خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع جلسہ سالا نہ یوکے14اگست2016ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ۔ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل:91)
اس آیت کے پہلے حصے میں جو مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے امن و سکون اور سلامتی کے لئے اور تباہی سے بچنے کے لئے تین بنیادی باتیں فرمائی ہیں۔ یعنی عدل اوراحسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ۔ یہی باتیں ہیں جو ماضی میں بھی دنیا کے امن اور دنیا کی سلامتی کے لئے ضمانت تھیں۔ آج بھی یہی باتیں دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے ضمانت ہیں اور آئندہ بھی یہی چیزیں ہیں جو دنیا کے امن، سکون اور سلامتی کی ضمانت بنیں گی۔
اس آیت کا مضمون میں نے گزشتہ سال بھی جلسہ کی آخری تقریر میں بیان کیا تھا اور عمومی طور پر دنیاداروں کے اس الزام کا ردّ کیا تھا کہ مذہب دنیا کے فتنہ و فساد کی وجہ ہے۔ عام دنیا دار اپنے مفروضے کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ فساد ان ملکوں میں ہے جو دین اور مذہب کے ساتھ منسلک ہیں یا مذہب کے ساتھ منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس میں اوّل نمبر پر مسلمان ممالک ہیں۔ گویا مذہب مخالف طاقتوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ اصل میں اسلام ایسا مذہب ہے جو دنیا کے امن کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اور پھر آجکل نام نہاد اسلامی تنظیمیں غیر مسلم ممالک میں بھی جو دہشتگردی اور شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اسلام کے نام پر جو قتل و غارت گری کر رہی ہیں اس سے مذہب مخالف یا مذہب سے لاتعلق یا اسلام مخالف طبقے کے خیالات کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ مذہب ہی دنیا کے فساد کی جڑ ہے اور مذاہب میں اسلام اس فتنہ و فساد میں نعوذ باللہ خدا نخواستہ اوّل نمبر پر ہے۔ دوسرے مذاہب میں عیسائیت ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد اعداد و شمار کے لحاظ سے تو سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن عملاً عیسائیت سے تعلق رکھنے والے یا منسوب ہونے والے جو ہیں ان کی اکثریت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسّی فیصد کے قریب عیسائیت سے لاتعلق ہے۔ صرف نام کے عیسائی ہیں یا مذہب سے انکاری ہیں۔ تو بہرحال یہ ایک المیہ ہے کہ ان نام نہاد مسلمان گروہوں کے عمل سے اسلام کے خلاف لوگوں کو، اسلام مخالف طاقتوں کو انگلی اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن شدت پسند لوگوں کا یہ عمل بہرحال اس بات کا ثبوت نہیں بن جاتا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کی وجہ سے دنیا کا امن و سکون برباد ہو رہا ہے۔
مَیں نے گزشتہ سال بھی یہ بات بیان کی تھی کہ دین اور مذہب میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور امن و سکون بھی برباد ہوتا ہے۔ مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ گویا دوسرے لفظوں میں انسان کے اپنے اختراع کردہ اصولوں اور دین سے دور جانے کی وجہ سے، خودساختہ تفسیروں اور تشریحات سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور بظاہر دین اور مذہب فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور یہ حالات بعض دفعہ پیدا بھی ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ نہیں بلکہ ہر زمانے میں پیدا ہوتے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے لئے اپنے فرستادے بھیجتا ہے جو دنیاکی اصلاح کرتے ہیں۔ بیشک ہم مسلمان یہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری شرعی نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام کمالات نبوت ختم ہو گئے ہیں اور آپ خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اور اس کی تعلیم اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تعلیم ہے اور آئندہ قیامت تک کے مسائل اور معاملات اور علم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو سمجھنے کے لئے اور اس کی تشریح اور تفسیر اور وضاحت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس شخص کو بھیجا ہے جس نے دین کی تجدید کرنی تھی۔ جس نے قرآن کریم کی تفسیر و تشریح میں غلط باتوں کو شامل ہو جانے کی درستی کرنی تھی۔ قرآن کریم نے ایسے حالات کا جب دنیا میں ہر جگہ فتنہ و فساد پیدا ہو جاتا ہے یوں نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:42) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا۔ یہ فساد کا برپا ہونا اور نمایاں ہونا اور خدا تعالیٰ کو بھلا دینا اور شرک میں مبتلا ہونا، ان لوگوں کا بھی مبتلا ہونا جو توحید کا اقرار بھی کرنے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو وہ لوگ تھے جو ظاہری مشرک بھی تھے اور وہ زمانہ فساد کے حساب سے عروج پر تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن کریم جیسی کامل اور مکمل کتاب اتاری جس نے اس فساد کو دور کیا۔ مخلوق کو اپنے خالق کے قدموں میں لا کر ڈالا اور وہ لوگ پیدا کئے جنہوں نے امن کے قائم کرنے اور سلامتی پھیلانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے نمونے قائم کئے۔ لیکن پھر اگلی نسلیں دین پر عمل کو بھول گئیں۔ تب جیسا کہ مَیں نے کہا اِس زمانے میں بھی خشکی اور تری کے فساد کو دور کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں کے دلوں کو پاک کرنے کے لئے، غیروں کو بھی توحید اور خدا تعالیٰ کے وجود کے راستے دکھانے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود اور مسیح موعود کو بھیجا جنہوں نے فرمایا کہ میں روحانی پانی ہوں جس کو استعمال کرو گے تو روحانیت میں ترقی کرو گے۔ امن اور سلامتی اور روحانی زندگی اب اسلامی تعلیم پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اس حقیقی تعلیم پر عمل کرنے سے وابستہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو حقیقی رنگ میں سمجھایا اور انہوں نے ہمیں آ کر بتایا۔ اس حقیقی اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے، جو ہر زمانے کے لئے زندہ تعلیم ہے، جس کی خوبصورتی اور نکھار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے علم اور رہنمائی پا کر بیان کر رہا ہوں۔
پس ہم احمدی تو وہ ہیں جنہوں نے اس آواز کو سنا اور آپ کے علم کلام اور علم قرآن سے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو سمجھا جو انسانیت کی روحانی اور جسمانی بقا اور امن و سلامتی اور محبت و بھائی چارے اور عدل وانصاف کی ضامن ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا گزشتہ سال میں نے عدل و احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کے مضمون کو عمومی طور پر بیان کیا تھا اور اس ضمن میں اسلامی تعلیم کی چند باتیں بتائی تھیں۔ آج میں اسلامی تعلیم کے بارے میں کچھ اور باتیں بیان کروں گا کہ اسلام ہر طبقے اور ہر سطح پر امن و سلامتی، عدل اور انصاف اور محبت اور پیار اور حقوق کی ادائیگی کو کس طرح دیکھتا ہے اور ان کے قائم کرنے کے لئے کیا حکم دیتا ہے۔
قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق عدل اس وقت قائم ہوتا ہے جب کامل انصاف ہو اور پھر امن و سلامتی اور معاشرے کے حقوق صرف عدل سے ہی قائم نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کا سلوک بھی کرو۔ انصاف سے بڑھ کر حسن سلوک کرو اور پھر حسن سلوک اور احسان کو صرف عارضی طور پر ہی قائم نہ کرو بلکہ ایتایٔ ذی القربیٰ کے معیار قائم کرو۔ یہ وہ معیار ہے جہاںحقوق العباد کی ادائیگی کی معراج انسانوں کے معاملات میں قائم ہوتی ہے۔ ایتایٔ ذی القربیٰ یہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں جیسا سلوک لوگوں سے رکھنا۔ پس جب یہ جذبات اور احساسات ہیں انسانیت کے لئے جو کسی کے دل میں جب قائم ہو جائیں تو کیا اس سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ دنیا کے امن و سکون کو برباد کرنے اور نفرتیں پھیلانے اور فتنہ و فساد کرنے کے عمل اس سے سرزد ہوں گے۔ یقینا اس کا جواب یہی ہے کہ نہیں۔
اس کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے کہ جس سے معاشرے کے ہر طبقہ میں امن و سکون پیدا ہو اور اس کو کس طرح پیدا کرنا ہے۔ معاشرے میں امن وسکون بھی پیدا ہو اور عدل و انصاف بھی قائم ہو جس سے احسان کے معیار بھی بلند ہوں۔ جس سے بے غرض تعلق کے معیاروں کا پتا چلے جس کا حصول گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر سطح سے گزرتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اس کو ہم قرآن کریم کی تعلیم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ انسان پر خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے جو اس کی پرورش میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓااِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل:24۔25) اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرواور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کے پرجھکا دے اور کہہ کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
اس قرآنی حکم میں عدل، احسان اور احسان سے بڑھ کر سلوک کا ایک ایسا حکم ہے جو نسلوں تک کے لئے عدل، احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کی ضمانت بنتا چلا جاتا ہے۔
اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد ہی فتنہ و فساد ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق جوڑو، میری عبادت کرو اور اس حق کو ادا کرنے کی معراج بھی تم اس وقت حاصل کرو گے جب حقوق العباد کی طرف توجہ ہو گی اور اس کے لئے قدم بقدم رہنمائی بھی فرمائی۔ اور اس کے لئے ابتدا والدین سے حسن سلوک سے شروع کی۔ والدین سے حسن سلوک کرو گے، ان کا مقام ان کو دو گے، ان کی عزت و احترام کرو گے، ان کے لئے عدل کے معیار تب قائم ہوں گے جب تم اس بات پر قائم ہو گے کہ والدین سے احسان کا سلوک کرنا ہے۔ ان کے بڑھاپے میں ان کا خیال رکھنا ہے۔ ان کی سخت بات سن کر بھی ان سے سختی سے کلام نہیں کرنا۔ پھر فرمایا کہ ان سے سختی سے بات نہ کر کے اور ان کی ڈانٹ سن کر خاموش رہنے سے تم نے ان کا حق ادا نہیں کر دیا۔ یہ تو والدین سے عدل کا ایک بنیادی خُلق ہے۔ اس کے بغیر تو تمہاری انسانیت ہی محلّ نظر ہو جاتی ہے۔ والدین کے احسان کا تو اوّل بدلہ نہیں اتار سکتے اور اگر کوئی چیز والدین سے احسان کا درجہ رکھ سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کی تمام تر سختیوں اور ناروا سلوک کے باوجود اس بات پر تم نے عمل کرنا ہے کہ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ ان کو نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھو کہ :
’’انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمّات کا متکفل ہوتاہے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 13۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) یعنی ماں جب بچے کی خدمت کر رہی ہوتی ہے تو باپ بھی ماں کی اور بچے کی ضروریات کا خیال رکھنے والا ہے۔ اور ماں کو بچے کی خدمت کے لئے آزاد کرتا ہے۔ پس والدین کے اس احسان کو یاد رکھو جو انہوں نے بچے سے فطری محبت کے تحت اس وقت کیا جب بچہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس محبت کو پھر خدا تعالیٰ کے حق اور اس کے احسان کی طرف منسوب کیا ہے کہ ماں باپ کے دل میں یہ محبت خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے جو انہوں نے احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کا یہ نمونہ دکھایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی محبت پہلے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کر دی۔
پھر والدین کے حق کے بارے میں ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف قول کریم تک ہی محدود نہیں رہنا بلکہ اپنے عملی نمونے خدمت کے دکھانے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ۔ ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پر جھکا۔ ان کی عاجزی سے خدمت کر۔ ان کے بڑھاپے میں ان کو یہ نہ احساس ہونے دے کہ یہ ہم پر بوجھ ہیں۔ پس یہ رحم اور عاجزی سے ان کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا والدین کے ساتھ ایتایٔ ذی القربیٰ کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم اپنے ماں باپ کا احسان اتار ہی نہیں سکتے۔(صحیح مسلم کتاب العتق باب فضل عتق الوالد۔ حدیث 3690)
پھر والدین کے لئے نیک جذبات اور ان کی خدمات جو انہوں نے بچوں کے لئے کی ہیں ہمیشہ کے لئے یاد رکھنے کے لئے یہ دعا سکھائی کہ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا کہ ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے میرے پر رحم کیا۔ اس رحم میں والدین نے پرورش کا حق بھی ادا کیا اور تربیت کا حق بھی ادا کیا۔
آجکل کی دنیا اس حق کو بھلا بیٹھی ہے۔ اس دنیا میں بچے ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی مصروفیت کے نام پر ماں باپ کی خدمت کرنے کا تو سوال علیحدہ رہا انہیں روزانہ ملنے کے لئے بھی روادار نہیں ہوتے۔ جتنے یہ لوگ اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اتنے ہی بنیادی اخلاق و فرائض کی ادائیگی سے دُور چلے گئے ہیں۔ ماں باپ کو بوڑھوں کے ہوسٹلوں میں داخل کروا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے ماں باپ کی بڑی خدمت کی ہے۔ گزشتہ دنوں جاپان میں خبر تھی کہ ایک سر پھرے نے بوڑھوں کے ہوسٹل پر حملہ کر کے کئی بوڑھوں کو قتل کر دیا۔ وہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ بچے خیال نہیں رکھتے۔ اس قاتل نے بعد میں یہ کہا کہ یہ بوڑھے اس حالت میں تھے کہ میں نے بہتر سمجھا کہ ان کی زندگی ختم کر دی جائے۔ گویا کہ بچوں نے عدل سے کام لیتے ہوئے ماں باپ کو بوڑھوں کے گھر میں د اخل کروایا اور اس سر پھرے نے اُن پر احسان کرتے ہوئے ان کو جان سے مار دیا۔ یہ ہیں ان کے عدل اور احسان کے نمونے۔ یہ لوگ ہیں جو اسلام کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔
والدین سے سلوک کی اسلام میں مثالیں کیا ہیں؟ ماں باپ کے حقوق اسلام کس طرح قائم کرتا ہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کی مجلس میں تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے کہ مٹی میں ملے اس کی ناک۔ یعنی رسوا اور ذلیل ہو گیا وہ بدقسمت۔ اور بدبخت ہے وہ شخص۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! کون ہے وہ شخص جس کی بات آپ فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑا بدقسمت ہے وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب رغم انف من ادرک ابویہ … الخ۔ حدیث 6405)
پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کا حق بیٹے پر یوں فرمایا۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک بیٹا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا باپ میری جائیداد کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے۔ میرے باپ کو منع کریں کہ میرے معاملات اور میری جائیداد میں دخل نہ دے۔ باپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ باپ نے عربی کے کچھ شعر پڑھے۔ اس کی آنکھوں میں بڑا دکھ تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس کیا۔ ان شعروں کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ بچہ تھا اور اس کی ٹانگوں میں طاقت نہیں تھی کہ یہ چل سکے مَیں نے اسے گودوں میں اٹھایا اور جگہ جگہ لے کر گیا اور پھر جب یہ چھوٹا تھا اور اسے بھوک لگتی تھی اور اس میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ پاس پڑے ہوئے دودھ کو اٹھا کر پی لے۔ مَیں اسے دودھ پلایا کرتا تھا۔ باپ کہنے لگا یا رسول اللہ! اس کی کلائیاں کمزور تھیں ان میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ اپنا دفاع کر سکیں۔ یہ میری کلائیاں تھیں جنہوں نے اس کا دفاع کیا۔ میں نے اس کو تیر اندازی سکھائی۔ اب جب کہ یہ تیر اندازی سیکھ چکا ہے میرے پر ہی تیر چلا رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی یہ بات سن کر شدت جذبات سے مغلوب ہو کر بیٹے کے گریبان کو پکڑ کر فرمایا ’جا تُو بھی اور جو کچھ تیرا ہے وہ بھی تیرے باپ کا ہے‘۔
(المعجم الأوسط باب المیم من اسمہ محمد جلد 5 صفحہ 57 ۔حدیث 6570 دار الفکر 1999ء)
جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ ترقی یافتہ معاشرہ تو ماں باپ کو بوڑھوںکی رہائشگاہوں میں داخل کروا کر دنوں ان کی خبرگیری نہیں کرتے۔خدمت کا یہ حق تو ادا کیا کرنا ہے خبر گیری ہی نہیں ہوتی اور جوں جوں مادیت پرستی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں یہ احساسات، یہ اپنائیت، یہ خدمت کا جذبہ ان لوگوں میں بھی ختم ہوتا جا رہا ہے جو کچھ نہ کچھ خدمت کیا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں صرف غیر ہی نہیں انہیں مار رہے بلکہ یہ بوڑھے لوگ خود اپنی اس حالت کی وجہ سے خود کشیاں بھی کر رہے ہیں۔ یہاں بھی اخباروں میں خبریں آتی ہیں کہ کس طرح بوڑھوں کی رہائشوں میں ان سے سلوک ہوتا ہے اور بعض اس کی وجہ سے خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ بچے تو بے فکر ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے والدین کو بوڑھوں کی رہائش گاہ میں داخل کرا دیا لیکن جن کے سپرد یہ کام ہوتا ہے ان کے بارے میں بھی اخباروں میں آتا ہے کہ وہ بعض دفعہ بوڑھوں کو باندھ کر لٹا دیتے ہیں۔ بعضوں کے منہ تولیا سے باندھ کے بند کر دیتے ہیں کہ یہ ہمیں تنگ کرتے ہیں حالانکہ بوڑھوں کی خدمت کی ہی انہیں تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ یہ سنبھالنے والے اپنی تفریح کی خاطر فلمیں وغیرہ دیکھنے کے لئے بوڑھوں سے انتہائی ظالمانہ سلوک انہیں چپ کروانے کے لئے کرتے ہیں۔
پس یہ اسلام ہے جو والدین کے حقوق قائم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو جوڑ کر مومنین کو یہ توجہ دلا رہا ہے کہ تم نے اس حسن و احسان کے سلوک سے کبھی غافل نہیں ہونا بلکہ والدین کے مرنے کے بعد بھی ایتایٔ ذی القربیٰ کے حق کو قائم کرنا ہے۔
ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے ہیں انہیں پورا کرو۔ والدین نے وعدے کئے، ان کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا، فوت ہو گئے تو تم ان کے وہ وعدے پورے کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی کرو اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آؤ۔(سنن ابی داؤد کتاب النوم باب فی بر الوالدین۔ حدیث 5142)
اس حدیث میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ جو انہوں نے وعدے کسی سے کر رکھے ہیں انہیں پورا کرو، اس میں معاشرے کے امن و سکون اور عدل کے قیام کے لئے یہ نکتہ بھی بیان فرمایا کہ والدین کے قرضوں کی ادائیگی اور ان کے وعدوں کو پورا کرنا بھی اولاد کی ذمہ داری ہے۔ وہ لوگ جو باوجود وسعت ہونے کے پھر اس سے انکاری ہو جاتے ہیں انہیں اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔ قرآن کریم میں اور بھی آیات ہیں جو والدین کے ساتھ حسن سلوک اور انکے حق ادا کرنے کی طرف اس بات کے حوالے سے توجہ دلاتی ہیں کہ والدین کے تمہارے پر بے شمار احسانات ہیں ان کو ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے بہت بڑا فضل نیک اور خیال رکھنے والی اولاد ہے۔ پس جب نسلوں میں یہ حسن سلوک جاری ہو جائے تو عدل و انصاف اور پیارو محبت کا معاشرہ قائم ہو جاتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے صرف اولاد کو ہی پابند نہیں کیا بلکہ باوجود ماں باپ کے اپنے بچوں کے لئے بیشمار حسن سلوک کے ماں باپ کو بھی پابند کیا ہے کہ ان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی انہیں عدل و انصاف اور احسان کرنے والا بناتی ہیں۔ اس لئے اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی اس دعا اور خواہش کی طرف توجہ دلائی کہ اے اللہ مجھے پاک اولاد بخش۔ فرمایا رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً(آل عمران:39)۔ پس پاک اولاد کی خواہش اس لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والی ہو۔ نظام عدل کو قائم کرنے والی ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والی ہو۔ دنیا کے فتنہ و فساد کو دور کرنے والی ہو۔
پھر اس پر بس نہیں بلکہ یہ دعا کرتے رہنے کی تلقین فرمائی کہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ(الاحقاف:16)۔ اور میری اولاد میں نیکی قائم کر۔ پس دعا کے ساتھ عملاً بھی اس ذمہ داری کو نبھانا ہے کہ اولاد کی نیکی اور اصلاح کی طرف توجہ رہے ورنہ وہ عدل اور احسان اور ایتایٔ ذی القربیٰ کا جو نظام اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، جو حقوق کے مستقلاً قائم کرنے کی ضمانت ہے، لاگو نہیں ہو سکتا۔
اس حق کو جو اولاد کا والدین پر ہے کچھ تفصیل سے اس طرح ذکر فرمایا کہ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَادَھُمْ سَفَھًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَھُمُ اللّٰہُ افْتِرَآئً عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ۔(الانعام:141)یقینا بہت نقصان اٹھایا ان لوگوں نے جنہوں نے بیوقوفی سے بغیر کسی علم کے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور انہوں نے اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہوئے اس کو حرام قرار دے دیا جو اللہ نے ان کو رزق عطا کیا تھا۔ یقینا یہ لوگ گمراہ ہوئے اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔
پھر فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ(الانعام:152) کہ رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔
اب بتائیں کہ کیا کوئی ہے جو اولاد کو قتل کرتا ہے؟ ماں باپ تو اولاد کے لاڈ پیار میں بعض دفعہ اس حد تک غلو کرتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کے مقابلے پر بھی لے آتے ہیں۔ اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس لئے نیک اولاد اور صالح اولاد کی دعا بھی سکھا دی۔
قتل اولاد سے مراد ایک تو یہ ہے اور والدین کے لئے بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی اچھی تربیت ہو اور وہ سب سے پہلے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کو پہچانے بغیر، اس کی عبادت کا حق ادا کئے بغیر نہ ہی عدل قائم ہو سکتا ہے، نہ احسان کی طرف توجہ ہو سکتی ہے، نہ ایتایٔ ذی القربیٰ کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ مسلمان کہلا کر بھی جو مسلمان غیر اسلامی افعال میں ملوّث ہیں یہ اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کی نہ حقیقی پہچان انہوں نے کی ہے، نہ اس کی عبادت اور بندگی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ پس اولاد کی زندگی کے سامان والدین اس وقت کرتے ہیں جب انہیں حقیقی عبد بنانے کے لئے تربیت کرتے ہیں اور پھر ان کو معاشرے کے حق ادا کرنے والا بناتے ہیں۔ معاشرے کے امن و سکون کو قائم کرنے والا بناتے ہیں۔
پس یہ جو اسلام کے نام پر بلا وجہ قتل و غارت کر رہے ہیں اور خود کش حملے کر کے مر بھی رہے ہیں یہ بھی والدین کا بچوں کے معاملات میں عدم توجہگی اور عدم تربیت کا نتیجہ ہے۔ ماں باپ دولت کمانے کی دوڑ میں گھروں پر توجہ نہیں دیتے۔ عام دینی تربیت سے بھی بچے بے بہرہ ہیں۔ یہ سب قتلِ اولاد کے زمرہ میں آتا ہے۔ پھر جہاں اولاد کو حکم ہے کہ والدین کی خدمت کرو اس لئے کہ انہوں نے تمہیں بچپن میں پالا پوسا ہے تو اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ بیان فرمایا کہ باپ بچے کی خدمت کے لئے ماں کو آزاد کرتا ہے اور اس طرح باپ بھی ماں کی خدمت کی مہمات میں شامل ہوتا ہے تو اس میں یہ نکتہ بھی بیان ہو گیا کہ جو باپ اس حق کو ادا نہیں کر رہے اور گھروںمیں بیٹھے ہوئے ہیں اور ماؤں پر ہی ہر قسم کا بوجھ ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ماں باہر نوکری بھی کرتی ہے اور جو وقت میسر ہو اس میں بچے کو بھی پالتی ہے تو اس صورت میں باپ کا اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنا اور اس وجہ سے ماں کا بچے کی طرف کم توجہ دینا باپ کی طرف سے بچے کے قتل کے مترادف ہے۔ پس بچوںکو چاقو چھری بندوق اور پستول سے کوئی قتل نہیں کرتا۔ ان کی تربیت کی طرف توجہ نہ دینا ان کے قتل کے برابر ہے۔
پھر اس زمانے میں حکومتوں کی پالیسیاں اور قانون بنانے والے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عقل بڑی اعلیٰ مقام پر پہنچی ہوئی ہے اور بڑی اچھی قانون سازی کر سکتی ہے اور جو یہ قانون سازی کر لیں وہ وقت کا بہترین حل ہے اور اس وجہ سے یہ قانون بناتے ہیں اور اس پر بڑا زعم ہوتا ہے ۔ انہوں نے اکثر ملکوں میں قانون بنایا کہ بچے زیادہ نہ پیدا ہوں اور اس کے بعض دفعہ ایسے بھیانک حالات سامنے آتے ہیں کہ حکومت کے خوف سے بچے کو پیدائش کے بعد بعض لوگوں نے قتل کر دیا یا بچہ کو پیدائش سے پہلے ہی ضائع کروا دیا۔ حکومتوں نے یہ پالیسی اس لئے بنائی کہ زیادہ بچے ان کی معیشت کی ترقی پراثراندازہوں گے۔ لیکن بیس تیس سال گزرنے کے بعد انہی ملکوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ پالیسی غلط تھی کیونکہ عمریں بڑھنے اور موت کی شرح کم ہونے کی وجہ سے بوڑھوںکی تعداد زیادہ ہو گئی ہے اس لئے ہماری معیشت پر بوڑھوں کا بوجھ زیادہ ہوگیا ہے اور کام کرنے والوں کی کمی ہو گئی ہے۔ اس لئے اب ہمیں بچے پیدا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ورنہ لیبر فورس کے لئے دوسروں کا مرہون منت ہونا پڑے گا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں دخل اندازی اور اپنی لاعلمی اور رزق کے خوف سے اولاد کا قتل معاشرتی اور قومی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ کے نظام عدل کے مطابق چلو۔ اس لئے وہ بھی جو دولت کمانے کے لئے اپنی اولاد کو نظر انداز کر رہے ہیں اور وہ بھی جو فیملی پلاننگ رزق کے خوف سے کر رہے ہیں ان کو سوچنا چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے نظام عدل سے بغاوت کرتے ہوئے جو غیر فطری شادیوں کے قانون یہاں ان لوگوں نے بنا لئے ہیں اب ہر ملک اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ہم جنسوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں یہ غیر فطری شادیاں ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے اثرات ایک علیحدہ خوفناک نتیجہ ظاہر کریں گے تب ان کو پتا لگے گا۔ چند سالوں بعد اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے اور پھر یہ لوگ اپنا سر پیٹیں گے اور اس ذریعہ سے یہ نہ صرف ممکنہ اولاد قتل کر رہے ہیں بلکہ قومی تباہی کے سامان بھی کر رہے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اولاد سے سلوک میں بھی عدل کرو اور جو یہ عدل نہیں کرتے وہ دیکھ لیتے ہیں کہ بھائیوں بھائیوں اور بہنوں بہنوں میں والدین کے بعد رنجشیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں ہم یہ دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر جب جائیداد کے معاملے میں انصاف نہ کیا گیا ہو۔ اس لئے روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد سے انصاف اور مساوات کا سلوک کرو۔ (صحیح مسلم کتاب الھبات باب کراھیۃ تفضیل بعض الاولاد فی الھبۃ۔حدیث 4072)
ایک دفعہ جب ایک باپ نے اپنے ایک بیٹے کو اپنی ایک جائیداد ہبہ کرنی چاہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ گویا تم مجھے اس پر گواہ بنانا چاہتے ہو۔ میں ہرگز تمہارے اس ظلم کی حمایت کر کے گواہ نہیں بن سکتا۔(صحیح مسلم کتاب الھبات باب کراھیۃ تفضیل بعض الاولاد فی الھبۃ ۔حدیث 4073)
پس جب کوئی اپنی اولاد میں سے کسی پر دوسری اولاد کی نسبت برابری کا سلوک نہیں کرتا اور کسی دوسری اولاد پر احسان کرنا چاہتا ہے اور ایک کو محروم کرنا چاہتا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ احسان نہیں کیونکہ احسان تو عدل کے بعد آتا ہے۔ جس نے عدل قائم نہیں کیا اور دوسری اولاد کو محروم رکھا اس کا احسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی نیکی کا درجہ نہیں رکھتا۔ اور یہ وہ اصول ہے جو گھروں میں بھی اور ایک معاشرے میں بھی امن اور سلامتی کی بنیاد ڈالتا ہے۔
پھر اسلام میاں بیوی کے تعلقات کی بات کرتا ہے۔ اگر گھروں میں امن و سکون نہ ہو اور میاں بیوی کے اختلافات ہوں تو یہ بھی بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں سے خُلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علیٰ زوجھا ۔حدیث 1162)
آپ کے اس ارشاد نے جہاں عورتوں اور بیویوں کا وقار قائم کیا ہے وہاں گھروں میں عدل، انصاف، احسان اور احسان سے بڑھ کر حسن سلوک کی بنیاد ڈالی ہے۔ یاد رکھیں میاں بیوی کے آپس کے پیار محبت کے تعلقات یا اختلافات صرف اس گھر تک محدود نہیں رہتے بلکہ دونوں طرف کے قرابت داروں، ماں باپ، بہن بھائی کے تعلقات اور امن اور سکون پر بھی یہ اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان تعلقات کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ :
’’یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیز ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں نہیں۔ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ۔ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اوراچھی معاشرت نہیں وہ نیک کہاں‘‘۔فرمایا کہ ’’بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہواورعمدہ معاشرت رکھتا ہو‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 147-148۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) فرمایا کہ : ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خُلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے۔ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 1۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اسلام کے معاشرے کے ایک اور طبقے کے حقوق قائم کرنے کی تعلیم ہے جو معاشرتی تحفظ کے لحاظ سے کمزور طبقہ ہے یعنی یتامیٰ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ (النساء:128)۔ اور تم یتیموں کے حق میں انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ اور پھر جب تمام معاشرے کے مختلف طبقوں کے حقوق قائم فرمائے اور احسان کا سلوک کرنے کا حکم دیا تو اس میں یتامیٰ اور مسکینوں کو بھی شامل کیا۔ فرماتا ہے۔ وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔اِنَّ ا للّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (النساء:37)کہ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرا ؤاور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اورشیخی بگھارنے والا ہو۔
پہلے فرمایا کہ یتیموں کے حق میں انصاف کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ پھر فرمایا کہ جب والدین سے احسان کا حکم ہے سو درجہ بدرجہ یہ احسان کا حکم یتیموں اور مسکینوں پر بھی حاوی ہے بلکہ رشتہ دار ہمسایوں اور دوسرے ہمسایوں سے یتیموں اور مسکینوں کو پہلے رکھا ہے۔ اور ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس تواتر اور شدت سے یہ حق قائم کرنے کے بارے میں حکم ہوا کہ مجھے خیال ہوا کہ انہیں وراثت میں بھی شاید حق دار نہ بنا دیا جائے۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب الوصاۃ بالجار۔ حدیث 6014)
پس یتیموں کے حق کا اس سے پتا چلتا ہے کہ کتنا بڑا حق ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ ان پر رحم کرتے ہوئے انہیں دو، اُن کا خیال رکھو۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے حق قائم کرنے کے لئے انصاف کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہو جاؤ۔ پس انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو معاشرے میں ایسا مقام ملے جو ان کے یتیمی کے غم کو دورکر دے اور یہ من حیث الجموع معاشرے کی ذمہ داری تو ہے ہی، انفرادی طور پر بھی اگر تم ان کو اپنا حصہ دار بنا لو تویہ ان لوگوں کے ساتھ قریبیوں کی طرح سلوک کے برابر ہو جائے گا اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے والے ہو گے۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جنہیں ابتلا میں ڈالا یا سزا دی ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک کیا اس کی ایک وجہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ(الفجر:18)خبردار تم یتیم کی عزت نہیں کرتے تھے اس وجہ سے سزا کے مورد بنے۔
یتیم کے ساتھ حسن و احسان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں جوڑی جاتی ہیں۔ آپ نے شہادت کی انگلی کو اور درمیانی انگلی کو جوڑ کر بتایا۔(سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ الیتیم و کفالتہ حدیث 1918) پس یہ معاشرے کے محروم ترین طبقے کے ساتھ اسلام کی تعلیم ہے۔
پھر یتیم کے حوالے سے سورۃ نساء کی جو آیت ابھی مَیںنے پڑھی ہے اس میں معاشرے کے ہر طبقے کا ذکر ہے اور یہی چیز ہے جو ہر طبقے کے ساتھ عدل احسان اور قریبیوں کی طرح سلوک کو اپنے اعلیٰ معیاروں تک لے جا کر معاشرے کا امن و سکون قائم کرتی ہے۔
پھر عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے ایک حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ بعض یتامیٰ تو غریب اور مسکین اور محروم ہیں لیکن بعض امیروںکی اولاد بھی یتیم ہوتی ہے اور ان کی دولت پر لالچی لوگ قبضہ بھی کر لیتے ہیں یا قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بھی حقوق قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کی بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک ان کے مال کی حفاظت کرنا جو اس یتیم کا نگران مقرر کیا گیا ہے، جو اس کی نگرانی کر رہا ہے اس کا فرض ہے۔ اس کا قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر ہے۔ سورۃ الانعام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۔ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی۔وَبِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔(الانعام:153)اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ اور جب بھی تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو۔ یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
پھر کاروبار میں، ماپ تو ل میں عدل و احسان کی طرف توجہ دلائی کہ لین دین میں بھی کسی قسم کا دھوکہ نہ ہو۔
پھر یہ اصولی بات بھی کی کہ ایک مومن کی بات، ایک مومن کی گواہی، اگر وہ گواہی دے رہا ہے تو عدل اور انصاف پر منحصر ہونی چاہئے خواہ اس کی وجہ سے ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ متأثر ہوتا ہو۔ پس یہ انصاف کی معراج ہے اور یہ حکم اللہ تعالیٰ نے مختلف حوالوں سے قرآن کریم میں اور جگہ بھی بیان کیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ اصولی بات بیان فرمائی کہ عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر رشتہ سے بالا ہو کر سوچنا چاہئے۔ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں خود دھوکے دیتے ہیں اور اپنی گواہیوں اور فیصلوں کی بنیاد عدم انصاف پر رکھتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے اپنے عہد کو پورا کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا سخت حکم ہے کہ عدل اور انصاف سے اِدھر اُدھر بالکل نہیں ہونا۔
یہ اسلامی عدل اور انصاف اور حقوق کے قائم کرنے بلکہ حق سے بڑھ کر سلوک اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے اور امن اور سلامتی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کے، مَیں نے معاشرے کے مختلف طبقوںکے حوالے سے قرآن کریم کے چند احکامات پیش کئے ہیں۔
اب اس بارے میں چند باتیں پیش کرتا ہوں کہ قوموں کے درمیان اور قبیلوں کے درمیان سلوک کے کیا معیار ہیں اور ہونے چاہئیں اور کیا تقاضے ہیں اور پھر بین الاقوامی امن قائم کرنے اور عدل و انصاف کے قیام کی اسلام کی کیا بنیادی تعلیم ہے۔ اس بارے میں چند احکامات پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا۔اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات:14)اے لوگو! یقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اورہمیشہ باخبر ہے۔
پس یہ تعلیم واضح کرتی ہے کہ اگر حقیقی عدل دنیا میں قائم کرنا ہے تو نسل پرستی کی ہر صورت کو ختم کرنا ہو گا۔ بیشک قومیں اور قبائل تو پہچان کے لئے ہیں اور رہیں گی لیکن اس بنیاد پر کسی کو کسی پربرتری حاصل نہیں ہو سکتی۔اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہاری برتری کسی بات پر ہو سکتی ہے تو تمہاری نسل اور رنگ پر نہیں، تمہارے کسی خاص قوم کے ہونے میں نہیں بلکہ تقویٰ پر۔ اس بات پر کہ تم کس حد تک خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کر رہے ہو اور کس حد تک اس کی مخلوق کے حقوق ادا کر رہے ہو۔ مخلوق کے حقوق کی چند مثالیں مَیں پہلے پیش کر آیا ہوں۔ یہ آیت آپس کی محبت و پیار کے تعلقات اور برابری پیدا کرنے کے لئے ایک عظیم اعلان ہے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لئے ایک ایسی بنیاد ہے جس سے دنیا میں حقیقی امن و سلامتی اور عدل کا قیام ہو سکتا ہے۔ اس آیت نے اس غلط اور احمقانہ تصور کی نفی کی ہے اور اسے شدت سے ردّ کیا ہے کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر اس لئے برتری حاصل ہے کہ اس کی قوم بہتر ہے۔ پس قومی یا نسلی تکبر اسلام کے نزدیک نہ صرف کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اعلان کی ایک حقیقی مسلمان کی نظر میں وہ اہمیت ہے جو کسی اور چیز کی نہیں کہ تم عورت اور مرد کے ملاپ سے پیدا کئے گئے ہو اور اس لحاظ تم خدا تعالیٰ کی نظر میں برابر ہو چاہے وہ کسی یورپین مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ہوا ہے یا افریقن مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ہوا ہے یا ایشین کے یا جزائر کے رہنے والے سے پیدا ہوا ہے۔ انسان کا مقام اس کے جلد کے رنگ سے نہیں ہے یا دولت کی فراوانی سے نہیں ہے یا معاشرے میں اس کے بلند مقام سے نہیں ہے یا کسی خاص خاندان یا جو دنیادار ہیں انہوں نے کہا ہے کہ مارشل ریس ہیں وہ ان کے معیار نہیں ہیں بلکہ اس کے اخلاقی معیاروں کی برتری سے ہے۔ اور یہ وہ حقیقی معیار ہے جو دنیا میں محبت، بھائی چارہ اور عدل اور انصاف قائم کر سکتا ہے۔
اس کی نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ میں فرمائی تھی۔ یہ وہ الفاظ ہیں جنہوں نے نسلی اور قومی امتیاز کے خاتمہ اور عدل و انصاف پیدا کرنے کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور ایک دوسرے کے بارے میں احساس برتری یا احساس کمتری کے جذبات رکھنے کی جڑیں اکھیڑ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا۔ تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو۔ آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان کی انگلیاں ملا دیں۔( یوں کر کے) اور فرمایا جس طرح یہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں برابر ہیں تمام بنی نوع انسان برابر ہیں۔ تمہیں ایک دوسرے پر درجہ اور فضیلت ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 760 ، رجل من اصحاب النبیﷺ۔ حدیث 23885 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)
پس یہ ہے وہ عظیم اعلان جو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور صلح و امن پیداکرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور اعلان نہیں ہے۔ اسلام نسلی امتیاز کی نفی اور خاتمے کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھک کر اور اس کی بات مان کر ہی دنیا میں عدل و انصاف قائم کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان بھی اگر خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم پر چلیں گے تو انصاف اور امن قائم کر سکیں گے ورنہ اگر اس پر عمل نہیں کرتے اور ظلم و تعدی کے بازار گرم کرتے ہیں تو ان سے زیادہ گناہگار اور اپنے جرموں کی سزا بھگتنے والے اَور کوئی نہیں ہو گا۔ دوسرے جن تک خدا تعالیٰ کی تعلیم نہیں پہنچی ہے یا انہوں نے مانا نہیں ان کو تو کم سزا ملے گی، مسلمان پھر زیادہ گناہگار ٹھہریں گے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ جب نسلی برتری اور قومی برتری کا احساس پیدا ہوتاہے تو پھر انسان ایسی حرکتیں کرتا ہے اور اپنے سے کمتر سمجھنے والے سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے یا ایسے بیان دے دیتا ہے جو دوسرے کے جذبات کو انگیخت کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے ایسی باتوں سے اپنے آپ کو روکو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَانِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھَنَّ۔ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۔ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ۔وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(الحجرات: 12)اور اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم میں سے کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کا نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں ۔
قوموں قوموں کی اس حوالے سے جو مثالیں دنیا میں ملتی ہیں اور جن کی وجہ سے معاشرے کا اور دنیا کا امن تباہ ہو رہا ہے وہ تو ہے ہی لیکن اس زمانے میں یہ استہزاء اور حقیر رنگ میں مذہب کا بھی ذکر ہونے لگ گیا ہے۔ کسی کے مذہب پر خاص طور پر اسلام پر استہزاء کیا جاتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے پھر دنیا کا امن بھی تباہ ہو رہا ہے۔ ایسے لوگ جن کا نہ خدا پر یقین ہے، نہ مذہب پر اخباروںمیں اسلام کے بارے میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمسخرانہ رنگ میں یا کسی بھی طرح کوئی بات لکھ دیں گے یا خاکے بنا دیں گے اور پھر مسلمانوں کے ردّعمل کی وجہ سے جو بیشک اسلامی تعلیم کے مطابق غلط ردّعمل ہی ہو، معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ اب ان لکھنے والوں یا خاکے بنانے والوں سے کوئی پوچھے کہ تم نے کہاں سے اور کتنا اسلام کا مطالعہ کیا ہے جو تم اسلام پر اعتراض کر رہے ہو۔ جو بانیٔ اسلام اور قرآن کریم پر اعتراض کرتے ہو یا استہزاء کرتے ہو۔ یہ کونسا انصاف اور کون سا عدل ہے۔ ویسے تو ان کے بڑے دعوے ہیں۔ مسلمانوں پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنے عمل بھی تو دیکھیں۔ اگر چند گروہوں یا لوگوں کا اسلام کے نام پر غلط رویّہ ہے تو کیا غیر مسلموں کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کے اور ہم احمدی جو اسلام کی امن پسندی اور عدل پر مبنی تعلیم کا پرچار کرتے ہیں ہمارے دل بھی زخمی کریں صرف اس لئے کہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت یا ایشیائی ہے یا افریقی ممالک میں ہے۔
پس دنیا کے امن کے لئے ہمیں تو یہ انصاف پر مبنی تعلیم قرآن کریم نے دی ہے کہ نہ کسی پر قومی تمسخر کرنا ہے، نہ مذہبی تمسخر کرنا ہے، نہ بلا وجہ ایک دوسرے پر عیب لگانے ہیں، نہ کسی کے نام اور کردار کو بگاڑنے کی کوشش کرنی ہے۔ قرآن کریم تو ان جھگڑوں کو ختم کرنے اور امن کے قائم کرنے کے لئے یہاں تک کہتا ہے کہ بتوں کو پوجنے والوں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل سے بڑھ کر احسان کی کیا مثالیں قائم فرمائیں۔ ایک صحابی ایک یہودی کے یہ کہنے پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ سے افضل ہیں اور اس بات پر اس یہودی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت لے کر آنا کہ میرے جذبات کو ٹھیس لگی ہے اور آپؐ کا اس پر یہ ردّعمل دکھانا کہ صحابی کو بلایا اور فرمایا کہ کیونکہ یہ کہتے ہیں ہمارے جذبات کو ٹھیس لگی ہے یا اس کے جذبات کو ٹھیس لگی ہے، ان کو تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ان یہودیوں کے سامنے مجھے موسیٰ سے افضل نہ کہو۔ باوجود اس حقیقت کے کہ حضرت موسیٰ پر آپ کو فضیلت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم و الیھود۔ حدیث 2411)
پس یہ عمل ہیں جو عدل سے بڑھ کر احسان کے نمونے دکھاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ دنیا کا امن برباد نہ ہو۔ فسادوں کو ہوا دینے کی بجائے فسادوں کو دبایا جائے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا وہ اعلیٰ معیار ہے جو احسان کرتے ہوئے امن اور سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن جن کی اٹھان ہی اس تربیت کے ساتھ ہو رہی ہو کہ تمہاری آزادی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کو انسانوں نے غلط معنی پہنا کر دنیاکا امن برباد کر دیا ہؤا ہے۔ جب کہو کہ کسی کا تمسخر یا کسی کے بزرگ کا تمسخر اڑا کر یا کسی کے پیارے کا تمسخر اڑا کر تم دنیا میں فساد پیدا کرتے ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ برداشت ہونی چاہئے۔ حالانکہ ان کے اپنے بعض ایسے قوانین ہیں جو یہ روکتے ہیں کہ فلاں کام نہیں کرنا۔ اس وقت ان کی برداشت کہاں جاتی ہے۔ اور کہہ دیتے ہیں تم برداشت کرو ہم تو اس طرح ہی کرتے رہیں گے۔ بعض جگہ سکولوں میں استاد یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بچوں کے سامنے ان کے دین کا مذاق اڑایا جائے یا بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑاؤ اور ان کے دین کو برا کہو یا ایسے رنگ میں بات کرو جو مسلمان بچے کو بری لگے اور اگر مسلمان اس پر ردّ عمل دکھائے تو کہو کہ یہ شدت پسند ہے۔
پس ماحول کو ٹھیک کرنے کے لئے دونوں فریقوں کو کوشش کرنی ہو گی۔ مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے فتنہ اور فساد کو روکنے کے لئے عدل سے بڑھ کر احسان کرنا ہو گا اور غیر مسلموں کو، مقتدر لوگوں کو، حکومتوں کو کم از کم عدل کے معیار قائم کرنے ہوں گے تب دنیا سے فساد مٹ سکتے ہیں اور یہ جھگڑے جو ہیں اور جذبات کو انگیخت کرنے کی باتیں جو ہیں یہ اب چھوٹے جھگڑے جو تھے یہ بین الاقوامی جھگڑوں کی صورت میں بدلتے جا رہے ہیں۔ پہلے جب میں کہتا تھا کہ اس قسم کی باتیں اور عدل سے ہٹے ہوئے رویے جنگ کی طرف لے جارہے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ ایٹمی جنگ کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں تو ان کے اکثر حکومتی سربراہ اور تجزیہ نگار اور سیاستدان کہا کرتے تھے، آج بھی انہوں نے اظہار کیا کہ بڑی دُور کی کوڑیاں ملا رہا ہے، بڑی مایوس قسم کی باتیں کرتا ہے، ایسی بھی کوئی آفت نہیں آئی ہوئی کہ جنگ ہو جائے۔ اور اب خود یہ لوگ بیان دینے لگ گئے ہیں کہ ایٹمی جنگ ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیڈر کہتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم سرخ بٹن دبا دیں گے۔ یعنی ایٹمی حملہ شروع ہو سکتا ہے۔
لکھنے والوں کی مثال دیتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں ولیم جے پیری(William J Peri) جو کلنٹن حکومت میں ڈیفنس سیکرٹری ہوتے تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’ اے سٹارک نیو کلیئر وارننگ‘(A Stark Nuclear Warning) جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آج ایٹمی تباہی کا خطرہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جو ’ کولڈ وار‘ (Cold War) کے دوران تھا اور لوگوں کی اکثریت خوش فہمی میں پڑی ہوئی اس خطرے سے بے خبر ہے۔
اسی طرح نیویارک ٹائمز نے بھی لکھا اور اس طرح کے بہت سے تجزیہ نگار ایسی خبریں دینے لگ گئے ہیں۔ بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ جس خوش فہمی میں دنیا پہلے پڑی ہوئی تھی اب ان کو نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو گئی ہیں۔ اگر مسلمان ممالک اس کی وجہ بن رہے ہیں تو یہ بھی اسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے اور بڑی طاقتیں اس امن کو برباد کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ اگر بڑی طاقتیں عدل سے کام لیں تو یہ حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
قرآن کریم دنیا کی حکومتوں اور قوموں کے جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے کیسی عادلانہ اور منصفانہ تعلیم دیتا ہے۔ آجکل بین الاقوامی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے یہی تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰ ھُمَا عَلَی الْا ُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِاﷲِ۔ فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِا لْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا۔ اِنَّ ا ﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِِطِیْنَ (الحجرات:10) اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
یہاں بیشک مومنوں کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہے لیکن جو باتیں ہیں ہر عقلمند کہے گا کہ ایسی باتیں ہیں جو یقینا انصاف پر قائم رہتے ہوئے امن کی ضمانت بن جاتی ہیں اور اگر مسلمان عقل کریں تو اس پر چل کر دنیا کے سامنے نمونہ بن جائیں۔ یقینا یہ نمونہ دنیا کو امن کی طرف کھینچنے والا ہو گا۔ اگر کوئی ملک لڑے اور اصلاح کے باوجود اثر نہ ہو تو پھر صرف دکھاوے کے لئے ریزولیوشنز اور نصیحتیں کام نہیں آتیں بلکہ فرمایا کہ سب مل کر جو قوم زیادتی کر رہی ہے اس کے خلاف لڑو اور جب امن قائم ہو جائے، صلح ہو جائے پھر بہانے تلاش کرتے ہوئے پابندیاں نہ لگاؤ۔ بعض حقوق سے دوسروں کو محروم نہ کرو بلکہ قائم کرو۔ اب ہو کیا رہا ہے۔ اس کے بالکل الٹ۔ گزشتہ دنوں خبر تھی کہ مغربی ممالک نے کئی بلینز ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو بیچا ہے۔یہاں ایک انگریز بھی لکھنے والے ہیں، میرا خیال ہے سیاستدان ہی ہیں ۔ انہوں نے لکھا کہ یہ جو(اسلحہ) بیچا گیا ہے یمن کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ اگر اس میں سے بہت کم رقم سعودی عرب یمن کی ترقی کے لئے خرچ کرتا تو جنگ بھی نہ ہوتی اور تباہی بھی نہ ہوتی۔ تو اس طرح باقی ملکوں اور جگہوں کا حال ہے۔ اگر مسلمان ممالک عدل پر قائم رہتے ہوئے اس طرح امن قائم کرنے کی کوشش کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور ترقی یافتہ ممالک عدل سے کام لیتے ہوئے اسلحہ بیچ کر اپنا فائدہ اٹھانے کی بجائے امن کے قیام کی کوشش کرتے تو آج کل کی جو بھیانک صورتحال ہے جس کا تجزیہ نگار نقشہ کھینچ رہے ہیں وہ اس سے بالکل مختلف ہوتی۔ لیکن ذاتی مفادات نے ہر ایک کو اندھا کر دیا ہے اور یہی کچھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ یا تو انصاف نہ کرتے ہوئے ہاری ہوئی قوم کو سزائیں دو یا انصاف کے خلاف چلتے ہوئے اپنی مرضی کے سربراہوں اور حکومتوں کی مدد کرتے رہو۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سے یہی کچھ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے تیسری جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ پس اگر اس سے بھی بچنا ہے تو وہ طریق اختیار کرنا ہو گا جو اسلام ہمیں بتاتا ہے، جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے عدل سے بڑھ کر احسان اور پھر ایتایٔ ذی القربیٰ کے نمونے دکھاتا ہے۔
پس یہ ہے قرآن کریم کی تعلیم۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم۔ جو مسلمان ہو کر اس پر عمل نہیں کرتا یہ اس کا قصور ہے، نہ کہ تعلیم کا۔ یہ بات بہرحال یقینی ہے کہ جب بھی دنیا میں امن قائم ہو گا اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کے ذریعہ سے ہی ہوگا۔ دنیاداروں کی کوئی کوشش اور کوئی نظام دائمی اور انصاف کے معیاروں کو چھونے والا عدل قائم نہیں کر سکتا۔ ہمارے جو وسائل اور طاقت ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ کس طرح اسلام کی صحیح تعلیم کا عمل ہے جس سے تم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل بھی عطا کرے۔ اللہ کرے کہ اب جلسے کے بعد آپ لوگ خیریت سے بحفاظت اپنے اپنے گھروں کو جائیں اور وہاں بھی ہمیشہ خیریت سے رہیں۔ ہر شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ آپ سب کومحفوظ رکھے اور یہاں سے جو باتیں آپ نے سیکھی ہیں ہمیشہ ان پر عمل کرنے والے بھی ہوں، ان کو زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔ اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ آمین۔
اب دعا کر لیں۔
