خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع تقریب تقسیم اسناد جامعہ احمدیہ یوکے 11 جنوری 2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جیسا کہ ابھی رپورٹ میں سنا، آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ یوکے(UK) کا دوسرا بَیچ (Batch)جو ہے وہ جامعہ پاس کر کے میدانِ عمل میں انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام طلباء کو جنہوں نے آج یہ اسناد لیں اور اب انشاء اللہ تعالیٰ میدانِ عمل میں اپنا کام شروع کریں گے، جامعہ سے پاس ہونے کا یہ اعزاز مبارک کرے۔ لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ جامعہ کے امتحانات کو پاس کرنے کے بعد آپ کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ آپ نے جوپڑھنا تھا وہ پڑھ لیا۔ اس جامعہ میں آ کر آپ نے دینی علم سیکھنے کا ایک طریق سیکھا ہے یا وہ چند بنیادی باتیں سیکھی ہیں جن کو سیکھنے کی ضرورت تھی اور جس سے آگے مزید علم حاصل کرنے کی جاگ لگتی ہے۔
پس یاد رکھیں کہ آج کے بعد گو آپ کے دنیاوی امتحانات جو چھ مہینے بعد ہوتے تھے یا سال بعد ہوتے تھے وہ تو ختم ہو گئے لیکن اب آپ نے اپنے آپ کو خود self assessment جس کو کہتے ہیں، اُس کے لئے تیار کرنا ہے اور اُس کی تیاری یہی ہے کہ اپنے علم کو جو آپ نے یہاں سیکھا، اُس کو بڑھانا ہے۔ صرف چند مضامین جو یہاں پڑھے تھے، وہی آپ کی زندگی کا سرمایہ نہیں ہیں بلکہ دنیا میں اور بہت سارے مضامین ہیں۔ اگر گہرا علم نہیں تو جن کی تھوڑی بہت سُدھ بدھ ضرور ایک مربی اور مبلغ کو ہونی چاہئے تا کہ میدانِ عمل میں کہیں بھی جیسے بھی لوگوں سے واسطہ پڑے، اُن کی سوچ اور اُن کے طریق کے مطابق آپ اُن کو اسلام کا پیغام پہنچا سکیں۔
پس ایک تو یہ کہ دینی علم جو آپ نے یہاں سے حاصل کیا یا مختلف مضامین جو آپ نے یہاں سے پڑھے، اُن میں آپ نے ترقی کرنی ہے، اُن علوم کو بڑھانا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو باتیں یہاں نہیں پڑھیں اُن میں بھی آپ نے کچھ حد تک سُدھ بدھ حاصل کرنی ہے۔ اخبارات پڑھنے ہیں۔ رسالے پڑھنے ہیں اور آپ کو دنیا کے حالات کا علم ہونا چاہئے۔ آپ کو دوسرے مذاہب میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اُن کا علم ہونا چاہئے تا کہ آپ حالات کے مطابق ہر جگہ ایک احسن رنگ میں اپنے پیغام پہنچا سکیں۔ اور اس کے لئے آپ کو قرآنِ کریم سب سے اول چیزہے جس کو پڑھنا ہے، جس کو سمجھنا ہے، جس کی تفاسیر پڑھنی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں تک تفاسیر کیں وہ اور اُس کے بعد جماعت میں جو معروف تفسیر ہے، وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہے۔ پھر خلفاء کے مختلف درس ہیں۔ ہر جگہ آپ کو کچھ نہ کچھ باتیں مل جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو تمام قرآن کی تفسیر نہیں کی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شروع کے چند سپارے ہیں یا سورتیں ہیں اور پھر آخر میں جا کے کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی نے پوچھا تھا کہ باقی آیات کی تفسیر نہیں کی تو آپ نے فرمایا جو میرے زمانے میں ضروری تھی اُن کی تفسیر مَیں نے کر دی۔ باقی حالات کے مطابق آئندہ ہوتی رہیں گی۔ اور آئندہ ہونے والی تفاسیر کے لئے علماء ہیں جو جماعت میں اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے، اُن کو چاہئے کہ غور کریں اورجو آیات جس جس طرح سمجھ آتی ہیں، سورتیں سمجھ آتی ہیں، اُن پر اتنا غور کریں کہ آپ کو اُس کاصحیح مضمون سمجھ آ جائے۔ لیکن جیسا کہ مَیں پہلے ایک دفعہ ایک خطبہ میں کہہ چکا ہوں، ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ جو تفاسیر بھی آپ کریں، جو مضمون بھی آپ سمجھیں، اُس میںاگر کوئی نیا نکتہ آپ کے سامنے آتا ہے تواُس کو خلیفۂ وقت تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ تاکہ اگر خلیفۂ وقت اُس پر صادکرتا ہے تو اُس کو آپ آگے پھیلائیں۔ اگر نہیں تو پھر وہ آپ کا ایک ذوقی نکتہ ہے جو آپ کی اپنی حد تک تو محدود رہ سکتا ہے لیکن جماعت میں وہ آپ نہیں پھیلا سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے خلیفۂ وقت کا نکتہ اُس سے مختلف ہو۔ تو اس لحاظ سے بھی آپ کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ قرآنِ کریم پڑھنا، اُس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تفاسیر سمجھنا، تفاسیر کرنا بڑی اچھی بات ہے لیکن اُس کی کچھ حدود ہیں، اُن حدود کو بھی آپ لوگوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔
پھر احادیث ہیں۔ احادیث کا مزید علم حاصل کریں۔ چند احادیث آپ نے پڑھیں اس میں وسعت دیں کیونکہ یہ جواحادیث ہیں آپ کے عملی میدان میں آپ کے کام آئیں گی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ہیں۔ یہ بھی قرآن اور حدیث کی تفاسیر ہیں۔ پھر تاریخ اسلام ہے، اس میں وسعت پیدا کرنی چاہئے۔ تاریخ احمدیت جس حد تک آپ کے علم میں ہے یا چھپی ہوئی ہے، اُس کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
سیرت کے مضامین ہیں، سیرت کی کتب ہیں، ان کو پڑھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بعد اُن کو آپ نے پڑھنا ہے۔ یہی باتیں ہیں جو آپ کے علم میں وسعت پیدا کرتی چلی جائیں گی۔
پھر یہ کہ خطبات سے تو ایک مربی منسلک ہوتا ہی ہے اس میں کوئی کہنے کی بات نہیں۔ لیکن اُن باتوں کو سننا، سمجھنا، آگے پھیلانا، عمل کرنا اور کروانا یہ مربی کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ پس ان باتوں کا خیال رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے دو قسم کے علماء کا قرآنِ کریم میں ذکر کیا ہے۔ ایک وہ علماء جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی علماء ہیں، جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، غور کرتے ہیں، عمل کرتے ہیں اور کرواتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو رزق دیا اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور رزق صرف روپے پیسے کا رزق نہیں ہے بلکہ علم ہے، صلاحیتیں ہیں، استعدادیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں، اُن کا صحیح استعمال کرنا اور اُن کو آگے جماعت تک پہنچانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو حقیقی علم رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اُن لوگوں کی صَف میں شامل ہوئے جو حقیقی علماء ہیں۔ پس علم حاصل کرنا اور علماء کی صَف میں شامل ہونا،اس سے آپ میں ایک خاص بات پیدا ہونی چاہئے اور وہ ہے عاجزی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر یہ چیزیں تمہارے اندرہوں گی تو یہ جو علماء ہیں اللہ تعالیٰ ان کو درجات میں بڑھائے گا۔ فرمایا کہ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔(المجادلۃ:12)کہ تم میں سے جو ایمان لائے اور خصوصاً وہ جن کو علم دیا گیا ہے، اُن کو اللہ تعالیٰ درجات میں بڑھاتا ہے کیونکہ اس علم کی وجہ سے انہوں نے اپنے اندر وہ خاص تبدیلی پیدا کی، وہ حالت پیدا کی جس سے بجائے تکبر کے اُن میں عاجزی آئی اور عاجزی ہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ علم اُن کو تکبر میں مبتلا کرنے والا نہیں بنا۔ علم اُن کو بخل میں مبتلا کرنے والا نہیں بنا بلکہ عاجزی میں بڑھانے والا اور اُس رزق کو پھیلانے والا بناجو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا فرمایا تھا۔ پس یہ باتیں ہمیشہ آپ کو یاد رکھنی چاہئیں اور یہ باتیں اطاعت سے آتی ہیں۔ اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس جماعت میں آپ ہیں، جس جگہ آپ کام کر رہے ہیں، وہاں آپ کی باتیں مانی جائیں، آپ کی باتیں سنی جائیں، آپ کی اطاعت کی جائے تو سب سے پہلے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اطاعت کریں اور آپ کا فرض بنتا ہے کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ اطاعت کااس طرح کا تعلق پیدا کریں جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا تھا کہ جس طرح مردہ غسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ آپ کے دل کی دھڑکن یا آپ کی نبض خلیفۂ وقت کے دل کی دھڑکن کے ساتھ چلنی چاہئے۔پس یہ باتیں ہوں گی، یہ اطاعت کے معیار ہوں گے تو آپ میدانِ عمل میں انشاء اللہ تعالیٰ کامیابیاں دیکھنے والے ہوں گے۔
اس کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ نے دوسرے علماء کا بھی ذکر کیا ہے جو نام نہاد علماء ہم دیکھتے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟
لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔(التوبۃ:34)کہ لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے راستے کون سے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے راستے وہ ہدایت کے راستے ہیں جس پر چلنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ صرف یہ ایک ہی راستہ دکھانے والے نہیں۔ جس طرح کہ آج کل کے علماء، غیر(احمدی) علماء ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کے نام پر دہشتگردی سکھا رہے ہیں یا اپنی مرضی کی باتیں سکھا رہے ہیں۔ جو باتیں خود کرتے نہیں، وہ دوسروں کو کہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مثال دی کہ ایک بڑے پائے کا مولوی تھا، بڑی اُس نے دھواں دار تقریر کی، لوگوں کو مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی، لوگوں نے اپنی جیبیں خالی کر دیں اور عورتوں نے اپنے زیور اُتار دئیے۔ اُس کی بیوی گھر آئی، اُس پر بھی اُس تقریر کا بڑا اثر تھا۔ اُس نے بھی اپنے کڑے یا پازیبیں جو پاؤں میں پہنتے ہیں، اتار کر دینے کی کوشش کی۔تو کہتا ہے نہیں۔ یہ تو مال اکٹھا کرنے کاایک طریقہ تھا۔ یہ تمہارے لئے نہیں۔ تم تو میری بیوی ہو۔ تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔تو یہ چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ آپ نے جو کہنا ہے اُس پر خود بھی(عمل کرنا ہے) اور اپنے اہل کو بھی اسی طرح پابند کروانا ہے جس طرح غیروں سے توقع رکھتے ہیں، تبھی آپ اس بات پر بھی عمل کرنے والے ہوں گے کہ اپنے اہل کو بھی آگ سے بچاؤ اور اپنے آپ کو بھی آگ سے بچاؤ۔
پس اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ ہم خوش قسمت لوگ ہیں جن کو اس زمانے کے امام کو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اُن لوگوں میں شامل نہیں فرمایا جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ آپ لوگ اُن علماء میں شامل نہیں ہوئے جو لوگوں کا مال کھانے والے اور اللہ تعالیٰ کے رستے سے روکنے والے ہیں۔ بلکہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن علماء میں شامل ہونے والے ہیں جو حقیقی علماء ہیں۔ جو قرآنِ کریم کی تعلیم کو پڑھتے ہیں ، سمجھتے ہیں، آگے پھیلاتے ہیں اور اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں۔ جو نمازوں کے قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہر قسم کے رزق کو اورجو استعدادیں اور صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دی ہیں، لوگ اُن میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس اس بات کو ہمیشہ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ میدانِ عمل میں یہ باتیں ہیں جو آپ نے سرانجام دینی ہیں اور یہ وہ باتیں ہیں جن کی آپ سے جماعت کا ہر فرد توقع بھی رکھتا ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعہ سے آپ جماعت کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ آپ صحیح تبلیغ کر سکتے ہیں، جماعت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ اور یہی آپ کے دو کام ہیں۔ ایک طرف آپ مربی سلسلہ ہیں اور ایک طرف آپ مبلغ سلسلہ ہیں۔ یہ دونوں کام آپ نے کرنے ہیں۔ اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ کے کندھوں پر ڈالی جا رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس لئے آج جب آپ نے یہ سند لے لی اور فارغ ہو رہے ہیں تو اس ذمہ داری کے بوجھ کو سمجھتے ہوئے ساری زندگی اُٹھانے کی کوشش کریں۔ آج یہاں سے یہ عہد کر کے جائیں کہ ہم نے اب زندگی میں اپنے آپ کو وہ نہیں رکھنا جو پہلے تھے۔ آج تک تو آپ طالبعلم تھے، سوال پوچھتے بھی تھے، جواب حاصل کرتے تھے، فیل بھی ہوتے تھے، پاس بھی ہوتے تھے لیکن اب جس زندگی میں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ مربی بھی بن رہے ہیں۔ تربیت کرنے کی ذمہ داری بھی آپ کی ہے اور دنیا کو صحیح رستے پر چلانے کی ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ اپنوں کے بھی آپ نے حق ادا کرنے اور فرائض نبھانے ہیں اور دوسروں کے بھی، غیروں کے بھی حق ادا کرنے ہیں۔ اور غیروں کا حق اُسی صورت میں ادا ہوتا ہے جب آپ صحیح رنگ میں اُن کو اسلام کا پیغام پہنچائیں گے اور اُس پیغام پر خود بھی عمل کرنے والے ہوں گے۔ پس اس بات کو خاص طور پر ہر مربی کو، ہر مبلغ کو ذہن نشین رکھنا چاہئے۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے عاجزی اور محنت اور دعا کے ساتھ زندگیاں گزارنے کے لئے کہا تھا۔ یہ صرف ایک سال کی بات نہیں ہے۔ ہر مربی کو خاص طور پر، ہر واقفِ زندگی کو خاص طور پر، بلکہ میں اس کے ساتھ اضافہ کروں گا کہ ہر جماعتی عہدیدار کو بھی خاص طور پر اس کو اپنے پلّے باندھ لینا چاہئے اور تا زندگی اس پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم کامیابیاں حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم وہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے جس مقصد کے لئے ایک مربی نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ایک واقفِ زندگی نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور ایک عہدیدار کے ذمہ بعض ذمہ داریاں لگائی گئی ہیں۔
آپ میں سے بعض وقفِ نَو بھی ہوں گے یا ایک آدھ کے علاوہ تقریباً اکثریت واقفینِ نَو کی ہے جو جامعہ سے فارغ ہو رہے ہیںیا جامعہ میں آتے ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں اور آپ کے ماں باپ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہدکئے تھے، آپ کو وقف کرنے کا جو عہد باندھا تھا، آج اُس کو پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی آپ کی یہ ایک اور ذمہ داری بن جاتی ہے کہ آپ نے اپنے ماں باپ کو عہد پورا کرنے سے جو خوشی پہنچائی ہے، آج جو اُن کے احساسات اور جذبات ہیں ان کو ہمیشہ وفا کے ساتھ وقف میں رہتے ہوئے نبھانے کی کوشش کرنی ہے اور اُن کے اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ جب تک آپ وفا کے ساتھ اپنے وقف کو نبھاتے رہیں گے تو ہر دن جو چڑھے گا وہ جہاں آپ کیلئے خوشی کا باعث ہو گا، وہ آپ کے والدین کے عہد کو پورا کرنے والا بھی بن رہا ہو گا اور اُن کے لئے بھی خوشی کا باعث بن رہا ہو گا۔پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس عہد کو پورا کر کے آپ بھی اس میں حصّہ دار بن رہے ہیں، جو صرف آپ کا عہد نہیں آپ کے ماں باپ کا عہد بھی ہے، اور ماں باپ کو خوشی پہنچانا بھی بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔
علمی تربیت جیسا کہ میں نے کہا اس کا ایک دور ختم ہو گیا۔ اب علمی تربیت کا دور ختم ہو گیا۔ اب عملی تربیت کا دور شروع ہو گیا اور اس کے لئے آپ کو افریقہ بھی بھیجا گیا تھا، جہاں چند ماہ آپ گزار کر آئے اور کچھ عملی تجربات بھی آپ کو ہوئے۔ اب جیسا کہ میں نے پروگرام بنایا ہے اور آپ کے علم میں ہے کہ آپ کی کلاس اب انشاء اللہ تعالیٰ سپین جائے گی تا کہ مجموعی لحاظ سے ہم سپین میں بھی ایک تبلیغی مہم کا آغاز کر سکیں۔
پس اس سوچ کے ساتھ وہاں بھی آپ نے جانا ہے کہ ہم نے اسلام کا جھنڈا وہاں گاڑنا ہے جو آٹھ سو سال پہلے ہم سے چھینا گیا تھا اور یہ سوچ رکھتے ہوئے جانا ہے کہ جس طرح مسلمانوں نے پہلے دور میں بعض نیکیوں کی وجہ سے اسلام کو وہاں پھیلایا تھا ، ٹھیک ہے بعد میں جنگوں کی وجہ سے بھی نفوذ ہوتا رہا لیکن آپ نے اُس سے بڑھ کر محبت اور پیار سے اسلام کو وہاں پھیلانا ہے، اسلام کی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ اسلام کا جو غلط تاثر ہے اُس تاثر کو زائل کرنا ہے۔ مہینہ دو مہینے میں تو سارے کام نہیں ہو جاتے لیکن ایک بنیاد آپ وہاں رکھ سکتے ہیں جس پر آگے انشاء اللہ تعالیٰ پھر عمارتیں استوار ہوں گی۔ جو منصوبہ میں نے آپ کو دیا ہے اگر اُس پر عمل ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ بڑے وسیع علاقے میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ جائے گا اور سپین کے لئے اس سے پہلے میرا نہیں خیال کہ اتنا وسیع منصوبہ کبھی بنا ہو گا۔
پھر وہاں سے جب آپ آئیں گے تو آپ کا ایک انتظامی تربیت کا دور شروع ہو گا، جو انتظامی اور عملی تربیت ہے جس کے لئے آپ انشاء اللہ پاکستان، ربوہ جائیں گے۔ وہاں بھی آپ نے کوشش کرنی ہے کہ جس حد تک آپ کو ہر انتظامی معاملے میں گہرائی تک جا کر علم حاصل ہو سکتا ہے، وہ کرنا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ نہ سمجھیں کہ آپ ربوہ جا رہے ہیں اور ربوہ مرکزِ سلسلہ ہے۔ ربوہ مرکز بیشک ہے لیکن جہاں خلیفۂ وقت ہو اصل مرکز وہی ہوتا ہے۔ اور رپورٹ میں آپ سن چکے ہیںکہ آپ کا ایک خاص تعلق میرے ساتھ بھی رہا۔ ہر طالب علم مجھے روزانہ ملتا رہا، فنکشنوں میں بھی ملتا رہا۔ تو یہ جو آپ کی انفرادیت ہے اس انفرادیت کو آپ نے وہاں بھی قائم رکھنا ہے۔ وہاں جا کرپتا لگے کہ آپ لوگ جامعہ احمدیہ یوکے سے آئے ہیں۔ ایک مختلف طریق پر آپ کی تربیت ہوئی ہوئی ہے جو دوسروں سے آپ کو ممتاز کرتی ہے اور واضح نظر آتی ہے۔ اس بات کا آپ نے بہر حال خیال رکھنا ہے۔
خلافت کی بات مَیں پہلے کر چکا ہوں، آپ نے خلافت سے تعلق کو اتنا مضبوط کرنا ہے کہ کسی کو آپ کے سامنے خلافت کے موضوع پر کوئی نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اور جہاں آپ یہ دیکھیں تو وہاں یہ بھی نہیں کہ لڑائی کر لینی ہے بلکہ حکمت سے سمجھانا بھی ہے۔ بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو کسی شریر کے زیرِ اثر آ کر بعض باتیں کر جاتی ہیں جبکہ اُن کے دل میں وہ چیز اس طرح نہیں ہوتی جس طرح وہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے حکمت سے سمجھانا بھی ضروری ہے۔ برداشت نہ کرنے سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر ایک کے آپ نے گریبان پکڑ لینے ہیں بلکہ حکمت سے سمجھانا ہے اور جب آپ دیکھیں کہ آپ کے سمجھانے کی ایک انتہا ہو چکی ہے اور دوسرے شخص میں اصلاح کا کوئی پہلو باقی نہیں ہے بلکہ منافقت زیادہ بڑھ رہی ہے تو پھروہاں آپ کو سختی سے اُس کا ردّ بھی کرنا ہو گا اور پھر اگر کہیں تعلق توڑنا پڑتا ہے تو تعلق بھی توڑنا ہو گا اور پھر اُس کے لئے مرکز کو رپورٹ بھی کرنی ہو گی۔ اس بات پر نہ رہیں کہ ہم یہ ٹھیک کر لیں گے اور پھر مصلحتاً ہم خاموش ہو گئے۔ یہ مصلحت جو ہے یہ بعض دفعہ برائیوں کو پھیلانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لئے جہاں خلافت کے مقام کی تخفیف کا سوال پیدا ہوتا ہو وہاں اس بارہ میں کوئی مصلحت نہیں ہونی چاہئے۔ اس بات کو یاد رکھیں۔ اور خاص طور پر جب مربی بن کر آپ جہاں جہاں بھی جائیں گے، وہاں نوجوان نسل میں خلافت سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ تعلق دنیاوی تعلق نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ تعلق محض لِلّٰہ ہونا چاہئے۔ لوگوں کو یہ باور کرانا ہے یا یہ realize کروانا ہے کہ اب اسلام کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور خلیفۂ وقت کی آواز کو سننا اور سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ نوجوان نسل کو اس طرح سنبھال لیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوان مربیان ان ممالک میں جہاں بھی گئے ہیں اور انہوں نے اس نہج پر کام کیا ہے تو وہاں بہت سارے نوجوان جو پیچھے ہٹے ہوئے تھے، دور ہٹے ہوئے تھے یا کسی وجہ سے اُن کے دلوں میں رنجشیں تھیں، وہ جماعت کے بہت قریب آئے ہیں اور خلافت سے اُن کا بڑا تعلق پیدا ہوا ہے۔ پس ایک مربی اور مبلغ کی میدانِ عمل میں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بڑھانا ہے اور پھر بڑھاتے چلے جانا ہے۔ نوافل کی ادائیگی ہے۔ نمازوں کی ادائیگی کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ دعائیں ہیں، اس میں بھی خاص ذوق ہونا چاہئے، اس کی عادت ڈالیں۔ درود شریف ہے، ذکرِ الٰہی ہے ، اس طرف خاص توجہ رہنی چاہئے۔ اور جب یہ ہو گا تو انشاء اللہ تعالیٰ ساتھ کے ساتھ جہاں آپ کے علم میں ترقی ہو رہی ہو گی وہاں روحانیت میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ اور ایک مفید اور کارآمد مربی اور مبلغ آپ بن رہے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کو میدانِ عمل میں کامیابیاں عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ مقصد پورا کرنے والے ہوں جس کی آپ سے توقع کی جاتی ہے اور ہمیشہ آپ خلافت کے سلطانِ نصیر بننے والے ہوں۔
اب دعا کر لیں۔
