خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے22اگست2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آجکل فی زمانہ کسی بھی معاشرے میں، ملک میں عورتوں کی تعداد کے لحاظ سے بڑی اہمیت ہے۔ یعنی اس جمہوری دور میں اگر کوئی اہمیت ہے تو اس لئے کہ دنیا داروں کی نظر میں عورتوں کی تعداد مَردوں سے زیادہ ہے ۔ دنیا کے سیاسی نظام میں ہم دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے ملکوں کے سیاستدان بھی اپنے انتخابات میں، انتخابی پروگراموں میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم عورتوں کے یہ حقوق قائم کریں گے اور وہ حقوق قائم کریں گے۔ پھر عورتوں کی توجہ کھینچنے کے لئے مختلف حیلے اور طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دنیا دار عورتیں سمجھتی ہیں کہ جو عورتوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں، جن کے وعدے ان سے ہو رہے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ اب ترقی یافتہ ممالک میں عورت کی مردوں کے ساتھ برابری کو تسلیم کر لیا ہے اور ہماری تعریفیں جو کسی بھی رنگ میں کی جا رہی ہیں حقیقی تعریفیں ہیں اور ہمارے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اس کو حقیقت اور فطرت کے معیار پر پرکھے تو پتا چلے گا کہ اس میں بھی مردوں کے یا سیاستدانوں کے اپنے مفادات کا پلڑا بھاری ہے۔ بیشک عورت نے پڑھ لکھ کر اور معاشرے میں اپنے حقوق کی آواز اٹھا کر، اپنے طرفدار پیدا کر کے جن میں ان کے حقوق کی تنظیمیں بھی شامل ہیں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی ان سے امتیازی سلوک ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ اس ترقی یافتہ معاشرے میں بھی سوائے کسی پیشہ ورانہ مہارت کے میدان کے عورت کو عام ملازمت کی صورت میں مردوں سے کم ہی معاوضہ ملتا ہے چاہے وہ کسی بہانے سے کم مل رہا ہو۔ گھروں میں خاوندوں کی سختیوں اور مار پیٹ کا بھی یہاں کی عورت نشانہ بن رہی ہے۔ کہنے کو تو یہاں محبت کی شادیاں ہوتی ہیں، پسند کی شادیاں ہوتی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اختلافات اور مردوں کی سختی اور مار دھاڑ کی وجہ سے ساٹھ سے پینسٹھ فیصد تک رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ شادیاں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں۔

                    پس عورت کی اہمیت آجکل کے حکومتی نظاموں میں مجبوری کی وجہ سے تو ہے لیکن اس کی حقیقی قدر کی وجہ سے نہیں۔ غرض کہ یہ اہمیت حقیقی قدر کے علاوہ بہت سی دوسری وجوہات کی وجہ سے ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی جو قدر اور مقام قائم فرمایا وہ اس کی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے یا اس کی کسی دنیاوی حیثیت یا حسن کی وجہ سے قائم نہیں فرمایا بلکہ یہ مقام اس کی ذمہ داریوں اور اس کی قربانیوں کی وجہ سے قائم فرمایا۔

                     ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے جب ایک عورت صرف اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی سوچ رکھتے ہوئے حاضر ہوکر بے دھڑک ہو کر کچھ سوال کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف برابر کا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ لیکن مردوں کو تو بے شمار ایسے مواقع ملتے ہیں جب ان کی بظاہر ہم پر فضیلت لگ رہی ہوتی ہے۔ وہ ہمارے سے بعض جگہوں پر بعض کام کر کے آگے نکل رہے ہوتے ہیں جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں جو مردوں پر فرض ہے عورتوں پر فرض نہیں۔ جمعہ اور دوسرے اجتماعات میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں یہ بھی مردوں کے لئے زیادہ فرض ہے ۔ نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ حج کے بعد حج کرتے چلے جاتے ہیں۔ عورتیں بھی حج کرتی ہیں لیکن مردوں کے حج کرنے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ سفر کی سہولتوں کی وجہ سے بھی یا دوسری وجوہات کی وجہ سے ان کو زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اس عورت نے سوال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی حج، عمرہ یا جہاد کے لئے جاتا ہے تو ہم عورتیں آپ کے اموال اور آپ کی اولاد کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کے کپڑے بنتی ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتی ہیں۔ پس کیا ہمارا یہ گھروں کی حفاظت کرنا، بچوں کی تربیت کرنا، ہمیں ان نیکیاں کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں جتنے ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ یہ سوال ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو یہ نہیں فرمایا کہ تُو کیا باتیں کر رہی ہے۔ گھروں کا خیال رکھنا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینا تجھے کس طرح جہاد جیسے عظیم کام کا ثواب دلوا سکتی ہے۔ بلکہ آپ نے اپنا چہرہ مبارک پاس بیٹھے ہوئے صحابہ کی طرف موڑا اور فرمایا کہ کیا اس سے زیادہ عمدہ طریق سے کوئی عورت اپنے مسئلے اور معاملے کو پیش کر سکتی ہے؟ صحابہ نے بھی آگے سے یہ نہیں کہا، یہ عرض نہیں کی کہ عورتوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہ اپنے گھریلو فرائض کی ادائیگیوں کو ہماری جہاد جیسی بڑی قربانی کے مقابل پر پیش کر رہی ہیں۔ اس لئے حضور ان پر سختی کریں اور سرزنش کریں اور ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنی عورتوں کے دماغ ٹھیک کریں۔ بلکہ صحابہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ اور تربیت یافتہ تھے بڑے کھلے دل سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ عرب کی مظلوم عورت جو اسلام سے پہلے ایک حقیر چیز سمجھی جاتی تھی اور وہ اس طرح مجلس میں آ کر بات کرنے اور جرأت سے بات کرنے پر سزا کی مستحق ٹھہرتی تھی آج اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے اس اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی ہے کہ اپنا معاملہ اس خوبصورتی سے پیش کر سکتی ہے۔ ہم تو کبھی یہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اُس وقت یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سمجھا ہو گا اور آپ سے فیض یافتہ صحابہ نے بھی سمجھا ہو گا کہ ان اعلیٰ معیار پر پہنچنے والی عورتوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی فکر کرنے والی عورتوں کی گودوں میں پلنے والی نسلیں یقینا محفوظ ہو گئی ہیں۔ اور عورتوں کا یہ سوال ان کے اس عمل اور خواہش اور کوشش کا اظہار کرتا ہے کہ مسلمانوں کی نسلیں محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور رہیں گی اور ان کی کوکھ سے وہ قوم تیار ہو رہی ہے جو کبھی اسلام کے جھنڈے کو نیچا نہیں ہونے دے گی۔ بہرحال اس کے بعد آپ اس سوال کرنے والی خاتون جو حضرت اسماءؓ  تھیں ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے عورت! اچھی طرح سمجھ لے اور جن کی تُو نمائندگی کرنے کے لئے آئی ہے ان کو بھی جا کر بتا دے کہ خاوند کے گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے والی اور اولاد کی تربیت کرنے والی عورت کو وہی ثواب ملے گا جو اس کے خاوند کو دوسری نیکیاں بجا لانے اور جہاد کرنے سے ملتا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد6 صفحہ19 ۔اسماء بنت یزید الاشھلبہ۔ دارالفکر بیروت 2003ء)

آجکل مسلمان جہاد جہاد کی باتیں کرتے ہیں اور غیر مسلم جو ہیں جہاد کا نام لے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیشک جہاد کے غلط تصور کی وجہ سے بعض مسلمان عورتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ ان ملکوں سے بھی کاموں کے لئے چلی جاتی ہیں۔ مسلمان ممالک میں نام نہاد جہاد کی تنظیموں میں شامل ہو رہی ہیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اولاد کی تعلیم و تربیت کرنے والی، خاوند کی جائداد کی حفاظت کرنے والی کو جہاد جتنا ثواب حاصل کرنے کی خوشخبری دی ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ جہاد جہاں جنگ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں ہمیں قرآن کریم اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ جب دین کو ختم کرنے کے لئے دشمن پہل کرے تو اس کا سختی سے جواب دو، نہ کہ ذاتی خواہشات کی تکمیل اور لوٹ مار کے لئے اور ظلم و بربریت کے اظہار کے لئے۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ مضمون ہے۔ اس وقت تو عورت کی اہمیت کی بات ہو رہی ہے جو اسلام نے قائم کی۔

پس یہ ہے وہ مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دلوایا کہ تمہیں کس طرح مردوں جتنا ثواب مل رہا ہے۔ ایک کم علم مسلمان عورت ترقی یافتہ ممالک کے معاشرے میں رہتے ہوئے، ان ملکوں میں رہتے ہوئے پریشان ہو جاتی ہے۔ یا تو جھینپ کر ایک کونے میں لگ کر بیٹھ جاتی ہے یا پھر آزادی کے نام پر اُن جیسا بننے کی کوشش کرتی ہے اور دین سے دُور ہٹتی ہے۔ نہیں جانتی کہ اسلام عورت کو کیا مقام دیتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرکہتے ہیں کہ عورت کی حقیقی اہمیت اور عزت کا جو مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دیا اس کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہو گیا تھا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرنے سے ڈرنے لگ گئے تھے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جو عورتوں کو بری لگے اور ہماری شکایت ہو جائے۔ اس   بے تکلفی کے دوران کوئی سخت بات کہہ کر کہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجرم بن کر پیش نہ ہو جائیں۔ (ماخوذ از صحیح البخاری۔ کتاب النکاح ۔باب الوصاۃ بالنساء ۔حدیث نمبر5187)

اب بتائیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں آزادی کے نام پر لاکھ قانون بنانے کے باوجود کیا مردوں میں کوئی خوف ہے؟ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ عورت اس معاشرے میں رہنے کے باوجود، اپنی آزادی کا نعرہ لگانے کے باوجود گھر میں خوفزدہ ہے۔ اس لئے کہ اگر کہیں ظاہری چوٹیں نظر نہ آئیں تو مرد ظلم کرنے کے باوجود قانون کو دھوکہ دے جاتا ہے۔ اور یہاں بھی گھروں میں، اس یورپین معاشرہ میں بھی، ان مقامی لوگوں میں بھی ماردھاڑ ہوتی ہے۔ یہ صرف ایشین کا ہی شیوہ نہیں ہے۔ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد جس طرح غیر ترقی یافتہ ممالک میں گھر بچانے کے لئے ظلم سہتی ہے، یہاں بھی سہتی ہے۔

مجھے یاد ہے غالباً فرانس میں ایک دفعہ ایک ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی والے خدام نے ہمارے لئے لفٹ کا دروازہ کھلا رکھنے کے لئے بیچ میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا شروع کیا۔ یہ ایک آدھ منٹ کا معاملہ ہو گا، زیادہ دیر تو نہیں کھڑا ہوا جا سکتا۔ اتنے میں ایک فیملی دو بچے اور میاں بیوی لفٹ میں داخل ہونے لگے تو خادم نے روکنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ میں نے خادم کو کہا کہ انہیں لفٹ میں جانے دو۔ یہ پہلے پہنچے ہیں ان کا حق ہے۔ اور میں نے خاتون کو اشارہ کیا کہ آپ لوگ چلے جائیں لیکن وہ زیادہ بااخلاق تھیں وہ رک گئیں اور خاوند کو بھی اشارہ کیا کہ ہم رک جاتے ہیں ان کو پہلے جانے دو۔ اس پر اس کے خاوند نے اس ظالمانہ طریق پر اسے جھڑکا ہے اور کافی دیر تک برا بھلا کہتا رہا کہ اس بیچاری کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن بولی نہیں۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ کسی یورپین ملک کا شخص ہے۔کسی بالکل جاہل طبقے کا شخص لگتا تھا اور اس عورت کا جو صبر اور شرمندگی تھی وہ بھی دیکھنے والی تھی اور جو اس کی برداشت تھی وہ بھی قابل قدر تھی۔ اس کا وہ جو برداشت اور صبر میں نے دیکھا ہے اس کا آپ میں سے بھی شاید بہت کم ایسی ہوں گی جو اظہار کر سکیں۔

پس ان کے ہاں آزادی عورت کے حقوق دینے میں نہیں بلکہ عورت کو ننگا کرنے میں ہے۔ لیکن ایک مومنہ عورت جو اپنے آپ کو لجنہ کی ممبر کہتی ہے جس نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے، جس نے اللہ تعالیٰ کی لونڈی بننے کا عہد کیا ہے اس عورت کی آزادی بشرطیکہ جس کا خاوند بھی مومن ہو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ باوجود اللہ کی لونڈی کہلانے کے اس کی آزادی کا مقام، معیار بہت بلند ہے جس کا یہ مغربی لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن شرط مومن ہونا ہے اور مومنہ ہونا ہے۔ صحابہ اپنی بیویوں سے غلط بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے تو صرف اس لئے کہ وہ ایمان میں بڑھنے والے تھے۔ علم تھا کہ ان کا غلط رویّہ جب اللہ تعالیٰ کے رسول کی ناراضگی کا موجب بنے گا تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا بھی باعث ہو گا۔

عورت کے حقوق کی اہمیت اور اس کی ادائیگی نہ کرنے پر اس زمانے میں ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اِدراک پیدا فرمایا ہے وہ حقیقی اسلام ہے۔ آپ علیہ السلام نے مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی اہمیت، بیویوں کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں اور جو ان کے تمہارے ذمہ ہیں ان کا پتا ہو اور ان کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں جو گناہ تمہیں ہونا ہے اس کا پتا ہو تو شاید تم ایک شادی بھی نہ کرو، کجا یہ کہ دو یا تین یا چار شادیوں کی باتیں کرو۔ بیشک خاص حالات میں اسلام میں زیادہ سے زیادہ چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے لیکن شرائط اتنی سخت ہیں اور ان کو پورا نہ کرنے کا گناہ مرد پر اتنا ہے کہ وہ شاید ایک شادی سے بھی بچے۔(مأخوذ از ملفوظات جلد7 صفحہ64-63۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

بہرحال عورت کا مقام اور اہمیت قائم ہونے کی بات ہو رہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی اس کو بلندیوں پر پہنچاتا ہے جب ایک شخص نے عرض کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پھر چوتھی دفعہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تیرا باپ اور پھر اس طرح قربت کے لحاظ سے باقی رشتہ دار۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب۔ باب بر الوالدین وانھما احق بہ۔ حدیث نمبر2548)

یہ اس لئے ہے کہ عورت اپنے بچے کی تربیت میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی پیدائش پر تکلیف اٹھاتی ہے۔ اس کو پالنے میں تکلیف اٹھاتی ہے۔ اس کو ہر تھوڑے وقفے کے بعد دودھ پلانا، اس کی صفائی کرنا یہ بہت بڑا کام ہے جو اس کی نیندیں خراب کرتے ہیں۔ غرض کہ اپنے آرام اور اپنی نیند کو وہ قربان کر رہی ہوتی ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے کہا اس کی اچھی تربیت کر کے اسے معاشرے کا ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلام میںماں بچوں کی جنت کی یونہی تو ضامن نہیں بنا دی گئی ۔ ماں کی اولاد کی تربیت، اسے نیکیوں پر چلانا، اسے ملک و قوم کا بہترین فرد بنانا، اسے عابد بنانا، اسے دین سکھانا، اسے جان مال وقت کو قربان کرنے کی اہمیت کا احساس دلانے والا بنانا اور پھر اس کے لئے ہمہ وقت اس کو تیار کرنا اور اس کا تیار رہنا یہ چیزیں ہیں جو اس بچے کو جنت میں لے جاتی ہیں۔ مجھ سے ایک جرنلسٹ نے پوچھا کہ اسلام میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟ لمبی بات تو نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ وہ بچے کو ایک تو بہترین تربیت کر کے، اسے معاشرے کا بہترین فرد بنا کر جنت میں لے جانے کا ذریعہ ہے جس سے دو جنّتیں حاصل ہوتی ہیں اس دنیا کی بھی اور مرنے کے بعد کی بھی۔ پھر ماں سے اس کی بچے کی خاطر قربانی کی وجہ سے جو حسن سلوک کا حکم ہے اگر بڑا ہو کر بچہ وہ حسن سلوک ماں سے نہیں کرتا تو ایسے بچے کی جنت میں جانے کی ضمانت نہیں ہے۔ اور پھر ایسی تربیت کرنے والی ماں جو بچے کا خیال رکھنے والی ہو، اس کی تربیت کرنے والی ہو، اس کو یہ احساس دلانے والی ہو اور ایسی خدمت کرنے والی ہو جو کبھی احسان نہ جتائے ایسی ماں پھر خود بھی جنت میں جاتی ہے۔ ماؤں کی خدمت بچے کے لئے کسی انعام یا احسان کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ایک قدرتی جذبہ ہے جس کے تحت وہ خدمت کر رہی ہوتی ہے۔ اور یہی چیز پھر ماؤں کو جنت میں لے جانے کا بھی باعث بنتی ہے۔ اب بتائیں کہ عورت کو اسلام میں کوئی اہمیت اور حیثیت ہے یا نہیں۔ وہ کہنے لگی کہ میں سمجھ گئی۔ اس جرنلسٹ کو سمجھ آ گئی۔

                     پس مائیں اس اہم نکتے کو سمجھیں۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے، پیسے کمانے کے لئے، صبح سے شام تک گھر سے باہر رہ کر کام کر کے اور شام کو تھک ہار کر گھر آ کر پھر بچوں پر توجہ نہ دے کر انہیں ہلاکت میں نہ ڈالیں بلکہ ان کی تربیت اور تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو تو اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ اپنی ظاہری دنیاوی خواہشات اور جذبات کے لئے اپنی اولاد پر عدم توجہ کر کے ان کو ہلاک نہ کرو۔ اس مغربی معاشرے میں اس بات کو سمجھنا اور بھی آسان ہے۔ جہاں رشتے ٹوٹتے ہیں اور بہت سے بچے سنگل پیئرنٹس(single parents) کی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے تحت رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلیم میں کمزور ہو جاتے ہیں۔ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے بری صحبت میں چلے جاتے ہیں۔ نشہ اور دوسری برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

                    پس میاں بیوی کو آپس کی رنجشوں کو بچوں کی پیدائش کے بعد بچوں کی خاطر قربانی کرتے ہوئے ختم کرنا چاہئے ورنہ بچوں کے بگڑنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ مردوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اپنی خواہشات کے پجاری نہ بنیں ۔ اپنی نسلوں کو برباد ہونے سے بچائیں اور دونوں میاں بیوی اپنے دلوں میں تقویٰ پیدا کریں۔ پھر کہنے والے کہہ دیتے ہیں، اعتراض کرنے والے اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام لڑکیوں کو اپنا رشتہ طے کرنے کی آزادی نہیں دیتا۔ اگر حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں تو یہ اسلام کی تعلیم کا معاملہ نہیں بلکہ بعض ملکوں اور قبائل اور برادریوں کی روایات کا معاملہ ہے۔ برصغیر پاکستان اور ہندوستان میں قطع نظر اس کے کہ کوئی مسلمان ہے یا ہندو ہے یا سکھ ہے یہ مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ اور پھر مذہب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ برادریوں کے لحاظ سے بھی ذات پات کے لحاظ سے ماں باپ اپنی بیٹیوں کو دوسری برادری اور ذات میں بیاہنے نہیں دیتے ۔ یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں۔ کوئی ذات، کوئی برادری کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ اسلام کہتا ہے کہ رشتوں کے وقت لڑکی کی مرضی کو اہمیت دو۔ بہت ساری لڑکیاں مجھے بعض دفعہ لکھتی بھی ہیں کہ ہمارے ماں باپ صرف اس لئے شادی نہیں کرتے کہ فلاں لڑکا بیشک احمدی ہے لیکن ہماری برادری کا نہیں ہے ہماری ذات کا نہیں ہے یا اس کی ذات کم ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں۔

ایک لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئی کہ میرا باپ میرا رشتہ فلاں مالدار شخص سے کر رہا ہے۔ اب یہ نہیں کہ کوئی معمولی آدمی تھا۔ بڑا صاحب حیثیت اور مالدار شخص تھا اس سے وہ رشتہ کر رہا ہے۔ اب عام طور پر ایک غیر دیندار لڑکی ہو تو وہ تو کہے بڑی اچھی بات ہے۔ اس کے مال سے میں فائدہ اٹھاؤں گی۔ لیکن وہ حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ فلاں مالدار شخص سے رشتہ کر رہا ہے لیکن میں اسے پسند نہیں کرتی۔ پس ایک تو مجھے وہ شخص پسند نہیں ہے۔ دوسرے میرا باپ جس معیار پر میری شادی اس سے کرنا چاہتا ہے وہ صرف اس کا مال ہے۔ گویا کہ وہ مجھے اس مالدار شخص کے ہاتھ میں بیچ رہا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا تُو آزاد ہے۔ کوئی تجھ پر جبر نہیں کر سکتا۔ تُو جو چاہے کر۔ اس بچی نے عرض کیا مَیں اپنے باپ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اس سے بھی میرا تعلق ہے۔ مَیں تو صرف آپ سے فیصلہ کروا کر ہمیشہ کے لئے عورت کا حق قائم کرنا چاہتی ہوں۔ اب حق قائم ہو گیا ہے اب خواہ مجھے تکلیف پہنچے۔ مَیں باپ کی خاطر اس قربانی کے لئے تیار ہوں۔ (سنن النسائی۔ کتاب النکاح۔ باب البکر یزوجھا ابوھا وھی کارھۃ۔ حدیث نمبر3269)

پس ان لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو بعض دفعہ بے جا سختی کرتے ہیں۔ ایک مومن عورت کو اور خاص طور پر احمدی عورت کو یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس زمانے میں حقیقی مومنہ وہی ہے جس نے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کی ہے۔ اس کا یہ عہد ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی۔ پس دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور رشتے کرتے ہوئے بھی سامنے رکھیں۔ اسی طرح احمدی لڑکوں سے مَیں یہ کہوں گا کہ وہ احمدی لڑکیوں سے رشتے کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ پسند کرنے کی جو چار وجوہات بتائی ہیں ان میں سے ایک دین ہے اور آپ نے فرمایا کہ تم نہ عورت کی خوبصورتی دیکھو نہ خاندان دیکھو نہ دولت دیکھو۔ جو چیز دیکھنے والی ہے وہ دین ہے وہ دیکھو۔(صحیح البخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الاکفاء فی الدین۔ حدیث نمبر5090)

پس دین دار لڑکیوں سے رشتہ کریں اور لڑکیوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دین دار بنیں اور خود اپنے نیک نصیب ہونے کے لئے بھی دعائیں کریں۔ جماعت میں احمدی بچیوں کے رشتوں کے بہت مسائل ہیں۔ بہت سی ایسی جگہیں پریشانی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ حل فرمائے اور ان کی پریشانیاں بھی دور فرمائے۔مَیں تو باقاعدگی سے ان کے لئے دعا کرتا ہوں اور ہر ایک کو کرنی بھی چاہئے۔

                     بہرحال جو بات مَیں کہہ رہا تھا وہ یہ کہ رشتوں کے بارے میں اسلام لڑکی کی رائے کو اوّلیت اور اہمیت دیتا ہے اور وہ ماں باپ جو اس پر عمل نہیں کرتے اور اپنی بچیوں پر ظلم کرتے ہیں وہ اسلام کو بھی بدنام کرتے ہیں۔سوائے اس کے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے رشتوں سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہو ،برادری اور پیسے کی وجہ سے رشتوں میں روکیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔ بعض بچیاں خط لکھتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ رشتہ اچھا ہے، احمدی ہے لیکن ماں باپ بعض دفعہ برادری اور خاندان کی وجہ سے یا اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے، تعلقات کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے باپوں کو بھی عقل دے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان فرمایا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے جنہوں نے ہر موقع پر ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ آپ نے واضح فرمایا کہ اسلام کے ہر حکم میں حکمت ہوتی ہے اور عورت کے بارے میں اگر بعض احکامات ہیں تو وہ عورت کی اہمیت اور اس کی عزت اور وقار قائم کرنے کے لئے ہیں اس لئے اسے خوش دلی سے تسلیم کرنا چاہئے۔

                     بعض جگہ لجنہ کی رپورٹس میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ آجکل پردے پر بہت زور دیا جاتا ہے اور لڑکیوں کی طرف سے، بعض نوجوانوں کی طرف سے یہ سوال اٹھتے ہیں کہ ہم پردہ پردہ سُن کے تنگ آ گئی ہیں۔ پردہ کیا ہے؟یہ حیا کا قائم کرنا ہے۔ اگر پردہ کر کے بے حیائی قائم رہتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور حیا جسم کو ڈھانپنے میں ہی ہے۔ عورت کی زینت اور خوبصورتی اس کا پردہ ہی ہے جس کا ہر احمدی عورت سے اظہار ہونا چاہئے اور یہ قرآنی حکم ہے اگر اس کا بار بار زور دے کر ذکر نہ کیا جائے تو کیا یہ کہا جائے کہ بے حیائی بے حیائی کے نعرے لگاؤ؟ مَیں یہ نہیں سمجھتا کہ کوئی احمدی، سچی احمدی عورت یا لڑکی یہ چاہتی ہو کہ اس طرح کے نعرے لگائے۔ پردے کا حکم بھی عورت کی عزت  کی حفاظت اور اس کی اہمیت کے پیش نظر ہے۔ اس بارے میں ایک دو اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

                    ’’یہ زمانہ ایک ایسا نازک زمانہ ہے کہ اگر کسی زمانہ میں پردہ کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانہ میں ضرور ہونی چاہئے تھی کیونکہ کل جُگ ہے۔‘‘ (اور زمین پر یہ آخری زمانہ ہے) ’’اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہریہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے احکام کی دلوں میں سے عظمت اٹھ گئی ہے۔ زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھر ے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں۔ ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بَنوں میں‘‘ (یعنی جنگلوں میں)’’ چھوڑ دیا جائے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ174)

                     پھر آپ فرماتے ہیں:

                    ’’قرآن مسلمان مَردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غَضِّ بَصر کریں۔‘‘ صرف عورتوں کو پردے کا نہیں کہتا مردوں کو بھی کہتا ہے۔ ’’جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے۔ یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔ افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔ اس تعلیم کا جو نتیجہ ہؤا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں۔ ان کو معلوم ہو گا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں۔‘‘ اور اب انٹرنیٹ نے مزید اس گند کو اچھال اچھال کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں سَتر کریں۔ وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدّنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے وہ بیشک جائیں۔ لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔‘‘ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ ’’مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں۔ اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔‘‘ عورتوں کو۔ ’’اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔‘‘اس کی بنیاد کو کاٹتا ہے۔(ملفوظات جلد1صفحہ449-448۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پھر آپ فرماتے ہیں:

                    ’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔‘‘ یہ اس زمانے میں آپ نے کہا جب یہاں بھی حیا کا کوئی تصور تھا۔ اور اب تو بہت ساری جگہوں پر بالکل اٹھ گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ ’’جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفّت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہ آزادی جو ملی ہے اس سے عورت کی عزت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو میں مان لیتا ہوں غلطی پر ہوں۔ ’’لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصّہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا‘‘۔(ملفوظات جلد7 صفحہ 134 ۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان) اگر یہ سب کچھ پابندیوں کے بعد بھی ہوتا ہے تو آزادی کے بعد تو بہت کچھ ہو گا۔

                     پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ یہ حکم بھی جو پردے کا ہے کہ عورت اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھے اس کی اہمیت کے پیش نظر ہے۔ عورت کی اہمیت کے لئے، عورت کی عزت و وقار قائم کرنے کے لئے ہے۔ کوئی حکم بھی ایسا نہیں کہ عورت کو مردوں سے کم تر اور مردوں سے نچلے درجے کا سمجھ کر اسے حکم دیا جا رہا ہو۔ گھروں میں عورت کی اہمیت ہے۔ بچوں کی تربیت کی وجہ سے عورت کی اہمیت ہے۔ اپنے رشتے طے کرنے کے وقت لڑکی کی رائے کی اہمیت ہے۔ پردے کا حکم ہے تو اس کی اہمیت ہے۔ پس اس کے بعد کسی قسم کی جھینپ یا احساس کمتری پیدا ہونے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو دین کو دنیا پرمقدم رکھنے کے عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

٭٭٭

                    [دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:]

                    ایک بات میں انتظامیہ کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خاتون یہاں مہمان آئی ہوئی ہیں جو احمدی نہیں ہیں۔ Greeceسے آئی ہوئی ہیں۔ انہیں مَیں نے کہا کوئی ایسی بات جو تم نے دیکھی ہو جو کمزوری نظر آتی ہو۔ کیونکہ ابھی جلسے کا ڈیڑھ دن باقی ہے اس لئے انتظامیہ کو بتا رہا ہوں تو کَل انہوں نے مجھے بتایا۔ وہ کہنے لگی کہ یہاں جو ڈسٹ بِن (dust bin) رکھے ہوئے ہیں۔ لِٹر بِن (litter bin) رکھے ہوئے ہیں وہ بھرے ہوئے ہیں اور ارد گرد گند پڑا تھا۔ کہتی ہیں ایک جگہ بازار میں کچھ گند باہرگرا ہوا تھا۔وہ بھرا تھا اور اب ڈال تو سکتی نہیں تھی لیکن مَیں نے اپنا کاغذ اسی گند میں پھینک دیا تو وہاں ایک خاتون، جو بھی تھیں ان کی دکان تھی یا انتظامیہ والی تھیں انہوں نے بڑی سختی سے بڑی rudely مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ جو بھی انتظامیہ ہے یا بازار والی ہیں ان کو اپنے نیک نمونے دکھانے چاہئیں، مہمانوں پر بُرا اثر نہ ڈالیں۔

                    دوسری بات یہ کہ ان کے پروگرام کے مطابق ابھی کچھ نظمیں دس پندرہ منٹ کے لئے پیش کی جائیں گی اور مجھے پتا ہے گرمی بہت ہے۔ ہر ایک پنکھے جھل رہی ہیں۔ میری اپنی بھی یہ حالت ہے کہ اچکن مَیں نے پہنی ہوئی ہے اور اس کے نیچے میری قمیص پسینے سے بالکل شرابور ہو گئی ہے۔ لیکن ان نظم تیار کرنے والوں کی خاطر دس منٹ اور اس گرمی کو برداشت کر لیں۔ چلیں جلدی سے(شروع کریں)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں