خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ بنگلہ دیش 08فروری2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ جلسہ کیا ہے؟ یقینا مقررین نے اور شاید افتتاح کرنے والے نے آپ کو بتایا ہو گا۔ بلکہ ہر سال ہی بتایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسوں کے انعقاد کا مقصد کوئی دنیاوی مقصد نہیں تھا بلکہ اپنی جماعت کے افراد کے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنا مقصد تھا۔ انہیں اس بات کی تربیت دینا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف ایک حقیقی مومن بن کر کوشش کرو اور توجہ دو۔ افرادِ جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلانا اور پھر وہ معیار حاصل کرنا تھا جن سے ہم اپنے بھائیوں کے حق بہترین رنگ میں ادا کر سکیں۔ اپنی علمی اور عملی اور روحانی تربیت کر کے انسانیت کوخدائے واحد کے دَر پر لانے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنا تھا۔ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وسیع تر رحمت کے مقام سے دنیا کو آشنا کروا کر آپؐ کی غلامی میں دنیا کو لانے کی منصوبہ بندی کرنا تھا۔ مجھے امید ہے کہ ان باتوں کو آپ نے جلسہ کے دنوں میں سیکھا ہو گا اور اس پر بھر پور رنگ میں عمل کر کے جہاں اپنی زندگیاں آپ سنواریں گے وہاں اپنے ماحول کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کریں گے۔

                    آج ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے بھی اور غیر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام کو نہیں سمجھتے۔ اپنوں کے غلط عمل نے غیر مسلموں کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی غلط تصویر دکھائی ہے جس سے مخالفین اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا ہے بلکہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بیہودگی کی انتہا تک بڑھ جانے کا موقع ملا ہے۔ اس صورتحال میں احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ ہر جگہ، ہر حلقے اور ہر طبقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پرچار کریں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ دنیا کو دکھائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ ہمارا آقا تو رحمۃٌ للعالَمین تھا۔ وہ تو دنیا کو وہ تعلیم دینے آیا تھا جس نے مُردوں کو زندہ کرنا تھا، نہ کہ زندوں کی بلا وجہ گردنیں اڑانا۔ وہ تو اس خدا کی طرف سے آخری اور کامل شریعت لے کر آیا تھا جو ہر وقت ہمیں خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے جلووں کو دکھاتی ہے۔ وہ تو ہمیں اس خدا کا پتا دینے آیا تھا جس نے قرآن کریم میں اعلان کیا کہ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء ٍ(الاعراف:157) یعنی اور میری رحمت وہ ہے جو ہر چیز پر جاری ہے۔ جو رحمان اور رحیم خدا ہے۔ پس ہر احمدی یہ اعلان کرے، دنیا کو بتائے کہ اے اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرنے والو! اور دنیا کو یہ تاثر دینے والو کہ اسلام شدّت پسندی کی تعلیم دیتا ہے اور اے اسلام کے خلاف غلط تاثر قائم کرنے والو کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہے۔ آؤ ہم تمہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حُسن دکھائیں۔ آؤ ہم تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانیت کے درد میں فنا ہونے کے نظارے دکھائیں۔ یہ کام آج صرف احمدی ہی کر سکتا ہے۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا ہے، جس نے اسلام کی تعلیم کی حقیقت زمانے کے امام سے سیکھی ہے۔

                    پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی پیرو اور آپ کے دست راست بننے کے لئے جو کچھ جلسے کے دنوں میں سیکھا ہے اس کو بھی جذب کر کے اپنے عمل میں ڈھالیں اور پھر مستقل اپنے علم و عمل کی استعدادوں کو بڑھاتے بھی رہیں۔ اپنی اس خوش قسمتی پر کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق دی اس کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو پہچانیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کا نام اس لئے احمدی رکھا کہ یہ دَور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی نام احمدؐ کے اظہار کا دَور ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد2 صفحہ208۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

 اس زمانے میں مذہبی جنگیں اسلام پر ٹھونسی نہیں جا رہیں۔ اس لئے اس دَور میں احمدؐ کے نام کا جلوہ ہونا ضروری ہے۔ تلوار کے جہاد کی اسلام نے اس وقت اجازت دی جب اسلام کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائی گئی۔ یہ موجودہ دَور اس جہاد کا دَور ہے جس میں میڈیا کو استعمال کر کے ہم نے اسلام کی خوبصورتی اور حسن سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ کیونکہ یہی وہ ہتھیار ہے جو اسلام کے خلاف آجکل استعمال ہو رہا ہے۔

                    پس نہ کوئی دہشتگرد تنظیم اس زمانے میں اسلام کی خدمت کا حق ادا کر سکتی ہے، نہ ہی کوئی مسلمان حکومت اس سوچ کے ساتھ میدان میں آ کر کامیاب ہو سکتی ہے کہ ہم نے زبردستی اسلام لاگُو کرنا ہے۔ پس یہ دَور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق احمد کا جمالی دَور ہے۔ اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے احمد بنا کر بھیجا ہے اس نے ہی اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے۔ پس اپنی اس خوش قسمتی سے زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور غلام صادق سے جوڑ دیا ہے اور اس کا فیض اس وقت اٹھا سکتے ہیں جب ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی اور بسر کرنے کی کوشش کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں حقیقی احمدی مسلمان بنانے کے لئے بیشمار نصائح فرمائی ہیں جن پر عمل جہاں ہماری زندگیوں میں پاک تبدیلی لانے کا باعث ہو گا وہاں دنیا میں انقلاب لانے کا بھی موجب بنے گا۔ دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم بتانے کا باعث بنے گا۔ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:

                    ’’خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(الشمس: 11-10) جس کا مطلب یہ ہے کہ نجات پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب و خاسر ہو گیا وہ شخص جو اس سے محروم رہا۔ اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے۔ سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے۔ اور‘‘ (اس تیاری کی شرط آپ نے یہ بتائی کہ) ’’جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وحدہٗ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہئے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے۔ اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ72-73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     آپ نے فرمایا کہ بہت سے ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے نہیں بنتے جس طرح بننا چاہئے اور نہ ہی مخلوق کے حق ادا کرتے ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد10 صفحہ73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     ہم جائزہ لیں تو صاف پتا چل جاتا ہے کہ یہ بالکل حق ہے۔ جہاں کسی کا ذاتی مفاد آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور بندوں کے حقوق بھی پیچھے چلے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ:

                    ’’ بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’ کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد10 صفحہ73۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                    پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر نہ صرف اپنی اصلاح کا عہد کیا ہے بلکہ دنیا کی بھی اصلاح کرنے اور اسے اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچانے کا عہد کیا ہے۔ اگر ہم اپنے عملوں کو تعلیم کے مطابق نہیں ڈھالیں گے، اگر اپنا تزکیہ نہیں کریں گے تو دنیا کو کیا دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے عہد تو پورے نہیں کر رہے تو دوسروں کو کس منہ سے کہیں گے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرو۔ اگر ہمارے دل کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوں گے تو ہمارے کام میں برکت کس طرح پڑے گی۔ پس ہر احمدی چاہے وہ عہدیدار ہے یا ایک فرد جماعت ہے آپس میں بھائی چارے اور محبت کو بڑھائے۔ ہم نہ کوئی سیاسی جماعت ہیں نہ کسی دنیاوی عزت و حکومت کو حاصل کرنا ہمارے مقاصد ہیں۔ دنیاداروں کی طرح ہم نہیں کہ وقت آنے پر دوسروں کو جھک کر سلام بھی کر لیں اور اس کا جھوٹا عزت و احترام بھی کر لیں اور جب وقت گزر جائے تو ہم تمام اخلاق کو بھول جائیں۔ ہم اس زمانے میں مسیح موعود کی وہ جماعت ہیں جس نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے۔ پس ہمیں اس حقیقی تزکیۂ نفس کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ سے بھی ملا دے اور اس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والا بنا دے۔ اگر یہ نہیں تو پھر ہم اپنے وعدے اور عہد میں جھوٹے ہوں گے۔ دنیا کا اصلاح کرنے کا ہمارا دعویٰ جھوٹا ہو گا اور اس طرح ہم دنیاداروں کی مخالفتوں کا بھی نشانہ بن رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لے رہے ہوں گے۔

                    پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اور اس معیار کے بارے میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ :

                    ’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی ان میں سے ہر ایک زکی نفس تھا اور ہر ایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کر دیا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو۔ سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے تھے۔ سو یاد رکھو اس جماعت کو بھی خدا تعالیٰ انہیں کے نمونے پر چلانا چاہتا ہے۔‘‘           (ملفوظات جلد10 صفحہ74۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                     آپ نے فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے…‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ بُرے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد10 صفحہ137۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

  پس یہ بات ہر احمدی کو سامنے رکھنی چاہئے جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا کو ہم نے اسلام کی حقیقت سے آشکار کرنا ہے ۔ اس زمانے میں جبکہ بعض مسلمان گروہوں کے عمل سے دنیا اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اسلام کے خلاف جگہ جگہ پریس اور میڈیا بیہودہ باتیں اڑا رہا ہے۔ ہم نے مسیح محمدی کے نمائندے کے طور پر پیار اور محبت کے پیغام کو پھیلا کر اسلام کے خلاف بولنے والوں کے منہ بند کرنے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو بھی بتائیں کہ اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو نفرتوں کے بجائے ایک دوسرے سے محبت کے پیغام پھیلاؤ۔ نہ صرف پیغام کو پھیلاؤ بلکہ ایک دوسرے سے محبت کا عملی اظہار کرو۔

گزشتہ دنوں بلکہ کئی دنوں سے آپ کے ہاں بسوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایک جگہ حملہ ہوا اور کئی لوگوں کو بلا وجہ قتل کر دیا، شہید کر دیا گیا۔ یہ ظلم آجکل وہاں کئی جگہ ہو رہے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ کون سا اسلام ہے اور اپنے حقوق لینے کا یہ کون سا طریق ہے؟ پس یہ اپنے حقوق لینے کا بالکل غلط طریق ہے جس کی اسلام سختی سے مناہی کرتا ہے۔ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے امن پسند انسان محفوظ رہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ حدیث نمبر10)

                     بلکہ ایک جگہ مزید کھولا کہ تمام انسان محفوظ رہیں۔

(سنن النسائی کتاب الایمان و شرائعہ باب صفۃ المؤمن حدیث نمبر4995)

                     لیکن اس کے برعکس دوسرے انسان تو ایک طرف رہے مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پس بسوں پر حملے یا کسی بھی قسم کے حملے کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آج ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ہم قوموں کو اس ظلم اور بربریت سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ اور یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے ہم قوموں کا حق بھی ادا کر رہے ہوں گے اور حقیقی رنگ میں اسلام کی تعلیم پھیلانے اور غیر مسلموں کے دماغوں سے اسلام کے خلاف غلط باتوں کو نکالنے کا بھی حق ادا کر رہے ہوں گے۔ یہ تو ایک طریق ہے اور ایک قسم کا حق ہے جو آپ نے دوسروں کا ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بیشمار اور حقوق ہیں جو ایک حقیقی مسلمان کے ذمہ ہیں اور جن کا ادا کرنا ایک مسلمان پر فرض ہے اور سب سے بڑھ کر احمدی مسلمان پر فرض ہے کہ اس نے زمانے کے امام کو مان کر یہ عہد کیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کروں گا۔ پس ان حقوق کی تلاش کر کے انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں کہ جب آپ یہ حقوق ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی پائیں گے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بھی بنیں گے۔

ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

                    ’’اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اورنازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہئے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لئے سعی کی جاوے‘‘ دشمن کی تخریب اور بربادی کے لئے سعی کی جاوے۔’’ پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے ، افتراء کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا۔ اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔‘‘ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کئے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں۔ اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہوں…‘‘ پس تمام ذاتی دشمنیوں کو بھلا دو۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

                    ’’ یہ امور ہیں جو تزکیہ نفس سے متعلق ہیں۔ کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لئے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علی ؓ نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی؟‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ104-105 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                    پس ہماری اگر کوئی دشمنی یا مخالفت ہے تو صرف خدا تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہئے، نہ کہ کسی ذات کی وجہ سے اور نہ کسی سیاسی مقاصد کی وجہ سے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب حقوق العباد کی ادائیگی کے ان معیاروں کو حاصل کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی رضا کو بھی حاصل کرنے والے ہوں اور دنیا میں خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ اور اسی بات کی اس وقت دنیا کو ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اپنے فضل سے ہمیں آپ کے پیغام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ دنیا میں حقیقی امن اُس وقت قائم ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دونوں قسم کے حقوق ادا کئے جائیں۔ اس کے بغیر دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں۔ ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا اور یہی حوصلہ ہے جو ہمیں ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا۔اور یہی حوصلہ ہے جو ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے والا بنائے گا۔ اور یہی حوصلہ ہے جو ہمیں دنیا میں امن قائم کرنے والا بنائے گا۔ اور یہی حوصلہ ہے جس سے دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے، ورنہ دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والا بنائے۔ یہ جلسہ آپ لوگوں کی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا ہو۔

اب ہم دعا کریں گے۔ جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں اپنے ملک کے لئے بھی دعا کریں۔ خدا تعالیٰ اسے ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچائے۔ جیسا کہ میں نے کہا آجکل آپ بھی ان فتنوں اور فسادوں میں بہت زیادہ مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیڈروں اور مفاد پرست عناصر کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ مسلمان اُمّہ کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اسے بھی عقل دے اور بہت سے مسلمان ممالک میں جو فساد برپا ہے اللہ تعالیٰ اسے ختم فرمائے۔ دنیا کے عمومی امن کے لئے بھی بہت دعا کریں اللہ تعالیٰ اسے اس خوفناک تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے گھروں میں خیریت سے لے کر جائے اور ہمیشہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور ملک کی ترقی میں آپ ہمیشہ مثبت کردار ادا کرنے والے ہوں۔

                     اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں