خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ یوکے21اگست2015ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس لئے بھیجا کہ تا اسلام کی بھولی ہوئی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں اور تقویٰ جو مومن کی بنیاد اور نشانی ہے اسے دوبارہ دلوں میں بٹھائیں اور ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے دلوں میں یہ راسخ کریں کہ تقویٰ کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور صرف علمی اور اعتقادی لحاظ سے ہی ایمان نہ ہو بلکہ عملی حالتیں بھی بہتر ہوں۔
چنانچہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ خدائے تعالیٰ نے اس زمانے کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا کہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملے سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ251)
پس آجکل ہم یہی دیکھتے ہیں کہ غیر مسلموں میں فلسفیت اور دہریت کا زور ہے تو مسلمانوں کی عملی حالتوں اور کمزوریوں نے دین کے نام پر نئی نئی بدعات پیدا کر دی ہیں اور دین کی تعلیم میں اتنا بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ دنیا اسلام کی خوبصورت تعلیم سے خوفزدہ ہے۔ جماعت احمدیہ جب اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا کو بتاتی ہے ان کے سامنے پیش کرتی ہے تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کیا یہ حقیقت میں اسلام کی تعلیم ہے؟ بعض جگہ تو میرے سامنے لوگوں نے برملا کہا کہ اگر یہی حقیقی اسلام ہے جو تم بتاتے ہو تو دنیا مذہب کی طرف دوبارہ لوٹے گی اور اس اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار بھی ہو گی جو تم پیش کرتے ہو۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ علمی اور ایمانی تبدیلی کے ساتھ تقویٰ پر قائم کرتے ہوئے عملی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے بھی آئے ہیں اور ہم جو آپ کو ماننے والے ہیں یا آپ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا ہو گا اور سمجھنا ہو گا کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے عملی اور اخلاقی معیاروں کو ہم نے کہاں تک پہنچانا ہے۔ اگر اس طرف ہم نے توجہ نہ دی تو آہستہ آہستہ ہم بھی اسی بہاؤ میں اور انہی گراوٹوں میں بہہ سکتے ہیں جس میں دنیا آج بہہ رہی ہے۔ انہی گراوٹوں میں گر سکتے ہیں جن میں دنیا آج گر رہی ہے۔
پس ہماری دینی مجالس اور جلسوں کے یہ انعقاد اس لئے ہوتے ہیں اور آج ہم یہاں اس لئے جمع ہیں کہ مختلف پروگراموں اور تقریروں سے اپنی عملی اور اخلاقی حالتوں کو درست کریں اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں تا کہ دنیا کی حقیقی رنگ میں رہنمائی کر سکیں۔ پس اس لحاظ سے مَیں اس وقت کچھ باتوں کا ذکر کروں گا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حکم فرمایا ہے۔ قرآنی احکامات بیان کرنے سے پہلے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کروں گا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصنِ حصین ہے۔ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں۔ا ور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں‘‘۔(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ342)
پس یہ بات ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے۔ ایک بنیادی اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ تقویٰ کا کس طرح پتا چلے؟ تو یاد رکھو تقویٰ بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتا ہے اور نیکی کرنے کی طرف تیزی سے دوڑنے کی توجہ دلاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اس کی رضا حاصل کرتے ہوئے نیکی کرنا اور بدی سے دُور ہونا تقویٰ ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے بیشمار جگہ پر قرآن کریم میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جن میں سے چند ایک باتیں اس وقت مَیں یہاں پیش کروں گا۔
ایک بہت بڑی برائی بدظنی ہے۔ اکثر اوقات کسی بات کو غلط رنگ میں سمجھنے یا واضح نہ ہونے کی وجہ سے بدظنی پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر بعض دفعہ انسان اپنی ہی غلط سوچ کی وجہ سے دوسرے کے بارے میں بدظنی پیدا کر لیتا ہے۔ پھر یہ بدظنی اس طرح بعض دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے کہ بڑی کوشش سے نکالنی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو تو نکلتی ہے اور بڑی دعاؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر انسان خود کوشش نہ کرے اور خدا تعالیٰ سے مدد نہ مانگے، تقویٰ کو سامنے نہ رکھے تو ناممکن ہے کہ بدظنی دلوں سے نکلے اور یہ بدظنی پھر گھروں کے سکون برباد کرنے کا بھی باعث بنتی ہے اور معاشرے کی بے سکونی کا بھی باعث بنتی ہے اور یوں بدظنی کرنے والا انسان ایک کے بعد دوسرے گناہ میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ بے شک ہم اعتقادی لحاظ سے جتنے مرضی مضبوط ہوں اگر عملی حالتوں میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہم مضبوط نہیں تو آہستہ آہستہ بالکل بے سکونی پیدا ہو جاتی ہے۔
عموماً ہم نے دیکھا ہے کہ ایک برائی کی ٹوہ میں رہ کر پھر انسان دوسرے کی برائیاں تلاش کرنی شروع کر دیتا ہے۔ پھر ان برائیوں کا ذکر بڑے پُر اسرار رنگ میں دوسروں سے کرتا ہے اور پھر یہ قدم بدظنی سے آگے بڑھتا ہے اور غیبت شروع ہو جاتی ہے۔ اور غیبت کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی مکروہ فعل قرار دیا ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ ۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم۔(الحجرات:13) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسّس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں بدظنی، تجسّس اور غیبت کو بڑے گناہ قرار دیا ہے۔ لیکن انسان سمجھتا نہیں۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بعض باتیں ایسی کر جاتے ہیں جن کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ یہ معمولی باتیں ہیں اور پھر ایسی پکی عادتیں پڑ جاتی ہیں کہ پھر ان عادتوں کے برے ہونے کا احساس بالکل ہی مٹ جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
’’ بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتا نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔ مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔… خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو، یہ سب بُرے کام ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد8صفحہ373-372۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر بدظنی کے بارے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ :
’’خوب یاد رکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بدظنّی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع فرمایا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ بدظنّی بہت ہی بُری بلا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے اور دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے۔ اور اگر کسی کی نسبت کوئی سُوئِ ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بچ جاوے جو اُس بدظنّی کے پیچھے آنے والا ہے۔ اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بہت خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1 صفحہ372-371۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہمیں اس بات کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم بیشک ایک بدظنی سے تو بچے ہوئے ہیں جو نام نہاد علماء نے عامّۃ المسلمین کے اندر پیدا کی ہوئی ہے یا ان کے اپنے دلوں میں ہے کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر یا بالا مقام دیتے ہیں۔ اوپر کا کیا سوال ہے، ہم تو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ کوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری پر نہیں پہنچ سکتا۔ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں، آپؐ کی اِتباع میں اللہ تعالیٰ اپنے کسی بھی عاجز بندے کو اپنا قرب عطا فرماتا ہے اور اسی غلامی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر بھیجا ہے۔ اور جو اعتراض سب سے بڑا ہے وہ یہی ہے کہ نبی مانتے ہیں۔ اُن کا درجہ آپؐ کے اُمّتی نبی ہونے کا ہے۔ آپؐ کی غلامی میں نبوت حاصل کرنے کا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض نے تو بڑی بیباکی سے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ تو دہریوں کا گروہ ہے۔ نمازیں نہیں پڑھتے۔ روزے نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ۔(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ 372-371۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)بہت سارے لوگ جو احمدی ہوتے ہیں اپنے واقعات لکھتے ہیں۔ ان میں کئی جگہ یہ ذکر ہوتا ہے کہ ہمیں ہمارے علماء نے یہ بتایا ہؤا تھا۔ عربوں میں سے بعض لوگوں نے اس کا اظہار کیا۔ اور یہ حقیقت ہے جیسا کہ میں نے کہا انہی غلط بیانیوں کی وجہ سے علماء نے مسلمانوں کے دل میں آج تک یہ بدظنیاں پیدا کی ہوئی ہیں کہ احمدی اپنے آپ کو نعوذ باللہ اسلام سے زیادہ بڑے کسی مذہب کو ماننے والا سمجھتے ہیں۔ اور جب لوگ ہماری مجالس میں آ کر اور ہماری باتیں سن کر اسلام کی خوبصورت تعلیم پر ہمیں کاربند دیکھتے ہیں تو اپنے نام نہاد اور فتنہ پرداز مولویوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ پس اس بدظنی سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی ہے۔ لیکن ذاتی بدظنیاں جو ایک دوسرے کے بارے میں رکھی جاتی ہیں ان میں ہم میں سے بہت سے مبتلا ہیں اور تقویٰ یہ ہے کہ ان سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ان سے بچنے کے لئے توبہ کرتے ہوئے جھکا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ عملی تبدیلی کرو تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت کا باعث بنائے گی اور معاشرے کو بھی حسین بنائے گی۔
پس یہ اصول ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ آپس میں صلح صفائی کو قائم رکھنے کے لئے، پیار اور محبت کو قائم کرنے کے لئے، آپس کے نیک جذبات اور پیار و محبت کو بڑھانے کے لئے ہمیشہ ایک دوسرے سے حسن ظن رکھیں بلکہ اس کو بڑھانے اور ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے بھرپور کوشش کریں کیونکہ عموماً بے چینیوں، لڑائیوں، رنجشوں اور اختلافات کے بڑھنے میں سب سے زیادہ کردار بدظنی کا ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی یا بہت معمولی سی بات ہوتی ہے اور بدظنی اس کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ معمولی رنجشیں دشمنیوں تک پہنچ جاتی ہیں ۔ پس ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس برائی کے خلاف دیوار بن کر کھڑے ہونا ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کی عیب جوئی سے بھی بچو۔ یہ مشہور حدیث ہم اکثر سنتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے عیب کو دیکھ کر جو دوسری جگہ اس کا ذکر کرتا ہے وہ غیبت کرتا ہے یا یہ ذکر کرنا غیبت ہے۔ اور اگر وہ بات، وہ برائی، وہ عیب اس شخص میں ہے ہی نہیں جس کا ذکر کیا جا رہا ہے تو پھر یہ سراسر بہتان ہے جو اور بھی بڑا گناہ ہے، جھوٹ ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البرّ والصلۃ والآداب۔ باب تحریم الغیبۃ ۔حدیث نمبر6593)
پس اس بہتان اور جھوٹ سے بھی بچو کیونکہ یہ شرک بھی ہے۔جھوٹ جو ہے وہ شرک کے برابر ہے۔ ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے اگر اس بنیادی چیز کا ہم خیال رکھنے والے بنیں گے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور معاشرے میں حقیقی بھائی چارہ بھی قائم کرنے والے ہوں گے اور یہی اللہ تعالیٰ مومنین کی جماعت سے چاہتا ہے کہ وہ آپس میں محبت اور پیار سے رہیں۔ بھائی بھائی بن کر رہیں۔ صلح جوئی اور امن سے رہیں۔ اور یہی تقویٰ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔(الحجرات:11)مومن تو بھائی بھائی ہی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔
پس یہ وہ معاشرہ ہے جو اسلام کی پہچان ہے جس میں صلح صفائی اور بھائی چارے پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں بلاوجہ کی رنجشوں کا پیدا ہونا، اختلافات کا پیدا ہونا، ایک دوسرے کے خلاف الزامات قابل نفرت چیزیں ہیں۔ اگر افراد میں یا گروہوں میں یا خاندانوں میں اور برادریوں میں یہ چیز پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مسلمان معاشرے کا فرض ہے کہ ان کو ختم کروائے اور ان میں صلح صفائی کو پیدا کروائے۔
پس یہ بات ہر احمدی کو یاد رکھنی چاہئے کہ اگر من حیث الجماعت حقیقی طاقت حاصل کرنی ہے، اگر جماعت کو ترقی کی منازل کی طرف لے جانا ہے اور اس کا حصہ بننا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقویٰ حاصل کرنا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ لینا ہے، اگر انفرادی طور پر بھی اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے تو آپس میں محبت اور پیار سے رہنے والے بھائیوں کی طرح رہنا ضروری ہے۔
آج جب ہم مسلمان دنیا کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کے انحطاط اور تنزل اور ذلت و ادبار اور بے چینی اور ایک دوسرے کی الزام تراشی کی یہی وجہ ہے کہ نہ ہی مسلمان لیڈروں کو اور نہ ہی علماء کو یہ خیال ہے کہ ہم بجائے پھوٹ ڈلوانے کے، بجائے تفرقے کو مزید ہوا دینے کے صلح اور صفائی کروانے کی کوشش کریں۔ ہم احمدی ان کی ان حرکتوں کو ناپسندیدگی اور کراہت کی نظر سے تو دیکھتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جو ذاتی طور پر بھی اور برادری اور معاشرے کی سطح پر بھی یہ رنجشیں لئے ہوئے ہیں۔ جماعتی نظام صلح صفائی کروانے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی بعض دفعہ بہت تکلیف دہ صورتحال سامنے آ جاتی ہے۔ پس ہم نے اگر ایک جماعت ہونے کا حقیقی فیض اٹھانا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنا ہے تو پھر ہر سطح پر ایک اکائی بننے کی ضرورت ہے اور یہی عملی خوبصورتی دوسروں کو بھی ہماری طرف متوجہ کرے گی۔ کسی کو اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف مومن آپس میں صلح صفائی سے رہیں بلکہ مومنین کو یہ توجہ اس لئے دلائی گئی ہے کہ اگر اپنے معاشرے کو خوبصورت بناؤ گے تو تبلیغ کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔
قرآن کریم میں بھی اور احادیث میں بھی عمومی طور پر تمام انسانوں سے حسن سلوک اور صلح صفائی سے رہنے کا حکم ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے ہر انسان جو امن سے رہنا چاہتا ہے محفوظ رہے۔(سنن النسائی۔ کتاب الایمان وشرائعہ ۔باب صفۃ المومن۔ حدیث نمبر 4995)پس اسلام کے امن اور صلح کے پیغام میں بڑی وسعت ہے۔ آپس کے تعلقات میں، مل جل کر رہنے میں اس تعلیم میں بڑی وسعت ہے لیکن پہلے مخاطب مسلمان ہیں۔ اگر خود ہمارے اپنے نمونے ہماری تعلیم کے مطابق نہیں تو ہم کسی کو کچھ کہنے کے بھی حق دار نہیں۔ پس آج اس جلسے کی برکت سے وہ لوگ جن کے درمیان رنجشیں ہیں آپس کے شکوے ختم کریں ۔جو شکوے بڑھ کر قطع کلامی تک پہنچے ہوئے ہیں اس کو ختم کریں، صلح صفائی کو قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے والے بنیں۔
پھر تقویٰ پر چلنے والوں، اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھنے والوں اور پھر کامیابیوں اور ترقیات کی خواہش رکھنے والوں اور ان کو پانے والوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سچائی پر قائم رہنے اور سچ بولنے کی تلقین فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۔ یُصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۔(الاحزاب:71۔72) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقینا اس نے ایک بڑی کامیابی کو پا لیا ہے۔
جھوٹ بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اسلام اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہے کہ ذرا سی بھی غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ کجا یہ کہ انسان جھوٹ بولے۔ بلکہ غلط بیانی نہ کرنے سے بھی بڑھ کر اسلام کہتا ہے کہ تم ایسی پیچ دار بات بھی نہ کرو جو کسی کو تمہارے بارے میں غلط رائے قائم کرنے والا بنا دے۔ پس جب اپنے معاملات لوگوں سے طے کرو تو سیدھے اور ہر طرح سے سچائی پر مبنی معاملات کرو۔ بہت سے جھگڑوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ جس سے معاملہ کیا جا رہا ہو وہ کچھ اور سمجھتا ہے اور جھگڑے کی صورت میں، جب بھی اگر کوئی جھگڑے کی صورت پیدا ہوتو معاملہ کرنے والا اپنی تشریح کسی اور رنگ میں کر رہا ہوتا ہے اور جب یہ معاملات عدالتوں میں چلے جائیں تو پھر وکیل اس پر مزید حاشیہ آرائی کر دیتے ہیں۔ ایسی پیچ دار بات بنا دیتے ہیں کہ اپیلوں اور مقدموں میں زندگی گزر جاتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ پیچ دار باتوں سے بچو۔ پھر نکاح کے خطبات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات رکھ کر لڑکے اور لڑکی اور ان کے خاندانوں کو بھی یہ توجہ دلائی ہے کہ یہ فریقین کا شادی کا دو بندھن جو قائم ہونے جا رہا ہے اس میں سچائی کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ یہی اعتماد کی بھی بنیاد ہے اور یہ تقویٰ کی بھی بنیاد ہے۔ اور پھر اس کے فوائد بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے کہ لغو اور پیچ دار باتوں سے جب تم بچو گے تو کیا فائدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ پس اگر تقویٰ نہیں تو پھر اعمال کی اصلاح بھی نہیں ہو گی، غلطیوں کی سزابھی ملے گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے۔ اور اگر نافرمانی ہو تو معاف کر دیتا ہے‘‘۔(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ424) اگر نافرمانی ہو جائے، غلطی ہو جائے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ نافرمانی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پھر انسان یہ کہتے ہوئے کہ میرے میں تقویٰ ہے بڑے گناہ کرتا پھرے۔ تقویٰ ہے تو گناہ تو ہو ہی نہیں سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھول چوک نہ ہو جائے۔ تقویٰ ہے تو پھر تو انسان گناہ کے قریب بھی نہیں جاتا۔نافرمانی یہ ہے کہ بشری کمزوری کی وجہ سے جو غلطیاں ہوتی ہیں خدا تعالیٰ انہیں معاف کر دیتا ہے۔ اگر دونوں فریق تقویٰ اور سچائی سے کام لے رہے ہوں تو ایک دوسرے کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے خود بھی صرف نظر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاںیہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تقویٰ پر چلنے کی صحیح رنگ میں رہنمائی اور قول سدید کی حقیقت ایک مومن پر اس وقت کھلتی ہے جب وہ قرآن کریم کو اپنا رہنما اور لائحہ عمل بنائے۔ پس اس کے لئے قرآن کریم پر غور اور اس پر عمل کی حتی المقدور کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے اور جب تک یہ نہ ہو گا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا فعل اور قانون جو فلاح کے بارے میں جاری ہونا ہے، جو اعمال کی درستگی کے بارے میں جاری ہونا ہے، جو گناہوں کی بخشش کے بارے میں جاری ہونا ہے وہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بشری کمزوریوں کو اس وقت ڈھانپتا ہے جب تقویٰ سے کام لیا جا رہا ہو اور قول سدید کا اظہار ہو رہا ہو۔ پس اس اہم بات کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ آیت کا جواگلا حصہ ہے اس کے الفاظ نے اس مضمون کو مزید کھول دیا ہے کہ کامیابیاں اسے ہی ملتی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اطاعت اس وقت ہو سکتی ہے جب احکام کا علم ہو۔ پس احکام کی تلاش بھی کرنی چاہئے۔ اگر رشتوں کے وقت اور اپنے گھریلو معاملات میں اور معاشرے کے معاملات میں انسان اس بات کو سمجھ کر اس کا اظہار شروع کر دے تو جہاں اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو درست کر رہا ہو گا وہاں ہمیں احکامات کے علم ہونے کی وجہ سے ہر موقع پر رہنمائی بھی مل رہی ہو گی۔ ہماری غلطیوں کی بخشش کے سامان بھی ہو رہے ہوں گے اور پھر اس کا وسیع اثر ہماری ذات یا دو فریقین سے نکل کر خاندان اور معاشرے پر بھی ہو رہا ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ متقی معاشرہ قائم کرنے کے لئے اور اگلی نسلوں میں بھی تقویٰ جاری رکھنے کے لئے ہمیں دعا سکھاتا ہے۔ فرمایا وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(الفرقان:75)کہ اے وہ لوگو جو یہ کہتے ہو کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
پس ایک متقی انسان کا اپنے آپ کو متقی بنا لینا کافی نہیں یا یہ دعویٰ کر دینا کافی نہیں کہ میں متقی ہوں یا خود تقویٰ پر چلنا ہی کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں متقیوں کا امام بنائے۔ امام سربراہ اور رہنما کو بھی کہتے ہیں اور قابل تقلید نمونے کو بھی کہتے ہیں۔ پس بیویوں کے لئے، اپنے زیر اثر لوگوں کے لئے، اپنے دوستوں کے لئے، اپنی اولاد کے لئے، متقیوں کے لئے ایک نمونہ بننے کی یہ دعا ہے۔ یہ بڑی وسیع دعا ہے اور یہ کہ ان سب سے ہمیںآنکھوں کا نور عطا ہو، سکون عطا ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ’’ وہ آنکھوں کا نور ہوں جو دل کے سرور کا نشان ہے اور دعا مانگتے ہیں کہ ہم سچے فرمانبرداروں کے لئے آئندہ کے لئے نمونہ ہوں‘‘ ۔(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ254) سچے فرمانبرداروں کے لئے نمونہ ہوں یعنی جو لوگ پہلے ہی فرمانبرداری اختیار کئے ہوئے ہیں تقویٰ پر چلنے والے ہیں ان کے لئے بھی نمونہ بننے والے ہوں۔ پس جب ہر ایک متقی دوسرے متقی کے لئے نمونہ بن رہا ہو گا تو جو معاشرہ، ایک خوبصورت معاشرہ پیدا ہو گا اس کا انسان تصور کر سکتا ہے کہ کتنا حسین ہو گا۔ پس اس دعا میں بڑی وسعت ہے اور یہ نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی دعا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ہر ایک یہ دعا مانگ رہا ہو اور اس دعا کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے یہ دعا مانگ رہا ہو تو کیسا خوبصورت معاشرہ قائم ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا انسان جب امام بننے کی دعا کرتا ہے تو اپنے علم و عمل میں بھی بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر فرد کی یہ کوشش جہاں اس شخص کی روحانی حالت کو بڑھا رہی ہو گی وہاں جماعتی ترقی کی نئی منزلیں بھی طے ہو رہی ہوں گی۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں زوال نہیں آ رہا ہو گا بلکہ ترقی ہو رہی ہو گی۔ آجکل کے معاشرے میں جہاں دنیا کے حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے انسان جب متقی بننے اور متقیوں کا امام بننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بھی ہو گا۔ ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم نے نہ صرف تقویٰ پر چلنے بلکہ تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے نمونہ بننے کی کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ اپنی اولاد کی تربیت کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اپنے نمونے قائم نہیں کر رہے تو پھر اس دعا سے ہم فیض نہیں پا سکتے۔
اللہ تعالیٰ پھر عَہدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہ بھی تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے ضروری ہے۔ اس بارے میں فرماتا ہے۔ بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقّٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔(آل عمران:77) ہاں کیوں نہیں جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی مقبول ہے جو اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہے۔ عہدوں کو پورا کرنا تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف عہدوں اور امانتوں کے حق ادا کرنے کی ہی ہمیں تلقین نہیں کی بلکہ فرمایا کہ یہ تقویٰ کے معیاروں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا ذریعہ ہے۔ پس بہت سے معاشرے کے مسائل اس لئے جنم لیتے ہیں کہ انسان اپنی باتوں اور اپنے عہد سے پھر جاتا ہے۔ ایک احمدی کو خاص طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اس لئے یہ دین کا تقاضا ہے کہ ہم ہر عہد جو کسی واضح قرآنی حکم کے خلاف نہیں ہے اسے پورا کرنے والا بنیں کیونکہ یہ ضروری ہے۔ تو جہاں ہم نے اپنے دینی عہد نبھانے ہیں وہاں دنیاوی معاملات کے عہد بھی نبھانے ہیں۔ عہدوں کو نبھانا بھی دین ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں عہدوں کی پابندی کی طرف توجہ دلائی تو یہ نہیں فرمایا کہ دینی عہدوں کو نبھانا ضروری ہے اور دنیاوی عہدوں کو، غیر قوموں کے ساتھ عہدوں کو نہ نبھاؤ۔ یہ بدعہدی کرنا دنیا داروں کا شیوہ تو ہے ایک مومن کا نہیں، تقویٰ پر چلنے والے کا نہیں۔ جیسا کہ آجکل بعض بڑی قوتیں غریب قوموں سے معاہدے کرتی ہیں اور وقت آنے پر بعض توجیہیں پیش کرنے لگ جاتی ہیں یا معاہدے میں کوئی ایسی پیچ دار بات رکھ لی جاتی ہے جس سے بعد میں اپنے مفادات حاصل ہو سکیں۔ قول سدید نہیں ہوتا۔ پس یہ ان لوگوں کا شیوہ تو ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو کہتا ہے کہ قول سدید بھی کرو کہ یہ تقویٰ ہے۔ اور عہد بھی پورے کرو کہ یہ تقویٰ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عہد کر کے پھر بدعہدی کرنا نفاق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔(صحیح البخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق۔ حدیث نمبر 33)اور انسان کو یہ منافق بناتی ہے۔ پس ہمیں بڑی باریکی میں جا کر اپنے ہر عہد کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
قرآن کریم نے ہمیں بہت سے احکامات دئیے ہیں۔ کچھ اوامر ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے کچھ نواہی ہیں جن سے بچنے کا حکم ہے۔ پس ان کی تلاش کی ضرورت ہے ایمان لانے کے بعد اس میں ترقی کی ضرورت ہے۔ شرائط بیعت میں ہم نے یہ بھی عہد کیا ہوا ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کروں گا۔(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3صفحہ564) پس اس کی تلاش کی ضرورت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس کی ہمیں تلاش کی ضرورت ہے اور یہ احکامات ہی ہمارے لائحہ عمل ہیں اور ہونے چاہئیں۔
پس کچھ باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ ان کے معیاروں کو بلند کرنے والے ہوں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے روزمرہ کے معاملات کو سنوار کر ادا کرنے والے ہوں۔ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اگر ہم صرف یہاں تقریریں سن کر اور نعرے لگا کر چلے گئے تو یہ جلسہ اور اس کا اتنا وسیع انتظام جیسا کہ جمعہ پر بھی میں نے کہا تھا بے فائدہ اور فضول ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ ان دنوں میں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں اور تمام حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں اور اس کے بارے میں سوچیں کہ یہ کس طرح بہترین رنگ میں ادا ہو سکتے ہیں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بھی بلند کرنے کی کوشش کریں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اور اپنی جماعت کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو۔ اور اس کے بندوں پررحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یاکسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبّر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیّت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اور مخلوق کی پرستش نہ کرو۔ اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ۔ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو‘‘۔(یعنی خدا تعالیٰ کے لئے) ’’اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے۔ چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی۔ اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں۔ بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے۔ تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے۔ کیا تم اس کو دھوکہ دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ ۔اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ۔ اگر ایک ذرہ تِیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی۔ اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریاہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا۔ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو۔ اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو اِن باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں‘‘۔(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ12-11)
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقویٰ عطا فرمائے اور ہم اس جماعت کا نمونہ پیش کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بنانا چاہتے تھے۔ جلسے کے ان دنوں میں ہم حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر شر سے بچائے اور یہ جلسہ بے شمار برکتوں کا حامل ہو۔
اب دعا کر لیں۔
