خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی07جون2015

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِالْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ(النحل:126)

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (حٰمٓ السجدۃ:34)

                    اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ تین چار سالوں میں جماعت احمدیہ کا تعارف جرمنی میں بہت زیادہ بڑھا ہے۔ تبلیغ یہاں پہلے بھی کی جاتی تھی۔ جماعت جرمنی پہلے بھی تبلیغ کے میدان میں کافی اچھی کارکردگی دکھاتی رہی ہے لیکن ہر طبقے تک جماعت احمدیہ کا تعارف جو گزشتہ چند سالوں میں ہؤا ہے اتنا وسیع تعارف پہلے نہ تھا۔ سیاستدانوں میں بھی، پڑھے لکھے طبقے میں بھی، عوام الناس میں بھی جماعت کو پہلے کی نسبت بہت زیادہ جانا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بعض طبقوں اور بعض اخباروں میں ہمارے خلاف مخالفانہ مہم بھی چلائی گئی اور جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے یا کی گئی۔ لیکن اس کا علاج بھی خدا تعالیٰ نے انہی لوگوں کے ذریعہ سے کر دیا۔ ان کے سیاستدان، ان کا پڑھا لکھا طبقہ، بلکہ ایسے بھی جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں جماعت کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ جرمن لوگوں کی شرافت بھی ہے۔ بلکہ بعض جگہوں پر اسلامی قانون و قواعد اور سکولوں کے سلیبس کے لئے جماعت کے مشوروں کو اہمیت بھی دی جاتی ہے اور ان باتوں کا اظہار جہاں ہم مساجد بناتے ہیں وہاں آنے والے مقامی سیاستدانوں اور مقامی لوگوں کے اظہار خیال میں بھی ہوتا ہے۔ اور یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جانے والی ہوا ہے۔ یہ جو جماعت کا تعارف بڑھا ہے اس کو بڑھانے میں ہمارے مخالفوں نے مزید کردار ادا کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ کسی کے یہ کہنے پر کہ ہمارا علاقہ بڑا پُرامن ہے وہاں کوئی مخالفت نہیں، فرمایا تھا کہ اصل پیغام تو وہیں پھیلتا ہے جہاں مخالفت ہو۔

                     پس یورپ کے ممالک میں مختلف ذریعوں سے جماعت کی مخالفت میں پہلا ملک جرمنی ہے۔ ایک طرف سب سے زیادہ مقامی لوگ اس ملک میں ہماری حمایت کرنے والے ہیں تو دوسری طرف مخالفت کرنے والا طبقہ بھی، چاہے وہ تھوڑا ہی ہو، سرگرم عمل ہے۔ پس اس لحاظ سے جرمنی کے لوگوں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اسلام کی حقیقت کو پہچاننے والی ان کی اکثریت ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔

                    پس ہم نے یہاں کوئی سیاسی مقاصد حاصل نہیں کرنے یا صرف اپنے مفاد کے لئے ان کو استعمال نہیں کرنا بلکہ ان کا شکریہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو اسلام کی خوبیوں کے بارے میں مستقل مزاجی سے بتاتے رہیں۔ بیشک دلوں کو کھولنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ حقیقی مذہب کے ہدایت کے راستوں پر چلانا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔ ہمیں بھی ان ہدایت کے راستوں کی طرف دنیا کی رہنمائی کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس ایک تو امن اور محبت کے لیفلیٹس(leaflets) کے ذریعہ آپ لوگوں نے بڑے وسیع پیمانے پر اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچائی ہے لیکن اب اس سے آگے دنیا کو یہ بھی بتانا ہے اور جرمنی بھی اس میں شامل ہے کہ تمہارا حقیقی نجات دہندہ جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجا ہے وہ حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آپ سے کئے گئے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا ہے اور اب اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے اس سے جڑنے کی کوشش کرو۔ پس جس طرح لاکھوں تک امن کے پیغام کے لیفلیٹس پہنچے اب اسی طرح لاکھوں اور کروڑوں تک اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے لیفلیٹس بھی پہنچنے چاہئیں۔ ہو سکتا ہے اس سے اس طبقے میں بعض ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو اس وقت ہمارے حق میں بولتے ہیں لیکن بعد میں خلاف ہونے لگ جائیں۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں کی اکثریت پڑھی لکھی ہے اور ہمارے اس پیغام کو بھی سمجھتی ہے کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔ ہم نے کسی سے لڑائی نہیں کرنی۔ ہم جس بات کو اچھا سمجھتے ہیں اس کو اپنے دوستوں تک پہنچانا ہمارا کام ہے اور جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک ذمہ داری ہے جو ہم پر ڈالی گئی ہے۔

                    یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں دعوت الی اللہ کی طرف خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اور پھر طریق بھی بتائے کہ کس طرح دعوت الی اللہ کرنی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ دعوت الی اللہ کرنے والوں کی اپنی حالت کیا ہونی چاہئے۔

                     اس پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقینا تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

                    اور دوسری آیت یہ ہے کہ اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

                    پس پہلی آیت میں فرمایا کہ تبلیغ حکمت سے کرو۔ حکمت کیا ہے؟  ہم عام معنی عقل و دانائی کے لیتے ہیں۔ سوچ سمجھ کے بات کرو۔ اس کے اَور بھی معنی ہیں جیسے علم۔ جس میں سائنس کا علم بھی ہے، دوسرے علم بھی ہیں۔ پھر انصاف اور برابری یہ بھی حکمت ہے۔ دوسروں کی غلطیوں کو دیکھ کر برداشت، حوصلہ اور ہمدردی دکھانا۔اپنی بات میں پختہ ہونا۔ جو بھی بات کریں اس پہ پختہ یقین ہونا چاہئے۔ موقع اور محل کے لحاظ سے سچائی کا اظہار کرنا ۔

                     پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں کو مختلف لوگوں کے طبائع کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے تبلیغ کرنی ہو گی۔ ہر ایک کو ایک ہی طریقے سے پیغام نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کوئی پڑھا لکھا ہے۔ کوئی اپنے مذہب کے معاملے میں سخت ہے۔ کوئی سائنس کی دلیل چاہتا ہے۔ کوئی جذباتی طریق سے متأثر ہوتا ہے۔ کوئی اخلاق دیکھ کر متاثر ہوتا ہے۔ غرض کہ مختلف طریقے ہیں۔ پس جو علم اور سائنس سے متأثر ہونے والا ہے اسے ہمیں دلائل اور علم کی رو سے قائل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ جذبات وہاں کام نہیں آئیں گے۔ پس اس کے لئے اپنے علم میں بھی اضافہ کرنا چاہئے۔

                     جب انصاف اور برابری کو سامنے رکھتے ہوئے تبلیغ کرنی ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ایسی باتیں نہ ہوں جن میں عدل نہ ہو اور ایسے اعتراض نہ ہوں جو مخالف موقع پا کر ہمیں لوٹائے۔ غیر مذہب والے ایسے ہی اعتراض اسلام پر کرتے رہے اور کرتے ہیں جو اُن پر بھی الٹ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسلمان آج جماعت احمدیہ پر ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایسے اعتراض کرتے ہیں جو اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو دوسرے انبیاء پر بھی پڑتے ہیں۔ تو بہر حال تبلیغ میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسی بات نہ ہو جو انصاف سے عاری ہو۔

                     پھر تبلیغ کے لئے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کی خوبصورتی، تحمل اور برداشت سے پیش کی جائے۔ ہم نے مسلمانوں کو بھی تبلیغ کرنی ہے اور غیر مسلموں کو بھی۔ اب یورپ کے ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان مختلف ملکوں سے آ کر آباد ہوئے ہوئے ہیں۔ مختلف فرقوں کے یہ لوگ ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف شدت پسند جذبات رکھتے ہیں بلکہ انہیں کافر تک کہتے ہیں۔ کفر کے فتوے ایک دوسرے کے خلاف دئیے جاتے ہیں۔ اور ان کفر کے فتووں کی وجوہات کیا ہیں؟ اس بات میں اس وقت مَیں نہیں جاتا۔ تو بہر حال یہ لوگ صرف ہمیں احمدیوں کو ہی کافر نہیںکہتے آپس میں بھی ان کی سرپھٹول ہوتی رہتی ہے۔ کل ہی یہاں عربوں کے ساتھ جب ملاقات تھی۔ چار پانچ سو تھے۔ ان میں سے کچھ غیر از جماعت بھی تھے۔ بلکہ بہت اکثریت غیر از جماعت کی تھی۔ میرا خیال ہے نصف تو ضرور ہوں گے۔ تو ان میں سے ایک نے کہا کہ فلاں فرقہ صحابہ کو کافر کہتا ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔ میں نے اسے یہی کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہی فرمایا ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والے پر اس کا کفر الٹ جاتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب ما ینھی من السباب و اللعن حدیث نمبر6045) لیکن بار بار ان کا زور تھا کہ نہیں، تم کیا کہتے ہو ۔ میں نے انہیں کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے بعد اور آپ کے فیصلے کے بعد مَیں کون ہوتا ہوں اور میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔

                     تو بہر حال تبلیغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکمت سے جواب ہو اور برداشت اور ہمدردی کا مظاہرہ ہو۔ برداشت بھی تب ہی پیدا ہوتی ہے جب ہمدردی ہو۔ اور حقیقی برداشت یہی ہے کہ میں نے کسی بڑی بات کے حصول کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت کرنا ہے۔ اور سب سے بڑی بات اس وقت خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جو رکھی جا سکے۔ اس کے مقابلے میں ہر بات چھوٹی ہے اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہمیں تو ان لوگوں سے بھی ہمدردی ہے جو نام نہاد علماء کے غلط نظریات کی وجہ سے، ان کے بہکاوے میں آکر کبار صحابہ پر الزام لگاتے ہیں یا ان کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں اور اس ہمدردی کی وجہ سے ہم نے انہیں صحیح راستہ دکھانا ہے۔ انہیں ان ناجائز باتوں سے عقل اور پیار اور محبت سے روکنا ہے۔ اور یہ کام صبر اور برداشت والا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا کہ ایک کلمہ گو کو کافر کہنے والے پر اس کے الفاظ الٹ جاتے ہیں تو یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ان کی گردنیں اڑا دو۔ ہرگز نہیں۔ ہم نے تو کافروں اور غیر مذاہب والوں کو بھی تبلیغ کرنی ہے اور انہیں اسلام کی خوبیوں سے آشنا کروانا ہے۔ پس ہمیں نہ اپنے طور پر کسی پر کفر کے فتوے لگانے کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس بات میں خوش ہیں کہ فلاں فرقے نے فلاں فرقے کو کافر کہا ہے۔ ایسے سوال کرنے والوں یا خیالات رکھنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دیا تو اس سے اسلام کی کیا خدمت ہو گی۔ اسلام کی خدمت تو یہ ہے کہ چاہے رافضی ہوں یا کوئی اور ہو، انہیں ان کے غلط نظریات سے دلائل سے قائل کر کے حقیقی مسلمان بنایا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے اور ہاتھ سے مسلمان بلکہ ہر انسان محفوظ رہے۔(سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی ان المسلم …حدیث نمبر2627) پس ہمارا کام ہے کہ اپنی زبان سے بھی اور اپنے ہاتھ سے بھی دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہمیشہ بچتے رہیں۔

                     پھر حکمت میں یہ بات بھی ہے کہ ہر بات موقع اور محل کے حساب سے کی جائے اور ایسی باتیں نہ کی جائیں جو دشمن کو برانگیختہ کر دیں، اسے غصہ دلا دیں اور بجائے اس کے کہ تبلیغ امن قائم کرنے کا ذریعہ ہو اس سے فساد پھیلے اور یوں مذہب پر اعتراض کرنے والوں کو خود ہم اس اعتراض کا موقع مہیا کر دیں کہ مذہب تو ہے ہی فتنہ و فساد پھیلانے والا۔

                    پھر یہ بھی ضروری ہے کہ تبلیغ حقائق اور سچائی پر مبنی ہو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم سچے دین کی طرف بلا رہے ہیں تو بیشک حقائق سے ہٹ کر بات کر دیں۔ یہ غلط چیز ہے۔ جب ہدایت دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے جیسا کہ اس نے فرمایا تو پھر اس سچائی کو بیان کریں جس کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ نہ ہو کہ دوسروں کو ہدایت دیتے دیتے خود جھوٹ کی برائی میں مبتلا ہو جائیں۔ بعض لوگ واقعات میں مبالغہ آمیزی کر جاتے ہیں۔

                     حضرت مصلح موعود نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دوست تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بیان کرنے اور آپ کے نشانات کے بارے میں بتانے میں بھی مبالغہ کر جاتے تھے۔ ایک دن وہ حضرت مصلح موعود کے ساتھ تھے تو ایک عرب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نشانات کو بیان کرتے ہوئے لیکھرام کے قتل کا واقعہ اس طرح بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی کہ فلاں دن، وقت لیکھرام قتل ہو جائے گا اور کوئی اسے بچا نہ سکے گا اور پھر اس دن اور خاص اسی معین وقت میں لیکھرام کو خاص حفاظت میں رکھا گیا۔ اس کے گھر کے گرد پولیس نے پہرہ لگا دیا۔ لوگ گھر کے باہر جمع ہو گئے کہ کوئی اندر نہ جا سکے۔ گھر کے اندر بھی اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک فرشتہ چھت پھاڑ کر آیا اور اس کے پیٹ میں چاقو گھونپ کے چلا گیا اور اسے قتل کر دیا اور کسی کو نظر نہیں آیا۔ تو وہ عرب اس بات کو سن کے اللہ اکبر اور سبحان اللہ ماشاء اللہ کہتا رہا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ تم جھوٹ اور مبالغے سے کام لے رہے ہو۔ اس کو حقیقت بتاؤ کہ پیشگوئی کے لئے گو دن مقرر تھا کہ عید کے دوسرے دن، لیکن چھ سال کا عرصہ تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اگلے مہینے یا اگلے سال یا فلاں دن، اور وہ پوری ہو گئی۔ ورنہ جس طرح معیّن کر کے تم بتا رہے ہو یہ غلط ہے۔ میں پھر اسے بتانے لگا ہوں کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ اصل بات، اصلیت یہ ہے۔ اس پر وہ دوست ہاتھ جوڑنے لگے کہ نہیں، اب میری بے عزتی نہ کروائیں ۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اگر اس وقت اس کی اصلاح نہ کی جاتی جو پھر شاید اس کے ذریعہ سے ہی کروا دی تو پھر آگے عرب نے جب بیان کرنا تھا تو اس نے اس میں مزید مبالغہ کرنا تھا اور کہنا تھا کہ ایسا معجزہ ہؤا، صداقت کا ایسا نشان ظاہر ہؤا کہ زمین پھٹی اور اس میں سے فرشتے نکل آئے اور دیواریں پھٹیں اور اس میں سے فرشتے آ گئے اور اس کو قتل کر کے چلے گئے اور پھر آگے جو کہانی بننی تھی پھر پتا نہیں کیا بننی تھی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد12صفحہ 450-451)اسی طرح مذہب کے بارے میں غلط باتیں پھیلتی ہیں اور بعض نام نہاد بزرگوں کے بارے میں کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ تو یہ خلاصۃً میں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ بہر حال کسی کو قائل کرنے کے لئے بھی واقعاتی سچائی کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے۔

                     پھر حکمت کا مطلب نبوت کا بھی ہے۔ یعنی تبلیغ اس ذریعہ سے کرو جو نبوت کا ذریعہ ہے اور مسلمانوں کے لئے، ایک مسلمان کے لئے، ہمارے لئے یہ ذریعہ قرآن کریم ہے۔ پس قرآنی دلائل سے دنیا کے دلوں کو فتح کرنے کی کوشش ہونی چاہئے نہ کہ اپنی پسند کے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآنی دلائل سے کوشش کریں گے تو پھر ان میں وزن بھی ہو گا۔ اگر اپنی بات کو مضبوط کرنے کی نیت سے غیر ضروری ڈھکونسلوں سے اور اپنے دلائل سے کام لیا جائے تو اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔

                    پس یہی ایک ہتھیار ہے جس کے استعمال سے ہماری فتح ہے کہ ہم قرآن کریم کو ہمیشہ ہاتھ میں رکھیں اور جس کے استعمال سے ہم ہر ایک کا منہ بند کر سکتے ہیں اور جہاد کے لئے بھی یہی ہتھیار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے استعمال کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ حضرت مصلح موعود نے بھی اس پر لکھا ہے کہ کاش کہ آج کے مسلمان یہ سمجھ سکیں۔ اور آجکل اس زمانے میں جو ہم مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہیں تو اور زیادہ شدت پسند ہو چکے ہیں اس بات کو سمجھیں اور تلوار سے دنیا فتح کرنے کی باتیں کرنے کی بجائے، بندوق کے زور پر شریعت نافذ کرنے کی بجائے دلوں کو اس خوبصورت تعلیم سے جیتنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس بارے میں ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور یہ پردے اس وقت اٹھیں گے جب زمانے کے امام کو مانیں گے۔ پس آج یہ ہمارا کام ہے کہ اس ہتھیار سے دنیا کو گھائل کرتے چلے جائیں۔ ان کے دل جیتتے چلے جائیں۔ مختلف مواقع پر اور یہاں کل جرمن اور غیر مسلم مہمانوں کے ساتھ جو سیشن تھا اس میں بھی مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے جو جہاد اور امن کے بارے میں اسلامی تعلیم ہے وہ پیش کی تھی۔ اس پر بعض مہمانوں نے اپنے تأثرات بھی دئیے کہ یہ باتیں سن کر اسلام کے بارے میں ہمارے خیالات بالکل بدل گئے ہیں اور اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اکثر مہمانوں نے یہ تأثرات دئیے ہیں۔اور  تأثرات دیتے ہیں کہ ہم جماعت کو جانتے ہیں اور اس وجہ سے جن احمدیوں سے ہمارا واسطہ ہے انہوں نے ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم بتائی ہے۔ پس یہ تعلیم بتانا ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے اور یہ تعلیم وہی ہے جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے۔

                     اور پھر تبلیغ کے لئے حکمت کے لفظ میں یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ ایسے طریق سے بات کی جائے جو دوسرا سمجھ سکے۔ ایک کم پڑھے لکھے انسان کے سامنے اگر اپنی علمیت بگھاری جائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ایسی بات ہو جو دوسرے کی غلط فہمی کو دور کرے اور جہالت کو ختم کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ لوگوں سے ان کے فہم اور ادراک کے مطابق بات کیا کرو۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری از امام بدرالدین عینیؒ جزء 3صفحہ 407کتاب الحیض باب ترک الحیض الصوم شرح حدیث نمبر304مطبوعہ بیروت 2003ء) پس یہ بہت اہم بات ہے۔

                    پھر فرمایا کہ تبلیغ کے لئے موعظۃ الحسنۃ کو بھی سامنے رکھو۔ یعنی ایسی بات جو دلوں کو نرم کرنے والی ہو اور سننے والے کے دل پر گہرا اثر ڈالنے والی بات ہو۔ قرآن کریم ہمیں صرف خشک باتیں پیش کرنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ ایسا طریق ہو جو منطقی ہونے کے ساتھ ساتھ جذبات کو ابھارنے والا بھی ہو اور واقعاتی بھی ہو۔ لیکن پھر وہی بات کہ جذبات ابھارنے کے لئے مبالغہ نہ ہو بلکہ سچائی سے کام لیا جائے۔ اسلام تو ہے ہی سچائی کا نام۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم سچائی سے ہٹ کر کوئی اَور بات کریں۔ اور ایسی دلیل ہو جو بنیادی ہو اور اس کے گرد ہی تمام دلائل گھومتے رہیں، یہ بھی بڑا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو مسیح موعود کی آمد کی بات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کی جائے۔ کسی کو زبردستی اپنے اندر لایا نہیں جا سکتا۔ ہمارا کام تبلیغ کرنا ہے اور ہدایت دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کون ہدایت پائے گا۔ اس لئے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے ہم نے وہ کرنا ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ حٰمٓ السجدۃ  میں بیان فرمایا ہے جو میں نے ترجمہ پہلے پڑھ بھی دیا ہے کہ اور بات کہنے میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ مَیں یقینا کامل فرمانبرداروںمیں سے ہوں۔

                    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے کاموں میں سے بہترین کام اور تمہاری باتوں میں سے بہترین بات یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سچائی، حکمت اور موعظۃ حسنۃ کے ذریعہ سے دنیا تک پہنچاؤ کیونکہ خدا تعالیٰ کو یہی بات سب سے زیادہ پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے تم بھی خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہی ہے کہ انسان شیطان کے پنجے سے نکل کر صحیح عابد اور خدا پرست بن جائے اور اس کا فائدہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ انسان کو ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے مجھے کیا فرق پڑتا ہے اگر تم میری عبادت کرتے ہو یا نہیں کرتے۔ گو شیطان کو بھی خدا تعالیٰ نے کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ بندوں کو ورغلانے اور خدا تعالیٰ سے دور کرنے میں بیشک جو کوشش کرنی ہے کرتے رہو۔ لیکن انبیاء کے ذریعے سے ہماری رہنمائی کے بھی سامان فرما دئیے۔ اور پھر انبیاء کے ماننے والوں کو بھی حکم دیا کہ انبیاء کے کام کو تم آگے بڑھاؤ اور دعوت الی اللہ کے کام کو بھی کبھی ختم نہ ہونے دو ۔

                    پس اس زمانے میں جہاں شیطان یا شیطانی طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ دنیا کو شیطان کی جھولی میں گرانا چاہتی ہیں وہاں دوسری طرف خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ دنیا کی ہدایت کی طرف رہنمائی کرو۔ اور جیسا کہ میں نے جمعہ کے خطبے میں بھی کہا تھا کہ اس بگڑے ہوئے وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کے لئے بھیجا تھا۔(ماخوذ از تذکرہ صفحہ ایڈیشن چہارم بحوالہ چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد20صفحہ 375حاشیہ) اور اب ہم میں سے ہر ایک نے اس نئی زمین اور نئے آسمان کو بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اور جہاں اپنے دلوں کی زمین ہموار کر کے اللہ تعالیٰ کی یاد کو آباد کرنا ہے وہاں دنیا کو نئی زمین اور نئے آسمان بنانے کے طریقے بھی سکھانے ہیں۔ بہر حال دنیا میں یہ دو گروہ ہیں۔ ایک شیطان کے بہکاوے میں آنے والا اور دوسرے خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے۔ اور آج رُوئے زمین پر جماعت احمدیہ ہی وہ حقیقی جماعت ہے جو دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کا حقیقی کردار ادا کر رہی ہے یا کر سکتی ہے اور ہمیں اس جماعت میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ اور اس احسان کا شکر ادا کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ کوشش کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کے فریضے کو ادا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر آگے آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کے باریک در باریک نکات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام تر دلائل کے ساتھ کھول کر بیان فرمایا اور ایک ایسا خزانہ ہمیں عطا فرمایا ہے جو نہ ختم ہونے والا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ جو چیز تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اپنے بھائی کے لئے بھی کرو۔(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحیب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث نمبر13) ہمارا فرض ہے کہ یہ خزانہ جو قرآن کریم کی تعلیم کے علم و معرفت سے بھرا ہؤا ہے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں اور غیر مسلموں تک بھی پہنچائیں اور شیطان کے چنگل سے نکال کر انہیں خدا تعالیٰ کا حقیقی عبد بنائیں۔ انہیں نام نہاد علماء کے پنجے سے چھڑائیں جو انہیں اب اس زمانے کے امام سے دور کر رہے ہیں اور اس کے لئے یہ لوگ اپنی تمام تر طاقتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔

                     اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سالوں کی نسبت یہاں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں بھی یہ رَو چلی ہے کہ تعارف بڑھے ہیں اور لوگ احمدیت کے قریب ہو رہے ہیں۔ وسیع پیمانے پر احمدیت کو جانا جاتا ہے اور ملکوں کے بڑے بڑے شہروں میں احمدیت کو اب لوگ جاننے لگ گئے ہیں۔ اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم سب شامل ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہمیں بھی اپنی حالتوں کو عملی نمونہ بنانے کے ساتھ ان کے دلوں کو پھیرنے کے لئے دعا کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہماری حالتوں کی بہتری بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم حق نہیں ادا کر سکتے۔ پس اس طرف بھی توجہ کی بہت ضرورت ہے۔

                     آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت کے افراد کے ذریعہ کسی کی ہدایت پانے پر کس قدر خوشی ہوتی تھی،آپ کے کیا جذبات اور احساسات ہوتے تھے، اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ  کو مخاطب کر کے فرمایا کہ خدا کی قسم! تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا تیرے لئے اعلیٰ درجے کے سرخ اونٹوں کے ملنے سے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام …حدیث نمبر 2942)

                     پس یہ سرخ اونٹ دنیا کی بہترین چیز کی مثال کے طور پر ہیں۔ اس زمانے میں سرخ اونٹ بہت بڑی قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی اور اسی لئے اس مثال کو سامنے رکھا گیا۔ پس فرمایا کہ تمہارے ذریعہ سے کسی کا ہدایت پا جانا تمہیں اتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے کہ دنیاوی انعاموں میں سے بہترین انعام کی بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دلی جذبات کا نقشہ کس طرح کھینچا ہے، لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے درد کا اظہار کس طرح فرمایا ہے، فرماتے ہیں کہ

                    ’’ ہمارے اختیار میں ہو تو ہم گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہؤا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جائیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 291تا292۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پس اس درد کو سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ آپ میں سے یہاں اکثر تو اب جرمن زبان سمجھتے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک میںاللہ تعالیٰ کے فضل سے مقامی زبانیں احمدی سمجھتے ہیں۔ جو مختلف قومیں یہاں اس ملک میں بھی آباد ہیں وہ بھی جرمن زبان سمجھ لیتی ہیں۔ پھر لٹریچر بھی میسر ہے۔ پھر کیسٹس بھی مہیا ہیں۔ پھر مختلف زبانوں کے ہمارے پاس علماء بھی ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایم ٹی اے کا ذریعہ ہے اس سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی تبلیغ میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ سیکرٹری صاحب تبلیغ کی رپورٹس مجھے باقاعدہ ملتی ہیں۔ ماشاء اللہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن افراد جماعت کو زیادہ سے زیادہ اس کام میں شامل ہونے کی ضرورت ہے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں تلوار کے جہاد کے لئے نہیں بلایا جا رہا۔ ہم ان لوگوں کو غلط سمجھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آج بھی تلوار کے جہاد کی ضرورت ہے۔ آج مخالفین مذہب ہمیں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اَور حیلوں اور طریقوں سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں لالچوں سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہب کے خلاف کوئی تلوار نہیں اٹھا رہا۔ آج اسلام سے دُور لے جانے اور اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے دوسرے مختلف حیلے استعمال کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی حکمت اور موعظۃ حسنہ کے ذریعہ سے اپنے مخالفین کے منہ بند کرنے ہوں گے اور اس کے لئے جتنے کارگر ہتھیار ہمارے پاس ہیں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کے پاس نہیں ہیں جن سے دنیا داروں کے اور نام نہاد مذہبی لوگوں کے منہ بھی بند کئے جا سکتے ہیں۔

                    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دلائل اور براہین میں ایک خاص مقام دیا گیا ہے اور جب دلائل ہوں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ غصّے میں وہ لوگ آتے ہیں یا پریشان ہوتے ہیں جو دلیل کا سامنا نہ کر سکیں۔ ہماری پاکستان میں کیوں مخالفت ہو رہی ہے؟ کیوں مولوی عوام الناس کو ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے؟ کیوں غیر از جماعت علماء ہمارے علماء سے پبلک کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے ہیں؟ کیوں ہمیں گالیاں نکالتے ہیں جبکہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ حکمت اور موعظۃ حسنۃ سے بات کرو۔ اسی لئے کہ ان کے پاس قرآنی تعلیم کے مطابق دلیل نہیں ہے۔ لیکن بہت سے لوگ ہیں جو دلیل سے قائل ہوتے ہیں وہ مولویوں کی ان سختیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔

                     حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمیں تبلیغ کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کم فہم لوگ دین کا علم بھی نہیں رکھتے اس لئے انہیں سمجھانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ ان کو سمجھانے کے لئے بات بہت صاف اور عام فہم کرنی چاہئے۔ امراء تو تکبر کی وجہ سے دین کی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور کبھی ان سے بات کا موقع ملے تو مختصر اور پورا مطلب ادا کرنے والی بات ہو۔ ہاں زیادہ تر اوسط درجے کے لوگ ہیں جو بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کی طبیعت میں تعلّی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا مشکل نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے اور اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 218-219۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پھر تبلیغ کے لئے ایک نسخہ یہ ہے جو آپ نے فرمایا کہ

                    ’’ اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ مَنْ یَّتَقِ وَ یَصْبِرْ(یوسف:91) کے مصداق ہوں۔ ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو۔ پاکدامن ہوں۔ فسق و فجور سے بچنے والے ہوں۔ معاصی سے دُور رہنے والے ہوں۔ لیکن ساتھ ہی مشکلات پر صبر کرنے والے ہوں۔ لوگوں کی دشنام دہی پر جوش میں نہ آئیں‘‘۔ فرمایا: ’’دشمن جب گفتگو میں مقابلہ کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ ایسے جوش دلانے والے کلمات بولے جس سے فریق مخالف صبر سے باہر ہو کر اس کے ساتھ آمادہ بجنگ ہو جائے‘‘۔ (ملفوظات جلد9صفحہ 427۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                    حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ تمہاری نیکی کی یہ خصوصیات ہونی چاہئیں ۔

                     پھر یہ ہے کہ تھکنا نہیں۔ دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے۔ سال کا ایک رابطہ کافی نہیں ہے بلکہ سارا سال توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اگر ذاتی تعلقات وسیع کئے جائیں تو پھر ہی سارا سال توجہ رہ سکتی ہے۔ اور یہ تعلق ہی پھر نتیجہ خیز بھی ثابت ہوتا ہے۔ جتنی بھی بیعتیں یہاں بھی ہو رہی ہیں اکثریت ان کی ہے جن کے ساتھ ذاتی رابطے اور ذاتی تعلقات قائم ہوئے ہوئے ہیں اور ایک عرصے تک قائم رہے اور اس کے نتیجے میں بیعتیں ہوئیں۔ پس جب درد ہو تو پھر اس طرح بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ یہ ذاتی تعلقات قائم کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے احمدی ہیں جو خود بیعت کرکے احمدی ہوئے اور جب احمدیت قبول کی تو پھر اپنے قریبیوں اور دوستوں کو بھی حق کی طرف بلانے کے لئے ان میں ایک درد پیدا ہوا اور پھر انہوں نے ان کے لئے دعائیں بھی کیں اور کوششیں بھی کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو پھل بھی لگا دئیے۔

                    شام کے ایک دوست اپنی تبلیغ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرا ایک ایسا دوست تھا جس کا دینی علم تو اتنا زیادہ نہ تھا پھر بھی وہ دینی اعتبار سے کسی حد تک متشدد تھا۔ مَیں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے کوئی ایسا طریق تبلیغ سمجھا دے جس سے یہ دوست قریب آ جائے اور سنتے ہی متنفر ہو کر دُور نہ بھاگ جائے۔ مجھے یقین تھا کہ اگر اس نے میری بات غور سے سن لی اور کچھ غور و فکر کیا تو ضرور احمدیت کے دلائل کا اس پر اثر ہو جائے گا۔ کہتے ہیں ایک دن یوں ہؤا کہ ہم دونوں مسلمانوں کی موجودہ حالت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ کیسے تمام قومیں ان مسلمانوں پر ٹوٹی پڑتی ہیں اور مسلمان کس طرح حقیقی اسلام کی روح سے دُور جا پڑے ہیں۔ انہی باتوں کے دوران اس نے اچانک مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہ ہوتے تو مَیں ضرور کہتا کہ یہ زمانہ ایک نبی کے ظہور کا زمانہ ہے جس میں لوگوں کی اصلاح اور رجوع الی اللہ اور ان کی تعلیم و تزکیہ ایک نبی کے وجود کے سوا ممکن نہیں ہے۔ لیکن خاتم النبیین کے بعد ایسا ہونا محال ہے۔ اس کی یہ بات سن کر مَیں سمجھ گیا کہ اس کے ذہن میں خاتم النبیین کا غلط مفہوم اَٹکا ہوا ہے جس کی تصحیح کے بعد اس کے لئے قبولِ احمدیت کا راستہ آسان ہو جائے گا۔ یوں مجھے اس کے ساتھ بات شروع کرنے کا ایک اچھا موقع میسر آ گیا۔ موضوع مل گیا۔ چنانچہ مَیں نے اسے کہا کہ یہ بات جو آپ نے کہی ہے یہ فطرت صحیحہ کی آواز ہے۔ یقینا اس زمانے میں نبی کی ضرورت ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم اُمّت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں اور جہالت کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے اور کوئی دعا نہ سنے اور کسی کو اس کی ہدایت یابی کے لئے نہ بھیجے۔ ہرگز نہیں۔ چنانچہ میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں۔ انہوں نے اپنے دوست کو کہا کہ مَیں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ارسال فرما دیا ہے جس کا ہر سلیم الفطرت انتظار کر رہا ہے۔ اس رحیم و کریم خدا نے امام مہدی علیہ السلام کو بھیج دیا ہے تا کہ اس امّت کو پستیوں سے نکال کر خدا تعالیٰ کی رضا کے بلند درجات تک پہنچا دے۔ اس پر میرے دوست نے کہا ہمیں تو یہی مولویوں نے پڑھایا ہے کہ امام مہدی تو نبی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مسلمانوں کے مولویوں میں سے ایک مولوی ہو گا اور روایت میں تو آتا ہے کہ اسے تو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ وہ امام مہدی ہیں بلکہ لوگ اسے کہیں گے کہ آپ امام مہدی ہے اور اس کے نہ چاہتے ہوئے اس کی بیعت کر لیں گے۔کہتے ہیں اس بات کے جواب میں ہمارے درمیان گفتگو کا ایک لمبا سلسلہ چلتا رہا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے اعلیٰ و ارفع مفہوم کی وضاحت کے ساتھ امام مہدی کی نبوت کے موضوع پر بھی بڑی سیر حاصل بحث ہوئی جس کے آخر پر میرے اس دوست نے اطمینان حاصل ہونے کے بعد بفضلہ تعالیٰ بیعت کر لی۔

                    تو یہ نتیجہ صبر، مستقل مزاجی، حکمت کے ذریعہ سے ہی نکلتا ہے اور ایسے نتیجے بے شمار نکل رہے ہیں جب لوگ تبلیغ کرتے ہیں۔ ایسی بیشمار مثالیں جماعت میں ملتی ہیں کہ جب کسی نے ایک درد کے ساتھ دعوت الی اللہ کی کوشش کی تو اسے پھل بھی مل گئے۔

                     پھر صبر، دعا اور برداشت کی ایک اور مثال بھی پیش کر دیتا ہوں۔

                     ایک عرب ہے۔ اب ایک افریقہ ہے وہ بھی مغربی افریقہ جہاں عیسائیت بہت زیادہ ہے۔لائبیریا سے ہمارے مبلغ نے لکھا۔ کہتے ہیں ہم تبلیغی ٹیم کے ساتھ ایک گاؤں مدینہ گئے۔ پروگرام کے مطابق سب لوگ اکٹھے ہوئے۔ پہلے جماعت کا پیغام دیا پھر بڑے اچھے ماحول میں سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ لگتا تھا کہ ہر ایک مطمئن تھا کہ اچانک دو نیم تعلیم یافتہ آدمی جو اپنے آپ کو مولوی سمجھتے ہیں انہوں نے اس رنگ میں مجلس میں دخل اندازی  شروع کر دی کہ سارا ماحول خراب ہو گیا۔ بڑھ بڑھ کے باتیں کرنا، ماحول کو بگاڑنا، شور مچانا اور ان کا مقصد بھی وقتی طور پر تبلیغ کے اثر کو زائل کرنا تھا۔ تو ہمارے مبلغ نے ایک خادم احمدیت دیدات صاحب کو کہا کہ آپ ان کے سوالوں کے جواب جاری رکھیں اورکہتے ہیں مَیں خود یہ سوچ کر دعا کے لئے علیحدہ ہو گیا کہ ظاہری طور پر جو کوشش ہو سکتی تھی وہ ہم نے کی ہے لیکن شیطان صفت لوگوں نے مجلس کو خراب کر دیا ہے اس لئے اگر اللہ چاہے تو ضرور یہ ہدایت پا جائیں گے کیونکہ ہدایت تو اللہ نے دینی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہی ہوا۔ اگلے دن اس گاؤں سے دو نمائندے اس پیغام کے ساتھ آئے کہ کل کی تبلیغ اور اس کے بعدکے  واقعات پر ہم نے رات بہت غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حق آپ کے ساتھ ہے اس لئے ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ بیعت کے فارم ہم نے خود پُر کرنے ہیں یا آپ اس مقصد کے لئے ہمارے گاؤں دوبارہ آئیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں میں سب نے بیعت کر لی۔

                    تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتیں جو اسلام کی سچائی کی دلیل ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہیں کہ خداتعالیٰ جہاں صبر اور برداشت کی توفیق دیتا ہے وہاں دعاؤں کو بھی قبول فرماتا ہے اور اپنی اس بات کا بھی نظارہ دکھاتا ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی نے دینی ہے اور شیطان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہدایت دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی ہے اس کا حصہ ہر احمدی کو بننا چاہئے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دعوت الی اللہ کی طرف بلانے والوں کو جو مختلف طریقے اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اس میں دعوت الی اللہ کرنے والے کو اپنی حالت کے سدھارنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اس کو اپنی ذاتی حالت کو بدلنا ہے۔ اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ دلائی ہے اور کامل فرمانبرداری کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

                     حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ: ’’اسلام کی حفاظت اور سچائی کو ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔(ملفوظات جلد8صفحہ 323۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینے کی کیا حالت ہو گئی۔ ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے۔ یعنی وہیں جو صحابہ تھے ان میں ایک عجیب افراتفری پیدا ہو گئی تھی اور اس کے کچھ عرصے کے بعد پھر منافقوں نے بھی زور لگانا شروع کر دیا۔ پس اس تبدیلی کو مدّنظر رکھو۔ یہ مدینہ ہی تھا جہاں ایک زمانے میں صحابہ پھرتے تھے اور جب حضرت عثمان کی شہادت کا واقعہ ہؤا تووہاں منافقین کا زور ہو گیا اور صحابہ گھروں میں بند ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ پس  اس تبدیلی کو مدّنظر رکھو کہ یہ واقعہ وہاں بھی ہو گیا تھا اور آخری وقت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ اصل چیز انجام ہے۔ آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی اور اس نمونے کو دیکھیں گی۔ اگر تم پورے طور پر اپنے آپ کو تعلیم کا حامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کرو گے۔ انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے۔ وہ نمونے سے بہت جلد سبق لیتا ہے۔ ایک شرابی کہے کہ شراب نہ پیو۔ ایک زانی اگر کہے کہ زنا نہ کرو۔ ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو تو ان نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ فرمایا جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کر اس کا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے واعظوں سے دنیا کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 6صفحہ 264 ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پس دنیا کی اصلاح کا اگر بیڑا ہم نے اٹھایا ہے، اگر دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے ہم نے آگاہ کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنی حالتوں کے  جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دعوت الی اللہ کے لئے چند لوگوں کے اپنے آپ کو پیش کرنے سے ہم دنیا میں اسلام کا پیغام نہیں پہنچا سکتے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ جماعت کو فرمایا تھا کہ ہر احمدی کو اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے اور دعوت الی اللہ میں اپنا نام لکھوانا چاہئے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد12صفحہ 324-325) اور جب ایسی حالت ہو گی تبھی ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے سدھارنے کی طرف بھی توجہ ہو گی، تبھی دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام بھی پہنچے گا ۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی فعلی شہادت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید و نصرت فرما رہا ہے اور بہت سے لوگوں کے سینے کھل رہے ہیں لیکن ہمیں اپنے فرائض کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

                     اللہ تعالیٰ نے آجکل ہمیں تبلیغ کی بہت سی سہولتیں مہیا فرما دی ہیں جن کاپہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ ان سے ہر احمدی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ صرف اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کر کے ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بن سکے۔دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والا بن سکے۔

                     پس آج دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی ذمہ داری مسیح محمدی کے غلاموں کی ہے۔ دنیا کی بقا آج ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج ہمیں دنیا کی روحانی پیاس بجھانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ پس اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے صرف تھوڑے سے لٹریچر یا چندسیمینار یا چند میٹنگز کام نہیں کریں گی بلکہ ہمارے ہر طبقے کو اپنے اپنے حلقے میں اس کام کو سرانجام دینے کے لئے آگے آنا ہو گا۔ مستقل مزاجی سے اس کام میں جُت جانا ہو گا۔ اپنے عملوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے عبادت کے حق ادا کرنے ہوں گے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کر کے یہاں سے جانا چاہئے کہ ہم دنیا کی روحانی پیاس بجھانے کے سامان کریں گے انشاء اللہ۔ دنیا کو تباہی کے گڑھے سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔ اپنے عملوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ انشاء اللہ ۔ انشاء اللہ۔ (باقی پہ تو آپ انشاء اللہ کہتے رہے ہیں اور عملوں پہ آپ خاموش ہو گئے ہیں)اور کسی کو اپنے پر اس بات پر انگلی نہیں اٹھانے دیں گے کہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کی بھی مثالیں قائم کریں گے اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی مثالیں قائم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ جلسے کے بعد آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں واپس لے جائے ۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں