی نہیں ہے، کسی میئر یا کونسل کو بھی نہیں جانتے۔ کہتے ہیں اس کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا جو جماعت فرانس کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ سات اور آٹھ نومبر 2012ء کی درمیانی شب کو ایپرنے(Epernay) مشن ہاؤس کی بیرونی دیوار پر بعض افراد نے اسلام کے خلاف بعض غلط قسم کی باتیں لکھیں۔ اس سلسلے میں وہاں پولیس بھی آئی۔ اس کے بعد اس ریجن کے ڈی ایس پی کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی، اُن کو جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ اُس نے ہماری activities کا پوچھا۔ وہ یہ سن کر بہت متاثر ہوا اور کہا کہ ’’تم جہاں چاہو پمفلٹ تقسیم کرو، تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔ کوئی پاگل ہی ہوگا جو تمہارے امن کے پیغام کو روکے‘‘۔ اور ساتھ ہی اس نے اپنا موبائل نمبر دیا اور کہا کہ اس پر فون کر لینا اگر ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخباروں اور ریڈیوں میں بھی خبریں آئیں اور تقریباً دو لاکھ سے زائد افراد تک احمدی کا پیغام پہنچا۔
سوئٹزرلینڈ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ جب امریکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز فلم بنائی گئی تو اس کے ردّعمل کے طور پر جب میں نے دنیا میں مختلف جماعتوں کو ہدایت کی کہ اپنے اپنے ملکوں میں جگہ جگہ سیرت النبیؐ کے جلسے کریں تو سوئٹزرلینڈ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کئی پروگرام منعقد کئے گئے جس کے غیر معمولی نتائج ظاہر ہوئے۔ کہتے ہیں ایک پروگرام میں ایک سوئس خاتون نے سوال و جواب کے دوران کھڑے ہو کر اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ان بودے اور گھٹیا قسم کے اعتراضات اور حملوں سے بالا ہے۔ اس طرح کی توہین آمیز فلمیں بنا کر یا کارٹون شائع کر کے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور عزت کو کم نہیں کر سکتے۔ جیسے کوئی چاند کی طرف تھوکے تو اُس کا تھوک اس کے اپنے اوپر آ کر گرتا ہے۔ چاند کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا، ویسے ہی اس طرح کی گھٹیا حرکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ مسلمان تو خوامخواہ شور مچاتے ہیں اور غیر مناسب ردّعمل کے ذریعہ سے اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں‘‘۔
پھر بین المذاہب کانفرنسیں ہوئیں، اُن میں بعض غیروں کے تأثرات ہیں۔ ’ایپرنے‘ سے ہی ہمارے مربی لکھتے ہیں کہ جو ہال کرائے پر لیا گیا تھا،ہال کی انتظامیہ میں ایک خاتون نے دو ہفتے پہلے ہمیں کہا کہ آپ کو امید ہے کہ لوگ آئیں گے؟ تو ہم نے کہا کہ انشاء اللہ آئیں گے۔ اس پر اُس نے کہا کہ اگر آئے بھی تو دس یا پندرہ سے زیادہ نہیں آئیں گے۔ لیکن جب کانفرنس ہو چکی تو کہنے لگی کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ہم نے ایسا انتظام دیکھا ہو اور اتنے لوگ کسی مذہبی تقریب کے لئے آئے ہوں۔ اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتی تو میں نے یقین نہیں کرنا تھا۔ پھر کہنے لگیں کہ میں نے جو آج یہاں پر اسلام دیکھا ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ بہت اچھا لگا۔ پھر ایک اور مہمان نے کہا کہ مجھے پہلے اسلام کے متعلق صرف دو چیزوں کا پتہ تھا۔ terrorism یا پھر jihadistکا۔ لیکن اس کانفرنس نے میری آنکھیں کھول دی ہیں اور میں حیران ہوں کہ اصل اسلام کتنا پیارا مذہب ہے۔ ایک خاتون نے لکھا کہ اس کانفرنس میں شامل ہو کر بہت اچھا لگا۔ اسلام کی باتیں جو آج سننے کو ملیں وہ پہلے کبھی نہیں سنیں، اس کانفرنس کے بعد کئی سوالوں نے جنم لیا ہے جو میں کسی دن آ کر پوچھوں گی۔ ایک جرنلسٹ جو شامل ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ بہت مزہ آیا اور حیران ہوں کہ اتنے لوگ کیسے آ گئے۔ اسی جرنلسٹ نے بتایا کہ اس نے غیر احمدی امام سے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگوں کو احمدیوں نے دعوت دی ہے؟ تو امام نے کہا کہ انہوں نے دعوت تو دی ہے لیکن ہم اُن کے اس کے کام سے خوش نہیں ہیں، وہ تو مسلمان ہی نہیں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لئے وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں۔ ایک مہمان نے کہا کہ جب مجھے آپ کا دعوت نامہ ملا تو حیرت ہوئی کہ مسلمان ایسوسی ایشن امن کی بات کیسے کر سکتی ہے؟ اس لئے میں نے سوچا کہ چلو دیکھتے ہیں مسلمانوں کے نزدیک امن کیا چیز ہے؟ جب میں یہاں آئی تو میں حیران ہو گئی۔ میں نے اس کانفرنس کے علاوہ ایک اور جگہ بھی جانا تھا لیکن میرا دل نہ کیا کہ یہاں سے اُٹھوں۔ اب مجھے پتا چلا کہ دنیا میں ایسے مسلمان بھی ہیں جو صرف امن کا پیغام دیتے ہیں۔
پرنٹنگ پریسز کے ذریعہ سے جو کام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقیم پریس لندن کے تحت چار لاکھ چودہ ہزار کتب و رسائل کی طباعت ہوئی۔ گزشتہ سال کی نسبت یہ دوگنی تعداد ہے۔ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل بھی یہاں سے چھپتا ہے، اس کے علاوہ چھوٹے پمفلٹس وغیرہ۔ اسی طرح بعض رسالے بھی یہ پریس سے چھپوا کر اُس کو بائنڈ وغیرہ کرواتے ہیں۔ا فریقن ممالک کے پریس ہیں، اس میں اس سال آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار کے قریب لٹریچر تیار ہوا۔ جن ممالک کے پریسز(Presses) کو وسعت دی گئی ہے اُن میںاس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے فضلِ عمر پریس قادیان میں کافی وسعت دی گئی ہے۔ ایک دو کلر کی مشین بھی بھجوائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی مشینیں وہاں گئی ہیں۔ اسی طرح نائیجیریا، گھانا اور گیمبیا کے پریس بھی مزید بہتر ہوئے ہیں۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا ایک تو انتظامی ڈھانچہ ہے جس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اس سال ایم ٹی اے ویب سائٹ کا اجراء کیا گیا۔ ایم ٹی اے ویڈیو آن ڈیمانڈ کی سروس کا آغاز ہوا۔ انٹرنیٹ پر اُس کو مزید وسعت دی گئی ہے۔ بعض نئے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ اور جو مزید ترقی بعض ملکوں میں ہوئی ہے وہ اس طرح ہے کہ 31؍ جولائی سے مارشل آئی لینڈ میں لوکل کیبل چینل پر ایم ٹی اے دکھایا جا رہا ہے۔ مارشل آئی لینڈ نارتھ پیسفک کا ایک ملک ہے۔ غانا کی نیشنل ٹی وی اتھارٹی’’ غانا براڈکاسٹنگ کارپوریشن‘‘ کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے اس میں وہ ہمارے یہاں سے جو پروگرام تیار ہوں گے وہ وہاں دکھایا کریں گے ۔ا ور افریقہ کے بہت سارے ممالک جہاں ایم ٹی اے کاعموماً رُخ اور ہے، اور وہاں جو ایک سیٹلائٹ بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے، تو گھانا اُس کو کور(cover) کر لے گا، گھانا کا جو نیشنل ٹیلی ویژن ہے وہ ہمارے پروگرام دکھایا کرے گا۔ faith matters، real talk، press point وغیرہ یہ وہاں دکھائے جائیں گے۔ اس سال یوکے جلسہ کے لئے بھی انہوں نے ڈیڑھ گھنٹہ کا وقت دیا ہے جس میں جلسہ سالانہ کا تعارف وغیرہ دکھایا جائے گا افریقن ممالک کے لئے اُس کی کافی بڑی کوریج ہے۔
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتیں۔گیمبیا میں ماہِ جون میں ایک احمدی دوست عبداللہ سیسے (Ceasay)صاحب ایک دور دراز گاؤں ’سارے وُڈ‘ گئے اور وہاں رات ایک گھر میں قیام کیا۔ رات کے وقت گھر کے افراد ایم ٹی اے دیکھ رہے تھے۔ ان کے پوچھنے پر گھر والوں نے بتایا کہ وہ یہ چینل عرصہ دراز سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے علاقے میں بجلی نہیں ہے لیکن صرف اس چینل کی خاطر ہم پٹرول خریدتے ہیں کیونکہ یہ چینل ہمیں اسلام کی تعلیم سکھاتا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ اُن کو اسلام احمدیت کا پتہ لگا لیکن وہ اس جماعت میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اس پر ہمارے احمدی دوست نے اُس کی رہنمائی کی۔ چنانچہ اس طرح ایم ٹی اے کی برکات سے وہاں سترہ افراد نے احمدیت قبول کی۔
فلسطین سے ایک خاتون لکھتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کا تعارف ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہوا۔ کسی اچھے اور مفید چینل کی تلاش میں ایک دن میں چینل بدل رہی تھی اور میں دل میں یہ کہتی جا رہی تھی کہ اگر خدا مجھ سے راضی ہے تو وہ میری رہنمائی کے لئے مجھے کوئی مفید چینل مہیا کرے گا۔ اچانک ایک چینل پر میں رُک گئی جس میں کچھ عجیب باتیں نظر آئیں۔ جیسے امام مہدی علیہ السلام، خلیفۃ المسیح، فصیح و بلیغ عبارات اور اشعار وغیرہ۔ یہ سب دیکھ کر میں نے سوچا کہ کیا میں کسی مستقبل کے عالَمِ ثانی میں پہنچ گئی ہوں؟ میں زبان اور ادب میں حد درجہ رغبت رکھتی ہوں اور میری طبیعت میں یہ بھی تھا کہ تحقیق کروں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق امام مہدی کی علامات کیا کیا ہیں۔ موجودہ وقت میں رونما ہونے والے فتنے فساد کی کثرت پر مَیں خدا تعالیٰ سے دعا کرتی تھی کہ خدا تعالیٰ امتِ مسلمہ میں امام مہدی کو جلد ظاہر فرمائے۔ میں چھوٹی عمر سے ہی علاماتِ امام مہدی کا مطالعہ کرتی آ رہی تھی۔ میں کہتی تھی کہ ہمیں ان علامات پر گہرائی سے غور و فکر کی ضرورت ہے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان باتوں کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہم سے وہی غلطیاں سرزد ہوں جو سابقہ امّتوں سے سرزد ہوئی تھیں۔ لیکن بڑے بڑے سمجھ دار لوگوں نے دجال کے بارے میں سوال پر یہی کہا کہ وہ ایک شخص ہو گا۔ پھر ’’الحوار المباشر‘‘ کو باقاعدگی سے دیکھتی رہی اور ایم ٹی اے کے ساتھ لگی رہی۔ باوجود اس کے کہ میں ہر چیز پر تنقید کرتی ہوں، مَیں اس چینل کی تمام باتوں کو قبول کرتی رہی۔ چنانچہ جب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا کلام سنتی ہوں تو بے اختیار بلند آواز سے کہتی ہوں کہ یہ وجود ہر حال میں سچا ہے۔ آپ علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت نے مجھے حیران کر دیا کہ یہ کلام کسی جھوٹے شخص کا ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ کچھ مہینے کے بعد مَیں نے دل سے بیعت کر لی۔ اب ایک سال کے بعد باقاعدہ فارم پُر کر کے بیعت کی توفیق پائی ہے۔ انٹرنیٹ پر نشر ہونے والے معاندینِ احمدیت کا جھوٹا پروپیگنڈہ بھی میری بیعت کی ایک وجہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے دس سال قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میں اپنے گاؤں میں چلتی ہوئی آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتی ہوں، آسمان کے ستارے سارے ایک جگہ جمع ہو کر خوب روشن ہو گئے ہیں اور دلوں کو خوشی پہنچا رہے ہیں اور ستاروں کے اس جھرمٹ نے اپنی شکل سے ایک لکھی ہوئی عبارت تشکیل دی جو اس طرح تھی کہ سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِم حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقّ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ پس ہم ضرور اُنہیں آفاق میں بھی اور اُن کے نفوس کے اندر بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر خوب کھل جائے کہ وہ حق ہے۔ اس کے بعد میں اپنی نیند سے بیدار ہو گئی۔ بعد میں چند سالوں کے بعد یہی خواب دوبارہ دیکھا تو ایسا لگا کہ فی الحقیقت یہ کوئی خاص رؤیا تھا۔ اور جب جماعت احمدیہ کا تعارف حاصل ہوا تو مجھے اس خواب کی حقیقت معلوم ہوئی۔
پھر ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میری عمر 36 سال ہے۔ میرے ذہن میں کئی قسم کے سوالات و شبہات اُٹھتے تھے لیکن کہیں سے تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا۔ پھر اچانک ایک دن ایم ٹی اے مل گیا اور سارے مفاہیم حل ہو گئے۔ کہتے ہیں اس رات انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا کہ ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور کہتے ہیں کہ آپ نے بڑی قوت سے اُس کی لگام تھامی ہوئی ہے، آپ کے پیچھے بہت سے نورانی لوگ ہیں اور آپ زمین اور آسمان کے درمیان گھوڑا اُڑا رہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ جاگتا تھا یا سویا تھا، بہر حال میری آنکھ سوتے میں آپ کو دیکھ رہی تھی اور روح جاگتے میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔ پھر اچانک میں نے خود سے گفتگو شروع کر دی اور کہا یہ تو کشف ہے۔ اس پر میں نے بیعت کا فیصلہ کیا۔ یہ ایم ٹی اے کی طرف ہی اشارہ تھا۔ یمن سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ خدمت کرنے والوں کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ تمام کارکنان کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں خدمات کا بہتر اجر عطا فرمائے۔ ابھی تک جماعت احمدیہ کی جتنی بھی کتب کا مطالعہ کیا ہے اُن میں مجھے اپنی گم شدہ چیزیں ملیں اور ان کتابوں سے حقیقی اسلام نظر آیا۔
موروگورو تنزانیہ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ شہر میں ایم ٹی اے کیبل نیٹ ورک پر چوبیس گھنٹے دکھایا جاتا ہے اور جماعتی پیغام موروگورو شہر کے ہر گھر میں پہنچ رہا ہے۔ بوہرہ(Bohra) کمیونٹی کے امام کریم بخش صاحب نے ہمارے مبلغ کو بتایا کہ میں آپ کا چینل باقاعدگی سے دیکھتا ہوں۔ آپ حقیقی رنگ میں اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ مبلغ نے ان سے پوچھا کہ آپ کونسا پروگرام زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پروگرام جس میں آپ کے خلیفہ صاحب بچوں کے ساتھ کلاس کرتے ہیں اور بڑے اچھے انداز میں اُن کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔
یہ مجھے کئی ہندو اور سکھ صاحبان بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم لوگ یہاں بھی لندن میں بھی یہ بچوں کا پروگرام ضرور دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال مالی میں چار نئے ریڈیوا سٹیشنز کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ساتھ اب تک مالی میں چھ ریڈیو سٹیشن قائم ہو چکے ہیں ۔ ہمارے ریڈیو سٹیشن میں وہاں سے فرنچ میں، جولا میں، بمبارا میں، سونیکے(Sonikay) فلفلڈے(Fulfulde)، عربی اور سُرائی پورے زبانوں میں تبلیغ کے پروگرام ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بورکینا فاسو میں بھی چار ریڈیو اسٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ سیرالیون کے کیپیٹل فری ٹاؤن میں بھی ایک ریڈیو سٹیشن قائم ہو چکا ہے۔ ان ریڈیو سٹیشنز سے تلاوتِ قرآنِ کریم، قاعدہ یسرنا القرآن پڑھایا جاتا ہے، اس کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں، ترجمہ قرآنِ کریم، تفسیر القرآن، حدیث، سیرت النبیؐ، ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات، خطباتِ جمعہ اور مختلف پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔
امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مالی کو چھ ریڈیو سٹیشن لگانے کی توفیق ملی ہے۔ ان کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام ہو رہا ہے۔ ہمارے ریڈیو سب سے زیادہ سنے جانے والے ریڈیو ہیں۔ ہر روز کتنے ہی گاؤں سے فون آتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں، ہمارے پاس پہنچو، ہم نظام میں شامل ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو یہ حالت ہے کہ جب کسی گاؤں میں جاتے ہیں تو ان کو جماعت کا تعارف کروانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، بلکہ یہ سارے سام ریڈیوز کے ذریعہ سے پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں فونو گراف کی ایجاد ہوئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ ’’فونو گراف کیا ہے؟ گویا مطبع ناطق ہے‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 196۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی بولنے والا ایک چھاپہ خانہ ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر فرمایا ’’اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں، کیونکہ اسبابِ تبلیغ جمع ہو رہے ہیں۔ اب فونو گراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 49۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام ہو رہا ہے۔
اب بعض واقعات جو ریڈیو سن کر قبولِ احمدیت کے ہیں۔ مالی سے ہمارے معلم لکھتے ہیں کہ ایک دن ریڈیو پر ایک شخص نے فون کیا جو مسلسل روئے جا رہا تھا اور خاکسار سے معافی مانگ رہا تھا۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اتنے روتے کیوں ہوں؟ جواب دیا کہ مَیں جماعت کے خلاف بہت بدزبانی کیا کرتا تھا کیونکہ مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق بہت بری باتیں بتائی گئی تھیں اور میرے دل میں جماعت کے خلاف شدید نفرت تھی۔ مگر اب آپ کا ریڈیو سننے کے بعد مجھ پر حقیقت کھل گئی ہے۔ مَیں جماعت احمدیہ میں داخل ہو تا ہوں۔ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری غلطیوں کو معاف فرمائے۔
مالی سے ایک جگہ کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن جماعت کے ریڈیو پر ابوبکر سَوْرِن تِیلا (Abubakr Sorintela) صاحب نے ٹیلیفون کیا اور کہا کہ وہ احمدیت میں داخل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ اسلام کی جو خدمت احمدی کر رہے ہیں وہ آج تک کسی بھی مسلم فرقے کو کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ انہوں نے احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ ہی اسلام سیکھا ہے۔ ساری نمازیں بھی انہوں نے احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ سے سیکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تو مسلمانوں کے بچوں کے علاوہ عیسائیوں کے بچے بھی نماز سیکھ رہے ہیں۔
بورکینا فاسو سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جب امام مہدی آئے گا تو کافروں کے سر قلم کر دے گا۔ ایک دن ریڈیو کھولا تو اس پر جماعت احمدیہ کا پیغام سنا جس کے مطابق امام مہدی آ چکے تھے اور اس بارے میں قرآن اور حدیث کے دلائل میرے لئے حیرت کا باعث تھے۔ دل بار بار کہتا تھا کہ اصل میں تو ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ ریڈیو پر بتایا گیا ہے۔ چند دنوں کے بعد جماعت کا وفد اُن کے گاؤں میں تبلیغی دورے پر گیا تو انہوں نے بغیر کسی سوال جواب کے بیعت کر لی اور مالی نظام میں بھی شامل ہو گئے۔ کہنے لگے کہ مجھے کسی تفصیل جاننے کی ضرورت نہیں بلکہ آپ نے تو آنے میں دیر کر دی ہے مَیں تو پہلے ہی دل سے بیعت کر چکا ہوں۔
مالی سے ہی بلال صاحب لکھتے ہیں کہ سِیْکاسَو کے علاقے میں جماعت کے ریڈیو لگنے کے بعد جماعتی تبلیغی کاموں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کی طرف سے غیر معمولی رسپانس ملا ہے۔ ایک دن ایک شخص نے ریڈیو پرفون کر کے کہا کہ اگر یہ ریڈیو دو سال تک سیکاسو میں چلتا رہا تو دو سال بعد تمام سیکاسَو احمدی ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔
بعض تبدیلیاں جس طرح لوگوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دن ایک صاحب احمدیہ مشن میں تشریف لائے اور بتایا کہ وہ احمدیہ ریڈیو لگنے سے پہلے میوزک بہت شوق سے سنتے تھے اور اسلام میں بالکل دلچسپی نہ تھی۔ مسلمان تھے۔ مگر جب سے احمدیہ ریڈیو لگا ہے، اُنہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کتنا خوبصورت مذہب ہے۔ انہوں نے اس ریڈیو سے تین ماہ میں اتنا کچھ سیکھ لیا ہے جو انہوں اپنی زندگی کے تیس سالوں میں نہیں سیکھا۔ ریڈیو کے ذریعہ انہوں نے نماز اور دیگر دعائیں سیکھی ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ اُن کی احمدیت قبول کرنے سے پہلے کی تمام عبادت غلطیوں سے پُر تھی اور اب احمدیت کے ذریعہ اسلام کا صحیح پتہ لگا ہے۔
پھر مالی سے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک خاتون مریم صاحبہ آئیں اور انہوں نے بتایا کہ وہ احمدیہ ریڈیو باقاعدگی سے سنتی ہیں اور جو اسلام ہم پیش کر رہے ہیں وہ ان کے لئے بالکل نیا ہے۔ انہوں نے آج تک ایسی خوبصورت تعلیم نہیں سنی اور انہیں اب پتہ لگا ہے کہ اسلام اتنا خوبصورت مذہب ہے۔ اور اس پر انہوں نے ایک ہزار فرانک سیفا چندہ بھی دیا۔
ریڈیو پروگراموں کی مخالفت اور مخالفین کی ناکامی بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔
مبلغ صاحب لکھتے ہیں،کونگو کنشاسا کے صوبہ باندوندو کے ڈسٹرکٹ اِنَونگو (Inongo)کے دورے پر گئے۔ مقامی ریڈیو پر پینتالیس منٹ کا ایک براہِ راست پروگرام کیا اور اسلام کی تعلیم بیان کی۔ پروگرام کے اگلے روز مقامی ریڈیو کے مالک کے پاس سنی مسلمانوں کا ایک وفد آیا اور اُنہیں پیشکش کی کہ اگر تم جماعت احمدیہ کے مبلغین کو آئندہ اپنے ریڈیو پر نہ آنے دو تو ہم تمہیں تمہارے آن ایئر وقت کی دگنی قیمت دیں گے۔ ریڈیو کے مالک نے کہا کہ چاہے تم ہمیں دس گنا زیادہ دو، تب بھی ہم تمہارے دباؤ اور رقم کے لالچ میں آ کر جماعت کو اسلام کی خوبصورت تعلیم بیان کرنے سے نہیں روکیں گے۔ تم لوگ یہاں ایک عرصہ دراز سے رہ رہے ہو لیکن تمہیں کبھی اسلام کی تعلیم بیان کرنے کا خیال نہیں آیا اور آج جماعت احمدیہ آئی ہے تو تم لوگ پیسے لے کر آ گئے ہو۔
پھر مالی کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ سیکاسَو میں ریڈیو شروع ہونے کے بعد شدید مخالفت کا سامنا تھا اور مخالفین کی طرف سے ریڈیو بند کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر ایک دن سیکاسَوجماعت کی عاملہ کی میٹنگ بلوائی گئی۔ صدر صاحب نے بتایا کہ مالی کے ریڈیوز کی ایک تنظیم یو آر ٹی ایل کے نام سے ہے اگر ہمارا ریڈیو اس تنظیم کا ممبر بن جائے تو اس صورتحال میں یہ ریڈیو کے لئے بہت اچھا ہو گا مگر اس کے لئے ہمیں اس تنظیم کو اسّی ہزار فرانک سیفا ممبرشپ کے دینے ہوں گے۔مبلغ لکھ رہے ہیں کہ میٹنگ کے بعد قبل اس کے کہ خاکسار امیر صاحب سے اس خرچ کے بارے میں بات کرتا۔ ہمارے ایک نو مبائع گھر گئے اور پینتالیس ہزار فرانک سیفا لا کر دیااور کہا کہ میرے پاس اس وقت یہی کچھ ہے، یہ رکھ لیں مگر یہ ریڈیو بند نہیں ہونا چاہئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال مختلف ریڈیوز پر جو پیغام پہنچ رہے ہیں اس سے ریڈیو کے ذریعہ سے اورٹی وی کے ذریعہ سے جو ان کا اندازہ ہے، اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ افراد تک پیغام پہنچا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیہ ویب سائٹ alislam.org بھی کام کر رہی ہے اور امریکہ اور کینیڈا اور پاکستان اور بھارت اور برطانیہ سے ان کے والنٹیئرز کام کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سولہ کتب ebooks کی شکل میں تیار ہو چکی ہیں جو آئی فون اور آئی پیڈ اور کِنڈل پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ پھر میرے خطبات میرے تقاریر بھی اس میں موجود ہیں۔اورانوار العلوم کی 23 جلدیں اور خطباتِ محمود کی پچیس جلدیں آن لائن مہیا کر دی گئی ہیں۔ روحانی خزائن کے لئے حوالہ تلاش کرنے کا سسٹم انسٹال کیا گیا ہے اور جن کتب کے ترجمے انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں وہ بھی اس سسٹم میں شامل ہیں۔ قرآنِ کریم کے اردو اور انگریزی تراجم اور تفاسیر کے علاوہ 43 زبانوں میں تراجم قرآنِ کریم آن لائن availableہیں۔ اس سال آٹھ ہزار سے زائد ویڈیوز کو ستّر لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔
اس سال واقفینِ نو کی تعداد میں 2,801 کا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقفینِ نَو کی کُل تعداد پچاس ہزار چھ سو ترانوے ہو گئی ہے۔ یعنی جب سے یہ سکیم شروع ہوئی تھی۔ لیکن اس میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہے جو بیچ میں سے جھڑ گئے ہیں ۔ لیکن میرا خیال ہے دس سے پندرہ فیصد ایسے ہیں۔ لڑکیوں کی تعداد انیس ہزار تین سو چھتیس ہے اور لڑکوں کی تعداد اکتیس ہزار تین سو ستاون۔تعداد کے لحاظ سے پاکستان اور بیرونِ پاکستان کا موازنہ اس طرح ہے۔ پاکستان کی مجموعی تعداد اٹھائیس ہزار دو سو دس اور بیرونِ پاکستان بائیس ہزار چار سو تراسی۔
اسی طرح مرکزی دفاتر میں ایک انڈیا ڈیسک کا دفتر ہے جیسے پہلے میں قادیان کی رپورٹ دے چکا ہوں۔ یہ وہاں کے تمام معاملات کو سنبھالتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے تحت بھی بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔اب قادیان میں شعبہ تاریخِ احمدیت بھی قائم ہو چکا ہے۔ اور بہت سارے شعبے ہیں۔اسی طرح تعمیرات نئی ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی کام ہو رہے ہیں۔
بنگلہ ڈیسک ہے ان کے تحت سبز اشتہار کا بنگلہ ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اور اشاعت کے لئے پریس میں جا چکا ہے۔ حضرت مسیح موعود کی کتاب ’’استفتاء ‘‘کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ براہینِ احمدیہ کے پہلے دو حصوں کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ ہفتے کے اڑتالیس گھنٹے کے بنگلہ لائیو پروگرام آ رہے ہیں۔ اسی طرح اور بہت سارے دوسرے پروگرام سوال جواب ہیں۔
فرنچ ڈیسک ہے، اس کے تحت بھی جیسا کہ میں نے بتایا قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ بعض کتب کا ترجمہ شائع ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض کتب اب بھی ترجمہ کے پراسس میں ہیں۔ ٹرکش ڈیسک ہے، اس میں مندرجہ ذیل کتب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
ضرورۃ الامام،البلاغ، لیکچر سیالکوٹ،سیرۃ الابدال،سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، لیکچر لدھیانہ،گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ اور اس طرح بہت سارا لٹریچر ہے۔
چینی ڈیسک ہے، انہوں نے بھی بعض لٹریچر شائع کئے ہیں، کچھ کا ذکر میں نے کر دیا ہے۔
رشین ڈیسک ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہے ہیں اور خطبات کے ترجمے بھی اب ساتھ ساتھ جانے لگ گئے ہیں۔
عربی ڈیسک ہے، انہوں نے بھی کافی کام کیا ہے۔ ترجموں کی فہرست میں نے بتائی ہے کہ اس کے تحت بعض کتب کے ترجمے انہوں نے کئے ہیں ۔
ایم ٹی اے تھری اور ’’الحوار المباشر‘‘ کے متعلق جو لوگوں کے تأثرات ہیں اُس کے تحت بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں۔
سیریا سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ آپ کو مبارک ہو، جس کام میں امتِ مسلمہ ایک ہزار سال سے ناکام ہے اس میں آپ کامیاب رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ایم ٹی اے مبارک ہو جو نہ شدت پسندی کی طرف بلاتا ہے، نہ سخت گیری کی طرف ترغیب دیتا ہے۔ مسلمان عورتوں کو جماعت احمدیہ کا وجود مبارک ہو جو ان کو مساوات کی نظر سے دیکھتی ہے۔ تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل اسلام مبارک ہو۔ بعد اس کے کہ اسلام کا نام باقی رہ گیا تھا اور قرآن کی تحریر باقی رہ گئی تھی۔ ساری دنیا کو آسمانی نعمت حضرت مسیح موعود کا ظہور مبارک ہو۔ میں بہرہ تھا اب سننے لگا ہوں، اندھا تھا اب دیکھنے لگا ہوں، گمراہ تھا اب راہِ راست پر آیا ہوں، شبہات میں گرفتار تھا اب حقیقی اسلام سے آشنا ہو گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس بگڑی ہوئی امّتِ مسلمہ سے عذاب دور نہیں کرے گا جب تک وہ اس آسمانی آواز پر لبیک نہیں کہتی۔ آپ لوگ اسلام کے سپاہی ہیں۔ مَیں نے آپ سے سچائی اور دیانت داری سیکھی ہے۔ آپ سے محبت پا کے اُس ساری خلقِ خدا میں تقسیم کرنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
ایک صاحب یمن سے لکھتے ہیں کہ ایک عرصہ سے ایم ٹی اے دیکھتا تھا۔ ایک صحافی اور محقق ہونے کے ناطے حقیقتِ حال جاننے کا شوق تھا لہٰذا جماعت کے مخالفین کی کتب بھی پڑھیں۔ مَیں نے دیکھا کہ ان میں جماعت پر ناروا الزام تراشی کی جاتی ہے، حتی کہ تکفیر کی جاتی ہے۔ مزید تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس میں وہی پرانے غلط الزامات کے سوا کچھ نہیں جیسا کہ دعویٔ وحی و نبوت اور انگریزوں کی مدح وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی جیسے معجزات دیکھتا تھا۔ یہ بھی الٰہی معجزہ تھا کہ امام مہدی کو فارسی الاصل پیدا کیا گیا۔ ضروری نہیں کہ عربوں میں ہی مہدی آتا کیونکہ ہدایت اور نبوت صرف عربوں سے ہی مختص نہیں۔ دوسری دنیا کا کیا قصور ہے؟ اسلام کے آخری زمانے میں غریب ہو جانے کا میرے نزدیک ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس کی نشأۃ ثانیہ غیر عرب ملک سے شروع ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ نے اسلام کا صحیح تصور دوبارہ پیش کیا ہے جس کو لوگوں نے بھلا دیا تھا یا بگاڑ دیا تھا۔ اسلام امن اور سلامتی کا نام ہے لیکن مسلمان آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔ کوئی خونی مہدی کا انتظار کر رہا ہے تو کوئی مہدی کے غار سے نکلنے کا منتظر ہے۔ لیکن ایک جماعت احمدیہ ہے جو حقیقی مہدی کو مان کر اس کی پیروی کر رہی ہے۔
ایک صاحب مراکش سے لکھتے ہیں، 2009ء میں مجھے جماعت احمدیہ سے تعارف حاصل ہوا اور یقین ہو گیا کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہ مسیح موعود ہیں جن کی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی چنانچہ میں نے چند دن قبل بیعت کر لی ہے۔ مَیں ایمان تو اُس وقت لے آیا تھا جب میں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ ایسا کلام خدا تعالیٰ کے ماموروں کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ اپنی استقامت اور اعلیٰ روحانی تبدیلیوں کے پیدا ہونے اور جماعت کا فعال اور مفید رکن بننے کے لئے اور باقی دوستوں کی ہدایت کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
پھر مراکش سے ہی ایک صاحب لکھتے ہیں، مَیں تاریخ اور جغرافیہ کا استاد ہوں اور باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا، ترقی بھی ہو گئی، مکان بھی ہیں لیکن میں نفس کی ضلالتوں میں پڑا رہا اور گناہوں میں گھرتا گیا۔ حتی کہ خداتعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی۔ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہی میرے زخموں کا مرہم اور میری روح کا علاج ہے۔ مجھے تزکیۂ نفس کی فکر پیدا ہوئی۔ اور پھر کہتے ہیںمجھے آپ کو اس غرض سے لکھنے کا احساس بیدار ہوا۔ دعا کریں۔ مجھے دعا کے لئے لکھ رہے ہیں۔ پھر الجزائر سے ایک صاحب میرے امریکہ کے خطاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ دلیرانہ خطاب قدرتِ ثانیہ کی صداقت کی واضح دلیل ہے۔
پھر الجزائر سے ایک صاحب لکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر پہلی نگاہ پڑتے ہی اُن کی صداقت کا قائل ہو گیا اور ایمان لے آیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آپ مرسلِ سماوی ہیں اور سچے ہیں۔ میں نے عام لوگوں اور اولیاء اور محدثین کا کلام بھی پڑھا ہے جو کہ عام لوگوں سے بالکل مختلف اور الہامِ الٰہی اور کشف پر مبنی ہوتا ہے۔ اپنے عمل میں ابھی کمی اور کمزوری محسوس ہوتی ہے، براہِ کرم دعا کریں۔
مدینہ منورہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلانے کی اس مساعی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں حرم شریف جاتا ہوں تو وہاں زبانِ حال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرتا اور سوچتا ہوں کہ سیاسی مفادات کی وجہ سے کس طرح لوگ مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ کہیں قتل و غارت اور بھوک و افلاس ہے تو کہیں بے حد ثروت اور امیری۔ اسلام میں اور دیگر ادیان میں بھی اختلاف پیدا ہو چکے ہیں۔ میری بیعت کا واقعہ اس طرح ہے کہ میں اپنے ارد گرد کئی امور میں اختلافات دیکھا کرتا تھا۔ میرا نقطۂ نظر دوسرے لوگوں سے مختلف تھا جس کی وجہ سے مَیں ان کے خیال میں مشکلات پیدا کرنے والا شخص تھا۔ مَیں ہمیشہ ہدایت یابی اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی توفیق پانے کی دعا کیا کرتا تھا۔ مولویوں کی جماعت احمدیہ کے خلاف بہتان طرازی نے میری توجہ جماعت کی طرف پھیری۔ اُن کی الزام تراشیوں میں ایسی باتیں اور مبالغات تھے جو کوئی عقل مند آدمی نہیں کہہ سکتا۔ تحقیق اور دعا جاری رکھی۔ اسی دوران متعدد خوابیں دیکھیں اور بیعت کر لی۔ کہتے ہیں بیعت کے بعد ایک خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک پر چل رہا ہوں جس پر بہت سی کاریں برق رفتاری سے گزر رہی ہیں۔ واپسی پر زور دار آواز آئی کہ فلاں بڑی گاڑی جو ابھی گزری ہے اُلٹ جائے گی۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو وہ الٹ چکی تھی۔ اور اس نے بجلی کا ایک کھمبا بھی گرا دیا تھا اور یوں لگا کہ بجلی کا گویا ایک سیلاب آ گیا۔ میں بجلی اور آگ سے بچنے کے لئے اوپر کی طرف اچھلتا ہوں اور میرا جسم ہوا میں لٹک جاتا ہے اور میں آگ سے بچ جاتا ہوں۔ جب باقی ہر چیز جل جاتی ہے اُس کے بعد آگ ختم ہو جاتی ہے اور میں آرام سے زمین پر آ جاتا ہوں۔ اس دوران آواز آئی کہ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے لیکن اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ مجھے اس کی یہ تفہیم ہوئی کہ مجھے یہ نجات حَکم اور عَدل مسیح موعود کے ماننے کی وجہ سے ملی ہے۔ بیعت کے نتیجہ میں ہماری ارواح کا تزکیہ ہوا ہے اور ہدایت نصیب ہوئی ہے۔
سعودی عرب سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود کی تصویر اور حضور علیہ السلام کا دعویٰ ایم ٹی اے پر سنا، اُسی وقت اُس کی تصدیق کی ہے۔ دو سال قبل خواب میں دیکھا تھا کہ مَیں اور میری والدہ ایک پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران ایک کہف سے ایک شخص نکل کر اوپر چڑھنے میں میری مدد کرتا ہے۔ میری والدہ نیچے گر جاتی ہیں مَیں اُنہیں اُٹھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ شخص کہتا ہے کہ اُنہیں چھوڑ دو اور مجھے غار میں جا کر چھوڑ دیتا ہے اور تھوڑی دیر بعد بعض نوجوانوں کو ساتھ لے کر آتا ہے جو مجھے سلام کرتے ہیں لیکن میرا ہاتھ بڑھانے پر مصافحہ نہیں کرتے۔ مَیں سبب پوچھتا ہوں تو وہ شخص کہتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ اس پر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں جنت میں فرشتوں کے ساتھ ہوں۔ اُن میں ایک شخص ان سے مختلف ہے اور سیاہ لباس پہنے ہوئے ہے جبکہ باقی نوجوان خلیج کے لوگوں جیسا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ مَیں جنت میں ایک عجیب سی چیز تلاش کر رہا ہوں جو مقدس لکڑی کی بنی ہوئی ہے۔ وہاں مصطفی ثابت صاحب سے ملتا جلتا ایک شخص میز کے سامنے بیٹھا ہے۔ کئی سال بعد جب جماعت سے تعارف ہوا تو خواب کی سمجھ آئی کہ خواب میں مذکور شخص امام مہدی تھے اور فرشتوں سے مراد افرادِ جماعت احمدیہ ہیں۔ جو جنت دیکھی وہ بالکل حدیقۃ المہدی جیسی تھی۔
سیریا سے ایک خاتون لکھتی ہیں، بچپن میں حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھا تھا اور بعینہٖ وہی احساس تھا جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے پر ہوا۔ لمبی بحث و تمحیص کے بعد میری بہن نے بیعت کر لی تاہم مَیں دعا کرتی رہی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے۔ اس پر بیداری کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو حضور نے فرمایا کہ فوراً بیعت کر لو کیونکہ جماعت احمدیہ سچی جماعت ہے۔ مَیں نے یہ خواب اپنے خاوند سے بیان کی تو اُس نے تمسخر اور استہزاء کیا۔ دوسری رات خواب میں دیکھا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ ہوں اور میرا خاوند جہنم کی آگ میں جل رہا ہے۔ تیسری رات دیکھا کہ وہ شیطان سے جھگڑ رہا ہے۔ اگلی رات دیکھا کہ خدا سے باتیں کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کیا شیخ انس نے بیعت کر لی ہے۔( میرے خاوند شیخ انس کے مرید ہیں۔) تو اللہ تعالیٰ نے اُسے کہا کہ اے احمد ناعورہ، تو شیخ انس کی بات پر کان دھرتا ہے مگر میری بات نہیں مانتا۔ اس رمضان میں ایک کشف میں اپنے والد صاحب کو دیکھا، مجھے کہہ رہے ہیں کہ ابھی بیعت نہ کرو، عید کے بعد ہم دونوں بیعت کریں گے۔ میں جماعت کے افکار اور مسیح موعود کی بعثت سے مطمئن ہوں اور آپ پر ایمان رکھتی ہوں۔
خطباتِ جمعہ جو لائیو جاتے ہیں، اس کی افادیت بھی بڑھی ہے۔ ایک خاتون تیونس سے لکھتی ہیں کہ میں نے جماعت کی ویب سائٹ سے آپ کے خطباتِ جمعہ ڈاؤن لوڈ کئے ہیں اور ان کا مطالعہ کرتی ہوں۔ میں نے ان سے بہت ہی فائدہ اُٹھایااور قرآنِ کریم کو سمجھنے کے اسلوب سیکھے ہیں اور صفاتِ باری تعالیٰ کے مضامین سمجھے ہیں نیز علمی اور عملی طور پر صراطِ مستقیم کی اصل حقیقت کا ادراک ہوا ہے۔
اردن سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اُس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے جس کی برکتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی دعاؤں کا قبولیت سے مشاہدہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں میں نے آپ کے خطبات سے بہت استفادہ کیا جن میں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان خطبات سے میرا دل حضور اور آپ کے صحابہ کی محبت کے جذبات سے بھر گیا ہے۔
ایک صاحب تیونس سے لکھتے ہیں۔ مَیں آپ لوگوں سے بہت محبت رکھتا ہوں۔ یومِ مسیح موعود کے موقع پر ’’اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَآء‘‘ کے عنوان سے پروگرام سنا۔اس کے بارے میں اتنا کہتا ہوں کہ اگر میں یہ پروگرام پیش کرنے والوں کے پاس ہوتا تو اُن کے ہاتھ چومتا۔ مَیں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوتا ہوں۔
پھر سعودیہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں، بیعت سے پہلے مَیں نے دیکھا کہ میں ایک سڑک پر کھڑا ہوں اور بڑے بڑے برجوں کو گرتے ہوئے دیکھتا ہوں جن کے سامنے میرے پرانے دوست کھڑے ہیں۔ مَیں اُنہیں بلند آواز سے متنبہ کرتا ہوں لیکن وہ کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ مجھ پر زور زور سے ہنستے ہیں۔ پھر ایک شخص میرے پیچھے سے آ کر میرے کندھے پرہاتھ رکھ لیتا ہے اور مجھے کہتا ہے بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے بیعت کر لی۔
واقعات تو بیشمار ہیں، وقتاً فوقتاًچھپتے جائیں گے۔ پھر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ ہے۔ مختلف ممالک میں مجموعی لحاظ سے ، چودہ ہزار سے اوپر کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ اب کینیڈا سے بھی چھپنا شروع ہو گیا ہے۔ افریقن ممالک سے بھی چھپ رہا ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹکٹس اینڈ انجنیرز ہے۔ انہوں نے بھی بڑے اچھے کام کئے ہیں۔ ایک ویلج پراجیکٹ شروع کیا ہے اور اس کے تحت ایک گاؤں ماڈل ویلج بنایا ہے۔ اس میں بہت ساری سہولیات مہیا کی ہیں جس میں ستر گھروں میں پینے کا پانی بذریعہ Tap یعنی ٹوٹی کا پانی پہنچے گا۔ سولر پاور بجلی پہنچے گی۔ گاؤں میں ایک پچیس سو لیٹر کا اوورہیڈ(Overhead) ٹینک بنایا ہے۔ اور بجلی کے سولر پینل لگائے ہیں۔ کمیونٹی سنٹر بنایا ہے۔ اسی طرح اب مَیں نے اُن کو کہا ہے کہ وہاں گلیوں کو بھی پکا کرنے کا ایک پروگرام اُس میں شامل کر لیں۔ یہ جو پانی مہیا کرنے کا کام ہے، یہ افریقن ممالک میںبہت اہم کام ہے جہاں بچے کئی کئی میل سے پانی سروں پر اُٹھا کے لے کے آتے ہیں۔
امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ ایک غیر از جماعت دوست ہیں جو منگودارا(Mangodara)، اور بنفورا ریجن (Banfora)میں حکومت کی طرف سے یہاں نلکوں کے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ واحد جماعت ہے جس نے اپنا سارا سامان ٹرک پر لاد کر بغیر کسی معاوضے کے بستی بستی پھر کر تمام نلکے جو کافی عرصے سے ناقابلِ استعمال تھے۔ ٹھیک کئے ہیں اور اُن میں نیا سامان ڈالا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے بیس سالہ دور میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت خدا تعالیٰ کی خاطر، معاوضہ کے بغیر اور مذہب و ملّت اور رنگ و نسل کی قید سے بالا تر ہو کر ان نلکوں کو ٹھیک کر کے غریبوں کی پیاس بجھا رہی ہے۔ ہم لوگ آپ کو دعا ہی دے سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے یہاں کے انجینئر جو یہیں کے پڑھے لکھے ہیں، بعض پاکستان سے یہاں پڑھنے آئے اور یہیں کے ہو گئے لیکن بعض یہاں پیدا ہوئے اور یہیں کے ہیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ عارضی پر جاتے ہیں اور بڑا اچھا کام کر رہے ہیں اور بڑی تکلیف اُٹھا کے وہاں رہتے ہیں۔
کنشاسا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ نکسالا (Niksala) جاتے ہوئے ایک گاڑی جنگل میں پھنس گئی۔ اس جگہ زمین بہت نرم تھی۔ جتنا زور گاڑی نکالنے کے لئے لگایا جاتا اتنی گاڑی زمین میں دھنس جاتی تھی۔ صبح آٹھ بجے ہم نکلے تھے سترہ گھنٹے کے تکلیف دہ سفر کے بعد، کچھ حصہ پیدل اور کچھ حصہ موٹر سائیکل پر سفر کر کے رات کو ایک بجے باندوندوپہنچے اور صرف پینسٹھ کلو میٹر کا یہ فاصلہ تھا۔ تو اس طرح کی مشکلات بھی ان کو پیش آتی ہیں۔
مخزنِ تصاویر کا شعبہ ہے، ان کی نمائش لگی ہوئی ہے۔ دیکھ لیں۔ اچھا کام کر رہے ہیں۔ قیدیوں سے رابطہ اور خبر گیری میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے اور جہاںپولیس افسروں سے رابطہ ہوتا ہے، وہاں بہت سے قیدیوں کو تبلیغ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی احمدی بھی ہو جاتے ہیں۔
مجلس نصرت جہاں کے تحت بارہ ممالک میں اکیالیس ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ چوالیس مرکزی ڈاکٹر ہیں۔ گیارہ مقامی ڈاکٹر ہیں۔ اس کے علاوہ بارہ ممالک میں 681 ہائر سیکنڈری سکول اور جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں۔ اس سال سیرالیون میں بھی ایک سیکنڈری سکول کا اجراء ہوا ہے۔
فری میڈیکل کیمپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لگ رہے ہیں۔ آنکھوں کے فری آپریشن ہو رہے ہیں۔ بورکینا فاسو میں پہلے 100 کا ٹارگٹ تھا اب چار ہزار آپریشن ہو چکے ہیں۔ خون کے عطیات میں بھی مختلف ممالک میں اچھا کام ہو رہا ہے۔ چیریٹی واک کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔ جو بھی فنڈ اکٹھا کرتے ہیں وہ پھر لوکل چیرٹی کو دیتے ہیں۔ ہیومنٹی فرسٹ کے ذریعہ سے بھی اللہ کے فضل سے کافی کام ہو رہا ہے۔
نومبایعین سے رابطے کا جو کام تھا، بہت بڑا کام تھا، اس میں گھانا سرِ فہرست ہے۔ انہوں نے دورانِ سال 7190 نومبایعین سے رابطہ کیا۔ گزشتہ سالوں سے اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے نو لاکھ انتالیس ہزار پانچ سو نوے نو مبایعین سے یہ رابطہ کر چکے ہیں جن کے رابطے ختم تھے۔ نائیجیریا نے اس سال اکتیس ہزار تین سو باون نو مبایعین سے رابطہ کیا۔ یہ بھی چھ لاکھ سے اوپر کر چکے ہیں۔ بورکینا فاسو نے انیس ہزار دو سو چھیالیس سے رابطہ کیا اور اس طرح اللہ کے فضل سے رابطوں میں کافی تعداد بڑھ رہی ہے۔
امسال ہونے والی بیعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ لاکھ چالیس ہزار سات سو بیاسی (540782)ہیں اور ایک سو سولہ(116) ممالک سے تین سو نو(309) قومیں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
مالی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ چونتیس ہزار چار سو اسی بیعتیں ہیں۔ نائیجیریا کی بیعتوں کی تعداد ترانوے ہزار ہے۔ غانا کی اٹھاون ہزار سات سو سولہ۔ بورکینا فاسو پچاس ہزار تین سو ننانوے۔ آئیوری کوسٹ گیارہ ہزار۔ اسی طرح مختلف ہیں۔ جماعت بینن کو اس سال اڑتالیس ہزار سے اوپر بیعتوں کی توفیق ملی۔ کیمرون چوبیس ہزار، سیرالیون کو ترپن ہزار اور اس طرح بہت سارے دوسرے ممالک ہیں۔ ہندوستان میں بھی اللہ کے فضل سے تین ہزار تین سو بائیس بیعتیں ہوئیں۔
یمن سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں جاننے سے پہلے ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ چاند سے بارش ہوئی ہے اور میرے گھر میں یہ بارش پڑی ہے۔ اس کے بعد مجھے جماعت احمدیہ کے بارے میں معلوم ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے بارے میں یعنی سچے اور جھوٹے کے مابین فرق کرنے والی دعا کے بارے میں بھی علم ہوا۔ میں نے دعا کی اور رمضان میں ایک روز میں نے خواب میں چودھویں کا روشن چاند دیکھا جس کے ارد گرد پانچ روشن ستارے نظر آئے اور دیکھا کہ ایک منارہ آسمان سے میرے گھر کی طرف نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد میں نیند کی حالت سے بیدار ہو گیا۔ پھر جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پانچوں خلفاء کی تصاویر دیکھیں تو حیران ہو کر رہ گیا کہ ایک چاند اور پانچ ستارے۔ اس خواب سے مجھ پر احمدیت کی سچائی ظاہر ہو گئی۔ اب میں جماعت احمدیہ کو سچ سمجھتا ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔
پھر مالی سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیںکہ ایک دن ہمارے سیکاسَو کے ریڈیو سٹیشن میں تقریباً پچہتر کلو میٹر دور سے ایک معمر بزرگ آئے اور کہا کہ میں جماعت احمدیہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا آج تک کسی بھی فرقے سے تعلق نہیں رہا۔ میں ہمیشہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کی تعلیمات سکھایا کرتے تھے۔ جب ریڈیو احمدیہ سننا شروع کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میںآئے اور فرمایا کہ اب احمدیہ ریڈیو سے اسلام سیکھا کرو۔ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں حاضر ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کی اور واپس اپنے گاؤں میں جا کر بہت تبلیغ کر رہے ہیں۔
مالی کے ہی ایک شخص مشن ہاؤس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو دیکھا اور پوچھا یہ کون ہیں؟ جب ان کو بتایا گیا کہ یہ امام مہدی علیہ السلام ہیں تو وہ کہنے لگے مَیں نے ان کو خواب میں دیکھا ہے اور انہوں نے مجھے خواب میں نماز پڑھنا سکھائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھتے ہی انہوں نے بیعت کر لی۔
مالی سے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے ایک بزرگ کو کتاب ’’القول الصریح فی ظہور المہدی والمسیح‘‘ پڑھنے کے لئے دی۔ چند دن بعد وہ بزرگ احمدیہ مشن ہاؤس آئے اور انہوں نے بتایا کہ جس دن ہم نے کتاب دی تھی انہوں نے اس کتاب کو معمولی سمجھ کر رکھ دیا۔ لیکن اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی خواب میں تشریف لائے اور انہوں نے یہی کتاب دیتے ہوئے تاکید سے فرمایا کہ اس کتاب کو غور سے پڑھو۔ چنانچہ اس پر انہوں نے یہ کتاب پڑھنی شروع کی تو کتاب پڑھنے کے دوران انہوں نے اس کتاب میں عجیب لطف اور صداقت پائی۔ ابھی انہوں نے کتاب کے چند صفحات ہی پڑھے تھے کہ انہوں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ وہ بیعت کر کے شامل ہو گئے۔
مراکش کے ایک دوست مالکی سعید صاحب جو فرانس میں مقیم ہیں، کہتے ہیں کہ میں ایم ٹی اے دیکھتا تھا لیکن جماعت احمدیہ فرانس کے مشن میں کبھی نہیں گیا تھا۔ ایک دن میں نے مشن ہاؤس جانے کا سوچا۔ مشن ہاؤس میں فرانس میں موجود عرب ڈیسک کے انچارج سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ پڑھنے کے لئے دی۔ جب انہوں نے اس کتاب کو پڑھ لیا تو اُس کے کچھ دنوں کے بعد وہاں کے عرب ڈیسک کے انچارج کا ان کو دوبارہ فون آیا کہ ساری چیزیں پڑھنے اور دیکھنے کے بعد پھر آپ نے ابھی تک بیعت کیوں نہیں کی؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں بیعت کرنے والا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی سچے ہیں۔
بورکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ہمارے معلم گئے تو ایک شخص کو جماعت کا پیغام پہنچایا مگر وہ بضد تھا کہ پہلے عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے۔ معلم صاحب نے رات اسی گاؤں میں قیام کیا اور صبح واپس چلے گئے۔ ابھی راستہ میں تھے کہ اسی آدمی کا فون آیا کہ واپس آؤ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ معلم صاحب نے بیعت کرنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ مَیں نے گزشتہ رات خواب میں ایک نور اور روشنی دیکھی ہے اور کوئی کہہ رہا تھا کہ جس عیسیٰ نے آنا تھا وہ تو وہی ہے جس کو اس معلّم نے مانا ہے۔ اس کے بعد میرے لئے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔
جرمنی سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک عرب دوست نے جماعت احمدیہ جرمنی کی ویب سائٹ کو وزٹ کرنے کے بعد ہمارے ویزبادن کے لوکل سیکرٹری صاحب تبلیغ سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات اتنی اچانک تھی کہ ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے اُس دوست کو کہا کہ آپ پہلے جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے جماعت احمدیہ کا ہوم پیج دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے 2008ء میں خواب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔ اس کے بعد آپ لوگوں کو تلاش کر رہا تھا اور بالآخر آپ کی ویب سائٹ کے ذریعہ مَیں اپنی منزل کو پہنچ گیا۔
مسی ساگا کینیڈا سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک زیرِ تبلیغ بنگالی خاتون عشرت صاحبہ کو دعا کے لئے تحریک کی گئی تا کہ اُن کی رہنمائی اور تسلی ہو۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ جیسے پِیس ویلیج کا علاقہ ہے اور جلسے کا ماحول ہے۔ موصوفہ جب وہاں پہنچتی ہیں تو میرامعلوم ہوتا ہے کہ میں آ رہا ہوں، میری گاڑی آ رہی ہے اورسیکیورٹی والے اُسے روک دیتے ہیں کہ وہ آگے نہیں جا سکتی۔ اس پر وہ خواب میں بڑی پریشان ہوتی ہے کہ کسی طرح مجھ سے ملاقات ہو جائے۔ تو اتنی دیر میں کہتے ہیں کہ میری گاڑی اس کے بالکل قریب آ گئی اور میں نے اُس کی طرف دیکھ کر سیکیورٹی والوں کو کہا کہ اسے آنے دو۔ چنانچہ موصوفہ جلدی سے ایک پنڈال میںپہنچ جاتی ہیں۔ وہاں میں نے اُس کا حال پوچھا، دلجوئی کی اور آنکھ کھلنے پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں اور دل نہایت پُرسکون تھا۔ چنانچہ اس خواب کے بعد اُس نے بیعت کر لی۔
مولویوں کا احمدیت قبول کرنا
مولویوں کا احمدیت قبول کرنا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے معجزات ہو رہے ہیں۔ مولوی جو عقلمند ہیں، پڑھے لکھے ہیں، حقیقی علماء ہیں انہوں نے تو ہونا ہی ہے۔ مالی کے علاقہ سان (San)میں احمدیت کی بہت مخالفت ہے۔ یہ مخالفت زیادہ تر مولوی کر رہے ہیں۔ ایک دن انہی مولویوں میں سے ایک مولوی نے کال کی اور احمدیوں کو اسلام کی خدمت پر مبارکبار دیتے ہوئے کہا کہ احمدیہ ریڈیو بہت عظیم الشان کام کر رہا ہے۔ باقی مولوی تو احمدیت قبول نہیں کر رہے مگر وہ احمدیت کو حق پر دیکھ کر اُسے قبول کرتے ہیں کیونکہ جو احمدیہ ریڈیو پر چلایا جاتا ہے۔ وہی حقیقی اسلام ہے۔ اسی طرح آئیوری کوسٹ کے بھی ایک امام صاحب نے بیعت کی۔
نشان دیکھ کر بیعتیں
پھر نشانات کو دیکھ کر بیعتیں ہیں۔ کبابیر کے مبلغ لکھتے ہیں کہ قُصی (Qusai) صاحب اپنے دوست کے ساتھ ایک دن کہیں جا رہے تھے۔ اس دن موسم گرم تھا اور گرمی کی شدت سے دونوں کے جسم سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔ قصی صاحب نے میرا نام لیا اوراپنے دل میں کہا کہ یا الٰہی! اگر واقعی یہ خلیفہ جو جماعت احمدیہ کا ہے، یہ سچا ہے تو ہمارے لئے ٹھنڈی ہوا بھیج اور نشانی ظاہر کر دے۔ تو کہتے ہیں کہ اچانک قصی صاحب کے اوپر ٹھنڈی ہوا پڑی اور اُن کے ماتھے کا پسینہ سوکھ گیا۔ قصی صاحب نے اپنے دوست سے کہا کیا ٹھنڈی ہوا آئی ہے۔ دوست نے کہا کون سی ہوا؟ کس کی بات کر رہے ہو؟ تو قصی صاحب نے کہا کہ ابھی جو ہوا آئی ہے، دیکھو میرے ماتھے پر اب کوئی پسینہ نہیں ہے۔ دوست نے کہا کہ لگتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو۔ قصی صاحب نے کہاکہ میں نے جو نشان مانگا تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔
مالی سے ہمارے معلم لکھتے ہیں۔ ریجن کے ایک غیر از جماعت دوست محمد امین ایک دن مشن ہاؤس آئے اور کہا کہ اُس کے گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنسا ہوا ہے اور باوجود علاج کروانے کے نکل نہیں رہا جس کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے کہا کہ آپ میرے لئے دعا کریں، اگر احمدیت سچی ہوئی تو وہ اس تکلیف سے نجات پائے گا اور ساتھ ہی احمدیت میں داخل ہو جائے گا۔ معلم صاحب کہتے ہیں ہم نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ تیری پیاری جماعت کی سچائی کا معاملہ ہے۔ تُو اس شخص کو تکلیف سے نجات دے اور احمدیت کی سچائی کا نشان ظاہر کر۔ ابھی دعا شروع کئے تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ اس شخص کو قَے آئی اور ساتھ ہی کانٹا بھی نکل گیا جس پر اُس شخص نے خدا کا شکر ادا کیا اور بیعت بھی کر لی۔
حافظ عبدالمنان صاحب میرٹھ یوپی نے گزشتہ سال قادیان آ کر بیعت کی۔ یہ دوست بھی اپنے علاقے میں دعوتِ الی اللہ میں مشغول ہیں۔ ان کی ایک بیٹی اپنے علاقے میں مدرسہ چلاتی تھی۔ جب بیعت کر کے گھر گئے تو اُن کی بیٹی نے اُن کا وہ لٹریچرجو قادیان سے لے کر گئے تھے، بشمول قرآنِ کریم جلا دیا۔ کچھ عرصہ بعد بچی بیمار ہو گئی۔ اس بنا پر شدت سے اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اُس نے اپنے والد سے معافی مانگی اور باقاعدہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی۔
لمبے واقعات میں چھوڑ رہا ہوں، مختصر سے بیان کر رہا ہوں۔
بیعتوں کے تعلق میں ایمان افروز واقعات
کونگو کنساشا سے مبلغ لکھتے ہیں کہ میں لوکل مبلغ کے ساتھ نکسال ایک جگہ ہے وہاں دورے پر گئے۔ وہاں پہنچنے پر خیال آیا کہ یہاں کسی قریبی گاؤں کا بھی دورہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ لوکل احمدی احباب کی رہنمائی سے گاؤں بونزیل(Bonzil) جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک کشتی کے ذریعہ ہم مذکورہ گاؤں پہنچے۔ گاؤں کے چیف کی اجازت سے وہاں پمفلٹ تقسیم کئے اور مجلسِ سوال و جواب منعقد کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق بتایا۔ گاؤں کے چیف نے ہماری آمد پر مسرت کا اظہار کیا۔ وہاں موجود سب لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہماری اسلام کے بارے میں جتنی غلط فہمیاں تھیں وہ دُور ہو گئی ہیں۔ سنّی مسلمانوں کے طرزِ عمل سے یہی تاثر تھا کہ اسلام صرف جادو ٹونے کا مذہب ہے لیکن اسلام کی جو خوبصورت تعلیم آپ نے پیش کی ہے وہ تو دلوں کو موہ لینے والی ہے۔ اس موقع پر چالیس افراد نے احمدیت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے صوبائی جلسہ میں شامل ہونے کا وعدہ کیا اور وعدے کے مطابق کچھ لوگ آئے۔
مارشل آئی لینڈز سے لکھتے ہیں کہ ایک امریکن خاتون کی مدد سے مقامی بچی کو سکول میں داخل کروایا تھا۔ یہ بچی انتہائی ذہین تھی اور سکول جانا چاہتی تھی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جا پا رہی تھی۔ اس امریکن خاتون نے اس بچی پر ایک طویل مضمون لکھا جس میں جماعت کی ملک میں تعلیمی میدان میں خدمات کا بھی ذکر کیا۔ اس مضمون کو مارشل آئی لینڈز کے بڑے اخبارات کے فرنٹ پیج پر چھاپا گیا۔ اس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر جماعت کا بڑا اچھا اثر ہوا اور اس بچی کی والدہ جو کہ اسلام کے بارے میں انتہائی منفی سوچ رکھتی تھی مع اپنے بچوں کے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔
گنی کناکری کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن تبلیغ کے لئے ایک گاؤں پہنچے اور گاؤں کے چیف کے گھر تبلیغ کے لئے جمع ہو گئے۔ لوگوں کو جماعت کا تعارف کروایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری زمانے میں اسلام کی حالت بیان کی تھی اس کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک لڑکی جو قریب ہی اپنے کسی کام میں مصروف تھی، یہ ساری باتیں سن رہی تھی۔ جب تبلیغی نشست ختم ہوئی تو ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے سب بہت غور سے سنا ہے، میں کالج میں پڑھتی ہوں اور بہت سے علماء کو مل چکی ہوں۔ آج تک مجھے میرے سوالوں کے جواب نہیں مل سکے لیکن آپ لوگوں کی باتیں سن کر میں بہت حد تک مطمئن ہو چکی ہوں۔ مجھے اب اس جماعت میں شامل ہونا ہے کیونکہ آپ لوگوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ لوگوں کو خدا نے بھجوایا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس خاتون نے بیعت کر لی۔
ایک پادری صاحب نے بھی بیعت کی ہے۔ ان کا واقعہ تو کافی لمبا ہے لیکن بہر حال ، پروگرام ہوتا رہا، بحث ہوتی رہی اور آخر کار انہوں نے یہ تسلیم کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر میں انہوں نے گھر میں بلایا پھر ملاقات میں بتایا کہ میں نے بتیس سال چرچ کی خدمت کی ہے اور گھر کی ہر چیز چرچ کو دے دی ہے۔ کئی چرچ بدلے مگر دلی سکون نہ ملا۔ میں جماعت احمدیہ کے جواب سے لا جواب ہو گیا اور کئی دن سو نہ سکا۔ مجھے بتائیں کہ میں مسیح موعود کا بپتسمہ کیسے لوں۔ جس پر معلم صاحب نے اُن کو بتایا کہ بیعت کر لیں۔ اگلے دن وہ مشن ہاؤس آئے اور بیعت کر کے احمدیت قبول کر لی۔ اب وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں اور اپنے بھائی کی وفات پر انہوں نے تمام غیر اسلامی رسوم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ اللہ کے فضل سے وہ نماز جمعہ میں شامل ہوتے ہیں اور اخلاص میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
نو مبایعین احمدیوں کو بیعت کرنے کی وجہ سے غیر از جماعت کے ظلموں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رشیا میں بھی مخالفت ہے۔ ایسٹرن یورپ کے ملکوں میں بھی مخالفت ہے، صرف ایشیا میں نہیں ہے۔ افریقہ میںبھی مخالفت ہے، گاؤں کے لوگوں میں جہاں احمدیوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نو مبایعین ثباتِ قدم سے اپنے عہدِ بیعت پر قائم ہیں۔ انڈیا سے بھی ایسے واقعات آتے ہیں۔ اور واقعات تو بے تحاشا ہیں۔ اور اسی طرح احمدیت قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگوں میں تبدیلیاں بھی غیر معمولی طور پر ہو رہی ہیں۔اور بعضوں کو تو اپنے بڑے نامساعد حالات میں ملازمتیں ملیں لیکن جرمنی وغیرہ میںجلسے میں شامل ہونے کے لئے حاضر ہوئے۔
دعوت الیٰ اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کا انجام
بعض روکیں ڈالنے والوں کا انجام بھی ہے۔ مبلغ گجرات لکھتے ہیں کہ جماعت واگہنیا جونا گڑھ گجرات میں ہمارے معلم کام کر رہے ہیں۔ ایک شخص بڑھ بڑھ کر مخالفت کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ احمدی جھوٹے ہیں۔ اُن کے معلم کو یہاں سے نکال دو۔ معلم صاحب نے اس آدمی کو سب کے سامنے کہا یہ خدا کے شیر کی جماعت ہے اس پر ہاتھ نہ ڈالو ورنہ خدا کی پکڑ میں آ جاؤ گے۔ نیز معلم صاحب نے گاؤں والوں کو کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، ابھی میں گاؤں سے چلا جاتا ہوں لیکن اگر ہماری جماعت سچی ہوئی تو اللہ تعالیٰ ایک سال کے اندر اندر ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ ابھی تین ماہ کا ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہی آدمی جو مخالفت کر رہا تھا کسی شدید قسم کی بیماری میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گیا۔ اس نشان کا اس جماعت پر بہت اچھا اثر ہوا اور وہ ایمان میں اور بھی زیادہ مضبوط ہو گئے اور آس پاس کے مخالف لوگ بھی ڈر گئے اور اب وہ اتنی زیادہ مخالفت نہیں کر رہے۔
اسی طرح قبولیتِ دعا کے بھی بہت واقعات ہیں، بہر حال ایسے بیشمار واقعات ہیں۔ یہ رپورٹ تو دو گھنٹے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو پہلے ہی ہمیں بتا دیا ہے کہ مخالفتیں بھی ہوں گی اور جماعت کی ترقی بھی ساتھ ساتھ چلتی جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ترقیاں ہو رہی ہیں۔ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور دشمن کچھ بھی نہیں بگاڑ سک رہا اور نہ ہی انشاء اللہ تعالیٰ بگاڑ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نئے شامل ہونے والوں کو بھی ثباتِ قدم عطا فرمائے۔ ایمان اور ایقان میں ترقی دے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
