خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے29اگست2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ:128)
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:04)۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء:108)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے۔ مومنوں کے لئے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
کیا تُو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دنیا میں جتنی دریدہ دہنی کی گئی اور کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، کسی اور نبی کی نہیں کی گئی۔ ابتدائے اسلام سے آج تک اسلام کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف جو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں اور جو مخالفت اور دشمنی کے بازار گرم کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب اور اس کے پیشوا اور رسول کی مخالفت میں نہیں ملتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات جو مجسم رحمت اور برکت تھی اور ہے اور قیامت تک رہے گی اس پر جو جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے غلاظت اور گند اچھالنے کی کوشش کی گئی اور کی جاتی ہے وہ کسی اور نبی پر نہیں ہوئی۔ ظاہری گند بھی آپ کی زندگی میں آپ پر پھینکا گیا۔ مختلف موقعوں پر تکلیفیں دی گئیں تا کہ اس سے د شمنوں کے دلوں کی آگ ٹھنڈی ہو ۔ اور آپ کی زندگی میں آپ پر غلط الزامات بھی لگائے گئے اور آپ کے پیاروں پر بھی لگائے گئے کہ اس سے لوگوں کو آپ سے متنفر کیا جائے اور آپ کے مقام و مرتبہ کو گرایا جائے۔ پھر آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لکھنے والے آپ کے خلاف لکھ کر کتابوں کے انبار لگاتے چلے جا رہے ہیں تا کہ آپ کی ذات اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اور آپ کی اُمّت کو بدنام کیا جائے۔ پس دشمن گزشتہ تقریباً پندرہ صدیوں سے کبھی آپ کی ذات پر گند اچھالنے پر لگا ہوا ہے کبھی اسلام کی تعلیم پر گند اچھالنے پر لگا ہوا ہے۔ کبھی اسلام کو ظلم زیادتی اور حقوق غصب کرنے اور شدت پسندی کا مذہب کہا گیا ہے اور اس طرح اسلام کی ترقی کو اپنے زعم میں ان لوگوں نے روکنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اسلام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ترقی ہی کرتا چلا گیا۔ آج بھی باوجود مخالفین اور میڈیا کے بے انتہا اسلام مخالف پراپیگنڈہ کرنے کے ترقی کر رہا ہے۔
انبیاء کی مخالفتیں ان کی زندگیوں میں بے شک ہوئیں لیکن ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد یا کچھ عرصے بعد یہ مخالفتیں ختم ہو گئیں۔ ان کے دین بھی روایتی دینوں اور قصوں کہانیوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ کسی کی شریعت اپنی اصلی حالت میں قائم نہیں رہی۔ نہ ہی کسی کی کتاب آج اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ نہ ہی کسی کی شریعت کے بارہ میں اس کے شارع کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے محفوظ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ یہ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جن سے خدا تعالیٰ نے آپ پر نازل ہونے والی کتاب کی خود حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے جو اصلی حالت میں آج پندرہ سو سال کے بعد بھی محفوظ ہے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً پندرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس تندہی سے اور شدت سے جو مخالفت ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہمیشہ قائم رہنے والی شریعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اسی طرح زندہ نبی ہیں جس طرح چودہ سو سال پہلے تھے اور قیامت تک آپ ہی زندہ نبی رہیں گے اور آپ کی شریعت ہی اپنی اصلی حالت میں قائم رہے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت خود اپنے ذمہ لی ہے۔
پس مخالفین اسلام بجائے اس کے کہ اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر الزام لگائیں انصاف کی آنکھ کو استعمال کرتے ہوئے اس تعلیم کی حقیقت کو دیکھیں۔ اگر مسلمانوں کے چند گروہوں کے عمل ایسے ہیں جو اسلام کی تعلیم کو بدنام کر رہے ہیں یا مخالفین اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع دے رہے ہیں تو یہ بھی قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ثبوت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں بتا دیا تھا کہ انحطاط جو انسانی زندگی کا حصہ ہے ایک وقت کے بعد اس کا اثر مسلمانوں پر بھی ہو گا اور ایک لمبا عرصہ رہے گا لیکن اس کے باوجود جو شریعت قرآن کریم کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اس کی حالت اسی طرح مستند رہے گی جس طرح وہ اپنے نزول کے وقت تھی۔ اور پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عاشق صادق اور غلام صادق بھیجا جائے گا جو آخرین کو اوّلین سے ملائے گا۔قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو حقیقی رنگ میں دنیا کو دکھائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے حسن و احسان کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا جو ہر مخالف اور معاند کا منہ بند کر دے گا، جو ہر حملہ آور کی تلوار کے سامنے دلائل کی چٹانیں کھڑی کر کے اسے کند کر دے گا اور دشمن ناکام و نامراد ہو گا۔ اور ہم گواہ ہیں کہ 125 سال پہلے ہم نے وہ نظارہ دیکھا کہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کے جواب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس جری اللہ نے ایسے مضبوط دلائل اور براہین کے ساتھ دئیے کہ جو مخالف بھی مقابل پر آیا اسے میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور آج بھی اس جری اللہ کی قائم کردہ جماعت ہی ہے جو نہ صرف مخالفین کے جواب دے کر ان کے منہ بند کر رہی ہے بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلا رہی ہے۔
بعض مسلمانوں کی اسلام کی تعلیمات کے بارے میں خود ساختہ تشریحیں اور تفسیریں اس بات کی دلیل نہیں کہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم شدت پسندی اور ظلم کی تعلیم ہے۔ ہر قوم میں خود غرض اور نفس پسند اور نفس پرست ہوتے ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کی باتیں ہیں جو لوگ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ ایسے لوگوں کی باتیں ہیں جو ایسے ذاتی مفاد حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ وہ کم علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا حقیقی تعلیم تو حسن و احسان کی تعلیم ہے جس کو دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے منصب کے ساتھ آیا۔ پس آج جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کی تصویر پیش کر رہی ہے اور اس کے لئے دنیا میں ہر جگہ کوشاں ہے۔ ہمارے مقاصد حکومتوں پر قبضہ کرنا نہیں۔ ہمارے مقاصد حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق انسانوں کو اللہ تعالیٰ کا صحیح عابد بنانا ہے۔ ہمارے مقاصد دنیا کی دولتیں سمیٹنا نہیں۔ ہمارے مقاصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے ہمدردی مخلوق اور خدمت انسانیت کرنا ہے۔ ہمارے مقاصد ظلم و بربریت کے مظاہرے کرتے ہوئے معصوموں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا یا یرغمال بنانا نہیں بلکہ ہمارا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم اور آپ کے اس اُسوہ حسنہ کے مطابق رحمانیت کے جلوے دکھانا ہے۔ اور یہ رحمانیت کسی خاص قوم یا مسلمانوں سے خاص نہیں ہے بلکہ رُوئے زمین پر بسنے والے ہر انسان بلکہ ہر مخلوق کے لئے یہ فیض عام ہے۔
پس وہ لوگ جو بغیر سوچے سمجھے اسلام اور بانی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، دلائل سے ان کے منہ بند کرنا اور عمل سے ان کے منہ بند کرنا ہر احمدی کا فرض ہے ۔ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ رُوئے زمین پر نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے اور نہ بعد میں کوئی ایسا شخص تھا، نہ ہو گا جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہو۔
اس وقت میں نے جو آیات تلاوت کی ہیں ان میں رحمت اور رحمانیت کی اس تعلیم کا ذکر ہے جو اسلام کی تعلیم ہے۔ اور ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کا ذکر ہے جس کا اظہار انسانیت کے لئے درد کی وجہ سے آپ سے ہوتا تھا۔ جہاں یہ رحمت اپنوںکے لئے ہے وہاں یہ رحمت غیروں کے لئے بھی ہے اور رحمانیت کا جذبہ ہی ہے جو ہر جگہ سلامتی بکھیرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ ۔یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا۔اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو۔ پھر فرمایا اور صرف یہی نہیں کہ تمہارا کسی قسم کی تکلیف میں پڑنا اسے شاق گزرتا ہے یا یہ بات اسے بے چین کر رہی ہے کہ تمہارے عمل تمہیں ایک تکلیف میں ڈالیں گے۔ تم خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو کر اپنی دنیا و عاقبت برباد کرو گے۔ صرف سوچ کی حد تک اس رسول کی تکلیف نہیں ہے بلکہ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ۔ وہ تمہاری بھلائی چاہتا ہے اور تمہارے لئے خیر کا بھوکا ہے۔ پس اگر وہ اپنا محبت اور سلامتی کا پیغام تم تک پہنچاتا ہے تو کوئی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف تمہارے درد میں۔ اس رسول کی تبلیغ صرف اس لئے ہے کہ اے کافرو اور انکار کرنے والو! تم خدا تعالیٰ کی حکومت میں آ کر حقیقی امن اور سلامتی اور رحمت کو سمجھنے والے بن سکو کیونکہ خدا رحمان ہے۔ پس باوجود اس کے کہ کفّار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح تکلیفیں دیں، مشکلات میں ڈالا، زندگی کی سہولیات سے محروم کیا، آپ کے پیاروں پر ظلم کئے، ان کو شہید کیا، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قتل کرنے کے منصوبے بنائے اور ان پر جنگیں ٹھونسی گئیں لیکن یہ نبی جو سراپا محبت اور امن اور سلامتی ہے، ان سب کے باوجود اے کافرو! تمہاری بھلائی اور خیر کا متمنی ہے ۔
کسی چیز کو تکلیف اٹھا کر حاصل کرنے کو حریص کہتے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اپنی جان کو ہلاک کر کے،اپنا اور اپنے صحابہ کا جانی اور مالی نقصان برداشت کر کے، یہ سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود بھی ایک ہی تڑپ رکھتے تھے کہ ان مخالفین اور دشمنوں کو کسی طرح خیر پہنچے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل انسانوں کے لئے شفقت اور محبت سے اس قدر بھرا ہوا تھا کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ پہلے نہ ماننے والوں کا ذکر کے آخر میں پھر مومنوں کا بھی اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے جو آیت میں نے پہلے تلاوت کی کہ مومنوں کی تکلیف دیکھ کر ان پر بھی مہربان ہوتا ہے اور بار بار رحمت کرتے ہوئے ان پر متوجہ ہوتا ہے۔
پس جس رسول کے ظلم کے قصے یہ ظالم دنیا کو بیان کر کے آج بھی مخالفت اور نفرتوں کے شعلے بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تو یہ حال ہے کہ غیروں کی بھلائی کے لئے بھی بے چین ہے اور اپنوں کی تکلیف دیکھ کر بھی وہ محبت، مہربانی اور رحم کے جذبات سے پُر ہو کر انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے آنے کی خوشخبریاں دے رہا ہے۔ کیا آج دنیا میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے؟ لوگ اپنوں سے تو مہربانی اور محبت اور رحم کے جذبات رکھتے ہوئے سلوک کرتے ہیں لیکن غیروں کے لئے حریص نہیں ہوتے۔ ان کے لئے بے چین نہیں ہوتے۔ ان کے لئے اپنی راتوں کی نیندیں حرام نہیں کرتے کہ ان کو ظلموں سے روک کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں۔ پس یہ سبق ہے ان مسلمانوں کے لئے بھی چاہے وہ حکمران ہیں یا مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اپنا نام نہاد اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ بجائے ظلموں کے پیار اور محبت سے، حکمت سے اسلام کی خوبصورتی بیان کرو۔ کلمہ گوؤں سے مہربانی کا سلوک کرو اور بار بار رحم سے ان کی طرف متوجہ ہو ۔ کسی کلمہ گو کا عمداً قتل اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جہنم میں لے جاتا ہے۔ پس یہ بھی اس رسول کی رأفت اور رحم ہے جو اللہ تعالیٰ کی رأفت اور رحم کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ جس کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان انعامات سے محروم نہیں کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ تھے بلکہ قیامت تک اس رأفت اور رحیمیت کا سلسلہ قائم فرما دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر اسلام پر ہونے والے ہر حملے کو ردّ کرنے کا سامان پیدا کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر جہاں مسلمانوں کے لئے اس فیض کو جاری رکھا وہاں اسلام پر ہونے والے الزامات کی بھی نفی کر دی کہ اسلام تشدد اور بے رحمی کا مذہب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو داغدار کرنے کی کوشش کرنے والے ہر شخص کا منہ بند کر دیا جو آپ پر ظلم اور بربریت کا الزام لگاتا ہے۔ آپ نے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنوں اور غیروں کے لئے سراپا رحمت تھے۔ آج دنیا میں ہمدردی کے دعوے کرنے والے، رحم کے دعوے کرنے والے، بھلائی اور خیر چاہنے والے اپنوں کے لئے تو سب کچھ چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے بھلائی نہیں چاہتے۔ اب آجکل جو فلسطین کی تنظیم حماس اور اسرائیل کی جو جنگ چل رہی ہے اس میں کیا یہ نمونے نظر نہیں آتے ۔ اسرائیل کی بمباری سے سینکڑوں فلسطینی بچے شہید ہو گئے۔ کوئی ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔پچھلے دنوں حماس کی راکٹ فائرنگ سے ایک اسرائیلی بچہ مر گیا تو اسرائیل کے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے اور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب پھر کچھ معاملہ بہتری کی طرف جا رہا ہے اور اللہ کرے کہ بہتری کی طرف جاتا رہے۔ بہرحال اس نے کہا ہم نہیں بیٹھیں گے اور جو بدلہ لیتے ہیں تو بدلے کی کوئی حد بھی نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس بچے کا قتل جائز ہے جو حماس کی فائرنگ سے مرا ہے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح سراپا رحمت ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جنگوں میں بھی کسی عورت کو، کسی بچے کو حتی کہ کسی مرد کو بھی جو جنگ میں حصہ نہیں لے رہا قتل نہیں کرنا۔ کیونکہ یہ ظلم ہے۔(ماخوذ ازالسنن الکبریٰ للبیہقی کتاب السیر باب ترک قتل من لا قتال فیہ من الرھبان والکبیر وغیرھما حدیث 18663 جلد 9 صفحہ 153 مطبوعہ مکتبۃ الرشد 2004ء)
پس اسلام نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ظلم کو ظلم ہی کہا ہے چاہے کسی کی طرف سے ہو۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام پر الزام لگانے والے خود اپنے عمل نہیں دیکھتے۔ ظلم پر ظلم ہوتا ہے اور کسی بڑی طاقت کو یہ جرأت نہیں کہ اس ظلم کے خلاف یہ آواز اٹھائے جبکہ ہمارا پیارا رسول تو ہر ایک کے لئے پیار کے اور رحمانیت کے جلوے دکھا رہا ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’اعجاز المسیح‘‘ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ فَاَشَارَ اللّٰہُ فِی قَوْلِہِ عَزِیْزٌ وَ فِی قَوْلِہِ حَرِیْصٌ اِلَی اَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَام مَظْھَر صِفَتِہِ الرَّحْمَان بِفَضْلِہِ الْعَظِیْم۔ لِاَنَّہٗ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ کُلّھمْ وَلِنَوْعِ الْاِنْسَانِ وَالْحَیْوَانِ۔ وَاَھْلِ الْکُفْرِ وَالْاِیْمَانِ۔ ثُمَّ قَالَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ فَجَعَلَہٗ رَحْمَانًا وَ رَحِیْمًا ۔(اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 117-118)یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عزیز اور حریص کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فضل عظیم سے اس کی صفت رحمان کے مظہر ہیں۔کیونکہ آپ کا وجود مبارک سب جہانوں کے لئے ہے۔ بنی نوع انسان، حیوانات، کافروں، مومنوں سب کے لئے ہے۔ پھر فرمایا بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ اور اس میں آپ کو رحمان اور رحیم کے نام دئیے۔
پس یہ ہے وہ آپ کا حسن و احسان اور رحمانیت اور رحمیت کا جلوہ جو آپ کے عاشق صادق اور زمانے کے امام نے کھول کر دکھایا۔ یہ ہے وہ اُسوہ حسنہ جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ ہے وہ تعلیم جو ہر اس شخص کے لئے ہے جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر عمل کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار و اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ ۔‘‘
(نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 433)
یعنی اے کافرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہش مند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’جذب اور عقدِ ہمّت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آ جاتا ہے اور ظلُّ اللہ بنتا ہے۔ پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبے میں کُل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لئے آپٌ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ۔(التوبۃ:128) یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا۔ وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 56۔ایڈیشن 1985مطبوعہ انگلستان)
پس یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پاک اور مبارک اُسوہ جس کی آج زمانے کو ضرورت ہے جو دنیا کے امن اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ غیروں اور اپنوں کی تکلیفیں دُور کرنے اور بھلائی چاہنے کے لئے وہ حریص ہے، بے چین ہے بلکہ اس بے چینی کے معیار کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ کیا تُو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ یعنی تیرا دل ان کے ایمان نہ لانے سے اس لئے بے چین ہے کہ ان کا یہ کفر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بن کر ان کو سزا کا مستوجب بنائے گا۔ پس یہ مخلوق سے ہمدردی اور انسانیت سے ہمدردی کا معیار ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درد ہے، فکر ہے، رحم ہے کہ یہ زندگی بخش پیغام، وہ پیغام جو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہے اس کا انکار کر کے اس کے ماننے والوں پر ظلم کر کے یہ لوگ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ عذاب سہیڑ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بنی نوع انسان کی ہدایت کی اتنی شدید تڑپ پائی جاتی تھی کہ آپ بے چین ہو ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ دیکھ کر فرماتا ہے کہ کیا تُو اپنے آپ کو ان کے غم میں ہلاک کر لے گا۔بَخْعٌ کے معنی ہوتے ہیں اس طرح گلے پر چھری پھیرنا کہ گردن کے آخری حصے تک پہنچ جائے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی نوع کی ہمدردی اور ان کے لئے رحم کے جذبات اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے تُو یہاں تک پہنچ گیا ہے گویا اپنے آپ کو ذبح کر رہا ہے۔ دنیا میں بے چین ہو کر قربانی تو لوگ اپنے محبوبوں اور پیاروں کے لئے کرتے ہیں لیکن یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی طُرّۂ امتیاز ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنی نوع انسان کے لئے درد کا ہی مقام ہے کہ اپنے ان دشمنوں کے لئے بھی بے چین ہو ہو کر دعائیں کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ہلکا سا بھی احساس ہوتا ہے کہ ان کی ان حرکتوں سے یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے نہ آ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جزء 3صفحہ45 فصل فی حدب النبیؐ علی امتہ ورافتہ بہم حدیث 1375 مطبوعہ مکتبۃ الرشد 2004ء)
ہزاروں انبیاء گزرے ہیں مگر رحم کے جذبات کا یہ اظہار نہ حضرت نوح سے ہوا، نہ حضرت ابراہیم سے، نہ حضرت موسیٰ سے، نہ حضرت عیسیٰ سے کہ بنی نوع انسان کے لئے یہ ہمدردی کے جذبات ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات صرف اپنے ماننے والوں، آپ سے قرب کا تعلق رکھنے والوں، اپنے کبار صحابہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر وغیرہ سے نہیں تھے بلکہ ان مکروہ چہروں کے لئے بھی تھے جنہوں نے آپ کو تکلیفیں دیں۔ عتبہ، شیبہ اور ابوجہل کے لئے بھی آپ رحم کے جذبات رکھتے تھے۔ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے آپ کو تکلیفیں پہنچانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ پھر طائف کے لوگوں نے آپ کو لہولہان کر دیا کہ خون پاؤں تک بہہ رہا تھا لیکن خدا تعالیٰ کا فرشتہ جب عذاب دینے کی بات کرتا ہے تو آپ فرماتے ہیں، نہیں۔ فوراً آپ کے رحم کے جذبات اپنی تکالیف پر حاوی ہو جاتے ہیں اور آپ اپنے جسم اطہر سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور دعا کرتے جاتے ہیں کہ اے میرے رب! یہ نہیں جانتے کہ مَیں کون ہوں تُو انہیں معاف فرما۔(وامحمداہ از سید بن حسین عفانی جلد اول صفحہ 48-49 الفصل الاول ، دارالعفانی قاہرہ 2006ء)
یہ ظلم آپ کی زندگی میں جاری رہے لیکن آپ کا جذبہ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہر مخالفت کے بعد اس رحم کی وجہ سے جو بنی نوع کے لئے آپ کے دل میں تھا مزید بڑھتا جاتا تھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے میں اور اس حقیقی ہدایت کو اختیار کرنے میں جو آپ لائے ہیں دنیا کی بقا ہے۔
غزوۂ اُحد میں آپ کی ہمدردی اور دشمن کے لئے درد کو بھی تاریخ نے یوں محفوظ کر لیا کہ جب آپ زخمی ہو کر گر پڑے اور بعض مسلمان جو آپ کے ارد گرد آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے ان میں سے بعض زخمی ہو کر، بعض شہید ہو کر آپ کے اوپر گرتے رہے اور اس وقت یہی سمجھا گیا کہ شاید اب آپ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے ہوں گے۔ لیکن جب نیچے سے آپ کے جسم کو نکالا گیا تو اس وقت آپ ہوش میں تھے اور اس وقت بھی آپ نے دعا یہی دی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب فی غزوہ احد حدیث نمبر 4646 ) (السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 317تا320باب ذکر مغازیہﷺ ، غزوۃ احد، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)اے میرے رب یہ مجھے نہیں جانتے انہیں بخش دے۔ پس کیا اس حالت میں بھی ہمدردیٔ خلق کوئی کر سکتا ہے؟ یہ آپؐ کا ہی مقام تھا لیکن آنکھوں کے اندھوں کو پھر بھی آپ میں رحمت نظر نہیں آتی۔ یہ آنکھوں کے نہیں، دل کے اندھے لوگ ہیں۔
طائف کے سفر میں پیغام حق پہنچانے کی تڑپ کا واقعہ بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے جب خون سے لہو لہان واپسی پر مکّہ کے ایک سردار کے باغ میں آپ سستانے کیلئے رکے تو باغ کے مالک نے دُور سے آپ کو اس حالت میں دیکھا اور اس کے دل میں آپ کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے۔ اس نے اپنے ایک غلام کو بلا کر انگور کے چند خوشے دئیے کہ وہ جو دو شخص بیٹھے ہیں ان کو دے آؤ، آپ کے ساتھ آپ کے غلام بھی تھے۔ بلکہ غلام نہیں کہنا چاہئے آزاد زید تھے۔ وہ غلام جب انگور لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انگور دئیے اور جب باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ باغ کے مالک کا غلام نینوا کا رہنے والا عیسائی ہے۔ تو آپ نے اسے فرمایا کہ تم میرے بھائی یونس کے وطن کے رہنے والے ہو۔ اس پر اس کی توجہ پیدا ہوئی اور اس نے سوچا کہ یہ عرب کے رہنے والے کا نینوہ سے کیا تعلق ہے۔ پھر اس نے آپ سے اس حالت اور اس سلوک کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم یونس کے ملک کے ہو۔ تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوؤں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے اور بغیر کسی خوف کے اس کو بھی تبلیغ کی۔ یہ نہیں دیکھا کہ مَیں اس وقت بھی دشمن کی زمین پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اس کے علاقے میں ہوں اور اس تبلیغ کے نتیجے میں مجھ پر مزید ظلم ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑا ،صرف اتنا کہتا ہوں کہ خدا کی طرف آؤ اور بتوں کی پرستش چھوڑ دو تا کہ تم پر خدا تعالیٰ رحم کرے۔ یہ بات سن کر اس عیسائی غلام کو یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اس پر وہ غلام آپ کے پاؤں کی مٹی اور خون صاف کرنے لگا اور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اس کا مالک دُور سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جب غلام واپس گیا تو اس کے مالک نے اسے ڈانٹا کہ تو نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ میں نے تُو تجھے صرف انگور دینے کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن اب اسی غلام کا دل آپ پر ایمان لا چکا تھا۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 498تا 502 باب ذکر خروج النبیﷺ الی الطائف مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تکلیف کے باوجود بنی نوع کے لئے محبت اور رحم کے جذبے نے اس غلام کے دل میں آپ کی محبت قائم کر دی تھی۔ اب دنیا والے ان محبتوں کو جدا نہیں کر سکتے تھے ۔
پس دیکھیں یہ ہے وہ آپ کا رحم کا جذبہ کہ جس حالت میں بھی جہاں بھی موقع ملا آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا ۔ بنی نوع انسان سے ہمدردی کے لئے یہ عظیم تڑپ تھی جو آپ میں پائی جاتی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا ہمیں تو اور کسی نبی میں یہ تڑپ نظر نہیں آتی۔
متی باب 15 میں آیت 24سے26 میں یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میری مدد کر۔ وہ دے جو اپنی قوم کو دیتا ہے۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تیرے لئے کچھ نہیں۔ میں تو بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا ہوں اور یہ صحیح نہیں کہ بچوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دوں۔(ماخوذ از متی باب 15 آیت 24 تا 26) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحم لا محدود ہے۔ آپ کے پاس ایک شخص ایسی حالت میں آتا ہے جب آپ زخموں سے لہو لہان ہیں۔ ایسے میں ایک عام انسان اپنی فکر کرتا ہے اور پھر وہ شخص بھی غیر قوم کا ہے۔ لیکن آپ کا جذبہ رحم اور ہمدردی اپنی تکلیف بھول جاتا ہے۔ آپ اس کو تبلیغ شروع کر دیتے ہیں۔ آپ اس کو روحانی روٹی اور غذا دیتے ہیں جو آپ صرف اپنی قوم کے لئے نہیں لائے بلکہ آپ کا جذبہ ہمدردی تمام بنی نوع انسان پر حاوی تھا۔ کالے گورے، عربی، عجمی سب کو آپ فیض پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس احسان کے بدلے جو ایک مادی غذا لے کر جسمانی طاقت بحال کرنے کے لئے وہ غلام آپ کے پاس آیا تھا آپ فوراً ہمیشہ کام آنے والی غذاسے اسے سرفراز فرماتے ہیں۔ پس یہ فیض عام ہے جو آپ نے ہر حالت میں جاری رکھا اور ہر ایک کو دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہمدردی خلق کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
’’یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف انبیاء و رُسل اور خدا تعالیٰ کے مامورین اہل دنیا سے نفور ہوتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق کے لئے ان کے دل میں اس قدر ہمدردی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے لئے بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:04)۔یہ کس قدر ہمدردی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں فرمایا ہے کہ تُو ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کے متعلق اس قدر ہمّ و غم نہ کر۔ اس غم میں شاید تُو اپنی جان ہی دے دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمدردی مخلوق میں کہاں تک بڑھ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ہمدردی کا نمونہ کسی اَور میں نہیں پایا۔ یہاں تک کہ ماں باپ اور دوسرے اقارب میں بھی ایسی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 80۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’نبی کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ قوت قدسی ہوتی ہے اور اس کے دل میں لوگوں کی ہمدردی، نفع رسانی اور عام خیر خواہی کا بیتاب کر دینے والا جوش ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:04)۔ یعنی کیا تُو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس خیال سے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک کافروں کی نسبت کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے۔ دوسرا مسلمانوں کی نسبت کہ ان میں وہ اعلیٰ درجے کی روحانی قوت کیوں نہیں پیدا ہوتی جو آپ چاہتے ہیں۔ چونکہ ترقی تدریجاً ہوتی ہے اس لئے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں۔مگر انبیاء کے دل کی بناوٹ بالکل ہمدردی ہی ہوتی ہے۔ اور پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جامع جمیع کمالات نبوت تھے۔ آپؐ( صلی اللہ علیہ وسلم) میں یہ ہمدردی کمال درجہ پر تھی۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) صحابہ( رضوان اللہ علیہم) کو دیکھ کر چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں۔ لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا۔ آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے کبھی نہ پایا تھا اور وہ دیکھا جو کسی نے نہ دیکھا تھا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 51-52۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ فیض عام اور ہمدردی خلق اور رحمانیت اور رحیمیت کا وہ انتہا پر پہنچا ہوا مقام ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے بھی بنی نوع انسان کے لئے ہمدردی اور رأفت اور رحمت میں ڈوبے ہونے کی سند آپ کو دلوائی۔ پس یہ وہ نبی ہے جو اپنوں کے لئے بھی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتا تھا اور جنہوں نے قبول نہیں کیا ان کے لئے بھی تکلیف میں ڈالتا تھا۔ آپؐ کی سیرت کے بے شمار واقعات ہیں جب آپ نے اپنی تکلیف کو برداشت کیا لیکن بددعا نہ دی بلکہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:04)۔ میں بے مثال شفقت اور محبت کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ نبی تو اس طرح دنیا کی شفقت و محبت سے پر ہے کہ بددعا دینا تو ایک طرف رہا اپنے آپ کو ہلاک کر رہا ہے۔ دن کو یہ نبی ظلم سہتا ہے لیکن پھر بھی ظلم سہنے کے باوجود بنی نوع کی عاقبت سنوارنے کی فکر میں ہے۔ رات کو اپنی نیندیں دنیا کی بہتری کے درد میں قربان کر رہا ہے۔ آپ کو نہ کھانے کی پرواہ تھی نہ پینے کی پرواہ تھی۔ فکر تھا تو صرف یہ کہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے۔ آپ کی عبادتیں دنیا کے درد کے لئے ایسی تھیں کہ رات کو کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں متورّم ہو جاتے تھے۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر القرآن باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک… حدیث نمبر 4836) آپ کے سجدوں کی لمبائی اتنی ہوتی تھی کہ بعض دفعہ آپ کی ازواج کو یہ خیال ہوتا تھا کہ شاید سجدے کی حالت میں آپ کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئی۔(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 5 صفحہ 361 حدیث نمبر3554 کتاب الصیام باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان مطبوعہ مکتبۃ الرشد 2004ء)
یہ درد جو آپ نے بنی نوع کے لئے دکھایا۔ آپ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے آپ کے ماننے والے بھی یہ مقام حاصل کریں۔ وہ روحانی مقام حاصل کر لیں کہ ان کا اپنا کچھ نہ رہے۔ وہ سب کچھ دنیا کی بھلائی کے لئے لٹاد یں۔ پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ صحابہ کی بھی ایک فوج تیار ہو گئی جو راتوں کو دنیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ خدمت انسانیت اور انسانیت کی بھلائی اور ان کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کیلئے ان میں بھی ایک درد تھا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَک۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک کافروں کے لئے کہ ان کی اصلاح ہو، ایک مومنوں کے لئے کہ ان میں اعلیٰ درجہ کی روحانی قوت پیدا ہو۔ اور پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ صحابہ کے وہ مقام ہوئے جو آپ چاہتے تھے۔ اور پھر تاقیامت یہ درد پیدا کرنے کے لئے جو آپ کو فکر تھی اس کو دور کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے آخرین میں مسیح موعود کو بھیجنے کا وعدہ فرمایا تا کہ یہ بنی نوع انسان سے محبت اور ہمدردی کا سلسلہ چلتا رہے اور کبھی ختم نہ ہو۔ اسلام کو بدنام کرنے والوں کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اسوہ کی چمک دکھانے والے تا قیامت موجود رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع کے لئے درد جس کا اظہار آپ نے اپنی زندگی میں اپنے عمل سے کیا اور پھر اس عمل کی روح آپ نے اپنے صحابہ میں پھونکی۔ جنہوں نے پھر ہمدردی خلق اور انسانیت کے لئے دعاؤں سے اپنی راتوں کو زندہ کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنی نوع انسان کی تا قیامت بھلائی کی فکر کے دور کرنے کے لئے اس زمانے میں مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے بھیجنے کا وعدہ اس لئے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَا اَرَسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔ کہ ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو ہی رحمت بنا دیا۔آپ کا جسم اور روح سراپا رحمت تھی۔ جب آپ کا یہ مقام تھا تو کیوں نہ بنی نوع کے لئے آپ تڑپ رکھتے۔ آپ میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت اس طرح حلول کی گئی تھی جس کی اگر کسی انسان میں کوئی قریب ترین مثال مل سکتی ہے۔ تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تھی۔ آپ میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جلوہ گر تھی۔
پس آپ خداتعالیٰ کی رحمانیت کے جامع تھے جو تمام قسموں کے رحم پر حاوی تھی۔ تمام قوموں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماننے والوں کے لئے بھی سراپا رحم تھے اور اپنے مخالفین کے لئے بھی۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ شدید زخمی حالت میں جبکہ آپ کے صحابہ کا خیال تھا کہ شاید آپ ان کاری حملوں سے نہ بچے ہوں گے تو جب ہوش آئی تو دشمنوں پر سے اللہ تعالیٰ کا غضب دُور ہونے کی دعائیں کیں۔ پس کہاں ملتی ہے ایسی مثال ایسی رحمت کی۔ آپ کی رحمت نے عرب کے جاہلوں کو جو ذرا ذرا سی بات پر جذبات سے مغلوب ہو کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے تھے، غیرت کے نام پر قتل کرتے تھے تو سالوں یہ قتل چلتے چلے جاتے تھے۔ ان جاہلوں اجڈوں کو آپ نے وہ مقام عطا کیا کہ ایک دوسرے کے لئے رحمت کے جذبات کا اظہار کرنے والا اور قربانیاں دینے والا بنا دیا۔ بلکہ دشمن سے بھی سلوک کے وہ اعلیٰ اخلاق سکھائے جو آج کی نام نہاد بااخلاق اور پڑھی لکھی دنیا میں بھی نظر نہیں آتے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ معصوموں، بیماروں، عورتوں، بچوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے آپ نے سختی سے منع کیا۔ ایک جنگ میں ایک مسلمان نے ایک بچہ قتل کردیا یا اس سے غلطی سے ہو گیا۔ آپ نے شدید صدمے کا اظہار فرمایا۔ قتل کرنے والے نے کہا کہ وہ یہودی تھا یا غیر مسلم تھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا وہ معصوم بچہ نہیں تھا؟ تم نے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔(ماخوذ از مسند احمد بن حنبل مسند الاسود بن سریع جزء 5حدیث نمبر 16412 عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)
یہ ہے وہ حسین نمونہ آجکل کے ان نام نہاد مسلمانوں اور تنظیموں کے لئے بھی جو مذہب کے نام پر اپنوں اور پرایوں سب کا خون کئے چلے جا رہے ہیں۔ اور یہ اُسوہ ان لوگوں کے منہ پر چپیڑ ہے کہ جو آپ کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے اس دہشتگردی کی تعلیم دی یا شدت پسندی کی تعلیم دی۔
پس دیکھیں اور سوچیں کہ کیا مسلمانوں میں سے یہ لوگ جس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں رحمۃٌ للعالمین کی طرف منسوب ہونے کے حقدار ہیں؟ یا وہ لوگ جو جنگ میں براہ راست ملوث نہیں ہیں، وہ بھی جو ان کی حمایت کر رہے ہیں وہ بھی رحمۃٌ للعالمین سے منسوب ہونے کے حقدار ہیں؟ یہ سوچنے والی بات ہے۔ قرآن کریم بھی آپ کی رحمانیت کا ایک نشان ہے جو تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے ایک رہنما ہے۔ اس پر اعتراض تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن قرآن کریم کی تعلیم میں اگر بوقت ضرورت سزا کا ذکر ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ہر چیز پر حاوی ہونے کی خوشخبری بھی ہے۔ اگر مسلمانوں پر ٹھونسی جانے والی جنگوں کے جواب میں جنگ کا حکم ہے ، یہ کہیں حکم نہیں کہ براہ راست حملے کرو، اگر جنگیں ٹھونسی جاتی ہیں تو جواب میں جنگ کرو، اگر یہ حکم ہے تو پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ کچھ اصول و ضوابط بھی ہیں کہ معصوموں بچوں، راہبوں اور اس شخص کی جان کی حفاظت کی ضمانت بھی دی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں براہ راست ملوّث نہیں ہے۔ اگر جنگی قیدی پکڑے گئے ہیں تو ان کو جس قدر رعایت کر کے آزاد کیا جا سکتا ہے اس کا بھی حکم ہے۔ آپ کا رحم تمام دنیا کے انسانوں بلکہ تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی رحمت غیروں کے لئے بھی وسیع ہے اور ان کی خیر و بھلائی چاہتی ہے اور اپنوں کے لئے بھی۔ اور یہ بھی آپ کے رحمۃٌ للعالَمین ہونے کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلام صادق کو اس رحمت کی حقیقت بتانے اور رحمت پھیلانے کے لئے بھیجا ہے۔ آپ نے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو کس طرح ہمیں دکھایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام رحمۃ للعالمین کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کے لئے تجھے نہیں بھیجا، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جاوے۔ پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لئے رحمت ہیں اور آپ کی ہمدردی تمام دنیا سے ہے۔ نہ کسی خاص قوم سے ہے۔‘‘(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 388)
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن۔(الانبیاء:108) وَلَا یَسْتَقِیْمُ ھٰذَا الْمَعْنیٰ اِلَّا فِیْ الرَّحْمَانِیَّۃِ فَاِنَّ الرَّحِیْمِیَّۃَ یَخْتَصُّ بِعَالَمٍ وَّاحِدٍ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔‘‘
(اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ118 حاشیہ)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ اے نبی! ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ کا رحمۃ للعالمین ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست ہو سکتا ہے کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں کی دنیا کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمّت کے موافق ہوتا ہے۔ جس قدر اس کی ہمّت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اُسی پایہ کا وہ کلام ہو گا۔ اور وحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے۔ جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمّت بلند رکھنے والاوہ ہو گا اسی پائے کا کلام اسے ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمّت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمّت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی۔ بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔ (الاعراف:159)۔ اور مَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔ (الانبیاء:108) جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 57۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے۔ مثلاً پہلی صفت ربّ العالمین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھی مظہر ہوئے جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعَالَمِیۡنَ۔(الانبیاء:108)۔ جیسے ربّ العالمین عام ربوبیت کو چاہتا تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کُل دنیا اور کُل عالَموں کے لئے قرار پائی۔
پھر دوسری صفت رحمان کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں۔ مَا اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ(الفرقان:58)‘‘۔( کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ )
پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں۔ آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ نے جو محنتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اٹھائیں وہ ضائع نہیں ہوئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیا ہے۔
پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں۔ اس کی کامل تجلی فتح مکّہ کے دن ہوئی۔ ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جو اُمّ الصفات ہیں اور کسی نبی میں نہیں ہوا۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 71۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا فیضان ہے کہ اس زمانے میں اس نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجاجنہوں نے اس حقیقی تعلیم کو ہم پر واضح فرمایا۔ جیسا کہ ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے جو میں نے ابھی پڑھے ہیں کہ کس خوبصورتی سے آپ کا مومنوں اور غیر مومنوں کے لئے رحمت ہونا واضح فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمام دنیا کی پرورش کرنے والاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ جس طرح دنیا کا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سے باہر نہیں اسی طرح دنیا کا کوئی شخص آپ کے فیوض و برکات سے باہر نہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرماتے ہیں کہ میں تو یہ رحمتیں بغیر کسی اجر کے بانٹنے والا ہوں چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔ سب کے لئے رحمتیں ہیں۔ پھر رحیمیت اگر محنت کی وجہ سے ہے جو جس کام میں محنت کرے اس کا پھل پاتاہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے یہ روحانی فیض آپ سے اٹھایا کہ بدؤوں سے بااخلاق ہوئے، تعلیم یافتہ ہوئے اور پھر باخدا ہوئے اور اپنی روحانی کوششوں کے پھل کھائے اور مادی کوششوں کے بھی پھل کھائے۔ پھر اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ جزا سزا کے دینے کا مالک ہے۔ اس کا نظارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فتح مکہ میں دنیا نے دیکھا کہ خون کے پیاسے دشمنوں کو کہا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم۔ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ آج رحم کا دن ہے۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 141 باب ذکر مغازیہﷺ ، فتح مکۃ شرفہا اللّٰہ تعالیٰ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت طبع اول 2002ء )
آپ کی رحمت اور بخشش نے تمام دشمنیوں کو بھلا دیا حتی کہ جو شدید دشمن تھے، جو مکّہ سے دوڑ گئے تھے، جنہوں نے دشمنی میں انتہا کی ہوئی تھی ان کو خیال تھا کہ اب ہماری معافی کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔ ان کو بھی جب پیغام ملا کہ آپؐ تو مجسم رحمت اور شفقت ہیں اور کسی پر کوئی سختی نہیں ہو گی تو ان کو یقین نہ آیا۔ ان دوڑنے والوں میں سے ایک عکرمہ بھی تھے جن کی بیوی نے عکرمہ کے لئے جان کی اَمان چاہی تو آپ نے فرمایا کہ معاف کیا۔ وہ آپ کے پیچھے گئی یعنی عکرمہ کے پیچھے گئی اور کہا کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اتنے شریف اور اتنے رحمدل انسان کو چھوڑ کر تم کہاں جا رہے ہو۔ عکرمہ نے کہا میری تمام تر دشمنیوں کے باوجود مجھے معاف کر دیا جائے گا؟ اس کی بیوی نے کہا کہ ہاں تمہیں معاف کر دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا بلکہ فرمایا تم لوگ اپنے اپنے مذہب میں رہتے ہوئے مکّہ میں رہ سکتے ہو اور آزاد ہو۔ ہاں ایک شرط ہے کہ قانون کا پابند رہنا پڑے گا۔
(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ 132 باب ذکر مغازیہﷺ ، فتح مکۃ شرفہا اللّٰہ تعالیٰ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت طبع اوّل 2002ء )
پس ہر حالت میں آپ سے رحم اور رحمت ہی ٹپکی۔ پس یہ ہے وہ رسول جو ہر حالت میں بنی نوع کے لئے شفقت و رأفت اور رحم تھا۔ اس رسول پر الزام لگانے والے الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ دہشتگردی کی تعلیم دی۔ آج اس مجسم رحمت کی طرف منسوب ہونے والوں کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ان کو یہ اُسوہ اپنے آپ میں نظر آ رہا ہے۔ اگر نہیں تو فکر کرو کہ اس مجسم رحمت کی روح کو تم بے چین کرنے والے ہو۔ اور اے مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہونے والو! آج ہمارا فرض ہے کہ آج اس شفقت و رأفت و رحمت کو دنیا میں عام کر دیں اور دنیا کو بتائیں کہ جس کو تم اپنا دشمن سمجھ رہے ہو اس سے بڑھ کر تمہارا ہمدرد و غمگسار کوئی نہیں ہے۔ آج دنیا کی بقا اس کی آغوش میں آ جانے میں ہے۔ آج مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل بھی رحمت للعالمین کی پیروی کرنے میں ہے اور غیر مسلموں کے سکون کے ضامن بھی وہ رحمت للعالمین ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا کو عقل اور سمجھ آ جائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں ہمیں بھی اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنی زندگیوں میں دنیا میں یہ احساس پیدا ہوتے دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کے لئے رحمت للعالمین اور راہ نجات ہیں۔
اب ہم دعا کریں گے۔ اپنی دعاؤں میں جلسے کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں کہ ہم اس جلسے سے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ نظام جاری فرمایا تھا۔ ہم اپنے اندر ان دنوں میں وہ حالت پیدا کرنے کی کوشش کریں جو ایک مومن کے لئے ضروری ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ ہم اس جلسے میں محبت اور پیار بکھیرنے والے ہوں اور بعد میں بھی اپنی زندگیوں کا اس کو ایک خاصہ بنا لیں۔ جہاں جہاں احمدیوں پر سختیوں کے دن ہیں اللہ تعالیٰ ان جگہوں میں احمدیوں کے لئے آسانیوں کے سامان پیدا فرمائے۔ دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی رنگ میں جماعت احمدیہ کا جلسہ منعقد ہو جاتا ہے لیکن پاکستان کے احمدی گزشتہ تیس سال سے اس سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی حالات بدلے۔ ظلم و بربریت کا دَور وہاں ختم ہو اور اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کرنے والوں کی اصلاح اگر مقدر نہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے راستے سے ہٹانے کے جلد سامان پیدا فرمائے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے رحمت للعالمین کی حقیقت کو بھی سمجھنے والے ہوں۔ فلسطین کے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی حفاظت فرمائے اور ہر ظلم سے انہیں بچائے۔ ہر ظلم کرنے سے ان کو محفوظ رکھے۔ اسرائیل کو بھی اپنی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے یاد رکھنا چاہئے کہ ظالمانہ اقتدار کبھی قائم نہیں رہا۔ ان کی بقا بھی اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوںمیں شامل ہونے کی کوشش کریں اور آج اس کا ذریعہ مسیح محمدی کو ماننا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے محبت اور رحمت پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمان جو رُوئے زمین پر بستے ہیں مسیح موعو د اور مہدی معہود کو مان کردین واحد پر جمع ہو جائیں۔ اللہ کرے یہ نظارہ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھنے والے ہوں۔
اب دعا کر لیں۔
