خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان28دسمبر2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ان دنوں میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور ان کاآج آخری دن ہے۔ یہ جلسے نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، سینیگال میں ہو رہے ہیں اور اسی طرح امریکہ کے ویسٹ کوسٹ کا بھی جلسہ ہے۔آج ان کے آخری دن ہیں۔ افریقن ممالک میں تو وقت بھی تقریباً یہی ہے اور میری اس تقریر کے ساتھ ان کا جلسہ بھی دعا کے بعد اختتام پذیر ہو گا ۔
مَیں نے جمعہ کے خطبہ میں بتایا تھا کہ دنیا کو ہمارے جلسوں سے جو پیغام ملتا ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ہونا ہے۔ پس جہاں یہ جلسے ہماری اندرونی صفائی اور روحانیت میں ترقی کا ذریعہ ہیں وہاں دنیا میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت و وقار کو قائم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے حُسن کو دکھانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ پس آج دنیا کے مختلف ممالک میں افرادِ جماعت کا اپنے جلسوں کے لئے جمع ہونا دنیا کو اور خاص طور پر وہ لوگ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ان کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ تم اسلام کو کیا سمجھتے ہو اور اسلام کی حقیقت کیا ہے۔یہ دنیا کو بتانے کے لئے ہے کہ تم ان لوگوں کی باتوں کو تو سنتے ہو اور اہمیت دیتے ہو اور ان کی باتوں پر یقین بھی رکھتے ہو جو اسلام کے خلاف بہت کچھ کہتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم اپنے قول، اپنی تعلیم اور اپنے عمل سے تمہیں بتاتے ہیں کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ گویا ہم اسلام کو علمی اور عملی رنگ میں دنیا کو دکھانے کے لئے یہاں جمع ہیں۔ یہ ایک عظیم کام اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم نے اپنے اوپر لی ہے اور یہ عظیم کام اور بڑی ذمہ داری اس وقت مزید اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے جب ہماری آواز سے آواز ملانے میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت یا خاموش ہے یا مخالف ہے۔ اور دوسرے مسلمان اسلام کی تعلیم کو بعض معاملات میں خاص طور پر قیام امن کے لئے اُس سے بالکل مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں جس طرح ہم نے قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے اُسوہ سے سمجھا ہے۔
مسلمان کہلانے والے بعض گروہ یا تنظیمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کو نہ سمجھتے ہوئے یا بعض تاریخی حقائق سے ناواقفیت کی وجہ سے یا نئے اور پرانے غلط نظریات کی وجہ سے یا اپنے مفادات کی خاطر اسلام کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا اسلام کی حقیقی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بہر حال ان باتوں اور ان نظریات کی وجہ سے غلط عمل نے غیر مسلم دنیا میں یہ غلط تاثر قائم کیا ہوا ہے کہ اسلام نعوذ باللہ شدّت پسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے۔ ہم احمدی خود ان شدّت پسندوں کے عمل کی وجہ سے شدت پسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں یا چڑھتے ہیں۔ ابھی کل ہی ہمارے ایک احمدی کو شہید کیا گیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ لیکن ہم ان حرکتوں کا اسی طرح جواب نہیں دیتے جس طرح ان کے عمل ہیں۔ ان حرکتوں کا اسی طرح الٹا کر جواب نہ دینا ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے کہ دشمن کو خیال ہو کہ شاید ہم کمزور ہیں۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ہم حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا ردّ عمل وہ ہونا چاہئے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ بہرحال اگر دیکھیں تو شدت پسند اس وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اسلام کو اور مسلمانوں کو پہنچا رہے ہیں۔ پھر جہاد کا غلط تصور قائم کر کے خود آپس میں بھی دست و گریبان ہیں۔ اسلام تو ایسا امن پسند مذہب ہے کہ وہ آپس میں تو کیا غیرمسلموں سے بھی اس قسم کے جہاد کی نفی کرتا ہے جس طرح کہ آجکل کے جہاد کی تعریف کی جاتی ہے۔
بہر حال چاہے یہ مسلمانوں کی طرف سے شدت پسندی ہے یا جہاد کا غلط تصور قائم کر کے دنیا کے امن کو برباد کرنا ہے۔ مسلمان گروہوں کے اس عمل نے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند اور سلامتی کی تعلیم کا دنیا میں بالکل غلط اور الٹ تصور پیدا کر دیا ہے۔ گو بعض پڑھے لکھے اور ریسرچ کرنے والے مغربی سکالر بھی اور لکھنے والے بھی اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ ان گروہوں کے عمل اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں لیکن عموماً دنیاوالے میڈیا کے ذریعہ جو واقعات سامنے آتے ہیں ان کو دیکھ کر اور ان کو سن کر مسلمانوں کے خلاف بالکل الٹ رائے قائم کرتے ہیں۔ اور آجکل کا مغربی میڈیا اِلّا مَاشَآئَ اللہ اسلام کے خلاف لکھنے میں ایک کو چار کر کے دکھاتا ہے۔ بہر حال ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس حالت کو پیدا کرنے میں قصور ہمارے مسلمانوں کا ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جیسا کہ مَیں نے کہا بعض اچھے بھی لکھنے والے ہیں۔
ابھی ایک جرنلسٹ جو غالباً جرمنی کے تھے ISIS کے زیر انتظام علاقوں میں رہ کر آئے ہیں۔ اَور باتوں کے علاوہ اس نے ایک بہت سچی اور حقیقی بات بتائی ہے اور یقینا یہ اس کی انصاف پسندی ہے اور اس لئے ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے اس کو واقفیت ہے، قرآن کریم کی تعلیم سے اس نے کچھ نہ کچھ سمجھا ہے۔ کہتا ہے کہ میں نے ان سے پوچھا کہ باقی اسلامی تعلیم تو تم اپنے زیر انتظام علاقے میںلاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن قرآن کریم میں بیشمار جگہ پر رحم اور نرمی وغیرہ کی جو تعلیم آئی ہے اس پر تمہارے ہاں عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ کہتا ہے میرے بار بار پوچھنے کے باوجود، مختلف لوگوں سے پوچھنے کے باوجود، میری بات کی نہ وہ نفی کر سکے نہ وہ اس کا جواب دے سکے۔ تو جن کو اسلامی تعلیم سے واقفیت ہے، چاہے وہ غیر مسلم ہو، اس کو پتا ہے کہ اسلام کی تعلیم شدت پسندی کی نہیں بلکہ رحم، عفو اور انصاف پسندی کی تعلیم ہے۔ پس یہ غیروں کا کام نہیں، گو کہ بعض غیر یہ کام کر رہے ہیں کہ اسلام کے بارے میں انصاف کی تعلیم بتا رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کا کام نہیں ہے کہ اپنے ایک کالم میں یا کسی مضمون میں ایک دفعہ لکھ کر کہ اسلام کی تعلیم میں رحم پایا جاتا ہے تو یہ کافی ہو گیا اور پھر ہم مسلمان آرام سے بیٹھے رہیں۔
بلکہ آج یہ ہمارا کام ہے کہ ہر جگہ، ہر سطح پر مسیح محمدی کی نمائندگی میں اسلام کی امن پسند تعلیم دنیا کو بتائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مثیل مسیح کے طور پر اسی طرح رحم اور عفو کی تعلیم کو جاری کرنا تھا جس طرح پہلے مسیح نے کیا۔ لیکن مسیح محمدی کی تعلیم میں اس سے کہیں بڑھ کر رحم، محبت، پیار، بھائی چارے اور اخوّت کی تعلیم ہے جتنی پہلے مسیح نے بتائی تھی کیونکہ مسیح محمدی نے جس تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھا وہ قرآن کریم کی تعلیم ہے جو رحمۃٌ للعالمین کی تعلیم ہے۔ جس کے آخری، مکمل اور کامل ہونے میں کسی شبہ اور شک کی گنجائش نہیں ہے۔ جو قرآن کریم میں آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے اس کا حسن چمکتا تھا۔ تبھی تو عیسائی جرنلسٹ نے ان سختی کرنے والوں کو کہا تھا کہ تمہارے اندر اسلام کی رحم کی تعلیم پر عمل نظر نہیں آتا۔ بہر حال ہم احمدیوں کے سامنے اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مہدی موعود علیہ السلام نے کس طرح اس خوبصورت تعلیم کو پیش فرمایا، اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور احمدیوں کی ذمہ داریوں کا پتا چلتا ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو نہ صرف اپنائیں بلکہ پھیلائیں بھی۔ ورنہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فوج میں شامل نہیں ہو سکتے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ دیکھو میں ایک حُکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے۔ صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یَضَعُ الْحَرْب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو مَیں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلاویں کہ اس سے اُن کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہو گا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسّط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ ‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 15)
پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج کے سپاہیوں کا کام۔ ہم نے کسی ظاہری بندوق، پستول سے دنیا کے معصوموں کی جانیں نہیں لینی بلکہ اپنے نفسوں کی بدیوں کو ختم کر کے انہیں پاک کرنا ہے۔ ہم نے برائیوں سے دلوں کو اس طرح پاک کرنا ہے کہ اس میں سے ظلم و تعدّی اور شیطانیت کا نام و نشان مٹ جائے۔ ہم نے اپنے دل میں انسانیت کے لئے رحم کو اس طرح ترقی دینی ہے۔ اپنوں، غیروں اور ہر ایک کے لئے ہمارے دلوں سے اس طرح رحم کے چشمے پھوٹنے چاہئیں جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ ہم نے دکھی دلوں کا ایسا ہمدرد بننا ہے جس کی مثال دنیا میں نہ ملتی ہو۔ ہم نے زمین پر صلح، محبت، بھائی چارہ، امن اور آشتی کے وہ نمونے قائم کرنے ہیں کہ دنیا کے لئے ہمارے پیچھے چلے بغیر کوئی چارہ نہ ہو اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی ہم اسلام کی حقیقی تعلیم کے علمبردار کہلا سکیں گے، اسلام کی حقیقی تعلیم کے سفیر بن سکیں گے اور اسلام کی تعلیم سے دنیا کو آشکار کرنے والے بن سکیں گے، تبھی ہم خدا تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں دنیا کو گرفتار کرنے والا بن سکیں گے۔ ہمیں جسموں کو فتح کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے ہم نے دلوں کو تسخیر کرنا ہے۔ جسموں کے قیدی تو کسی وقت بھی رہائی پا کر اپنے آپ کو آزاد کروا سکتے ہیں اور کروا لیں گے لیکن جن کے دل تسخیر ہو جائیں وہ ہمیشہ کی غلامی اور قید کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ پس حقیقی اسلام کو نہ ہی کسی کی جان لینے کی ضرورت ہے نہ ہی قیدی بنانے کی۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے لینا چاہتے ہیں ہم اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس کے لئے پیش کرتے ہوئے آپ کی فوج میں شامل ہو جائیں اور دنیا کو حقیقی اسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ اسلام کے متعلق شدت پسندوں کے خیالات کو دنیا کے دماغوں سے نکالیں اور ان کے دلوں میں وہ حقیقی اسلامی تعلیم پھیلائیں جن کے پھیلانے کے لئے اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی اُن کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے ‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 167حاشیہ)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔ ‘‘ (ستارۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 120۔121)
پس اس دین کو پھیلانے کے لئے اسلام کو نہ کسی تلوار کی ضرورت ہے نہ کسی سختی اور توپ اور تفنگ کی ضرورت ہے۔ اسلام تو وہ خوبصورت مذہب ہے جس کی سمجھ آنے کے بعد کسی کا اس کا گرویدہ ہوئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ اسلام کس طرح اپنی بات جبر سے منوا سکتا ہے جب کہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہی یہی ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن(البقرۃ:257)۔اور اس کی کئی دوسری جگہوں پر قرآن کریم وضاحت فرماتا ہے۔ صرف ایک جگہ نہیں فرمایا کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ بہت ساری جگہوں پر فرمایا ہے کہ دین اسلام میں جبر نہیں ہے۔ پس نہ اسلام کی تعلیم کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کا کہتی ہے، نہ ہی کسی کو زبردستی اسلام میں رکھنے کا کہتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اسلام تو اسلام کو چھوڑنے والوں کو قتل کی سزا دیتا ہے تو یہ غلط ہے۔ قرآن کریم اس کی نفی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ۔اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (المآئدۃ:55)اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ مومنوں پر وہ مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
پس اگر جبر ہو تو لوگوں کی ملامت سے ڈرنے کی بجائے وہ تلوار سے ڈرے کہ اسلام سے اگر میں نکلا تو مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اور بھی آیات ہیں جو اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ کسی کو مسلمان بنائے رکھنے کے لئے کسی جبر کی ضرورت ہے۔ پس جو بھی مسلمان ہوتا ہے وہ اپنے دل سے سچائی کو قبول کر کے مسلمان ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کی ملامت یا کمزوریٔ ایمان کی وجہ سے منکر ہوتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پھر اس کا معاملہ ہوتا ہے اور پھر ایسے منکر ہونے والوں کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں سے یہ وعدہ ہے کہ پھر وہ قربانیاں کرنے والے اور اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے مومن عطا فرمائے گا اور فرماتا ہے۔ اسلام چھوڑنے والوں کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے، بندوں کے ساتھ نہیں۔
اسلام کی جبر کی تعلیم کو ردّ فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑے واضح الفاظ میں بتاتے ہیں اور ہمیں یہ سیدھا راستہ آپ نے دکھایا ہے کہ دین اسلام میں جبر نہیں ہے۔ اور قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ: ’’ کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں‘‘۔ (پیغام صلح، روحانی خزئن جلد 23صفحہ 468)
تنخواہیں بھی نہیں مل رہیں اور صرف دو تین سو آدمی ہوں اور ہزاروں کا مقابلہ کریں۔ یہ تو دل کی آواز ان کو کہتی ہے کہ جب دین پر حملہ ہو رہا ہو تو مقابلہ کرو۔ یقینا ہر عقلمند شخص کہے گا کہ یہ جبر نہیں ہے بلکہ ایمان ہے اور ایک مقصد ہے کہ دین کے دشمنوں کے مقابلے پر دین کو بچانے کے لئے بے دھڑک ہو کر قربانی کے لئے تیار ہو جانا۔
پھر کہنے کو اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے یا شدت پسند مسلمان یہ دلیل دیتے ہیں کہ جنگ کی فتوحات سے اسلام پھیلا۔ لیکن یہ بھی جھوٹ اور غلط ہے۔ اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہوا ہے۔ افریقہ کے ریگستانوں میں جنگوں سے نہیں، جنگجوؤں سے نہیں بلکہ درویشوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا تھا۔ پھر چین میں اسلام حملوں نے نہیں بلکہ اسلام کا درد رکھنے والوں نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر پہنچایا تھا۔ ہندوستان میں بھی اسلام ٹاٹ پوش درویشوں کے ذریعے پھیلا تھا۔ اگر صرف تلوار کے زور سے ہوتا تو لاکھوں لوگ اسلام چھوڑ چکے ہوتے۔ اسی طرح یورپ میں بھی اسلام کو دل سے قبول کیا گیا۔(ماخوذ از پیغام صلح روحانی خزائن جلد23 صفحہ468) ہاں جب سپین عیسائی بادشاہوں کے قبضے میں آیا تو عیسائیت ضرور تلوار کے زور سے پھیلائی گئی اور مسلمانوں کو عیسائی بنایا گیا اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اور بعض لکھنے والے انصاف پسند عیسائی مؤرخ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ سپین میں مَیں نے وہ علاقے بھی دیکھے ہیں جہاں کئی دہائیوں بلکہ ڈیڑھ دو سو سال تک مسلمانوں نے غاروں اور پہاڑوں میں چھپ کر اپنے ایمان کو سلامت رکھا۔ آخر دھوکے سے ان کو یا سمندر میں غرق کر دیا گیا یا تلوار کے زور سے عیسائی بنا لیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ ایک مسلمان تنظیم کی عورت مجھے ملی۔ مَیں نے اسے دیکھ کر کہا کہ تم اصل سپینش لگتی ہو۔تم نو مسلم لگ رہی ہو۔ سپینش بھی ہو۔ تم نے کب اسلام قبول کیا؟ اسلام تم نے قبول کیا تو نو مسلم ہو گی۔ کہنے لگی کہ میں نو مسلم نہیں ہوں۔ اب مذہبی آزادی ملی ہے تو مَیں اپنے اصلی مذہب اسلام میں واپس آئی ہوں۔ پس سپین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سینکڑوں سال بعد واپس لوٹے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کا کلام یقینا سچا ہے جو کہتا ہے کہ لوگوں کے خوف سے اسلام کو چھوڑا تو جا سکتا ہے، اسلام میں لایا نہیں جا سکتا۔
سپین کے ایک پروفیسر جو اسلام کی تاریخ کے ان کھوئے ہوئے بابوں کی تلاش میں ہیں جو عرصہ سے زیر زمین ہوئے ہوئے تھے اور پرانے کھنڈرات اور مسلمانوں کی تاریخ نکالتے رہتے ہیں۔ جب میں سپین گیا ہوں تو مجھے خاص طور پر ان کھنڈرات میں لے کر گئے جہاں سے سب سے آخر میں مسلمانوں نے اپنے دین کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے قربانیاں دی تھیں اور وہاں اسلام سب سے آخر میں ختم ہوا تھا۔ یہ پروفیسر عیسائی ہونے کے باوجود مجھے کہنے لگے کہ یہ علاقہ ہے جو اَب تمہیں لے لینا چاہئے تا کہ دوبارہ اسلام کی تعلیم یہاں زندہ ہو۔میں نے انہیں کہا کہ یقینا ہم یہ لیں گے۔ جس علاقے سے تم نے اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کیا تھا ہم محبت کی تلوار سے دل جیت کر اسے واپس لیں گے۔ پس یہ وہ مقصد ہے جسے ہم نے پورا کرنا ہے۔
یہی ہمیں مسیح محمدی نے بتایا ہے کہ میرے آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلام کے متعلق شدت پسندی اور جہاد کے غلط نظریے کو باطل کر کے دنیا کو بتاؤں کہ اسلام وہ خوبصورت مذہب ہے جس کو کسی تلوار کی ضرورت نہیں۔ جو دلوں کو فتح کرتا ہے اور دلوں میں کھب جاتا ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تا کہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دُور کرے اور اپنی حجج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں۔ اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں۔‘‘ فرمایا ’’اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دُور کر دے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں۔ تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 176۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایک طرف تو اسلام کے دفاع میں اور اسلام کی تبلیغ کے پھیلانے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور جری اللہ یہ فرماتے ہیں جو ابھی میں نے بیان پڑھا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تصدیق کرنے اور اس کے ساتھ شامل ہو کر اسلام کے خوبصورت پیغام سے دنیا کو روشن کرنے کے بجائے آپ علیہ السلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ یہ باتیں اس لئے نہیں کہہ رہے کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے بلکہ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اپنے آقاؤں کو خوش کریں جنہوں نے آپ کو کھڑا کیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور کہتے ہیں کہ اسی لئے آپ غلط طور پر جہاد کو منسوخ کر رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولیٰ اور مددگار تو خدا ہے جس نے آپ کو بھیجا ہے۔ آپ تو اس آقا کے غلام ہیں جو رحمۃٌ للعالَمین ہے جس نے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی جنگوں میں رحمت اور نرمی کی تعلیم دی تھی۔ جس نے مسلمان بنانے کے لئے کسی پر کبھی بھی تلوار نہیں اٹھائی۔ جس نے تلوار اٹھائی تو صرف اس وقت جب آپ پر تلوار اٹھائی گئی۔ صرف اور صرف امن قائم کرنے کے لئے تا کہ دنیا کا امن برباد نہ ہو۔ پس ہم تو اس نبی کے غلام ہیں جو خاتم النبیین اور رحمۃٌ للعالمین ہے۔
ہمیں ان لوگوں پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے مخالفین کیا ہیں اور کس طرح کے ان کے عمل ہیں اور انہوں نے اسلام کو کس حد تک دنیا میں بدنام کیا ہے۔ لیکن ہم جو مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی غلاموں میں سے ہیں، ہم بڑے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل اور اس کی تبلیغ صرف اور صرف غلام مسیح محمدی ہی کر رہے ہیں اور یہ صرف اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانے کا عہد لیا ہے۔ آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلام کی عزت کو تمام دنیا میں قائم کرنے کے لئے اپنے عہدوں کو نبھا رہی ہے۔ ہم ہی ہیں جو دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اسلام امن اور سلامتی اور محبت اور بھائی چارے کا مذہب ہے اور اگر قرون اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جنگیں ہوئیں تو وہ دین کے نام پر قتل عام کرنے کے لئے نہیں تھیں اور وہ دنیا کے امن کو برباد کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ دنیا میں امن اور سلامتی کے قیام کے لئے ہوئی تھیں۔ دنیا میں ظلم کرنے والوں کے ظلموں کو ختم کرنے کے لئے ہوئی تھیں۔ یہ جوابی جنگیں ڈاکٹر کے اس علاج کے طور پر تھیں جس میں ڈاکٹر مریض کی صحت کے لئے جسم کے بعض حصوں پر چاقو چلاتا ہے۔ پس یہ کڑوی گولیاں اور نشتر علاج کے لئے تھے نہ کہ زندگی ختم کرنے کے لئے۔ لیکن اب مذہبی جنگیں اسلام پر ٹھونسی نہیں جاتیں اس لئے جہاد کا جو طریق ہے وہی بدل گیا ہے۔ جنگوں کا طریق بھی بدل گیا ہے اور یہ عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہے۔ پس مسلمانوں کو بلاجواز غیر مسلموں کا خون بہانے کے لئے بہانے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گولی کا استعمال اور شدت پسندی سے اور بندوق کی نوک پر مسلمانوں کے عقائد بدلنے کی کوشش بھی صریحاً اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ نہ دشمن کے ساتھ جنگ ہے، نہ اپنوں کے ساتھ سختی ہے۔
اسلامی تعلیم کی بعض مثالیں میں پیش کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کیا کہتا ہے اور قرآن کریم میں ہمیں کس طرح امن کی تعلیم دی گئی ہے۔ پہلے تو میں نے یہ بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کہ دین میں جبر نہیں ہے اور پھر اس کے آگے یہ بھی فرمایا ہے کہ بیشک ہدایت اور گمراہی کا فرق اسلام کے آنے سے ظاہر ہو گیا۔ اور یہ حق کی تعلیم تم نے دوسروں کو بتانی بھی ہے اس کی تبلیغ بھی کرنی ہے لیکن جبر بہرحال نہیں کرنا۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا۔ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ (یونس:100)
اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح تشریح فرمائی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو تمام دنیا کی آبادی ایمان لے آتی۔ پھرکیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تُو لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں؟ اگر دنیا کو جبر کے ساتھ منوانا ہوتا اور اسلام میں جبر کی تعلیم ہوتی تو خدا تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو لوگوں کو مسلمان ہونے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو یہ بات ہماری طاقت میں تھی کہ ہم اپنی مشیئت سے کام لے کر تمام لوگوں کو مسلمان بنا دیتے مگر جب ہم نے یہ نہیں کیا تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو کیسے ان کو مسلمان بننے کے واسطے مجبور کر سکتا ہے؟ اور تُو جب ان کو مجبور نہیں کر سکتا تو پھر تیرے لئے یہی ایک راہ ہے کہ ان سے کہہ دے کہ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ (الکہف: 30)کہہ یہ حق اور صداقت جو دنیا میں آئی ہے تو وہ تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور یہ تعلیم جو تمہارے لئے بھیجی گئی ہے بالکل سچی ہے اور تمہارے واسطے فلاح کا موجب ہے۔ اب تمہارا دل چاہے تو مان لو اور دل نہ چاہے تو نہ مانو۔
(ہندو مسلم فسادات، ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل۔ انوار العلوم جلد9 صفحہ473)
پس اگر ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار نہیں تو آجکل کے علماء اور ان گروہوں کو کس طرح اختیار ہے کہ زبردستی کریں اور شدت پسندی کریں؟ خدا تعالیٰ کا اس مذہب کا نام اسلام رکھنا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ مذہب جبر و تشدد کے خلاف اور صلح و آشتی کا حامی ہو گا کیونکہ لفظ اسلام کے معنی ہی امن میں رہنا اور امن دینا ہے۔ پس اس کے بعد یہ دونوں فریق غلط ہیں۔ یعنی وہ غیر مسلم جو اسلام کو شدت پسندی کا مذہب کہتے ہیں اور وہ بھی جو مسلمان کہلا کر دنیا کے امن کو برباد کرتے ہیں۔
پھر دیکھیں امن اور بھائی چارے کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِھَا اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔(البقرۃ: 115)اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے منع کیا ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام بلند کیا جائے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے لئے اس کے سوا کچھ جائز نہ تھا کہ وہ ان مسجدوں میں ڈرتے ہوئے داخل ہوتے۔ ان کے لئے ( یعنی جو مسجدوں میں جانے سے روکتے ہیں) دنیا میں ذلّت اور آخرت میں بہت بڑا عذاب مقدر ہے۔
یہاں خدا تعالیٰ حقیقی مسلمان کو بلند حوصلگی کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس بات کی سختی سے نفی کرتا ہے کہ کسی کو عبادت سے روکا جائے اور مسجدوں کے دروازے بند کر دئیے جائیں کیونکہ یہ ظلم ہے۔ کیسا پیارا اُسوہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق میں پیش فرمایا جب نجران کے عیسائیوں کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی۔ پس باجے گاجے کے علاوہ ہر کوئی خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے مسجد میں آ سکتا ہے۔ دعا کے علاوہ عبادت کا جو حصہ ہے وہ دوسروں کو کہا جا سکتا ہے کہ باہر جا کر کر لو۔ پس قطع نظر اس کے کہ مسلمانوں کے عمل کیا ہیں، اسلامی تعلیم کی خوبصورتی بہر حال قائم ہے۔ غیر از جماعت تو ہمیں بھی باوجود اس کے کہ ہم کلمہ گو ہیں اپنی مسجدوں میں تو کیا ہماری مسجدوں میں بھی ہمیں نماز نہیں پڑھتے دیتے اور اس سے روکتے ہیں بلکہ ہمیں مسجدیں بنانے بھی نہیں دے رہے۔
بہر حال اسلام کی وسعت حوصلہ اس کی تعلیم سے عیاں ہے، صاف ظاہر ہے۔ امن اور محبت پھیلانے کی کوشش اس تعلیم سے واضح ہے اور آج جماعت احمدیہ مسلمہ ہے جو اس کی عملی تصویر ہے۔ اگر تمام مذاہب اور تمام فرقے اس ایک حکم پر عمل کرنے لگ جائیں تو دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کبھی فساد نہ ہو۔ اور وسعت حوصلہ اور امن کی اس تعلیم سے قرآن کریم کیوں نہ بھرا ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے اس کلام کو شروع ہی اس طرح فرمایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ پھر مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ تم نے پانچ نمازوں کی ہر رکعت میں یہ پڑھنا ہے۔ یعنی سب تعریف اس خدا کی ہے جو صرف مسلمانوں کو ہی رب نہیں بلکہ عیسائیوں کا بھی رب ہے، ہندوؤں کا بھی رب ہے، سکھوں کا بھی رب ہے، یہودیوں کا بھی رب ہے۔ پس جب ایک مسلمان جس کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کا حقیقی ادراک ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ پڑھتے ہوئے یہ سوچ رکھتا ہو کہ خدا ہر ایک کا ربّ ہے تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ پھر میں دوسری قوموں سے نفرت کروں۔
پس ایک احمدی مسلمان جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام مذاہب کا رب ہے۔ میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام قوموں کا رب ہے۔ میں اس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام ملکوں اور شہروں کا رب ہے۔ پس جب ہم تمام ملکوں، تمام قوموں، تمام مذاہب کو اپنے رب کے ساتھ جوڑتے ہیں تو ایک ایسی حمد کا تصور پیدا ہوتا ہے جو ہر ملک میں بسنے والی ہر قوم اور ہر مذہب کے افراد کے لئے کینہ اور بغض دل سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک طرف تو دوسروں کی بربادی کی خواہش ہو اور دوسری طرف اس خدا کی تعریف بھی ہو رہی ہو جو اُن سب کا ربّ ہے۔ ان کو پالنے والا ہے۔ ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔
پس یا تو شدت پسندوں کو اللہ تعالیٰ کے اس حسن کا ادراک نہیں یا جان بوجھ کر اس کی نفی کرتے ہیں۔ منہ سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہنا اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جبتک دل سے اس کو قبول کرتے ہوئے تمام دنیا کو امن و سلامتی مہیا نہ کی جائے۔ تمام دنیا کے لئے نیک جذبات کا اظہار نہ ہو۔ اس محبت سلامتی اور امن کا ادراک اس وقت اور بھی بڑھ کر ہوتا ہے جب ہم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کو رحمۃٌ للعالَمین کے حسین اُسوہ سے جوڑتے ہیں۔
یہ چند مثالیں میں نے قرآنی تعلیم کی دی ہیں۔ امن و سلامتی کی تعلیم سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ یہ تعلیم ان لوگوں کا منہ بند کرتی ہے جو اسلام پر الزام لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو آئینہ دکھاتی ہے جو اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجز اِس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُرجوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بنا دیں اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 7)
آج ہم بھی دیکھتے ہیں کس وجہ سے معصوموں کی جانیں لی جاتی ہیں۔ پھر صرف غیر مسلموں کی نہیں بلکہ جہاد کے نام پر خود مسلمان، مسلمان کی جانیں لے رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ دنوں پشاور کے سکول میں بہیمانہ طریق پر بچوں کا قتل تھا، ان کا خون بہانا تھا، ان کو شہید کرنا تھا اور ان جھوٹے لوگوں کا یہ ظلم اَور بھی بڑھ جاتا ہیجب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو جہاد کے نام پر ایک تنظیم اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ کیا لیکن پھرپاکستان کے ایک ٹی وی پروگرام میں کچھ علماء جو آپس میں بیٹھ کر اس کا تجزیہ کر رہے تھے وہ صرف اس لئے کہ ان دہشتگردوں کو بچائیں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ ان کے وظیفہ خوار ہوں۔ کہنے لگے کہ یہ سب کچھ دہشتگردی جو ہے کوئی مسلمان نہیں کر سکتا، یہ یقینا قادیانیوں نے کی ہے۔ یہ ان کے حال ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اِس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ اِن مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے برخلاف ہو اس کا نام دجّال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ مَیں بھی مُدّت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں… مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے۔
یہ خیال اُن کا ہرگز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مَردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا‘‘ (ان پر تلوار اٹھائی تھی) ’’اور ایسے درد انگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصّوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تاہم اس زمانہ میں وہ حُکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اس کی دعا اس کا حربہ ہو گااور اس کی عَقدِ ہمت اُس کی تلوار ہو گی۔ وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا۔ اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہو گا۔ ہائے افسوس! کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سوبرس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمہ یَضَعُ الْحَرب جاری ہو چکا ہے…۔
اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے۔ خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو۔ مسیح موعود جو آنے والا تھا آ چکا۔ اور اس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آ جاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے منہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے۔ جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے منہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الٰہی جانے گا۔‘‘
فرمایا ’’غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شاید اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آ گیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا۔ اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں۔ جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کاربند ہو رہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفسِ امّارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں‘‘۔
فرماتے ہیں کہ ’’جاہل مولویوں نے، خدا اُن کو ہدایت دے، عوام کالانعام کو بڑے دھوکے دئیے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے۔ کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے۔ کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکّہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ۔ پس وہ اس حکم کو پاکر شیرخوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے، نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت… افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ رُوشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوںکو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا۔ یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے…۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 7۔13) اور یہی کچھ آجکل پاکستان میں ہو رہا ہے۔
پس زمانے کے امام نے آ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں حقیقی اسلام کی تعلیم ہمیں بتائی ہے وہ تعلیم جس سے دنیا کا امن قائم ہونا ہے۔ مسلمانوں کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیج کر اس زمانے میں اسلام کے ذریعے دنیا کے لئے امن و سلامتی کا انتظام کر دیا ہے لیکن ان نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اسلام جیسے خوبصورت نام جس کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے یہ لوگ اسے بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ لیکن ہم جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے ہمارا کام ہے کہ اسلام کی خدمت کا حق ادا کرتے ہوئے آج یہ عہد کرتے ہوئے اٹھیں کہ ہم نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا نمونہ بننا ہے۔ ہر سطح پر محبت، پیار، بھائی چارے، سلامتی اور امن کے پیغام کو پہنچانا ہے۔ دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم کے بارے میں بتانا ہے۔ دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے اور ربّ العالمین کا ادراک دنیا کو دیتے ہوئے انسانیت کو محبت، پیار اور بھائی چارے کے اسلوب سکھانے ہیں۔ محبتوں کو بکھیرنا ہے اور نفرتوں کو دور کرنا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اس وقت مسیح محمدی کی بستی میں بیٹھے ہیں، جلسہ سن رہے ہیں، دور دراز سے وہاں جلسہ سننے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ ان کو اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع کے کام کی تکمیل کے لئے کس طرح اپنے رات دن بسر کئے ہیں اور اب یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ پس اس کے بارے میں سوچیں، غور کریں اور اپنی حالتوں کو بدلیں اور عہد کریں کہ ہم نے یہ ذمہ داری نبھانی ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب ہم دعا کریں گے، دعا میں اس بات کو بھی سامنے رکھیں کہ خدا تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور اپنے مفادات کے لئے ہر قوم جس تباہی کی طرف جا رہی ہے اس سے یہ لوگ بچ جائیں۔ دنیا کے حالات بہت خوفناک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو دنیا کو اس تباہی سے بچا سکتا ہے اور اس کے لئے احمدیوں کو بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جماعت کی ترقی کے لئے بھی دعا کریں۔ جماعت کی ترقی بھی دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنا یہ حق ادا کرنے والے ہوں۔ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ خیریت سے جلسہ پر آئے ہوئے سب لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں لے جائے۔ خاص طور پر قادیان کے جلسے میں مختلف ممالک کے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے احمدی بھی ہیں جن کے لئے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے لے جائے اور خیریت سے رکھے۔
عرب ممالک میں بھی ہمارے احمدی بعض جگہوں پر بڑی مشکلات میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔ افریقہ میں بھی جو ایبولا(Ebola) کی بیماری پھیلی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی دُور کرنے کے سامان پیدا فرمائے اور ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ مسلم ممالک کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیڈروں کو بھی عقل دے اور عوام الناس کو بھی۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے نام پر ظلم کرنے والے ہر طبقے اور ہر گروہ کا خاتمہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ نیا سال جو انشاء اللہ تین دن بعد چڑھنے والا ہے ہمارے لئے انتہائی خوشیوں اور برکتوں کا سال بن کر آئے۔
اب دعا کر لیں۔
