خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی4جون2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

               ’’ اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل تغیر زندگی میں کرنا چاہئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو کہ وہ ہر مصیبت میں کام آتا ہے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفّت سے ہرگز نہ دیکھا جاوے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جاوے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جاوے۔ مثلاً نماز کا حکم ہے۔ جب ایک شخص اسے بجا لاتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے تو بعض لوگ اس سے تمسخر کرتے ہیں… لیکن ایک مومن کو ہرگز لازم نہیں کہ ان باتوں اور ہنسی اور استہزاء سے وہ اس کی ادائیگی کو ترک  کرے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 472۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے فرمایا:

               ’’یاد رکھو کہ اس سلسلہ میں داخل ہونے سے دنیا مقصود نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’ضروری ہے کہ آخرت کی فکر کرو۔ جو آخرت کی فکر کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں اس پر رحم کرے گا۔… بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ۔ نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ و استغفار میں مصروف رہو۔ نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 434۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جماعت کو بدنام کرو۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 184۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               آپ نے پھر عورتوں کو یہ نصیحت فرمائی کہ گلہ شکوہ اور غیبت سے رکیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 434۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پھر فرمایا کہ ’’بیعت کا زبانی اقرار کچھ شئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ تزکیہ نفس چاہتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 572حاشیہ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ

               ’’اصل مدّعا بیعت کا یہی ہے کہ توبہ کرو، استغفار کرو، نمازوں کو درست کر کے پڑھو، ناجائز کاموں سے بچو۔ میں جماعت کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں مگر جماعت کو بھی چاہئے کہ خود بھی اپنے آپ کو پاک کرے۔ یاد رکھو غفلت کا گناہ پشیمانی کے گناہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یہ گناہ زہریلا اور قاتل ہوتا ہے۔ توبہ کرنے والا تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ جس کو معلوم ہی نہیں کہ مَیں کیا کر رہا ہوں وہ بہت خطر ناک حالت میں ہے۔ پس ضرورت ہے کہ غفلت کو چھوڑ دو اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ جو شخص توبہ کر کے اپنی حالت کو درست کر لے گا وہ دوسروں کے مقابلہ میں بچایا جائے گا۔‘‘

                فرماتے ہیں: ’’ پس دعا اسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے۔ پیغمبر کسی کے لئے اگر شفاعت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلاح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفاعت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ جب تک خود خدا تعالیٰ کی رحمت کے مقام پر کھڑا ہو تو دعا بھی اس کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ نرا اسباب پر بھروسہ نہ کرلو کہ بیعت کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ لفظی بیعتوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ جیسے بیعت کے وقت توبہ کرتے ہو اس توبہ پر قائم رہو اور ہر روز نئی توجہ پیدا کرو جو اس کے استحکام کا موجب ہو۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ پناہ ڈھونڈھنے والوں کو پناہ دیتا ہے۔جو لوگ خدا کی طرف آتے ہیں وہ ان کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 173-172۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                یہ باتیں ہیں جو آپ نے بار بار ہمیں فرمائی ہیں۔ ہمیں ان معیاروں تک پہنچانے کے لئے یہ باتیں آپ نے کی ہیں۔ یہ وہ معیار ہیں جو آپ جماعت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جماعت کا ایک بڑا حصہ عورتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دنیا میں عورتوں اور مَردوں کی جو نسبت ہے وہ ہمیں بتاتی ہے کہ عورتوں کی تعداد مَردوں سے زیادہ ہے اوریہی نسبت جماعت میں بھی ہو گی اور ہے۔ پس جماعت کی ترقی ان معیاروں تک پہنچانے میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ہمارا بڑا حصہ ان کم از کم معیاروں کو حاصل نہ کرے جو ایک احمدی مسلمان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں۔

                پس ہماری عورتوں کو اس پہلو سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر گھر کا مرد ٹھیک ہو، اس کا دین سے تعلق ہو، ان خصوصیات کا حامل ہو یا ان باتوں کی طرف توجہ دینے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں تو عورتوں اور بچوں کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مَردوں میں کمزوریاں ہیں تو ہم نہ اپنے آپ کو برباد کر سکتے ہیں، نہ اپنی نسلوں کو برباد کر سکتے ہیں۔ پھر عورتوں کو خود میدان میں کُودناہو گا۔ اپنے گھروں کو سنبھالنا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورت پر ہے اور وہ پوچھی جائے گی۔

(صحیح البخاری کتاب العتق باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق … الخ حدیث 2554)

 اللہ تعالیٰ نے ماں کو جو حق ہے وہ باپ کے حق سے تین درجے زیادہ یونہی تو نہیں دیا ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ حدیث نمبر 5971)

  اس کی وجہ ہے۔کیوں یہ ماں کا حق باپ کی نسبت تین درجے زیادہ ہے؟ عورت کے قدموں کے نیچے جنت ملنے کی ضمانت صرف ماں بننے سے تو نہیں مل جائے گی بلکہ ان سب باتوں کے کچھ لوازمات ہیں، کچھ خصوصیات ہیں، کچھ فرائض ہیں جو ماؤں کے ذمہ ہیں جن کی ادائیگی کے بعد ماں یہ سب مقام حاصل کرتی ہے۔

               وہ نوجوان بچیاں جو بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہیں اور جن کی عقل اور سوچ پختہ ہو گئی ہے انہوں نے انشاء اللہ تعالیٰ مائیں بھی بننا ہے ان کو بھی ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ان کا مقام کیا ہے اور ان پر کس قسم کی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں۔ جہاں انہیں نیک نصیب ہونے اور اچھے خاوند ملنے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیںوہاں انہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے جو مستقبل میں ان پر پڑنے والی ہیں۔ پس چاہے یہ شادی شدہ عورتیں ہیں، بچوں کی مائیں ہیں یا لڑکیاں ہیں، اگر سب نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو ایسے ماحول میں رہتے ہوئے جہاں آزادی کے نام پر بے حیائیاں کی جاتی ہیں، جہاں مذہب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا سے بھی دُوری پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں خدا کے وجود پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے یا اکثر خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے۔ تو پھر نہ آپ کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔نہ آئندہ نسلوں کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔

               اگر آپ یہ کہیں کہ مرد زیادہ بگڑ گئے ہیں ان کی اصلاح کی طرف بھی توجہ کریں تو مَردوں کو بھی کہا جاتا ہے۔ کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن اگر ایسے بدقسمت مرد ہیں جن کو اپنی اصلاح کی فکر نہیں اور دنیا کی رنگینیوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے والے نہیں ہیں تو پھر ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ جماعت کے نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کے، ان کو دھوکہ دے کے تو وہ شاید بچ جائیں لیکن پھر خدا تعالیٰ کی گرفت سے وہ نہیں بچ سکیں گے۔ جو اُن کی ذمہ داریاں ہیں انہوں نے ادا کرنی ہیں۔ لیکن اس وجہ سے عورتوں کو اپنی ذمہ داریاں نہیں بھولنی چاہئیں۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اس بات پر ہم خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے اور خاموش تماشائی نہیں بن سکتے کہ مرد اپنے فرائض پورے نہیں کرتے تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہر وقت فکر میں رہیں۔

                حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ کی تنظیم اس لئے قائم فرمائی تھی کہ اگر جماعت کا ایک حصہ کمزور ہے اس میں کمزوری واقع ہوتی ہے تو کم از کم دوسرا حصہ جو عورتوں کا ہے، عورتیں اپنے فرائض کی طرف توجہ رکھیں۔ اگر عورتیں توجہ رکھیں گی تو آئندہ نسل کے مرد اور عورتیں ان راستوں پر چلنے والے ہوں گے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے متعین کئے ہیں۔ مَیں نے کچھ عرصہ ہوا صدر لجنہ جرمنی کو کہا تھا کہ اس وقت آپ کے لئے تبلیغ سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ پہلے اپنی تربیت کی طرف توجہ دیں، اپنی عملی حالتوں کو درست کر لیں تو تبلیغ کے میدان پھر خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ اس سے بھی کوئی یہ مطلب نہ لے لے اور خاص طور پر مرد کہ ان کے عملی نمونے اور تربیت بہت اچھی ہے اور صرف عورتوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں ان کی روشنی میں مردوں کی عملی حالت بھی کوئی ایسی نہیں کہ ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ جب میں آپ سے مخاطب ہوں تو مَرد بھی میری باتیں سن رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ ضرورت ہے۔ تو بہر حال میں اس وقت عورتوں سے مخاطب ہوں اور عورتیں اگلی نسل کی تربیت زیادہ بہتر رنگ میں کر سکتی ہیں۔ اس لئے مَیں زیادہ فکر کے ساتھ آپ پر ذمہ داری ڈال رہا ہوں۔ پس نہ مردوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے، نہ آپ کو اس بات پر پریشان ہونے کی ضرورت ہے کہ شاید ساری کی ساری کمزوریاں ہم عورتوں کے اندر ہی ہیں۔ ہر ایک نے اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ خدا تعالیٰ کے آگے جب پیش ہونا ہے تو اپنے اعمال کا جواب ہر ایک نے خود دینا ہے۔ اس لئے اس سوچ کے ساتھ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور ان جائزوں کے کم از کم معیار وہ ہیں جن کا مختصراً ذکر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے کیا ہے۔ یہ بعض نکات ہیں جنہیں اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے سامنے رکھے تو عملی اصلاح کے معیار اونچے سے اونچے ہوتے چلے جائیں گے۔ بعض بنیادی باتوں کو دوبارہ میں آپ کے سامنے کچھ نسبتاً کھول کر پیش کر دیتا ہوں۔

 آپ نے فرمایا کہ تمہارا خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو۔ اور سچے ایمان کی کیا خصوصیات ہیں؟ سب سے بڑی یہ کہ غیب پر ایمان ہو۔ اس بات پر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چھپی ہوئی بات کو جاننے والا ہے۔ وہ علّامُ الغیوب ہے۔ وہ نہ صرف ان راز کی باتوں کو جو تم ایک دوسرے سے کرتے ہو، جانتا ہے بلکہ تمہارے دل کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ پس جب وہ ہر چھپی ہوئی اور ہر راز، ہر نہ نظر آنے والی چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر بات کا علم رکھتا ہے تو پھر اپنے ہر عمل کے وقت اس کا خوف دل میں ہونا چاہئے۔ مومن کی نشانی یہ بتائی ہے کہ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ(الانبیاء:21) کہ مومن غیب میں بھی خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی دنیاوی آنکھ اسے نہیں دیکھ رہی، اس وقت بھی سامنے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔

                پھر سچے ایمان کی یہ نشانی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے، اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق فیصلے کا کہا جائے توسَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ اس کے علاوہ اُن کا اور کوئی جواب نہیں ہوتا۔ نمازوں کو قائم کرنے والے، نمازیں باقاعدہ پڑھنے والے اور وقت پر پڑھنے والے ہی سچے ایمان لانے والے ہیں۔ پھر سچے ایمان لانے والے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والے ہیں، اس کے حضور جھکے رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد سے اپنی زبانیں تر رکھتے ہیں۔ عاجزی دکھانے والے ہیں اور تکبر سے دور بھاگنے والے ہیں۔ تکبر کے بارے میں ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ بڑوں بڑوں کو یعنی ان کو جو بڑے ایمان کا دعویٰ کرنے والے ہیں امتحان میں ڈال دیتا ہے۔ وقت آنے پر اپنی اَنا اور جھوٹی عزتوں کے نام پر بہت کچھ تکبر انسان کر جاتا ہے۔ پس جب تک انسان میں عاجزی نہ ہو، جھوٹی عزت کا خاتمہ نہ ہو اس وقت تک ایمان کمزور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر ذلّت برداشت کرنے کے لئے انسان تیار ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کو مشکلات اور مصیبتوں سے نکالتا ہے۔

                پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو خفّت کی نظر سے نہ دیکھو۔ کسی بھی حکم کو کم اہم اور چھوٹا نہ سمجھو کیونکہ یہ بات عملی اصلاح میں حائل ہو گی۔ اور صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اہم سجھو بلکہ فرمایا ان کی تعظیم کرو۔ صرف اہم ہی نہیں سمجھنا بلکہ ان کی تعظیم کرو اور ہر حکم کو عملاً اپنے اوپر لاگو کرو۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وہ بات نہ کہوجو تم کرتے نہیں ۔ وہ بات تم دوسروں کو نہ کہو جو تم خود کرتے نہیں۔ اب عہدیدار نچلی سطح تک جا کر اپنے جائزے لیں کہ کیا وہ سب باتیں جو وہ دوسری ممبرات کو کہتی ہیں ان پر خود بھی عمل کرتی ہیں؟ پھر حسد ہے، بغض ہے، کینہ ہے۔ پردے کا اعلیٰ معیار ہے۔ بچوں کی تربیت ہے۔ انصاف کو قائم رکھنے کے لئے اگر اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑی تو یہ گواہی دینا ہے۔ یہ سب حکم ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو دوسروں کو تو کہتے ہیں لیکن اگر اپنا معاملہ آئے تو حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے حکموں کی عملاً تعظیم کے خلاف ہے۔

                پھر آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ تمہارے ہر کام میں خدا کی رضا مقصود ہو، دنیا مقصود نہ ہو۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتا چلتا ہے کہ بسا اوقات دنیا کی لذتیں اور بہانے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں، خدا تعالیٰ کی رضا پیچھے چلی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا آخرت کی فکر رکھو۔ آخرت کی فکر ہو گی تو خدا تعالیٰ کی رضا ہمیشہ سامنے رہے گی دنیا کا حصول پیچھے چلا جائے گا۔

                آجکل گھروں کے جھگڑوں میں دنیاوی باتوں کا حصول بہت کردار ادا کر رہا ہے۔ کل بھی میں نے خطبے میں ذکر کیا تھا۔ نہ لڑکے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے رشتے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں نہ لڑکیاں صاف دل ہو کر اپنے رشتے نبھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ حالانکہ رشتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے حقوق کی ادائیگی کا ایک دوسرے کو پابند کیا ہے، لڑکے کو بھی اور لڑکی کو بھی بلکہ گھر والوں کو بھی۔ نکاح کے موقع پر جو آیات پڑھی جاتی ہیں اس میں سب سے آخری ہدایت ہی یہی دی گئی ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ بھاگتے رہو۔ یہ دیکھو کہ تم نے آئندہ کے لئے کیا نیکیاں کمائی ہیں یا کمانے کی کوشش کی ہے۔ اس حکم میں ذاتی اعمال کی طرف بھی توجہ دلائی کہ تمہارے نیک عمل آئندہ آنے والی زندگی میں تمہارے کام آئیں گے اور اولاد کی تربیت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا کے حصول کے پیچھے نہ پڑے رہو بلکہ اپنے بچوں کی تربیت کر کے اپنی آئندہ نسلوں کو سنبھالو۔ انہیں نیکیاں بجا لانے والا بناؤ تا کہ وہ اپنی عاقبت بھی سنوار سکیں اور نیک تربیت کی وجہ سے تمہارے لئے دعا کر کے تمہارے درجات کی بلندی کا بھی باعث بن جائیں۔

                آپؑ نے فرمایا کہ تم بیعت کر کے سلسلے میں داخل ہو گئے۔ بہت سے تم میں سے اپنے باپ دادا کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہو۔ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی غرض تب پوری ہو گی جب تم تقویٰ پر چلو گے۔ اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا: پس اس طرف توجہ کرو کہ تقویٰ میں بڑھنا ہے اور یہ صرف ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ ہر روز نئی توجہ ہو تبھی معیار بلند ہوں گے۔ آپ علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا کہ جو بیعت کر کے توجہ نہیں کرتا وہ جھوٹا اقرار کرتا ہے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلد 3 صفحہ 174-173۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                پس چاہے وہ عورتیں ہوںیا مرد، ہر ایک کو ہر روز نئے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ تقویٰ کے معیار کہاں ہیں۔ ورنہ آپ نے صاف فرما دیا کہ اگر یہ نہیں تو بیعت کا اقرار جھوٹا ہے۔ اگر تقویٰ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو گی اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا معیار جو آپ نے مقرر فرمایا وہ یہ ہے کہ ان کے حقوق کی حفاظت ہو۔ یعنی حقوق العباد کی ادائیگی عارضی عمل نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت کرنی ہے۔ مسلسل نظر رکھنی ہے کہ کہاں حقوق العباد تلف ہو رہے ہیں، مَیںفوراً وہاں پہنچوں اور ان کی حفاظت کروں۔ یہ حقوق العباد کی ادائیگی ایک ایسا وسیع میدان ہے جو جہاں آپس میں محبت پیار پیدا کرتا ہے وہاں تبلیغ کے نئے راستے بھی کھولتا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے کھلیں گے اور یہ جو راستے کھلیں گے پھل لانے والے ہوں گے۔

                پھر آپ نے فرمایا کہ تزکیۂ نفس کی مسلسل کوشش کرو۔ جب نفس پاک ہو گا اور اس کی طرف توجہ ہو گی تو اعمال کی اصلاح بھی ہوتی جائے گی۔ آج دنیا کو ضرورت ہے کہ ان کے سامنے کوئی نمونہ ہو۔ اور یہ نمونہ ہم اس وقت تک پیش نہیں کر سکتے جب تک ہم مجموعی طور پر کوشش نہیں کرتے کہ اپنے اعمال کو درست کریں۔ اپنی عملی حالتوں کو اس اعلیٰ معیار پر لائیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ آپ کا یہ فرمانا ہمارے لئے ہم میں سے ہر ایک کے لئے بڑا فکر پیدا کرنے والا ہونا چاہئے، ہمیں جھنجھوڑنے والا ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال سے ساری جماعت کو بدنام نہ کرو۔ یعنی ایک شخص کا عمل بھی چاہے وہ مرد ہے یا عورت جماعت کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ پس عارضی دنیاوی لذات کی وجہ سے جماعت کو بدنام کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے نام پر ایسے کام کرنا جن کو کرنے سے خدا تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے جماعت کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ عارضی جذبات کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھول جانا دوسروں کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے۔

               پس بہت گہرائی میں ہر معاملے میں اپنے جائزے لینے اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہاں رہنے والے احمدیوں کی اکثریت اس وقت پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی آئے گا جب یہاں کے مقامی لوگ بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی صداقت کو دیکھتے ہوئے اسے اختیار کریں گے لیکن بہر حال اس وقت اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے اور ان میں سے بھی 99.99 فیصد ان لوگوں کی ہے جو پرانے احمدی ہیں۔ یا تو ان کے خاندانوں میں ان کے باپ دادا احمدی ہوئے، انہوں نے احمدیت قبول کی، ان کی وجہ سے احمدیت خاندانوں میں قائم ہوئی یا پھر اگر خود احمدیت کو قبول بھی کیاتو اس پر بھی کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، دسیوں سال گزر چکے ہیں۔ تو ایسے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں اور جب آپ دوسروں کو بتاتی ہیں کہ ہم یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں اور ہمیں ہجرت اس لئے کرنا پڑی کہ ہمارے خلاف ہمارے ملک کے قانون نے دوسرے مسلمانوں کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ جو چاہو ان سے کرو۔ اور اس وجہ سے ہم پر ظلم ہوتا ہے۔ پس آپ کی باتیں سن کر ان لوگوں کو آپ سے ہمدردیاں پیدا ہوتی ہیں۔یہ آپ کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ قریب آ کر آپ میں دیکھیں کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ اپنے دین کی خوبیاں تو بہت بیان کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں، مثلاً سچائی ہے یہ اس پر قائم نہیں۔ اگر ہمارے سچائی کے معیار اچھے نہیں تو دیکھیں گے یہ سچائی پر قائم نہیں ہیں۔ باتیں تو کرتے ہیں کہ سچائی پر قائم ہو۔ بوقت ضرورت جھوٹ بھی بول جاتے ہیں۔ تو یہاں کے لوگوں پر کبھی نیک اثر نہیں پڑے گا۔ سچائی کی پہلی بنیاد کا اس وقت پتا چلتا ہے جب آپ مرد عورتیں اسائلم کرتے ہیں۔ اگر جھوٹی کہانی بنا کر اسائلم کریں تو کبھی نیک اثر نہیں پڑے گا۔ اگر سچ بولیں گے تو کیس بھی پاس ہوں گے اور نیک اثر بھی پڑے گا، تبلیغ بھی ہو جائے گی۔ اسی طرح روزمرہ کے معاملات ہیں ان میں سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کریں۔ حکومت سے کوئی فائدہ قانون کے دائرہ، قواعد و ضوابط کے دائرہ میں رہتے ہوئے اٹھانا ہے تو اپنا معاملہ سچائی پر بنا کر پیش کریں۔ جھوٹ بول کر مفاد حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح مثلاً ایک حکم ایک مومنہ عورت کو حیا کاہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے ہر مرد عورت کے لئے اس کے مطابق حیا ایمان کا حصہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب امور الایمان حدیث 9)

               ان ملکوں میں عورت کے حیا دار لباس اور باپردہ لباس کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے اور خاص طور پر ایک حقیقی مسلمان عورت ہی اس کا اظہار کرتی ہے دوسرے تو پھر کچھ نہ کچھ معاشرے سے ڈر کر اپنے لباس میں کمی بیشی کر لیتے ہیں لیکن حقیقی مسلمان عورت اس کا اظہار کرتی ہے۔ اس لئے مسلمان عورتوں کے متعلق، احمدی مسلمان عورتوں کے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے اور سب سے زیادہ حقیقی مسلمان عورت، احمدی مسلمان عورت ہی ہے۔ تو جب حیا دار لباس اور باپردہ لباس کی بات ہو تو احمدی مسلمان عورت بھی نشانہ بنے گی۔ لیکن جب دلیل کے ساتھ آپ باپردہ لباس کی اہمیت خود ان لوگوں پر واضح کریں گی تو یقینا ان کو سمجھ آ جائے گی کہ حیا دار لباس یہ عورتیں اپنی مرضی سے پہنتی ہیں۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہے۔ عورت کی فطری حیا انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے۔ مذہب سے ان کا لگاؤ انہیں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے لباسوں کو باحیا بنائیں تو پھر ان لوگوں کے اعتراض ختم ہو جائیں گے۔ ان کو سمجھ آ جائے گی کہ یہ جبر نہیں ہے، زبردستی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کے لباس یہاں اِس وقت اَور ہیں۔ پردے کے معیار یہاں اور ہیں اَور باہر بازار میں پھرتے وقت آپ کی حالت اَور ہے تو یقینا ان لوگوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ بعض مجبوریوں کے تحت یہ پردہ کرتی ہیں اور حیا دار لباس پہنتی ہیں اور مذہب سے دلی لگاؤ ان کو نہیں ہے اور مذہب کی پابندیاں ان پر ظلم کر رہی ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ پھران پر یہ اثر ہو گا۔ تو گویا یہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دو عملی جماعت کو بدنام کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ اگر اپنے عملی نمونے نہیں ہیں تو پھر مذہب کے نام پر یہاں اسائلم لینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ پھر یہ کہیں کہ ہم آزاد لوگ ہیں اور ہماری آزادی ان مذہبی شدت پسندوں کو پسند نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں اس لئے ہماری دنیاوی آزادی اور مذہب سے دُوری کی وجہ سے اُس ملک میں جو ہم پر سختی ہو رہی ہے اِس وجہ سے ہم یہاں اسائلم کے لئے آئی ہیں اور اسی طرح مرد بھی۔ پھر جماعت احمدیہ کا نام لے کر اسائلم نہ کریں۔ یہاں پھر جماعت احمدیہ کے فرد ہونے کا اظہار نہ کریں جس کو اپنے ملک میں مذہبی پابندیوں کا سامنا ہے۔ پھر یہ نہ کہیں کہ ہم پر ظلم اس لئے ہو رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو مان لیا ہے اس لئے ہمیں ظلموں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے ہم یہاں رہ رہے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں جس وجہ سے آپ یہاں اس ملک میں رہنے کے لئے آئے ہیں رہنا چاہتے ہیں یاجو نوجوان لڑکیاں ہیںجن کے ماں باپ یہاں رہنے کے لئے آئے تھے ، یاجن  لڑکوں کے ماں باپ آئے تھے تو  ان کو پتا ہونا چاہئے کہ وہ احمدیت کی وجہ سے ہی آئے تھے۔پس اسی طرح جب ماں باپ یہاں آئے اور ان کے اسائلم منظور ہو گئے یا نئے آنے والوں کے اسائلم منظور ہو رہے ہیں تو یہاں اس ملک میں احمدی ہوتے ہوئے رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک حقیقی احمدی ہوتے ہوئے یہاںنہیں رہ رہے تو یہاں کی حکومت کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور عوام کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ پس عملی نمونہ سب سے اہم چیز ہے جس کا اظہار آپ سب سے ہونا چاہئے۔

               پھر آپ کے علم کے نمونے ہیں۔ اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ اپنے اپنے ماحول میں آپ کے اس علمی نمونے کا بھی اظہار ہونا چاہئے۔ خود بخود تبلیغ کے راستے اس سے کھلتے چلے جائیں گے، ضروری نہیں ہے کہ باہر نکل کر تبلیغ کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق اور روحانیت میں ترقی کے نمونے ہیں۔ اگر آپ اپنے ماحول میں یہ نمونے قائم کر رہی ہیں اور دنیا کی ہواوہوس کا اظہار نہیں ہو رہا تو یہ روحانیت میں ترقی کے نمونے غیر محسوس طور پر دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تبلیغ کے راستے پھر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اورپھر تبلیغ کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں کی تربیت اور انہیں خدا تعالیٰ سے جوڑنے اور جماعت کا فعال حصہ بنانے کے لئے بھی آپ کے علمی، عملی اور روحانی نمونے ضروری ہیں۔ اگر ان پر توجہ نہیں ہو گی تو پھر یہ یاد رکھیں کہ کچھ سالوں بعد ایسے گھر بکھر جائیں گے۔ پھر گھروں کے سکون و امن کے لئے بہت سے لوگ کہتے ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ اس کو قائم رکھنے کے لئے بھی ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہیں اور جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں ۔ اور جب یہ سب کچھ ہو گا تو آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی جذب کرنے والی ہوں گی۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے، ان کو حاصل کرنے کے لئے اپنی عملی حالتوں پر غور کرنے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

               جیسا کہ مَیں نے کہا آپ میں سے اکثر کے باپ دادا احمدی ہوئے تھے۔ یہ بزرگ نیک تھے۔ متقی تھے۔ کچھ دیکھ کر اور خدا تعالیٰ سے ہدایت حاصل کر کے ہی احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ اگر اپنے باپ دادا کی عزتوں کی حفاظت کرنی ہے تو پھر بھی یہی ضروری ہے کہ اپنی عملی، علمی اور روحانی حالتوں کی جگالی کرتے رہیں، ان کے جائزے لیتے رہیں کہ کہاں تک درست ہیں۔ ورنہ ان کی روحوں کے لئے آپ لوگ بے چینی کا باعث بن رہی ہوں گی، اسی طرح مرد بھی۔ اگر جماعت سے منسلک ہو کر ان مقاصد کو حاصل کرنے والا بننا ہے جس کے حصول کے لئے آپ کے باپ دادا جماعت میں شامل ہوئے تھے تو ان کی یاد کو اپنی عملی حالتوں کی تبدیلیوں میں تازہ رکھیں تبھی ان کی روحوں کو خوش کر سکتے ہیں۔ جو ایمان ہمارے بڑوں کے اندر تھا وہی ایمان ہمارے اندر ہونا چاہئے۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی سچائی ہر ایک کے دل میں میخ کی طرح گڑی ہونی چاہئے۔ نئی آنے والی عورتیں اور مرد یہ سچائی دیکھ کر ہی ہم میں شامل ہوتے ہیں۔ اس سچائی کو مزید نکھار کر دکھانے کے لئے ہر ایک کو عملی نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔ احمدیت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ ترقی کرنی ہے۔ اگر پرانے احمدیوں کے عملی نمونے نئے آنے والوں کے لئے مددگار ہوں گے تو اس کا بھی ثواب ملے گا۔ اگر عملی نمونے نہیں دکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان نئے آنے والوں میں سے ہی عملی نمونے قائم کرنے والے پیدا فرماتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح سے احمدیت پر نازل ہو رہا ہے اور کس طرح اس نے جماعت پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ کس طرح جماعت کی ترقی وہ ہر روز جماعت کی تعداد میں اضافہ کر کے فرماتا ہے۔ اس کے چند واقعات پیش کر دیتا ہوں۔یہ آپ کی دلچسپی کے لئے بھی اور علم کے لئے بھی اور اپنے جائزے لینے کے لئے بھی ہیں۔

               مالیؔ کے ایک علاقے میں ہمارے معلم نے لکھا کہ وہاں ایک گاؤں جیجا ہے۔ عبداللہ تراورے صاحب وہاں کے امام ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کافی دیر پہلے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جس میں آپ نے اسے فرمایا کہ بیعت کر لو اور فلاح پا جاؤ اور اس کے بعد سے وہ کافی عرصے تک اس کی تعبیر کی تلاش میں رہے۔ اب جبکہ احمدیہ ریڈیو ربوہ ایف ایم پر۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی خبر سنی ( وہاں ریڈیو بھی ایک نہیں بلکہ ہمارے کئی ریڈیو سٹیشن اللہ تعالیٰ کے فضل سے چلتے ہیں۔) تو وہ مشن ہاؤس آئے اور ایم ٹی اے پر مجھے انہوں نے دیکھا( اس وقت ایم ٹی اے چل رہا تھا اور میرا پروگرام بھی ہو رہا تھا۔) تو اِنہوں نے کہاکہ انہی نے ہی مجھے کہا تھا کہ بیعت کر لو اور فلاح پا جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اس وقت بیعت کر لی۔

               پھر فلسطین کے ہمارے ایک احمدی ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ میں نے خلیفہ خامس کو خواب میں اسی لباس میں دیکھا جس میں وہ ایم ٹی اے پر نظر آتے ہیں۔ میں نے باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ اپنی طرف کھینچا وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے آپ کی محبت ہے جس کے نتیجہ میں مَیں نے بیعت کا فیصلہ کیا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس خلیفہ کو تو مَیں پہلے سے جانتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی۔ تو گویا کہ جب وہ بیعت کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو یہ ثبوت دے رہا ہے کہ احمدیوں کے پاس ہی اب اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اور عملی نمونے ہیں۔ اگر ہمارے عملی نمونے نہیں ہوںگے تو  اللہ تعالیٰ ان لوگوںکو جن کے ایمان میں وہ ترقی دے گا ان کوپھر آگے لے آئے گا اور پرانے پھر پیچھے چلے جائیں گے۔

               پھر یمن کے ایک احمدی ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ شیعہ عالم کی مسیح کی بابت ایک ٹی وی چینل پر گفتگو سنی۔ اس سے قبل یمنی علماء سے نزول مسیح کی بابت بات ہوتی رہتی تھی۔ جب مَیں امام الزمان کی شناخت کی بابت دعا کرتا تھا تو اس دوران وہ کہتے ہیں کہ کئی دفعہ انہوں نے مجھے خواب میں دیکھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں اپنے اہل خانہ اور ہمسایوں کو امام الزمان کے آ چکنے کی خبر دیتا تو وہ میرا مذاق اڑاتے۔ مَیں دعا کرتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے احمدیوں سے ملا دے۔ آخر اپریل 2013ء کو ایک رات میں اسی ہنسی ٹھٹھے کی وجہ سے دکھی ہو کر سویا ہوا تھا کہ مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کو خواب میں دیکھا۔ آپ نے ویسا ہی لباس زیب تن کیا ہوا تھا جو ایم ٹی اے پر دکھائی دیتا ہے مگر وہ سفید تھا۔ آپ ایک سرسبز علاقے میں سے گزر رہے تھے۔ آپ کے پیچھے بے شمار لوگ سفید کپڑے پہنے اور جھنڈا اٹھائے چلے جا رہے تھے جن پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّد رَسُوْلُ اللّٰہ  لکھا ہوا تھا اور اس وقت میری آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں  اس رؤیا کے تین ماہ کے بعد میرے بھائی نے مجھے خبر دی کہ احمدیوں کی طرف سے ہمارے مکرم شبوطی صاحب وہاں ہیں انہوں نے رابطہ کیا ہے۔ اس کے بعد پھر انہوں نے بیعت کر لی۔ پھر یہ کہتے ہیں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ثبات قدم سے نوازے اور یقین و معرفت میں ترقی عطا فرمائے۔ پس یہ ایسے لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرما رہا ہے۔ پھر انہیںیقین و معرفت میں ترقی کی فکر ہے تا کہ عملی نمونے قائم کر سکیں۔ اپنے علم میں بھی بڑھ سکیں۔ اپنی روحانیت میں بھی بڑھ سکیں۔

               آج ہر مرد اور عورت کو اس نہج سے اس طریق سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ یقین و معرفت میں ترقی کس طرح کرنی ہے۔ یا ہم نے کس طرح دنیا کی رنگینیوں سے بچنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر احمدیت کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

               پھر ایک اور ملک گنی کناکری ہے۔ وہاں سے بھی مبلغ لکھتے ہیں کہ ان کے لوکل مشنری نے لکھا کہ ہمارے گھر میں میرے بہنوئی ماریکا صاحب اکثر جماعت احمدیہ کے بارے میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کا ماحول بڑا مذہبی تھا۔ لہٰذا طبعاً میں بھی ان کی باتیں غور سے سننے لگا۔ ایک دن گھر میں ایک بڑی سوال و جواب کی مجلس ہوئی۔ محلے کے امام کو بھی مدعو کیا گیا لیکن جب مولوی صاحب سے بات نہ بن پڑی تو یہ مجلس بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی۔ تاہم میرے دل میں سچ کو جاننے کی ایک خلش تھی۔ لہٰذا میں نے دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کی کہ اے اللہ! میری رہنمائی فرما اور مجھے اس جماعت کی سچائی کے متعلق راہ دکھا دے۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں اس کے بعد سو گیا اور خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں ایک ویران جگہ میںہوں اور اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے اور بارش سے بچنے کے لئے قریب ہی ایک غار ہے۔ مَیں اس غار میں پناہ لیتا ہوں۔ اس دوران آسمان پر بجلی چمکتی ہے اور مجھے ایک آواز سنائی دیتی ہے ’ مرزا مسرور احمد‘۔ اور یہ آواز تین دفعہ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ کیونکہ یہ نام ہمارے معاشرے میں عام نہیں ہے اس لئے میں یہ خواب بھول گیا۔ لیکن ایک دن میرے بہنوئی گھر میںجماعت کی تبلیغ کر رہے تھے اس دوران انہوں نے مرزا مسرور احمد نام لیا۔ میں نے جب یہ سنا مجھے اپنا خواب یاد آ گیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کس کا نام ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ کا نام ہے۔ اور اس پر کہتے ہیں کہ جماعت سے متعلق میری دلچسپی بڑھی اور میں نے جماعت کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل رہنمائی کی التجا کرتا رہا۔ ایک رات پھر خواب میں دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور زور سے بجلی چمکی اور بجلی کی چمک کے ساتھ آسمان پر روشن الفاظ میں لکھا ہوا تھا کہ مرزا غلام احمد۔ اور یہ نظارہ تین دفعہ دہرایا گیا اور ہر بار چمک پہلے سے بڑھ کر نظر آتی تھی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد میری تسلی ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور مجھے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ تو اللہ تعالیٰ تو لوگوں کی رہنمائی فرما کر جماعت میں شامل فرما رہا ہے اور اگر یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھتے چلے جائیں گے اور اپنے عملی نمونے دکھاتے چلے جائیں گے تو یہی جماعت میں آگے آنے والے لوگ ہوں گے۔ اس لئے ہمیں بہت فکر کی ضرورت ہے کہ ہمیں بھی اپنی عملی تربیت کی طرف، علمی حالت کی طرف، روحانی حالت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب کیا یہ باتیں انسانی سوچ کی اور عقل کی ہیں۔ یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رہنمائی ہے اور اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ جماعت سچی ہے۔ اور جب سچی ہے تو پھر اس کی سچائی ہم پراور ہر فرد پر اس وقت ظاہر ہو گی یا ہم سے اس کا اظہار اس وقت ہو گا جب ہم اس کی عملی تصویر بننے کی کوشش کریں گے اور تبھی ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت حاصل کرنے والے بھی ہوں گے۔

               پس یہ سب واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کسی جہالت کی وجہ سے احمدیت کو قبول نہیں کیا نہ کسی مجبوری کے تحت۔ مجبوری کیا بلکہ احمدیت قبول کرنے کے بعد تو مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے قصے یقینا آپ لوگوں نے جو پرانے احمدی ہیں جو صحابہ کی اولادوںمیںسے ہیں یا جنہوں نے عرصہ ہوا بیعت کی ان کے گھروںمیں ہوتے سنے ہوں گے کہکس طرح آپ کے باپ دادا سے سختی کی گئی۔

               پس یہ ہر نیک فطرت اور مذہب کی تلاش کرنے والے کی تلاش کا نتیجہ ہے کہ کچھ ان کی کوشش سے اور سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا فضل انہیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جنہیں پیغام بھی نہیں پہنچتا لیکن اللہ تعالیٰ رہنمائی فرما دیتاہے اور پھر کوئی نہ کوئی احمدی جب انہیں ملتا ہے اور اس کی حالت دیکھتے ہیں اور عملی نمونہ دیکھتے ہیں تو پھر ان کو اس رہنمائی کی جو سالوں پہلے ہوئی ہوتی ہے یاد آ جاتی ہے اور پھر احمدیت کی قبولیت کے دروازے ان پر کھل جاتے ہیں اور وہ قبول کر لیتے ہیں۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ احمدیت کی سچائی کی خدا تعالیٰ اُس زمانے میں بھی تائید فرما رہا تھا اور آج بھی تائید فرما رہا ہے۔

                ایک بات یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دین میں شامل بدعات کو دور کرنے اور آئندہ کے لئے بدعات سے بچانے کے لئے آئے تھے اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء بھی اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کے جاری نظام میں آنے والا ہر خلیفہ اس لئے خلیفۃ المسیح کہلاتا ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دین کی تجدید کے کام کو جاری رکھنا ہے اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بعض عورتیں بعض باتیں پہلے خلفاء کی طرف منسوب کر کے پھر یہ کہتی ہیں کہ اب اس طرح کیوں ہو رہا ہے۔ اس سے الٹ کیوں ہو رہا ہے؟ پہلے خلیفۃ نے تو یہ فرمایا تھا اور اب یہ ہو رہا ہے۔

               اوّل تو یہ یاد رکھیں کہ کوئی خلیفہ خلاف شریعت بات نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ موازنہ اور مقابلہ کرنا ہی غلط ہے۔ اس سے ایسی باتیں کرنے والی جو عورتیں ہیں یا اگر مرد کرتے ہیں تو وہ فتنہ میں پڑیں گے اور کچھ نہیں ہو گا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کل بھی ایک شخص کی مثال دی تھی کہ اس کا ایمان صرف ذرا سی کہنی کی ٹھوکر لگنے سے ضائع ہو گیا تو یہ آپ لوگوں کا ایمان ضائع کرنے کا باعث بن جائیں گی اور آپ کا اپنا ہی نقصان ہے۔ یاد رکھیں کہ ہر خلیفہ نے اس طرح ان لائنوں پر تربیت کرنی ہے جس کے طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمائے ہیں اور کر کے دکھائے ہیں۔ پس ہر خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر تربیتی اور تبلیغی کام سرانجام دیتا ہے۔ کوئی کسی بات پر حالات کے مطابق زیادہ زور دیتا ہے اور کوئی کسی بات پر۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی خلیفہ، نہ مَیںنہ میرے سے پہلے ایسے تھے جو باقی امور کو کلیۃً نظر انداز کر دیں۔ ہاں بعض حالات کی وجہ سے بعض باتوں پر زور زیادہ ہو جاتا ہے۔

               پس سعادت اسی میں ہے کہ جو وقت کا خلیفہ بات کہے اس کے پیچھے چلیں اور اطاعت کے نمونے دکھائیں۔ اسی میں آپ کی کامیابی ہے اور اسی میں آپ کی نسلوں کی بقا ہے۔ پس ہماری عورتوں اور مردوں کو بغیر کسی حیل و حجت کے اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور لغو باتوں میں پڑنے کی بجائے اطاعت کے نمونے دکھانے چاہئیں اور خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہئے اور جب یہ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی نشانات بھی ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے ہوئے کامل اطاعت کے نمونے دکھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی حالتوں میں تبدیلی کرنے والا بنائے۔

                اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں