خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان 28دسمبر2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج قادیان کا جلسہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور آج ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نئی ایجادات کے ذریعہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے لئے مقدر تھیں تا کہ دنیا میں اکائی اور وحدت قائم ہو مجھے یہاں لندن سے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما رہا ہے اور پھر صرف مَیں ہی نہیں بلکہ آپ جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یہ بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں اور لندن میں بیٹھ کر قادیان کے نظارے کر رہے ہیں۔ قادیان میں بیٹھے ہوئے لوگ لندن میں بیٹھے ہوئے احمدیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ پس یہ ٹیکنالوجی جو مسیح موعود کے زمانے میں شروع ہوئی اس میں روز بروز اضافہ اور جدّت پیدا ہونا اور اشاعت اسلام کا کام ہونا اور وحدت کا قائم ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے الٰہی کلام ہونے کی دلیل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اور چودہ سو سال پہلے کی گئی پیشگوئیوں کو بڑی شان سے پوری کر رہا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے بھی پیشگوئیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ کچھ آپ کے زمانے میں پوری ہوئیں، کچھ بعد میں پوری ہو رہی ہیں۔
آج ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی حقیقی اسلام کا پتا چلا ہے۔ اُس اسلام کا پتا چلا ہے جس کی تعلیم ہمیشہ جاری رہنے والی تعلیم ہے اور جس کا خدا وہ زندہ خدا ہے جو آج بھی اپنے چنیدہ بندوں سے کلام کرتا ہے۔ آج بھی وہ خدا جو اسلام پیش کرتا ہے وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے اور انہیں حق کے راستے دکھاتا ہے۔ آج بھی وہ خدا اس فساد زدہ دنیا کے بندوں کی آہ و بکا سنتا ہے اور ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ ان کے غموں کو دور کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کے سینکڑوں ہزاروں واقعات لکھے پڑے ہیں اور صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ آج بھی حق کے متلاشیوں کو سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔
دنیا کی نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے فاصلے کم ہو گئے ہیں۔ مہینوں کے سفر گھنٹوں میں ہونے لگے ہیں۔ ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود سیکنڈوں میں ایک دوسرے کی آوازیں اور تصویریں ہمیں پہنچ رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے چہروں کے تأثرات اور جذبات کو لوگ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ جہاں نیکی ہے وہاں بدی بھی ہے۔ جہاں نور ہے وہاں ظلمات بھی ہیں جہاں فرشتے ہیں جو نیکیوں کے پرچار کرتے ہیں تو وہیں شیطان بھی ہے جو برائی اور بے حیائی کو پھیلانے کی ترغیب دے رہا ہے بلکہ زیادہ پُرجوش طریق پر پھیلا رہا ہے۔ یہی حال نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی ہے۔ یہ اشاعت اور تشہیر کے نئے ذرائع اور ایجادات شیطانی کاموں کو پھیلانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور ذرائع صرف کر رہی ہیں جس کے جال میں پھنس کر دنیا دین سے اور خدا سے دُور ہٹ رہی ہے۔ اِس وقت صرف ایم ٹی اے کا چینل ہے جو 24گھنٹے اللہ اور رسول کی باتوں اور نیکی اور حیا کی باتوں کی تلقین میں لگا ہوا ہے۔ چند اور چینل بھی ہیں یا ہوں گے جو کچھ وقت اس کے لئے دیتے ہیں کہ دین کا پرچار کریں جو اللہ اور رسول کی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ دوسروں کے جذبات کو زخمی بھی کر جاتے ہیں۔ بہرحال زیادہ تر چینل یا دوسرے ذرائع جو ایک دوسرے تک تصویریں یا آوازیں پہنچانے کے ہیں بے حیائی اور شیطانی باتیں کرنے پر ہی تُلے ہوئے ہیں۔ شیطان اپنی بات پوری کرنے پر زور لگا رہا ہے کہ مَیں ہر راستے سے آدم کی اولاد کو بھٹکانے کے لئے اور اسے سیدھے راستے سے ہٹانے کے لئے آؤں گا۔
ہم احمدی بھی اس دنیا میں رہ رہے ہیں اور ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے نئی ٹیکنالوجی کو اپنے بھٹکنے کے لئے نہیں بلکہ نیکیوں میں بڑھنے کے لئے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں ترقی کرنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق سے رشتۂ تعلق و محبت میں بڑھنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ اس لئے صرف اس پروگرام یا جلسے کی حد تک نہیں بلکہ ہمیشہ اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے وحدت اور اِکائی پیدا کرنے کے لئے ہمیں عطا فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ باوجود دنیا میں بہت تھوڑے ہونے کے، باوجود بہت ہی قلیل اور تھوڑے وسائل اور ذرائع ہونے کے ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ عطا فرما دیا ہے جس سے ہم چوبیس گھنٹے میں جب چاہیں اپنی روحانی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ دنیا کے پاس بہت مال ہے، بہت زیادہ وسائل ہیں، ذرائع ہیں لیکن کون سا ملک ہے اور کون سا مذہبی سربراہ ہے جس کا رابطہ اس کے ماننے والوں سے اتنے وسیع پیمانے پر اور دنیا میں ہر جگہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ اگر ہو گا تو تھوڑے سے وقت اور چند منٹ کے لئے اور ملک کے اندر ہو گا اور اگر کسی کا ملک سے باہر رابطہ ہے بھی تو چند منٹ کے لئے اور وہ بھی اس لئے نہیں کہ کسی کی بیعت میں ہیں یا اسے ماننے والے ہیں بلکہ صرف دنیا کی خبروں سے آگاہ ہونے کے لئے۔ یہ انعام صرف اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مسیح موعود اور مہدی معہود کی جماعت کو ہی عطا فرمایا ہے۔ یہ معجزہ اور یہ نشان صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ہی عطا فرمایا ہے کہ آپ سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جس کی پیشگوئی فرمائی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔(مسندالامام احمد بن حنبل جلد 6صفحہ285حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998ء) نہ صرف اُس خلافت کو قائم فرمایا بلکہ اس کے ذریعہ سے ایک جماعت قائم کر کے جو مغرب میں بھی پھیلی ہوئی ہے اور مشرق میں بھی، شمال میں بھی پھیلی ہوئی ہے اور جنوب میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ جو افریقہ میں بھی ہے اور ایشیا میں بھی۔ یورپ میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی۔ جو آسٹریلیا میں بھی ہے اور جزائر میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک لڑی میں پرو دیا اور آج خلیفۂ وقت کی آواز وحدت کا نشان بن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ایک وقت میں ہر جگہ گونج رہی ہے۔
پس خوش قسمت ہیں وہ جو آخرین کا حصہ بن کر اور آخرین میں شامل ہو کر اس وحدت کا حصہ بنے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس وقت مسیح الزمان کی بستی میں بیٹھ کر جہاں روحانی ماحول سے حصہ پا رہے ہیں وہاں باوجود فاصلے کی دُوری کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ادنیٰ غلام اور خلیفۂ وقت کی باتیں سن رہے ہیں اور پھر دنیا کے ہر کونے میں بیٹھا ہوا احمدی یہ باتیں سن رہا ہے۔ اس وقت کہیں دن ہے اور کہیں رات ہے۔ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے۔ لیکن قادیان کی بستی کے نظارے سبھی لوگ کر رہے ہیں اور کچھ حد تک اس روحانی ماحول سے بھی فیض پا رہے ہیں جس سے اس وقت قادیان میں بیٹھے ہوئے شاملین جلسہ فیض پا رہے ہیں۔ کیسا وعدوں کا سچا ہمارا خدا ہے جو ہمیں اپنے وعدوں کو پورا ہوتا ہوا دکھا کر ہمارے ایمان اور یقین میں اضافہ فرما رہا ہے۔
پس یہ باتیں ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ اس خدا کے حکم پر بہ دل و جان عمل کرنے والے بن جائیں۔ اس کے حکموں پر ہر طرح سے عمل کرنے والے بن جائیں۔ یہی حقیقی شکر ہے جس کی ایک مومن سے توقع کی جا سکتی ہے ورنہ زبانی شکر تو کوئی چیز نہیں ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ الحمد للہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اگر دنیا کی مخالفت مول لے کر ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے تو ہمیں اس کا حقیقی شکر بھی ادا کرنے والا ہونا چاہئے۔
آج سے 108سال پہلے تقریباً ایک ایسی ہی تقریب قادیان میں ہو رہی تھی۔ یہی مہینہ تھا اور یہی دن تھے جب چند سو لوگ قادیان میں جمع تھے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں سنیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنیں۔ اس کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔ وہ لوگ ہندوستان سے جمع ہوئے تھے۔ وہ چند سو لوگ تھے لیکن آج اِس وقت ہندوستان سے باہر دنیا کے تقریباً 43ممالک سے سات آٹھ ہزار لوگ اُس بستی میں جمع ہیں جو قادیان کی بستی ہے اور مقصد وہی ہے اور یہی مقصد ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں سنیں۔ اسلام کی ترقی کے لئے کوششیں کریں اور دعائیں کریں۔ اپنے ایمان و ایقان میں بڑھنے کے لئے دعائیں کریں۔ مسیح موعود کی بستی سے فیض اٹھائیں۔ لیکن ایک فرق ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ 108 سال پرانی مجلس میں اُس وقت مجلس کی رونق خود مسیح الزمان تھے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ فرستادہ تھا جو دلوں کی صفائی کر رہا تھا۔ ان غریب لوگوں کو بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ یقینا ہمارے ساتھ ہے اور وہ وقت آنے والا ہے جب قادیان کی بستی دنیا میں جانی جائے گی۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی باتیں کس سچائی سے پوری ہو رہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ تم میں سے ہر ایک احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے۔ آپ نے مخالفین کی مخالفت کو بھی خدا تعالیٰ کا معجزہ قرار دیا۔ آپ نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو فرمایا کہ:
’’ دیکھو اوّل اللہ جلّ شانہٗ کا شکر ہے کہ آپ صاحبوں کے دلوں کو اس نے ہدایت دی اور باوجود اس بات کے کہ ہزاروں مولوی ہندوستان اور پنجاب کے تکذیب میں لگے رہے اور ہمیں دجال اور کافر کہتے رہے آپ کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کا موقع دیا‘‘۔(ملفوظات جلد 10صفحہ23۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) ان چند سو غریب لیکن اللہ تعالیٰ کے شکرگزار اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے والے لوگوں کی دعائیں آج آپ کو ترقی کے یہ نظارے دکھا رہی ہیں۔
اِس وقت بھی قادیان میں جلسہ میں شامل ہونے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق ہے جیسا کہ میں نے کہا۔ روس سے بھی اور عرب ممالک سے بھی اور افریقہ سے بھی جن کو احمدیت میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔اسی طرح اور ملکوں سے بھی احمدی قادیان آئے ہوئے ہیں جن کو احمدیت میں شامل ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے۔ اور سب یہ جانتے ہیں کہ اب صرف ہندوستان تک ہی یہ بات محدود نہیں بلکہ دنیا کے تمام ملکوں میں جہاں مسلمان نام نہاد علماء پہنچ سکتے ہیں احمدیت کی مخالفت ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں عربوں کے ذریعہ سے اسلام پھیلا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دین کی فراست عطا کی ہوئی تھی لیکن آج جب احمدیت کا سوال آتا ہے تو یہ لوگ قرآن کریم کی تعلیم بھی بھول جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ اور تعلیم بھی بھول جاتے ہیں۔ ان کی فراست پر بھی تالے پڑ جاتے ہیں اور صرف ایک چیز کی رَٹ لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کذّاب تھے، جھوٹے تھے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے نام نہاد علماء یہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں اب ہندوستان کے مولوی ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مولوی یہ فتوے دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود سعید روحیں احمدیت اور حقیقی اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ عربوں میں سے بھی ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اِس وقت عرب بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان عربوں کا اب کام ہے کہ وہی علم اور وہی فراست دوبارہ اپنے اندر قائم کریں اور آج مسیح موعود کے پیغام کو تمام عرب دنیا میں پھیلا دیں۔
آپ علیہ السلام نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ:
’’یہ بھی اللہ جل شانہٗ کا بڑا معجزہ ہے کہ باوجود اس قدر تکذیب اور تکفیر کے اور ہمارے مخالفوں کی دن رات کی سرتوڑ کوششوں کے یہ جماعت بڑھتی جاتی ہے‘‘۔ یہ 1907ء کی بات ہے جب آپ نے فرمایا کہ ’’ میرے خیال میں اِس وقت ہماری جماعت چار لاکھ سے بھی زیادہ ہو گی۔ اور یہ بڑا معجزہ ہے کہ ہمارے مخالف دن رات کوشش کر رہے ہیں اور جانکاہی سے طرح طرح کے منصوبے سوچ رہے ہیں اور سلسلہ کو بند کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ مگر خدا ہماری جماعت کو بڑھاتا جاتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد 10صفحہ24۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہر وہ شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح مولوی ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ اِس وقت قادیان میں افریقہ سے آئے ہوئے احمدی بھی جلسے میں موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح احمدیوں کو احمدیت سے متنفر کرنے کے لئے مولوی زور لگاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ یہ معجزہ دکھاتا ہے کہ نہ صرف خائب و خاسر ہو کر وہاں سے نکلتے ہیں۔ اس مخالفت کے لئے جہاں بھی پہنچتے ہیں وہاںکئی جگہ جب ہمارے مربیان اور معلمین جاتے ہیںتو لوگ سچائی کے پیغام کو سن کر قبول کرتے ہیں اور مولوی جتنا بھی زور لگا لیں ان کی کوئی نہیں سنتا اور ذلیل و رسوا ہو کر وہاں سے نکلتے ہیں۔ ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ جہاں بھی ہمارے مبلغین پہنچے، ہمارے معلمین پہنچے کچھ عرصہ کے بعد مولوی بھی وہاں پہنچ گئے۔ احمدیت کے بارے میں ان لوگوں کو جھوٹی باتیں کر کے حق سے پھیرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا مولوی ہمیشہ ناکامی کا منہ ہی دیکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس زمانے میں جب آپ یہ فرما رہے ہیں، فرمایا کہ جماعت کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ کے جو جاری تائیدی نشان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہیں اس کے نتیجہ میں کئی افریقن ممالک ہیں جن میں سال میں ہی لاکھ لاکھ لوگ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو یعنی مخالفین کو سمجھ نہیں آتی کہ ہماری مخالفت کے باوجود یہ سلسلہ ترقی کر رہا ہے تو کیوں؟ کیا اللہ تعالیٰ جھوٹے کا ساتھ دے رہا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان مولویوں کی مخالفت کا ذکر فرماتے ہوئے، اس کی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ جانتے ہو کہ اس میں( یعنی مخالفت میں) کیا حکمت ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’حکمت اس میں یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ جس کو مبعوث کرتا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ روز بروز ترقی کرتا اور بڑھتا ہے اور اس کے سلسلہ دن بدن رونق پکڑتا جاتا ہے اور اس کے روکنے والا دن بدن تباہ ہوتا ہے اور ذلیل ہوتا جاتا ہے اور اس کے مخالف اور مکذّب آخر کار بڑی حسرت سے مرتے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد 10صفحہ24۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
تو یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخالفین کو مارنا چاہتا ہے۔ پس یہ لوگ اپنی تمام تر کوششوںکے باوجود حسرت کی موت مر رہے ہیں۔ ایسے کئی واقعات روزانہ میرے سامنے آتے ہیں کہ مولوی ہمیں ختم کرنے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا، یا ہمارا فلاں مخالف ہمیں ختم کرنے کی اور ہماری تباہی دیکھنے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اور یہ سلسلہ بڑی شان سے نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ ہر روز جماعت احمدیہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
پس مَیں دوسرے مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ سوچیں اور خدا تعالیٰ سے لڑائی مول لینے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی آواز پر غور کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1907ء کے اپنے جلسے کے خطاب میں اس بارے میں مزید فرمایا کہ:
’’ خدا تعالیٰ کے ارادہ کو جو درحقیقت اُس کی طرف سے ہے کوئی بھی روک نہیں سکتا اور خواہ کوئی کتنی ہی کوششیںکرے اور ہزاروں منصوبے سوچے مگر جس سلسلہ کو خدا شروع کرتا ہے اور جس کو وہ بڑھانا چاہتا ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اگر ان کی کوششوں سے وہ سلسلہ رُک جائے تو ماننا پڑے گا کہ روکنے والا خدا پر غالب آ گیا۔ حالانکہ خدا پر کوئی غالب نہیں آ سکتا‘‘۔ پھر فرمایا کہ: ’’پھر ایک یہ معجزہ ہے کہ ان لوگوں کی بابت جو ہزاروں لاکھوں ہمارے پاس آتے رہتے ہیں اللہ جلّ شانہٗ نے براہین احمدیہ میں پہلے ہی سے خبر دے رکھی تھی… اُس میں بہت سے اُسی زمانے کے الہام بھی درج ہیں‘‘۔ فرمایا ’’اسی کتاب براہین احمدیہ میں آنے والی مخلوق کی صاف طور پر پیشگوئی درج ہے‘‘۔( یعنی جو لوگ جماعت میں داخل ہوں گے ان کے بارے میں صاف طور پر پیشگوئی درج ہے)’’ اور یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں بلکہ عظیم الشان پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے۔‘‘ (عربی کے الہام ہیں)’’ یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عِمِیْقٍ۔ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔ وَانْتَھٰی أَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا۔ أَلَیْسَ ھَذَا بِالْحَق۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُککَ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ۔ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ اُحَافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔‘‘فرمایا’’ یہ اس کی عبارت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اِس وقت تُو اکیلا ہے مگر وہ زمانہ تجھ پر آنے والا ہے کہ تُو تنہا نہیں رہے گا۔ فوج در فوج لوگ دُور دراز ملکوں سے تیرے پاس آئیں گے‘‘۔(ملفوظات جلد10صفحہ24-25۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ نے تو اتنی حد تک بیان کیا یا وہاں لکھا ہوا اتنا ہے۔ تفصیلی ترجمہ ان الہامات کا یہ ہے کہ وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھ تک پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہو جائیں گے۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کر لے گا تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دے جبتک کہ پاک اور پلید میں فرق کر کے نہ دکھلاوے۔ پس وہ وقت آتا ہے کہ تُو مدد دیاجائے گا اور دنیا میں مشہور کیا جائے گا۔ مَیں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ مَیں تجھے لوگوں کے لئے پیشرو بناؤں گا‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت سات سو افراد جلسہ میں شامل ہوئے تھے جہاں آپ نے ان الہامات کا ذکر فرمایا۔ اس بارے میں گزشتہ خطبہ میں بھی مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تعداد کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ لگتا ہے اب ہماری واپسی کا وقت قریب ہے جو اتنی بڑی تعداد میں لوگ آج یہاں جمع ہو گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تعداد کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ پیشگوئیاں جو 25برس پہلے کی کی گئی تھیں اب کس شان سے پوری ہو رہی ہیں۔ شاید کوئی اس وقت بھی کہتا ہو یا آج بھی کچھ لوگ کہہ رہے ہوں کہ پیشگوئیوں کے الفاظ تو بہت شاندار ہیں لیکن لوگ اُس وقت صرف چند سو تھے۔ تو ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بتا رہے ہیں کہ سارا سال لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور ہزاروں لوگ آتے ہیں۔ دوسرے اس کی شان کو اس نظر سے دیکھو جب یہ پیشگوئی کی گئی یا پیشگوئیاں کی گئیں تو قادیان کی اس چھوٹی سی بستی کو کوئی نہیں جانتا تھا اور پھر اس بستی میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کوئی نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے۔ صرف لوگوں کے آنے کی خبر نہیں بلکہ اس کثرت سے آنے کی خبر ہے جس سے راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا ذکر بلند کرے گا ۔تجھے دنیا جانے گی اور دنیا میں مشہور کیا جائے گا۔ اور پھر یہ بھی کہ میں تیری حفاظت کروں گا۔ پس آپ نے اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں کو اپنے پاس آتے بھی دیکھا۔ لاکھوں لوگوں کو اپنی بیعت میں شامل ہوتے بھی دیکھا۔ آپ کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک مقدمہ قائم ہوا جن میں سے بظاہر بریّت ناممکن تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بری فرمایا۔ آپ پر مختلف طریقوں سے حملے کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی جان کی بھی حفاظت کی اور آپ کی عزت بھی قائم فرمائی۔ آج ہم جب اس تناظر میں دیکھیں جو قادیان کی ابتدائی حالت تھی اور جو آپ کی اپنی پہچان تھی کہ کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ قریبی لوگ بھی نہیں جانتے تھے اور پھر ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کی شان اور ان پیشگوئیوں کی صداقت اور بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔
پاکستان ہندوستان کے علاوہ دنیا کے 42ملکوں کے نمائندے بیٹھے اپنی اپنی زبان میں اس وقت جلسے کی کارروائی سن رہے ہیں۔ پس آپ میں سے ہر وہ شخص جو اس وقت قادیان کی بستی میں بیٹھا جلسے میں شامل ہے، یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ ہر شخص آپ کی سچائی کی دلیل ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس وقت اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند سو لوگوں کو فرمایا تھا جو زیادہ سے زیادہ ہندوستان کے کسی دُور کے علاقے سے آئے ہوں گے کہ ’’تم میں سے تقریباً سب کے سب ہی اس گاؤں سے ناواقف تھے۔ اب بتلاؤ کہ آج سے پچیس چھبیس برس پیشتر‘‘ (جب براہین احمدیہ لکھی گئی تھی) ’’اپنی تنہائی اور گمنامی کے زمانہ میں کوئی کس طرح دعویٰ کر سکتا ہے کہ مجھ پر ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ ہزارہا لوگ میرے پاس آئیں گے… اور مَیں دنیا بھر میں عزت کے ساتھ مشہور کیا جاؤں گا‘‘۔
(ملفوظات جلد10صفحہ26۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آج آپ جو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں اس بات کے ثبوت ہیں کہ دنیا میں آپ یعنی مسیح موعود علیہ السلام مشہور ہوئے۔ آپ کی جماعت دنیا کے 207 یا 208ملکوں میں قائم ہے۔ بعض ملکوں میں آپ کے ماننے والے حکومتوں کے مشیر اور وزیر ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ سب اس بات کی عظیم الشان دلیل ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے اور جو پیشگوئیاں آپ نے فرمائی ہیں وہ آپ کی خود ساختہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر آپ نے بتائی ہیں جو پہلے بھی بڑی شان سے پوری ہوئیں اور اب بھی پوری ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اپنی شان دکھاتے ہوئے پوری ہوتی رہیں گی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک لمبی نظم ہے۔ اس کا ایک شعر ہے کہ
گر نہیں عرش معلی سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں
(کلام محمود صفحہ114شائع کردہ نظارت نشرو اشاعت قادیان)
پس یہ آواز جو قادیان کی بے نام بستی سے اٹھی جس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوئی، جس کی تائید کی اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خبر دی تھی آج دنیا کے ہر ملک میں گونج رہی ہے۔ یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ دیکھو جتنے انبیاء آج سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے بہت سے معجزات تو نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ بعض کے پاس تو صرف ایک ہی معجزہ ہوتاتھا۔ اور جس معجزہ کا مَیں نے بیان کیا ہے یہ ایک ایسا عظیم الشان معجزہ ہے جو ہر ایک پہلو سے ثابت ہے اور اگر کوئی نِرا ہٹ دھرم اور ضدّی نہ ہو گیا ہو تو اُسے میرا دعویٰ بہرصورت ماننا پڑتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد10صفحہ26۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
مگر جن کی آنکھوں پر پٹّیاں پڑ گئی ہوں انہیں روشنی کس طرح نظر آ سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے تو بہرصورت بڑی شان سے پورے ہو رہے ہیں بعض دفعہ بعض لوگوں کو خود ان کی نیک فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پیغام پہنچا دیتا ہے اور ہزاروں لوگ اس طرح احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُس وقت جبکہ آپؑ کو کوئی نہ جانتا تھا اور آپ خود بھی علیحدگی پسند اور دنیا سے الگ رہنا پسند کرتے تھے آپ کو فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کے لئے امام بناؤں گا۔ کس شان سے پورا ہؤا اور ہو رہا ہے۔ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا نظام بھی جاری فرمایا تو اس لئے کہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کئے گئے وعدوں کا فیض جاری رہے۔
پس یہ سلسلہ جو پھل رہا ہے، پھول رہا ہے اور بڑھ رہا ہے اور خلافت احمدیہ کو تائیداتِ الٰہی حاصل ہو رہی ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود سے کئے گئے تمام وعدوں کو ایک شان سے پورا فرمانا ہے اور فرما رہا ہے۔ ایک طرف تو مخالفین احمدیت کی مخالفتیں ہیں لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ اس وقت مَیں چند واقعات بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے صرف دعوے اور باتیں ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر ہر لفظ کی اللہ تعالیٰ آج بھی تائید فرما رہا ہے، آج بھی انہیں پورا فرما رہا ہے۔
مالیؔ افریقہ کا ایک دور دراز ملک ہے۔ آج سے ایک سو دس سال پہلے تو ،خیر سو سال پہلے بھی نہیں، بلکہ نوّے سال پہلے بھی نہیں ہندوستان میں رہنے والا شاید ہی کوئی احمدی اس ملک کو جانتا ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ارادہ کیا کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانا ہے تو سامان بھی فرما دئیے اور 2012ء میں وہاں ہمارے ریڈیو سٹیشنوں کا آغاز ہوا اور تبلیغ شروع ہوئی۔ اسلام کی حقیقی تعلیم بتائی جانے لگی۔ لوگوں نے اسے سننا شروع کیا۔ لیکن بعض لوگ باوجود سعید فطرت ہونے کے اس بات سے جھجکتے تھے کہ جماعت میں شامل ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کیونکہ ان کی نیک فطرت کی وجہ سے چاہتا تھا کہ رہنمائی فرمائے اس لئے رہنمائی بھی فرمائی اور فرماتا ہے۔ ایسے ہی ایک دوست اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔ ان کا نام لاسین (Lassine) صاحبہے۔ کہتے ہیں کہ وہ ریڈیو احمدیہ سنتے تھے مگر بیعت کی طرف ذہن مائل نہ تھا۔ اسی دوران ایک روز دعا کے بعد آرام کی غرض سے لیٹے تو خواب میں کسی بزرگ کو دیکھا جو ایک راستے سے گزر رہے تھے۔ خواب میں ہی ان کو بتایا گیا کہ یہ احمدیوں کے خلیفہ ہیں جو آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں۔ اس خواب کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اب میرے دل میں احمدیت کی صداقت سے متعلق کسی بھی قسم کا شک اور شبہ نہیں رہا ہے اور مَیں نے بیعت کر لی ہے۔ پس یہ ہیں نیک فطرت لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور ہدایت کے طریق۔ جس پر وہ فضل کرنا چاہتا ہے کون ہے جو اسے روک سکتا ہے۔
پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی ضدّی اور ہٹ دھرم نہ ہو گیا ہو تو اسے میرا دعویٰ ماننا پڑتا ہے۔ آجکل کے مولوی اس زُمرہ میں ہی آتے ہیں جو ضدی بھی ہیں اوراگر سب نہیں تو اکثریت ان کی ہٹ دھرم بھی ہے۔ ان کو اپنے منبر کی فکر ہے اور اس لئے ضدی اور ہٹ دھرم ہو چکے ہیں۔ اور اس قسم کے علماء الّا ماشاء اللہ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
ہمارے مبلغ انچارج سینیگال نے ایک ایسے ہی مولوی کے بارے میں بتایا۔ کہتے ہیں کہ تمباکونڈا (Tambacounda)ریجن کے ایک گاؤں کے مولوی جو جماعت کے بہت مخالف ہیں اسسٹنٹ کمشنر کے پاس گئے کہ احمدی لوگ مسلمان نہیں ہیں ان سے پرہیز کیا کریں۔ چنانچہ موصوف جماعت سے پرہیز کرنے لگے۔ پہلے وہ تھوڑے بہت واقف تھے۔ اور جماعت کے کسی بھی فنکشن میں شامل نہ ہوتے اور بہانہ کرتے کہ یہ مجبوری ہو گئی، وہ مجبوری تھی بلکہ بسا اوقات تُرشی سے بھی پیش آتے۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے لوگوں کا رجحان جماعت کی طرف اور زیادہ ہو گیا اور 67سرکردہ افراد احمدیت میں داخل ہو گئے۔ لوگوں کو احمدی ہوتے دیکھ کر مولوی کو پھر زیادہ فکر ہوئی اور ریجن کی خفیہ پولیس کے ڈائریکٹر کے پاس چلا گیا اور اس کو جماعت کے خلاف اکسانے لگا۔ ان دنوں میں کیونکہ ساتھ والے ملک مالی میں terrorismکے واقعات ہو رہے تھے اور اس کے بعد حکومت ان معاملات میں کافی حسّاس ہو چکی تھی اور ہر طرف نظر رکھی جا رہی تھی۔ چنانچہ خفیہ پولیس کے ڈائریکٹرکو جب ہمارا بتایا گیا اور جھوٹی خبر دی گئی کہ احمدی terrorist ہیں تو خفیہ پولیس کے ڈائریکٹر نے تحقیق کے لئے تین افسر بھیجے کہ تحقیق کرو اور پتا لگے۔ یہ تینوں افسر جب آئے۔ جماعت کے بارے میں تحقیق کرنے لگے۔ تعلیم کا پتا کیا اور حقیقت ان کے علم میں آئی تو یہ تینوں افسران بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔
مولویوں کے منصوبے کا ایک اور واقعہ دیکھیں اور ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید کا نظارہ بھی نظر آتا ہے۔مولوی چاہتے ہیں کہ پابندی قائم کر دیں۔ احمدیت کی تبلیغ کو روکنے والے بن جائیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے منصوبے ان پر الٹا دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید کے نشان دکھاتا ہے۔
برکینا فاسو کے ہمارے مبلغ ہیں یہ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں کنگورا (Kangoura)ہے۔ وہاں تبلیغ کی غرض سے گئے۔ یہ جگہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وہاں مختلف قبیلے ہیں اور زبان کے لحاظ سے ایک قبیلہ میں جُولا(Jula) زبان بولی جاتی ہے اور دوسرا سینُوفو (Senufo) زبان بولتا ہے۔ کہتے ہیں ہم سینفو زبان والے محلے میں چلے گئے اور دوسرے محلے کے لوگوں کو بھی دعوت دی۔ جُولا زبان بولنے والے احمدیوں کے سخت دشمن تھے۔ دوسرے محلے میں اس لئے گئے کہ جُولا والے احمدیت کی بڑی مخالفت کرتے تھے۔ مولوی کے زیر اثر تھے اور جماعت کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے۔ وہاں ان کا ایک مدرسہ بھی ہے۔ ان کے بڑے امام نے اپنے نائب امام کو بھیجا کہ یہ جُولا علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کرنے کے لئے گئے ہیں جاؤ ان کی تبلیغ سنو۔ یہ نہ ہو کہ احمدی اپنی تبلیغ سے اس پورے محلے اور علاقے کو احمدی کر لیں۔ چنانچہ اس نائب امام نے منصوبہ بنایا کہ جب احمدی مبلغ تبلیغ کرنا شروع کرے گا تو وہاں ان کے جو چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوتے ہیں، جھونپڑیاں، ان میں سے ایک کو آگ لگا دیں گے اور شور مچا دیں گے کہ آگ لگ گئی ہے۔ پھر ہم سب دوڑ پڑیں گے اور اس طرح تبلیغ رک جائے گی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ ان کا احمدیوں کی تبلیغ کا جو منصوبہ ہے وہ فنکشن ختم ہو جائے گا۔ آخر انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس وقت سارے لوگ منتشر ہو گئے۔ ہمارے مبلغین کہتے ہیں کہ ہم نے ساری رات پھر اسی گاؤں میں گزاری۔ تبلیغ تو کر نہیں سکتے تھے۔ ایک تدبیر انہوں نے کی تھی اور دوسری تدبیر خدا تعالیٰ نے کی۔ وہ کس طرح؟ کہتے ہیں کہ صبح ہی صبح نماز کے بعد اس محلہ کے تمام لوگ دوبارہ جمع ہو گئے اور ہم نے ان کو تبلیغ کی۔ یہ لوگ فطرت کے نیک تھے۔ اس بات کو بھی سمجھ گئے کہ ساتھ والے محلے نے شرارت کی ہے۔ چنانچہ ہماری تبلیغ سن کر ان نیک فطرت لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت صبح کی تبلیغ سے 128 افراد نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔
پھر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والے کی دعا کو سن کر کس طرح ان کے ایمان کو بڑھاتا ہے اور کس طرح اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہارا تعلق زندہ خدا سے جوڑنے آیا ہوں۔ اس بارے میں مَیں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
یہ بینن کا واقعہ ہے۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ ہماری ریجن کی ایک جماعت ہے اس کے صدر قدوس صاحب ہیں۔ وہ صرف اس وجہ سے جماعت میں داخل ہوئے تھے کہ جماعت کا دعویٰ ہے کہ اسلام کا خدا آج بھی دعائیں سنتا ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ یکم اپریل 2015ء کو میری اہلیہ کی ڈیلیوری کا وقت آ گیا۔ بچے کی پیدائش تھی۔ میں نے اس موقع کے لئے جو مالی انتظامات کئے ہوئے تھے، جو پیسوں کا، رقم کا انتظام کیا ہوا تھا ان سے لوکل ہسپتال میں علاج شروع کروایا مگر زچگی کی دردیں ہونے کے باوجود بچے کی پیدائش مشکل ہو گئی۔ ہسپتال والوں نے کچھ دیر رکھ کر کہا کہ اب ماں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے اور اس کا بڑا آپریشن ہو گا جس کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے۔ آپ کسی دوسرے ہسپتال میں لے جائیں۔ یہ سن کر کہتے ہیں مَیں سخت پریشان ہوا کہ جو کچھ تھا وہ تو سب مَیں نے خرچ کر دیا۔ رقم میرے پاس تھوڑی تھی یا جتنی بھی تھی اس خرچے کے لئے تھی۔ بہرحال کہتے ہیں میں دوسرے ہسپتال جانے کے لئے ٹیکسی لے کر روانہ ہوا۔ اللہ کے حضور دعائیں کرنے لگا کہ اے اللہ! میں تو اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں جس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور مشکل کشا ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں بیوی کو جب بڑے ہسپتال لے کر پہنچا تو ابھی ڈاکٹروں نے کوئی دوا بھی نہیں دی تھی کہ بچے کی نارمل طریق پر پیدائش ہو گئی۔ کہتے ہیں یہ میرے لئے زندہ خدا کے موجود ہونے اور جماعت احمدیہ کی صداقت کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور اس سے کہتے ہیں میرے ایمان میں اور بھی ترقی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ایمانوں کو ترقی دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایمان پختہ ہو تو آج بھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے۔ کسی مولوی کے پاس جانے کی یا کسی پیر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ جڑ جاؤ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پیروی کرو تو خدا تعالیٰ خود ملتا ہے اور نشان دکھاتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ جس کے حق میں فیصلہ کر دے کہ اسے ہدایت دینی ہے تو عجیب رنگ میں پھر اس کی ہدایت کے سامان بھی کرتا ہے۔ اس بارے میں امیر صاحب فرانس ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ سلیم تورے صاحب ایک احمدی ہیں۔ انہوں نے سات سال پہلے بیعت کی تھی لیکن ان کی بیوی احمدی نہیں ہوئی تھی اور مذہبی طور پر کٹّر تھی۔ بَیک گراؤنڈ مسلمان تھی ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس عورت نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا کرے تو میں بیعت کر لوں گی۔ جب انہوں نے مجھے لکھا یا شاید زبانی کہا جب ملے تو میں نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ پابند تو نہیں ہے۔ مَیں نے ان کو لکھ کے بھی بھیجا تھا کہ اللہ تعالیٰ پابند تو نہیں ہے۔ بہرحال دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو بھی اس طرح پورا فرمایا کہ چند دنوں کے بعد ان کی اہلیہ امید سے ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا بھی عطا فرما دیا۔ اس کے بعد سے موصوفہ نے بیعت کر لی۔ اپنے بیٹے کا نام بھی بشیر الدین محمود احمد رکھا۔ پس ہر دعا جو قبول ہوتی ہے، ہر بات جو اللہ تعالیٰ پوری فرماتا ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی اور اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد ایمان اور یقین میں کس طرح اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اس کی ایک مثال سامنے رکھتا ہوں۔ آئیوری کوسٹ کے معلم بیان کرتے ہیں۔ غازی پور ایک جگہ ہے وہاں کی مسجد میں ایک دن نماز جمعہ کے بعد ایک خاتون نے بیعت کی اور باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے لگ گئی۔ ان کا خاوند مسلمان نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ سچ ہے کہ مسیح موعود تشریف لا چکے ہیں اور جماعت احمدیہ ہی ان کی جماعت ہے تو ان کے صدقے میرے خاوند کو بھی قبول احمدیت کی توفیق دے۔ وہ خاتون کہتی ہیں کہ مَیں تو پہلے ہی احمدی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت مجھ پر مزید کھول دی کیونکہ اگلے ہی روز میرے خاوند صبح صبح مشن ہاؤس آئے اور بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نومبائعین کے ازدیاد ایمان کے لئے کیسے نشان دکھاتا ہے۔ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ برکینا فاسو کی ریجن ٹنکو دو گو(Tenko Dogo)ہے۔مشنری کہتے ہیں کہ یہاں ہماری ایک جماعت ہے اس میں ایک بہت ہی مخلص خاندان احمدیت میں داخل ہوا اور احمدیت کے ساتھ وابستگی اور اخلاص میں غیر معمولی ترقی کی۔ اس خاندان کی اپنے محلے میں شدید مخالفت بھی ہوئی۔ اس خاندان کی خاتون گوبا بوئیماصاحبہ نے بتایا کہ ایک دن ایک شخص ان کے گھر میں آیا اور انہیں سخت برا بھلا کہا اور گالیاں بھی دیں اور کہنے لگا کہ تم سب لوگ اندھے ہو جنہوں نے جھوٹ کو گلے لگا لیا ہے۔ اس لئے فوراً جماعت کو چھوڑ دو۔ وہ یہ کہہ کر چلا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ماہ کے اندر یہ شخص اپنی جوانی کی حالت میں آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر اندھا ہو گیا۔
اسی طرح ایک روز ایک مخالف مُلّاں کہنے لگا کہ آپ لوگوں کا امام مہدی تو جیل میں فوت ہوا ہے۔(یہ) ایک نیا الزام(ہے)۔ کیا ایسا شخص بھی خدا کا امام ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میںنے تجھے امام بنایا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ایسا شخص امام ہو سکتا ہے۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ عجیب بات ہے کہ میں ابھی معلم صاحب کے پاس اس بات کا جواب لینے نہ جا پائی تھی کہ یہ خبر مشہور ہو گئی کہ جس شخص نے یہ بات کی تھی وہ ایک جرم میں پکڑا گیا اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ تو یہ نشانات ہیں جو اس نو مبائع خاندان کے لئے جہاں ازدیاد ایمان کا موجب ہوئے وہاں اس علاقے میں دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بھی بنے۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بندے کے کاروبار ہیں۔
غرض کہ بیشمار ایسے واقعات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو لوگوں کے ایمان میں ترقی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ انہیں آپ علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کرنے والا بناتے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت پر یقین میں بڑھاتے ہیں۔ خلافت احمدیہ سے پختہ تعلق پیدا کرنے والا بناتے ہیں۔ مخالفین کے عبرتناک انجام سے ان کی حقیقت ظاہر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے اَور نظارے دکھاتے ہیں۔ قادیان کی بستی سے اٹھی ہوئی آواز جیسا کہ مَیں نے کہا اس وقت دنیا کے 208 یا209 ممالک میں گونج رہی ہے۔ ہر وہ شخص جو دنیا کے کسی بھی کونے سے آیا ہے اور جلسہ سالانہ میں شامل ہے جس میں روسی بھی شامل ہیں، عرب بھی شامل ہیں، افریقن بھی ہیں یورپین بھی ہیں اور انڈونیشین بھی ہیں یہ سب لوگ جو ہیں،جو وہاں اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں یہ آپ کی دعاؤں کی قبولیت کی دلیل ہیں۔ آپ کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے قادیان کی چمک دنیا کو دکھلا دی ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہی شہرۂ عالَم بنی ہوئی ہے۔
آج یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر بن چکی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام، مسیح موعود اور مہدی معہود کے ساتھ وابستہ ہو کر ہی اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہرایا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر ہی دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لایا جا سکتا ہے۔ پس اس کے لئے ہر احمدی کو اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو ان مخالفین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا اور اُسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جبتک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے۔ پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو۔ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام و نشان نہ رہتا۔ مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں۔ دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے۔ اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو۔ کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے‘‘؟۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ554)
اللہ تعالیٰ عامّۃ المسلمین کے سینے کھولے اور وہ فتنہ پرداز مولویوں کے پیچھے چلنے کی بجائے زمانے کے امام کی آواز کو سنیں اور آپ علیہ السلام کے ساتھ جڑ کر اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کرنے والا بنائے اور ہم دنیا کی اکثریت کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آیا ہوا دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔
بنگلہ دیش میں جو مسجد پر حملہ ہوا وہ بھی اسلام کے نام پر قائم ایک تنظیم نے کیا تھا۔ پولیس کے مطابق وہ خودکُش حملہ آور جتنے بم لے کر آیا تھا اگر وہ سارے پھٹ جاتے تو مسجد میں ایک شخص بھی نہ بچتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر کی کہ وہ شخص خود ہلاک ہو گیا اور تین آدمی معمولی زخمی ہوئے۔ اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس طرح Relax ہو کر ہر جگہ بیٹھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں فضل فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی مَیں جماعت کی انتظامیہ کو بھی دوبارہ توجہ دلاتا ہوں۔ پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ دنیا میں ہر جگہ حفاظت کا انتظام صحیح طرح کیا کریں اور لاپرواہی نہ برتا کریں۔ ہمارے پہلے احمدی بھائی جو روس میں شہید ہوئے ہیں ان کو بھی ایک دہشت گرد تنظیم نے شہید کیا ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بتا بھی چکا ہوں۔ بہرحال ہر احمدی کو بہت زیادہ دعاؤں پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے اور ہر جگہ کی انتظامیہ کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور جلسے میں شامل ہونے والے جتنے بھی ہیں وہ جلسے کے فیض سے صحیح فیض پانے والے ہوں اور خیریت سے اللہ تعالیٰ سب کو اپنے گھروں میں بھی لے کر جائے۔
اس کے بعد دعا ہو گی۔ ہم دعا کریں گے لیکن اس سے پہلے میں حاضری بتا دوں۔ اس وقت قادیان میں رجسٹریشن کا جو شعبہ ہے اس کے مطابق 19134افراد شامل ہوئے ہیں اور چوالیس(44) ممالک شامل ہیں۔ یہاں بھی اللہ کے فضل سے 5340 افراد اِس وقت بیٹھے لندن سے جلسہ سن رہے ہیں۔ اب دعا کر لیں۔
