خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ یوکے 19اکتوبر 2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ کہ انصار اللہ یوکے کا اجتماع جو تین دن پہلے شروع ہوا تھا آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ہر سال یہاں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی انصار اللہ کا اجتماع ہوتا ہے۔ انصار کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور اجتماع کے پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ انصار اللہ کا مطلب کیا ہے اور ہماری  ذمہ داریاں کیا ہیں؟

               انصار جیسا کہ آپ جانتے ہیں ناصر کی جمع ہے یعنی ’’مددگار‘‘ ۔اور انصار اللہ کا مطلب ہوا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے مددگاروں کی جماعت‘‘۔ انصار کی عمر تنظیمی لحاظ سے 40 سا ل کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ ویسے تو ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آتا ہے چاہے وہ اس سے چھوٹی عمر کا ہو، مرد ہو یا عورت ہو، اپنے آپ کو عہدِ بیعت کا پابند کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانے والا ہونا چاہئے لیکن انصار اللہ کی عمر 40 سال سے شروع ہوتی ہے جو ایک ایسی عمر ہے جو پختہ سوچ اور تمام تر صلاحیتوں کے عروج کی عمر ہے اور پھر ان کی تنظیم کا نام بھی انصار اللہ ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ کیا صرف انصار اللہ کہلانا ہمیں ہمارے فرائض کو پورا کرنے والا بنا دیتا ہے؟

               ایک بات ہمیں ہر وقت یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مدد کا محتاج نہیں۔ پرسوں ہی مَیں نے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اگر وہ چاہے تو دین کی خدمت لینے والوں کو براہ راست بھی وسائل مہیا کر سکتا ہے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور ان کے کاموں کو آسان بھی کر سکتا ہے۔ قرآن شریف سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کو تسلی دلاتا ہے کہ مَیں تمہارا مددگار ہوں۔ یا کافر جب اپنی کثرت کی وجہ سے نبی کو ڈراتے ہیں، ان کی جماعت کو ڈراتے ہیں تو نبی کا جواب یہی ہوتا ہے کہ تم مجھے اپنے میں واپس لوٹنے کی باتیں تو کرتے ہو لیکن کیا میرے ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچانے میں تم یا کوئی اور میری مدد کر سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ لیکن انبیاء کے سلسلے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو موقع دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اگر تم کوئی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اتنا نوازتا ہے کہ عام انسانوں کو جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ہم معمولی انسان ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے مددگاروں میں شمار کر لیتا ہے۔ پس اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا جو سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شروع فرمایا ہے اور ہمیں اس میں شامل ہونے کی توفیق دی ہے اور پھر ہمیں ایک پختہ سوچ کی عمر تک بھی پہنچایا ہے تو ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ بیشک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات اور نصرت سے شروع فرمایا ہے اور تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھا بھی رہا ہے لیکن ہم سے بھی مطالبہ ہے کہ اس سلسلہ کی غرض و غایت پر نظر رکھیں اور جہاں دنیا کو ان اغراض سے آگاہ کریں، خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا دنیا میں اعلان کر کے اسے اس طرف بلائیں، اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور خاتم الرسل ہونے کا ادراک مسلمانوں اور غیر مسلموں میں پیدا کریں وہاں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک توحید ہم میں راسخ ہے اور ہم تسبیح و تحمید کی طرف توجہ کرتے ہیں؟ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر ہم کتنا عمل کر رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق    کس حد تک ہمیں درود بھیجنے کی طرف مائل رکھتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنانے کی طرف ہم توجہ دیتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟

                اس وقت مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ ارشادات رکھوں گا جو آپ نے اپنے سلسلہ کے قیام کی اغراض کے بارے میں فرمائے۔ اور یہ ارشادات ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچ بنا لیں کہ ہر نصیحت یا ہر حالت کا نقشہ جو نیکوں اور بدوں کا کھینچا جاتا ہے وہ ہماری حالتوں کے جائزے لینے والا اور اصلاح کرنے والا ہونا چاہئے تو ہماری حقیقی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ہم حقیقی رنگ میں انصار اللہ کہلا سکتے ہیں۔ ہم حقیقی رنگ میں دوسروں کی تربیت کرنے والے بن سکتے ہیں۔ بہر حال اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا میں چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

               ’’بدی ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور دل بے اختیار ہو ہو کر قابو سے نکل جاتا ہے خواہ کوئی یہ کہے کہ شیطان حملہ کرتا ہے خواہ کسی اور طرز پر اس کو بیان کیا جاوے یہ ماننا پڑے گا کہ آج کل بدی کا زور ہے اور شیطان اپنی حکومت اور سلطنت کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ بدکاری اور بے حیائی کے دریا کا بند ٹوٹ پڑا ہے اور وہ اطراف میں طوفانی رنگ میں جوش زن ہے۔ پس کس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر مصیبت او رمشکل کے وقت انسان کا دستگیر ہوتا ہے اِس وقت اُسے ہر بلا سے نجات دے۔ چنانچہ اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ17۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان )

               اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کو، ان بندوں کو جن کو وہ نجات دینا چاہتا ہے، شیطان سے نجات دلوانے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ انصار کی ایک پختہ عمر ہوتی ہے تو ہمیں خود ہی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہر قسم کی برائیوں سے بچ کر ہم سلسلہ کے قیام کی غرض کو پورا کرنے والے ہیں؟

               پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لئے یہ سلسلہ قائم ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ :

               ’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں۔ ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہی۔ (اگر ایک شخص کے بہت سارے محبوب ہوں تو خصوصیت تو کوئی نہ رہی۔ فرمایا)تو پھر اگر یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہیں ۔‘‘ جیسا کہ مسلمان عام طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں ’’تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقا ہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں‘‘۔ (عام مسلمانوں میں دیکھ لیں یہی طریقہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ )’’مدینہ طیبّہ تو جاتے نہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پائوں جاتے ہیں۔ پاک پٹن کی کھڑ کی میں سے گذر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے۔ کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھاہے۔ اگرخدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِالْاِسْلَامُ۔(آل عمران:20)  خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدۂ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوّت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھادے۔چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامُور اور مَہدی بنا کر بھیجا۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ65۔ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ )

               پس یہ ان اغراض میں سے ایک بہت بڑی غرض ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور یہ سلسلہ قائم ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و عزت کا قیام تبھی ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو حقیقی رنگ میں اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ عبادتوں کے معیار ہیں۔ دوسروں کے حقوق ہیں۔ ان باتوں کا مختلف اوقات میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔ یاددہانیاں بھی آپ کو کروائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ پس پہلا کام تو ہمارا یہ ہے کہ ان باتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر دنیا کو دکھائیں۔ اور یہی چیز ہے جو دنیا کو بتائے گی کہ اس نبی کے نمونے پر چلنے کی جو ہم بھرپور کوشش کرتے ہیں اور خاص لگن اور شوق سے کوشش کرتے ہیں یہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ثبوت ہے۔

               پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مٹ جاتا مگر چونکہ اس نے وعدہ کیا ہوا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) یہ وعدۂ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارتگری کا موقعہ ہو تو وہ خبر لے۔ چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں۔ اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں۔ اسی طرح آج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے اس لیے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاجِ نبوّت قائم کرے۔ یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخر اب پھوٹ نکلے۔ جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کرنکلتا ہے۔ اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اور قوت میںہے۔ اس لیے اس کو تباہ کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا، دُور کرنے کے لیے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور مَیں بڑے دعوے اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لیے اس نے ظاہر کی ہیں دکھا دیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ92-93۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان )

               پس بیشک اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم کردہ اس سلسلے کے ساتھ ہیں اور سلسلہ کی ہر روز جو ترقی ہو رہی ہے اس پر گواہ ہیں۔ لیکن ہمیں بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور جلال کے لئے اور اسلام کی تعلیم کے پھیلانے کے لئے ہمارا کیا کردار ہے؟

                اس بارے میں فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی سچی محبت قائم کی جاوے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور  بنی نوع انسان اور اِخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔ خدا تعالیٰ کی محبت کی بابت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔( کہتے ہیں جی ہمارے دل میں ہے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے) لیکن بعض اشیاء بعض سے پہچانی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک درخت کے نیچے پھل ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے اوپر بھی ہوں گے۔ لیکن اگر نیچے کچھ بھی نہیں تو اوپر کی بابت کب یقین ہو سکتا ہے؟ اسی طرح پر بنی نوع انسان اور اپنے اِخوان کے ساتھ جو یگانگت اور محبت کا رنگ ہو اور وہ اس اعتدال پر ہو جو خدا نے قائم کیا ہے تو اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی محبت ہو‘‘۔ یہ خاص سمجھنے والی بات ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور یگانگت کا تعلق جس طرح خدا نے فرمایا ہے اس طرح ہو تو فرمایا تو اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خدا کے ساتھ بھی محبت ہے۔ورنہ یہ تو پتا نہیں کہ اللہ کے ساتھ محبت ہے کہ نہیں۔ اس کا اظہار اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت سے ہی ملتا ہے۔یہ بھی اس کا ایک ذریعہ ہے۔ فرماتے ہیں: ’’پس بنی نوع کے حقوق کی نگہداشت اور اِخوان کے ساتھ تعلقات بشارت دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت کا رنگ بھی ضرور ہے۔ دیکھو دنیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مرنے والے ہیں۔ ‘‘بعض لوگوں کو جو بڑے ہو جاتے ہیں اور بڑی عمر کے انصار ہیں، انصار اللہ کی عمر میں داخل ہوتے ہی یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اب ہم ایسی عمر میں جا رہے ہیں جہاں ہماری عمریں گھٹتی جا رہی ہیں۔ فرمایا : ’’دیکھو دنیا چندروزہ ہے اور آگے پیچھے سب مرنے والے ہیں۔ قبریں منہ کھولے ہوئے آوازیں مار رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نوبت پر جا داخل ہوتا ہے۔ عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی؟ اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکّی بات ہے کہ وہ یقینی ہے، ٹلنے والی نہیں تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اُس کے لئے تیار رہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(آل عمران:103) ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ95-96۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

                جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔پس عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ان ہر دو قسم کے حقوق کی ادائیگی کی طرف ہمیں توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

               پھر جماعت کو مزید نصیحت فرماتے ہوئے کہ ہمیں کیسا ہونا چاہئے ؟آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کئے ہیں اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آ جاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْمیں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔   فیج اعوج (یعنی ٹیڑھی فوج) کے دشمن ہوں۔ اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں۔ ایک قرون ثلاثہ۔ اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیاکہ لَیْسُوْا مِنِّیْ وَ لَسْتُ مِنْھُمْ۔ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ مَیں ان میں سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے مُلحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ فیج اَعوج کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت سی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے۔معدودے چند کے سوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘  اسلام کی بدنامی کا ایک دَور اب آ رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کو لوگ چھوڑے بیٹھے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان علماء کی وہ جھوٹی تعلیمیں اور تفسیریں ہیں جن کے پیچھے چل کے وہ زمانے کے امام کو نہیں مان رہے اور چھوڑ رہے ہیں۔گو دُور ہٹنے کا طریق بدل گیا لیکن  اب بھی اسلام سے دُور ہٹایا جا رہا ہے۔ جو قریب ہو رہے ہیں وہ بھی اصل میں اسلام کی تعلیم سے دور ہو رہے ہیں۔

                فرماتے ہیں: ’’ہم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو مگر وہ ابدال اور اولیاء اللہ جو اس درمیانی زمانہ میں گزرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراط مستقیم سے بھٹک کر اسلام سے دُور جا پڑے تھے کچھ بھی چیز نہ تھے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فیج اَعوج رکھ دیا۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک اَور گروہِ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گروہ کہلائے۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لئے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور کَزَرْعٍ (کھیتی کی طرح) ہو گی اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دُور ہیں۔ وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔‘‘ لوگ جماعت کی ترقی کے بارے میں باتیں کہتے ہیں۔ تو سب سے زیادہ بڑی ذمہ داری تو جماعت کے اس حصے کی ہے جو انصار اللہ کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں، جو بلوغت کے اعلیٰ معیاروں کو پہنچے ہوئے ہیں جن کی سوچیں بھی بالغ ہو چکی ہیں۔ فرمایا کہ : ’’جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔ توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو۔ تبتّل الیٰ اللہ ایک خاص رنگ کا ہو۔ ذکر الٰہی میں خاص رنگ ہو۔ حقوق اِخوان میں خاص رنگ ہو۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ94-95۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس یہ وہ خصوصیات ہیں جو ہمیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر قرآن کریم کے احسانات اور ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’پس یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو اُن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ  اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا ھُوَ بِالْھَزْلِ(الطارق:14۔15)۔ وہ میزان، مہیمن، نور اور شفا اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصّہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بے حرمتی کی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے دکھا نا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصّے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے۔ اس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض مَیں بار باراس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا۔ اور مَیں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامورکیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘ (ملفوظات جلدسوم صفحہ155۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

               ہماری رپورٹس میں ذکر ہوتا ہے اور صدر صاحب بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ کوشش ہو رہی ہے اور وہ کوشش ہو رہی ہے اتنا ہمارا ٹارگٹ ہے۔ اتنے لوگ قرآن شریف باقاعدہ پڑھتے ہیں لیکن یہ ٹارگٹ کوئی ٹارگٹ نہیں جب تک ہم انصار میں سے  کم از کم سو فیصد انصار باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، اسے سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے نہ بن جائیں۔ یہ انصار کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہی نمونے ہیں جو پھر بچوں کی تربیت پر بھی اثر انداز ہوں گے اور یہ قائم کر کے آپ ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

                ایک جگہ آپ یہ فرماتے ہوئے کہ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

               ’’انہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے۔ خون تک کے مقدمے بنوائے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر)’’مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں ہوتی ہیں وہ ضائع نہیں ہو سکتیں۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے اب تک اس کو نیست و نابود کر چکے ہوتے۔ انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے۔ پس جس قدر تم اپنی قوت یقین کو بڑھائو گے اسی قدر دل روشن ہوگا۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ257۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

               اور قوت یقین اسی وقت بڑھتی ہے جب عملی طور پر دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ پس ہم دیکھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا اللہ تعالیٰ کی تائیدات تو دنیا کو احمدیت سے متعارف کرانے کے لئے بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہماری کوششیں اس میں کوئی نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کے دل کھول رہا ہے۔ کس طرح لوگوں کے رخ پھیر رہا ہے۔ انہیں ایمان اور یقین میں کس طرح بڑھا رہا ہے۔ اس کے بعض واقعات مَیں پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے پھر ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ فرمایا کہ:

               ’’قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا  عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر (البقرۃ: 21)ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو۔قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نمازوں کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔… نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ258-257۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس ہمیں یہ تمام باتیں اپنے سامنے رکھنی چاہئیں کہ ہم اپنی بیعت کا بھی حق ادا کر سکیں اور اپنی تنظیم کے نام کی لاج بھی رکھ سکیں ورنہ جیسا کہ میں نے کہا سلسلے کی ترقی کے وعدے ہیں اور یہ پورے ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ کوئی انسانی ہاتھ اس ترقی میں روک نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اگر ہم اس کے دین کی اشاعت کے لئے معمولی کوشش کریں تو وہ ہمیں نوازتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمام مخالفت کے باوجود یہ ترقی ہوتی ہے اور ہو گی کیونکہ یہ انسانی سلسلہ نہیں ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا یہ ترقی ہو رہی ہے۔ اور کس طرح ہو رہی ہے؟ اس کے واقعات جیسا کہ مَیں نے کہا بیان کرتا ہوں۔

               کانگو کے جلسہ سالانہ میں ایک نوجوان آیا۔ اس نے کہا کہ میں پچھلے پانچ سال سے جماعت پر تحقیق کر رہا تھا۔ میں خاموشی سے جماعت کے پروگراموں میں  شرکت کرتا رہا اور کسی پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن جماعت کی سرگرمیوں اور تعلیمات کا مشاہدہ کرتا رہا اور جائزہ لیتا رہا۔ جب تسلی ہو گئی تو ابھی اسی سال مَیں نے بیعت کر لی ہے۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سچائی پر قائم ہے۔ اب یہ کس نے اس نوجوان کے دل میں ڈالا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی ہے اور یہ ایک دو واقعات نہیں ہیں بیشمار ایسے واقعات ہیں۔

                یوکے کا جو جلسہ سالانہ ہوا اس(کے بارہ) میں بھی یہاں کی ایک انگریز خاتون ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ بڑے عرصے سے تحقیق کر رہی تھی لیکن  یہاںجلسے کا ماحول دیکھ کے توجہ پیدا ہوئی اور بیعت کر لی۔

               پھر غانا سے ہمارے یوسف ایڈو سئی صاحب ہیں جو نیشنل سیکرٹری تبلیغ ہیںیہ اللہ تعالیٰ کی تائید کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تائیدات فرماتا ہے اور پھر لوگوں کے دلوں کو احمدیت کی طرف پھیرتا ہے اور احمدیت کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔ کہتے ہیں لمبوناؔ کے مقام پر ہمارے ایک داعی الی اللہ، عبداللہ صاحب سے دوران تبلیغ بارش کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا گیا۔ جس پر انہوں نے اعلان کیا کہ کیونکہ وہ امام مہدی کے پیغام کو پہنچانے کے لئے تبلیغ کر رہے ہیں اس لئے ان کی دعا قبول ہو گی۔ یہ یقین بھی دور دراز علاقوں کے ان لوگوں میں پیدا ہو چکا ہے جو احمدی ہوئے اور انہوں نے صحیح رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو سمجھا۔ بہر حال کہتے ہیں انہوں نے دعا کی اور کہا کہ اب ضرور بارش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی رات ایک بجے اس علاقے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور قبولیت دعا کے اس نشان کو دیکھتے ہوئے اس علاقے سے ایک بڑی تعداد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ تو یہ تھوڑے تھوڑے اور چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں لیکن    اللہ تعالیٰ جب تبلیغ کرنے والوں کے دلوں میں بھی یقین پیدا کر دیتا ہے اور ان کے عمل بھی ایسے ہوں تو پھر اس کے نتائج بھی بے انتہا عظیم نکلتے ہیں۔

               پھر یورپ میں آئے ہوئے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح احمدیت کی سچائی کا بتایا۔ ہمارے کوسووو کے ایک مبلغ صمد صاحب ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایک مخلص نوجوان فالتون صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔ فالتون مصطفی نام ہے۔ مصطفی صاحب چند مہینوں سے زیر تبلیغ تھے۔ کیمسٹری اور بیالوجی میں گریجویشن کر رہے تھے۔ ایک تبلیغی نشست کے دوران انہوں نے اپنا ایک روحانی تجربہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک رات وہ ہر روز کی طرح اپنے موبائل میں صبح جلدی اٹھنے کے لئے الارم لگا کر سو گئے۔ صبح جب الارم بجا تو موصوف نے الارم بند کر کے اٹھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اچانک ان کے کانوں میں ایک آواز سنائی دی کہ احمدیت سے دُور مت ہونا۔ یہ سنتے ہی فوراً اٹھ بیٹھے اور اس پیغام نے ان کے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ اسی ہفتے بروز جمعہ باقاعدہ بیعت فارم پُر کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہو گئے۔

               تو یہ نمونے اللہ تعالیٰ یہ بتانے کے لئے دکھاتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ہر ایک کے دل کو اس طرف مائل کر سکتا ہے۔ یہ تمہارا کوئی کمال نہیں ہے کہ تم تبلیغ کرو تو پھر ہی احمدیت پھیلے گی۔جو دین نشانات کے ذریعہ سے پھیلتا ہے وہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ پس ایک تو جہاں ہمیں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں غیر معمولی نشانات بھی دکھائے۔

               یوسف عثمان کمبالایا صاحب جو سونگیا تنزانیہ کے ریجنل مبلغ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سونگیا ریجن میں ایک جماعت ہے وہاں تین لوگ خاکسار کے زیر تبلیغ تھے اور ان کے ساتھ کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن وہ مشن ہاؤس آئے اور دوران گفتگو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی اور کہا کہ یہ کسی جھوٹے شخص کی تصویر نہیں ہو سکتی۔ یقینا یہ ایک سچا نبی ہے۔ انہوں نے اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کو ایمان میں بڑھایا حتی کہ اب وہ جماعت احمدیہ کے پیغام کو آگے پھیلا رہے ہیں اور تبلیغ کر رہے ہیں۔ غیر از جماعت علماء کی کوششیں ہر جگہ ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی اپنا کام کر رہی ہے اور کوششیں ناکام و نامراد ہو رہی ہیں۔

                اصغر علی بھٹی صاحب ہمارے نائیجر کے مبلغ ہیں، کہتے ہیں کہ دسمبر 2013ء کے شروع میں ہم نے ایک گاؤں سوا سامعا(Sawa Samea) میں تبلیغ کی اور اس کے بعد وہاں سے آٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد کو مشن ہاؤس بلا کر مزید دو دن جماعت کا تفصیلی تعارف کروایا۔ اسی دوران جلسہ سالانہ نائیجر آ گیا۔ اس میں بھی ان کو شمولیت کی دعوت دی۔ جب اس گاؤں کا وفد اپنے امام کے ساتھ جلسہ میں شمولیت کے لئے کیپیٹل نیامی پہنچا جو اُن کا شہر ہے تو اسی گاؤں کی ایک فیملی جو پڑھ لکھ جانے اور جاب ملنے کی وجہ سے نیامی میں رہتی ہے اور وہابی بن چکی ہے ان کو پتا چل گیا۔ وہ رات کو آ کر اس وفد کو اپنے گھر دعوت کے بہانے لے گئے جہاں انہوں نے اپنے بڑے امام صاحب کو بلوایا ہوا تھا۔ یہاں اس امام نے پورا زور لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ احمدی تو کافر ہیں اور آپ کہاں پھنس گئے ہیں۔ فوراً توبہ کریں اور وہابی بن جائیں۔ ہم آپ کو مسجد بھی دلائیں گے۔ امام صاحب نے واپس مارادی مشن ہاؤس آ کر اس ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے وہابیوں کے امام صاحب کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس مخالفانہ تقریر کے بعد جماعت کی سچائی کے بارے میں پہلے اگر مجھے کوئی شک تھا تو وہ بھی آج دُور ہو گیا ہے۔ کیونکہ جب سے یہاں آیا ہوں آپ کو گالی دیتے سنا ہے اور مَیں جب تک وہاں جلسہ گاہ میں رہا احمدیوں کو قرآن سناتے سنا اور میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر ساری دنیا کے مسلمان احمدی ہو جائیں یا کم ازکم احمدیوں جیسے ہو جائیں تو دنیا میں فوری امن آ جائے گا۔ وہابی مولوی صاحب نے فوراً پینترا بدلا اور کہنے لگے کہ اچھا اگر احمدیت نہیں چھوڑنی تو نہ چھوڑو لیکن گاؤں والوں کو میرا یہ پیغام تو پہنچا دو۔ وہ کہتے ہیں واپس گاؤں جا کر مَیں نے حسب وعدہ وہابی مولوی کا پیغام پہنچا دیا کہ ٹھیک ہے پہنچا دیتا ہوں۔ گاؤں والوںکو یہ پیغام دیا تو ان سب کا یہ جواب تھا کہ ہمیں صرف احمدیت چاہئے۔ سبھی نے اس مخالفانہ پیغام کو ردّ کر دیا۔ اب یہ گاؤں پورے کا پورا احمدیت قبول کر چکا ہے اور باقاعدہ جماعت قائم ہو چکی ہے۔ اب یہاں سے ایک دوسرے ملک چلتے ہیں۔ یورپ کے بھی اور افریقہ کے بھی مختلف ملکوں کے واقعات میں نے آپ کو بیان کئے ہیں۔

 افریقہ کا ایک ملک ہے گیمبیا۔ یہاں کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری تبلیغی ٹیم نے نیامیناؔ ایسٹ(Niamina East) ڈسٹرکٹ کے گاؤں مَامُت فانا (Mamut Fana)کا کئی بار دورہ کیا اور گاؤں کے 150گھروں میں سے 96گھروں نے احمدیت قبول کر لی۔ بیعت کرنے والوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے۔ یہ گاؤں اور ارد گرد کا علاقہ تیجانی فرقے کا گڑھ ہے۔ لوگوں کے احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے مخالفین بے چین ہو گئے اور غیر احمدیوں کے بعض سرکردہ افراد اور گیمبیا میں ایک اسلامی تنظیم کے افراد اور بعض علماء جو سینیگال سے بلائے گئے تھے ان سب نے مذکورہ گاؤں کا دورہ کیا اور گاؤں الکالی اور بعض اہم افراد سے ملے تا کہ احمدیت کی تبلیغ کو روکا جائے اور جو احمدی ہو گئے ہیں انہیں واپس لایا جا سکے۔ یہ گروپ مذکورہ گاؤں کے علاوہ ارد گرد کے دیہات میں بھی اور بالخصوص نومبائعین کے پاس گیا جنہوں نے حال ہی میں احمدیت قبول کی تھی۔ اس وفد نے پہلے اپنا تعارف کروایا اور پھر کہا کہ وہ یہ بتانے کے لئے آئے ہیں کہ احمدی کافر ہیں۔ اس لئے کوئی بھی ان کے پیچھے نہ چلے۔ ان پر پاکستان میں پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ کسی قسم کی کوئی اسلامی سرگرمی نہیں کر سکتے اور ان کے لیڈر پر پاکستان جانے پر بھی پابندی ہے اور اب وہ انگلینڈ میں ہے اور احمدی بالکل عیسائیوں کی طرح ہیں اس لئے گاؤں والوں کو انہیں قبول نہیں کرنا چاہئے۔ اس پر نومبائعین نے جواب دیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم احمدی مسلمان ہیں اور اگر انہیں قتل بھی کر دیا جائے تو وہ احمدی ہی رہیں گے۔ پھر کہا کہ احمدی مسلمان جو اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں وہی دراصل سچا اسلام ہے اور زمانے کے امام کو شناخت کرنا ہی اصل نیکی اور سعادتمندی ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ فروری 2014ء تا جون 2014ء مذکورہ دو گاؤں میں دو ہزار سے زیادہ نومبائعین ہیں۔ سب احمدی ہیں۔ سعودی عرب کے تربیت یافتہ علماء فسادات کی جڑ ہیں اور احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ یہ لوگ اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

 تو یہ وہ نومبائعین ہیں جن کی ابھی احمدیت اتنی پرانی بھی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اتنا مضبوط کر دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں ایسے نشان دکھائے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ پس اگر اللہ چاہے تو تمام دنیا کے دل پھیر سکتا ہے لیکن اس نے ہمارے ذمّہ یہ کام لگایا ہے کہ تم بھی اپنی حالتوں کو بدلو۔ اپنے عملوں کو بدلو۔ اپنی تبلیغ کے ساتھ اپنے نمونوں کو اس طرح بناؤ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اُسوہ قائم فرمایا ہے تا کہ تمہاری کوششوں کو پھل بھی لگیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی تم جزا پانے والے ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’یقینا یاد رکھو۔ یہ سلسلہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو دنیا میں نصرانیت پھیل جاتی اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی توحید قائم نہ رہتی یا یہ مسلمان ہوتے جو اپنے ناپاک اور جھوٹے عقیدوں کے ساتھ نصرانیت کو مدد دیتے ہیں اور ان کے معبود اور خدا بنائے ہوئے مسیح کے لئے میدان خالی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب کسی ہاتھ اور طاقت سے نابود نہ ہو گا۔ یہ ضرور بڑھے گا اور پھولے گا اور خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور فضل اس پر ہوں گے۔ جب ہمیں خدا کے زندہ اور مبارک وعدے ہر روز ملتے ہیں اور وہ تسلی دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری دعوت زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ پھر ہم کسی کی تحقیر اور گالی گلوچ پر کیوں مضطرب ہوں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 284۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس یہ تو الٰہی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم نے غالب آنا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری دین کو جو کامل اور مکمل دین ہے جو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے بے یارومددگار چھوڑ دے یا اس کو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دے جو اس کی اصل تعلیم کو بھلا کر اس کا سب کچھ بگاڑنے والے ہوں۔ اس میں بدعات اور خرابیاں پیدا ہو جائیں۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ سے غلبہ کے سامان فرمائے ہیں۔ پس یہ ہماری ذمہ داری ہے، خاص طور پر انصار اللہ کی، کہ اپنی حالتوں کو دین اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھال کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے توحید کے قیام کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں کو استعمال کریں اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کی حکومت اپنے دلوں پر قائم کریں۔ اور یہ نمونے پھر اپنی نسلوں کے لئے پیش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے حقیقی انصار بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں