خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے30؍اگست2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج جو باتیں مَیں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں وہ مَردوں کے لئے بھی اسی طرح ضروری ہیں جس طرح عورتوں کے لئے یا ان باتوں سے یہ احساس پیدا نہ ہو کہ یہ مردوں کے لئے ہیں اس لئے عورتوں کے لئے ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد جو ایک گھر کی اِکائی ہیں ان دونوں پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اپنے گھروں کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی اِکائی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کو معاشرے کا اہم حصہ بنانے کے لئے اپنے فرائض کو سمجھیں۔ آجکل کا معاشرہ سفری سہولیات کی وجہ سے، رسل و رسائل کی سہولت کی وجہ سے، الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے، تعلیم عام ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق پر تو بہت زور دیتا ہے اور اتنا زیادہ زور دیتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ زور ہے۔ لیکن اس ضرورت سے زیادہ حقوق پر زور دینے کی وجہ سے افراد، مرد ہوں یا عورتیں، اپنے فرائض بھول جاتے ہیں یا انہیں ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ اپنے حق تو انصاف کے حوالے دے کر لینا چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے حق دینا نہیں چاہتے۔ یا تھوڑے سے فرائض پورے کر کے یا حق دے کر پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دوسرے پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے۔ اور آجکل کے معاشرے کے فسادوں کی، جو چاہے گھریلو سطح پر ہوں یا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر، یہی وجہ ہے کہ اپنے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر ترجیح دی جاتی ہے۔یا دوسروں سے ذمہ داریاں پوری کرنے کی توقع کی جاتی ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف اس شدت سے توجہ نہیں دی جاتی۔ جب ایک مومن جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کرتی ہے، جو قرآن کریم کو آخری شرعی کتاب ماننے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر ایک احمدی مرد اور عورت جو اس زمانے کے امام کی بیعت میں بھی آنے کا اقرار کرتے ہیں ایسے مومن کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم اپنے حق ادا کرنے کی طرف توجہ کرو۔ اگر تم اپنے ذمہ فرائض اور حقوق ادا کرو گے، اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کرے گا تو تمہارے حقوق خود بخود ادا ہو جائیں گے۔ اور یہ حقوق جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے ذمّہ لگائے ہیں دو طرح کے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کے حقوق جن کو حقوق اللہ کہتے ہیں اور ایک اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق جنہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے ۔ اور جب یہ دو قسم کے حقوق ان کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے والے ہوں۔ حق ادا کرتے ہوئے اس لئے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ حق ادا کر رہے ہیں لیکن حق ادا نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ حق ادا کرنے کی بجائے احسان کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو حق ادا کرتے ہوئے حقوق ادا کریں عبادالرحمن کہا ہے۔ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں رحمان کے بندے کہہ کر عبادالرحمن کہہ کر اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے صدقے تمہیں بیشمار انعامات دئیے ہیں۔ بیشمار خصوصیات کا انسانوں کو حامل بنایا ہے۔ اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ یہ رحمانیت اس کے احسانوں میں سے بہت بڑا احسان ہے۔ اور یہ رحمانیت بلا تخصیص ہر ایک کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ پس کیا یہ احسان تمہیں اس بات کا احساس نہیں دلاتا کہ تم اس کی بندگی کا حق ادا کرو۔ اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلو۔ ایک انسان اپنے تھوڑے سے احسان کے بدلے یا ایک معمولی نیکی کرنے کے بعد یہ چاہتا ہے کہ اس کی تعریف ہو، اس کے کام کو سراہا جائے۔ اکثر ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کے احسان کا ذکر بھی ہو لیکن اللہ تعالیٰ جو سب احسان کرنے والوں سے زیادہ احسان کرنے والا ہے اس کی شکر گزاری اور اس کی بندگی کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور پھر اس کا احسان صرف مادی اور ظاہری فوائد کے لئے نہیں۔ ہم صرف یہی نہیں دیکھتے کہ اس کے مادی اور ظاہری فوائد ہمیں حاصل ہو رہے ہیں بلکہ روحانی زندگی میں بھی اس کے احسانوں کے نیچے ہم دبے ہوئے ہیں۔

               پس اس بات کا احساس کرنے کی طرف بھی ایک انسان جس کو مومن ہونے کا دعویٰ ہے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مسلمان ہونا، ہمارا اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھنا، ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ صرف ظاہری رنگ میں اور الفاظ میں ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ہم رحمان کے بندے بننے کی کوشش کریں۔ ان حقوق و فرائض کو ان تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں جن کی اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے، جن کا ہمیں حکم دیتا ہے اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے رسول بھیجتا ہے تا کہ وہ ہمیں حقیقی رنگ میں رحمان کے بندے بندیاں بنانے کے راستے دکھائیں، تا کہ وہ ہمیں زندگی بخش راستے دکھائیں، تا کہ ہم ان راستوں پر چل کر اپنے فرائض کو ادا کرنے والے بن کر رحمان خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے بن جائیں۔

               پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں شامل ہونے کا دعویٰ تبھی سچ ہو گا جب ہم اپنی زندگیوں کو ایسی نہج پر ڈھالنے کی کوشش کریں گے کہ خدا کے حق بھی ادا کریں اور اس کی مخلوق کے حق بھی ادا کریں اور یہ حق اس صورت میں ادا ہوتے ہیں جب خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کے رسول کی باتوں پر کان دھرا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے حکم دئیے ہیں ان کی طرف توجہ کریں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا صرف دعویٰ ہی نہ ہو بلکہ یہ کوشش ہو کہ جس کام کی طرف وہ ہمیں خدا تعالیٰ کے حکم سے بلا رہے ہیں اس طرف ہم چلیں۔

               چند جمعہ پہلے مَیں نے قرآن کریم کے اس حکم کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ۔(الانفال:24) یعنی خدا اور رسول کی آواز کو سنو اور قبول کرو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلائے۔ یہاں مومنوں کو زندہ کرنے کے لئے بلائے کے الفاظ آئے ہیں۔ صحابہ کے زمانے میں قرآن کریم نازل ہوا۔ انہیں یہی حکم تھا اور ہر ایک مسلمان کو بھی یہی حکم ہے کہ روحانی زندگی کی طرف توجہ کرو۔ وہ زندگی جس کی طرف بلایا جا رہا ہے یہ روحانی زندگی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی کام کی طرف بلائیں، کسی طرف توجہ دلائیں تو ان باتوں کو غور سے سنو کیونکہ انہی باتوں سے تمہاری روحانی زندگی وابستہ ہے۔ جس روحانی زندگی کے لئے ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں، اظہار بھی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس روحانی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اور وہ کوشش کیا ہے؟ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرنا ہے۔ یہ جسمانی زندگی تو ایک دن ختم ہو جانی ہے۔ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے انعامات تو روحانیت کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔

               پس حقیقی زندگی کا حاصل کرنے والا تو وہی ہے جو اس ظاہری زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلے اور روحانیت میں ترقی کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اپنے پیش نظر رکھے اور پھر اس وجہ سے اس سلسلے کو ہمیشہ کی اخروی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے والا بنائے۔ اور جب یہ انعامات کو حاصل کرنے والا بنائے گا تو یہی وہ مقام ہے جب انسان عبد رحمان بنتا ہے، رحمان خدا کا بندہ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرنے والا بننا ہے تو اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔

                ایک احمدی عورت اور مرد کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اس نے یہ عہد کیا ہے کہ میں عبد رحمان بنوں گی اور بنوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے بندے بننا کیا ہے؟ یہ وہی عہد بیعت ہے، یہ وہی شرائط بیعت ہیں جن پر چلنے کا ایک احمدی بیعت کے وقت وعدہ کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں اتنی جامعیت کے ساتھ ان تمام فرائض کا ذکر فرما دیا ہے جو ایک مومن کو عبد رحمان بناتے ہیں یا جن کی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے کہ ان پر عمل کرنے والا پھر کسی برائی میں مبتلا نہیں ہوتا۔ عبد رحمان بننے کے لئے، خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے سب سے اہم بات ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر ہر چیز کو ہیچ سمجھنا، کم تر سمجھنا۔ اسی لئے آپ نے یہ عہد لیا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عہد لیا کہ ایک احمدی نے ہر قسم کے شرک سے بچنا ہے چاہے وہ ظاہری شرک ہو یا مخفی شرک ہو۔(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 563)

                فرائض کی بجا آوری میں کمی اس وقت ہوتی ہے یا نیکیاں کرنے میں کمزوریاں اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب انسان سمجھتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو میں جھوٹ کا سہارا لے لوں گا۔ اپنی بات کو تھوڑا سا  twist کر دوں گا،غلط بیانی کر لوں گا۔ یا اگر اپنے خیال میں جھوٹ نہیں سمجھتے تو یہی سمجھتے ہیں جو حقیقت میں جھوٹ ہی ہے کہ اگر تھوڑی سی بات کو بدلنا پڑے جیسا کہ میں نے کہا تو بدل لوں گا،کیا فرق پڑتا ہے۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو پھر دوسرے گناہوں میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے جو نیکیوں کو کھاتا جاتا ہے۔ جو فرائض میں کوتاہی کرواتا ہے اور حقوق غصب کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔

               اسی طرح بے حیائیوں سے بچنا ہے۔ اس کی طرف بھی بہت توجہ دلائی۔ آجکل کے معاشرے کو آزادی اور تعلیم کے نام پر برباد کیا جا رہا ہے۔ اگر انسان غور کرے، ایک عقلمند انسان غور کرے، وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے فراست دی ہے اور یہ فراست ہی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جس نے احمدیت پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائی، قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اگر وہ غور کرے تو یہی آزادی اور تعلیم کے نام پر جو بعض باتیں ہیں وہ زندگیوں کو برباد کر رہی ہیں۔ پس آزاد معاشرے میں رہتے ہوئے بڑی شدت سے ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ وہ ظلم نہیں کرے گا۔ خیانت نہیں کرے گا۔ فساد سے بچے گا۔ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہیں ہو گا۔ یا پھر اور تفصیلات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی شرائط بیعت میں بیان فرمائی ہیں۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 563-564)

               یہ نفسانی جوش ہی ہیں جو گھریلو مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔ پہلے تعلیم اور آزادی نسواں کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے نفسانی جوشوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پھر ان سے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں سب سے پہلے جو مسائل جنم لیتے ہیں وہ گھریلو مسائل ہیں۔ پس اس طرف ہر عورت اور مرد کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  پھر عفو ہے، درگزر ہے، عاجزی، انکساری کا عہد ہے جو ہم نے کیا۔ یہ تمام عہد ہماری شرائط بیعت میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کا بھی عہد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف اگر صحیح رنگ میں کی جائے، اس کے احسانوں کو یاد کیا جائے تو پھر اس کے حکموں پر انسان چلتا ہے۔ پھر عفو، درگزر، عاجزی، انکساری یہ ساری باتیں خود بخود پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر صبر اور حوصلہ دکھانے کا بھی عہد ہے۔ بدعات سے بچنے کا عہد ہے۔ بد رسومات سے بچنے کا عہد ہے۔ اب بد رسومات اور بدعات جو ہیں یہ بھی بعض جگہوںپہ جماعت میں راہ پانے لگ گئی ہیں۔ بعض بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔ بلا وجہ اپنے پر بوجھ ڈال کر بعض لوگ شادیوں بیاہوں پہ بعض خرچ کرتے ہیں۔ جن کو توفیق ہے اگر وہ کرتے ہیں تو وہ کر سکتے ہیں لیکن ان کے دیکھا دیکھی جس کو توفیق نہیں وہ بھی کوشش کرتا ہے کہ دکھاوا کیا جائے۔ جب دکھاوے کی حد آ جائے تو یہ پھر رسم بن جاتی ہے۔ یہ ایسا بوجھ بن جاتا ہے   جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ۔پس اس کے لئے بھی ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں۔

               پھر نمازوں کی پابندی، نوافل اور تہجد کی طرف توجہ ہے۔ یہ بھی شرائط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 564) قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرح توجہ دلائی ہے۔ شرائط بیعت کیا ہیں یہ سب چیزیں وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائیں اور جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بار بار یاددہانی کروائی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم عبد رحمان بننا چاہتے ہو، اگر تم حقیقی رنگ میں مومن بننا چاہتے ہو تو پھر یہ بھی حق ادا کرو جو ایک عبادت کا رنگ ہے اور سراسر ظاہری نمازیں نہیں بلکہ اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر درود بھیجو۔ توبہ اور استغفار کرنے کا عہد ہے۔(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 564)

               غرض کہ آپ کی تمام شرائط بیعت وہ ہیں جن پر چلنے کا ایک احمدی وعدہ کرتے ہوئے احمدیت میں شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ روحانی زندگی حاصل کرے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا، رحمان خداکا، جس کے بے انتہا ہم پر احسان ہیں، حقیقی عبد بننے کی کوشش کرے۔ پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے اور اس بات کی طرف کوشش سے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ رحمان خدا ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اس کے بعض پہلو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں جو اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئی تھیں۔ ان میں سے بعض کی وضاحت بھی مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک سمجھے۔

                ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عام مسلمان اور ایک احمدی مسلمان کے عملی نمونوں میں واضح فرق ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے۔ ہم نے اس روشنی سے حصہ لیا ہے یا حصہ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں روشنی دکھانے کے لئے بھیجا ہے۔ اور جب روشنی آتی ہے تو اندھیرا دُور ہوتا ہے اور جب اندھیرا دُور ہوتا ہے تو اچھی اور بری چیز واضح ہو کر نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ راستوں پر چلتے ہوئے خراب راستوں اور صحیح راستوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ حسن اور گندگی کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب روحانی روشنی کا انتظام ہوتا ہے تو گناہ اور نیکی کا فرق نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ پاک دلوں کو روحانی سورج روشن کر دیتا ہے۔ دلوں کے اندھیروں کو دُور کر دیتا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں آئے ہوئے اس روشنی دکھانے والے اور دلوں کی زمین کو روشن کرنے والے کے ساتھ جڑنے کی ہمیں اس نے توفیق عطا فرمائی ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ اس کے بعد اپنے آپ میں اور ایک عام مسلمان میں واضح فرق کر کے دکھائیں۔ اپنی چھوٹی سے چھوٹی برائی پر بھی نظر رکھیں اور دلوں کو اس روحانی روشنی کے نور سے منور کریں اور یہی حالت ہے جو ہمیں حقیقی مومن بناتی ہے۔ اور ایسے مومنوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ پھر وہ ان کا دوست اور مددگار ہو جاتا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔(البقرۃ:258) کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو کر اندھیروں سے روشنیوں کی طرف ایسے مومنوں کو لے جاتی ہے۔ مومن اور غیر مومن میں ایک واضح فرق نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ایمان صرف اسلام کا نعرہ لگانے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دلوں کو روشن کرنے کا نام ہے۔ اور جب یہ حالت پیدا ہو تبھی اللہ تعالیٰ بھی بدیوں کی ظلمت کو نیکیوں کے نور سے بدل کر مومن اور غیر مومن میں تمیز فرما دیتا ہے، فرق ظاہر کر دیتا ہے۔

               پس اللہ تعالیٰ نے جو روحانی روشنی ہمیں عطا کی ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کا ہی اس زمانے میں ظہور ہے اس کا حقیقی فیض ہمیں اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ مسیح موعود اور مہدی معہود کا آنا میرا آنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ۔(الجمعۃ:4) کہہ کر مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ہی قرار دیا ہے۔ اور مسیح موعود کے ماننے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی متبعین میں شمار فرمایا ہے۔ پس ایک احمدی کو، عورت کو، مرد کو اپنے آپ کو حقیقی مومن اور عبد رحمان بنانے کی ضرورت ہے، وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو صحابہ نے اپنے اندر پیدا کی۔ اپنے اندر خلافت کے نظام کو جاری رکھنے کے لئے وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو خلفائے راشدین کے زمانے میں خلافت کے حقیقی فرمانبرداروں اور اطاعت گزاروں نے اپنے اندر پیدا کی۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا ان کی اکثریت گو ظاہری طور پر مسلمان ہیں لیکن دین کو چھوڑ کر دنیا کی غفلتوں میں مبتلا ہو گئی ہے۔ دنیا کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ لوگ تو یہ عذر کر سکتے ہیں، گو یہ عذر بھی اللہ تعالیٰ کے قریب قابل قبول نہیں ہے کہ ہمیں ہمارے نام نہاد دین کے علمبرداروں نے مسیح موعود کو ماننے سے روکے رکھا تھا۔ لیکن ایک احمدی کے لئے کوئی بھی عذر نہیں ہے جو اپنی حالت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حکموں پر چلانے کی کوشش نہیں کرتا۔ جو اپنی زندگی میں پاک تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔ جو روشنی میں ہوتے ہوئے روشنی کو قبول کرنے کے بعد پھر اس خیال میں رہتا ہے کہ رات کی تاریکی ہے اس لئے ہمیں اچھے برے کی تمیز کا پتا نہیں چلا تو وہ غلط ہے۔ وہ سمجھ لے کہ وہ صرف زبانی کلامی باتیں کر رہا ہے دل سے اس نے روشنی کو نہیں مانا اور نہ اس نے اپنی صحیح آنکھوں سے اس روشنی کو دیکھا ہے۔ غیروں کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے حکم ذَکِّرْ یعنی نصیحت کر پر عمل کروانے والا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہمارے پاس تو یہ نظام موجود ہے۔ پس ہمارے پاس کسی بھی صورت میں کوئی عذر نہیں ہے۔ ہمیں دنیا کے اس نفسا نفسی کے دَور میں اپنے آپ کو ہر برائی سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روشنی کی مدد سے بچانے کی ضرورت ہے۔ خراب راستوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ صحیح راستوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ایک مومن کی یہ خصوصیت ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ روشنی سے حقیقی فیض پانے کے لئے ظاہری راتوں کو بھی روشن بنائے تا کہ ان گناہوں سے بچے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہے اور فرمایا ہے کہ  یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (الفرقان:65)کہ رحمان کے بندے راتوں میں دعاؤں اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کا زوال راتوں کی دعاؤں کو چھوڑنے اور لہو و لعب میں پڑنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ آجکل بھی لہو و لعب، رات دیر تک مختلف کاموں میں مصروف رہنا، غیر تعمیری کاموں میں مصروف رہنا۔ ٹی وی ہے فلمیں ہیں انٹرنیٹ پر بیٹھناہے اور پھر فجر کی نماز پر نہ اٹھنا۔ تہجد تو علیحدہ رہی فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتے اور جب فجر کی نماز وقت پر نہیں ادا ہو گی تو یہیں سے پھر زوال بھی شروع ہو جائیں گے۔ پس یہ کوشش ہم میں سے ہر ایک کو کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں کیونکہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ زوال وہیں شروع ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کی طرف سے توجہ ہٹتی ہے۔ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نرالا وعدہ نہیں تھا، مشروط وعدہ تھا کہ راتوں کو زندہ کرو گے، اپنی عبادتوں کو زندہ رکھو گے، وقت پر جس طرح حکم ہے عبادتیں کرو گے تو تبھی تمہاری ترقیاں بھی ہیں۔ نہیں تو پھر وہی زوال شروع ہو جائے گا اور دین سے ہٹتے چلے جاؤ گے۔

               پس جب ہم اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالیں گے، جب ہم اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حقیقی اور شکر گزار بندوں میں شمار ہوں گے۔ ہم اپنے قول و فعل سے یہ اظہار کر رہے ہوں گے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا ہے۔ اس لئے یہ پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں یا اس کے لئے ہم اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں۔ پس ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم احمدیت قبول کرنے کے بعد نصیحت حاصل کرنے والوں میں بھی بنیں اور شکر گزاروں میں بھی بنیں اور ہماری یہ حالت پھر دوسروں کو بھی روشنی دکھانے والی بنے گی۔ لجنہ کی رپورٹس میں، خدام الاحمدیہ کی رپورٹس میں، انصار اللہ کی رپورٹس میں، جماعت کی رپورٹس میں یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ہم نے تبلیغ کی، تبلیغی سٹالز لگائے پمفلٹ تقسیم کئے یا دوسرے پروگرام دیئے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس کا حقیقی فائدہ تبھی ہو گا، آپ کی بات سن کر احمدیت میں شامل ہونے والے تبھی اپنی حالت میں حقیقی تبدیلی پیدا کر سکیں گے جب ہم خود اپنے دین کی تعلیم کا اپنے پر عملی اظہار کر رہے ہوںگے۔ جب ہم خود بھی ساتھ ساتھ اپنی کمزوریاں دُور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کر رہے ہوں گے کہ وہ ہمیں توفیق دے رہا ہے کہ ہم کمزوریاں دُور کریں۔ اس بات پر شکر کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہو رہی ہے۔ جہاں وہ ہماری تبلیغ کو پھل لگا رہا ہے وہاں ہمیں اپنی راتوں کو روشن کر کے دعاؤں کی توفیق بھی دے رہا ہے اور ہمیں اپنے اندر اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی توفیق بھی عطا فرما رہا ہے۔

                اور جب ایک شخص، چاہے وہ عورت ہے یا مرد ایسا عبد رحمان بنتا ہے یا بننے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا بننے والے کا ایک بہت بڑا وصف یہ ہے کہ یَمْشُوْنَ عَلَی الۡاَرْضِ ھَوْنًا(الفرقان:64)کہ وہ عاجزی کا نمونہ ہوتے ہیں اور زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ پس عاجزی ایک بہت بڑا وصف ہے۔ ایک مومن کا، ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے اور یہ ضروری ہے۔ اس کے لئے وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ہم میں یہ خوبی ہے۔ بعض دفعہ بعض باتیں سامنے آتی ہیں کہ بعض نئے شامل ہونے والے اس لئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ پرانے احمدیوں یا عہدیداروں کے نمونے عاجزی کے بجائے تکبر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ گو ان پیچھے ہٹنے والوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ انہوں نے زمانے کے امام کو حق سمجھ کر مانا ہے توپھر ایمان میں ترقی کی کوشش ہونی چاہئے، نہ کہ کسی وجہ سے ان کو ٹھوکر لگے۔ کسی شخص کے نمونے کو دیکھ کر ٹھوکر نہیں لگنی چاہئے۔ لیکن ایسے نمونے دکھانے والے بھی ان کے اس گناہ میں غیر محسوس طور پر وجہ بن رہے ہوتے ہیں۔ پس ایک مومن کا کام ہے کہ روشنی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کسی کو اندھیرے میں بھٹکنے کے لئے چھوڑنے کی بجائے راستے دکھانے کی کوشش کرے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ عاجزی دکھانا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک اہم حکم ہے ۔پس اس کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَردوں میں تکبرزیادہ ہے اور عورتوں میں کم ہے یا مَردوں میں کم ہے اور عورتوں میںزیادہ ہے۔ کبھی کبھی عہدیداروں کے معاملے میں بھی مَیں نے دیکھا ہے، وجہ مختلف ہو جاتی ہے، لیکن عام طور پر تجربے میں یہی آیا ہے کہ جب اختیار ملتا ہے تو تکبر اور نخوت عورتوں میں بھی بہت زیادہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْناً (الفرقان:64) فرما کر ایک پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ تمہیں ایسا اقتدار بھی ملے گا جو ایک فاتح اور غالب کو ملتا ہے۔ جب تم غالب آؤ گے اور یقینا یہ جماعت احمدیہ کا مقدر ہے اور تقدیر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدہ ہے کہ غالب آنا ہے۔(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 48 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) جب غالب آؤ گے تو اس وقت بھی تمہارے اندر عاجزی ہونی چاہئے۔ پس مومنانہ صفات پیدا کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اختیارات پر تو بالکل ہی تکبر نہیں پیدا ہونا چاہئے۔

               پھر روشنی سے فیض پا کر روشنی پھیلانے والے رحمان خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے والوں کی یہ نشانی بھی ہے یا ان کویہ حکم ہے کہ یہ حالت تمہارے اندر پیدا ہو گی تو تم رحمان خدا کے بندے ہو گے ورنہ نہیں اور وہ یہ ہے کہ وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان:64) اور جب جاہل لوگ، لڑاکے اور بداخلاق لوگ جو ہیں وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اپنی حرکتوں سے جوش دلا کر کوئی جھگڑا اور فساد پیدا کریں، ان سے جب تمہیں واسطہ پڑتا ہے تو وہاں طیش میں آ کر اسی طرح اوچھے ہتھیار سے جواب دینے کی بجائے ایک عبد رحمان، ایک مومن بندی اور بندہ یہ کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ ہم تو تمہارے لئے بھی امن اور سکون چاہتے ہیں۔ یہی ہتھیار ہے جو ایک مومن کی کامیابی کا راز ہے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کا نرمی اور عقل سے جواب دینا ماحول میں بہت سے دوسرے لوگوں کو روشنی دکھانے کا باعث بن جاتا ہے۔ پس اس طرف ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے کہ ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے پیدا نہ کریں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ غلبہ ملنا ہے۔ جب غلبہ مل جائے تب بھی ایک حقیقی عبد رحمان جاہلوں کی جہالت آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور سلامتی ہی مانگتا ہے۔

                اب قرآن کریم کے اس حکم کو آجکل کے مسلمان سربراہوں اور حکومتوں سے مقابلہ کر لیں تو صاف پتا چل جاتا ہے کہ یہ لوگ وہ نہیں ہیں جو عبد رحمان ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ تو یہ بتاتا ہے کہ یہودی نے سختی سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ نے بڑے پیار سے اور آرام سے جواب دیا۔(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 13صفحہ 521 فصل فی احسان قضاء الدین حدیث نمبر 10717 مکتبۃ الرشد ناشرون سعودی عرب 2004ء) پس جہالت کا جہالت سے جواب دینا دنیا میں کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا لیکن دنیا والے اس پر عمل نہیں کرتے اور کسی مومن کے لئے تو کسی بھی صورت میں یہ قابل برداشت نہیں ہے کہ تکبر کا اظہار کرے۔ یہ مومن کی شان ہی نہیں کہ وہ کبھی تکبر کا اظہار کرے۔ اگر اس بات کو ہم سمجھ لیں تو ہمارے بہت سے گھریلو مسائل بھی حل ہو جائیں۔ خاوند بیوی کے جھگڑوں میں بھی بعض اوقات چند دن بعد اور بعض دفعہ بچے ہونے کے بعد بھی جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، گھر ٹوٹتے ہیں، ان کی بڑی وجہ جہالت سے ترکی بہ ترکی جواب دینا ہی ہے۔ ایک نے ایک بات کہی، دوسرے نے آگے سے دو کیں اور یہی وجہ ہے جو بے صبری ہے اور جاہلانہ حرکات ہیں جن کی وجہ سے رشتے بھی ٹوٹتے ہیں۔ قرآن کریم کے احکامات جہاں وسیع معاشرے کے لئے روشنی دکھانے والے ہیں، اسی طرح ہر چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ اگر ہر انسان ان کو سمجھ لے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو گھر کی اِکائی سے لے کر معاشرے کی اِکائی تک ایک مومنہ اور مومن امن کے پیامبر بن جاتے ہیں۔ سلامتی بکھیرنے والے بن جاتے ہیں۔ پس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک دوسرے کو جواب دینا اور اپنا حق سمجھنا کہ میں صحیح ہوں، تکبر اور جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جہالت صرف اس سے دُور نہیں ہوتی کہ آپ نے ڈگری حاصل کر لی، تعلیم حاصل کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ یعنی ایسے اعمال جو صحیح وقت پر ادا ہو رہے ہوں۔ جہاں ایسے جھگڑے شروع ہوں وہاں انسان کی تعلیم کا تقاضا اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک فرد خاموش ہو جائے تا کہ جھگڑے مزید طول نہ پکڑیں۔ اگر یہ چیز نہیں ہے تو چاہے وہ کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی پی ایچ ڈی ہے یا ڈگری ہولڈر ہے، جو مرضی پڑھا لکھا ہو وہ جاہل ہے۔ پس اس جہالت سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہ باتیں اس زندگی کو جہنم بناتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی مورد بناتی ہیں ۔ پس اس کا علاج بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ دعا کرو، استغفار کرو، لاحول پڑھو، ذکر الٰہی کرو۔

                پس ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اے خدا! ہمیں جہالت اور کم علمی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں دنیا داری اور ہوس پرستی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کی خرابی کے جہنم سے بچا۔ جب خاوند بیوی لڑ رہے ہوں تو اپنے بچوں کو بھی ظاہری جہنم میں مبتلا کر رہے ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اس لڑائی کی وجہ سے بچے بگڑ کر ایسے کاموں میں ملوّث ہو جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتے ہیں۔ میرے سامنے کئی ایسے معاملے آتے ہیں کہ بچے پریشان ہیں، پڑھائی میں کمزور ہیں، صحت اچھی نہیں ہے اور جب ذرا کریدو اور پتا کرو تو پتا چلتا ہے کہ گھر کا ماحول، ماں باپ کے جھگڑے بچوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

                 جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہااس زمانے میں معاشرہ مذہب سے دُور لے جانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اس لئے یہ دعا بھی ایک مومن کی دعاؤں میں شامل ہونی چاہئے کہ ہمیں کفر اور شیطنت کے جہنم سے بچا۔ ہمیں   لامذہبیت کے جہنم سے بچا۔ ہمیں خود سری، جھوٹ اور ظلم کے جہنم سے بچا۔ ہمیں اپنی رضا اور محبت کی دُوری کے جہنم سے بچا۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اس کے حکموں پر عمل کیا جائے کیونکہ ان برائیوں کا عارضی پیدا ہونا یا مستقل پیدا ہونا ہماری تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

                کسی کو یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ مجھ میں یہ برائیاں نہیں ہیں اس لئے مجھے ان دعاؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ ان برائیوں سے خود بچنے اور آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے بھی یہ دعائیں ضروری ہیں اور دوسروں کے حقوق کی باریکی میں جا کر ہمیشہ ادائیگی کرتے چلے جانے کے لئے بھی ان دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو دم غافل ہوا وہ کافر ہوا۔ اور جب یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے غفلت برتنا شروع کر دے تو پھر رحمان خدا سے دُوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔

                مَیں نے ابھی کہا کہ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ کے جہنم سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں۔ ان آیات میں ہی فرماتا ہے کہ رحمان کے بندوں کی یہ بھی نشانی ہے کہ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان:73) کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ ہر حالت میں ان کے منہ سے سچ اور صداقت کے الفاظ نکلتے ہیں۔ یہ کتنی اعلیٰ بات ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا اور یہ گواہی دی کہ آنے والا صادق اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا ہے لیکن کیا اس سچائی کو قبول کرنے اور سچی گواہی سے ہمارا مقصد پورا ہو گیا۔ ہاں ایک حصہ تو پورا ہو گیا لیکن ایک بڑا حصہ اس وقت پورا ہو گا جب ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوگا۔ سچ قبول کرنے کے بعد سچ ہمارے ہر عضو سے ظاہر ہو رہا ہو گا۔معاشرے میں ہماری سچائی ایک پہچان بن جائے گی۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی جس کی ادائیگی کرنا اور اس کوصحیح طور پر نبھانا بڑا مشکل کام جو انسان کو پیش آ سکتا ہے وہ سچائی ہے۔ ہزاروں انسانوں میں رحم کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ عموماً انصاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں لیکن مکمل سچائی کے اظہار اور ہر حال میںسچی گواہی دینے کے لئے بسا اوقات اکثر لوگ تیار نہیں ہوتے۔ یہاں یورپ میں پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے ہیں جو انصاف اور رحم کی آوازیں تو بلند کرتے ہیں لیکن اپنے متعلق تو ایک طرف رہا اپنے عزیزوں کے بارے میں بھی سچی گواہی دینی پڑے تو ٹال مٹول کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ بعض موقع پر اپنے ہم قوموں کے بارے میں بھی نہیں دے سکتے۔آج دنیا کے جھگڑوں کی بنیاد اسی سچائی کی کمی کی وجہ سے ہے یا اسی سچائی کا فقدان ہے۔ انصاف کا نعرہ لگانا یا چھوٹی سطح پر انصاف کرنا بالکل اور چیز ہے اور مکمل سچائی کے ساتھ مکمل طور پر سچی گواہی دینا بالکل اور چیز ہے۔ اگر دنیا اس بات کو سمجھ لے تو جو اس وقت دنیا کے حالات کی وجہ سے خوفزدہ ہیں ان کے خوف دُور ہو جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو رحمان خدا کے بندے ہیں یا بندے کہلاتے ہیں اس کا دعویٰ کرتے ہیں وہ حقوق کے قائم کرنے اور ادا کرنے کے لئے کبھی سچی گواہی کو نہیں چھپاتے۔ ہم دنیا کو روشنی دینے کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں، ہر عورت اور مرد جو احمدی ہونے کا اعلان کرتا ہے اس کا یہی دعویٰ ہے کہ ہم نے دنیا میں سچائی کو قائم کرنا ہے اگر یہ نہیں تو ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں پیدا کئے گئے یا جماعت میں اس لئے شامل نہیں ہوئے کہ ہم نے صرف دنیاوی ڈگریوں میں اعلیٰ پوزیشنیں حاصل کرنی ہیں یا ہم نے دولت سمیٹنے کی طرف بھرپور کوشش کرنی ہے۔ یا ہمارا مقابلہ یہ ہے کہ فیشن میں کون ترقی کرتا ہے بلکہ ہم نے سچائی کو پھیلانا ہے۔ سچائی کو مانا ہے تو سچائی کو پھیلانے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر ہمارے دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔ زمانے کے امام کو ماننا تو ایک طرف رہا۔ سچی گواہی کو چھوڑ کر ہم خدا پر ایمان سے بھی دُور ہٹ رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہم جھوٹ بولیں گے اور سچائی کو چھپائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہماری نظر میں خدا تعالیٰ کی کوئی قدر نہیں رہی یا ہم خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے بجائے شیطان کی بادشاہت قائم کرنے میں مددگار بن رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ توحید کے بعد سچی گواہی ایک انتہائی اہم چیز ہے اسے ہم سب کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ پس ہم میں سے ہر بچے، ہر بوڑھے، ہر جوان، ہر عورت اور ہر مرد کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ جیسے بھی حالات ہوں ہر حالت میں مَیں نے سچ بولنا ہے۔ خاص طورپر احمدی عورتوں کو سچائی کے قائم کرنے کے لئے ایک مہم چلانی چاہئے کیونکہ عورتوں نے آئندہ نسلوں کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر عورتوں سے یہ عہد لیا کرتے تھے جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے کہ کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگائیں گی۔

(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن ،سورۃ الحشر باب اذا جاء ک المؤمنات یبایعنک حدیث 4895)

               یہ ضروری نہیں کہ ہر عورت میں ہی برائی پائی جاتی ہو کہ وہ جھوٹے الزام اور اتہام لگاتی ہے اور مرد اس گناہ سے پاک ہیں۔ میرے سامنے بہت سی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ عورت سچائی سے کام لے رہی ہے اور مرد جو ہیں وہ غلط اور جھوٹی گواہی دیتے اور الزام لگاتے ہیں۔ یہاں عورتوں پر اس جھوٹ کی برائی سے بچنے کا خاص طور پر زور دیا گیا ہے اس کی وجہ ایک تویہ ہے کہ بعض قوموں میں اُس زمانے میں اور اب بھی ہے اور بعض علاقوں کی عورتوں میں تربیت کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری بہت عام ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر جھوٹ بول دیتی ہیں۔ معمولی غلط بیانی کو سمجھتی ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں حالانکہ معمولی سی غلط بیانی بھی جھوٹ ہے۔ یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ دوسرے جیسا کہ میں نے کہا کہ عورت کا معاشرے کی تربیت میں بہت بڑا کردار ہے۔ اس کی گود سے بچے پل کر آگے معاشرے کی ذمہ داریاں اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ جب بچہ یہ دیکھے کہ میری ماں اکثر غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ گھر میں چاہے خاوند کے ڈر سے ہی یہ واقعات ہو رہے ہوں۔ سچائی کچھ ہو اور بیان کچھ اور کیا جا رہا ہو اور بچے کے علم میں ہو کہ حقیقت کیا ہے تو بچوں پر پھر سچ کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ سچ کی اہمیت ختم ہو جائے تو پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ خدا تعالیٰ پر ایمان بھی ختم ہو جاتا ہے اور یہی بہت بڑی وجہ آجکل کے زمانے میں بھی بن رہی ہے کہ سچائی کا فقدان ہے اور بچوں کو سمجھ نہیں آتی کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ اس لئے کچھ باہر کے معاشرے کا اثر ہے کچھ گھریلو ماحول کا بھی اثر ہے بعض جگہوں پر بہت سے ایسے بھی ہیں کہ بچے پھر دین سے ہٹ جاتے ہیں۔ پھر نسلیں برباد ہو جاتی ہیں۔

               یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سچی بات کو ضرور بیان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض باتیں بیان کرنے سے انسان کو روکا ہے کیونکہ بعض ایسے سچ ہوتے ہیں جن سے برائیاں پھیلتی ہیں اور معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے، چاہے وہ عورتیں ہیں یا مرد کہ اگر کسی کی کوئی برائی دیکھی تو ادھر ادھر بیان کر دی۔ اور پھر جب پوچھو تو یہ کہتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولا۔ ٹھیک ہے جھوٹ نہیں بولا لیکن اس طرح کی غیبتیں اور چغلیاں کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ سچ بات کہنے کے باوجود ایسے لوگ پھر خود بھی گناہ میں مبتلا ہو رہے ہوتے ہیںا ور معاشرے کے امن کو بھی برباد کر رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا کسی کے نقائص بیان کرنا یہ غیبت ہے جس سے خدا تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور پھر اس طرح کھلے عام برائی بیان کرنے سے برائی کے نقصانات کی اہمیت بھی اکثر ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فحشاء کو چھپانے کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کا گند ظاہر کیا جائے اور آجکل کے معاشرے میں مغربی معاشرے میں بے حیائیاں اسی لئے پھیل رہی ہیں ۔ گناہ کی نیکی اور گناہ کی تعریف اسلئے بالکل ختم ہو چکی ہے کہ ہر برائی کو آزادی کے نام پر کھلے عام کیا جاتا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا یہی سچ ہے جس سے دنیا کا فساد پیدا ہوتا ہے۔ کسی کے متعلق بات کی جاتی ہے جب اسے پتا چلے تو پھر آگے سے غصے میں فساد پیدا کرتا ہے جھگڑتا ہے اور لڑائیوں اور جھگڑوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

               ایسے معاملات بھی میرے سامنے آئے ہیں کہ ایک لڑکی بیاہ کر سسرال گئی تو سسرال کی باتیں اور کمزوریاں اور ایسی باتیں جو لڑکی کے ماں باپ کے بارے میں سسرال میں ہوئیں اپنے ماں باپ کو آ کر بتا دیں۔ اپنے ماں باپ کی کمزوریاں اور باتیں سسرال میں کر دیں۔ اپنی طرف سے یہ اظہار کرنے کے لئے کہ مَیں کتنی سادہ اور سچی ہوں۔ یا بیوقوفی کی وجہ سے ایسی حرکتیں ہو گئیں اور پھر لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں میں ناچاقیاں اور لڑائیاں شروع ہو گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یا تو شادی ٹوٹ گئی یا دونوں خاندانوں میں سالوں تک رنجشوں اور الزام تراشی کا سلسلہ چلتا رہا بلکہ تعلقات ہی ختم ہو گئے۔ ایسے بھی لوگ ہیں، ایسے خاوند ہیں جنہوں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے ماں باپ سے تعلق رکھا تو پھر ہمارا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں، مَیںتمہیں طلاق دے دوں گا۔ اور ایسی بیٹیاں بھی ہیں جنہوں نے اس وجہ سے مجبور ہو کر پھر دس دس سال سے اپنے ماں باپ کی شکل نہیں دیکھی۔ پس یہ ظلم اس لئے ہوتے ہیں کہ معمولی سی بات کو ظلم اور برائی نہیں سمجھا جاتا اور اپنی طرف سے بڑا سچائی کا اظہار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ہاں اگر نظام جماعت کا نظام اور کوئی بھی اصلاح کرنے والا ادارہ کسی گواہی کے لئے بلائے تو وہاں کسی بھی لحاظ کے بغیر سچی گواہی کو چھپانا نہیں چاہئے بلکہ اس کو دینا چاہئے۔

               پس ایک مومن مرد اور عورت کی ہر بات میں یہ غرض ہونی چاہئے کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ وَاِذَامَرُّوْابِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (الفرقان:73) یعنی عباد الرحمن کسی بھی دنیوی عزت کی وجہ سے یا دنیوی لذات کی وجہ سے متاثر ہو کر ان باتوں اور ان لذتوں میں شامل نہیں ہوتے بلکہ پہلو بچاتے ہوئے ایسی جگہوں سے ایسی مجلسوں سے جہاں صرف دنیاوی لذات ہوں گزر جاتے ہیں۔ پس لغویات میں ہر وہ چیز آتی ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے دُور کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات پر عمل میں روک بنتی ہے۔ چاہے وہ ناچ گانا ہے چاہے وہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر فن کے نام پر شیشے کا استعمال ہے یا حقے کا استعمال ہے۔ مختلف ملکوں میں مختلف نام لئے جاتے ہیں۔ یا لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ مجالس ہیں اور دوستیاں ہیں جو پھر بعد میں دوسری برائیوں میں ملوث کر دیتی ہیں۔ چاہے یہ انٹرنیٹ پر راتوں کو بیٹھ کر نماز کے وقت کے لئے اٹھنے میں سستی دکھانا ہے یا انٹرنیٹ پر چیٹنگ(chatting) اور فیس بک(facebook) کا غلط استعمال ہے۔ اور چاہے یہ پھر عورتوں میں بیٹھ کر صرف دنیا داری کی باتیں کرنا ہے۔ اپنے زیوروں اور جوڑوں کو بنانے اور سلوانے کی باتوں میں مشغول رہنا ہے یا کسی کے بارے میں اس ٹوہ میں رہنا ہے کہ اس کے خاوند کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔ اس کا خاوند کیا کماتا ہے۔ فلاں کے گھر میں فلاں وقت میں کون آیا تھا۔ یہ سب لغویات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب باتوں سے منع فرمایا ہے اور فرمایا رحمان خدا کے بندوں کے یہ عمل نہیں ہوتے بلکہ ان کے دن اور رات عبادتوں میں اور ذکر الٰہی میں گزرتے ہیں۔

               پس عام دنیاوی امور میں مصروف رہتے وقت بھی ہمیں ہر وقت یہ خیال رہنا چاہئے کہ میرا دنیاوی معاملات میں مصروف رہنا بھی مجھ میں کبھی یہ احساس پیدا نہ کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہوں بلکہ ہر وقت یہ احساس رہے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور جب یہ احساس ہو تو جہاں اللہ تعالیٰ کا خوف رہے گا، غلط کاموں سے انسان بچے گا وہاں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی پھر نظر رہے گی۔ ہم اس طرف توجہ رکھیں گے اور توجہ دینی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے سارے احکامات بیان کر دئیے ہیں وہ بھی ہمیں کرنے چاہئیں۔ ان کو تلاش کرنا چاہئے کہ کون کون سے اس نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور وہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیان کر دئیے ہیں جن سے ہمیں بچنا چاہئے۔

                اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر جس کا مَیں کل خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران:111) یعنی تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، بڑی جامعیت سے اس میں ہماری ذمہ داریاں ہمیں بتا دی ہیں۔ اگر یہ باتیں ہم اپنے سامنے رکھیں تو تمام قسم کی نیکیوں پر عمل کرنے کی ہماری کوشش ہو گی اور تمام قسم کی برائیوں کو چھوڑنے کے لئے ہم جدوجہد کریں گے۔ ہم اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ ہم نے رشتے داروں سے حسن سلوک کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے ۔ ہماری یہ کوشش ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہم نے غریبوں کی خدمت کس طرح کرنی ہے ۔ ہم اپنے اندر یہ وصف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ امانت کی ادائیگی کا حق ہم نے کس طرح ادا کرنا ہے۔ ہم یہ احساس پیدا کریں گے کہ دوسروں کا حق ادا کرنے کے لئے ہمیں کیا قربانی کرنی چاہئے۔ حسن ظنی ہمارا شیوہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی شکرگزاری میں ہم بڑھنے والے ہوں گے۔ تکلیفوں میں صبر ہمارے اخلاق کی خوبصورتی ہو گا۔انصاف قائم کرنے اور احسان کا سلوک کرنے کی طرف ہماری توجہ رہے گی۔ اپنے عہدوں کو ہم پورا کرنے والے ہوں گے۔ صلہ رحمی کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ والدین سے حسن سلوک ہمارے کردار کی خوبصورتی ہو گی۔ ہمسایوں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہماری توجہ رہے گی۔ غصہ، بغض، کینہ سے ہم بچ کر رہیں گے۔ بدگمانی اور عیب لگانے اور چغلیوں سے ہم بچیں گے۔ دوسروں کا استہزاء کرنا اور ان کی تحقیر کرنا اور ان کو کمتر سمجھنا ہمارے نزدیک بڑا گناہ ہوگا۔ فضول خرچی سے ہم پرہیز کرنے والے ہوں گے۔ بچوں کو  آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کے لئے صرف دعا ہی نہیں کریں گے بلکہ عملی اقدامات بھی کر رہے ہوں گے۔ اپنے عمل سے ان کے سامنے اپنے نمونے پیش کر رہے ہوں گے۔ بیوی خاوند کے اور خاوند بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل میں ہم بڑھتے چلے جانے والے ہوں گے۔ غرض کہ نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے بچنا ہمیں ہماری اپنی حالتوں میں بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف پیدا کرنے والا بناتا چلا جائے گا اور ہم اس پاک معاشرے کو جنم دینے والے ہوں گے جس کے قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور جس کی تفصیلات اور جزئیات اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں کھول کر بیان فرما دی ہیں۔ اور جس کو اس زمانے میں دوبارہ دنیا میں رائج کرنے اور خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر کے عبد رحمان بنانے کے لئے    اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ پس ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم رحمان خدا کے ان بندوں میں شامل ہو جائیں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ یہ اصولی ہدایت فرما دی ہے۔ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا(الفرقان:74) اور جب انہیں ان کے ربّ کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو ان سے بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے۔ پس حقیقی مومن اور رحمان کے بندے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ جب نصیحت کی جائے اس کو سنتے ہیں۔ اپنی حالتوں کے بدلنے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ بجائے اس کے کہ اپنی ذاتی خواہشات اور ترجیحات کو سامنے رکھیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک، عورتیں بھی اور مرد بھی اپنے عہد کو جو ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا کیا ہے سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں اور رحمان کے ان بندوں میں شمار ہوں جن پر خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر ہر وقت پڑتی رہتی ہے۔

                اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں