خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے31؍اگست2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مذہب پر اعتراض کرنے والے اپنے آپ کو صرف مذہب پر اعتراض کی حد تک محدود نہیں رکھتے بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات پر بھی اعتراض کرتے ہیں ۔ اس زمانے میں یہ اعتراض پہلے سے بہت زیادہ شدت سے کیا جاتا ہے۔ اس پر بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور کتابیں لکھی جاتی ہیںاور لکھی جا رہی ہیں۔ پھر آجکل تو اپنی بات پہنچانے کا کام الیکٹرانک سہولیات کے ذریعے سے اور بھی آسان ہو گیا ہے جس کی وجہ سے جو بات لوگوں تک پہنچنے میں ایک عرصہ لیتی تھی اور وہ بھی چند پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچتی تھی اب ہر ایک تک الیکٹرانک سہولیات اور میڈیا کے ذریعے سے پہنچ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کی بہت بڑی تعداد مذہب سے دُور ہٹ گئی ہے۔بہت سے لوگ جو مذاہب کو ماننے والے ہیں تو مذہب سے اس لئے بھی دُور ہوئے کہ ان کے خیال میں مذہب اب صرف قصے کہانیاں رہ گیا ہے اور آجکل کی مادی اور ترقی یافتہ دنیا میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہر بندے سے تعلق قائم رکھنے والے خدا کا ان میں تصور ہے۔ نہ یہ لوگ مذہب کو آجکل کے علم سے مطابقت رکھنے والا سمجھتے ہیں۔
پس یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ اپنے آپ کو مذہب سے کیونکر جوڑیں اور اس وجہ سے وہ خدا کے وجود کے انکاری ہیں اور مذہب کو فرسودہ چیز سمجھنے والے ہیں۔ اور مذہبی لیڈروں کے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنے پیچھے چلانے کا ذریعہ بنانے والے جو لوگ ہیں۔یا یہ جو اپنے پیچھے لوگوں کو چلانے والے نام نہاد مذہبی لیڈر ہیں ان کے رویے دیکھ کر ان مذہب کے مخالفین کو، خدا تعالیٰ کی ذات کے مخالفین کو مذہب کے خلاف مزید بھڑکانے کا موقع مل جاتا ہے کہ مذہب تمہیں کیا دیتا ہے۔ بلکہ ان اعتراض کرنے والوں نے انبیاء کو بھی نہیں چھوڑاکہ وہ بھی نعوذ باللہ صرف اپنے مفادات کی خاطر اَن پڑھ لوگوں کو اپنے پیچھے چلاتے رہے اور اب کی ترقی یافتہ دنیا میں ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ایسے پڑھے لکھے لوگ جن کو مذہب سے دلچسپی ہے یا روایتی تعلق ہے اور جس حد تک یہ روایتی تعلق ہو سکتا ہے یعنی اسلام کے علاوہ جو اُن کے مذہب کی موجودہ صورتحال ہے اس کے مطابق وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ مذہب اپنی جگہ لیکن آج کی سائنسی ترقی کے دَور کا مذہب میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
گزشتہ سال آسٹریلیا کے سفر میں مجھے وہاں کے ایک سیاستدان سے ملنے کا موقع ملا تو باتوں میں کہنے لگے کہ مَیں عیسائی ہوں، چرچ بھی جاتا ہوں، مذہب کو ضروری بھی سمجھتا ہوں لیکن مذہب اور موجودہ ترقی اور سائنس کا کوئی تعلق نہیں۔ بائبل میں تو اس کا کوئی ذکر نہیں۔ مذہب اور سائنس کو علیحدہ رکھ کر ہی ہم اپنا مذہب بچا سکتے ہیں۔ تو مَیں نے انہیں بتایا کہ میرا مذہب اور جو کتاب مسلمانوں کے لئے ہے وہ تو ہمیں سائنس کے بارے میں اور موجودہ ترقیات کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔ بہر حال یہ تو وہ مذاہب ہیں جو تمام چیزوں اور باتوں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتے اس لئے ان کی یہ سوچ ہے۔
لیکن حیرت ہوتی ہے ان مسلمانوں پر بھی جن پر وہ کامل شریعت اتری جس نے ہر بات کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ بھی مذہب اور ترقی کو علیحدہ چیزیں قرار دینے لگ گئے ہیں۔ یہ احمدی ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت کبھی معطل نہیں ہوئی۔ جہاں قرآن میں سابقہ باتوں کا ذکر آتا ہے وہاں قرآن میں موجودہ زمانے کی سائنس کی ترقی کا بھی ذکر آتا ہے۔ وہاں قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے۔ وہ اب بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا وہ اب بھی سنتا ہے جیسے پہلے سنتا تھا اور اس نے اسلام کو اس زمانے میں بھی بے آسرا نہیں چھوڑا اور مسیح موعود کو بھیج کر اس زمانے میں بھی خدا تعالیٰ کی ذات کو، مذہب کو، شریعت کو کھول کر دکھا دیا۔
پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور مذہب کی حقیقت کو جانا ہے۔ ہمیں معترضین کے یہ اعتراض کبھی فکر میں نہیں ڈالتے کہ مذہب تعلیم اور ترقی سے دُور لے جاتا ہے یا مذہب خود غرضی کی عادت پیدا کرتا ہے۔ یا مذہب خون بہانے کا حکم دیتا ہے یا مذہب کے نام پر خون ہوتے ہیں۔ ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا کہ:۔
’’سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنی ہی عروج پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اصول اسلام کو ہرگز ہرگز نہیں جھٹلا سکے گی۔‘‘ (ملفوظات جلد دہم صفحہ 435۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمارا مذہب اور ہماری شرعی کتاب جو وسیع تر علم دیتا ہے سائنس کا علم بھی اس کا ایک حصہ ہے۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا یہ اعتراض کر کے مذہب سے متنفر کیا جاتا ہے کہ مذہب خون کی تعلیم دیتا ہے اور خون بہاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم جو ترقی یافتہ سائنسی دَور میں سے گزر رہے ہیں ہمیں اگر خون بہانے سے بچنا ہے تو مذہب سے نفرت ضروری ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تم خدا خدا کرتے رہتے ہو۔ دیکھو اس وقت دنیا کے دو بڑے مذہب ہیں یعنی عیسائیت اور اسلام اور ان کی کتابیں پڑھو تو دونوں جنگوں کے حکموں سے بھرے پڑے ہیں ۔ پھریہ الزام لگاتے ہیں کہ خدا نے مذہبی کتابوں کی رُو سے قوموں کو عذاب دے کر مارا۔ کہتے ہیں یہ بھی تمہاری کتابیں ہی کہتی ہیں کہ فلاں قوم کو عذاب دیا، فلاں کو عذاب دیا۔ یہاں بھی اگر جنگ نہیں ہو رہی تو ویسے خون بہایا جا رہا ہے۔ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیسا خدا ہے اور کیسے مذہب ہیں جنہوں نے کتنے ہی لوگ سیلاب میں غرق کئے، کتنے ہی جلا دئیے، کتنے مصریوں کے پلوٹھوں کو مارا۔ سٹیوویلز (Steve Wells)ایک لکھنے والا ایسا معترض ہے۔ لکھتا ہے کہ بائبل کے مطابق جو اس طرح مارے گئے یہ تعداد چوبیس لاکھ چھہتر ہزار بنتی ہے۔ اس نے calculationکی ہے پھر کہتا ہے یہ اندازے غلط ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بنتی ہے اور یہ تعداد پھر وہ پچیس ملین بتاتا ہے۔
(http://dwindlinginunbelief.blogspot.com/2006/08/who-has-killed-more-satan-or-god.html)
اب اس سے کوئی پوچھے کہ تم جو سائنس کومذہب کا قائمقام سمجھتے ہو یا اس ترقی کو بہتر سمجھتے ہو اس نے تو مذہب سے بھی زیادہ خون بہایا ہے۔ مذہب تو اپنے پیرؤوں کو صلح صفائی کا حکم دیتا ہے۔ مسلمانوں پر اگر اعتراض کرتے ہیں تو قرآن کریم کے صلح صفائی اور امن و آشتی کے پیغام ایسے اعلیٰ معیار کے ہیں کہ اگر ان پر دنیا عمل کرے تو ہر طرف سلامتی ہی سلامتی نظر آئے۔ جہاد کا، قتال کا اگر حکم ہے تو اس صورت میں جب وہ ٹھونسا جاتا ہے۔ سائنس نے جو آلات ایجاد کئے ہیں اور جو زہریلی گیسیں بنائی ہیں ان سے تو صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ اب مذہب کے نام پر بڑا کھینچ تان کر یہ پچیس ملین کی figureانہوں نے بنائی ہے اور جانی نقصان کا بتایا کہ کتنا ہوا ہے جو مذہب نے کیا ہے۔ کیا ان کی نظر میں صرف دوسری جنگ عظیم کے figure نہیں گزرے؟ جس میں سائنسی ایجاد کی وجہ سے ہی تقریباً ساٹھ سے ستر ملین لوگ مر گئے۔ جن میں معصوم بچے بھی تھے اور عورتیں بھی شامل تھیں۔ شہر راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔ کیا یہ مذہبی جنگ تھی؟
پس یہ مذہب مارتا نہیں بلکہ مذہب تنبیہ کرتا ہے کہ امن اور سلامتی قائم کرو۔ کم از کم ہمارے مذہب کا تو یہ حکم ہے۔ ہر حکم انسان کے لئے رحم اور سلامتی کے جذبات سے بھرا پڑا ہے۔ ہمیں تو قرآن نے یہ سمجھایا کہ تمام انبیاء یہی حکم لے کر آئے کہ ظلم و تعدی بند کرو۔ پیار و محبت پیدا کرو ورنہ خدا تعالیٰ تمہیں سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے کہ وہ سزا دینے میں دھیما ہے جلد باز نہیں ہے۔ سزا بھی اصلاح کے لئے دیتا ہے۔ اگر خون انسان نے کئے تو اپنے مفادات کے حصول کے لئے کئے۔ غیر معمولی آفتوں میں سے اگر گزرنا پڑا تو اپنے ظلموں کی وجہ سے گزرنا پڑا۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ خدا نہیں ہے اور مذہب بھی نہیں ہے تو کیا پھر جو زلزلے اور سیلاب آتے ہیں کیا یہ رُک جائیں گے۔ ان کا یہ کیا نام دیں گے۔ اگر نہیں تو پھر یہ مذہب کے خلاف لکھنے والے انہیںکس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلو تو یہ آفات ٹل سکتی ہیں یا ان کے نقصانات سے تم بچ سکتے ہو۔ دُور کی بات نہیں ہم گزشتہ صدی کی ہی بات کرتے ہیں۔ اس زمانے کی ہی بات کرتے ہیں جس میں مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرستادے کو بھیجا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی میں دنیا کو ظلموں کے کرنے اور حد سے زیادہ خود سری سے بچنے کی تلقین کرنے کے لئے آیا۔ اس اللہ کے بھیجے نے یہ کہا کہ دنیا نے اگر اپنی حالت نہ بدلی تو زلزلے بھی آئیں گے۔ پس اپنے پر رحم کرو اور اپنی حالتوں کو بدلو۔ زمانے کے امام نے کہا کہ تم نے اگر اپنی حالت نہ بدلی اور ظلموں میں حد سے بڑھتے گئے اور خدا تعالیٰ کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ طاعون کی ایسی وبا پھوٹے گی جس کی تباہی غیر معمولی ہو گی۔ پس اپنی حالتیں بدلو اور نجات حاصل کرو۔پس جنہوں نے اس کی بات مانتے ہوئے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کیں وہ زلزلوں سے بھی محفوظ رہے اور طاعون سے بھی محفوظ رہے۔ پس یہاں تو ہمیں مذہب کا اور خدا تعالیٰ کے پیاروں کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ وہ بغیر وارننگ کے ایک بم مار کر سارے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا کر اور لاکھوں جانوں کو تلف کرنے والا نہیں ہے بلکہ پہلے پیار سے سمجھاتا ہے اور پھر بھی اگر دنیا باز نہ آئے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا نشان دکھاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے بندے جن کو گو دنیا والے برا کہتے ہیں اور جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نشان دکھاتا ہے وہ پھر بھی مخلوق کی ہمدردی کی وجہ سے جو مذہب نے ان کے دل میں پیدا کی ہے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عذاب کو ٹال دے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو عذاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشان کے طور پر آیا اس وقت آپ بے چین ہو کر مخلوق کی زندگی کی دعا کرتے تھے۔
ایک صحابی نے لکھا کہ ایک رات طاعون کے دنوں میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رات سجدہ ریز اس طرح گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح ہنڈیا ابل رہی ہو۔ قریب ہو کر مَیں نے سنا تو آپ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! اس عذاب سے دنیا کو بچا لے، ان کو عقل دے۔ (ماخوذ از سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 428-429)
پس کیا مذہب ظلم کرتا اور خون بہاتا ہے یا کہ اس کے حقیقی ماننے والے ہمدردیٔ خلق کرتے ہیں؟ بہر حال دنیا جو بھی کہتی رہے۔ مسلمان بھی جنہوں نے زمانے کے امام کو نہیں مانا چاہے اس بات کو سمجھیں یا نہ کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اسی محبت کے تقاضے کے تحت ہی وہ مختلف مذاہب مختلف وقتوں میں بھیجتا رہا اور آخری مذہب اسلام کا جس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا تھا بھیجا اور قرآن کو ہم پر شریعت کے طور پر اتارا۔ اس نے اس زمانے میں بھی اس کامل اور مکمل شریعت کے ساتھ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو آپ کے غلام صادق کو بھی اس زمانے میں بھیجا جنہوں نے ہمیں مذہب کی حقیقت کے بارے میں بتایا اور ہمیں آپ کی بیعت میں آنے کی توفیق عطا فرمائی۔
پس اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی آپ کے سامنے یہ پیش کروں گا کہ مذہب کیا ہے؟ مذہب کی ضرورت کیوں ہے؟آج جب ہر طرف سے مذہب پر اعتراضات کی بھر مار ہے ہمیں اس ضرورت کا پتا لگنا چاہئے۔ ہمیں پتا چلنا چاہئے کہ ہمارے اپنے فرائض کیا ہیں؟ ہمیں پتا لگناچاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ پھر یہ بھی کہ مذہب اسلام کی صداقت باقی مذاہب پر کیا ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں سے کیا چاہتا ہے۔ اور صرف چاہتا ہی نہیں بلکہ اپنے ماننے والوں کو کیا دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذہب زندگی بخشتا ہے تو مذہب کس طرح زندگی بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمّت واحدہ بنانے کے سامان کئے ہیں کہ دنیا کے فساد دُور ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مقصد کو پورا فرمایا۔ اسی بارے میں جیسا کہ مَیںنے کہا آپ علیہ السلام کی بے شمار جو تحریرات ہیں ان میں سے چند ایک آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ پتا لگے کہ مذہب کیا ہے؟ اور آپ ہم سے اس بارے میں کیا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ ایک سوال کرنے والے کے سوال کے جواب میں کہ مذہب کیا ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
’’مذہب کیا ہے؟ وہی راہ ہے جس کو وہ اپنے لئے اختیار کرتا ہے۔ مذہب تو ہر شخص کو رکھنا پڑتا ہے۔ اور وہ لامذہب انسان جو خدا کو نہیں مانتا اس کو بھی ایک راہ اختیار کرنی لازمی ہے۔ اور وہی مذہب ہے۔‘‘ جو بھی رستہ تم اختیار کرو گے وہ مذہب ہے۔ ’’مگر ہاں امر غور طلب یہ ہونا چاہئے کہ جس راہ کو اختیار کیا ہے کیا وہ راہ وہی ہے جس پر چل کر اس کو سچی استقامت اور دائمی راحت اور خوشی اور ختم نہ ہونے والا اطمینان مل سکتا ہے؟‘‘ اب یہ جو مذہب کو نہیں مانتے ان سے کوئی پوچھے تمہیں کتنا اطمینان مل گیا؟ فرمایا ’’دیکھو مذہب تو ایک عام لفظ ہے۔ اس کے معنی چلنے کی جگہ یعنی راہ کے ہیں اور یہ دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر قسم کے علوم وفنون طبقات الارض، طبعی، طبابت، ہیئت وغیرہ میں بھی ان علوم کے ماہرین کا ایک مذہب ہوتا ہے۔ اس سے کسی کو چارہ ہوسکتا ہی نہیں۔ یہ تو انسان کے لئے لازمی امر ہے۔ اس سے باہر ہونہیں سکتا۔ پس جیسے انسان کی رُوح جسم کو چاہتی ہے۔ معانی الفاظ اور پیرا یہ کو چاہتے ہیں اسی طرح انسان کو مذہب کی ضرورت ہے۔ ہماری یہ غرض نہیں ہے اور نہ ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ کوئی اللہ کہے یا گاڈ کہے یا پرمیشر ۔ ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جس کو وہ پکارتا ہے۔ اس نے اس کوسمجھاکیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ کوئی نام لو مگر یہ بتائو کہ تم اسے کہتے کیا ہو؟‘‘ سمجھتے کیا ہو؟ ’’اس کے صفات تم نے کیا قائم کئے ہیں؟ صفات الٰہی کا مسئلہ ہی تو بڑا مسئلہ ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 236 ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اسلام نے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات بتائی ہیں اور بتایا کوئی بھی صفت کبھی بھی معطّل نہیں ہوئی۔ پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :۔
’’مذہب کا خلاصہ دو ہی باتیں ہیں اور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پر آ کر ٹھیرتا ہے یعنی حق اللہ اور حق العباد…۔‘‘ فرمایا کہ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ حق دو ہی ہیں ایک خدا کے حقوق کہ اسے کس طرح پر ماننا چاہئے اور کس طرح اس کی عبادت کرنی چاہئے۔ دوم بندوں کے حقوق یعنی اس کی مخلوق کے ساتھ کیسی ہمدردی اور مواسات کرنی چاہئے۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 119۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
کس طرح اس کی غم خواری کرنی چاہئے۔ کس طرح اس سے مختلف حسن سلوک کرنا چاہئے۔ پس کس خوبصورتی سے مختصر الفاظ میں مذہب پر اعتراض کرنے والوں کا آپ نے منہ بند کیا کہ یہ دو حقوق یعنی اللہ کا حق اور بندوں کا حق ادا کرنے والے ہی حقیقی مذہب کو ماننے والے ہیں۔ اور بندوں کے حق ادا ہوتے ہیں حقیقی ہمدردی کرنے سے، دوسروں کے غم میں شریک ہونے سے، ان کی غلطیوں کو معاف کرنے سے، پیار اور محبت کرنے سے۔پس یہ مذہب ہے جو اسلام نے ہمیں سکھایانہ کہ خون کرنے کا۔ پھر آپ نے فرمایا:۔
’’اگرچہ دنیا کے لوگ سچے مذہب کے پرکھنے کے معاملہ میں ہزارہا پیچ در پیچ مباحثات میں پڑ گئے ہیں اور پھر بھی کسی منزل مقصود تک نہیں پہنچے لیکن سچ بات یہ ہے کہ جومذہب انسانی نابینائی کے دُور کرنے اور آسمانی برکات کے عطا کرنے کے لئے اس حد تک کامیاب ہوسکے جو اس کے پیروکی عملی زندگی میں خدا کی ہستی کا اقرار اورنوع انسان کی ہمدردی کا ثبوت نمایاں ہو وہی مذہب سچا ہے اور وہی ہے جو اپنے سچے پابند کو اس منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے جس کی اس کی روح کو پیاس لگادی گئی ہے۔ اکثر لوگ صرف ایسے فرضی خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور جس کی شکتی اور طاقت صرف قصوں اور کہانیوں کے پیرایہ میں بیان کی جاتی ہے۔ پس یہی سبب ہوتا ہے کہ ایسا فرضی خدا ان کو گناہ سے روک نہیں سکتا بلکہ ایسے مذہب کی پیروی میں جیسے جیسے ان کا تعصب بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فسق و فجور پر شوخی اور دلیری زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے اور نفسانی جذبات ایسی تیزی میں آتے ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر ارد گرد پانی اس کا پھیل جاتاہے اور کئی گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتاہے۔ ‘‘
اب مسلمان بے شک مذہب کا نام اسلام کہتے رہیں لیکن جب تک یہ چیزیں پیدا نہیں ہوتیں ان کا حال یہی ہے اور یہ جو بند باندھتے ہیں اس کی حقیقت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بتائی ہے اور راستوں کو روشن کر کے دکھایا ہے۔ پس اگر مذہب کو سمجھنا ہو تو آپ کا ماننا ضروری ہے۔
پھر فرمایا کہ :’’وہ زندہ خدا جو قادرانہ نشانوں کے شعاع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے وہی ہے جس کاپانا اور دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے اور سچی سکینت اور شانتی اور تسلی بخشتا ہے اور استقامت اور دلی بہادری کو عطا فرماتا ہے۔ وہ آگ بن کرگناہوں کو جلا دیتا ہے اور پانی بن کر دنیا پرستی کی خواہشوں کو دھو ڈالتا ہے۔ مذہب اسی کا نام ہے جو اس کو تلاش کریں اور تلاش میں دیوانہ بن جائیں۔‘‘ فرمایا ’’یاد رہے کہ محض خشک جھگڑے اور سبّ وشتم اور سخت گوئی اور بدزبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے۔ اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتّوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے‘‘ گلی سڑی ہڈی یا گٹھلی کی طرح ہے۔ کوئی اس میں پھل نہیں۔ فرمایا ’’ اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے۔ افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے۔ اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور ناپاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بداخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا ان کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں۔ وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مردے کا جنازہ ہے جو صرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے۔ سہارا الگ ہوا اور وہ زمین پر گرا۔ ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصّب۔ اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے بالکل ان کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے۔‘‘ صرف تعصب ان کو حاصل ہوتا ہے اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو بہترین خصائل میں سے ہے بالکل ان کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے ’’اور اگر ایسے شخص کا اُن سے مقابلہ پڑے جو اُن کے مذہب اور عقیدے کا مخالف ہو تو فقط اسی قدر مخالفت کو دل میں رکھ کر اس کی جان اور مال اور عزت کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے متعلق کسی غیر قوم کے شخص کا کام پڑ جائے تو انصاف اور خدا ترسی کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہیں کہ اس کو بالکل نابود کردیں اوروہ رحم اور انصاف اور ہمدردی جو انسانی فطرت کی اعلیٰ فضیلت ہے بالکل ان کے طبائع سے مفقود ہو جاتی ہے اور تعصب کے جوش سے ایک ناپاک درندگی ان کے اندر سما جاتی ہے اور نہیں جانتے کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 27 تا 29)
پھر مذہب کی ضرورت کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ : ’’ اگر کوئی حقیقی سچائی کا بھوکا اور پیاسا ہے تو ضرور اس کو ماننا پڑے گا کہ مذہب کے وجود سے پہلے یہ خداداد تقسیم طبائع میں ہو چکی ہے کہ کسی کی فطرت میں غلبہ حلم اور محبت اور کسی کی فطرت میں غلبہ درشتی اور غضب ہے۔ اب مذہب یہ سکھلاتا ہے کہ وہ محبت اور اطاعت اور صدق اور وفا جو مثلاً ایک بُت پرست یا انسان پرست مخلوق کی نسبت عبادت کے رنگ میں بجا لاتا ہے اُن ارادوں کو خدا کی طرف پھیرے اور وہ اطاعت خدا کی راہ میں دکھلائے۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ سوال کہ مذہب کا تصرف انسانی قُویٰ پر کیا ہے انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا … لیکن قرآن شریف بڑی تفصیل سے باربار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کی فطرتی قُویٰ کی تبدیل کرے اور بھیڑئیے کو بکری بنا کر دکھلائے بلکہ مذہب کی صرف علّت غائی یہ ہے‘‘ یہی اس کامقصد ہے ’’کہ جو قُویٰ اور ملکات فطرتاً انسان کے اندر موجود ہیں ان کو اپنے محل اور موقعہ پر لگانے کے لئے رہبری کرے۔ مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوّت کو بدل ڈالے۔ ہاں یہ اختیار ہے کہ اس کو محل پر استعمال کرنے کے لئے ہدایت کرے اور صرف ایک قوّت مثلاً رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کیلئے وصیّت فرمائے کیونکہ انسانی قوّتوں میں سے کوئی بھی قوّت بُری نہیں بلکہ افراط اور تفریط اور بد استعمالی بُری ہے اور جو شخص قابلِ ملامت ہے وہ صر ف فطرتی قُویٰ کی وجہ سے قابل ملامت نہیں بلکہ ان کے بداستعمالی کی وجہ سے قابل ملامت ہے۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 340-341)
پس غلط استعمال ہوں، غلط رستوں پر چلو گے تو اس وجہ سے قابل ملامت ہو گے۔ پس فرمایا اس بات کو تم ہمیشہ ذہن میں رکھو۔ پس یہ ہے اسلام کی خوبصورتی کہ سموئے ہوئے احکامات دیتا ہے اور ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جو فطرت کا تقاضا ہیں۔ اسلام کے علاوہ نہ کسی مذہب میں، نہ کسی دنیاوی قانون میں یہ حسن نظر آتا ہے جو انسان کے فطری تقاضے پورے کرے۔ دنیاوی قانون بھی بنتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان پر بحث شروع ہو جاتی ہے کہ اسے کس طرح حالات کے مطابق کیا جائے۔ اسلام کے بعض قوانین پر اعتراض کرنے والے تو اعتراض کرتے ہیں لیکن یہ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ خود ہی جیسے پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ہو گا کہ ان کے اعتراضات انہی پر پڑتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’واضح رہے کہ مذہب کے اختیار کرنے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا وہ خدا جو سرچشمہ نجات کا ہے اس پر ایسا کامل یقین آجائے کہ گویا اس کو آنکھ سے دیکھ لیا جائے‘‘۔ پس یہ یقین پیدا کرنا مذہب کا کام ہے۔ اگر یہ یقین نہیں آتا تو پھر فکر کی ضرورت ہے۔ ’’کیونکہ گناہ کی خبیث روح انسان کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور انسان گناہ کی مہلک زہر سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جب تک اس کو اس کامل اور زندہ خدا پر پورا یقین نہ ہو اور جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ خدا ہے جو مجرم کو سزا دیتا ہے اور راستباز کو ہمیشہ کی خوشی پہنچاتا ہے۔ یہ عام طور پر ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کے مہلک ہونے پر کسی کو یقین آجائے تو پھر وہ شخص اس چیز کے نزدیک نہیں جاتا۔ مثلاً کوئی شخص عمداً زہر نہیں کھاتا۔کوئی شخص شیر خونخوار کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اور کوئی شخص عمداً سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ پھر عمداً گناہ کیوں کرتا ہے۔ اس کا یہی باعث ہے کہ وہ یقین اس کو حاصل نہیں جو اُن دوسری چیزوں پر حاصل ہے۔ پس سب سے مقدم انسان کا یہ فرض ہے کہ خدا پر یقین حاصل کرے اور اس مذہب کو اختیار کرے جس کے ذریعہ سے یقین حاصل ہو سکتاہے تا وہ خدا سے ڈرے اور گناہ سے بچے۔ مگر ایسا یقین حاصل کیونکر ہو۔ کیا یہ صرف قصّوں کہانیوں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ محض عقل کے ظنّی دلائل سے میسر آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس واضح ہو کہ یقین کے حاصل ہونے کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس کے خارق عادت نشان دیکھے۔اور بار بار کے تجربہ سے اس کی جبروت اور قدرت پر یقین کرے یا ایسے شخص کی صحبت میں رہے جو اس درجہ تک پہنچ گیا ہے۔ ‘‘(نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 447-448)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :
’’مذہب اس بات کا نام نہیں ہے کہ انسان دنیا کے تمام اکابر اور نبیوں اور رسولوں کو بدگوئی سے یاد کرے۔ ایسا کرنا تو مذہب کی اصل غرض سے مخالف ہے‘‘ ۔کسی بھی دوسرے مذہب کے خلاف بولنا اور ان کے بڑوں کے متعلق باتیں کرنا ،فرمایا کہ یہ تو مذہب کی اصل غرض سے مخالف ہے ’’بلکہ مذہب سے غرض یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر ایک بدی سے پاک کر کے اِس لائق بنا وے کہ اُس کی روح ہر وقت خداتعالیٰ کے آستانہ پر گری رہے اور یقین اور محبت اور معرفت اور صدق اور وفا سے بھر جائے اور اس میں ایک خالص تبدیلی پیدا ہو جائے تا ا ِسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو حاصل ہو۔ ‘‘(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 233-234)
پس اسی لئے اسلام کا یہی حکم ہے کہ تمام انبیاء کی عزت کرو اور ان کے بڑوں کی عزت کرو۔ حتی کہ یہ بھی فرمایا کہ بُتوں کو بھی برا نہ کہو۔
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’ دو خبیث مرضیں ہیں جن سے بچنے کیلئے سچے مذہب کی پیروی کی ضرورت ہے۔ یعنی اوّل یہ مرض کہ خدا کو واحد لا شریک اور متصف بہ تمام صفات کاملہ اور قدرت تامّہ قبول نہ کرکے اس کے حقوق واجبہ سے منہ پھیر لینا اور ایک نمک حرام انسان کی طرح اُس کے اُن فیوض سے انکار کرنا جو جان اور بدن کے ذرّہ ذرّہ کے شامل حال ہیں۔ دوسرے یہ کہ بنی نوع کے حقوق کی بجاآوری میں کوتاہی کرنا اور ہر ایک شخص جو اپنے مذہب اور قوم سے الگ ہو یا اس کامخالف ہو اس کی ایذا کے لئے ایک زہریلے سانپ کی طرح بن جانااور تمام انسانی حقوق کو یکدفعہ تلف کر دینا۔ ایسے انسان درحقیقت مُردہ ہیں اور زندہ خدا سے بے خبر۔ زندہ ایمان لانا ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان زندہ خدا کی تجلّیات اور آیات عظیمہ سے فیضیاب نہ ہو۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 30)
اور آج زندہ خدا کی تجلّیات سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی فیض پاتے ہیں یا وہ جو فیض پانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ احمدیت کی طرف ان کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ یہ کئی واقعات ہم دیکھتے ہیں۔ بہت سارے واقعات میرے سامنے آتے ہیں اور ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
الجزائر کی ایک خاتون ہیں۔ کہتی ہیں میں نے کئی سال قبل خواب دیکھا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر زارو قطار رو رہی ہوں۔ اس خواب کے بعد میں لگاتار دعا کرتی رہی اور اسی تلاش میں رہی کہ اللہ تعالیٰ مجھے راستی کی طرف رہنمائی فرمائے۔ کہتی ہیں کہ مذہبی ٹی وی بھی دیکھتی رہتی کہ کسی طرح تسکین کا رستہ مل جائے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میں اکثر راتوں کو بڑے کرب کے ساتھ دعا کرتی اور بعض راتوں کو کھلے آسمان اور ستاروں کو بھی دیکھتی رہتی۔ ایک رات میں نے ایک واضح آواز سنی کہ اپنے سر کو اٹھا اور تُو ہدایت کے راستہ کو دیکھ لے۔ کہتی ہیں کہ اگلے دن میں اسلامی چینلز کو دیکھتے ہوئے ایک ایسے چینل پر جا رُکی جو گفتگو اور انداز سے اتنا خوبصورت تھا کہ میرے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ میں نے باقاعدہ اسے دیکھنا شروع کیا۔ مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی کہ سر اٹھا اور ہدایت کا راستہ دیکھ لے۔ یہ ایم ٹی اے تھا جس کی وجہ سے مجھے امام مہدی اور خلافت کو پہچاننے کی توفیق ملی اور میں نے بیعت کر لی۔
پس یہ خدا ہے جو اپنے زندہ مذہب کی طرف رہنمائی کر تا ہے۔ صرف اسلام کے نام سے کہہ دینا کہ ہماری رہنمائی ہو گئی کافی نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس زمانے میں اس کو ماننا ضروری ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’مذہب تو اس لئے ہوتا ہے کہ اخلاق وسیع ہوں جیسے خدا تعالیٰ کے اخلاق وسیع ہیں۔ کوئی ہزاروں گالیاں اُسے دے وہ اس پر پتھر نہیں برسا دیتا۔ پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہو سکتا۔ تنگ ظرف خواہ ہندوہو یا مسلمان یا عیسائی وہ دوسرے بزرگوں کو بھی بدنام کرتا ہے۔ مَیں اس سے منع نہیں کرتاکہ اختلاف مذہب بیان نہ کرو۔ بیشک نیک نیتی سے اختلاف بیان کرو مگر اس میں تعصّب اور کینہ کا رنگ نہ ہو‘‘۔ آپ نے فرمایا ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات دوچار سال سے نہیں بلکہ صدہا سال سے چلے آتے ہیں۔ اس لئے خداکرے کہ بہت سے دلوں میں جوش ڈال دے کہ جو اِن تعلقات کو دُور نہ ہونے دیں۔‘‘ یعنی غیر دوسرے مذہبوں سے مسلمانوں کے تعلقات ہمیشہ قائم رہیں۔فرمایا کہ ’’یہ بھی یاد رکھو کہ مذہب صرف قیل و قال کا نام نہیں بلکہ جب تک عملی حالت نہ ہو کچھ نہیں۔ خدا اس کو پسند نہیں کرتا۔ جس قدر بزرگ اسلام میں یا ہندوؤں میں اوتار وغیرہ گزرے ہیں ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے عمل سے اُن سچائیوں کو جن کا وہ وعظ کرتے تھے ثابت کر دکھایا ہے۔ قرآنِ شریف میں بھی یہی تعلیم ہے یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ۔ (المائدۃ:106) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو۔ جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنادے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچاہے۔ ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتاہے مگر اندر خالی ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 7 صفحہ 210۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آج دنیا میں اخلاق اور صبر اور حوصلے کا مظاہرہ اور اس کی مثالیں بھی جماعت احمدیہ میں ہی ملتی ہیں۔ اس کا دوسرے بھی برملا اظہار کرتے ہیں اور اسی چیز کو ہمیں ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے اور یہی بات ہے جو دوسروں کو راستہ دکھانے کا بھی باعث بنتی ہے۔
اب مالی افریقہ کا ایک دور دراز ملک ہے۔ لوگ کہتے ہیں پڑھے لکھے لوگ نہیں اور پڑھا لکھا شخص یہ ہے بھی نہیں جس کی مَیں بات بتانے لگا ہوں۔ ایک عمر رسیدہ شخص ایک دن مشن ہاؤس میں تشریف لائے اور کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جب ان سے بیعت کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے میں کل رات آپ لوگوں کے ریڈیو پر لائیو پروگرام سن رہا تھا۔ جس میں لائیو کالز کے دوران جماعت احمدیہ کے مبلغ کو مخالفین بہت برا بھلا کہہ رہے تھے۔اور وہ ان کو برا بھلا کہنے کاجواب نہیں دے رہا تھا بلکہ دلیل سے باتیں کر رہا تھا۔ کہتے ہیں پروگرام کے دوران ہی مَیں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ یا اللہ! ان دونوں میں سے کون حق پر ہے تُو ہی میری رہنمائی فرما اور دعا کرتے کرتے مَیں سو گیا۔ رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے مبلغ ہیں اور دوسری طرف جماعت احمدیہ کے مخالفین ہیں اور ان کے درمیان مناظرہ ہو رہا ہے۔ مگر جب مخالفین احمدی مبلغ کو جواب نہیں دے پاتے تو ان کو ایک گڑھے میں پھینک دیتے ہیں اور مٹی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ دشمنی کی حد بڑھی ہوئی ہے۔ جب جواب نہیں دے سکے تو گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈالنا شروع کر دی کہ مار دو۔ کہتے ہیں اسی دوران جب وہ یہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ مَیں نے خواب میں آسمان پر دیکھا کہ ایک بزرگ ظاہر ہوتے ہیں جو اَنَا الْمَہْدِی کہہ رہے ہیں اور اپنا ہاتھ لمبا کر کے احمدی مبلغ کی جان بچاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ احمدیت کی سچائی سے متعلق اب میرے دل میں کوئی وسوسہ نہیں ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ پس یہ حسن اخلاق ہے جس نے مذہب کی حقیقت جاننے کے لئے ہی سعید روح کو دعا کی طرف مائل کیا اور پھر اس کی رہنمائی فرمائی اور یہی زندہ مذہب اور زندہ خدا کی نشانیاں ہیں۔
پھر مذہب کی ضرورت جاننے کے لئے آپ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ :
’’مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ شرّ سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے۔ سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو۔ تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے۔ کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟‘‘ دوسروں کو طعن و تشنیع کرتے رہو۔ تنگ کرتے رہو۔ ’’نہیں۔ بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں۔ خدا کے لئے سب پررحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو۔ آؤمَیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اتر تے ہیں۔ مگر یہ ایک دن کا کام نہیں۔ ترقی کرو، ترقی کرو۔ اس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اوّل بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام مَیل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں۔ تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تَر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے۔ تب وہ مَیل جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھاکر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جُدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے۔ یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے۔‘‘ تمہاری ساری نجات اسی سفیدی پر موقوف ہے یعنی اپنی مَیلیں دور کرنے میں۔ ’’یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ (الشمس:10) یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے مَیلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا۔‘‘(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 14-15)
اسلام کی صداقت کے بارے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ :
’’پہلے نبی ایک خاص قوم اور خاص ملک کیلئے آیا کرتے تھے اس لئے ان کی تعلیم جو ابھی ابتدائی تھی مجمل اور ناقص رہتی تھی کیونکہ بوجہ کمی قوم اصلاح کی حاجت کم پڑتی تھی اور چونکہ انسانیت کے پودہ نے ابھی پورا نشوونما بھی نہیں کیا تھا اس لئے استعدادیں بھی کم درجہ پر تھیں اور اعلیٰ تعلیم کی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ پھر ایسا زمانہ آیا کہ استعدادیں تو بڑھ گئیں مگر زمین گناہ اور بدکاری اور مخلوق پرستی سے بھر گئی اور سچی توحید اور سچی راستبازی نہ ہندوستان میں باقی رہی اور نہ مجوسیوں میں اور نہ یہودیوں میں اور نہ عیسائیوں میں اور تمام قوتیں ضلالت اور نفسانی جذبات کے نیچے دب گئیں۔ اس وقت خدا نے قرآن شریف کو اپنے پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کر کے دنیا کو کامل اسلام سکھا یا۔ اور پہلے نبی ایک ایک قوم کے لئے آیا کرتے تھے اور اُسی قدر سکھلاتے تھے جو اُسی قوم کی استعداد کے اندازہ کے موافق ہو اور جن تعلیموں کی وہ لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تعلیمیں اسلام کی اُن کو نہیں بتلاتے تھے۔ اس لئے اُن لوگوں کا اسلام ناقص رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دینوں میں سے کسی دین کا نام اسلام نہیں رکھا گیا۔ مگر یہ دین جو ہمارے پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت دنیا میں آیا اِس میں تمام دنیا کی اصلاح منظور تھی اور تمام استعدادوں کے موافق تعلیم دینا مدنظر تھا اس لئے یہ دین تمام دنیا کے دِینوں کی نسبت اَکمل اور اَتم ہوا اور اسی کا نام بالخصوصیت اسلام رکھا گیا اور اسی دین کو خدا نے کامل کہا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (المائدۃ:4) یعنی آج مَیں نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو پورا کیا اور مَیں راضی ہوا جو تمہارا دین اسلام ہو۔ چونکہ پہلے دین کامل نہیں تھے اور ان قوانین کی طرح تھے جو مختص القوم یا مختص الزمان ہوتے ہیں‘‘ خاص قوم کے لئے اور خاص زمانے کے لئے ہوتے ہیں ’’اس لئے خدا نے ان دِینوں کا نام اسلام نہ رکھا۔ اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ وہ انبیاء تمام قوموں کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ اپنی اپنی قوم کے لئے آتے تھے اور اُسی خرابی کی طرف ان کی توجہ ہوتی تھی جو ان کی قوم میں پھیلی ہوئی ہوتی تھی اور انسانیت کی تمام شاخوں کی اصلاح کرنا اُن کا کام نہیں تھا کیونکہ ان کے زیر علاج ایک خاص قوم تھی جو خاص آفتوں اور بیماریوں میں مبتلا تھی۔ اور ان کی استعدادیں بھی ناقص تھیں اسی لئے وہ کتابیں ناقص رہیں کیونکہ تعلیم کی اغراض خاص خاص قوم تک محدود تھے۔ مگر اسلام تمام دنیا اور تمام استعدادوں کے لئے آیا۔ اور قرآن کو تمام دنیا کی کامل اصلاح مدّنظر تھی جن میں عوام بھی تھے اور خواص بھی تھے اور حکماء اور فلاسفر بھی۔ اس لئے انسانیت کے تمام قویٰ پر قرآن نے بحث کی اور یہ چاہا کہ انسان کی ساری قو تیں خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا ہوں۔ اور یہ اس لئے ہوا کہ قرآن کا مدنظر انسان کی تمام استعدادیں تھیں اور ہر یک استعداد کی اصلاح منظور تھی اور اسی وجہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ٹھہرے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر وہ تمام کام پورا ہوگیا جو پہلے اس سے کسی نبی کے ہاتھ پر پورا نہیں ہوا تھا۔ چونکہ قرآن کو نوع انسان کی تمام استعدادوں سے کام پڑتا تھا اور وہ دنیا کی عام اصلاح کے لئے نازل کیا گیا تھا اس لئے تمام اصلاح اس میں رکھی گئی اور اسی لئے قرآنی تعلیم کا دین اسلام کہلایا اور اسلام کا لقب کسی دوسرے دین کو نہ مل سکا کیونکہ وہ تمام ادیان ناقص اور محدود تھے۔ غرض جبکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے تو کوئی عقلمند مسلمان کہلانے سے عار نہیں کر سکتا۔ ہاں اسلام کا دعویٰ اُسی قرآنی دین نے کیا ہے اور اسی نے اس عظیم الشان دعویٰ کے دلائل بھی پیش کئے ہیں۔‘‘(ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 272 تا 274)
پس یہ قرآن کریم کی سچائی اور قرآن دلائل ہی ہیں جوآجکل نیک فطرتوں کو اسلام کی طرف متوجہ بھی کرتے ہیں۔ غیروں میں سے بہت سارے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ان کی تسکین دل کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔
جاپان میں اللہ تعالیٰ نے ایک اطالوی شخص کو کس طرح صحیح راستہ دکھانے کا انتظام کیا۔ٹوکیو جاپان میں ایک بُک فیئر ہو رہا تھا۔ جماعت احمدیہ اس میں شامل تھی۔ وہاں ایک اطالوی شخص آیا اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور مذہب کے حوالے سے بات چیت کی۔ پھر انہوں نے خدا کے بارے میں سوال کیا۔ بتایا کہ وہ بڑی مدت سے خدا کی تلاش میں ہے اور انہوں نے تلاش میں سعودی عرب ایمبیسی سے بھی رابطہ کیاہے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید وہاں سے ان کو خدا مل جائے گا۔ مکہ جا کر بھی خدا کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی ہے لیکن کہتے ہیں مَیں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امام مہدی یہی پیغام لے کر آئے ہیں کہ وہ لوگوں کو سچے خدا کا عرفان بخشیں۔ وہ خدا جو ربّ العالمین بھی ہے اور دعاؤں کو سننے والا بھی ہے ایک زندہ خدا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ دی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی کتاب ’اسلام اور عصر حاضر کے مسائل‘ کتاب دی گئی۔ ایک اور کتاب میری تھی ان کو وہ دی گئی۔ خیر یہ کتابیں لے کروہ چلے گئے۔ وعدہ کر کے گئے کہ یہ کتب پڑھیں گے۔ کچھ پوچھنا ہوا تو اگلے دن دوبارہ سٹال پر آئیں گے۔ اگلے دن آئے تو کہنے لگے میرے پاس الفاظ نہیں کہ مَیں کس طرح شکر ادا کروں کہ اس کتاب میں انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو اسلامی تعلیم پیش کی گئی ہے اس نے میری آنکھیں کھول دی ہیں اور مجھے وہ خدا عطا کر دیا ہے جسے مَیں برسوں سے تلاش کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج واپسی پر مَیں آپ لوگوں کے ساتھ ہی احمدیہ سینٹر جانا چاہتا ہوں اور نماز پڑھ کر اس خدا کی غلامی میںآنا چاہتا ہوں جو ہمارا خالق و مالک ہے اور اسی مذہب کو قبول کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے صحیح رستہ دکھایا۔ اگلے مرحلے کے طور پر انہیں ’مسیح ہندوستان میں‘ پیش کی گئی۔پھر باقی کتابیں دی گئیں۔ بہر حال ہر کتاب پڑھ کر یہی کہتے تھے کہ یہ زبردست علمی کاوش اور تحقیق ہے۔ پھر انہوں نے وضو کرنے کا طریق اور نماز پڑھنے کے طریق وغیرہ سیکھے ۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ رہنما ئی فرماتا ہے ۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو دکھانے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :۔
’’خدا نے اس رسول کو یعنی تجھ کو بھیجا ہے۔‘‘ اپنی طرف اشارہ ہے اس سے پہلے ایک مضمون چل رہا ہے۔ ’’اور اس کے ساتھ زمانہ کی ضرورت کے موافق ہدایت یعنی راہ دکھلانے کے علم اور تسلی دینے کے علم اور ایمان قوی کرنے کے علم اور دشمن پر حجت پوری کرنے کے علم بھیجے ہیں۔ اور اس کے ساتھ دین کو ایسی چمکتی ہوئی شکل کے ساتھ بھیجا ہے جس کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا بدیہی طور پر معلوم ہو رہا ہے۔ خدا نے اِس رسول کو یعنی کامل مجدد کو‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانہ میں یہ ثابت کرکے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں۔ اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دِینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے۔ یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پر اسلام کی چمک دکھلادے۔ ‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 266)
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام کی چمک دکھائے۔ کون ہے دوسرا جو کہہ سکے کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے۔ آج زندہ نشان ہم آپ کے ذریعے سے دیکھتے ہیں۔
پھر مذہب اسلام اپنے ماننے والوں سے کیا تقاضا کرتا ہے کہ وہ تعلیم سے فیض پا سکیں جب وہ تقاضے پورے کریں۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔ اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(البقرۃ:113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے۔ یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہوجاوے۔’’ اعتقادی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور ’’عملی‘‘ طور پر اس طرح سے کہ خالصاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہریک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے۔ مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 57-58)
ایسا شوق ہونا چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا کہ اسلام دوسرے مذاہب کی طرح صرف قصّے کہانیاں نہیں ہے۔ ماننے والوں کو صرف یہ نہیں کہتا کہ یہ کام کرو جو پرانوں نے کہہ دیا ہے اس پر عمل کرو اب تمہاری یہ ذمہ داری ہے۔ اپنے ماننے والوں سے صرف منواتا نہیں ہے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرو اور زندہ تعلق پیدا کرواتا ہے۔ اور جب خداتعالیٰ سے تعلق پیدا ہو تو برکات سے بھی انسان پھر فیض پاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :۔
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا کرکے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس امّت کے لئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے۔ اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے۔ اور اس کے لئے خداتعالیٰ نے سورہ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔(الفاتحہ:6-7)‘‘ فرمایا ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی راہ کے لئے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اوریہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا۔ اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی۔ اسی کے تم بھی خواہاں رہو۔ پس اس نعمت کے لئے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دعا کی تو ہدایت کرتا ہے مگر اس کا ثمرہ کچھ بھی نہیں یا اس اُمّت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہوگیا ہے۔ بتاؤ اس سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟‘‘ اس میں ہر ایک کو، مسلمانوں کو بھی جواب دے دیا ہے۔ فرمایا کہ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے۔ اور اس نے مغز شریعت کو سمجھا ہی نہیں۔ اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وحدہٗ لاشریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اور بہشت دوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پا لے۔ ‘‘ایسے عمل ہونے چاہئیں۔نیک اعمال کی جنت دنیا میں ہی مل جاتی ہے ۔ فرمایا ’’اور ان گناہوں سے جن میں وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے۔ یہ عظیم الشان مقصد اسلام کا تھا اَور ہے۔ اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نمونہ دکھا سکتی ہے۔ کہنے کو تو ہر ایک کہہ سکتا ہے مگر وہ کون ہے جو دکھا سکتا ہو؟ ‘‘(لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 285-286)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ :۔
’’انسان خدا تعالیٰ کے تعبّد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے وہ اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا جس کی شناخت میں اس کی نجات ہے اُسی کی شناخت کے بارے میں صرف چند بیہودہ قصوں پر حصر رکھے۔‘‘ سن لئے قصے بس کافی ہے۔ ’’اور وہ اندھا رہنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کے متعلق پورا علم پاوے گویا اس کو دیکھ لے۔ سو یہ خواہش اس کی محض اسلام کے ذریعہ سے پوری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بعض کی یہ خواہش نفسانی جذبات کے نیچے چھپ گئی ہے۔ اور جو لوگ دنیاکی لذّات کو چاہتے ہیں اور دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ بوجہ سخت محجوب ہونے کے نہ خدا کی کچھ پروا رکھتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کے وصال کے طالب ہیں کیونکہ دنیا کے بُت کے آگے وہ سرنگوں ہیں۔ لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص دنیا کے بت سے رہائی پائے اور دائمی اور سچی لذت کا طالب ہو وہ صرف قصّوں والے مذہب پر خوش نہیں ہو سکتا اورنہ اس سے کچھ تسلّی پا سکتا ہے۔ ایسا شخص محض اسلام میں اپنی تسلی پائے گا۔‘‘ اور اسلام میں بھی اس صورت میں جب اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والا ہو گا۔ فرمایا ’’اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں ان کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64)
ابھی میں نے وہ Italianکی مثال دی۔ کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ پھر آپ نے مذہب اسلام کے زندگی بخش ہونے کے بارے میں فرمایا کہ :
’’کوئی مذہب بغیر نشان کے انسان کو خدا سے نزدیک نہیں کرسکتا اور نہ گناہ سے نفرت دلاسکتا ہے۔ مذہب مذہب پکارنے میں ہر ایک کی بلند آواز ہے لیکن کبھی ممکن نہیں کہ فی الحقیقت پاک زندگی اور پاک دلی اور خدا ترسی میسر آسکے جب تک کہ انسان مذہب کے آئینہ میں کوئی فوق العادۃ نظارہ مشاہدہ نہ کرے۔ نئی زندگی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو۔ اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہوسکتا جب تک موسیٰ اور مسیح اور ابراہیم اور یعقوب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نئے معجزات نہ دکھائے جائیں۔ نئی زندگی انہی کو ملتی ہے جن کا خدا نیا ہو۔ یقین نیا ہو۔ نشان نئے ہوں۔ اور دوسرے تمام لوگ قصوں کہانیوں کے جال میں گرفتار ہیں۔ دل غافل ہیں اور زبانوں پر خدا کا نام ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین کے شور و غوغا تمام قصّے اور کہانیاں ہیں۔ اور ہرایک شخص جو اس وقت کئی سو برس کے بعد اپنے کسی پیغمبر یا اوتار کے ہزارہا معجزات سناتا ہے وہ خود اپنے دل میں جانتا ہے کہ وہ ایک قصہ بیان کر رہا ہے جس کو نہ اُس نے اور نہ اُس کے باپ نے دیکھا اور نہ اس کے دادے کو اُس کی خبر ہے۔ وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں تک اس کا یہ بیان صحیح او ر درست ہے کیونکہ یہ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ ایک تنکے کا پہاڑ بنا دیا کرتے ہیں۔ اس لئے یہ تمام قصے جو معجزات کے رنگ میں پیش کئے جاتے ہیں ان کا پیش کرنے والا خواہ کوئی مسلمان ہو یا عیسائی ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا جانتا ہے یا کوئی ہندو ہو جو اپنے اوتاروں کے کرشمے کتابیں اور پستک کھول کر سناتا ہے یہ سب کچھ ہیچ اور لاشَے ہیں اور ایک کوڑی ان کی قیمت نہیں ہوسکتی جب تک کہ کوئی زندہ نمونہ ان کے ساتھ نہ ہو۔ اور سچا مذہب وہی ہے جس کے ساتھ زندہ نمونہ ہے۔‘‘کل مبشر کاہلوں صاحب کی ایک تقریر بھی ہو رہی تھی انہوں نے صحابہ کے بھی اور بعد کے لوگوں کے بھی کئی نمونے دکھائے۔اور یہ روز ہم دیکھتے رہتے ہیں۔’’ کیا کوئی دل اور کوئی کانشنس اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ ایک مذہب تو سچا ہے مگر اس کی سچائی کی چمکیں اور سچائی کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں اور ان ہدایتوں کے بھیجنے والے کے منہ پر ہمیشہ کے لئے مہر لگ گئی ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ ہر ایک انسان جو سچی بھوک اور پیاس خدا تعالیٰ کی طلب میں رکھتا ہے وہ ایسا خیال ہرگز نہیں کرے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سچے مذہب کی یہی نشانی ہو کہ زندہ خدا کے زندہ نمونے اور اس کے نشانوں کے چمکتے ہوئے نور اس مذہب میں تازہ بتازہ موجود ہوں۔‘‘(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 497-498)
پھر آپ فرماتے ہیںکہ چونکہ پہلے نبی ایک خاص قوم اور خاص ملک کے لئے آیا کرتے تھے اس لئے ان کی تعلیم وہیں تک تھی اور جیسا کہ مَیں نے پہلے حوالہ پڑھ دیا ہے اسلام نے فرمایا ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (المائدہ:4)یعنی آج میں نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو پورا کیا ہے۔ پس اسلام تمام مسائل کا حل ہے اور تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
پھر آپ وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میںآباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔ ‘‘(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307)
کسی تلوار سے نہیں، کسی خون خرابے سے نہیں بلکہ دعاؤں اور اخلاق پر زور دینے سے۔پس آج یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ماننے والوں کا کام ہے کہ جس توحید کو پھیلانے اور جس مذہب کے قائم کرنے کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ وہ مذہب جس نے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا کا اعلان کیا۔ وہ مذہب جس میں تاقیامت پیدا ہونے والے تمام امور و مسائل کا حل پیش کر دیا گیا ہے۔ وہ مذہب جو آج بھی زندہ خدا سے تعلق جڑواتا ہے۔ وہ مذہب جو زندہ خدا کے وجود کے نشانات دکھاتا ہے۔ وہ مذہب جس نے آخرین میں بھی اپنا رسول بھیج کر اسے پہلوں سے ملا دیا تا کہ مذہب کی حقیقت معلوم ہو۔ وہ مذہب جس نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہونے کا طریق بتا کر اور پھر اسے قائم کر کے مومنین کے خوف کو امن میں بدل دیا۔ وہ مذہب جس نے اپنے امن اور سلامتی کے پیغام کو روز روشن کی طرح آج بھی خلافت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے دنیا پر واضح کر کے اور چمکا کر دکھا دیا۔ اس پیغام کو دنیا تک پہنچائیں۔ ان تمام اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کر دیں جو کہتے ہیں مذہب اس زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ جو کہتے ہیں آجکل کی ترقی یافتہ دنیا میں جہاں سائنس نئے نئے عجوبے دکھا رہی ہے مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں بتا دیں کہ مذہب اسلام خدا تعالیٰ کی ایک جامع تعلیم ہے اور سائنس اس کے تابع ہے۔ انہیں بتا دیں کہ خارق عادت نشانات کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ آج کی دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نشانات جماعت احمدیہ انہیں دکھا سکتی ہے اور دکھاتی ہے۔ انہیں بتا دیں کہ دعاؤں کی قبولیت کوئی فرسودہ باتیں نہیں بلکہ آج بھی اسلام کا زندہ خدا اس کے خارق عادت نشانات دکھاتا ہے۔ اور دنیا کے ہر کونے میں بسنے والا احمدی یہ نشانات مشاہدہ کرتا اور دیکھتا ہے۔ دنیا کو بتا دیں کہ اسلام ہی اب دنیا کی بقا کا ذریعہ ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہی حقیقی امن کی ضمانت ہے اور اسلام کے زندہ خدا کو ماننے اور اس سے تعلق جوڑنے میں ہی تمہاری دنیا و آخرت کی زندگی ہے۔ آج دنیا میں احمدی مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور نہیں جو یہ حقائق دنیا پر آشکار کر سکے۔ پس اٹھیں اور اس اہم فریضے کو ادا کرنے کے لئے اپنے عَہدوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے معیاروں کو بلند کرتے ہوئے اپنی تمام تر استعدادیں برُوئے کار لاتے ہوئے اپنی دعاؤں کو بھی انتہا تک پہنچا دیں اور غم دنیا کو خود پر اس طرح حاوی کر لیں کہ عرش کا خدا ہمارے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری کوششوں کو بے انتہا برکت سے بھر دے۔ اور رُوئے زمین پر ایک ہی مذہب ہو اور ایک ہی رسول ہو اور ایک خدا ہو جو واحد و یگانہ ہے اور اس کی پرستش کی جاتی ہو۔ جس کی عبودیت کا حق ادا کیا جاتا ہو۔خدا تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ دعا میں دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کے لئے جو کسی بھی رنگ میں کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہے ان کے لئے دعا کریں۔ مسلم اُمّہ کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کوپریشانیوں اور دکھوں سے بچائے اور لیڈروں اور نام نہاد مذہبی رہنماؤں اور گروپوں کے ہاتھ جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور ظلم کر رہے ہیں ان کو ان کے ظلموں سے روکے۔ اسی طرح دنیا کی بہتری کے لئے بھی دعا کریں۔ دنیا بھی جس طرف جا رہی ہے وہ بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے جو کسی ملک میں بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو تباہی سے بچائے اور محفوظ رکھے۔ مجھے اطلاع ملی تھی جلسے کے دوران یہاں بعض عورتوں کو چوٹیں بھی لگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت عطا فرمائے ان کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بھی اپنی حفاظت میں اپنے اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ ہم سب ایمان میں ترقی کرنے والے ہوں ۔ ہمیشہ ہم سب کو، مجھے بھی، آپ کو بھی، دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔
دعا کر لیں۔
