خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 06 جون2015 ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یہاں شروع میں جو آیات تلاوت کی گئی ہیں اس کی پہلی آیت ہی ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ تم جو مومن کہلاتے ہو، جو مومن اور مومنہ بننے کا دعویٰ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ فرمایا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۔(الانفال:21)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس اطاعت سے، ان احکامات سے منہ نہ پھیرو جبکہ تم سن رہے ہو۔ تم تک یہ احکامات پہنچائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں تم تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ اطاعت کا سبق اور حکم تمہیں کیوں دیا جا رہا ہے؟ اس لئے کہ تا تم جہاں ان حالتوں کو سدھارنے والے بن سکو وہاں اس کی وجہ سے تم میں اِکائی پیدا ہو اور ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی تمہیں ترقیات اور کامیابیاں نصیب ہوں۔

                     اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر احسان ہے کہ اس نے اپنے احکامات کو قرآن کریم میں نازل فرما کر پھر آج تک انہیں محفوظ بھی رکھا ہوا ہے۔ اور یہ بھی فرما دیا کہ ہر زمانے کے لئے یہ احکامات ہیں۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر ان احکامات کو کھول کر ہمارے لئے مہیا کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دئیے اور پھر خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ کر کے ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے، اس کی اطاعت کرنے کی طرف توجہ دلانے کے سامان پیدا کئے وہاں یہ بھی فرما دیا کہ اس اطاعت کی وجہ سے تم ہمیشہ خلافت کے انعام سے بھی فیضیاب ہوتے رہو گے۔ تمہاری اکائی اور طاقت بھی قائم رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے چلے جانے والے رہو گے۔ پس اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ میں جماعت کا ممبر ہوں، جماعت احمدیہ میں شامل ہوں اور خلافت احمدیہ کو مانتی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی معہود سمجھتی ہوں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کا کامل جوأ اپنی گردن پر ڈالنا ہو گا۔ کامل اطاعت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا۔

                    کوئی احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات سے جان بوجھ کر باہر نکلتا ہے وہ احمدی ہی نہیں ہے۔ بعض غلطیاں ہو جاتی ہیں، کوتاہیاں ہو جاتی ہیں کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن اگر ارادتاً کوئی ان احکامات سے باہر نکلے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس نظام سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ

                    ’’ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔ ‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

                    یعنی ایک احمدی رسم و رواج کے پیچھے نہیں جائے گا۔ ہوا و ہوس، دنیا کی لالچ اور ہوس اور فیشن، ان کے پیچھے نہیں جائے گا۔ غلط باتوں کے پیچھے نہیں جائے گا۔ اور قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بتایا ہے اس کو اصول بنا کر اس پر اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے گا۔  ایک احمدی کے لئے یہ احمدی ہونے کی شرط ہے۔

                     پس یہ ان شرائط میں سے ایک شرط ہے جس پر ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے۔یہ مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے ہے۔ اگر کوئی اپنے رسم و رواج کے پیچھے چل رہا ہے اور معاشرے کے غلط طور طریقے اس کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں تو بیعت کا حق ادا نہیں کر رہا۔ اگر دنیا کی ترجیحات اور معاشرے کا اثر اسے دین کی باتوں پر عمل کرنے سے روک رہا ہے تو یہ کمزوری اسے بیعت کے حق کی ادائیگی سے دُور لے جا رہی ہے۔ اگر قرآن کریم کے احکامات کو کوئی ناقابل عمل قرار دیتا ہے تو وہ نہ ہی بیعت کا حق ادا کر رہا ہے اور  نہ ہی اسلام میں شمار ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل نہیں تو احمدی ہونے کا دعویٰ بھی جھوٹ ہے۔ احمدیت تو ہے ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم اور ہر قول پر عمل کی حتی المقدور کوشش اور کامل اطاعت کا نام اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر پھر خلافت کے نظام سے وابستہ کر دیا جس کے ذریعہ سے افرادِ جماعت کو، مَردوں کو اور عورتوں کو بھی، جوانوں کو بھی، بوڑھوں کو بھی بار بار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور اسی طرح نظام جماعت بھی اس کام کے لئے مقرر ہے اور نظام جماعت کو یعنی جو عہدیدار مقرر ہیں ان کو یہ کام کرنے چاہئیں اور تقویٰ پر چلتے ہوئے کرنے چاہئیں۔اگر ہم میں سے کوئی ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کی طرف توجہ دلاتی ہیں تو وہ مرد ہو یا عورت اپنے ایمان کو ضائع کر رہا ہے۔ وہ جماعت کی مجموعی طاقت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ وہ دنیا کے سامنے اپنے عمل اور تعلیم میں تضاد کی وجہ سے، اختلاف کی وجہ سے غیروں کے سامنے بھی اسلام کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے۔ پس ہر احمدی مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے جائزے لیں کہ ہم کس حد تک اَطِیْعُوا اللّٰہَ اوراَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو ایسے احکامات دیتا ہو جن میں حکمت نہیں ہے یا ایسے حکم دیتا ہو جس سے انسان کو اور معاشرے کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کسی ایسی اطاعت کا حکم دے رہے ہوں جو صرف انسان کو پابند کرنا چاہتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کو کسی پابندی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو حکم ہیں ہمارے فائدے کے لئے ہیں۔ ہماری زندگیوں کو سنوارنے کے لئے ہیں بلکہ یہ اطاعت جہاں ہماری زندگیوں کو سنوارتی ہے وہاں یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مورد بناتے ہوئے فلاح پانے والا بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ جو مومنین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جانے پر یہ کہتے ہیں کہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ کہ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا تو فرمایا کہ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ اور وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہؤا کرتے ہیں۔ سن کر اطاعت کرنے والے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ انہیں کشائش بھی عطا ہوتی ہے۔ وہ کامیابیاں بھی حاصل کرنے والے ہیں۔ وہ ان فائدہ مند اور نیک خواہشات کو حاصل کرنے والے ہیں جن کی وہ خواہش کرتے ہیں یا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یقینا ایک مومن جو ہے اس کی خواہشات ہمیشہ نیک ہی ہوا کرتی ہیں۔ وہ لغویات کی تو خواہش نہیں کر سکتا اور پھر خوشی اور اچھی حالتوں کے پانے والے بھی ہوتے ہیں۔ انہی لوگوں کو جو اطاعت کرتے ہیں خوشیاں بھی ملتی ہیںا ور ان کی حالتیں بھی بہتر ہوتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی وجہ سے ان کی آسانیوں اور فضلوں کی حالت ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والی بن جاتی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَی اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ(النور:53)۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہو جاتے ہیں۔ ان کو کامیابیاں ملتی ہیں۔ انہیں فتوحات ملتی ہیں وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں۔ پس کامیابیاں اور فتوحات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننے والے وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلنے والے اور ہر بات کو سن کر اطاعت کرنے والے ہیں اور جماعت کی کامیابی اور ترقیات بھی اسی سے وابستہ ہیں۔ ایک شخص چاہے وہ عورت ہے یا مرد جب بیعت میں آتا ہے تو یہ عہد کرتا ہے کہ میں صرف اپنے عارضی اور دنیاوی فائدے کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتا بلکہ میرا دین مجھے ہر چیز پر مقدم ہے۔ میں جماعت کے نظام اور اس کی ترقی کے لئے کوشش کروں گا۔

                    پس اس کے قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر عمل کریں۔ تبھی ہماری اکائی قائم رہے گی۔ تبھی جماعت کا ایک خوبصورت تصور ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں لیکن اگر ہر ایک اپنی مرضی کی باتیں کر رہا ہو، جو اس کے دل میں ہے چاہے وہی کر رہا ہو، اگر ہر ایک اپنے مفادات کو ہی فوقیت دے رہا ہو، اگر اپنے مفاد میں ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بات مان لی جائے۔ اگر معاشرے کے خوف یا ماحول کی عمومی حالت ہمیں بعض احکامات پر عمل کرنے سے جھینپنے اور شرمانے والی بنا رہی ہو، اگر ہم یہ سمجھ رہے ہوں کہ بعض باتوں میں میری ترقی معاشرے کی عمومی رَو کے ساتھ چلنے میں ہی ہے تو چاہے وہ مرد ہے یا عورت اگر وہ سمجھتا ہے یا سمجھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات فرسودہ ہیں اور اس نئے زمانے سے مطابقت نہیں رکھتے تو وہ غلط ہے۔ وہ اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر رہا ہے اور کر رہی ہے ، اور جماعت کے لئے بھی نہ صرف بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ جماعتی ترقی میں بھی روک ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا قرآن کریم ہر زمانے کی کتاب ہے اس کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت اسے زمانے کی ترقیات سے محروم کر کے پرانے زمانے میں دھکیل رہے ہیںتو ایسی سوچ رکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا جس بات کو اپنی ترقی پر محمول کرتی ہے وہ تباہی کے گڑھے ہیں جس میں گر کر ایک دن وہ تباہ و برباد ہونے والی ہے اور کامیابیاں اور ترقیات اور حفاظت کے راستے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں ہی ہیں۔ حفاظت کے حصار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی ہے۔ اس زمانے میں جو راستے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھائے ہیں وہی عافیت کے حصار کی طرف لے جانے والے ہیں۔

                    گزشتہ دنوں اسی دورے کے دوران یہاں فرینکفرٹ میں ہی مجھے یونیورسٹیز کے کچھ پروفیسر ملنے کے لئے آئے۔ تقریباً سارے ہی ریلیجس سٹڈیز(Religious studies) کے تھے یا مذہب یا کلچر کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ تم لوگ یعنی احمدی بڑے کھلے دل کے ہو۔ تم لوگ سارے کام ایسے کرتے ہو جس سے ملک سے وفاداری بھی ظاہر ہوتی ہے اور دوسروں کے حقوق کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ یا کم از کم تعلیم یہ دیتے ہو۔  لیکن تمہاری جماعت کا پچاس فیصد حصہ ان کاموں میں شامل نہیں۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہاری اس سے کیا مراد ہے؟ تو کہنے لگا کہ یہ عورتوں اور مردوں کی تفریق جو تمہارے اندر ہے یہ عورتوں کو کام کرنے سے محروم کر رہی ہے۔ میں نے کہا یہ تفریق کیا ہے؟ بتاؤ ذرا۔ تو انہوں نے کہا مثلاً اکٹھے ڈانس کرنا اور کلبوں وغیرہ میں جانا۔ یہ ان کی ترقی ہے اور اگر تم کلبوں میں نہیں جاتے تو یہ ایک حصے کو محروم کر رہے ہو۔ میں نے اس پروفیسر صاحب کو کہا کہ تمہیں مذہب اور اپنی ان روایات میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

                    یہاں مَیں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ جہاں تک ڈانس اور کلبوں میں جانے کا سوال ہے تو نہ مَردوں کو اس کی  اجازت ہے نہ عورتوں کو۔ مرد اور عورت کو نہ اکٹھے جانے کی اجازت ہے، نہ علیحدہ علیحدہ جانے کی۔ اگر مرد جاتے ہیں تو وہ بھی گناہ کرتے ہیں۔

                     بہر حال میں نے انہیں کہا کہ عیسائیت اپنی تعلیم بھول چکی ہے اور لوگوں کو اپنے اندر رکھنے کے لئے یا اپنے اندر سمیٹے رکھنے کے لئے لوگوں نے جو کلچر اور آزادی کے نام پر غلط روایات رائج کر لی ہیں ان کو مذہب کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہیں اس لئے ہمیں تو جو ہمارا مذہب کہتا ہے ہم نے اس کے مطابق چلنا ہے۔ میں نے کہا کہ آئرلینڈ جو یورپین ممالک میں اپنے آپ کو بڑا عیسائیت پر قائم ملک کہتا ہے کہ وہ لوگ  مذہب پر بڑے قائم ہیں۔ عیسائیت سے ابھی تک ان کا تعلق ہے اور ان کی بڑی اکثریت عیسائیت پر قائم ہے، مذہب پر قائم ہے۔ وہاں ہم جنسی کا قانون پاس کرنے کے لئے ریفرینڈم ہوا تو لوگوں نے اس کے حق میں کثرت سے رائے دی۔ یہ گزشتہ دنوں کی ہی بات ہے اور اس پر وہاں کے آرچ بشپ نے کہا کہ لوگوں کی رائے کے احترام میں ہمیں بھی یعنی چرچ کو بھی اس بارے میں زیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے اور اس بات کو اپنا لینا چاہئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ لوگوں کا کام ہے کہ مذہب کی تعلیمات پر عمل کریں۔ مذہب کا یہ کام نہیں ہے کہ لوگوں کی مرضی سے چلے۔ اگر کسی مذہب کو مانا ہے تو آپ کا فرض ہے، ماننے والوں کا فرض ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کریں۔ مذہب آپ کی ہدایت پر نہیں چلے گا۔ مذہب آپ کی ہدایت کے لئے آتا ہے۔ پس ہم تو اس بات پر عمل کرتے ہیں اور چلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ برائیاں ہیں، ان سے بچو۔ میں نے ان کو بتایا کہ تمہاری بائبل میں بھی یہی لکھا ہوا ہے کہ یہ برائی ہے۔ اب ان برائیوں سے بچو گے تو تبھی کامیابیاں حاصل کرو گے، تبھی تمہاری ترقی ہو گی۔ تبھی تمہیں دینی اور دنیاوی ترقی ملے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ تم جسے عورت اور مرد کی تفریق کہہ کر برائی سمجھتے ہو یا سمجھتے ہو کہ اس کی وجہ سے عورت کے حقوق غصب ہو رہے ہیں یہی اچھائی ہے۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ تم لوگ اس طرح عورت کی آزادی سلب کرتے ہو۔ انہیں میں نے جلسوں اور اجتماعوں کی مثال دے کر کہا کہ اس طرح عورتیں زیادہ آزادی سے اور زیادہ اعتماد سے اپنے کام سرانجام دیتی ہیں۔ پس ہمیں کسی اعتراض کرنے والے کے نہ کسی اعتراض سے متأثر ہونے کی ضرورت ہے نہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے ان باتوں سے ڈر کر اپنی روایات اور تعلیم کو چھوڑ کر اپنی زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ یہ مذہب سے دور ہٹے ہوئے یا اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرنے والے لوگ ہمارے ہمدرد بن کر ہمیں مذہب سے دور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت ہے اور ہر حکم جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہمارے فائدے کے لئے ہے۔ اس لئے بجائے ایسے لوگوں کی باتوں میں آنے کے ہر عورت کو، ہر احمدی لڑکی کو اپنا دینی علم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض پابند کرنے والے احکامات اگر عورتوں کو دئیے ہیں تو ان کے فائدے کے لئے ہی دئیے ہیں اور صرف عورتوں کو ہی پابند نہیں کیا گیا بلکہ مَردوں کو بھی پابند کیا گیا ہے۔ لیکن دین سے ہٹانے والے یا ہٹانے والی قوتیں عورتوں کو یہی کہتی ہیں کہ دیکھو تمہارے مرد آزاد ہیں اور تمہارے پر پابندیاں ہیں۔ حالانکہ یہ صرف شیطانی وساوس ہیں جو شیطان ہمارے دلوں میں مختلف طریقوں سے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ وہ جب اپنی اطاعت کا اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیتا ہے تو ہمیں تباہی سے بچانے کے لئے حکم دیتا ہے۔

                     پس ایک حقیقی احمدی کو بڑی کوشش سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اسی میں ہماری زندگی اور بقا ہے۔ اگر یہ نہیں تو ہماری زندگیاں ختم ہو جائیں گی۔ چند دن کی یہ دنیاوی زندگی ہے اس کے بعد پھر خوفناک انجام بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات پر عمل کرنے کے لئے جہاں اس دنیا میں اس کے لئے بھلائی کے سامان پیدا فرماتا ہے وہاں اگلے جہان میں بھی اسے کئی گنا ثواب کا مستحق بناتا ہے۔

                     مَیں ان لڑکیوں سے بھی کہتا ہوں جو یہاں پلی بڑھی ہیں یا جو پاکستان سے آ کر یہ سمجھتی ہیں کہ اس معاشرہ میں عورت کے بڑے حقوق ہیں اور یہاں آزادی ہے اور اس آزادی کی وجہ سے ان قوموں کی ترقی ہے۔ یاد رکھیں  اگر ان کو کوئی دنیاوی ترقی مل رہی ہے تو ان کی محنت کی وجہ سے اور دنیاوی علم میں ترقی کی وجہ سے۔ دین کا اور روحانیت کا خانہ ان کا بالکل خالی ہے۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ خدا ہے یا نہیں یا خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں۔ لیکن ایک مومنہ اور مومن جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں دین کی خاطر شامل ہوا ہے، اپنی دنیاو عاقبت سنوارنے کے لئے شامل ہوا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ دین خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے کا نام ہے۔ آپ اگر خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے محنت کریں گی، علم میں بڑھیں گی تو یہ چیزیں تو مل ہی جائیں گی لیکن ایک سب سے اہم چیز جس سے دنیا دار محروم ہیں اور جو انسانی زندگی کا مقصد ہے، آپ اسے بھی حاصل کرنے والی بنیں گی اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا ہے، اپنی عاقبت سنوارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے ماننے والوں کے علم و معرفت میں بڑھنے کا یا ترقی کا وعدہ فرمایا ہے ۔ (ماخوذ از تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد20 صفحہ409) پس یہ دینی اور دنیاوی ترقیات تو انہیں ملنی ہیں یا ہمیں ملنی ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے ساتھ چمٹیں رہیں گے وہ اس کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے۔ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا دعویٰ کیا ہے تو پھر ہمارے ہر کام میں برکت تبھی پڑے گی جب ہم اس دنیاوی آزادی پر چلنے کی بجائے دین کو دنیا پر مقدم کریں گے اور جب یہ ہوگا تو دنیا ہماری لونڈی بن جائے گی۔ دنیا آپ کے پیچھے چلے گی۔ دنیا والے پھر آپ سے ہدایت حاصل کریں گے۔ جن کو خدائی وعدوں پر یقین نہیں وہ بیشک یہ سمجھیں کہ اتنی چھوٹی سی جماعت کس طرح دنیا کو اپنے پیچھے چلا سکتی ہے؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔ جرمنی میں ہی آپ دیکھ لیں کہ آج سے دس سال پہلے جماعت کی اس ملک میں جو پہچان تھی اب اس سے دس بیس گنا زیادہ پہچان ہے۔ پڑھے لکھے طبقے میں ہماری بات کا جو اَب وزن ہے اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پس قوموں کی ترقی اسی طرح منزلیں طے کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر چڑھنے والا دن ہمیں اس ترقی کی منزل دکھاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری یہ پہچان دین سے ہٹ کر نہیں ہے۔ دین پر قائم رہتے ہوئے ہی جماعت احمدیہ کی پہچان ہے۔

                    پس کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر احمدی عورت اور مرد کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی کی ضرورت ہے تا کہ ہم کامیابی کی منزلوں کو جلد سے جلد حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اگر کسی کو صرف دنیا کی ہاؤہو ہی چاہئے، شور شرابا چاہئے، رونقیں چاہئیں تو بیشک دنیا کے پیچھے چلیں۔ ایسے لوگوں کو یہ ظاہری نام نہاد آزادی تو مل جائے گی لیکن یاد رکھیں کہ پھر اس آزادی کے پیچھے ان کی بے چینیاں ہیں۔ یہ دنیا والے جو لوگ ہیں وہ بھی بے چین ہیں اور ان کی بے چینیاں نظر آتی ہیں۔ ان لوگوں کی جو چمک باہر نظر آ رہی ہے یہ ظاہری خول ہے، اس کے اندر کچھ نہیں ہے ۔ ان کے ظاہری قہقہے، ڈانس، کلب، غل غپاڑہ، شراب نوشی ان کے دلوں کی بے سکونی کو دور کرنے کے لئے ظاہری تدبیریں ہیں لیکن    بے مقصد اور بے نتیجہ تدبیریں ہیں۔ ان کی آزادی کے پیچھے ان کے دلوں کی بے چینیاں ہیں جنہیں ان دنیاداروں نے جیسا کہ میں نے کہا خول چڑھا کر چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کے دلوں کے اندر جھانک کر دیکھیں تو بھیانک نظارے نظر آتے ہیں۔ ان کے دل کی بے چینیاں انہیں کلبوں میں لے کر جاتی ہیں، شراب خانوں میں لے کر جاتی ہیں، نشوں میں مبتلا کرتی ہیں۔ اگر دنیا ہی سب کچھ ہے تو پھر دنیا کے اعدادو شمار یہ کیوں ظاہر کرتے ہیں اوریہ  حقیقت ہے کہ معاشی لحاظ سے بہتر ملکوں میں خود کشیاں بڑھ رہی ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ دلوں میں بے چینیاں ہیں۔ پس اگر دلوں کی بے چینیوں کو دُور کرنا ہے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:29) کہ سنو اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔

                    پس جتنا زیادہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف جھکے گا، اسے یاد کرے گا، اتنا ہی اس کے دل کو اطمینان نصیب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ انسانی فطرت کا تقاضا رکھا ہے کہ اگر اسے اطمینان قلب چاہئے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف جائے۔ دنیاوی ہاؤ ہو جو ہے وہ دلوں کو بے چین کرتی ہے۔ اس سے دلوں کو چین نصیب نہیں ہوتے۔ خدا کرے کہ دنیا اس بات کو سمجھ لے اور سب سے پہلے تو ہم سمجھنے والے ہوں تا کہ دنیا کو اس غلاظت اور بے سکونی سے باہر نکالیں۔ حقیقی آزادی ہم نے دنیا کو دینی ہے اور وہ آزادی خدا تعالیٰ کی غلامی اور اطاعت میں آنے میں ہی ہے۔

                    حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

                    ’’قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شئے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا  اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ(الرعد:29) پس جہاں تک ممکن ہے ذکر الٰہی کرتا رہے اس سے اطمینان حاصل ہو گا۔ ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے۔اگر گھبرا جاتا ہے اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔ (ملفوظات جلدہفتم صفحہ311۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس صبر اور مستقل مزاجی شرط ہے۔

پھر آپ نے فرمایا:

                    ’’ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت اور فلاسفی یہ ہے کہ جب انسان سچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے ایک خوف عظمت الٰہی کا پیدا ہوتا ہے۔ وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلدہشتم صفحہ1۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     پس یہ حقیقت ہے انسانی زندگی کی اور یہ مقصد ہے انسانی زندگی کا کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑا جائے، اس کے احکامات پر عمل کیا جائے اور یہ اس کے ذکر سے ہی اور اس کو یادرکھنے سے ہی ہو گا۔ اور نہ صرف دلوں کے اطمینان کے سامان ہوں گے بلکہ تمام وہ باتیں جو مکروہ ہیں جن کو دنیا دار تو بیشک نئے زمانے کی روشنی سمجھتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں تباہی کے گڑھے میں ڈالنے والی ہیں ان سے انسان بچتا رہتا ہے۔ اس ذکر سے ان تمام باتوں سے جو منہیات ہیں، جن کے نہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان سے ایک مومن اور مومنہ بچے رہیں گے۔ پس اگر اپنے آپ کو جماعت میں شمار کروانا ہے، ان حقیقی احمدیوں میں شمار کروانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے تھے تو پھر اس بات کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت کو بھی ظاہر کرنا ہو گا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوں تو ان نام نہاد دنیاوی آزادیوں اور چکا چوند سے اپنے آپ کو بچا کر حقیقی مومن بنوں۔ پس یہی ہمارا کام ہے کہ حقیقی مومن ہم نے بننا ہے اگر اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں۔

                    مَیں یہ بھی بتا دوں کہ میں صرف علمی باتیں نہیں کر رہا۔ جماعت میں ہی بہت سے ایسے ہیں جو اس نسخے کو آزما کر دلی سکون پانے والے بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔ اور یہ صرف خیالی باتیں نہیں کہ جو دنیا داری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکلیں انہیں بے چینیاں ملتی ہیں بلکہ بہت سی عورتیں اور مرد مجھے لکھتے ہیں کہ ان دنیاوی رنگینیوں میں ہم جو آزادی اور معاشرے کی ترقی سمجھ کر گئے تھے، اس دنیا داری میں ڈوب گئے تھے وہ اصل میں دھوکہ تھا اور اب ہمیں احساس ہوا ہے کہ ہم نے غلط کیا ہے اس لئے ہمیں معاف کر دیں اور دوبارہ جماعت میں سمو لیں اور ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم کبھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر نہیں نکلیں گے۔

                    پس یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی تسکین قلب عطا کرتی ہے۔ اس لئے بجائے اس کے کہ اس معاشرہ کے اثر میں آ کر ہم اطاعت سے باہر نکل کر پھر بے سکون زندگی کا تجربہ کریں پہلے ہی خدا تعالیٰ کی بات مان کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دنیا کی بے حیائیوں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں جس نے آزادی کے نام پر عورتوں کو ننگا کر دیا ہے۔ جس نے آزادی کے نام پر مَردوں کو دین اور خدا سے باغی کر دیا ہے۔ جس نے آزادی کے نام پر حیا اور بے حیائی کی تمیز مٹا دی ہے۔ یہ تمیز مٹنے کا ہی اثر ہے کہ بظاہر ایک مذہبی تعلیم کے پروفیسر یہ سوال کر رہے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ ڈانس گانے اور کلبوں میں جانے پر تم پابندی کیوں لگاتے ہو؟

                    پس ہر عورت اور مرد جرأت سے کھڑے ہو کر ایسے لوگوں کے سامنے یہ کہیں کہ اگر بے حیائی آزادی ہے تو ایسی آزادی غیر مومنوں کو مبارک ہو۔ ایک مومن تو ایسی آزادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس سے خدا کی اطاعت سے انسان باہر نکلتا ہو اور خدا کی ناراضگی مول لینے والا ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس آزادی کے پیچھے ہے تو یہ دلیل نہیں ہے کہ وہ صحیح ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا، آپ اس لئے آئے تھے کہ یہ بگاڑ پیدا ہو چکا ہے، اسے سدھارنا ہے۔ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں آپ نے یا آپ کے باپ دادا نے اس لئے احمدیت قبول کی تھی کہ ہم نے اس کام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ بٹانا ہے۔

عرب ممالک کی بعض عورتیں بھی جو احمدی عورتوں پر بعض اعتراض کرتی ہیں ان کے اپنے لباس اس قدر تنگ ہوتے ہیں کہ جسموں کی نمائش ہو رہی ہوتی ہے، جو ابھی احمدی تو نہیں ہوئیں لیکن ان کے اعتراض شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ قبول نہیں کرنا۔ سر پر حجاب رکھ لینے سے سمجھ لیتی ہیں کہ ہمارا پردے کا مقصد پورا ہو گیا جبکہ تنگ جین اور چھوٹا بلاؤز پہنا ہوتا ہے۔

مَیں یہاں نئی آنے والی احمدی عورتوں سے بھی کہتا ہوں کہ پردہ کی غرض حیا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب قائم کرنا ہے۔ اپنے آپ کو مردوں کی غلط نظروں سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس لئے صرف بال ڈھانک کر اور نیچے تنگ لباس پہن کر یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آپ کی حیا کو قائم کرنا ہے۔ اسی طرح پاکستانی عورتوں کو بھی بہت زیادہ اپنے بالوں کی نمائش کی عادت ہے۔ وہ اپنے سر کی اوڑھنیوں کو ٹھیک کریں۔ پردہ کے مقصد کو پہچانیں۔ مسلمان عورتوں کی اکثریت بگڑ چکی ہے۔ اگر آپ جو حضرت مسیح موعود   علیہ السلام کو ماننے کا دعویٰ کرتی ہیں، یہ مانتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تجدید دین کے لئے آئے تھے تو پھر اپنے نمونے قائم کریں۔ میں نے یوکے(UK) کے اجتماع پر بھی بتایا تھا کہ ان تمام نام نہاد آزادیوں کا مسلمان کہلانے والے ملکوں پر بھی اثر ہے۔ حتی کہ پاکستان میں جو اپنے آپ کو شدت پسند مولویوں کے قبضے میں دے چکا ہے وہاں اب سنا ہے کہ فیشن کے نام پر ایسے لباس بھی آ گئے ہیں کہ شلوار قمیص کھلے گلے اور بغیر دوپٹّے کے پہن کر جوان لڑکیاں اور عورتیں بازاروں میں پھرتی ہیں۔ عورت کیوں نہیں سمجھتی کہ فیشن کے نام پر وہ اپنی حیا کی نمائش بازاروں میں کر کے بے حیائی کے گڑھے میں گر رہی ہے۔یاد رکھیں کہ آزادی کے نام پر حیا اور زینت کی یہ نمائش ایک وقت میں بھیانک نتائج ظاہر کرے گی۔ پس احمدی عورت کو اپنی حیا، اپنی عزت، اپنی عصمت کی حفاظت کرنی ہے۔ یہاں بھی معاشرہ کے زیر اثر بعض احمدی لڑکیاں ایسی ہیں جو جب حجاب اور پردے کی بات ہو تو ردّ عمل دکھاتی ہیں کہ ہم اس سے فَیڈ اَپ (fed up)ہو چکی ہیں۔ اگر آپ کو پردہ کی سمجھ نہیں اور صرف لجنہ کی عہدیداروں یا میرے سے ڈر کے پردہ کر رہی ہیں اور خد اتعالیٰ کی تعلیم پر عمل کی خواہش کی وجہ سے نہیں ہے،خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے تو بے فائدہ ہے۔ پھر ایسا پردہ منافقت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ بعض لڑکیاں اس معاشرہ سے اتنی متاثر ہیں کہ یہ کہتی ہیں کہ ہم پردہ کی باتیں سن سن کر عاجز آ گئی ہیں۔ پس اگر کسی انسان کے دکھانے کے لئے یہ پردہ ہے تو میری باتیں سن کر ضرور عاجز آئیں۔ عاجز آنا چاہئے آپ کو اور بالکل ٹھیک عاجز آتی ہیں۔ اور اگر میری باتیں سن کر خدا تعالیٰ کے اس حکم پر نظر جاتی ہے کہ مَیں اس لئے نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے نصیحت کرو، نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے، مومنات کو فائدہ دیتی ہے تو پھر عاجز آنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ نیکی کی باتیں اور ان پر عمل آپ کو خدا تعالیٰ کا پیارا بنائیں گی۔ پس پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا چاہئے یا دنیا کی اور دنیاداروں کی رضا چاہئے۔ اگر خدا تعالیٰ کی رضا چاہتی ہیں تو پھر اس کے حکموں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے صرف حکم نہیں دئیے، حقوق بھی قائم کئے ہیں۔ ان حقوق کی طرف کیوں نہیں دیکھتیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے یہ کہنے پر کہ میرا باپ ایک بڑی عمر کے مرد سے میری شادی بغیر میری مرضی کے کر رہا ہے اس لڑکی کے باپ کو اس شادی سے روک دیا تھا۔ (ماخوذ از سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی البکر یزوجھا أبوھا ولایستأمرھا 2096)

 اور آپؐ نے فرمایا کہ لڑکی کی مرضی شامل ہونی چاہئے۔تو کیا آپؐ نے لڑکی کا حق نہیں قائم فرمایا ؟ میرے پاس بھی کئی بچیاں آتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ زبردستی فلاں جگہ شادی کرنے کا کہتے ہیں جن پر ہمیں تسلی نہیں، ہمارے دلوں میں انقباض ہے۔ مَیں بھی ماں باپ کو سمجھاتا ہوں۔ ہماری ایک احمدی بچی نے جو یہیں جرمنی میں یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے حجاب اور پردہ پر مضمون لکھا۔ بڑا اچھا مضمون لکھا۔ پس ایسی بچیاں ہیں جو پڑھی لکھی بھی ہیں، اپنی اور جماعت کی عزت اور وقار کو بلند کرنے والی بھی ہیں۔ غالباً یہ اس کا ریسرچ پیپر ہے۔ اس میں اس نے بڑے واضح طور پر کہا ہے کہ حجاب کی کیوں ضرورت ہے اور حجاب کیا چیز ہے؟ اسے میں نے کہا ہے کہ اسے جماعتی رسائل میں بھی شائع کرواؤ تا کہ دوسری لڑکیوں کا احساس کمتری بھی ختم ہو۔

                     بعض بچیوں میں یہ احساس ہے، یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ جماعت کا ٹیلنٹ(talent) ان پابندیوں کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔ تو اس ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ میں نے تو اس دورہ کے دوران یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی بچیوں کے ساتھ ایک نشست بھی کی تھی، ملاقات تھی۔ چار پانچ سو لڑکیاں تھیں۔ اس میں سائنس پڑھنے والی لڑکیاں بھی تھیں، ڈاکٹر بننے والیاں بھی تھیں، ریسرچ کرنے والیاں بھی تھیں، دوسرے مضامین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والیاں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی مجھے پڑھی لکھی لڑکیاں ملتی رہتی ہیں، شادی شدہ ہیں اور بڑی سعادتمند ہیں ۔ احمدیت اور ایمان ان کے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہؤا ہے۔بعضوں نے قربانیاں دے کر اپنے سے کم پڑھے ہوئے مردوں سے بھی شادی کر لی ہے اور ان کی یہ قربانی یقینا آئندہ نسلوں کی علمی اور عملی ترقی میں کردار ادا کرے گی۔ انشاء اللہ۔

                    میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ غلط خیال ہے کہ دوسرے کے سامنے ہمارے مرد عورت کے جو علیحدہ فنکشن ہیں ہونے سے شاید ہم بیک وَرڈ(backward) کہلاتے ہیں یا لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ ایک تو میں نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ہم نے دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔کوئی ہمیں چاہے جو کچھ بھی کہے ہم نے اپنی تعلیم سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ دوسرے سمجھدار غیر لوگ بھی جو ہماری اس علیحدگی کو سمجھتے ہیں تو برملا یہ اظہار کرتے ہیں کہ یقینا تمہارا مَردوں اور عورتوں کو علیحدہ رکھنے کا طریق پُرحکمت ہے۔ جلسہ یوکے(UK) پر بھی گزشتہ سال ایک خاتون آئیں، غالباً جرنلسٹ تھیں۔ انگریز تھیں انہوں نے کہا کہ پہلے مَیں سوچتی تھی کہ عورتوں کو علیحدہ رکھ کر عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے لیکن عورتوں کے ساتھ سارا دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ عورتوں کی آزادی زیادہ بہتر رنگ میں قائم کی گئی ہے۔ ان کے اپنے انتظامات ہیں۔ عورتیں ہر وہ کام کر رہی ہیں جو مرد کرتے ہیں اور مردوں کی طرف سے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے۔ اگر مل جل کر کریں گی تو پھر مرد حاوی ہو تے جائیں گے۔ بلکہ کہنے لگیں میں نے تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو ذرا عجیب محسوس کیا تھا لیکن کچھ دیر کے بعد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں یہاں اس ماحول میں جہاں بالکل عورتیں ہی عورتیں ہیںزیادہ آزاد ہوں اور مَردوں کی نظروں سے بھی بچ رہی ہوں۔ بلکہ کہنے لگی مجھے اپنے چرچ میں اتنی عزت اور احترام کبھی نہیں ملا جتنا یہاں مل رہا ہے جو ایک دن احمدیوں کے ساتھ اور احمدی عورتوں کے ساتھ گزارنے سے مجھے ملا ہے۔ اور اسی طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔

                    پس کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا دین ہمیں کیا کہتا ہے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی ذاتی مسائل ہیں تو وہ تعلیم نہیں بلکہ اس کے گھریلو مسائل ہیں یا ماں باپ کی جہالت ہے جس کی وجہ سے بعض واقعات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ عورتوں سے نیک برتاؤ کرو، ان کے جذبات کا خیال رکھو۔ عورتوں سے عدل اور انصاف کا سلوک کرو۔ نکاح میں مہر عورت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے مقرر ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو دیا ہوا مال واپس لینے کی ممانعت ہے۔ نیکی کے اجر میں عورت مرد برابر ہیں، کوئی تخصیص نہیں۔ عورت کی کمائی میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے۔ گھر چلانے کی ذمہ داری مرد پر ہے نہ کہ عورت پر۔ پہلے زمانے میں بھی اور آج بھی بعض جگہ اگر بچیاں پیدا ہوتی رہیں تو لڑکی کی پیدائش پر مردوں اور ان کے خاندانوں کی طرف سے نامناسب رویے دکھائے جاتے ہیں۔ اسلام نے اس کی سختی سے مذمت کی ہے۔ غرض کہ بیشمار حکم ہیں۔ پس ہمیں یہاں کی آزادی دیکھ کر دیوانہ ہونے کی بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام نے کتنی آزادی دی ہے۔ اپنے دماغ کو استعمال کر کے سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے فوائد کتنے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عابدات اور قانتات بنیں۔ اطاعت کرنے والیاں بنیں اور دین کو دنیا پر مقدم کر کے زمانے کے امام کے کام میں معاون و مددگار بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں