خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع تقریب تقسیم جامعہ احمدیہ یوکے13 دسمبر 2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے 22 طلباء جو آخری کلاس، کے شاہد کے تھے مبلغ اور مربی بن کر نکل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ہر لحاظ سے آپ کو مبارک فرمائے۔ لیکن یاد رکھیں کہ آج سے یا جامعہ پاس کرنے کے بعد سے آپ کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا ہے۔ آپ ان لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جو تفقّہ فی الدّین کرنے کے بعد دنیا کو حق و صداقت دکھانے اور دنیا کو حق و صداقت پر چلانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ پس سب سے پہلے تو آپ کو ہر وقت، ہر لمحہ خود اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ یہ ذمہ داری جو آپ پر پڑی ہے یہ ایک بہت بڑی     ذمہ داری ہے۔ حق و صداقت بتانا اور سکھانا اور اس پر دنیا کو چلانا یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کو جیسا کہ مَیں نے کہا ہر وقت آپ کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا، پیش نظر رکھنا ہو گا تبھی آپ اپنی ذمہ داری کو احسن رنگ میں ادا کر سکیں گے۔ جب اپنے جائزے ہوں گے تو تبھی آپ صحیح رنگ میں تبلیغ بھی کر سکیں گے اور تربیت بھی کر سکیں گے۔ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو نمونہ چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے نمونے نہیں تو کبھی صرف علم کی بنیاد پر یہ کامیابیاں نہیں مل سکتیں۔ پس یہ بہت اہم بات ہے جسے ہمارے ہر مربّی، ہر مبلغ کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

                اس پر ہی خوش نہ ہو جائیں یا یہیں پر بس نہیں کہ ہم نے جامعہ احمدیہ پاس کر لیا۔ اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ پوزیشن لے لی۔ بہت بڑے بڑے پوزیشن لینے والے مَیں نے دیکھے ہیں جب میدانِ عمل میں جاتے ہیں تو ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے جبکہ اخلاص اور وفا سے بھرے ہوئے اپنے عملی نمونوں کی طرف توجہ دینے والے ایسے ہوتے ہیں جو گو جامعہ کے دوران پڑھائی میں بیشک کم بھی ہوں لیکن میدانِ عمل میں بہت کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پس آپ کے کامیابی کے اصل معیار اب پتا لگیں گے۔ صَرف و نحو پڑھ لینا، فقہ پڑھ لینا، ترجمہ پڑھ لینا یا اس میں پوزیشن لے لینا۔ تفسیر کو رَٹ کے اس کے اوپر لمبے نوٹس لکھ دینا یہ کامیابی کا معیار نہیں ہے۔ اب کامیابی شروع ہو گی جب آپ خود ان چیزوں پر غور کریں گے، اُن پر عمل کریں گے، ان کو سمجھیں گے اور پھر آگے دنیا کو سمجھائیں گے۔ بس یہ بات یاد رکھیں جیسا کہ میں نے کہا اب آپ کا یہ نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ اس بات پر آپ نے خوش نہیں ہو جانا کہ جامعہ پاس کر لیا اور اب ہم کام پر لگا دیئے جائیںگے۔ جو پڑھنا تھا پڑھ لیا اور اب ہمارا کام ختم۔

                جیسا کہ مَیں نے کہا کہ علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی ترقی ضروری ہے۔ اور یہ میدان جب تک زندگی ہے اس کے لئے کھلا ہے۔ سات سال کا ایک محدود دَور ختم ہو گیا اور تمام عمر پر پھیلا ہوا ایک نیا دَور شروع ہو گیا۔ ہر دن جو چڑھے وہ علم میںا ضافے کے ساتھ چڑھنا چاہئے۔ عمل میں ترقی کی طرف توجہ دیتے ہوئے چڑھنا چاہئے۔ عملی ترقی کو حاصل کرتے ہوئے چڑھنا چاہئے۔ اور ہر رات جو آپ پہ آئے وہ اپنے دنوں کی روحانی اور علمی ترقی اور عملی ترقی کے جائزے لیتے ہوئے گزرنی چاہئے۔ پس جب یہ جائزے آپ کے سامنے ہوں گے تبھی آپ کو اپنے معیار نظر آئیں گے، اپنی progressنظر آئے گی۔ جہاں کمی ہو گی اس کو پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر یہ جائزے نہیں ہوں گے تو اسی دنیادار کی طرح ہوں گے جس کا کام صرف صبح اٹھ کے اپنی نوکری پر جانا اور شام کو نوکری سے واپس آ جانا ہے۔ آپ کی نوکری خدا تعالیٰ کی نوکری ہے۔ آپ کی نوکری کسی انسان کی نوکری نہیں۔

               پس اس خدا کی نوکری ہے جو دن کو بھی دیکھ رہا ہے، جو رات کو بھی دیکھ رہا ہے اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جب اپنے جائزے لیں گے تو تبھی آپ کو اپنی حقیقت کا، اپنے معیاروں کا پتا لگتا چلا جائے گا۔ بعض ایسے بھی آپ میں سے ہوں گے جن کو تبلیغی میدان میں یا مشنز میں نہیں بھیجا جائے گا بلکہ دفاتر میں یا مختلف کاموں میں لگایا جائے گا۔ جو دفاتر میں جانے والے ہیں یا مختلف کاموں میں دوسری جگہوں پر جانے والے ہیں ان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس کام پر ہمیں لگا دیا بس ہم نے اسی طرف توجہ دینی ہے۔ اس طرف تو آپ نے توجہ دینی ہے  لیکن ساتھ ساتھ علمی اور عملی ترقی کی طرف بھی توجہ دیتے رہنا ہے۔ اپنے علم کو بڑھاتے رہنا ہے۔ ایک شخص ہو سکتا ہے آج کسی دفتر میں لگا دیا جائے۔ دو تین چار سال دفتر میںکام کرے اور پھر اس کو مشنری کے طور پر بھیج دیا جائے۔ تو اگر آپ کی تیاری نہیں ہو گی، اگر آپ نے اپنے علم میں اضافہ نہیں کیا ہو گا، اگر آپ کے دن اور رات صرف اسی کام میں گزر رہے ہوں گے جو انتظامی کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے تو میدان عمل میں آپ کو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس جگہ بھی آپ ہوں قرآن کریم پر غور اور تدبّر، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو پڑھنا، ان پر غور اور تدبّر کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب جو ہیں وہ قرآن کریم کی بھی تفاسیر ہیں اور احادیث کی بھی شرح ہیں۔ اگر آپ یہ پڑھیں گے تو دونوں چیزیں آپ پر واضح ہو جائیں گی اور میدان عمل میں آپ کا ساتھ دیں گی۔ پس جہاں بھی آپ ہوں جس جگہ بھی لگایا جائے۔ چاہے کوئی انتظامی ڈیوٹی بھی لگائی جائے، اپنے علم میں اضافے کی ہر وقت آپ کو کوشش کرتے رہنا چاہئے۔

               پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں آپ جائیںگے، اگر فیلڈ میں جاتے ہیں کسی مشن میں لگایا جاتا ہے تو لوگوں کی توقعات آپ کے ساتھ ہوں گی کہ مربی صاحب آئے ہیں، مبلغ ہمارے درمیان آئے ہیں۔ ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان توقعات پر آپ نے پورا اترنا ہے۔ اگر پورا نہیں اتریں گے تو جو کام آپ کے سپرد کئے گئے ہیں ان کو آپ احسن رنگ میں سرانجام نہیں دے سکیں گے۔ آپ کے رکھ رکھاؤ، آپ کے اخلاق، آپ کے عمل، ظاہری باتیں جو ہیں لباس، بات کرنے کا طریقہ سلیقہ، اٹھنا بیٹھنا، کھانے پینے کے طریقے یہ سارے اخلاق آپ کے جس جگہ بھی ہوں گے جس جماعت میں بھی ہوں گے وہ لوگ دیکھ رہے ہوں گے۔ اگر ان میں کمی ہو گی تو وہیں ان باتوں میں اس جماعت میں بھی کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگر ان میں اس کے اعلیٰ نمونے قائم کریں گے تو وہ اعلیٰ نمونے ان جماعتوں کے قائم ہونے شروع ہو جائیں گے۔

               پس ایک مربی اور ایک مبلغ اپنے ہر عمل کا ہر وقت جائزہ لیتے رہنے والا ہونا چاہئے تا کہ جہاں بھی جائیں آپ کے نمونے لوگوں کو بہتری کی طرف لانے والے ہوں۔ آپ کے معیار اونچے کرنے والے ہوں اور جس جماعت میں آپ ہوں اس جماعت کے علمی اور روحانی معیار اور اخلاقی معیار بھی اونچے کرنے والے ہوں۔ پس ان باتوں کی طرف آپ کو بہت توجہ دینی چاہئے۔

               پھر ایک اور اہم بات روحانیت میں ترقی ہے۔ علمی اور عملی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی ہو تو اس میں برکت پڑتی ہے۔ صرف علم حاصل کر لینا یا ظاہری طور پر اپنے رکھ رکھاؤ کو پیش کر دینا ایک عارضی فائدہ تو دیتا ہے لیکن مستقل فائدہ نہیں۔ مستقل فائدہ اسی وقت ہو گا جب آپ روحانیت میں بھی بڑھ رہے ہوں گے۔ جب آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھتا چلا جا رہا ہوگا۔ جو روحانی ترقی ہے اس کے ذریعہ سے نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھ رہا ہو گا، مخلوق کے لئے آپ کے ہمدردی کے جذبات بھی بڑھ رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور پھر یہ ہمدردی جو ہے تبلیغ اور تربیت کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ تبلیغ اس ہمدردی کے جذبے کے تحت ہو کہ ہم نے دنیا کو خدا تعالیٰ کا حقیقی پیغام پہنچا کر ان کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنی ہے۔ تبلیغ اس لئے نہیں کرنی کہ ہم نے اتنی بیعتیں کرا لیں۔ تبلیغ ہم نے اس لئے کرنی ہے، اس نیّت سے کرنی ہے کہ دنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ لکھا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مجھے کہتے ہیں کہ ہم احمدیت تو قبول نہیں کریں گے، لیکن اسلام قبول کر لیں گے۔ تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ان کو مَیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہی ہمارا مقصد ہے۔ جب تم حقیقی اسلام کو قبول کر لوگے تو تمہارے پاس کوئی اور راستہ ہو گا ہی نہیں کہ تم احمدیت قبول کرو۔پس مسلمانوں کو بھی حقیقی اسلام بتانا ہمارا کام ہے اور غیروں کو بھی حقیقی اسلام سکھانا ہمارا کام ہے۔ جس کا آخری نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ اس حقیقی اسلام کی طرف آئیں گے جو احمدیت پیش کرتی ہے، جو اس زمانے کے امام نے ہمارے سامنے رکھا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اور خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آیا ہے۔

                پس اس جذبے کے تحت آپ نے کام کرنا ہے کہ ہم نے مخلوق سے ہمدردی کر کے ان کو آگ سے بچانا ہے، ان کو تباہی سے بچانا ہے۔ تربیت ہم نے اس ہمدردی کے جذبے کے تحت کرنی ہے کہ ہم نے اپنے بھائی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانا ہے۔ ایک احمدی بھی ہے اگر وہ احمدی کہلا کر ان باتوں پر عمل نہیں کر رہا جو ایک حقیقی احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ جن کی طرف بار بار متعدد جگہوں پر اپنے ارشادات اور اپنی کتب، اپنی تقاریر، تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اگر وہ معیار ہم حاصل نہیں کر رہے یا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اپنا بیعت کا حق ادا نہیں کر رہے اور جب بیعت کا حق ادا نہیں کر رہے تو پھر یہ یقینا اس بات کی طرف لے جاتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ بن رہے ہوں۔ پس اس ہمدردی کے جذبے کے تحت آپ نے تربیت بھی کرنی ہے ۔ اس لئے تربیت میںیہ جذبہ نہیں ہو کہ اپنے آپ کی بڑائی ثابت کرنی ہے۔ دل میں سے ایک خواہش اٹھنی چاہئے کہ میں تربیت اس لئے کروں کہ اپنے اس بھائی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچاؤں، نہ اس لئے کہ یہ میری عزت کرے یا اس لئے کہ مَیں اپنی رپورٹ میں یہ لکھ سکوں کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنے لوگ ہماری مسجد میں نمازوں کے لئے آنے لگ گئے ہیں۔ نمازوں میں لانا اس لئے ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا ہے۔ نمازوں میں لانا اس لئے نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری مسجد میں ہمارے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

                اسی طرح اور دوسری تربیتی باتیں ہیں ان کو بھی آپ نے اس لئے کرنا ہے، اس لئے تربیت کی طرف توجہ دینی ہے کہ ایک دلی ہمدردی آپ کے دل میں ان لوگوں کے لئے ان کی بہتری کے لئے ہو اور اس کے لئے، تبلیغ کے لئے بھی اور تربیت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو طریقہ سکھایا ہے وہ حکمت اور موعظۃ الحسنہ ہے۔ حکمت سے بات کریں۔ موقع اور محل کی مناسبت سے بات کریں اور اچھی بات کریں۔ ایک ہی بات ایک رنگ میں کی جائے تو وہ اچھا اثر ڈالتی ہے وہی بات اگر دوسری جگہ کی جائے تو بعض دفعہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص بگڑا ہوا ہے، اس کو تربیت کے لئے آپ لوگوں کے سامنے توجہ دلائیں گے اور کوئی استہزاء کا رنگ اس میں آ جائے تو وہ مزید بگڑ جائے گا۔ اسی کو اگر آپ علیحدہ لے جا کر، بٹھا کر ہمدردی کے جذبے کا اظہار کر کے توجہ دلائیں گے تو وہ بالکل اور صورتحال ہو گی۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں۔

                ابھی ایک جگہ سے مجھے ایک صدر خدام الاحمدیہ نے رپورٹ دی کہ بہت سارے خدام جو جماعت سے بہت پیچھے ہٹے ہوئے تھے جب ان کے گھر جا کے ان سے انفرادی رابطے کئے، ان کو سمجھایا۔ جماعت کی اہمیت اور خلافت سے تعلق کے بارے میں بتایا، ان کی ذمہ داریوں کا بتایا تو وہی لوگ جو بڑے سخت دل ہو چکے تھے۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جو رو پڑے اور اپنی اصلاح کے وعدے کئے۔ مسجدوں میں آنے لگ گئے۔ ایک ایسا شخص، صدر خدام الاحمدیہ جس نے جامعہ میں نہیں پڑھا، جس نے دین کا اتنا علم حاصل نہیں کیا اگر وہ تربیت کر کے لوگوں کے دلوں کو بدل سکتا ہے تو آپ لوگ جنہوں نے ایک عرصہ ٹریننگ لی، علم حاصل کیا اور آئندہ اپنے علم کو بڑھاتے چلے جانے کا عہد کیا، آپ لوگوں کے نتائج تو بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ پس اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ آپ نے جو بھی بات کرنی ہے چاہے وہ تبلیغ کے لئے ہو یا تربیت کے لئے، اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی اصول بتا دیا کہ حکمت ہو اور احسن رنگ میں کی جائے۔ فقروں کو ایسی مناسبت دی جائے جو کسی کے دل میں جا کے لگے اور موقع اور محل کی مناسبت سے ہو۔

                پھر تبلیغ کے لئے ایک مبلغ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو ہدایت دی ہے یہ ہے کہ رات دن تضرّع اور ابتہال سے دعا میں لگے رہنا اور اتنا صبر اور حوصلہ کہ کسی صورت میں بھی چڑنا نہیں تنگ نہیں آنا۔ چِڑ کر کوئی ایسی بات منہ پر نہیں لانی جس سے دوسرے پر بجائے اچھا اثر، نیک اثر ہونے کے بُرا اثر ہو۔ کیونکہ آپ نے فرمایا  کہ چڑنے سے تنفّر پیدا ہوتا ہے۔ جب تم چِڑو گے، چِڑ کر بات کرو گے تو دوسرے آدمی کے دل میں نفرت پیدا ہو گی۔ وہ تمہارے سے بھی دور ہٹے گا اور جماعت سے بھی دور ہٹے گا۔ پس یہ ایک بنیادی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنی چاہئے بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک مبلغ کی ذمہ داریوں کے لئے یہ چیزیں زہر ہیں۔ چِڑنا اس کے لئے ایک زہر ہے اور صبر نہ دکھانا زہر ہے۔ تضرّع اور ابتہال سے کسی کے لئے دعا نہ کرنا، صرف یہ سوچنا کہ اپنی کوشش سے ٹھیک کر لوں گا یہ زہر ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 7صفحہ77)

 اور چڑچڑے پَن سے حکمت بھی جاتی ہے اور انسان احسن رنگ میں بات بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی کہ ایک غلطی کے بعد پھر دوسری غلطی ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر چڑنا تکبّر کی بھی نشانی ہے۔ یہاں جامعہ کے ماحول میں ہوتے ہوئے آپ لوگوں سے، ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ چڑ کے بھی بات کر لیتے ہیں یا کسی کی بات سے تنگ آ جاتے ہیں لیکن میدان عمل میں آپ کو اس بات کو کلّیۃً اپنی طبیعتوں میں سے نکالنا ہو گا تبھی آپ کامیاب مبلغ اور مربی بن سکتے ہیں۔ چِڑنے سے جب تکبر پیدا ہوتا ہے تو تکبر ہی تقویٰ سے دُور لے جاتا ہے اور جس میں تقویٰ نہیں اس کے کام میں پھر برکت بھی نہیں رہ سکتی۔ پس جس طرح ایک نیکی کئی نیکیوں کے بچے دیتی ہے۔ ایک برائی سے پھر دوسری برائی بھی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے بہت توجہ سے اور حکمت سے اور سوچ بچار کے استغفار کرتے ہوئے ایک مبلغ کو اپنے کام سرانجام دینے چاہئیں۔

                تقویٰ جیسا کہ مَیں نے کہا ایک بنیادی چیز ہے۔ اگر ایک مربی اور مبلغ میں تقویٰ نہیں ہو گا تو وہ پھر ایک عام احمدی کے مقام سے بھی نیچے ہے۔ مربی اور مبلغ ہونا تو دُور کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ سے پہلے یہاں سے جتنے بھی مبلغ اور مربی بن کر نکلے ہیں،( اس سے پہلے دو بَیچ (Batch) نکل چکے ہیں) ان کے بارے میں مجھے جماعتوں اور اداروں کی طرف سے اچھی رپورٹس آ رہی ہیں بلکہ کینیڈا سے شاید تین نکل چکے ہیں وہاں کی بھی رپورٹس بڑی اچھی ہیں۔ اس لئے یاد رکھیں کہ ان معیاروں کو جو آپ سے پہلے مربیان اور مبلغین حاصل کر چکے ہیں ان کو آپ نے مزید اونچا کرنا ہے اور یہ کیونکہ ساری دنیا میں سنا جائے گا تو جو پرانے مربیان ہیں ان سے بھی مَیں کہوں گا  کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اب تک انہوں نے اچھا کام کر لیا تو یہ معیار حاصل ہو گیا اور جہاں تک پہنچنا تھا پہنچ گئے۔ انہوں نے بھی اپنے معیاروں کو اونچا کرتے چلے جانا ہے اور آپ نے ان معیاروں سے مزید آگے نکلتے چلے جانا ہے۔ یہ  جومسابقت کی روح ہے جب تک رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے مربّیان اور مبلّغین کامیاب ترین مربیان و مبلغین بنتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

               یہ جو معیاروں کو اونچا کرنا ہے، کس طرح اونچا کرنا ہوگا؟ اس میں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ اونچائی عاجزی سے ملتی ہے۔ جتنی زیادہ آپ میں عاجزی ہو گی اتنی زیادہ اپنی حالتوںکی طرف توجہ ہو گی اور اتنے زیادہ آپ لوگوں کے معیار بھی اونچے ہوتے چلے جائیں گے۔ عاجزانہ راہیں ہی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس بات کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اظہار اور اعلان فرمایا تھا۔ (ماخوذ از تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ520حاشیہ)

 پس حضرت مسیح موعود کے کام کی تکمیل کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والوں کو بھی وہی طریق اپنانا ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پسند فرمایا اور اپنایا۔ اس کے بغیر برکت نہیں پڑ سکتی۔ اسی سے کامیابیاں ملیں گی انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی سے خدا تعالیٰ کا پیار ملے گا۔ اسی سے علم و عقل میں اضافہ ہو گا۔ آپ کو بھی اور آپ سے پہلے میدانِ عمل میں جانے والوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی قسم کی تعریف آپ میں تکبّر پیدا نہ کرے۔ آپ اچھا کام کر رہے ہیں تو تعریف بھی ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ تعریف خلیفہ وقت کی طرف سے ہو، چاہے وہ تعریف انتظامیہ کی طرف سے ہو، چاہے لوگ آپ کے کام کی تعریف کریں اور سراہیںتو ہر تعریف بجائے آپ میں تکبر پیدا کرنے کے آپ کو عاجزی کی طرف لے جانے والی ہونی چاہئے اور جتنا زیادہ آپ عاجزی میں بڑھتے چلے جائیں گے اتنے ہی زیادہ آپ اس پھلدار درخت کی طرح پھل لگانے والے ہوں گے جس کو پھل لگتے چلے جاتے ہیں کیونکہ پھل لگنے کے ساتھ ہی، جن ٹہنیوں پر جن شاخوں پر پھل لگتے ہیں وہ جھکتی چلی جاتی ہیں۔ تعریفیں پھل کی صورت میں ہونی چاہئیں جو آپ کو جھکانے والی ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں کی عادت ڈالیں۔

                دعاؤں کے بغیر نہ کوئی کامیاب مبلغ بن سکتا ہے نہ ہی مربی بن سکتا ہے۔ ہمیں جو کچھ ملنا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنا ہے اور ملتا ہے۔ اس لئے دعاؤں کی طرف بہت توجہ ہونی چاہئے۔ جتنی زیادہ آپ دعاؤں کی طرف توجہ دیں گے اتنی زیادہ روحانیت میں بھی ترقی کریں گے۔ اتنی زیادہ عملی ترقی بھی کریں گے۔ اتنی زیادہ اخلاقی ترقی بھی کریں گے۔ اتنی ہی زیادہ علمی ترقی بھی کریں گے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ ایک نصیحت فرمائی تھی اس کا کچھ حصہ مَیں اس وقت آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ اس کی ہر زمانے میں ضرورت ہے۔ آپ نے واقفین کو ہی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:

               [’’سب سے پہلے تو مَیں واقفین زندگی کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں۔ وہ آئندہ جماعت کے مبلغ بننے والے ہیں اور دعا کے بغیر کوئی مبلغ کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں) ’’اورچونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس زمانے میں ان کے لئے رہبر بنایا ہے اور رہبری کے لئے ضروری ہے کہ رہبر تندرست ہو۔ اس لئے تم خصوصیت سے میرے لئے دعائیں کرو۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ تمہاری دعاؤں سے مجھے صحت ہو گی اور مَیں تمہارے کام کی نگرانی صحیح طور پر کر سکوں گا۔( خلیفۂ وقت کے سپرد واقفین زندگی اور مربّیان کے کام کی نگرانی کا کام بھی ہے۔ اس لئے آپ لوگوں کا کام ہے کہ خلیفۂ وقت کے لئے بھی دعائیں کریں اور فرمایا کہ) دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ خود تمہاری روحانیت ترقی کرے گی۔ گویا ایک تیر سے دو شکار ہوں گے۔ ایک طرف تمہارا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا جائے گا اور دوسری طرف تم سے کام لینے کا فرض جس انسان کے سپرد کیا گیا ہے اس کی طاقت، قوت اور عقل میں ترقی ہو گی اور وہ مناسب طور پر تمہارے کام کی نگرانی کر سکے گا۔ یاد رکھو جو شخص روحانیت میں ترقی کرتا ہے وہی دنیا کا سردار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً فرمایا تھا کہ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1صفحہ579حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

 یعنی زمین اور آسمان اسی طرح تمہارے ساتھ ہیں جس طرح وہ میرے ساتھ ہیں۔ اسی طرح اگر تم دعائیں کرو گے تو تمہیں بھی آسمان اور زمین مل جائیںگے۔ جو کتابیں تم سکول میں پڑھتے ہو (یا جامعہ میں پڑھتے رہے) ان سے آسمان اور زمین نہیں مل سکتے۔ ( آپ نے جامعہ سے جو علم حاصل کیا صرف اس کے پڑھنے سے زمین اور آسمان نہیں مل سکتے۔) صَرف اور نحو اور منطق پڑھنے سے تمہیں آسمان اور زمین نہیں ملیں گے۔ ہاں اگر تم دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکو گے تو تمہیں آسمان اور زمین مل جائیں گے۔ اور اگر ان دعاؤں میں تم مجھے بھی شامل کرو گے (یعنی خلیفہ وقت کو بھی شامل کرو گے) تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ یہ لوگ اب کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی شخص کام لینے والے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ خود کام کرنا چاہتا ہے۔ تم دیکھ لو، میٹ مزدور کی نگرانی کرتا ہے، (جو ان کا انچارج ہوتا ہے نگران ہوتا ہے۔) مزدور چاہتا ہے کہ میٹ ( ان مزدوروں کا جو نگران ہے ) کہیں چلا جائے تا وہ آرام کر سکے۔(مزدوروں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چلا جائے تا کہ وہ آرام کریں جو نکمّے مزدور ہوتے ہیں۔) لیکن اگر مزدور خود میٹ کو آواز دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ کام کے لئے تیار ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ وہ کام کرے۔ یاد رکھو ایک،ایک، مبلغ کے ذریعہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہونے چاہئیں۔ پس علاوہ اپنے مفوّضہ کام کے تم میرے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہو۔ تم دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دماغوں میں اثر پیدا کرے۔( ان کے دماغوں میں اثر پیدا کرے۔) تمہیں بلند حوصلہ بخشے،( صبر بخشے۔ جیسا کہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان میں میںنے بتایا۔) تمہیں قوی اور شجاع بنائے۔ تمہیں وہ طریق سکھائے جس کے نتیجے میں لوگ تمہاری بات مان لیں۔ (باتوں میں اثر پیدا ہو۔) دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی دعا کی تھی کہ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ: 28۔29)۔ کہ اے خدا! جو کام تو نے میرے سپرد کیا ہے میں اسے ادا کرنے کی پوری کوشش کروں گا لیکن تو جانتا ہے کہ میری کوشش سے کچھ نہیں بنے گا۔ اس لئے تُو آپ میری زبان کی گرہیں کھول تاکہ لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیں کیونکہ جو لوگ میری بات سمجھنے لگ جائیںگے وہ آہستہ آہستہ میری بات ماننے کے لئے بھی تیار ہو جائیںگے۔ پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ اور ظاہری علوم بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ ظاہری علوم بھی بڑے کام کی چیز ہیں لیکن اس کے ساتھ تمہاری راتیں اور تمہارے دن دعاؤں میں صرف ہونے چاہئیں تا کہ جو فقرہ بھی تمہارے منہ سے نکلے وہ اپنے اندر اثر رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ تمہارے پیچھے چلے آئیں اور دین کے فوّارے تمہارے منہ سے نکل پڑیں اور تم اللہ تعالیٰ کی بشارتیں اپنے کانوں سے سنو۔ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا بشارتیں ملی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی اکیلے تھے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤںگا۔ (تذکرہ صفحہ 260ایڈیشن چہارم2004ء)

 اسی طرح اس نے آپ کو بشارت دی کہ میں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14 صفحہ398)

اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا۔ یہ سب کچھ آپ کی انابت اور توجہ الی اللہ کی وجہ سے ہوا۔ اگر تمہارے اندر بھی اسی قسم کا یقین پیدا ہو جائے اور تم بھی خدا تعالیٰ کی طرف جھکو تو اسی طرح خدا تعالیٰ کی تائید تم میں سے بھی ہر ایک کو حاصل ہو گی اور دنیا بھی تمہیں ملے گی اور دین بھی تمہیں ملے گا۔‘‘ (تحریک جدید ایک الٰہی تحریک، جلد سوم صفحہ 567۔569)

               پس یہ باتیں ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہئیں۔ جس خدا نے بغیر وسائل کے دنیا کے 206 ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے پیدا فرما دئیے وہ اب بھی قدرت رکھتا ہے۔ آپ جو کینیڈا سے فارغ ہونے والے ہیں یا یوکے(UK) سے فارغ ہونے والے ہیں یا آئندہ جرمنی سے فارغ ہوں گے یا دنیا کے دوسرے جامعات سے فارغ ہو رہے ہیں ، آپ لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دے رہا ہے کہ اس جہاد کا حصہ بن کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے و الے بن جائیں۔ پس اپنی اہمیت کو سمجھیں۔

                اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ سے تبلیغ اور تربیت کرنے کا عہد کیا ہے۔ آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس لئے پیش کرتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچائیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ دنیا کی مخلوق کو صحیح رنگ میں اس تعلیم سے آگاہ کریں جس سے ان کو اپنی عاقبت کی فکر رہے۔ عہد نبھانا ایک مومن کا کام ہے۔ آپ کا یہ عہد ہے۔ ہر مربی کا عہد ہے۔ ہر مبلغ کا عہد ہے۔ عہد نبھانا تو اللہ تعالیٰ نے ایک عام مؤمن کے لئے بھی ضروری قرار دیا ہے اور آپ تو اس سے ایک قدم آگے ہیں ان سے اوپر ہیں، جنہوں نے مومنین کی روحانی اور عملی تربیت کے لئے بھی کوشش کرنی ہے۔ پس ایک عام مومن جو ہے اس کے لئے بھی عہد کو نبھانا ضروری ہے تو آپ کے لئے تو کس حد تک ضروری ہو گا یہ آپ خود ہی تصور کر سکتے ہیں۔

               پس کسی دنیاوی چیز پر نظر رکھنے کی بجائے اس عہد پر ہمیشہ نظر رکھیں جو آپ نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو دنیا میں ہر جگہ پہنچائیں گے اور اپنی عملی حالتوں سے اپنے تربیت کے کام کو بھی اپنی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ لوگ یہ کریں گے تو دنیا خود بخود آپ کی غلام بن جائے گی۔ آپ کو دنیا کے پیچھے دوڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایک معمولی رقم بھی جو آپ کی جیب میں ہو گی اس میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ کے دلوں میں یہ بات ہمیشہ راسخ رہے کہ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نوکری اور اللہ تعالیٰ کے جو کام ہیں ان کو پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور زمانے کے امام کے ہاتھ پر نہ صرف بیعت کی ہے بلکہ بیعت کرنے کے بعد ان لوگوں میں اپنے آپ کو پیش کیا ہے جو دین کا علم حاصل کرنے کے بعد دنیا کو خدا تعالیٰ کے حضورلانے والے اور جھکانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو میرا حقیقی رنگ میں سلطان نصیر بنائے۔

کینیڈا سے فارغ التحصیل بھی اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ بھی یاد رکھیں۔ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ آپ سب لوگ ہی مخاطب ہیں اس لئے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔ اللہ تعالیٰ جہاں بھی آپ ہوں آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کی ضروریات کو خود پورا فرمائے۔ آپ کو مشکلات میں جب دیکھے تو خود آپ کا سہارا بنے۔ آپ کا معین و مددگار ہو۔ آپ اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے رہیں۔ آپ کی طرف سے ہمیشہ خوشی اور کامیابی کی خبریں مجھے ملتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے یہ اعزاز ہر لحاظ سے مبارک کرے اور مَیں دوبارہ کہوں گا کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں