خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے30؍اگست2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حسب روایت آج جو خطاب کیا جاتا ہے۔ خطاب تو نہیں ہوتا بلکہ سارے سال میں اللہ تعالیٰ کے جو افضال اور اس کی بارشیں جماعت احمدیہ پر ہوئیں، ان کی رپورٹ اس تقریر میں پیش کی جاتی ہے۔ سو اس وقت میں ساری تو بیان نہیں کر سکتا لیکن کچھ حصے اس میں سے بیان کروں گا۔

نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ

               پہلی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل۔ اس سال بھی اللہ تعالیٰ نے دو نئے ممالک جماعت احمدیہ کو دئیے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے 206ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ نئے ممالک جو ہیں وہ بیلیز (Belize)اور یوراگوئے( Uruguay)ہیں۔

                Belizeسنٹرل امریکہ میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں میکسیکو ہے اور جنوب میں ہنڈروس (Honduras)ہے۔ گوئٹے مالا( Guatemala)بھی اس کے ساتھ ہے۔ سپینش اور انگریزی یہاں بولی جاتی ہے۔ چھوٹا سا ملک ہے۔ تین لاکھ چالیس ہزار کی آبادی ہے۔ یہاںدو واقفین عارضی پہلے گئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سوال و جواب کا سلسلہ چلا۔ پھر لوگوں کا رجحان پیدا ہوا اور پھر اب یہاں باقاعدہ مربی سلسلہ بھی کینیڈا سے بھجوائے جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں اکیس افراد نے احمدیت قبول کر لی ہے۔

               اسی طرح یوراگوئے( Uruguay) ہے۔ یہ ساؤتھ امریکہ میں ہے۔ شمال میں برازیل اور جنوب میں اٹلانٹک اوشن(Atlantic Ocean) اور مغرب میں ارجنٹائن ہے۔ یہ بھی چھوٹا سا ملک ہے۔ تینتیس لاکھ کے قریب آبادی ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ ہوئی اور ایک خاتون نے یہاں بیعت کی ہے اور باقاعدہ اخلاص میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہیں۔ جلسہ کینیڈا میں بھی یہ خاتون شامل ہوئی تھیں اور تبلیغ کے بھی یہاں باقاعدہ پروگرام بن رہے ہیں۔

               بعض رپورٹس میں چھوڑ رہا ہوں۔

نئی جماعتوں کا قیام

                اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 730 ہے اور ان کے علاوہ 1060نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ یعنی باقاعدہ جماعتیں اسٹیبلش(Establish) ہوئیں۔ نظام قائم کیا گیا۔

نئی جماعتوں کے قیام کے سلسلہ میں بعض واقعات

               نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات تو بہت سے ہیں۔ ایک دو مَیں پیش کرتا ہوں۔ امیر صاحب آئیوری کوسٹ بیان کرتے ہیں کہ 2001ء میں ہمارے ایک مشنری کرومبیرا(Kromambira)نامی گاؤں کے دورے پر گئے۔ گاؤں کے امام نے ان کو گاؤں سے نکال دیا اور آئندہ یہاں آنے سے منع کر دیا۔ اب 2013ء میں اس گاؤں سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہماری ایک مسجد کا افتتاح تھا۔ ہم نے اس امام کو مدعو کیا جس نے بارہ سال قبل ہمارے مبلغ کو اس علاقے سے نکال دیا تھا اور اس کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ احمدیت کو اپنے علاقے سے نکالنے والا یہ امام متاثر ہو کر جب یہاں آیا تو اپنے زیر اثر تینتالیس(43) دیہات کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوا اور ان علاقوں میں جماعتیں قائم ہو گئیں۔

               پھر کونگو کنشاسا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ عیدالاضحیہ 2013ء کنشاسا سے باہر کبینگی(Kibengi) میں منانے کا ارادہ کیا۔ کنشاسا سے یہ فاصلہ ساڑھے چار سو کلو میٹر ہے۔ عید سے ایک دن قبل روانہ ہوئے۔ اس سفر میں ایک گاؤں مبانگی(Mabangi)میں جماعت کا پودا لگا۔ اس سے قبل یہاں کوئی احمدی نہیں تھا۔ ہم سفر کے دوران اس گاؤں سے تھوڑا آگے جا کر آرام کے لئے سڑک کے کنارے رکے۔ وہاں سے چند طلباء پیدل گزر رہے تھے۔ ان کو پمفلٹ دئیے۔ وہ پمفلٹ لے کر گاؤں پہنچے اور مسلمانوں کے امام کو دئیے۔ ہم ان کے گاؤں سے زیادہ دُور نہیں تھے۔ چنانچہ امام صاحب اپنے تین ساتھیوں کو لے کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہمارے پاس آئے۔ ان کو جماعت کا بتایا گیا اور مزید پمفلٹ دئیے۔ واپسی پر ان کے گاؤں میں رکنے کا پروگرام بنا۔ چنانچہ ہم واپسی پر اس گاؤں میں رکے اور وہاں موجود مسلمانوں اور گاؤں کے چیف سے ملے اور تبلیغی پروگرام کے بعد 22افراد نے بیعت کی اور نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔

               پھر نائیجر سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ خاکسار اپنی ٹیم کے ساتھ بیچے(Baichy) کے علاقے میں تبلیغ کے لئے گیا تو بعض گاؤں کی طرف سے ہمیں تبلیغ کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ بعض نے سنا مگر بددلی کے ساتھ۔ یہ تقریباً گیارہ گاؤں ایسے تھے جس پر خاکسار نے کوشش کی کہ پتا چلے کہ پہلی دفعہ یہ عجیب قسم کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے۔ اس پر ہمیں ایک گاؤں والوں نے بتایا کہ شہر سے ایک عالم دین الحاج عبدالکریم صاحب آئے ہیں اور وہ آپ سے آگے آگے تمام گاؤں میں گھوم رہے ہیں اور ہر گاؤں میںآپ کے متعلق منع کرتے ہیں کہ احمدیوں کو سننا بھی نہیں اور تبلیغ کی اجازت بھی نہ دینا۔ یہ لوگ کافر ہیں اور نیا دین لے کر آئے ہیں۔ نعوذ باللہ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اس وقت یہ کریم صاحب جو ہیں 36کلومیٹر آگے ایک گاؤں میں گئے ہوئے ہیں۔ کسی بڑے حاجی صاحب کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنی ٹیم کے ساتھ ہمارے مبلغ ان کے پیچھے پیچھے اس گاؤں میں جا پہنچے۔ وہاں مولوی صاحب یہ دیکھ کے بڑے حیران ہوئے۔ ہمارے مبلغ نے اپنا تعارف کروایا۔ بات شروع کی۔ اس مولوی کو کہا کہ سب نے مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ میرا جو ایمان ہے میں اس کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔ جہاں غلط ہوں وہاں میری رہنمائی کر دیں۔بہر حال کہتے ہیں۔ مَیں نے جماعت کاتفصیلی تعارف کروایا۔ اس پر مولوی بڑا حیران ہوا۔     وفات مسیح، آمد امام مہدی اور آخر پر خاتم النبیین کے موضوع پر بحث ہوئی۔ ہمارے مبلغ کہتے ہیں مَیں اپنے ساتھ ہمیشہ حوالوں کی کتابیں، حدیثوں کی کتابیں اور بعض پرانے بزرگان کے حوالے رکھتا تھا۔ وہ حوالے بھی ان کو ساتھ ساتھ دکھائے جاتے رہے۔ اس وقت جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو گاؤں والوں کی ایک کثیر تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ جب مذاکرہ ہوا تو اس امام نے کھڑے ہو کر پہلے تو احمدی قافلے والے سے معذرت کی اورپھر بار بار  اِنَّا لِلّٰہ اور استغفار پڑھتے رہے اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ اور پھر جب انہیں دعوت دی کہ ہمارے مشن ہاؤس آئیںتو انہوں نے وعدہ کیا کہ مَیں آؤں گا۔ پھر ان گاؤں والوں کو بھی انہوں نے کہا کہ مَیں غلط سمجھا تھا، مجھے غلط طور پر بتایا گیا تھا۔ اس مولوی میں کم از کم یہ شرافت تھی اور پھر انہوں نے وہاں باقیوں سے بھی معافی مانگی اور باقی جن گیارہ گاؤں میں پھر کے آئے تھے، وہاں بھی یہ گئے اور ان کو کہا کہ میں غلط تھا۔ جماعت احمدیہ کے عقائد بالکل مسلمانوں والے ہیں۔ اس لئے وہ آئیں تو بیشک تم سن لیناتواللہ تعالیٰ نے ایسا ان کا دل پھیرا۔

               گوئٹے مالا کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ امسال ملک میکسیکو میں نمایاں کام ہوا ہے۔ ایک نومسلم امام اور اس کے مقتدیوں نے احمدیت قبول کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک بنی بنائی مسجد بھی جماعت کو عطا کی ہے۔ جماعت گوئٹے مالا کے جنرل سیکرٹری ڈیوڈ گونزیلیاس صاحب کو یو ایس اے کے صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے میکسیکو سٹیٹ جس کا بارڈر گوئٹے مالا سے ملتا ہے کے بارے میں ایک ویڈیو بھجوائی کہ وہاں پر قریباً 300مقامی باشندے مسلمان ہیں اور ان کی مسجد بھی ہے۔ اس پر ہم نے میکسیکو کے نومسلم امام صاحب سے بذریعہ فون رابطہ کیا۔ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہیں گوئٹے مالا آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ چنانچہ امام ابراہیم صاحب اور ان کے نائب گوئٹے مالا آئے۔ یہاںان سے بڑی تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ سوال و جواب ہوئے اور وہ مطمئن ہو کر واپس گئے اور جماعتی کتب بھی ہمراہ لے کر گئے۔ پھر ہمارے مبلغ اور جنرل سیکرٹری نے بھی میکسیکو کا دورہ کیا۔ وہاں تین دن قیام کیا۔ ہمارے یہ مبلغ انچارج صاحب جو امیر تھے وہاں نمازیں بھی پڑھاتے رہے۔ خطبہ بھی دیا۔ جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن، احمدی اور غیر احمدی میں فرق، خلافت کی اہمیت اور برکات اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل بتائے۔ شرائط بیعت کی باتیں ہوئیں ۔ ان کے گھر میں کچھ افراد بھی جمع تھے۔ ان سب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی اور فارم فل کر دئیے اور امام صاحب نے کہا کہ جتنے احمدی یہاں ہیں وہ سب میرے مقتدی ہیں اور ان کو جو میں کہوں گا یہ وہی سمجھیں گے۔ جب میں نے بیعت کر لی تو انہوں نے بھی کر لی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اس دن اس علاقے میں ان کی وجہ سے 70افراد کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد

               نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد، ان کی مجموعی تعداد586ہے۔ 204نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 382بنی بنائی جماعت کوملی ہیں۔ جس میں امریکہ، یورپ، افریقہ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔ جن ممالک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر ہوئی ہے ان میں ملک روانڈا ہے جہاں دو مساجد تعمیر کی گئیں۔ آئرلینڈ میں بھی مسجد مکمل ہو گئی ہے۔ انشاء اللہ ستمبر میں افتتاح ہو گا۔ نیوزی لینڈ میں بھی پہلی مسجد کا افتتاح ہوا۔ برازیل میں بھی جماعت کی پہلی مسجد کا کام شروع ہو چکا ہے۔ جاپان میں بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ یہ کام تو بہر حال کئی مساجد میں ہو رہے ہیں لیکن یہ مساجد وہاں پہلی دفعہ تعمیر ہوئی ہیں ۔

مساجد کی تعمیر سے متعلق واقعات

               مساجد کے بارے میں واقعات یہ ہیں۔ چند ایک سناتا ہوں۔ غانا کے نارتھ میں چرے پونی (Cheripony) نامی قصبے میں تبلیغ کے نتیجے میں الحاج عبدالرحمن صاحب کافی تعداد کے ساتھ جماعت میں داخل ہوئے۔ جب یہ جماعت میں داخل ہوئے تو اس علاقے کی مسجد کے امام نے اعلان کیا کہ اگر وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو وہ ان کے لئے نئی مسجد بنوا کر دے گا۔ اس پر الحاج عبدالرحمن نے اسی وقت مجلس میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمیں جب حق مل گیا ہے تو ہم کیسے اس سے پیٹھ پھیر لیں۔ ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ درخت کے نیچے نمازیں پڑھ لیں گے اور جمعہ ادا کر لیں گے لیکن حق کا انکار ہم نہیں کر سکتے۔ بہر حال یہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں نئی مسجد تعمیر ہو چکی ہے۔

               پھر امیر صاحب بینن تحریر کرتے ہیں کہ جنوری میں اَلاڈا(Alada) ریجن کی جماعت ’اموسینو ہوئے‘ (Amousenohoue)میں مسجد کا افتتاح کیا گیا۔ یہاں مشرکین میں سے دو سو سے زائد افراد احمدیت میں شامل ہوئے۔ اس موقع پر مشرکین کے ایک ہیڈ نے کہا کہ وہ مشرکین کا چیف تھا۔ جب اس کے بچے اسلام میں داخل ہوئے تو اس کو بڑا دکھ ہوا ۔کہنے لگا کہ مسجد کی تعمیر کے دوران اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر نے میرے دل کو بدل دیا۔ میں بازار سے مسلمانوں والی ٹوپی خرید کر لے کے آیا کہ جس دن مسجد کا افتتاح ہو گا اس دن پہنوں گا اور پھر کبھی نہیں اتاروں گا۔ چنانچہ افتتاح والے دن وہ آئے اور مسجد میں نمازیں بھی پڑھیں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔

               پھر جاپان سے ہمارے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ یہاں بھی جو مسجد کی ایک جگہ خریدی گئی تھی اب وہاں مسجد بن رہی ہے۔ بلڈنگ ہے اس کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور اتفاق سے اس عمارت کا بڑا ہال قبلہ رُخ ہی ہے۔ مَیں نے دیکھی ہے۔ بڑی اچھی خوبصورت جگہ ہے۔ علاقہ بھی اچھا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ جب اجازت کے مراحل تھے تو ماہر وکلاء کے سپرد کام کئے گئے تھے کہ کونسل سے ہمیںاجازت لے کر دیں۔ بڑی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ ہر مرحلے پر کہیں نہ کہیں روکیں پڑ رہی تھیں۔ بہر حال یہ مجھے بھی لکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ آخر جس دن مَیں وہاں گیا ہوں اس سے کچھ دن پہلے یا اسی دن ان کو زبانی اجازت مل گئی۔ بعد میں تحریری اجازت بھی مل گئی۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ جو ہمارے وکیل تھے انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اپنے امام کی دعاؤں پر یقین نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ وکیل صاحب کہتے ہیں کہ ہم بھی مایوس ہو کر معاہدے سے دستبرداری کا مشورہ دے رہے تھے تو آپ لوگوں کا عزم و حوصلہ تھا جس نے ہمیں بھی ہمت عطا کی۔

               پھر امیر صاحب کانگو کنشاسا لکھتے ہیں کہ بَوْذَوْمے(Gbozoume) گاؤں میں جماعت کو مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔اس کا افتتاح 14؍جون2014ء کو ہوا۔ افتتاح کے موقع پر اس گاؤں کے چیف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اسلام کو اچھا مذہب نہیں سمجھتا تھا۔ میرے خیال میں اسلام ایک شدت پسند اور دہشتگردی کا مذہب تھا لیکن جب سے جماعت احمدیہ ہمارے گاؤں میں آئی ہے اور اس کے ذریعہ اسلامی تعلیم دیکھی ہے تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ اسلام تو ایک بہت ہی پیارا اور امن اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی جماعت میں ایم ٹی اے لگانے کی درخواست کی۔ اس کے بعد ایک قریبی نومبائع جماعت’ فافے ہوئے‘ (Fafehoue) کے صدر صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بھی گمراہی کی زندگیاں گزار رہے تھے۔ جماعت احمدیہ نے ہمیں نہ صرف روشنی دی بلکہ جینے کا مقصد بھی دیا۔ اور جب سے ہم نے بیعت کی ہے ہم نے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں پیدا ہوتے دیکھی ہیں۔

               مسجدوں کی تعمیر میں مخالفتیں بھی بہت ہوئیں۔ ایک واقعہ مَیں ذکر کر دیتا ہوں۔ مبلغ سلسلہ ٹوگو لکھتے ہیں کہ ایک جماعت’ نَیَامَاسِلَہ‘(Nyamassilla) میں 2012ء میں مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا لیکن گاؤں کے شر پسند مُلّاں نے ایک فساد کھڑا کر دیا۔کیس عدالت میں گیا۔ عدالت نے جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ ٹوگو میں مذہبی آزادی ہے اور ہر ایک اپنے عقیدے کے مطابق جس طرح چاہے عبادت کر سکتا ہے اور اپنی عبادتگاہیں بنا سکتا ہے۔ بہر حال انہوں نے اوباش طبع لوگوں کو اکٹھا کیا۔ بہت فساد کھڑا کیا اورمشنری کے گھر پر بھی حملہ کیا۔ ان کے گھر کو نقصان پہنچایا۔ اس کی چھت اکھیڑ لی۔ پھر انہوں نے افسران بالا کو شکایت کی تو وہاں یہ سب اکٹھے ہوئے ۔ آخر افسران کا  فیصلہ ہوا اور انہوں نے بڑی سختی سے کہا کہ ہر ایک کو آزادی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی آزادی ہے۔ اگر تم نے روکیں ڈالیں تو یہاں اگر فوج بھی بلانی پڑی تو بلائی جائے گی۔ بہر حال آخر فیصلہ ہوگیا کہ ٹھیک ہے یہاں مسجد بنائیں۔ لیکن افسران نے کہا گو فیصلہ تو یہ ہو گیا کہ بناؤ لیکن ان لوگوں نے ایک بات کہی ہے کہ یہ زمین ہماری ہے۔ اس لئے بعض دفعہ قانونی پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر تم تھوڑا سا ہٹ کے مسجد بنا لو تو زیادہ بہتر ہے۔ جب انہوں نے وہاں مسجد بنائی تو اس کے قریب ہی انہوں نے جو جماعت کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے ایک عرب ملک سے مدد لے کروہاں ایک اَور مسجد بنا دی اور امام کا گھر بھی بنا دیا۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی وہ مسجدیں بند پڑی ہیں اور صرف جماعت کی مسجد اس وقت وہاں آباد ہے۔ یہ مولوی صاحب جو وہاں کے مقامی امام تھے دہریوں اور عیسائیوں کے پاس بھی گئے کہ خدا کا واسطہ تم ہی لوگ آ کے ہماری مسجدیں کھول لیا کرو لیکن کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ جب دوبارہ ہمارا وفد وہاں تبلیغ کے لئے گیا تو انہی دہریوں اور عیسائیوں میں سے کئی لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شامل ہو گئے اور مسجد پہلے سے بھی بڑھ کے آباد ہو گئی۔

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز

               مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میںاللہ تعالیٰ کے فضل سے 184 کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 113 ممالک میں ہمارے مشن ہاؤسز اور مراکز کی کُل تعداد 2808 ہوچکی ہے۔

               تبلیغی مراکز کے قیام میں انڈیا کی جماعت سرفہرست ہے جہاں دوران سال 27مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کا اضافہ ہوا۔انڈونیشیا دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں گزشتہ سال 17مراکز زیر تعمیر تھے۔ امسال ان کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح یہاں پر مشن ہاؤسز کی اور تبلیغی مراکز کی کل تعداد 259 ہو گئی ہے۔پھر افریقہ کے ممالک ہیں۔ سینیگال، سیرالیون، بینن، غانا، تنزانیہ، بورکینا فاسو، آئیوری کوسٹ ہر جگہ خدا کے فضل سے مشن ہاؤسز بنے ہیں۔

وقار عمل

               جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز وقار عمل بھی ہے۔ افریقہ کے ممالک میں جماعتیں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ حصہ لیتی ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعتیں اپنی مساجد، سینٹرز اور تبلیغی مراکز میں بہت سے کام وقار عمل کے ذریعہ سے کرتے ہیں۔ یہاں یورپ میں بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ستہتّر(77) ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق چالیس ہزار وقار عمل کئے گئے جن کے ذریعے سے پچیس لاکھ ستاون ہزار امریکن ڈالر کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچت ہوئی۔ہم نے غانا میں جو جامعہ احمدیہ بنایا ہے اس کی عمارتیں دیکھ کے لوگ حیران ہوتے ہیں بلکہ  وہاں کے احمدی کنٹریکٹر اور انجینئر نے بھی  جتنا ہم نے خرچ کیا ہے اس سے کم از کم چار گنا زیادہ قیمت یا پانچ گنا زیادہ قیمت ہمیں بتائی کہ ان کا خیال تھا کہ اس سے کم پہ یہ عمارت بن ہی نہیں سکتی۔ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے پیسے میں بھی برکت ہے اور افراد جماعت بھی وقار عمل کے ذریعہ سے بہت سے کام کر دیتے ہیں۔

مختلف زبانوں میں کتب کی تیاری و تراجم کی اشاعت

               وکالت تصنیف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تک جماعت کی طرف سے قرآن کریم کے مکمل تراجم اکہتر(71) کی تعداد میں  چھپوائے جا چکے تھے۔ نیا ترجمہ مورے(Maori) زبان میں طبع کروایا گیا۔ اس سے قبل مورے زبان کے پندرہ پاروں کا ترجمہ ہوا تھا۔ شکیل منیر صاحب نے ترجمہ کیا تھا۔ اب میںجب گزشتہ سال   نیوزی لینڈ کے دورے پر گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جو مورے کنگ ہے اس کو تحفہ کے طور پر بھی دیا گیا اور اس نے اچھا استقبال کیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی تعداد 72 ہو چکی ہے۔ ایک جو مکمل قرآن نہیں بلکہ قرآن کریم کے کچھ حصے کے تراجم ہیں۔ وہ بھی شائع ہو چکے ہیںاور کئے جا رہے ہیں۔

               پھر مختلف کتب اور فولڈرز کے تراجم ہوئے ہیں اور اکّیس (21) زبانوں میں 104 کی تعداد میں یہ طبع کروائے گئے ہیں۔ اس وقت وکالت تصنیف کے تحت جو کتب اور فولڈرز زیر تیاری ہیں وہ 47 زبانوں میں 542 ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی بڑا وسیع کام ہو رہا ہے۔

قرآن کریم اور اسلامی اصول کی فلاسفی کے تراجم پر تبصرے

                قرآن کریم کے تراجم پر ایک دو تبصرے پیش کرتا ہوں۔

               گنی کناکری کے منسٹر آف کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن نے قرآن کریم کے فرنچ ترجمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اکثر اپنی تقریروں میں قرآن کے حوالہ جات پیش کرنے میں دقّت رہتی تھی لیکن جب سے آپ کا ترجمہ شدہ قرآن کریم ملا ہے مجھے بہت آسانی رہتی ہے۔ اس کا ترجمہ بہت واضح اور آسان فہم ہے۔

                فرانس کے مذہبی امور کے وزیر کو جب فرنچ ترجمہ قرآن کریم پیش کیا گیا تو اس نے اس نسخے کی بہت تعریف کی اور کہا کہ نہ صرف اس کی جلد بڑی اچھی ہے بلکہ فرنچ میں ترجمہ اور لکھائی کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں کے جونسخے موجود ہیں ان سے ایک نمایاں فرق ہے۔ نیز جتنا خوبصورت یہ ہے اس لحاظ سے قیمت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس کا ترجمہ کس نے کیا ہے؟ کیونکہ دوسرے مسلمان کی اکثریت تراجم والی کمپنیوں سے ترجمہ کرواتے ہیں۔ جب ان کو بتایا گیا کہ سارے کا سارا ترجمہ جماعت احمدیہ کی مختلف تراجم کرنے والی ٹیموں نے کیا ہے تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ آپ لوگوں سے کوئی نہیں جیت سکتا۔

               پھر تنزانیہ سے مبلغ ٹبورا بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا سواحیلی ترجمۃ القرآن پورے ملک میں کافی معروف ہے اور پسند کیا جاتا ہے۔ ایک عیسائی پادری ابراہیم زندا صاحب قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ خریدنے مشن ہاؤس آئے۔ موصوف نے دو سیٹ خریدے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ اگر اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنا ہو تو اس ترجمۃ القرآن سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حاشیے میں جو فُٹ نوٹس (footnotes) لکھے گئے ہیں اس سے ہر مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک غیر از جماعت مسلمان بزرگ بھی قرآن کریم خریدنے آئے اور کہنے لگے۔ مَیں تین سال سے اس کوشش میں تھا کہ مجھے آپ کا ترجمۃ القرآن مل جائے۔ مَیں بہت دور سے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ سواحیلی میں قرآن کریم کا ایک اور ترجمہ سنّیوں کا شائع کردہ بھی ہے۔ تو اس پر وہ بزرگ کہنے لگے کہ اس ترجمۃ القرآن میں کوئی کشش نہیں ہے۔ اصل ترجمہ تو یہ ہے جو جماعت احمدیہ نے کیا ہے اور مجھے بہت پسند ہے۔

               پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے اسلامی اصول کی فلاسفی جو کتاب ہے اس پر بھی بعض تبصرے ہیں۔

                آئیوری کوسٹ سے جِیَارَا مَدِیْبُو(Diara Madiboo) صاحب بیان کرتے ہیں کہ آئیوری کوسٹ کی جماعت سان پیدرو(San Pedro) میں ایک نوجوان تبلیغی بک سٹال پر آئے اور کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی خریدی۔ چند دن بعد موصوف مشن ہاؤس تشریف لائے اور آ کر کہنے لگے۔ یہ کتاب مَیں نے ساری پڑھ لی ہے۔ تحریر لا جواب ہے اور کسی عام آدمی کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کتاب مَیں نے اپنے ایک پروفیسر کو دکھائی تو انہوں نے مجھ سے مستعار لی اور پڑھ کر بہت متأثر ہوئے اور کہا کہ میں نے آج تک اس جیسی بے مثال اور پُرمعرفت کتاب نہیں دیکھی۔ اس کا لکھنے والا ضرور کوئی غیر معمولی آدمی اور ولی اللہ ہے۔

               پھر آئیوری کوسٹ سے ہی مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ اَبَوْسَو(Aboisso) شہر میں جماعتی کتب کی نمائش کے دوران ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی خریدی۔ اگلے روز انہوں نے فون کر کے بتایا کہ انہوں نے کتاب پڑھنی شروع کی ہے اور اس کو نہایت دلچسپ پایا ہے۔ پھر چند روز بعد دوبارہ فون کر کے بتایا کہ انہوں نے یہ کتاب مکمل کر لی ہے اور اس کے ذریعے اسلام کے حقیقی اور نہایت خوبصورت چہرے سے روشناس ہوئے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انہیں اپنے مقصد پیدائش کی سمجھ آئی ہے اور اسلام کی اتنی خوبصورت ترجمانی انہیں اور کہیں نظر نہیں آتی۔

               پھر مالی کے ریجن کَوْلی کورَو(Koulikoro) سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ان کے ریجن میں ایک جج صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی خریدی تو بتایا کہ وہ بہت دیر سے یہ کتاب تلاش کر رہے تھے مگر انہیں یہ کہیں سے نہ ملتی تھی۔ مزید بتایا کہ وہ احمدی تو نہیں مگر جو باتیں اس کتاب میں بیان ہوئی ہیں وہی اصل اسلام ہے۔ زندگی میں انہوںنے ایسی عظیم کتاب نہیں دیکھی۔ اس کے بعد انہوں نے اس کتاب کے تین اور نسخے اپنے دوستوں کے لئے بھی خریدے۔ اس طرح اس کے بے شمار اور بھی واقعات ہیں۔

دوران سال طبع ہونے والی نئی کتب

               دوران سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی زبان میں شائع کی گئی کتب میں مندرجہ ذیل کتب شامل ہیں۔

               انجام آتھم، آئینہ کمالات اسلام، نور القرآن۔ اس کے علاوہ ای یَن ایڈمسن(Ian Adamson) کی انگریزی کتاب A man of God کا عربی ترجمہ بھی طبع کروایا گیا۔

               انگریزی کتب میں براہین احمدیہ حصہ سوم شائع ہوا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکۃ الآراء کتاب ہے۔ اس کے پہلے دو حصے انگریزی میں پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ اب یہ تیسرا حصہ شائع کیا گیا ہے۔ اور یہاں بک سٹال پر موجود بھی ہے۔ جو خریدنا چاہیں وہ لے سکتے ہیں۔

               پھر امن کے بارے میں جو میرے مختلف لیکچر تھے ان کے مختلف تراجم ہوئے ہیں۔ کتابیں شائع کی گئی ہیں اور لوگ کافی پسند کرتے ہوئے خرید رہے ہیں۔

               ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی کا انگریزی ترجمہ شائع کیا گیا۔

                بچوں کے لئے انگریزی کتب امّ المومنین حضرت جویریہؓ، ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ، حضرت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شائع کی گئی ہیں۔

                پھر بچوں کے لئے انگریزی زبان میں لجنہ اماء اللہ انگلستان نے کچھ اور کتابیں حضرت نوح علیہ السلام، حضرت رقیہ بنت رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت ہود علیہ السلام،حضرت صفیہ بنت حضرت عبدالمطلب۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بارے میںشائع کی ہیں۔

                اور پھر اس کے علاوہ انہوں نے Responsibilities of Ahmadi Muslim Womenبھی شائع کی ہے جو میرے مختلف لیکچر ہیں بلکہ شاید ایک ہی لیکچر ہے۔

               اردو کتب میں ’’تأثرات خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی تقریبات 2008ء‘‘ بھی تحریک جدید نے شائع کروائی ہے۔ اسی طرح کتاب ’’تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد ہفتم‘‘ تیار کر کے چھپوائی گئی ہے۔

                عائلی زندگی سے متعلق میرے مختلف خطابات شائع کئے گئے ہیں۔

               رشین زبان میں جو کتب شائع ہوئی ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف پیغام صلح۔ Peaceکے بارہ میں مختلف لیکچرز پر جو میری کتاب تھی وہ اور پھر اَور بھی بعض دوسرے لیکچر ہیں۔

                ترکی زبان میں بھی لٹریچر شائع کیا گیا ہے۔ البانین زبان میں بھی نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ بنگالی میں تبلیغی پاکٹ بک، دعوت الامیر، سبز اشتہار، دعائیہ خزائن وغیرہ کا ترجمہ بنگالی میں شائع کیا گیا۔

               فرانسیسی میں جماعت ماریشس نے لجنہ اماء اللہ کی طرف سے شائع کردہ کتب ’’حضرت نوح‘‘ کا فرانسیسی ترجمہ شائع کروایا۔ برمی زبان میں پمفلٹ اور کتابیں شائع ہوئیں۔

               جرمن زبان میں جماعت جرمنی کی طرف سے جو شائع کی گئیں ان میں ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ہے۔ پھر کچھ میرے لیکچر ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی کتاب The Truth about The Alleged Punishment for Apostasy in Islam  ہے۔

                جاپانی زبان میںLife of Muhammad(sa) پھر World crisis and the pathway to peace جو میرے مختلف لیکچر ہیں وہ اور  Some distinctive features of Islam،True love for the Holy Prophetیہ ساری چیزیں شائع کروائی گئیں۔

                مقدونین زبان میں Life of Muhammad(sa)، گناہ سے نجات کس طرح ممکن ہے، پیغام صلح، Islam’s Response to Contemporary Issues، An Elementary Study of Islam، Revival of religion، Islam my religion۔اور نارویجیئن زبان میں World crisis and the pathway to peace  اور Life of Muhammad(sa)شائع کروائی گئیں۔

                سپینش زبان میں   True Love for the Holy Prophet (sa) اور World crisis and the pathway to peace  شائع کروایا گیا۔

                سنہالی زبان میں سری لنکا جماعت نے True love for the Holy Prophet(sa)شائع کروایا۔سواحیلی میں مختلف لیکچرز شائع کروائے گئے۔ تامل زبان میں کچھ لیکچر شائع کروائے گئے۔ چینی زبان میں The Ahmadiyya Muslim Community’s contribution to the world، Objective Needs of Human Lifeکے عنوان سے ایک کتاب شائع کرائی گئی۔

               پھر نظارت اشاعت کی طرف سے شائع ہونے والی کتابیں شرح بخاری جلد ہشتم (عربی،اردو)، مواہب الرحمن مع اردو ترجمہ، مکتوبات احمد جلد سوم اردو، حیات احمد جلد اول دوم سوم، فرمودات حضرت مصلح موعود            ( فقہی مسائل)، خطابات نور، تاریخ افکار اسلامی، اتمام الحجہ مع اردو ترجمہ ، اعجاز المسیح مع ترجمہ، میرے خطبات کا مجموعہ بھی انہوں نے شائع کیا ہے۔

               فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے جو نئی کتب ہیں ان میں انوار العلوم کی جلد نمبر 24جو حضرت مصلح موعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے 1953-54 ء کے واقعات ہیں۔ اس کے علاوہ خطبات محمود کی جلد نمبر 26تا جلد نمبر 30 جو 1945ء سے 1949ء تک کے خطبات ہیں جو طبع کروائے گئے۔

               نور فاؤنڈیشن کی طرف سے صحیح مسلم مع اردو ترجمہ کی جلد نمبر 14اور 15طبع کروائی گئیں۔

               طاہر فاؤنڈیشن کی طرف سے جو نئی کتب ہیں وہ خطبات طاہر کی جلد نمبر 11( 1992ء کے خطبات)اور جلد نمبر 12( 1993ء) اور کچھ خطبات جلسہ سالانہ کے خطبات پر مشتمل ہیں۔

               نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کی طرف سے بھی عملی اصلاح کے لئے بعض خطبات شائع کروائے گئے۔

               لندن میں بین الاقوامی ریلیجس کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جو یوکے نے سو سال مکمل ہونے پر گزشتہ سال گلڈ ہال میں کی تھی،اس پر جو میرا ایک لیکچر تھا اس کو بھی اور باقی لیکچروں کو بھی کتابی صورت میں انہوں نے شائع کیا۔ یہ بک سٹال پر موجود ہے۔

دنیا بھر میں لٹریچر کی اشاعت کے کوائف

                ایڈیشنل وکالت اشاعت کی اس سال کی رپورٹ یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں اسلام اور احمدیت کی حقیقی تعلیم پر مشتمل پیغام کتب، پمفلٹس، فولڈرز وغیرہ کی اشاعت کے ذریعہ عام کیا گیا۔ چنانچہ اس سال 83ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 43زبانوں میں665مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ شائع ہوئے جن کی مجموعی تعداد اکسٹھ لاکھ باون ہزار بنتی ہے۔

               دنیا بھر میں شائع ہونے والے جماعتی اخبارات و رسائل بھی اب کافی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں 28زبانوں میں 143جماعتی  اخبارات و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔

ریویو آف ریلیجنز

               ریویو آف ریلیجنز جس کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1902ء میں فرمایا تھا۔ اب یہ ریویو آف ریلیجنز انگلش میں یوکے، کینیڈا اور انڈیا سے پرنٹ ہوتا ہے۔ تیرہ ہزار سے زائد کاپیاں پرنٹ ہو کر دنیا بھر کے 83ممالک میں بھیجی جاتی ہیں۔ ریویو کے سب سے زیادہ خریدار انڈیا میں ہیں۔ تین ہزار پانچ سو ان کی تعداد ہے۔ باقی ملکوں کو بھی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ انٹرنیٹ پر آ جاتا ہے اس لئے لوگ خریدتے نہیں کہ مفت پڑھ لیں گے۔ غانااور نائیجیریا نے اس کے خریداران کے حوالے سے نمایاں کوشش کی ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کی پرنٹنگ اب کینیڈا منتقل کر دی گئی ہے۔ اسے کینیڈا اس لئے منتقل کیا گیا تھا کہ جلدی لوگوں تک پہنچ جائے گا لیکن شکایات یہ موصول ہو رہی ہیں کہ یہاں سے جلدی پہنچ جاتا تھا وہاں وہ وقت پہ پرنٹ ہی نہیں کر رہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے۔امیر صاحب کینیڈا بھی بیٹھے ہیں وہ اپنی ایک ٹیم بنائیں اور باقاعدہ کام کریں۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ صرف ایک طرف توجہ دے کے یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے بڑے کام کر لئے۔ ہر میدان میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 موازنۂ مذاہب

               ماہنامہ رسالہ موازنہ مذاہب بھی بڑا اچھا رسالہ ہے اور سید میر محمود احمد صاحب ناصر اس کے ایڈیٹر ہیں۔  یہاں یوکے سے ہر ماہ شائع ہوتا ہے اور اس میں اچھے علمی تحقیقی مضامین ہوتے ہیں۔ اس کا سالانہ چندہ بیس پاؤنڈ ہے ۔ اس کو بھی لوگوں کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

وکالت اشاعت ترسیل

                اب ایک نئی وکالت اشاعت، ترسیل کے لئے بنائی گئی تھی کہ مرکز میں جو کتب شائع ہوتی ہیں ان کو مختلف ملکوں میں بھیجنا اور وہاں ان کی تقسیم اور فروخت کا انتظام کرنا۔ اس کے تحت دنیا کی تینتالیس مختلف زبانوں میں تین لاکھ باون ہزار پانچ سو اکسٹھ سے زائد کتب جماعت کی تبلیغی اور تربیتی ضروریات کے لئے بھجوائی گئیں۔ اسی طرح لندن کے علاوہ قادیان سے مختلف ممالک کی مرکزی اور ریجنل لائبریریوں کے لئے بھی پچاس ہزار سے زائد کی تعداد میں کتب مختلف ممالک میں بھجوائی گئیں۔ قادیان کا پریس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔

وکالت تعمیل و تنفیذ(بھارت، نیپال، بھوٹان)

               وکالت تعمیل و تنفیذ لندن کا انڈیا، نیپال، بھوٹان کے ساتھ تعلق ہے۔ یہ نئی وکالت بھی یہاں قائم کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے تحت بھی قادیان (انڈیا) اور نیپال اور بھوٹان کے کام ہو رہے ہیں۔ اور کافی وسیع طور پر پریس کا کام بھی، تبلیغ کا کام بھی اور قادیان میں دوسرے کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہے ہیں۔

رقیم پریس

                رقیم پریس اور افریقن ممالک کے جوپریس ہیں ان کے ذریعہ چھپنے والی کتب اور رسائل کی تعداد چار لاکھ نوّے ہزار ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں لندن سے بھی کام ہو رہا ہے اور افریقہ کے آٹھ ممالک  گھانا، نائیجیریا ،سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، برکینا فاسو کینیا اور تنزانیہ میں بھی یہ پریس کام کر رہے ہیں۔

نمائشیں، بک سٹالزو بک فیئرز

               اس سال نمائشیں اور بک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ انہوں نے جو خاص پروگرام بنائے ان میں 2235نمائشوں کے ذریعہ پانچ لاکھ اکیاسی ہزار افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا اور11047 بک سٹال اور 226 بک فیئرز میں شمولیت کے ذریعے اسّی لاکھ سے اوپر افراد تک پیغام حق پہنچا۔

نمائشوں کے بارے میں تأثرات

               مالی سے امیر صاحب لکھتے ہیں۔فروری2013ء میں سِیکَاسَوْ(Sikasso) شہر میں جماعت احمدیہ مالی کو قرآن کریم کی ایک خوبصورت نمائش لگانے کی توفیق ملی۔ اس نمائش میں شہر کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ اس میں ایک پروفیسر شامل ہوئے جو افریقہ کے علاوہ مختلف ممالک میں پڑھاتے رہے ہیں اور جماعت احمدیہ سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ نمائش کے دیکھنے کے بعد ان کے یہ تأثرات تھے کہ گو کہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن قرآن کریم، اسلام اور انسانیت کی جو خدمت پوری دنیا میں احمدیت کر رہی ہے باقی تمام مسلمان اپنے تمام وسائل کے باوجود اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر رہے۔

               پھر امیر صاحب ماریشس لکھتے ہیں کہ تین جگہوں پر قرآن کریم کی نمائشوں کا انعقاد کیا گیا اور مختلف افراد نے اپنے تأثرات کا اظہار کیا کہ ہم نے ایسی خوبصورت نمائش کبھی نہیں دیکھی۔ پہلی مرتبہ قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم سے آگاہی ہوئی ہے۔ اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہی اصل اسلام ہے۔

               پھر مالی سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک سکول کے ڈائریکٹر نے نمائش کے دیکھنے کے بعد اپنے تأثرات میں لکھا کہ: ’’عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر فرقہ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مذہبی رہنماؤں کی کتابوں کو پرنٹ کرنا اور ترجمہ کروانا کافی سمجھتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کا اصلی پیشوا کون ہے؟ جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم اس قدر زبانوں میں پرنٹ کرنا بتاتا ہے کہ ان کا حقیقی پیشوا اور رہنما قرآن ہے اور قرآن کی اس خدمت میں بلا شبہ یہ جماعت تمام اسلامی فرقوں سے آگے ہے‘‘۔

                اس طرح اور بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے تأثرات پیش کئے۔

بُک فیئرز اور بُک سٹالز کے بعض ایمان افروز واقعات

               بک فیئرز اوربُک سٹالز کے ذریعہ بعض ایمان افروز واقعات ہوئے۔ ٹوکیو انٹرنیشنل بک فیئر کے موقع پر 3؍جولائی 2014ء کو جاپان کے سعودی سفارت خانے میں متعین ایک اعلیٰ سعودی شخصیت ہمارے سٹال پر تشریف لائے۔ پہلے دن انہوں نے ابتدائی تعارف کے بعد کچھ کتابیں حاصل کیں اور کہنے لگے کل تفصیلی بات کرنے کے لئے آنا چاہتا ہوں۔ اگلے دن بات شروع ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے امام مہدی اور مسیح موعود کے دعوے کے بارے میں کچھ بتائیں۔ جب انہیں تفصیلات بتائی گئیں تو کہنے لگے کہ وحی کا نزول بند ہو چکا ہے اور نبی کا آنا بہت مشکل ہے کیونکہ آیت خاتم النبیین اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہم نے مختلف آیات اور مثالیں پیش کیں کہ قرآن کریم کی رُو سے تو وحی کا نزول بند نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی اور ابدی ہیں۔ پھر انہوں نے دجال کے ظہور اور مسیح موعود کے نزول کے بارے میں سوال کیا۔ جب انہیں اس کا جواب دیا گیا، سمجھایا گیا اور بتایا گیا کہ سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک اور معاشرے جس پریشانی کا شکار ہیں اور طرح طرح کے فتنوں نے انہیں گھیرا ہوا ہے،  ہر طرف سے سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی آپ دجّال کے منتظر ہیں۔ کس دجال کے منتظر ہیں؟ بہر حال ان سے باتیں ہوئیں۔ قرآن کریم کی اس بارے میں تین چار آیات تھیں۔ وفات مسیح کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظریہ پیش کیا گیا۔ قرآن کریم کی آیات پیش کی گئیں۔ کہنے لگے کہ وفاتِ مسیح کی تو مجھے سمجھ آ گئی ہے اور مَیں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ وفات پا گئے ہیں اور آسمان سے نازل نہیں ہوں گے۔ پھر کہنے لگے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو اعجاز کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ امام مہدی اور مسیح موعود کا معجزہ کیا ہے؟ ہم نے حضور کی پیشگوئیوں اور اکناف عالم میں اشاعت اسلام کی کاوشوں کا ذکر کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعجاز کا ذکر کرتے ہوئے وفاتِ مسیح کے اعلان کو بطور نشان پیش کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی آیات کی رو سے جب یہ انکشاف فرمایا تو ہر طرف سے کفر کے فتوے لگنے لگے لیکن آج ارض حجاز کا ایک باشندہ یہ اعلان کر رہا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پا گئے ہیں تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعجاز ہی ہے۔ پھر اور باتیں ہوتی رہیں اور بہر حال کافی ایمان افروز واقعات یہاں بھی ہوتے رہے۔

اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی تشہیر

                اخبارات میں بھی جماعت کی خبریں اور آرٹیکلز وغیرہ شائع ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قبولیت کی ایسی خاص ہوا چلائی ہے کہ میڈیا کی بڑی توجہ پیدا ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر پندرہ سو پچاس اخبارات نے تین ہزار آٹھ سو چھبیس جماعتی مضامین، آرٹیکلز اور خبریں وغیرہ شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد پچپن کروڑ چودہ لاکھ پینسٹھ ہزار بنتی ہے۔

لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم

                لیف لیٹس، فلائرز کی تقسیم کے منصوبہ کے ذریعہ بھی مجموعی طورپر ایک کروڑ چونتیس لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔اس بارے میں امریکہ میں بھی بڑا کام ہوا ہے ۔ سپین میں جامعہ کے طلباء کو بھیجا گیا تھا انہوں نے کافی بڑی تعداد میں تقسیم کیا۔ کینیڈا والوں نے اور جرمنی نے بھی کام کیا۔ سوئٹزرلینڈ، سویڈن، ٹرینیڈاڈ، دنیا کے ہر ملک میں اللہ کے فضل سے ایک ہوا چلی ہوئی ہے اور کام ہو رہا ہے۔ سپین میں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہاں سے جو جامعہ کے فارغ التحصیل تھے ان لڑکوں کو، مربیان کو بھیجا گیا تھا۔ اب تو وہ لڑکے نہیں رہے۔ اس مہم کے ذریعے سپین کے کل ستانوے شہروںمیں پمفلٹ تقسیم کئے گئے اور ایک بہت بڑا حصہ کور کیا گیا۔ انہوں نے تین لاکھ کے قریب پمفلٹ تقسیم کئے۔ اس بارے میں ہمارے ایک مربی جو گئے تھے وہ لکھتے ہیں کہ وہاں سپین میں ایک لوکل دکاندار کو ایک پمفلٹ دیا جو سبزیاں بیچ رہا تھا۔ ہم اسے پمفلٹ دے کر آگے چلے گئے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب دوبارہ اس کی دکان کے سامنے سے گزرے تو اس نے ہمیں اپنی دکان کے اندر بلا لیا۔ اس کو جب یہ بتایا گیا کہ ہم حقیقی اسلام کا پیغام جو کہ امن اور شانتی کا پیغام ہے لے کر لندن سے یہاں آئے ہیںتو اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگا مَیں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس کے بعد اصرار کرتا رہا کہ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔ جب ہم نے اسے بتایا کہ ہمارے پاس اس وقت زیادہ وقت نہیں ہے، ہم نے اور لوگوں تک بھی یہ پیغام پہنچانا ہے تو اس نے زبردستی کھانے کی چیزیں ہمیں ساتھ لے جانے کے لئے دے دیں اورجاتے وقت یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب کرے۔ اسی طرح مردوں کے، عورتوںکے اور بہت سارے واقعات ہوئے ہیں۔

               اسی طرح لیف لیٹس تقسیم کرتے ہوئے بہت سارے واقعات ہیں چند ایک پیش کرتا ہوں۔

               مبلغ انچارج صاحب سویڈن لکھتے ہیں کہ ایک روز جب خاکسار کی بیٹی شاپنگ سنٹر میں لیف لٹ تقسیم کر رہی تھی تو ایک صومالی نوجوان نے بروشر لینے کے بعد پوچھا کہ آپ کے امام صاحب سے کیسے رابطہ ہوسکتا ہے؟ اس پر اس کو فون نمبر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے خاکسار سے رابطہ کیا اور بتایا کہ میرے دادا احمدی تھے اور میری والدہ بھی احمدی ہیں مگر میں احمدی نہیں ہوں۔ لیکن میری والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ میرے والد مرحوم کی یہ خواہش تھی کہ مَیں بھی احمدیت قبول کر لوں لیکن میرا کبھی کسی احمدی سے رابطہ نہیں ہوا۔ آج اس بروشر کے ذریعے سے اب مَیں احمدیت کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ان کو لٹریچر مہیا کیا گیا۔ ان کے سوالات کے جوابات دئیے گئے اور چند دن کے بعد وہ آئے اور انہوں نے کہا مجھے شرح صدر ہو گیا ہے اور بیعت کر لی۔

               دہلی میں بک فیئر کے دوران نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کی طرف سے ایک خصوصی نشست منعقد ہو رہی تھی جہاں امن اور شانتی کی بات ہوئی۔ ہماری ایک لجنہ ممبر نے جو لیف لیٹس تقسیم کر رہی تھیں ا سٹیج پر جا کر ایک مقرر کو World crisis and the pathway to peaceوالا لیف لیٹ دیا۔ ایک نظر دیکھنے کے بعد تقریر کرنے والے شخص نے موجود حاضرین سے کہا کہ اب مَیں یہ آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں اور لیف لیٹ کا پورا مضمون ایک بڑی تعداد میں موجود حاضرین کو پڑھ کر سنایا اور بعدازاںموقع پر موجود تمام حاضرین میں لیف لیٹ تقسیم کئے جنہوں نے اس پیغام کو بہت پسند کیا۔

               ایک دوست کلیئر گبسن(Claire Gibson) صاحب نے لیف لیٹ ملنے کے بعد تبصرہ کیا کہ مجھے آپ کا اہم اور تفصیلی لیف لیٹ وصول ہوا۔ میں مسلمان نہیں عیسائی ہوں لیکن مجھے ان معلومات کو پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ یہ بہت اعلیٰ طریقے سے لکھا گیا ہے اور یہ زندگی کے اہم پہلو بیان کرتا ہے۔ بطور عیسائی ہم بھی انہی قدروں کا ادراک کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے معاشرے میں اس کی کمی ہے۔ میرے خیال سے تمام مذاہب کو اکٹھے ہو جانا چاہئے اور بچوں کو پیروی کرنے کے لئے راستہ مہیا کرنا چاہئے کیونکہ کسی قدر کے خلاف جانا اور پھر اس پر فخر محسوس کرنا مناسب نہیں۔

               اسی لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے کہ اکٹھا کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔

                بہر حال ہالینڈ سے بھی واقعات ہیں اور مختلف اَور ممالک سے بھی واقعات ہیں۔

                بعض دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی غلط کام کرے تو اللہ تعالیٰ فوری طور پر پکڑ بھی لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مختلف طریق ہیں۔

                عبدالباسط صاحب کینیڈا سے لکھتے ہیں کہ اپریل 2012ء کا واقعہ ہے کہ مجلس انصار اللہ کینیڈا کے تحت تبلیغ کا ایک سٹال ایک مارکیٹ میں لگایا گیا۔ ایک روز ہم معمول کے مطابق تبلیغ کر رہے تھے اور ہر گزرنے والے کو فلائر دے رہے تھے۔ لوگوں کی اکثریت اس فلائر کو ہم سے لے لیتی مگر کچھ ایسے بھی تھے جو فلائرز لینے سے معذرت کر دیتے۔ وہاں ایک صومالین مرد اور عورت کوفلائر دیا جو انہوں نے پہلے تو لے لیا لیکن جب اس شخص نے کھڑے ہو کر اس لیف لیٹ کوپڑھا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برا بھلا کہنے لگا اور گالیاں دینے لگا۔ پھر وہ اس فلائر کو جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوٹو تھی زمین پر گرا کر اپنے پاؤں کے نیچے کچل کر روندنے لگا اور گالیاں نکالتا رہا۔ اس کے ساتھ جو عورت تھی وہ اس کو منع کر رہی تھی مگر وہ باز نہیں آ رہا تھا۔ ہمارے ایک نواحمدی بھائی دانیال صاحب جو اس وقت سٹال پر موجود تھے ان کا غصہ اور صبر قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ خاکسار نے دانیال صاحب کو صبر کرنے اور معاملہ کو اللہ پر چھوڑنے کے لئے کہا۔ دراصل اس شخص کی نیت یہ تھی کہ یہاں کوئی ہنگامہ آرائی ہو اور ہمارا سٹال بند ہو جائے۔ ہمارے سٹال کے سامنے جوتوں کا بڑا سٹور تھا جس کے مینیجر بنگلہ دیشی مسلمان تھے وہ بھی یہ واقعہ دیکھ رہے تھے۔ قریباً دو گھنٹے بعد وہی شخص مع عورت کے ہاتھ میں خریدو فروخت کے تھیلے پکڑے ہوئے ہمارے سٹال کے آگے سے گزر کر جانے لگا کہ اچانک ہم سب کے سامنے وہ شخص عین اسی جگہ پر جہاں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوٹو والے فلائر کو پیروں کے نیچے رکھ کر روندا تھا وہ ایک دم گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ اس وقت اس کو طبی امداد دی گئی مگر ہوش نہ آئی۔ پھر ایمبولینس آئی۔ اس کو ہسپتال لے گئے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو وہ عورت جو اس شخص کے ہمراہ تھی لوگوں کی بھیڑ میں ہم سے معافی مانگنے لگی۔ کہنے لگی کہ فلائر اور فوٹو کی بے حرمتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سب کچھ سزا ملی ہے۔ ہمیں معاف کر دیں۔ وہ بزرگ یقینا اللہ کے پیارے بندے تھے جن کی اس شخص نے ہتک کی تھی۔

               رشین ڈیسک کے تحت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی وسیع کام ہو رہا ہے۔ کتابیں اور خطبات کا ترجمہ اور  اب تو رشین خط لکھتے ہیں کہ ہمیں بڑی سہولت ہو گئی ہے کہ باقاعدہ ہم ایم ٹی اے پر بھی دیکھ لیتے ہیں۔

                بنگلہ ڈیسک کے ذریعہ بھی کافی کام ہو رہا ہے اور ایم ٹی اے پر پروگرام بھی لائیو چل رہے ہیں۔

                فرنچ ڈیسک کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی وسیع کام ہو رہا ہے۔کتابوں کے ترجمے وغیرہ ہو رہے ہیں۔

                چینی ڈیسک کے ذریعے بھی اس دفعہ دو کتابیں انہوں نے شائع کی ہیں جن کا پہلے مَیں ذکر کر چکا ہوں۔

                ٹرکش ڈیسک کے ذریعے بھی ترکی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ چار پانچ کتابیں شائع کی گئی ہیں۔

                عربی ڈیسک کے ذریعہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پانچ کتب کے تراجم پرنٹنگ کے لئے بھجوائے جا چکے ہیں۔ روحانی خزائن جلد پانچ،( آئینہ کمالات اسلام)، روحانی خزائن جلد گیارہ( انجام آتھم)۔ نور القرآن ہر دو حصص۔ احمدالمہدی وغیرہ یہ شائع ہوئی ہیں۔ خطبہ الہامیہ، مواہب الرحمن، سرّ الخلافۃ یہ سب تیار ہو چکی ہیں۔  انشاء اللہ تعالیٰ شائع ہو جائیں گی۔

ایم ٹی اے اور عربی پروگراموں کے بارہ میں تأثرات

               ایم ٹی اے اور عربی پروگراموں کی وجہ سے جو تاثرات ہیں ان میں الجزائر کے دوست توفیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جوانی میں جب سترہ سال کا تھا تو میں نے ایک بڑی ہی عجیب رؤیا دیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی عجیب کپڑوں میں دیکھا جو کہ میں نے پہلے نہیں دیکھتے تھے۔ یعنی عرب لباس نہ تھا۔ دوسری عجیب بات جو میرے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عربی بولتے تھے مگر اس وقت جو زبان بول رہے تھے مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات آئی گئی ہو گئی۔ وقت کے ساتھ وہ ایک دن ایسے دوست سے ملے جنہوں نے جماعت کا تعارف کروایا اور بعض کتب سلسلہ بھی دیں۔ ایک کتاب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو بے اختیار یہ کہہ اٹھے کہ خدا کی قسم! یہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ میں نے ان کو خواب میں دیکھا تھا۔ بعد میں میرے دوست نے بتایا کہ یہ امام مہدی ہیں اور ان کی زبان اردو ہے جس سے مجھے اپنی خواب کی تعبیر سمجھ آ گئی اور فوراً بیعت کر لی۔

               پھر تیونس سے ایک دوست لکھتے ہیں کہ انہیں جماعت کا اور جماعت کے عقائد وفات مسیح اور ختم نبوت کے بارے میں علم ہوا۔ کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ ابھی بیعت نہیںکروں گا۔ پھرمیںنے جمعہ کی رات کو ایک خواب دیکھا کہ میں قرآن کریم پڑھ رہا ہوں۔ اس میں ایک آیت پر رکا اور بہت تعجب سے دیکھا کہ لکھا ہوا تھا۔ اے احمد! میں تیرے ساتھ ہوں۔ احمد کا لفظ فرنچ میں لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے بیعت کر لی۔

               پھر محمد خالد صاحب الجزائر سے لکھتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عبدالقادر جیلانی اور محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ جیسے مختلف اولیائے امت کے بارے میں پڑھا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ یہ لوگ عام لوگوں کی طرح کلام نہیں کرتے اور اپنے نفس سے نہیں بولتے بلکہ الہام اور کشف کی بِنا پر کلام کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی کی روشنی میں جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو فوراً میں نے کہا کہ یہ شخص یقینا آسمان کی طرف سے مبعوث ہے۔ اور میں نے فوراً بیعت کر لی۔ یہ پھر لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق کے لئے فدا ہونے کے لئے دعا کی درخواست ہے۔

               پھر مصر سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میری بیعت کی تفصیل یہ ہے کہ پانچ سال قبل ایم ٹی اے العربیۃ جب شروع ہوا تو اتفاق سے مجھے یہ چینل مل گیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھتے ہی شرح صدر ہو گیا کہ یہ شخص کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پروگرام دیکھنے سے ایمان میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کلاس روم میں داخل ہوا ہوں جہاں حضرت امام مہدی اپنے طلباء کو پڑھا رہے ہیں۔ جب میں داخل ہوا تو حضور علیہ السلام نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس کے بعد میری تسلی ہو گئی۔ لکھتے ہیں کہ بیعت فارم ارسال کرنے میں اس لئے تاخیر ہوئی کہ میرے اندر بہت سی کمزوریاں اور گناہ اور معاصی پائے جاتے ہیں اور میں ان سے خلاصی پانے کی کوشش بھی کرتا رہا کیونکہ ان کے ساتھ تو شرائط بیعت پر عمل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف گھر والوں کے ردّعمل کا بھی خوف تھا۔ اب دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری بیعت قبول فرمائے اور مجھے جماعت کے خادمین میں سے بنائے۔

               پھر مراکش سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ میں ایک ایسی مسجد میں ہوں جس کی دیواریں سفید ہیں اور میں محراب کے قریب لیٹا ہوں۔ آپ آتے ہیں اور مجھے گلے لگاتے ہیں (یہ مجھے لکھ رہے ہیں) اور زور سے دباتے ہیں جس سے میرے اندر ویسا ہی جوش پیدا ہو جاتا ہے جیسے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ دعا کریں کہ اپنے نفس کے اور دوسروں کے حق ادا کرنے کی مجھے توفیق عطا ہو۔

               پھر الجزائر سے ایک خاتون لکھتی ہیں۔ میں احمدی نہیں ہوں لیکن ان بے شمار لوگوں میں سے ہوں جو آپ کے دل موہ لینے والے پروگرام بڑی محبت اور دلجمعی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ آپ کے پروگرام میری خاص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مجھے آپ کا مختلف موضوعات کو پیش کرنے اور ان پر بحث کرنے کا طریق، نہایت مختلف امور کی نہایت اعلیٰ تفصیل بہت پسند ہے۔یہ ایم ٹی اے الحوار والوں کو لکھ رہے ہیں۔ یہ ایسی باتیںہیں جنہوں نے ہمیں اسلام کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے پروگرامز دیکھنے کے بعد میری اسلام کے ساتھ محبت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

               ایک پادری انارشماوی صاحب کہنے لگے کہ کاش آپ اپنے خلیفہ صاحب کو یہ بتائیں کہ بہت سے لوگ آپ کی تائید کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ چرچ مادی اور روحانی دونوں لحاظ سے مفلس ہو چکا ہے۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ چرچ کو حقیقی مسیح کے خلیفہ کے حوالے کر دو۔ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے خود عملاً چرچ کو خلیفہ کے حوالے کر دیا ہے۔ اس لئے اب مخلوقات کی ضرورت نہیں رہی کہ حوالے کرے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ کی تائید فرمائے تا کہ وہ دنیا کو خدا کی رضا کی منزل تک پہنچائے۔

تحریک وقف نو

                اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال واقفین نو کی تعداد میں تین ہزار چار سو بیالیس(3442) واقفین کا اضافہ ہوا ہے اور اس اضافے کے ساتھ واقفین کی کل تعداد چوّن ہزار ایک سو پینتیس(54135) ہو گئی ہے۔ لڑکوں کی تعداد تینتیس ہزار ایک سو انیس(33119) اور لڑکیوں کی تعداد اکیس ہزار سولہ(21016) ہے۔ پاکستان میںیہ تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس کے بعد بیرون پاکستان سب سے زیادہ جرمنی میں ہے۔ دوسرے نمبر پر انگلستان ہے۔ اور تیسرے نمبر پر انڈیا۔ چوتھے نمبر پر کینیڈا۔

مخزنِ تصاویر

                مخزنِ تصاویر کا جو شعبہ ہے اس کے تحت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے اور تصویروں کی نمائشیں لگ رہی ہیں اور ان کے ذریعے سے تبلیغ کے بھی مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔

جماعتی ویب سائٹ

               alislam.orgکی جو ہماری ویب سائٹ ہے اس کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوایس اے، کینیڈا، پاکستان، بھارت اور برطانیہ سے رضا کار کام کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اٹھارہ کتب اور خلفائے سلسلہ کی اٹھارہ کتب ای بک کی شکل میں تبدیل ہو چکی ہیں جو آئی فون، آئی پیڈ اور کِنڈل پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ میرے تمام خطبات اور تقاریرآڈیو ویڈیو کی صورت میں الاسلام ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اٹھارہ زبانوں میں خطبہ جمعہ کی آڈیو ویڈیو اور انگریزی خلاصہ سلائڈز اور پی ڈی ایف upload کی جاتی ہیں۔ دو نئی Apps روزنامہ الفضل اور Ask Islamشائع کی گئی ہیں۔ Android اورApple کی تمام devices پر ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ Samsung TV پر ایم ٹی اے کی App شائع کی گئی ہے اور مزید Apps پر کام جاری ہے جن میں خلافت جوبلی کی دعائیں، شارٹ کمنٹری اور اذان شامل ہے۔ قرآن کریم کے اردو اور انگریزی تراجم اور تفاسیر کے علاوہ تینتالیس زبانوں میں تراجم آن لائن availableہیں۔ اس سال آٹھ ہزار سات سو ویڈیوز کو پچیس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

پریس اینڈ میڈیا آفس

               پریس اور میڈیا آفس بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے اور جماعت احمدیہ کا پریس کے ذریعے سے دنیا میں کافی بڑا exposureہوا ہے ۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل

               ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے تحت بھی اس وقت پندرہ ڈیپارٹمنٹس کام کر رہے ہیں جس میں 282مرد اور 42 خواتین شامل ہیں۔ 348افراد میں سے کل 42 واقفین یا ملازمین ہیں باقی سب والنٹیئرز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف نئے پروگرام اور لائیو پروگرام بھی شروع کئے گئے ہیں۔ لوگ ان کو بڑا پسند کر رہے ہیں۔ ایم ٹی اے کی نئی   اَپ لِنک(uplink) سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔ جلسہ سالانہ یو کے پر چار علیحدہ نشریات اس سال یہاں سے ہو رہی ہیں جن میں ایم ٹی اے ون، ایم ٹی اے تھری العربیۃ کی معمول کی جلسہ نشریات کے علاوہ غانا ٹی وی کے ذریعہ سے غانا کے لئے تینوں دن خصوصی نشریات کا اہتمام ہو گا۔ سیرالیون ٹی وی کی معاونت سے سیرالیون میں جلسہ کے تینوں روز وہاں کے لوکل ٹی وی پر تین تین گھنٹے کے خصوصی پروگرام کی براہ راست نشریات حدیقۃ المہدی سے پیش کی جائیں گی۔ ایم ٹی اے پر انگریزی زبان کے چوبیس گھنٹے کے نئے چینل کی فزیبلٹی(feasibility) مکمل کر لی گئی ہے اور جائزہ لیا جا رہا ہے۔

               سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ایم ٹی اے کی نشریات گزشتہ سالوں کی نسبت بہت وسعت پا گئی ہیں۔

 سوشل میڈیا کے ذریعہ ناظرین MTAکے پروگراموں میں براہِ راست شامل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح غانا میں   ایم ٹی اے کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔

ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتیں

               ایک الجیرئین دوست لکھتے ہیں کہ میں ایک مذہبی رجحان رکھنے والے ایک مذہبی فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور بڑا سرگرم رکن تھا۔ اس کی وجہ سے میں دو سال کی سزا بھی کاٹ چکا تھا۔ کہتے ہیں: میں نے مختلف چینلوں کو دیکھتے دیکھتے ایک دن ایم ٹی اے کو دیکھنا شروع کیا اور تمام چینلوں سے مختلف پایا۔ میں نے اس کے بعد تحقیق کرنا شروع کی تو ایک واضح فرق دوسرے مسلمانوں اور احمدیوں میں دیکھا۔ اور ایک بات سب سے نمایاں پائی کہ اس جماعت کا ایک امام ہے اور پوری جماعت کے سر اطاعت میں ایسے جھکے ہوئے ہیں کہ کوئی مثال نہیںملتی اور یہ جماعت خالصۃً دینی کاموں میں مشغول ہے اور سیاست سے بہت دور ہے۔ اسی امام کی دنیا کو ضرورت تھی۔ میں نے صداقت کو پا لیا  اور مئی 2014ء میں بیعت کر لی ہے۔

               پھر نائیجیریا سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ امسال بواچی سٹیٹ(Bauchi state) میں خدا کے فضل سے پندرہ دیہات جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور ان کو ایم ٹی اے دیکھنے کے لئے ڈشیں لگا کر دی ہیں۔ اب دوسرے قریبی دیہاتوں سے بھی لوگ آ کر ایم ٹی اے پر خطبہ وغیرہ سنتے ہیں اور پروگرام دیکھتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا کہ مجھے جماعت کے متعلق بہت اعتراضات تھے اور دلی تسلی نہیں ہوتی تھی لیکن امام جماعت احمدیہ کا خطبہ سنا اور قدرتی طور پر میرا دل تسلی پا گیا۔ مجھے حقیقی اسلام مل گیا ہے اور سارے اعتراضات ختم ہو گئے ہیں اور میںنے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

                مٹوارا(تنزانیہ) سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں۔مٹوارا شہر جو ہے صوبے کاریجنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔ کل آبادی ایک لاکھ آٹھ ہزار ہے۔ یہاں کے مقامی کیبل آپریٹر سے رابطہ کیا گیا کہ وہ کیبل کے چینل میں ایم ٹی اے کو بھی شامل کریں۔ شروع میں انہوں نے انکار کر دیا لیکن بعد میں انہوں نے یہ بات مان لی اور اب ایم ٹی اے مٹوارا شہر کی کیبل پر بھی چلتا ہے جس سے پورا شہر استفادہ کرتا ہے۔

احمدیہ ریڈیو سٹیشنز

                احمدیہ ریڈیو سٹیشنز خاص طور پر افریقہ میں بڑے کام کر رہے ہیں۔ امسال مالی میں پانچ نئے احمدیہ ریڈیو سٹیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اب یہاں مالی میں ہی ہمارے گیارہ ریڈیو سٹیشن ہو چکے ہیں اور فرنچ، جولا، بمبارا، سونیکے(Sonikay) فُلفُلدے(Fulfulde) عربی، سُرائی پورے زبانوں میں یہ ریڈیو پروگرام دے رہے ہیں۔

               مالی کے ان ریڈیو اسٹیشنز سے اس سال چھتیس ہزار سات سو انہتر گھنٹے پروگرام نشر ہوئے۔

                بورکینا فاسو میں ریڈیو سٹیشن کی تعداد چار ہے۔ بائیس ہزار تین سو ستاون گھنٹے کے پروگرام اور اسی طرح مختلف دوسرے پروگرام نشر ہوئے۔

                سیرالیون کے احمدیہ مسلم ریڈیو اسٹیشن سے اس سال تقریباً تین ہزار گھنٹے کے پروگرام تین مقامی زبانوں میں نشر ہوئے۔

                مجموعی طور پر افریقہ کے تین ممالک میں قائم احمدی ریڈیو سٹیشنز کی تعداد سولہ(16) ہو چکی ہے۔ اور یہ قرآن کریم کی تلاوت، قاعدہ یسرنا القرآن کے اسباق، ترجمہ قرآن، حدیث، ملفوظات وغیرہ مختلف درس دیتے ہیں، خطبات دئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔

احمدیہ ریڈیو سن کر ان سے فائدہ اٹھا کر قبول احمدیت کا واقعہ

               مالی کے ریجن سِکَاسَو سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص ریڈیو احمدیہ پر تشریف لائے اور کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں اور احمدیت کی وجہ سے آج میں جہنم کی آگ سے بچ رہا ہوں۔ خاکسار کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ مالی کے بعض علماء نے نماز کے متعلق کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لئے انہوں نے بھی نماز پڑھنا ترک کر دی تھی۔ مگر ریڈیو احمدیہ پر خلیفہ کا خطبہ جس میں انہوں نے نماز کی اہمیت کا بتایا اس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ اس کے بعد نماز ترک کرنا مَیں جہنم میں جانا خیال کرتا ہوں۔ پس آج سے مَیں احمدی ہوں اور کبھی اپنی نماز نہیں چھوڑوں گا انشاء اللہ۔ یہ مولویوں کا حال ہے جو خود اسلام کو بدل رہے ہیں اور اس کا الزام جماعت احمدیہ کو دیتے ہیں۔

               پھر کانگو کنشاسا سے ہمارے مبلغ سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ 8؍دسمبر 2013ء کو باندوندو شہر سے بارہ کلو میٹر دور اڈیما(Adima) گاؤں کے دورے پر گئے، وہاں پمفلٹ تقسیم کئے۔ گاؤں کے چیف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم باقاعدگی سے جماعت کا ریڈیو پروگرام سنتے ہیں۔ اسلام کی اصل تعلیمات اس زمانے میں مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام نے ہی پیش کی ہیں۔ ہمیں پہلے سے ہی احمدیت کا علم ہے اور اس جگہ اس وجہ سے پھر پندرہ افراد نے بیعت کر لی۔

احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ سے نمایاں تبدیلی

               مالی ریجن کائی(Kayes) سے سایوں تراورے(Sayon Traore) صاحب لکھتے ہیں۔(یہ معلّم ہیں) کہ ان کے ریجن میں ایک بوڑھی خاتون ماماسو(Maman Sow) صاحبہ ایک دن احمدیہ ریڈیو کائی(Kayes) آئیں اور آ کر بتایا کہ جب سے یہ ریڈیو شروع ہوا ہے وہ اسے باقاعدگی سے سنتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ وضو تک کرنا نہ جانتی تھیں مگر اب اس ریڈیو کے ذریعہ انہوں نے وضو اور بہت سی دعائیں سیکھ لی ہیں۔ اگر باقی مسلمان علماء کو دیکھیں تو وہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں مگر احمدیت نے ہی اسلام کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھلایا ہے اور انہوں نے اس ریڈیو کے ذریعہ سے اسلام سیکھا ہے۔

               پھر مالی سے ہی ایک بزرگ محمد کوناتے صاحب نے بتایا کہ جب سے ریڈیو’ نور‘ شروع ہوا ہے۔ اس وقت سے انہوںنے دیگر تمام ریڈیو سننے چھوڑ دئیے ہیں۔ اب وہ مستقل طور پر یہی ریڈیو سنتے رہتے ہیں اور لوگوں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر اسلام سیکھنا ہے تو یہی ریڈیو سنیں۔ اس ریڈیو کے ذریعہ سے ہی انہوں نے اسلام اور نماز سیکھی۔ اس طرح بے شمار اور واقعات ہیں۔

ریڈیو، ٹی وی پروگرام

                دیگر ٹی وی پروگرام جو ہیں ان پر اس سال تیرہ سو چھپن(1356) ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ سے چھ سو سینتالیس گھنٹے وقت ملا۔ اس طرح مختلف ممالک کے ملکی ریڈیو سٹیشن پر اکتیس ہزار سات سو بیس گھنٹے پر مشتمل پچیس ہزار آٹھ سو اٹھائیس پروگرام نشر ہوئے۔ اور ان ریڈیو اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ سے ایک اندازے کے مطابق بیس کروڑ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا۔

مجلس نصرت جہاں

               مجلس نصرت جہاں اسکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں اکیالیس(41) ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں جن میں ہمارے اڑتیس(38) مرکزی ڈاکٹرز اور بارہ(12) مقامی ڈاکٹر خدمت میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ بارہ(12) ممالک میں ہمارے چھ سو اکاسی(681) ہائر سیکنڈری سکول، جونیئر سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا بھی بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔

               ہمارے ہسپتالوں سے شفا کے غیر معمولی واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ٹیچی مان کے ایک پیراماؤنٹ چیف نے ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر احمدیہ ہسپتال کا ڈاکٹر کہے کہ مریض کو کسی دوسرے ہسپتال میں لے جائیں تو بہتر ہوتا ہے کہ اس کو گھر لے جائیں اور تدفین کا انتظام شروع کر دیں۔

IAAAE

               پھر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹیکس اینڈ انجینئرز بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کام کر رہی ہے اور ماڈل ویلیج کے پروجیکٹ بھی انہوں نے شروع کئے ہوئے ہیں۔ تعمیراتی کام بھی ہو رہے ہیں۔ سولر سسٹم کے ذریعہ سے گھانا، بینن، نائیجر، مالی، گیمبیا، سیرالیون، بورکینا فاسو میں دو سو دس(210) مقامات پر یہ بجلی فراہم کر چکے ہیں۔ سولر سسٹم لگائے جا چکے ہیں۔ ایم ٹی اے بھی وہاں آنا شروع ہو گیا ہے۔ ان تمام مقامات پر سولر سسٹم مینٹیننس (maintenance) کا کام بھی کیا گیا ہے۔ اس سال گیمبیا کے لئے دس نئے سسٹم، گیمبیا ہسپتال کے لئے 15سسٹم، نائیجر کے لئے پچیس، کونگو کے لئے پچیس اور سیرالیون کے لئے گیارہ دئیے گئے ہیں۔ جہاں جہاں یہ فراہم کئے گئے ہیں وہاں لوگ بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پانی کی فراہمی کا کام کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوان انجنیئر والنٹیئرز یہاں سے جاتے ہیں اور بڑا کام کر کے آ رہے ہیں۔ بارہ سو(1200) ہینڈ پمپ نائیجیریا، گیمبیا، تنزانیہ، یوگنڈا،مالی، بورکینافاسو، گھانا، آئیوری کوسٹ وغیرہ میں لگائے جا چکے ہیں اور اسی طرح ان کو ٹریننگ بھی دی جاتی ہے کہ خود یہ کام کریں۔

ہیومینٹی فرسٹ

                ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کافی وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ اور مجموعی طور پر چار لاکھ انچاس ہزار بلکہ پچاس ہزار افرادنے ان خدمات سے استفادہ کیا۔ کل دو ہزار پانچ سو رضا کار ہیومینٹی فرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں اور تینتالیس(43) ممالک میں یہ رجسٹرڈ ہو چکی ہے۔ پچاس سے زائد ممالک میں یہ کام کر رہی ہے اور جہاں جہاں بھی چاہے وہ جنگ کے متاثرین ہوں یا کسی قدرتی آفت کے متأثرین ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔

               اللہ تعالیٰ کے فضل سے فری میڈیکل کیمپس بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے ذریعے سے بھی بڑا وسیع خدمت خلق کا کام ہو رہا ہے۔ گھانا، نائیجیریا، بورکینا فاسو وغیرہ میں آنکھوں کے مریضوں کے آپریشن کئے جاتے ہیں۔ بورکینا فاسو میں اس سال سولہ سو بتیس(1632) کی تعداد میں آنکھوں کے مفت آپریشن کئے گئے۔بورکینا فاسو میں اب تک کل پانچ ہزار چھ سو چوالیس(5644) کی تعداد میں آنکھوں کے فری آپریشن کئے گئے۔ سیرالیون میں اڑھائی سو(250) ۔ہیٹی میں سو(100)۔ گوئٹے مالا میں مجموعی طور پر ایک سو بیالیس(142) آپریشن کئے جا چکے ہیں۔ اس طرح مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام ہو رہا ہے۔

               خون کے عطیات کے ذریعہ سے بھی امریکہ اور دوسرے ممالک میں کام ہو رہا ہے اور اس کا بڑا اچھا مثبت اثر ہو رہا ہے۔

                چیریٹی واک کے ذریعہ سے بھی نیوزی لینڈ، جرمنی، ماریشس، امریکہ، آئرلینڈ، یوکے میں چیریٹی واک کے ذریعے سے مجموعی طور پر نو لاکھ اڑسٹھ ہزار ڈالر سے زائد رقم جمع کر کے مختلف چیریٹیز میں تقسیم کی گئی ہے۔یہاں یوکے (UK) میں  اس بارے میں سب سے زیادہ اچھا کام ہو رہا ہے۔

قیدیوں سے رابطے، خبر گیری

                قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبر گیری کا بھی بڑا انتظام ہو رہا ہے۔ بورکینا فاسو میں آٹھ ریجن میں مختلف مقامات پر عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر قیدیوں سے ملاقات کی گئی۔ ان کو صابن اور کھانے پینے کی چیزیں چینی وغیرہ مہیا کی گئیں۔ سترہ سو پندرہ(1715) سے زائد مریضوں اور قیدیوں کو تحائف دیئے گئے۔ ماریشس میں، پولینڈ میں، کبابیر میں، کونگو کنشاسا میں کام ہو رہا ہے۔

نومبائعین سے رابطے

               نومبائعین سے رابطے کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے غانا سرفہرست ہے۔ دوران سال سترہ ہزار چار سو انیس(17419) نومبائعین سے رابطہ بحال کیا گیا۔ جن سے بہت عرصے سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ گزشتہ نو(9) سال میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے نو لاکھ ستاون ہزار(957000) سے اوپر نو مبائعین سے یہ رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر نائیجیریا ہے۔ انہوں نے اس سال اٹھارہ ہزار سے زائد نومبائعین سے رابطہ کیا۔ یہاں بھی نومبائعین سے رابطے کی تعداد چھ لاکھ پچاس ہزار سے اوپر ہو چکی ہے۔ سیرالیون نے اس سال اسّی ہزار نومبائعین سے رابطہ بحال کیا۔ ان کی کل تعداد تین لاکھ ہو چکی ہے۔ اکیس ہزار سے زائد بورکینا فاسو میںاور اس طرح مختلف ممالک ہیں۔

               امیر صاحب آئیوری کوسٹ بیان کرتے ہیں کہ قریباً دس سال کے طویل انقطاع کے بعد (جو ملکی امن عامہ کی صورتحال کی وجہ سے تھا) نارتھ ریجن کی اکثر پرانی جماعتوں سے رابطہ بحال ہوا۔ نارتھ ریجن میں ایک گاؤں نیڈیو(N’deou) نام کا ہے۔ جب اس گاؤں سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گاؤں کے امام عیسیٰ فانے صاحب جو کہ اس گاؤں سے ملحقہ تقریباً اٹھارہ گاؤں کے مرکزی امام ہیں ابھی تک احمدیت پر اسی طرح قائم ہیں۔ چنانچہ جب ہم وہاں پہنچے تو بڑا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ موصوف کے گھر میں اب تک ایم ٹی اے کی سہولت موجود تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی اور میری تصاویر بھی موجو دتھیں۔ اور یہ وہ امام ہیں جنہوں نے لندن جا کے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا تھا۔ وہاں میٹنگ رکھی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا مثبت اثر ہوا۔

                امسال ہونے والی بیعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ لاکھ پچپن ہزار دو سو پینتیس(555235) ہیں۔

               خاص خاص جو بڑی جماعتیں ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے زیادہ بیعتیں حاصل کرنے کی  سب سے پہلے جو توفیق ملی وہ مالی کو ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا، پھر سیرالیون، گھانا، بورکینا فاسو، گنی کناکری،    آئیوری کوسٹ۔ سینیگال کو آئیوری کوسٹ سے زیادہ بیعتوں کی توفیق ملی ہے۔ بینن کو بھی زیادہ ملی ہے۔ ترتیب انہوں نے غلط لکھی ہوئی ہے۔ کیمرون کو بھی کافی بیعتوں کی توفیق ملی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں کافی تیزی سے جماعت پھیل رہی ہے۔

               مالی کی بیعتیں سب سے زیادہ ہیں۔ وہاں مالی کے ریجن بماکو سے ابوبکر سِیڈبے صاحب(Abubakar Sidibe) معلم ہیں بیان کرتے ہیں کہ ایک بزرگ داؤد کانتے صاحب نے خواب میں دیکھا کہ مالی کی تمام سرزمین احمدیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کے بعد جب انہوں نے چاند کی طرف دیکھا تو اس پر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آئی جس کی روشنی نے تمام زمین کو گھیرا ہوا ہے۔

بیعتوں کے ایمان افروز واقعات

               بیعتوں کے تعلق میں ایمان افروز واقعات بھی ہیں۔ امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ ایک استاد جن کا نام زکی ہے انہوںنے دو سال قبل بیعت کی تھی۔ استخارہ کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور آواز بھی سنی کہ یہ شخص سچا ہے۔ اس پر زکی صاحب نے اپنے شاگردوں کو احمدیت کی سچائی کے حوالے سے کافی تبلیغ کی۔ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں دسمبر 2013ء میں جلسے کے موقع پر ان کے نو(9) شاگرد بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے۔

               کانگو سے حافظ بوکانڈے(Bokand) صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے گاؤں میں دو غیرملکی نوجوانوں کو دیکھا جو اسلام کی تبلیغ کے لئے آئے تھے۔ ان کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ نوجوان خدا کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ یقینا ان کے بیان میں سچائی ہے۔ چنانچہ مجھے احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔

               پھر آئیوری کوسٹ سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں۔ یہ لمبا واقعہ ہے۔(اس کی جگہ) مَیں قرغیزستان کا ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔ وہاں کے جماعت کے نیشنل پریذیڈنٹ صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار جہاں کام کرتا ہے وہاں میری ایک کولیگ رشین خاتون یُولِیا گُبانوا (Yuliya Gubanova) سے جو مذہباً پہلے عیسائی تھیں، اکثر دینی موضوعات پر گفتگو رہتی تھی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے خاکسار سے کہا کہ مجھے اپنے مذہب پر دلی اطمینان نہیں تھا اور بہت سے سوالوں کے جواب مجھے نہیں ملتے تھے۔ تم سے بات کرنے کے بعد مجھے ان تمام سوالوں کے جواب مل گئے ہیں اور تسلی ہو گئی ہے کہ اسلام ہی حقیقی اور سچا مذہب ہے اور ان پر حقیقت واضح ہو گئی۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے سلسلے کا لٹریچر مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی، احمدیت کا پیغام وغیرہ کتب کا مطالعہ کیا جس سے ان کا ایمان مزید مضبوط ہو گیا۔ بیعت سے پہلے وہ غیراسلامی لباس پہنا کرتی تھیں۔ بیعت کے بعد خاکسار نے انہیں اسلامی لباس کی طرف توجہ دلائی یعنی حیا دار لباس ہو تو انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے لباس کو درست کیا۔ ان کے گھر والے بہت حیران ہو گئے کہ اسے کیا ہو گیا ہے بلکہ اب تو اپنے گھر والوں کو بھی اسلام اور احمدیت کی وقتاً فوقتاً تبلیغ کرتی رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیعت کے بعد دسمبر 2013ء میںمَیں قادیان جلسے کے لئے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ جب انہیں پتا چلا کہ خاکسار جلسے کے لئے جا رہا ہے تو انہوں نے بھی جانے کا اظہار کیا کہ شامل ہونا چاہتی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ذاتی خرچ پر جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت اختیار کی۔ وہاں سارے مقدس مقامات کی زیارت کی۔ جلسے کے دنوں میں روزانہ بہشتی مقبرہ جا کر دعا کرتیں۔ اس دوران انہوں نے خاکسار سے نظام وصیت کے بارے میں پوچھا۔ کہتے ہیں مَیں نے انہیں نظام وصیت کی بنیاد اور برکات کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا مَیں اس نظام میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ اس نظام میں شامل ہونے سے پہلے اس کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ چنانچہ ان کو رسالہ الوصیت دیا گیا جس کو انہوں نے دو دفعہ پڑھا ہے اور ان کی مکمل تسلی ہو گئی ہے اور اللہ کے فضل سے وصیت فارم بھی اب انہوں نے فل(fill) کر دیا ہے۔

رؤیائے صادقہ کے ذریعہ سے بیعتیں

               ناظر صاحب دعوت الی اللہ قادیان نے جموں کشمیر کے ایک شاہ صاحب کی رؤیا بھجوائی ہے جس میں   پیر صاحب نے اپنا نام لکھ کے لکھا ہے کہ ساکن پلوامہ جموں کشمیر اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کے حلفاً تحریر کرتا ہے کہ خاکسار نے مؤرخہ 2؍جولائی 2014ء بروز بدھ بمطابق 10رمضان المبارک رات گیارہ بجے بعد نماز تراویح کثرت سے ذکر و اذکار اور گریہ و زاری سے درود شریف پڑھنے کے بعد دعا کی۔ یا ربی! یا تو مجھے اس جہان سے اٹھا لے یا پھر سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی فرما۔ روتے روتے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں ایک نہایت نورانی صورت بزرگ نے خاکسار ناچیز کو سہارا دیا اور نہایت شفقت کا سلوک فرمایا اور فرمایا کہ ’ کلگام‘ چلے جاؤ وہاں سے آپ کی رہنمائی ہو گی۔ خواب میں نظر آنے والے جس بزرگ کو دیکھا ان کا حال میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور سر پر پگڑی تھی۔ اس کے بعد جب سحری کے لئے بیدار ہوا تو مجھے اپنا وجود معمول سے ہٹ کر بہت بھاری لگا۔ بہر حال صبح سحری کے بعد جب میں نے اپنا موبائل فون آن کیا اور انٹرنیٹ پر گریٹر کشمیر اخبار  پڑھنا چاہا مگر اچانک alislam.org آ گیا۔ الاسلام کی اس ویب سائٹ پر جب میں نے تصاویر دیکھیں تو میری حیرانگی کی حد نہ رہی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرما دی کیونکہ یہ بزرگ جن کو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا وہ بزرگ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے اور میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ بچپن سے آج تک نہ کبھی مذکورہ بزرگ کی تصویر دیکھی تھی اور نہ کبھی اس بزرگ کے بارے میں سوچا تھا۔ بہر حال تصویر دیکھنے کے بعد میری بے چینی بڑھ گئی۔ چنانچہ میں نے کلگام کا رخ کیا اور ایک احمدی دوست قریشی طارق محمود صاحب ساکن کانپورہ سے ملنے ان کے گاؤں پہنچا۔ میں پہلی بار اس علاقے میں گیا تھا اور میری جان پہچان والا کوئی نہ تھا۔ خانپورہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ طارق صاحب کا بچہ بیمار ہے اور وہ دہلی میں ہیں ۔ بہر حال اس کے بعد انہوں نے یہ سارا واقعہ بیان کیا۔

               پھر کانگو سے جبرئیل صاحب نے بتایا ان کاتعلق بازانزا(Bazanza) گاؤںسے ہے کہ میں نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی۔ تین ماہ کی عمر میں ماں فوت ہو گئی۔ جبکہ باپ پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ جب میری عمر پندرہ سال تھی تو مجھے خواب میں آواز آئی کہ اپنی جیب دیکھو اس میں ایک خط ہے جس کا نام قرآن ہے۔ دن چڑھا تو میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ قرآن کیا چیز ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب کا نام ہے۔ میں سنّی مسلمانوں کے امام کے پاس گیا اور اس کو کہا کہ مَیں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر اس امام نے کہا کہ تم ابھی چھوٹے ہو، جاؤ اپنا کام کرو۔ پھر میں جماعت احمدیہ کے امام کے پاس گیا اور انہوں نے کھلے دل سے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس طرح میں احمدیت کی آغوش میں آ گیا۔ تو اس طرح بہت سارے رؤیا صادقہ کے ذریعہ سے (بیعت کے) واقعات ہیں۔

               پھر نشان دیکھ کر بیعتیں ہوئیں۔ اس کے بھی بہت سے واقعات ہیں۔ کونے عبداللہ(Kone Abdullah) صاحب جو بَوْآکے مشن ہاؤس میں ڈرائیور کی حیثیت سے توفیق پا رہے ہیں، کہتے ہیں دو سال قبل جب میں نے احمدیت کا نام نیا نیا سنا تھا اور امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور کی خبر ابھی میرے کانوں تک پہنچی ہی تھی تو میں نے حصول اولاد کے لئے یوں دعا کی کیونکہ میری شادی ہوئے دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا اور کوئی اولاد نہ تھی کہ اے میرے اللہ! اے سمیع و علیم خدا! اگر واقعی مسیح موعود کا ظہور ہو چکا ہے اور مرزا صاحب ہی وہ وجود بابرکات ہیں تو مجھے اولاد کی نعمت سے بھی مالا مال فرما اور مسیح محمدی کے غلاموں میں بھی شامل ہونے کی توفیق عطا فرما۔ چنانچہ موصوف بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور اسی ماہ میری اہلیہ امید سے ہو گئیں اور اب میری ایک بیٹی بھی ہے۔ یہ نشان دیکھ کر میں نے پوری فیملی نے بیعت کر لی۔

               محمد عارف صاحب مبلغ ٹوگو بیان کرتے ہیں کہ ہم کولی(Kolli) دورہ پر گئے۔ وہاں ہماری ملاقات ایک   نو مبائع محمد احمد سے ہوئی۔ اس نے اپنی بیعت کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ایک امیر آدمی تھا۔ میں نے بعض لوگوں کی باتوں میں آ کر جماعت کی مخالفت شروع کر دی۔ ٹوگو کے مختلف حصوں میں میری ذاتی زمین بھی تھی جو میں نے مولویوں کو مساجد بنانے کے لئے دے دی اور مولویوں کے ساتھ مل کر بڑھ چڑھ کر جماعت احمدیہ کی مخالفت بھی کی۔ اس مخالفت کرنے کے نتیجے میں آہستہ آہستہ میری ساری جمع پونجی ختم ہوتی گئی۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے پاس دوائی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اپنی حالت دیکھ کر مجھے پتا چل گیا کہ مجھے احمدیت کی مخالفت کی سزا ملی ہے۔ پھر ایک دن مَیں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب مَیں مر جاؤں تو میرا جنازہ کسی احمدی سے پڑھوانا اور مجھے احمدی قبرستان میں دفن کرنا۔ شاید اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے اور مجھے بخش دے کیونکہ یہی لوگ سچے اور حقیقی مسلمان ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ احمدی ہو گئے ہیں۔

                کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ نمونے سے لوگ بہت توجہ کرتے ہیں۔ چنانچہ احمدی کا نمونہ دیکھ کر بیعت کا  واقعہ تنزانیہ سے اروشہ ریجن کے ہمارے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست جن کا نام ہاشم الیاس ہے۔ ان سے رابطہ ہوا۔ یہ پہلے عیسائی تھے۔ پھر شیعہ مسلمان ہوئے، پھر سنّی مسلمان لیکن سنّیوں کے عقائد دیکھ کر، ان کی باتیں دیکھ کر پھر یہ احمدیت کی طرف مائل ہو گئے۔ عاجز کے پاس آئے تو کافی لمبی تحقیق کے بعد جس میں خاص طور پر وفات مسیح اور ختم نبوت اور قرآن کی رُو سے دلائل جاننے کے بعد بیعت فارم لے کر گئے لیکن ابھی فارم نہ بھرا۔ چند دن کے بعد اس سال کا نیشنل جلسہ سالانہ تھا۔ کہتے ہیں مَیں نے ان کو بھی شمولیت کی دعوت دی۔ ان کی ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا۔ چنانچہ جلسے پر گئے اور تمام احمدیوں کا آپس میں پیارو محبت دیکھ کر وہیں بیعت کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اروشہ واپس آ چکے ہیں اور باقاعدہ جماعت میں شامل ہیں۔ چندہ دیتے ہیں۔

                قرغیزستان سے ایک نومبائعہ بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند نے جب بیعت کی تو میرے گھر والوں یعنی والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن چونکہ مَیں اپنے خاوند میں کوئی برائی نہیں دیکھتی تھی اور انہیں نمازوں میں باقاعدہ پاتی تھی اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔ اس لئے میں صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتی رہی کہ اے اللہ! جو سیدھا اور سچا راستہ ہے وہ مجھے دکھا اور میرا خاوند جس مذہب میں ہے اگر وہ سچا ہے تو مجھے اس کو ماننے کی توفیق دے۔ اس امر کو کم و بیش دو سال گزر گئے۔ دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص فضل کیا اور کرم کیا۔ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہوئی کہ میرے والدین اور بہن بھائیوں کی مخالفت میں کمی ہوئی۔ دوسرے سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ( میرا لکھا ہے کہ) خلیفۃ المسیح الخامس مجھے خواب میں آئے اور مجھے سمجھایا اور سچا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اگلے ہی دن عید الفطر کا دن تھا اور میرے خاوند مجھے اور بچوں کو لے کر احمدی فیملیوں کے ساتھ ملوانے اور یہ دکھانے کے لئے لے گئے کہ احمدی لوگ کس طرح عید کے تہوار مناتے ہیں۔ جب میں بچوں کے ساتھ وہاں پہنچی تو احمدی مرد حضرات اور خواتین الگ الگ جگہوں پر بیٹھے تھے۔ اور جب کھانے کا وقت آیا تب بھی عورتیں اور مرد الگ الگ اپنی جگہوں پر کھانا کھانے لگے۔ اس سے میرا دل اور بھی ایمان سے مضبوط ہو گیا کہ یہ کیسی جماعت ہے جو عورتوں کے حقوق اور ان کے پردے کا خیال رکھتی ہے۔ اس سے قبل میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر میں نے مقامی جماعت کے صدر آشیر علی صاحب کی بیگم صاحبہ سے کچھ سوال کئے۔ انہوں نے مجھے اس بارے میں مزید رہنمائی کی اور پاکستان سے آئی ہوئی فیملیز سے ملوایا کہ یہ پاکستان سے ہیں اور ہم یہاں کے، رنگ نسل قوم زبان کا فرق ہے لیکن ہمیں صرف ایک بات جوڑے ہوئے ہے اور وہ صرف اور صرف احمدیت ہے۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری تسلی اور ہدایت کے سامان پیدا کر دئیے ہیں جس کی مجھے ضرورت تھی چنانچہ بیعت کر لی۔

               مخالف علماء کے بحث و مباحثہ اور مخالفانہ پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں بیعتیںہونے کے واقعات عموماًلمبے ہیں۔ مَیں تلاش کر رہا تھا کہ کوئی چھوٹا واقعہ مل جائے۔ امیر صاحب ضلع کنور کیرالہ کے تحریر کرتے ہیں کہ کنور شہر کی  ایک 19سالہ بچی کو کسی کے ذریعے جماعتی کتب ملیں۔ یہ بچی کئی ماہ تک کتب کا مطالعہ کرتی رہیں او ر نماز جمعہ میں حاضر ہوتی رہیں۔ اس بچی کے والدین اہل قرآن فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور والدین نے اس بچی کا رشتہ چند سال قبل ہی کسی اہل حدیث لڑکے کے ساتھ کر دیا تھا لیکن اس پر جب جماعت احمدیہ کی صداقت ظاہر ہو گئی تو اس نے تمام امور لکھ کر مجھے خط لکھا۔ جس کا جواب میری طرف سے یہ موصول ہوا کہ خوب دعا کرکے فیصلہ کرنا۔ کہتی ہیں جب دعائیہ خط لکھا تھا اسی رات ان کا اپنے خاوند کے ساتھ جھگڑا ہوا جس سے اس بچی کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ رشتہ اس کے لئے بابرکت نہیں ہے۔ گھر والوں نے لڑکی کو بہت سمجھایا۔ ایک اہل حدیث مولوی کے پاس بھی لے کر گئے۔ اس مولوی نے بچی کو سمجھایاکہ احمدیوں کی کتب نہ پڑھو۔ ان سے کوئی رابطہ نہ رکھو مگر اس سب کا بچی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بچی نے ان کو یہی جواب دیا کہ یہی تو مرزا صاحب کی سچائی کی دلیل ہے کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں نہ پڑھی جائیں۔ اگلے دو دن موصوفہ نے روزہ رکھ کر خوب دعا کی اور سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئی۔ بیعت کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔ کئی فرقوں کے علماء آئے اور اس بچی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس بچی نے ہر ایک کو یہی جواب دیا کہ آپ لوگ قرآن کریم میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ کر کے دکھا دو تو آپ کی بات مان لوں گی۔ بچی کے ایمان کی مضبوطی دیکھ کر اس کے گھر والے بھی کافی متأثر ہوئے۔ اس بچی کے والد خود اپنی اس بچی کو ہماری مسجد میں روز چھوڑنے کے لئے آتے ہیں۔

               مالی سے معلم لکھتے ہیں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کے فضل سے آج وہی تبدیلی لا رہی ہے جو آج سے پندرہ سو سال پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے آئی تھی جب جان کے پیاسے ایک دوسرے پر جان نثار کرنے لگ گئے تھے۔ سِکاسَوْ (Sikasso)ریجن کی ایک جماعت کَلِیلا (Klela)کے اندر دو خاندانوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی جو ایک دوسرے کے لمبے عرصے سے دشمن چلے آ رہے تھے۔ احمدیت میں آنے کے بعد یہ دونوں خاندان بھائی بھائی بن گئے ہیں۔ اب اس جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک خاندان کے سربراہ صدر جماعت اور دوسرے خاندان کے نائب صدر ہیں اور بڑے پیار اور محبت سے یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔

               پھر کانگو کنشاسا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے لکھا۔ میں ایک ہٹ دھرم اور متکبر انسان تھا۔ اپنی من مرضی کرتا اور کسی کی نہ سنتا تھا۔ گو مسلمان تھا لیکن قرآنی احکامات کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا۔ اپنے علاقے میں چور اور ڈاکو کے نام سے جانا جاتا۔ ایک ماہ باہر نہ گزرتا کہ مَیں پھر جیل پہنچ جاتا۔ جب احمدیت کا پیغام ملا تو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ احمدی ہو کر قرآن کی تفسیر سمجھ آئی۔ تمام بُرے کام چھٹ گئے۔ جن غلط فہمیوں کی وجہ سے قرآنی احکامات کی تحقیر کرتا تھا وہ دُور ہوئیں اور الحمد للہ آج یہ عثمان صاحب کئی گاؤں میں اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور تبلیغ کر رہے ہیں اور کافی ایکٹو(active) داعی ہیں۔

   جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے لوگوں پہ ظلم بھی ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ سنا دیتاہوں۔ ناروے کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ ناروے کے موقع پر ایک کردستانی عرب دوست کو بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ دوست کرسچن ساند میں رہتے ہیں۔ ان کی منگنی ہو چکی تھی۔ ان کی احمدیت قبول کرنے کی خبر پر ان کے سسرال نے وہ رشتہ ختم کر دیا۔ ان کی منگیتر کے بھائیوں نے ان پر تشدد کیا۔ انہیں زدو کوب کیا۔ مجبور کیا کہ وہ احمدیت سے توبہ کر لیں لیکن الحمد للہ وہ ثابت قدم رہے اور انہوں نے احمدیت کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا اور اپنے عزیزوں کو چھوڑ دیا۔

 اس طرح بہت سے اور بھی واقعات ہیں۔ اکثر ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں تو ہم اکثر سنتے ہی رہتے ہیں۔

               سیرالیون کے امیر صاحب لکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تبلیغی جماعت کے مولوی حضرات سیرالیون میں آ کر تبلیغ کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے جماعت کو مزید ترقی دے رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انہی میں سے ایک گروہ فری ٹاؤن ہائی وے پر قائم ہونے والی ایک جماعت مساہوں(Masahun) میں گیا اور وہاں پر نومبائعین کی جماعت کو دعوت اسلام دینے لگے۔ ان کو جب یہ پتا چلا کہ یہ لوگ احمدی ہیں اور جماعت احمدیہ کی مسجد بھی قائم ہے تو یہ لوگ وہاں سے نکل گئے اور اس سے اگلے گاؤں بمبوما(Gbomboma) چلے گئے۔ یہ گاؤں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی گھرانوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے جب اس گاؤں میں تبلیغ شروع کی تو پتا چلا کہ یہ لوگ بھی احمدی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیہ مسجد کی تعمیر بھی جاری ہے۔ چنانچہ جب یہاں بھی انہیں مایوسی ہوئی تو اس کے قریب ایک اور گاؤں سمبویا(Sumbuya) کے چیف امام کے پاس گئے اور ان کو بتانے لگے کہ اس طرح ہم دو جگہوں پر گئے تھے اور وہاں کے لوگ تو احمدی ہیں۔ اس پر امام نے کہا کہ بمبوما (Gbomboma) کے لوگ تو میرے خاندان کے ہیں آپ لوگ میرے ساتھ چلیں میں ان کو سمجھاتا ہوں۔ جب یہ مل کر واپس بمبوما پہنچے اور لوگوں کو سمجھایا تو انہوں نے جواب دیا کہ اب تو ہم نے سچ کو پا لیا ہے اور ہمارا جینا مرنا صرف جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اور خدا تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے لئے جگہ بھی دے دی ہے۔ اب ہم کسی صورت سچ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس گاؤں سے بھی خائب و خاسر ہونے کے بعد یہ لوگ یہاں سے اگلے گاؤں بائیما سونگا (Gbaima Songa) پہنچے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مضبوط جماعت قائم ہے جو کہ نو مبائعین احباب پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیہ مسجد قائم ہے اور یہاں کی جماعت خلوص میں بڑھی ہوئی ہے۔ جب مولوی یہاں آئے اور پتا چلا کہ یہ لوگ بھی احمدی ہیں تو سخت غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم اس مسجد میں نماز نہیں پڑھیں گے ہم باہر نماز ادا کریں گے۔ یہ سن کر چیف امام نے ان کو جواب دیا کہ مَیں خود بھی احمدی ہوں اور یہ سارا گاؤں بھی احمدی ہے۔ جن کرسیوں پر آپ بیٹھے ہیں وہ بھی احمدیہ جماعت کی ہیں۔ جس زمین پر آپ نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بھی احمدیہ جماعت کی ہے۔ یہ بات سن کر مولوی حضرات بہت شرمندہ ہوئے۔ اس اثناء میں چیف امام کی اہلیہ جو کہ اَن پڑھ ہیں اور نو مبائعہ ہیں انہوں نے مولویوں کو جواب دیا کہ آپ لوگوں کا کام صرف نفرت پھیلانا ہے؟ اور آپ کی اپنی حالت یہ ہے کہ نہ تو آپ کے پاس نماز پڑھنے کی جگہ ہے اور نہ آپ دوسروں کو عبادت کرنے دیتے ہیں۔ بہر حال یہ جواب سن کر مولوی جگہ چھوڑ کے چلے گئے۔

رؤیا کے ذریعہ سے ایمان کی مضبوطی کے بھی کافی واقعات ہیں۔ پھر دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے؟ یہ بھی واقعات ہیں۔اس وقت یہ ایک بیان کر دیتا ہوں۔

               امیر صاحب مالی تحریر کرتے ہیں کہ جِیْجنِی(Didieni) کے ہمارے ایک معلم عبدالقادر کانتے صاحب جب مختلف گاؤں میں تبلیغ کر رہے تھے تو اس دوران وہابیوں کا ایک امام عمر کولی بالی ان کے پیچھے ہر اس گاؤں میں جا کر جماعت کے خلاف زہر اگلتا جہاں وہ تبلیغ کے لئے جاتے تھے۔ ایک گاؤں سے جب وہ معلم صاحب تبلیغ کر کے واپس آئے تو اگلے دن وہ امام اس گاؤں میں گیا اور جماعت کے خلاف خوب تقریر کی۔ اس نے گلے میں ایک چادر ڈال رکھی تھی۔ واپسی پر یہ چادر موٹر سائیکل کے پیچھے ٹائر میں پھنس گئی جس سے وہ نیچے گر گیا اور بیہوش ہو گیا۔ لوگ اسے اٹھا کر ہسپتال لائے جہاں وہ دو ماہ تک بے ہوش پڑا رہا۔ اب اس کی گردن مڑ نہیں سکتی۔ اس واقعہ کا اس کے دماغ پر بھی اثر ہے اور نیم پاگل سا ہو گیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد سے اس نے جماعت کی مخالفت بند کر دی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے اپنے خاندان میں کئی لوگ احمدی ہو چکے ہیں۔

               نامساعد حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حفاظت ہوتی ہے اس کے بھی واقعات ہیں۔ پھر اسی طرح قبولیت دعا کے بھی واقعات ہیں۔ ایک غیر احمدی عالم دین اور سعودی عرب سے تعلیم یافتہ امام کی جماعت کے حق میں گواہی(بھی سن لیں)۔

                مارادی ریجن نائیجر سے ہمارے مبلغ مجھے لکھ رہے ہیںکہ ریڈیو پر میرے جو خطبات ہیں ان خطبات کا ہم ہاؤسا زبان میں ترجمہ نشر کرتے ہیں۔ 8؍اپریل 2014ء کو رات دس بجے ایک عالم دین نے نیشنل ریڈیو کی مارادی برانچ سے تقریر کرتے ہوئے جماعت کی تبلیغ کو سب مسلمان علمائے دین کے لئے رول ماڈل قرار دیا۔ اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اب تک کسی احمدی عالم سے نہیں ملا لیکن میں نے اب تک ان کی جتنی تبلیغ ریڈیو پر سنی ہے مَیں اپنے پورے ایمان سے کہتا ہوں کہ ان سے زیادہ خوبصورت انداز میں تبلیغ اسلام میں نے آج تک نہیں سنی۔ اسی عالم دین نے یہ اعلان کیا کہ وہ لوگ جو جماعت احمدیہ کو کافر کہنے سے باز نہیں آتے۔ میرا ان کے نام پیغام ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ سچے مسلمانوں کی جماعت ہے مگر وہ لوگ جو ان کو کافر کہنے سے باز نہیں آتے ان میں سے کسی میں یہ جرأت ہے کہ اس ریڈیو پر آ کر اس طرح سے قسم کھا کر اعلان کر سکے کہ احمدی مسلمان نہیں، کافر ہیں۔

               بہرحال مولویوں کے شور بھی ہیں، مخالفتیں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی کام کر رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ خوابوں کے ذریعہ سے بھی، تبلیغ کے ذریعے سے بھی، احمدیوں کا رویہ دیکھ کر، سلوک دیکھ کر اور ان کی حالت دیکھ کر بھی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے انتہائی فضل اور احسانات ہیں جن کا ہم کبھی شکر ادا نہیں کر سکتے۔

               پس ہمارا یہ کام ہے کہ دعائیں کرتے رہیں اور جس مقصد کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اس حالت میں اپنے آپ کو ڈھالیں جس میں اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اپنے پر لاگو کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کامیابی یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یہ ہو گی۔ اور کوئی مخالف، کوئی روک اس راہ میں کبھی حائل نہیں ہو سکتی۔ ہر سال نہیں بلکہ ہر روز ہم اس کے نظارے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ نظارے بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔ السلام علیکم ورحمۃاللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں