خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی5جون2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جسے مسلمان بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ بعض کے دل کسی نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کر رہے ہوتے ہیں اور بعض عادۃً ماحول کے اثر کی وجہ سے اللہ کا نام لے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنی کمزوریوں، نا اہلیوں اور سستیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر یہی تھی۔ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تدبیر کی طرف توجہ دلا کر پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے اور توکل کرنے کا کہا ہے۔ بہر حال دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو اللہ اللہ تو کرتی ہے لیکن نہ ہی انہیں اللہ تعالیٰ کی حقیقت معلوم ہے، نہ ہی انہیں اللہ کی معرفت حاصل ہے۔ نہ ہی محبت الٰہی کے حصول کے طریق کا انہیں ادراک ہے۔ نہ انہیں یہ پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نہ انہیں یہ پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کس طرح ظاہر ہوتے ہیں یا اس زمانے میں بھی ہو سکتے ہیں یا پرانے قصے ہی تھے۔

               آج اس زمانے میں یہ احمدی مسلمان ہیں جو ان باتوں کا صحیح ادراک رکھ سکتے ہیں اور رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ان باتوں کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے۔ پس اس حقیقت کو جاننا ہر احمدی کے لئے بہت ضروری ہے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں مزید فہم و ادراک حاصل کرے اور اس میں بڑھتا چلا جائے۔ تا کہ خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہو۔ ورنہ اسٹیج کے پیچھے جو اللہ کا لفظ لگا ہوا ہے۔یہ ہمارے ایمان میں کوئی اثر نہیں پیدا کر سکتا۔ (اس موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے استفسار فرمایا کہ سٹیج پہ جو آواز آ رہی ہے پیچھے بھی یہ آواز ٹھیک ہے؟ ٹھیک ہے آواز؟)

                بعض لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اللہ صرف مسلمانوں کے لئے خالص ہے اور اس کو انہوں نے اپنی اجارہ داری بنا لیا ہے۔ جیسے ملائشیا میں علماء نے یہ فیصلہ دیا کہ عیسائی ’اللہ‘ کا لفظ نہیں استعمال کر سکتے اور وہاں کی عدالت نے بھی ان کے خلاف یہ ruling دے کے کئی سو عیسائیوں کو سزا دے دی۔ تو اجارہ داری تو قائم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا، اللہ کے لفظ کا، اللہ کی ہستی کا، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس سے تعلق پیدا کرنے کا نہ انہیں پتا ہے، نہ وہ پتا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بالکل سطحی طور پر اللہ اللہ کئے جاتے ہیں۔

               اِس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پیش کروں گا جس میں اللہ تعالیٰ کی حقیقت، اللہ تعالیٰ کی معرفت، اللہ تعالیٰ سے محبت، اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کے ذرائع کے بارے میں بات کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ کی گہرائی اور اس مضمون کا اظہار ہی ہمیں خدا تعالیٰ کا صحیح ادراک عطا کر سکتا ہے  اور اس کا قرب حاصل کرنے والا بنا سکتا ہے اور ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے ہمارے مقاصد ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ یا  خدا تعالیٰ کا ذاتی نام ہے جو تمام صفات کا جامع ہے اور کسی دوسرے مذہب نے خدا تعالیٰ کے اس ذاتی نام سے ہمیں آگاہی نہیں دی یا اپنے ماننے والوں کو آگاہی نہیں دی، اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر خدا کو پہچاننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ پس ہمیں آپ کے کلام سے فیض پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حقیقت، معرفت، محبت اور قربت کے حصول کے طریق کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس لئے میں نے آج یہ اقتباسات لئے ہیں۔

               [حضور انور نے آواز کی خرابی پر انتظامیہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آواز نہیں آ رہی؟ آخر میں آواز نہیں آ رہی؟ ادھر بھی نہیں آ رہی؟ میں نے آخر والوں سے پوچھا تھا۔ درمیان والوں نے یونہی ہاتھ کھڑے کر دئیے۔ جا کے جائزہ لے کے مجھے بتائیں کہ اب آواز آ رہی ہے کہ نہیں؟ پہلے کیوں بند ہو گئی تھی؟ اسے ہلکا کریں۔ بہت زیادہ اونچی آواز ہے۔ کانوں میں پڑ رہی ہے۔ سٹیج والے جو مائیکروفون ہیں ان کو ہلکا رکھیں۔ یہ آرام سے سن سکتے ہیں۔ آواز کو ہلکا کر دیں۔ اونچی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آواز آنی چاہئے ہلکی آواز ہو۔اگر آواز آ رہی ہے تو سب سے آخر والے ہاتھ کھڑا کریں  بس ٹھیک ہے۔ ]

               دنیا کو اللہ تعالیٰ کی حقیقت بتانے کے بارے میں آپ کس قدر بے چین تھے اس کا اظہار اس ارشاد سے ہوتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرّک یہ ہے کہ مَیں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر مَیں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولتمند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے۔ وہ ہیرا کیا ہے؟ سچّا خدا۔ اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا۔ پس اس قدر دولت پاکر سخت ظلم ہے کہ مَیں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور مَیں عیش کروں۔ یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہوگا۔ میرا دل ان کے فقروفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے۔ ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ ان کے دامن استعدادپُر ہو جائیں۔‘‘ (اربعین نمبر1روحانی خزائن جلد17 صفحہ344-345)

پھر اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کے تعلق کو بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’ وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طُور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلّی فرما ہوا ہے۔ اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے مَیں ہوں۔ مَیں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں۔ اور مَیں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں۔ اور میرے پر ظاہر کیا گیا(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر)کہ جو کچھ مسیح کی نسبت دنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفّارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے۔ خدانے اپنے زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تُو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں۔ اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں۔ اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس قبولیت کا علم دیئے جانا یااور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حدِ علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا۔‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ29-30)

 اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی آپ کے مقابلہ پر نہیں آیا۔ اور جو آئے وہ مغلوب ہوئے، ذلیل ہوئے، خوار ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عبرت کا نشان بنایا۔

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ سے کس طرح تعلق جوڑا جا سکتا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس کی غیر متبدّل صفات قدیم سے آئینہ عالم میں نظر آرہی ہیں اور جس کو ان باتوں کی حاجت نہیں کہ کوئی اس کا بیٹا ہو اور خودکشی کرے تب لوگوں کو اس سے نجات ملے۔ بلکہ نجات کا سچا طریق قدیم سے ایک ہی ہے جو حدوث اور بناوٹ سے پاک ہے(یعنی نئی نئی باتوں اور بناوٹ وغیرہ سے پاک ہے)جس پر چلنے والے حقیقی نجات کو اور اس کے ثمرات کو اسی دنیا میں پالیتے ہیں۔ اور اُس کے سچے نمونے اپنے اندر دیکھتے ہیں۔ یعنی وہ سچا طریق یہی ہے کہ الٰہی منادی کو قبول کرکے اس کے نقش قدم پر ایسا چلیں کہ اپنی نفسانی ہستی سے مر جائیں اور اسی طرح اپنے لئے آپ فدیہ دیں اور یہی طریق ہے جو خدا تعالیٰ نے ابتدا سے حق کے طالبوں کی فطرت میں رکھا ہے۔(یعنی اپنی نفسانی ہستی کو بالکل ختم کریں اور خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنا سب کچھ ڈال دیں۔ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں۔ یہی طریق ہے جو خد تعالیٰ نے ابتدا سے حق کے طالبوں کی فطرت میں رکھا ہے) اور قدیم سے اور جب سے کہ انسان بنایا گیا ہے اور اس روحانی قربانی کا سامان اس کو عطا کردیا گیا ہے اور اس کی فطرت اس سامان کو اپنے ساتھ لائی ہے اور اسی پر متنبہ کرنے کے لئے ظاہری قربانیاں بھی رکھی گئیں ‘‘۔ فرماتے ہیں ’’مَیںنے کبھی کسی چیز پر ایسا تعجب نہیں کیا جیسا کہ ان لوگوں کی حالت پر تعجب کرتا ہوں کہ جو کامل اور زندہ اور حیّ قیّوم خدا کو چھوڑ کر ایسے بیہودہ خیالات کے پیرو ہیں اور اُن پر ناز کرتے ہیں‘‘۔ (نور القرآن نمبر1۔روحانی خزائن جلد9صفحہ 366-365حاشیہ)

               پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی حقیقی پہچان اور اس سے سچا تعلق کس طرح ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’ایسا ہی قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہریک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرّا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہو۔ اور وہ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمیٰ فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمیٰ۔(بنی اسرائیل:73)یعنی جو شخص اِس دنیا میں اندھا رہے گا اور اُس ذات کا اس کو دیدار نہیں ہوگا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اس سے جدا نہیں ہوگی۔ کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اِسی دنیا میں حواس ملتے ہیں اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہا ں تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اِسی دنیا میں دیدارِ الٰہی میسر آسکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا ۔(الکہف:111) یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اُس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو۔ یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں، نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ مَیں ایسا ہوںاور ایسا ہوں۔ اور نہ وہ عمل ناقص اور ناتمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو۔ بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں۔ اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج، نہ چاند، نہ آسمان کے ستارے، نہ ہوا، نہ آگ، نہ پانی، نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے۔ اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں۔ اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ اپنے علم پرکوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز۔ بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے۔ اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہؤا ہے نہایت صافی اور شیریں۔ پس اس نے افتاں و خیزاں بہرحال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا (مشکلوں سے اس چشمہ کے میٹھے پانی کو پینے کے لئے اپنے آپ کو چشمے تک پہنچا دیا۔ )اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا۔‘‘ (لیکچر لاہورروحانی خزائن جلد20،صفحہ153-154)

               پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی حقیقت معلوم کرنی ہے تو پھر ہمیں کیسا ہونا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں:

               ’’اے سننے والو سنو!کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟ بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ۔ اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو۔ نہ آسمان میں، نہ زمین میں۔ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اَب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا۔ یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں۔ بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے۔ اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں۔ کوئی صفت بھی معطّل نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔ وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں۔ وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں۔ جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں۔ وہ قریب ہے باوجود دُور ہونے کے۔ اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔ وہ تمثّل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے(مثال کے طور پر سامنے آ جاتا ہے)مگر اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے۔ اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقّہ کا(سب تعریفیں اسی کی ہیں) اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا(اسی سے تمام خوبیاں پھوٹتی ہیں)۔اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبدأ ہے تمام فیضوں کا(ہر فیض اسی کی طرف سے آتا ہے)۔اور مرجع ہے ہر ایک شئے کا(اسی کی طرف لوٹنا ہے)۔ اور مالک ہے ہر ایک ملک کا۔ اور متّصف ہے ہر ایک کمال کا۔ اور منزّہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔ اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں۔ اور اس کے آگے کوئی بات بھی اَنہونی نہیں۔ اور تمام روح اور ان کی طاقتیں اور تمام ذرّات اور ان کی طاقتیں اُسی کی پیدائش ہیں۔ اس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اُس کو اُسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں۔ اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتاہے اور اپنی قدرتیں اُن کو دکھلاتا ہے۔ اِسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے۔ اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے۔ اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا اس کا کام ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارے میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے‘‘۔

               [ یہاں پھر آواز کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضور انور نے فرمایا: بیک اَپ جنریٹر نہیں ہے؟ یہ سسٹم کی بجلی بند ہو گئی تھی حالانکہ ان کو بیک اَپ جنریٹر رکھنا چاہئے تھا یا کوئی سسٹم رکھنا چاہئے تھا]

               ’’ پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں۔ نادان ہے وہ جو اس کی قدرتوں سے انکار کرے۔ اندھا ہے وہ جو اس کی عمیق طاقتوں سے بے خبر ہے۔ وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر ان امور کے جو اس کی شان کے مخالف ہیں یا اس کے مواعید کے برخلاف ہیں۔ اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں۔ اور اس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ309تا311)

               پس اس کے علم حاصل کرنے کاقرآن کریم کے علاوہ اور کوئی دروازہ نہیں۔

 پھر آپ فرماتے ہیں:

               ’’ لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے۔ جیسے بھروسہ ان کو حرام کے دروازہ پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان یہ ایک نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسیٖ اَور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں( اگر اس کی قدر ہو تو یہ دل چاہے، جی چاہے کہ جیسے اَور عجیب نسخے مخفی رکھنا چاہتے ہیں، بعض کنجوس طبع آدمی واقعی مخفی رکھتے ہیں۔)ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے۔ مَیں نے کئی دفعہ بیماریوں میں آزمایا ہے کہ پیشاب بار بار آ رہا ہے، دست بھی لگے ہیں۔ آخر خدا سے دعا کی۔ صبح کو الہام ہوا۔ دُعَآئُ کَ مُسۡتَجَابٌ۔ اس کے بعد ہی وہ کثرت جاتی رہی اور کمزوری کی جگہ طاقت آ گئی۔ یہ خدا کی طاقت ہے۔ خدا ایسا عجیب ہے کہ ان نسخوں سے بھی زیادہ قابل قدر ہے جو کیمیا وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ مجھے بھی ایک دفعہ خیال آیا کہ یہ تو چھپانے کے قابل ہے۔ پھر سوچا کہ یہ تو بخل ہے۔ ایسی مفید شئے کا دنیا پر اظہار کرنا چاہئے کہ مخلوق الٰہی کو فائدہ حاصل ہو۔یہی فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے خدا میں ہے۔ ان کا خدا بولتا نہیں۔ خدا معلوم یہ بھی کیسا ایمان ہے۔ اسلام کا خدا جیسا پہلے تھا ویسے ہی اب ہے۔ نہ طاقت کم ہوئی، نہ بوڑھا ہوا، نہ کچھ اور نقص اس میں واقع ہوا۔ ایسے خدا پر جس کا ایمان ہو وہ اگر آگ میں بھی پڑا ہو تو اسے حوصلہ ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو آخر آگ میں ڈالا ہی تھا۔ ایسے ہی ہم بھی آگ میں ڈالے گئے۔ خون کا مقدمہ بنایا گیا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قتل کا مقدمہ بنایا گیا۔ فرمایا کہ) اگر اس میں پانچ یا دس سال کی قید ہو جاتی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پانچ یا دس سال کی قید ہو جاتی)تو سب سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ سب قوموں نے متفق ہو کر یہ آگ سلگائی تھی۔ کیا کم آگ تھی؟ اس وقت سوائے خدا کے اَورکون تھا؟ اور وہی الہام ہوئے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوئے تھے۔ آخر میں الہام ہوا۔ اِبْرَائٌ۔ اور تسلّی دی کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 220-221۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

               حضرت مسیح موعود علیہ السلام معرفت الٰہی کے بارے میں کہ کس طرح حاصل ہوتی ہے، فرماتے ہیں:

               ’’ خدا تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے۔ لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں۔ جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الٰہی کو محض اس جہت سے قبول کر لیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام(یعنی خبریں اور وہ حکم)ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے۔ (پھر عرفان بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ فرمایا)اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کر کے سب عقدے ان کے کھولے جائیں۔ لیکن افسوس کہ جلد باز انسان اِن راہوں کو اختیار نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریم ؐکی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گے اور اس کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا۔ اور اِس وعدہ کا صدق ہمیشہ راستبازوں پر جو مجاہدات سے خدا تعالیٰ کو ڈھونڈھتے ہیں ظاہر ہوجاتا ہے۔(جو سچائی سے اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈتے ہیں ان پر سچائی ظاہر ہو جاتی ہے) غرض جو بات مومنوں کی معمولی سمجھ سے برتر ہے اس کے دریافت کرنے کی یہ راہ نہیں ہے کہ وہ فرقہ ضالّہ فلاسفروں کے دستِ نگر ہوں اور گم گشتہ سے راہ پوچھیں (جو پہلے ہی گما ہوا ہے اس سے راہ پوچھیں)بلکہ ان کے لئے صدق اور صبر سے عرفان کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے جس مرتبہ پر پہنچ کر تمام عُقدے ان کے حل ہوجاتے ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 252تا254حاشیہ)

               پھر اس بات میں کہ اصل معرفت الٰہی اسلام میں رہ کر حاصل ہوتی ہے لیکن نام کا رہنا نہیں کہ مسلمان ہو گئے بلکہ قرآن کریم کے حکموں پر عمل سے۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت آ جاتی ہے۔(ہر ایک مسلمان کو نہیں عطا کرتا۔ بلکہ صرف وہ جو کوشش کرے۔ اور فرمایا:) اور پھر اسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جو بہشتی زندگی ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر قرآن کریم سے اعراض صُوری یا معنوی نہ ہو (ظاہری اور معنوی کسی قسم کا بھی اِعراض نہ ہو۔ اس کے ہر حکم کو سمجھ کر غور کر کے ظاہری طور پر بھی اور معنوی طور پر بھی سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ فرمایا اگر اس سے اعراض نہ ہو) تو اللہ تعالیٰ اس میں اور اس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی معرفت بڑھتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قویٰ دئیے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرار قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے۔ وہ ان باتوں کو سنتا ہے کہ اوروں کو اس کی خبر نہیں۔ اسی لئے فرمایا  مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمیٰ فَھُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ اَعْمیٰ۔(بنی اسرائیل:73) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس جہان کے لئے انسان اِسی عالم سے حواس لے جاتاہے۔ اسی جگہ سے وہ بصارت لے جاتا ہے  جو وہاں کی اشیاء اور عجائبات کو دیکھے۔ اور یہاں ہی سے وہ شنوائی لے جاتا ہے جو سنے۔ گویا جو اس جہان میں وہاں کی باتیں دیکھتا اور سنتا نہیں وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا‘‘۔(ملفوظات جلد7صفحہ443۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

پھر آپ فرماتے ہیں:

               ’’قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا۔ یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔( یا دنیا کی طرف جھک گیا ) گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خداتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچّی اور پکّی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے برے طریق کو نہیں چھوڑتا (جو بھی انسان کے قویٰ ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کو استطاعت اور استعدادیں دی ہوئی ہیں۔ جو انسان کے اعضاء ہیں وہ دئیے ہوئے ہیںاوردوسری طاقتیں ہیں جب تک ان کے برے طریق کو نہیں چھوڑتا)اس وقت تک خد انہیں ملتا۔ (پس پہلے ان برے طریق کو چھوڑنا پڑے گا پھر خدا ملے گا) دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذّات کو ترک کرو۔ ورنہ    ؎

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں

ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ358۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

کہ تُو اگر خدا تعالیٰ کو چاہتا ہے اور اس گھٹیا دنیا کو بھی تو یہ صرف خیال ہی ہے اور ناممکن ہے اور دیوانہ پن ہے۔

پھر محبت الٰہی کی حکمت و اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’ قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رُو سے اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ۔ (جس طرح وہ واحد لاشریک ہے ایسی ہی اس سے محبت بھی تمہیں ہو کہ اس جیسی کسی اور سے محبت نہ ہو۔ اس کو واحد اور لاشریک ٹھہراؤ)جیسا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  جو ہر وقت مسلمانوں کو وِرد زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہاِلٰہ۔ وِلَاہٌ سے مشتق ہے۔ اور اس کے معنے ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے۔ یہ کلمہ نہ توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے۔ صرف قرآن نے سکھلایا۔ اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے۔ یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے ۔… یہ اسلام ہی کا خاصّہ ہے کہ صبح ہوتے ہی اسلامی مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے کہ أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اور محبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں۔ پھر دوپہر کے بعد یہی آواز اسلامی مساجد سے آتی ہے۔ پھر عصر کو بھی یہی آواز، پھر مغرب کو بھی یہی آواز، اور پھر عشا کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے۔ کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے؟ فرماتے ہیں: ’’پھر بعد اس کے لفظ اسلام کا مفہوم بھی محبت پر ہی دلالت کرتا ہے۔(پھر اس کے بعد جو لفظ اسلام ہے اس کا مفہوم بھی محبت پر دلالت کرتا ہے) کیونکہ خداتعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا اور صدق دل سے قربان ہونے کے لئے تیار ہوجانا جو اسلام کا مفہوم ہے یہ وہ عملی حالت ہے جو محبت کے سرچشمہ سے نکلتی ہے۔ اسلام کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے صرف قولی طور پر محبت کو محدود نہیں رکھا (صرف باتوں سے، منہ سے کہنے سے محبت کو محدود نہیں کر دیا)بلکہ عملی طور پر بھی محبت اور جانفشانی کا طریق سکھایا ہے۔ دنیا میں اور کونسا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے؟ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنی کُوٹ کُوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں۔ پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے۔ ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآاَشَدُّ حُبًّالِلّٰہِ(البقرۃ:166)۔ یعنی ایماندار وہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔  فَاذْکُرُوْااللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآؤَکُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا(البقرۃ: 201)۔یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الانعام:163)۔ یعنی ان کو جو تیری پیروی کرنا چاہتے ہیں یہ کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا زندہ رہنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ یعنی جو میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ بھی اس قربانی کو ادا کرے۔(جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا چاہتا ہے وہ اسی طرح قربانی کرے، اسی طرح عمل کرنے کی کوشش کرے، اُسی اُسوہ پر چلے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے قائم فرمایا ہے۔)اور پھر ایک جگہ فرمایا کہ اگر تم اپنی جانوں اور اپنے دوستوں اور اپنے باغوں اور اپنی تجارتوں کو خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری چیزیں جانتے ہو تو الگ ہو جاؤ۔( اگر یہ سب دنیاوی دوستیاں، تجارتیں، کام، خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو پھر الگ ہو جاؤ ،پھر مسلمان نہ کہلاؤ۔)جب تک خدا تعالیٰ فیصلہ کرے۔ اور ایسا ہی ایک جگہ فرمایا۔   وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا(الدھر:9۔10)۔ یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی محبت اور اس کے منہ کے لئے تمہیں دیتے ہیں۔(کوئی ذاتی مقصد نہیں ۔ خدا کی محبت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہم خدمت خلق کے یہ کام کرتے ہیں)ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ شکر گذاری چاہتے ہیں۔ غرض قرآن شریف ایسی آیتوں سے بھرا پڑا ہے جہاں لکھا ہے کہ اپنے قول اور فعل کے رُو سے خدا کی محبت دکھلاؤ اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرو۔

                لیکن اس سوال کی یہ دوسری جزو کہ قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ خدا بھی انسانوں سے محبت کرتا ہے؟ (یہ بھی قرآن شریف میں کہیں لکھا ہے کہ خدا بھی انسانوں سے محبت کرتا ہے؟) پس واضح ہو کہ قرآن شریف میں یہ آیات بکثرت موجود ہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اورخدا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور خدا صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ہاں قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں کہ جو شخص کفر اور بدکاری اور ظلم سے محبت کرتا ہے خدا اس سے بھی محبت کرتا ہے۔(یہ نہیں ہو سکتا)بلکہ اِس جگہ اُس نے اِحْسَان کا لفظ استعمال کیا ہے۔(یعنی جو کفر اور بدکاری اور ظلم کرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اس کی جگہ احسان کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے)  جیسا کہ وہ فرماتا ہے  وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء:108)۔  یعنی تمام دنیا پر رحم کر کے ہم نے تجھے بھیجا ہے۔(اب کفر کرنے والے بھی بہت سارے ہیں۔ بیہودگیاں کرنے والے بھی بہت سارے ہیں۔ اسلام سے بغض رکھنے والے بھی بہت سارے ہیں۔ لیکن سب کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔)آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اور عالَمین میں کافر اور بے ایمان اور فاسق اور فاجر بھی داخل ہیں اور ان کے لئے رحم کا دروازہ اس طرح پر کھولا کہ وہ قرآن شریف کی ہدایتوں پر چل کر نجات پاسکتے ہیں۔‘‘ (یہ سارے لوگ اگر نجات چاہتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا ہے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ہدایتوں پر چلیں، ایمان لے آئیں تو نجات پا جائیںگے۔ فرمایا کہ) مَیں اس بات کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ قرآن شریف میں خدا کی محبت انسانوں سے اس قسم کی بیان نہیں کی گئی کہ اس نے کوئی اپنا بیٹا بدکاروں کے گناہوں کے بدلہ میں سولی دلوا دیا اور ان کی لعنت اپنے پیارے بیٹے پر ڈال دی۔ خدا کے بیٹے پر لعنت نعوذ باللہ خود خدا پر لعنت ہے۔ کیونکہ باپ اور بیٹا دو نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ لعنت اور خدائی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ پھر یہ بھی سوچو کہ خدا نے دنیا کے بدکاروں سے یہ کیسی محبت کی کہ نیک کو مارا اور بُرے سے پیار کیا۔( یہ جو دوسروں کا نظریہ ہے)یہ ایسا خُلق ہے جس کی کوئی راستباز پیروی نہیں کر سکتا‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 367تا 369)

               پھر اللہ تعالیٰ اپنے مقرّبوں سے یا بعض دفعہ جن کو قرب کا گواہ بنانا چاہتا ہے کس طرح انہیں خبریں دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ :

               ’’ خدا کی ہستی کے ماننے کے لئے اِس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم اور کوئی راہ نہیں کہ وہ غیب کی باتیں اور پوشیدہ واقعات اور آئندہ زمانہ کی خبریں اپنے خاص لوگوں کو بتلاتا ہے اور وہ نہاں درنہاں اسرار جن کا دریافت کرنا انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے اپنے مقربوں پر ظاہر کر دیتا ہے۔ کیونکہ انسان کے لئے کوئی راہ نہیں جس کے ذریعہ سے آئندہ زمانہ کی ایسی پوشیدہ او ر انسانی طاقتوں سے بالاتر خبریں اس کو مل سکیں۔ اور بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ غیب کے واقعات اور غیب کی خبریں بالخصوص جن کے ساتھ قدرت اور حکم ہے ایسے امور ہیں جن کے حاصل کرنے پر کسی طور سے انسانی طاقت خود بخود قادر نہیں ہو سکتی‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 143)

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی کا یہ اثر جماعت احمدیہ کے افراد پر بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات کو بتانے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اللہ تعالیٰ تم سے کتنا پیار کرتا ہے،بعضوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بعض خبریں بتا دیتا ہے۔ کل ہی عربوں کے ساتھ جو ملاقات تھی اس میں ایک عرب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ نہ مجھے جانتے تھے نہ ان سے میرا کوئی تعارف تھا لیکن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی زندگی میں آخری دنوں میں دیکھ لیا کہ آئندہ خلیفہ کون ہو گا اور مجھے پتا لگا کہ تمہاری شکل میرے سامنے آ گئی۔

               پھر قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس بارہ میںخطبہ الہامیہ میں یہ لکھا ہوا ہے :

               ’’اِنَّ الضَّحَایَا ھِیَ الۡمَطَایَا تُوۡصِلُ اِلٰی رَبِّ الۡبَرَایَا وَتَمۡحُوالۡخَطَایَا وَتَدۡفَعُ الۡبَلَایَا۔ ھٰذَا مَا بَلَغَنَا مِنۡ خَیۡرِ الۡبَرِیَّۃِ۔‘‘ قربانیاں وہی سواریاں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہترہیں۔ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ 45)

پھر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’ خدا کی طرف دوڑو اور تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو جاؤ۔ ایسے گھوڑوں کو چھوڑو جو لنگڑا کے چلتے ہیں تا اپنے خدا کو ملو۔ خدا کی طرف منقطع ہو جانا عادت پکڑوتا خدا کا وصال اور اس کا قرب تمہیں عنایت کیا جائے اور اسباب کو توڑ دو تا کہ تمہارے لئے اسباب پیدا کئے جائیں۔ (خطبہ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 71-72) دنیا کے اسباب کو چھوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑو تو یہ دنیا کے اسباب بھی تمہاے لئے پیدا کئے جائیں گے۔

پھر آپ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے پیاروں کے نمونوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ خود ہی اپنے قوت بازو سے تم کچھ حاصل کر لو گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان ،علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو۔وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔ اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کے لئے ہے۔ اور اس قدر استغراق دنیا میں ہورہا ہے کہ خداتعالیٰ کے لئے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا۔ تجارت ہے تو دنیا کے لئے۔ عمارت ہے تو دنیا کے لئے۔ بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کے لئے۔ دنیاداروں کے قرب کے لئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے(ہم مسلمان ہو گئے بس اتنا کافی ہے ؟) ’’یا وہ بلند غرض ہے؟ مَیں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اس سے تسلّی پاتا ہے۔‘‘

(لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 294)

               پھر آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’ہر ایک آدمی کے ساتھ ایک تمنّا ہوتی ہے لیکن کوئی شخص مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ ساری تمناؤں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو مقدم نہ کر لے۔ ولیؔ قریبی اور دوست کو کہتے ہیں۔ جو دوست چاہتا ہے وہی یہ چاہتا ہے تب یہ ولی کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات:57)۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش رکھے تب وہ اپنے ابنائے جنس سے بڑھ جائے گا اور خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے بن جائے گا۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل۔ صفحہ 396۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

جب اس مقصد کو پہنچ لوگے کہ عبادت کرنی ہے۔ دوسروں سے بڑھنا ہے تو پھر خدا کے مقرب بن جاؤ گے۔        پھر آپ فرماتے ہیں :

               ’’انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 444۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

اور اقام الصلوٰۃ نمازوں کی بروقت ادائیگی ہے۔ باقاعدگی سے نمازیں ادا کرنا، بروقت ادا کرنا، بغیر ناغے کے اور سنوار کر ادا کرنا، یہ اقام الصلوٰۃ ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم جب خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس شرط کو بھی پورا کرتے ہیں کہ نہیں؟ یہ تو اس کی بنیادی چیز ہے ۔

               پھرآپ فرماتے ہیں :

               ’’یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز۔ صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں۔ یہ قرب کی کنجی ہے۔ اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔( نمازیں اچھی طرح ادا کی جائیں تو یہی اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہیں۔)اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے۔( رسم اور عادت سے پیار کرتا ہے۔)جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 446۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

پھر ایک جگہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے طریق بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم      علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا  وَاِبْرٰھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی۔ (النجم:38)۔کہ ابراہیم وہ ابراہیم ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو، یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہرایک چیز جو خدا تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدّم ہوتی ہے وہ بُت ہے۔ اور اس قدر بُت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہا ہوں۔ پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتاصدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا، یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبْرٰھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی کی آواز اُس وقت آئی جب کہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیار کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ اُن پر کوئی اثر نہ کر سکی۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدچہار م صفحہ 429-430۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

پھر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے طریق کے بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں کہ:

               ’’بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اللہ تعالیٰ سے یہاں تک قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنۡ عَادَ لِیۡ وَلِیًّا فَاٰذَنۡتُ لَہٗ لِلۡحَرۡبِ کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لئے تیار ہو جاوے۔ اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لئے ہوتی ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شئے میں اس قدر تردّد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہے اور اسی لئے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہتا ہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے‘‘۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 126-127۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

                پس یہ سلوک ہے جو خدا تعالیٰ اُن لوگوں سے کرتا ہے جو اس کے قرب میں آتے ہیںیا اسے پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی رنگ میں یہ قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب عام قرب پانے والوں کی یہ حالت ہے تو وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اس کے فرستادے ہوتے ہیں ان کے ساتھ کس طرح غیر معمولی سلوک خدا تعالیٰ کرتا ہو گا۔ ان کے لئے نشانات دکھاتا ہو گا اور نشان دکھاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ سلوک اللہ تعالیٰ کا خارق عادت طور پر رہا اور اب تک آپ کی جماعت کے اوپرہے۔ حضرت مسیح موعود   علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اسی سلوک کا اپنی کتب اور ارشادات میں ذکر بھی فرماتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو قبولیت عطا فرماتا ہے اور کس طرح تائیدی نشانات دکھاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں۔

 آپ فرماتے ہیں :

               ’’ قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلام شروع ہوا ہے سنّت اللہ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے۔ یعنی تائیدی نشانوں سے مقر ّب ہونا ثابت کر دیتا ہے۔ تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے۔ اگر میں سچ مُچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے۔ بات سہل تھی۔کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطورایکحَکَمْ کے فعل کے مان لیتے مگر ان لوگوں کو تو اس قسم کے مقابلہ کا نام سننے سے بھی موت آتی ہے۔‘‘(اربعین نمبر 4۔روحانی خزائن جلد17 صفحہ 451-452)

پھر دعاؤں کی قبولیت کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

               ’’یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے ۔     (خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے ان کی دعا کا قبول ہونا یہ بھی بڑا نشان ہوتا ہے)بلکہ استجابت ِدعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابت دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعاکا قبول ہوجانا ہر جگہ لازمی امر نہیں۔ کبھی کبھی خدائے عزّ و جل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزّت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت ِدعا کے مرتبہ میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہزارہا میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: ’’اگر میں سب کو لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے اور کسی قدر مَیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اس جگہ بھی چند دعاؤں کا قبول ہونا تحریر کرتا ہوں‘‘۔

فرماتے ہیں کہ:

               ’’ چنانچہ منجملہ ان کے استجابت دعا کا ایک یہ نشان ہے کہ ایک میرے مخلص سیدناصر شاہ نام جو اب کشمیر بارہ مولہ میں اُورسیئر ہیں وہ اپنے افسروں کے ماتحت نہایت تنگ تھے اور کئی آدمی ان کی ترقی کے حارج تھے بلکہ ان کی ملازمت خطرہ میں تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے مصمّم ارادہ کر لیا کہ میں استعفیٰ دے دیتا ہوں تا اس ہر روزہ تکلیف سے نجات پاؤں مَیں نے ان کو منع کیا۔ مگر وہ اس قدر ملازمت سے عاجز آگئے تھے کہ انہوں نے بار بار نہایت عجز و انکسار سے عرض کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میری جان ایک بلا میں گرفتار ہے (بڑی مشکل میں ہوں)اور حد سے زیادہ اصرار کیا اور کہا کہ میرے لئے ترقی عہدہ کی راہ بند ہے(یہ بھی کوئی امکان نہیں کہ ترقی ہو جائے)بلکہ ایسا نہ ہو کہ کسی ظالم کے ہاتھ سے فوق الطاقت مجھے ضرر پہنچ جائے۔ تب میں نے ان کو کہا کہ کچھ دن صبر کرو مَیں تمہارے لئے دعا کروں گا اوراگر پھر بھی مشکلات پیش آئیں تو پھر اختیار ہے۔(پھر بیشک چھوڑ دو۔فرماتے ہیں کہ)بعد اس کے میں نے جناب الٰہی میں ان کے لئے دعا کی اور حضرت عزّت سے ان کی کامیابی چاہی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ پہلی ملازمت بھی خطرہ میں تھی غیر مترقب طورپر ترقی ہو گئی۔ چنانچہ ذیل میں سید ناصر شاہ صاحب کا خط درج کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ دعا نے ان کی حالت پر کیا اثر کیا اوروہ یہ ہے‘‘۔

سید ناصر شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھتے ہیںکہ

               ’’بحضور اقدس حضرت پیرو مرشد… خاکسار نابکار سید ناصر شاہ بعد از سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عرض رساں ہے کہ حضور والا کی دعا نے یہ اثر دکھایا کہ حضور کی دعا کی برکت سے ترقی عہدہ اور ترقی تنخواہ ہو گئی۔ حضور والا کے وہ الفاظ خاکسار کو بخوبی یاد ہیں کہ جب خاکسار نے آزردہ خاطر ہو کر عرض کیا تھا کہ اب ملازمت چھوڑ دوں گا۔لیکن حضور نے بڑے لطف اور رحم سے فرمایا تھا کہ گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہم دعا کریں گے۔ خدا قادر ہے کہ انہیں دشمنوں کو تمہارادوست بنا دے گا۔ سو جناب والا!الحمدللہ کہ جو جو الفاظ حضور والا نے فرمائے تھے اسی طرح ظہور میں آگیا اور وہی دشمن بعد میں میرے لئے دوست اور سفارش کرنے والے بن گئے۔ خدا نے حضور کی دعا سے ان کا دل میری طرف پھیردیا۔ ایک اَور بڑا معجزہ حضور والا کی برکت سے یہ ظہور میںآیا کہ ممبران بالا کی طرف سے مجھ پر اعتراض ہوا تھا کہ ناصر شاہ نے کالج کا پاس نہیں کیا اور نہ کسی امتحان کی سند ہے۔ اس لئے عہدہ کی ترقی کا کیونکر مستحق ہو سکتا ہے۔ اِدھر یہ اعتراض تھا اور اس طرف سے حضور کا والا نامہ صادر ہوا کہ ہم نے جہاں تک ممکن تھا بہت دعا کی ہے۔ سو جناب عالی وہی دن تھا جبکہ میری نسبت کاغذات کونسل میں پیش ہوئے اور صاحب بہادر نے میرے لئے بہت زور دے کر کہا اور عجیب تر یہ کہ وہی مخالف میرے لئے سفارش کرنے والے تھے اور دلی دوستی اور خیر خواہی سے میری ترقی کے خواہاں تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر کسی عذر و حیلہ کے میری ترقی کے لئے ریزولیوشن پاس ہو گیا۔ فالحمدللہ علی ذالک‘‘۔(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 334 تا 336)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمن تاجر مدراس۔ ان کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں۔ چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اس لئے ان کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردّد ہوا۔ قریبًا نو بجے دن کا وقت تھا کہ مَیں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جھک گیا اور معاً خدائے عز ّوجل کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۔ بعد اس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن پھر ایک اور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اس لئے دوبارہ غم ا ور فکر نے استیلا کیا اور غم انتہا تک پہنچ گیا۔ اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبد الرحمن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنودیٔ خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور ان کا حق تھا کہ ان کے لئے بہت دعا کی جائے۔ آخر دل نے ان کے لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیارات اور کیا دن، مَیں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہا۔تب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبد الرحمن صاحب کو نجات بخشی گو یا ان کو نئے سرے سے زندہ کیا۔ چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی امید نہ تھی۔ آپریشن کے بعد زخم مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اورتہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہواکہ وہ کاربنکل نہیں۔ آخر چند ماہ کے بعد بکلّی شفا ہو گئی‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یقیناجانتا ہوں کہ یہی مردہ کا زندہ ہونا ہے۔ کاربنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی۔ اس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے۔ ہمارا خدا بڑا کریم و رحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک اِحیاء کی صفت بھی ہے‘‘ ۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 338-339 )

پھر ان نشانات کے ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ :

               ’’مَیں انگریزی سے بالکل بے بہرہ ہوں(بالکل انگریزی نہیں آتی)تا ہم خدا تعالیٰ نے بعض پیشگوئیوں کو بطور موہبت انگریزی میں میرے پر ظاہر فرما یا ہے‘‘ جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحات لکھے ہیں ان میں ’’یہ پیشگوئی ہے جس پر25 برس گذر گئے اور وہ یہ ہے:۔

I love you. I am with you. Yes I am happy. Life of pain. I shall help you. I can, what I will do. We can, what we will do. God is coming by His army. He is with you to kill enemy. The days shall come when God shall help you. Glory be to the Lord. God maker of earth and heaven.

مَیں تم سے محبت کرتا ہوں۔ مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہاں مَیں خوش ہوں۔ زندگی دکھ کی( یعنی موجودہ زندگی تمہاری تکالیف کی زندگی ہے) مَیں تمہاری مدد کروں گا۔ مَیں کر سکتا ہوں جو چاہوں گا۔ ہم کر سکتے ہیں جو چاہیں گے۔ خدا تمہاری طرف ایک لشکر کے ساتھ چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔

 یہ وہ پیشگوئی ہے کہ انگریزی میں خدائے واحد لا شریک نے کی حالانکہ میں انگریزی خوان نہیں ہوں اور بکلّی اس زبان سے نا واقف ہوں۔ مگر خدا نے چاہا کہ اپنے آئندہ وعدوں کو اس ملک کی تمام شہرت یافتہ زبانوں میں شائع کرے۔ سو اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے کہ جو تمہاری موجودہ حالت دکھ اور تکلیف کی ہے مَیں اس کو دُور کروں گا اور مَیں تمہاری مدد کروں گا۔ اور ایک فوج کے ساتھ تمہارے پاس آؤں گا اور دشمن کو ہلاک کروں گا۔ اس پیشگوئی میں سے بہت کچھ حصہ پورا ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر ایک نعمت کا دروازہ میرے پر کھول دیا ہے اور ہزارہا انسان دل و جان سے میری بیعت میں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔

               آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اس پیشگوئی کے وقت میں کون جانتا تھا کہ کس وقت اس قدر نصرت آئے گی۔ سو یہ عجیب پیشگوئی ہے جس کے الفاظ بھی ایک نشان ہیں یعنی انگریزی عبارت اور معانی بھی نشان ہیں کیونکہ ان میں آئندہ کی خبر ہے‘‘۔(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 316تا 318)

 اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ کی خبریں وہاں سے نکل کے ہم بیرونی دنیا میں بھی بڑی شان سے پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔

پھر آپ فرماتے ہیں:

               ’’ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیا علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ذریعہ ان کے معجزات اور نشانات ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی شخص اگر حاکم مقرر کیا جاوے تواس کو نشان دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پر خداتعالیٰ کے مامورین کی شناخت کے لئے بھی نشانات ہوتے ہیں۔ اور مَیں دعوی سے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں نہ ایک نہ دو، نہ دو سو بلکہ لاکھوں نشانات ظاہر کئے۔ اور وہ نشانات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی انہیں جانتا نہیں بلکہ لاکھوں ان کے گواہ ہیں۔ اور مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اس جلسہ میں بھی صدہا ان کے گواہ موجود ہوں گے۔ آسمان سے میرے لئے نشان ظاہر ہوئے ہیں۔ زمین سے بھی ظاہر ہوئے ہیں‘‘۔

اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں بھی بعض لوگ ان نشانات کے گواہ ہیں۔

 پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

                ’’وہ نشانات جو میرے دعوی کے ساتھ مخصوص تھے اورجن کی قبل از وقت اَور نبیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خبر دی گئی تھی وہ بھی پورے ہوگئے۔ مثلاً ان میں سے ایک کسوف خسوف کا ہی نشان ہے جو تم سب نے دیکھا۔ یہ صحیح حدیث میں خبر دی گئی تھی کہ مہدی اور مسیح کے وقت میں رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند گرہن ہوگا۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ نشان پورا ہؤا ہے یا نہیں؟ کوئی ہے جو یہ کہے کہ اس نے یہ نشان نہیں دیکھا؟ اورایسا ہی یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ اُس زمانہ میں طاعون پھیلے گی۔ یہاں تک شدید ہوگی کہ دس میں سے سات مر جاویں گے۔ اب بتاؤ کہ کیا طاعون کا نشان ظاہر ہؤا یا نہیں؟ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ اس وقت ایک نئی سواری ظاہر ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ کیا ریل کے اجراء سے یہ نشان پورا نہیں ہؤا؟ مَیں کہاں تک شمار کروں۔ یہ بہت بڑا سلسلہ نشانات کا ہے۔ اب غور کرو کہ مَیں تو دعوی کرنے والا دجّال اور کاذب قرار دیا گیا۔ پھر یہ کیا غضب ہؤا کہ مجھ کاذب کے لئے ہی یہ سارے نشان پورے ہوگئے؟ اور پھر اگر کوئی آنے والا اَور ہے تو اس کو کیا ملے گا؟ کچھ تو انصاف کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو۔ کیا خدا تعالیٰ کسی جھوٹے کی بھی ایسی تائید کیا کرتا ہے؟ پھرعجیب بات ہے کہ جو میرے مقابلہ پر آیا وہ ناکام اور نامراد رہا اور مجھے جس آفت اور مصیبت میں مخالفین نے ڈالا، مَیں اس میں سے صحیح سلامت اور بامراد نکلا۔ پھر کوئی قسم کھا کر بتاوے کہ جھوٹوں کے ساتھ یہی معاملہ ہؤا کرتا ہے‘‘؟  (لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 291-292)

جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بے شمار نشانات درج فرمائے ہیں۔ مَیں نے چند ایک کا ذکر کیا ہے۔ ایک مجلس میں آپ فرماتے ہیں:

               ’’اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہزاروںایسے نشانات عطا کیے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ ہماری جماعت کے اس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں۔ کون ہے جس نے کم ازکم دو چار نشان نہیں دیکھے اور اگر آپ چاہیںتو کئی سو آدمی کو باہر سے بلوائیںاور اُن سے پوچھیں‘‘۔( بلکہ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے باہر کی دنیا بھی نشانوں سے بھری پڑی ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’اس قدر احبار اور اخیار اور متقی اور صالح لوگ جو کہ ہر طرح سے عقل اور فراست رکھتے ہیںاور دنیوی طور پر اپنے معقول روز گاروں پر قائم ہیں کیا ان کو تسلی نہیں ہوئی؟ کیا انہوں نے ایسی باتیںنہیں دیکھیں جن پر انسان کبھی قادر نہیںہے؟ اگر ان سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو اوّل درجہ کا گواہ قرار دے گا۔ کیا ممکن ہے کہ ایسے ہر طبقہ کے انسان جن میںعاقل اور فاضل اور طبیب اور ڈاکٹر اورسوداگر اور مشائخ، سجادہ نشین اور وکیل اور معزز عہدہ دار ہیںبغیر پوری تسلّی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیںکہ ہم نے اس قدر آسمانی نشان بچشم خود دیکھے؟ اور جبکہ وہ لوگ واقعی طور پر ایسا اقرار کرتے ہیںجس کی تصدیق کے لیے ہر وقت شخص مُکذّب کو اختیار ہے تو پھر سوچنا چاہئے کہ ان مجموعہ اقرارات کا طالب حق کے لیے اگر وہ فی الحقیقت طالب حق ہے کیا نتیجہ ہونا چاہیے‘‘۔( اگر حقیقت میں حق کی طلب ہے تو سوچو پھر نتیجہ کیا ہونا چاہئے) ’’کم سے کم ایک نا واقف اتنا تو ضرور سوچ سکتا ہے کہ اگر اس گروہ میںجو لوگ ہر طرح سے تعلیم یافتہ اور دانا اور آسودہ روز گار اور بفضل الٰہی مالی حالتوں میںدوسروں کے محتاج نہیں ہیں اگر انہوںنے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیںکیا اور پوری تسلی نہیںپائی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہو کر غربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس بسر کرتے ہیں اور اپنی اپنی مقدرت کے موافق مالی امدادمیں میرے سلسلہ کے لیے فدا اور دلدادہ ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 314-315۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ لندن)

اور نشانات کایہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر گواہ بنتے ہوئے آج بھی جاری ہے۔ مَیں موجودہ زمانے کے چند ایک واقعات آپ کو بتاتا ہوں۔

               مالی کے ہمارے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ کولی کوروؔ (Koulikoro)میں ایک بزرگ ابوبکر سانوغو (Abobacar Sanogo) صاحب نے بہت عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک جگہ فلم دیکھنے گئے ہیں۔ اس فلم سے واپس آتے ہوئے دیکھا کہ سورج مغرب سے طلوع ہو رہاہے۔ یہ نظارہ سب کے لئے بہت ہی خوفناک تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو قیامت کی نشانی ہے۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ خواب میں ہی سب لوگوں نے بھاگنا شروع کر دیا اور چھپنے کی جگہ تلاش کرنے لگے۔ اسی اثناء میں انہیں ایک چہرہ دکھایا گیا اور ساتھ ایک تلوار انہیں دی گئی۔ خواب میں بتایا گیا کہ یہ امام مہدی علیہ السلام کی تلوار ہے جو کہ آپ کو دی جاتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ڈر کے چھپ گئے ہیں مگر وہ بزرگ امام مہدی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس خواب کی آپ نے اس وقت یہ تعبیر کی کہ امام مہدی ظاہر ہو گئے ہیں مگر اس وقت تک انہیں خبر نہ تھی اور نہ کبھی امام مہدی کی آمد کا سنا تھا لیکن دل میں تھا کہ امام مہدی ظاہر ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ کولی کورو میں احمدیہ ریڈیو’ النور‘ شروع ہوا تو انہوں نے ایک دن اس پر امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی خبر سنی  اور یہ خبر سنتے ہی ان کو اپنی پرانی خواب یاد آ گئی اور اسی دن احمدیہ ریڈیو سٹیشن آئے اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

یہ تلوار دلائل کی تلوار ہے کوئی مادی تلوار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی، نشانات کی تلوار ہے جو حق کی تلوار ہے، جو باطل کو توڑنے والی ہے۔ پس یہ تلواریں ہیں جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔

                پھر ایک واقعہ ہے۔ سعودی عرب سے ایک احمدی لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے ہمیشہ دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سکھایا۔ خواہ کہنے والا کوئی بھی ہو۔ نیز یہ کہ اگر تنقید تعمیری اور مفید ہو تو اسے قبول کرنا چاہئے خواہ تنقید کرنے والا کوئی بھی ہو۔ کہتے ہیں اسی اصول کی بناء پر مَیں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہی جماعت قرآن و سنت پر مشتمل صحیح اسلامی عقائد اور افکار پیش کرتی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل مَیں ٹی وی پر یونہی چینل گھما رہا تھا کہ اچانک آپ کے چینل پر نظر پڑ گئی۔ اس وقت اردو کا کوئی پروگرام چل رہا تھا اور ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی جا رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب مَیں نے حضور کی تصویر دیکھی۔ تصویر کے ساتھ کمنٹری میں ان کو مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کہا جا رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس شخص کی شکل اولیاء اللہ اور صالحین جیسی ہے۔ چہرے پر ایک سکون اور اطمینان ہے۔ میرے دل نے کہا کہ یہ چہرہ نبیوں والا چہرہ ہے جسے دیکھ کر ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انہی دنوں عیسائی چینلز پر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملوں اور استہزاء کو دیکھ کر دل بہت کڑھتا تھا۔ ان چینلز پر پادری زکریا پطرس اسلام پر حملے کیا کرتا تھا۔ مجھے بشدت خواہش ہوتی تھی کہ سعودی عرب یا کسی اور ملک کا عالم اس کا جواب دے۔ دن گزرتے گئے اور میرا غم مزید بڑھتا گیا۔ اسی دوران ایک روز ایم ٹی اے پر ایک پروگرام میں مکرم مصطفی ثابت اور ہانی طاہر اور طاہر ندیم صاحب کو اسلام کا دفاع کرتے اور بڑی خوش اسلوبی سے زکریا پطرس کے اسلام پر حملوں کا جواب دیتے ہوئے دیکھا۔ ان کے دلائل اور پختگی اور قوت کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ دلائل قرآن و حدیث پر مبنی تھے اور اس کے بعد باقاعدگی سے ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے لگا۔کہتے ہیں دوسری طرف جن دوستوں سے جماعت کے بارے میں بات ہوتی وہ جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے۔ مجھے اس بات کا دلی دکھ تھا اور میں سوچتا تھا کہ کلمہ شہادت پڑھنے والے لوگوں کو کافر کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کے بعد جماعت کے بارے میں مزید سنجیدگی سے تحقیق کرنے لگا۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ غرض ہر جگہ سے معلومات اکٹھی کیں۔ جماعتی ویب سائٹ کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کیا اور بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا مطالعہ کیا۔ آپ کی کتب کی عبارات اعجازی رنگ رکھتی تھیں۔ اس پر میرا سینہ کھل گیا کہ یہ وہی امام مہدی ہیں جن کی بعثت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔

               پھر مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز سکسیکاگو دروباتس(Chiek Sidago Drobate) صاحب ہمارے احمدیہ ریڈیو ’’النور‘‘ آئے اور بتایا کہ وہ احمدیہ ریڈیو باقاعدگی سے سنتے ہیں مگر آج وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھنے آئے ہیں۔ چنانچہ جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو دیکھتے ہی پکار اٹھے کہ یہ تصویر کسی نورانی وجود کی تصویر ہے۔ کافی دیر تک وہ یہ تصویر دیکھتے رہے اور کہنے لگے کہ واقعی یہی امام مہدی ہیں اور اس تصویر میں نور اور صداقت دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی اور یہ تصویر انہیں پسند آئی اور مانگ کر لے بھی گئے۔

               پھر دِدگو ریجن کی ایک جماعت(Noki Badala) نوکی بادلا کے ایک احمدی اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت میں داخل ہونے سے پہلے وہ مالکیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں جو کچھ دیکھتے تھے وہ ان کو پسند نہیں تھا۔ اور جب وہ مسلمانوں کی حالت دیکھتے تو کہتے کہ اگر یہ مسلمان ہیں تو میری اسلام سے توبہ۔ اور وہ کہتے تھے کہ ان کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور وہ کہاں چلے جائیں۔ وہ کہتے کہ اس سے بہتر تھا کہ میں جنگل میں زندگی گزار لیتا۔ ان کا دل چاہا کہ وہ عیسائی ہو جائیں لیکن عیسائی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اس وجہ سے وہ عیسائی نہیں ہوئے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں کورمہ(Korma) گئے تو وہاں پر ریڈیو احمدیہ بوبوجلاسو برکینا فاسو سنا اور ریڈیو پر امام مہدی کے بارے میں بیان ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں ہم نے امام مہدی کی آمد کے بارے میں بچپن سے ہی سن رکھا تھا۔ ریڈیو کی اس تبلیغ نے میرے تجسس کو اور بڑھا دیا اور میں بالآخر ریڈیو اسٹیشن چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انشراح صدر بخشی اور مجھے ہدایت کے نور سے منور کر دیا۔ اس کے بعد میں نے مشن ہاؤس آ کے بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد انہوں نے اپنے گاؤں میں جا کر تبلیغ شروع کر دی اور احمدیت کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ آخر ان کی کوششوں سے وہاں ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی ہے۔

پس اس زمانے میں بھی خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھنے اور نیک نیتی سے ہدایت کی تلاش میں جو لوگ ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنے وجود کا بھی احساس دلاتا ہے اور سچائی کی طرف بھی لے کر آتا ہے اور اپنے پیارے اور بھیجے ہوئے کی طرف رہنمائی بھی فرماتاہے۔ پس یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہی نظر آ سکتے ہیں اور کیونکہ آپ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ عاشق صادق ہیں جنہوں نے آپ کے فیض کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا اعزاز پایا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ

               ’’مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت مسلمان ہے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اُسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے۔ میں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقر ّب الی اللہ پا سکتا ہے وہ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپؐ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 260)

 اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت اور محبت اور قرب حاصل ہو اور ہم اس سونے کی کان سے حقیقی رنگ میں فائدہ اٹھا سکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے نکالی ہے اور ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی اس کو حاصل کر کے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن جائیں۔

               [اس موقع پر احباب نے نعرے بلند کرنے شروع کئے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:]

               نعرے بند کریں۔ پہلے دعا کر لیں۔ دعا کر لیں۔

               [دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:]

               اب ذرا جلسے کے یہ کوائف سن لیں۔ جلسے کی حاضری کے کوائف جو بیان کئے جاتے ہیں اس کے مطابق مستورات کی حاضری سولہ ہزار چھتیس اور مردوں کی سترہ ہزار ایک سو پینتیس۔تبلیغی مہمان ایک ہزار سات، کل حاضری تینتیس ہزار ایک سو اکہتّر(33171)۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتّر(72) ممالک کی نمائندگی ہے۔ شمولیت بیرون از جرمنی ، جو باہر سے لوگ شامل ہوئے ہیں وہ تین ہزار دو سو سات ہیں۔

               گزشتہ سال کتنی حاضری تھی۔ بتیس ہزار؟ تو اس سال کل حاضری تینتیس ہزار ایک سو اکہتر ہے الحمد للہ۔

نظمیں شروع کر دیں۔ نظمیں شروع کریں۔ وقت نہ ضائع کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں