خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ بنگلہ دیش 7فروری2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جلسہ سالانہ پر وہاں شاملین نے مقررین کی تقریریں بھی سنی ہوں گی اور مجھے امید ہے کہ مقررین نے اپنی تقاریر میں جلسہ سالانہ کے مقاصد اور علمی اور تربیتی مضامین بیان کئے ہوں گے۔ جلسہ سالانہ کے مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں خلاصۃً وہ یہ ہیں کہ ہر وہ احمدی جو جلسہ میں شامل ہونے والا ہے وہ خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی معرفت میں ترقی کرے اور اپنے اندر عملی تبدیلی پیدا کرے۔ وہ عملی تبدیلی جس کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا اور اپنے ماننے والوں میں وہ تبدیلی پیدا کی جس کے نمونے ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں نظر آتے ہیں اور یہی نمونے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ

          نوٹ! بنگلہ ترجمہ ہونے سے رہ گیا تھا۔ اس لئے حضور انور نے محترم فیروز عالم صاحب سے دریافت فرمایا کہ( یاد ہے جتنا میں نے کہا ہے یا دوبارہ نئے سرے سے بولنا پڑے گا؟ پہلے بتانا تھا ناں۔ پہلے آپ اس طرف کھڑے ہوتے ہیں اب یہاں چھپ کے کھڑے ہوگئے ہیں۔)

          فرمایا: نئے سرے سے وہی باتیں کرنی پڑیں گی۔ ایک تو یہ بتا دیں ناں کہ جلسہ سالانہ ختم ہو رہا ہے اس میں مقررین نے جو تقاریر کی ہیں ان میں علمی اور تربیتی مضامین بیان کئے ہوں گے۔ جلسہ سالانہ کے مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں وہ خلاصۃً یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ سے تعلق اور  اس کی معرفت میں ترقی ہو اور عملی تبدیلی پیدا کی جائے۔ وہ عملی تبدیلی جس کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ اور اپنے ماننے والوں میں وہ تبدیلی پیدا کی جس کے نمونے ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیھم میں نظر آتے ہیں۔ اور یہی نمونے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے ہم میں خلافت کا نظام جاری فرمایا۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن یا آپ کے سلسلہ کا قیام صرف اسی بات کو منوانے کے لئے نہیں تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور اب آسمان سے کسی مسیح نے نہیں آنا بلکہ اس سے بہت بڑھ کر آپ کی بعثت کا یہ مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک رکھنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے والے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے لوگ پیدا ہوں۔وہ لوگ پیدا ہوں جو عملی نمونوں کی ایک مثال ہوں۔

          پس ہر احمدی جو چاہے دنیا کے کسی بھی حصے اور خطے میں رہ رہا ہو اس کا فرض بنتا ہے کہ حضرت مسیح موعود    علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سامنے رکھے۔ ہر وقت اس بات کو دہراتا رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بندے کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کے لئے آئے تھے۔ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور عاشق صادق کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا میں قائم کرنے آئے تھے۔ دنیا کو بتانے آئے تھے کہ اب خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہے۔     اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھنے کے لئے اس سے تعلق جوڑنے کے لئے اب وسیلہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق انسان کو انسان کے ایک دوسرے پر  حقوق بتا کر اپنے ماننے والوں میں اس کے عملی نمونے قائم کرنے کے لئے آئے تھے۔

          پس جب تک ہم میں سے ہر ایک ان باتوں کو نہیں سمجھے گا اس کا جلسہ میں شامل ہو کر نعرے لگانا بے فائدہ ہے۔ وقتی جوش دکھا کر اور نعرے لگا کر ہم اپنی حالتوں میں مستقل تبدیلیاں پیدا نہیں کر سکتے۔ جس نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے، چاہے وہ بنگالی ہے یا ہندوستانی یا عرب یا یورپین یا جزائر میں رہنے والا، اسے ان باتوں کا خیال رکھنا ہو گا کہ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر اس کی توحید کو کس طرح قائم کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا میں کس طرح قائم کرنا ہے۔ حقوق العباد کس طرح ادا کرنے ہیں۔

           پس آپ جو بنگلہ دیش میں اپنے جلسے میں بیٹھے میری باتیں سن رہے ہیں اس بات کو اپنے ذہن میں بٹھا کر یہ عہد کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے آپ نے ایک نمونہ بننا ہے۔ جب تک ہمارے عملی نمونے قائم نہیں ہوں گے نہ ہی ہماری عملی اصلاح ہو سکتی ہے اور نہ ہی تبلیغ کے میدانوں میں ہمیں کامیابی مل سکتی ہے۔ ان باتوں کا صحیح علم اور اِدراک حاصل کرنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور ارشادات اور فرمودات سے مدد لینی ہو گی۔ پس اس حوالے سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا اور یہی ہمارے لئے لائحہ عمل ہیں اور ان پر عمل ہی اور ان کا حقیقی ادارک ہی ہمیں حقیقی مسلمان بناتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں حقیقی رنگ میں شامل ہونے والا بناتا ہے۔

          حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو۔ خواہ انسان ہو۔ خواہ سورج ہو‘‘ پاک رکھے۔ آپ نے فرمایا ’’خواہ سورج ہو یا چاند ہویا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو‘‘( اس شرک سے) ’’منزّہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعزّاور مُذِلّ خیال نہ کرنا‘‘ (یعنی ہمیشہ ذہن میں یہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہی عزتیں دینے والا ہے اور اگر انسان غلط کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی ذلیل کرتا ہے۔) ’’کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلّل اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی اُمّیدیں اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر اِن تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’ اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اُس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔‘‘ (یعنی ساری چیزیں جو ہیں وہ ہلاک ہونے والی ہیں، ختم ہونے والی ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر سب جھوٹ ہے۔) ’’دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذاتِ باری کسی میں قرار نہ دینا۔‘‘ (وہی ہے جو ہمارا رب ہے، ہماری پرورش کرنے والا ہے اور وہی ہے جس کی ہم نے عبادت کرنی ہے اور وہی ایک معبود ہے)’’ اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔ تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالیٰ کا شریک نہ گرداننا۔ اور اسی میں کھوئے جانا۔‘‘   (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349-350)

          پس یہ حقیقی توحید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھوئے جانا اور خالص ہو کر اس کی عبادت کرنا اور اس کی بندگی اختیار کرنا۔ اب ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے یہ تعلق قائم ہے یا ہم قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا وقت پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے ہم جھکتے ہیں لیکن عملاً موقع آئے تو غیر اللہ پرہم زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم اس معیار کی توحید پر قائم ہو جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے تو پھر وہ خدا ملتا ہے جس سے ملانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے۔

          پھر دوسری بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کا ادراک پیدا کرنا ہے جس کے پیدا کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بار بار تلقین فرمائی ہے۔

          حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’غور کر کے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلاف قرآن و سُنت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ  ؑزندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقعہ ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مر گیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے۔ حضرت عیسیٰ  ؑزندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے کہتے ہیں کہ وہ مُردہ ہے۔ سوچ کر بتاؤ کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کر کے اس کی فضیلت اور خاتمیت کو یہ لوگ بٹہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر توہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُردہ کہلایا ہے اسی کی سزا میں یہ نکبت اور بدبختی اُن کے شامل حال ہو رہی ہے۔‘‘ (اسی لئے وہ خوار اور بدبخت ہو رہے ہیں۔)’’ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں اور دوسری طرف اقرار کر لیتے ہیں کہ 63سال کے بعد مَر گئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مَرا حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے ۔ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔(النساء: 114)‘‘ (اور تجھ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔) ’’پھر کیا یہ ارشاد الٰہی غلط ہے؟ نہیں یہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جو کسی نبی میں نہیں ہے۔ میں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے۔ ‘‘  (ملفوظات جلد 5 صفحہ 28-29۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں:

          ’’مَیں قرآن شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ کے جامع تھے۔ اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے۔ قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے۔ چنانچہ فرمایا  فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ(البیّنۃ:04)‘‘ (یعنی اس میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات ہیں۔)’’ اور مَافَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ(الانعام:39)‘‘ (ہم نے اس کتاب میں کوئی کمی نہیں کی۔)’’ ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کی اقتدا کر۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ امر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک امر تو تشریعی ہوتا ہے جیسے یہ کہا کہ نماز قائم کرو یا زکوٰۃ دو وغیرہ اور بعض امر بطور خلق ہوتے ہیں جیسے یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ(الانبیاء:70)۔ یہ امر جو ہے کہ تو سب کی اقتدا کر، یہ بھی خلقی اور کَونی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کمالات جو جمیع انبیاء علیہم السلام میں متفرق طور پر موجود تھے اس میں یکجائی طور پر موجود ہوں اور گویا اس کے ساتھ ہی وہ کمالات اور خوبیاں آپ کی ذات میں جمع ہو گئیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 113۔ 114 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر آیت خاتم النبیین کا حقیقی مفہوم بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’چنانچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ پر نبوت ختم ہو گئی اور یہ فرمایا کہ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب:41)‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم جیسے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔’’ ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھ پر ختم ہو گئے اور آئندہ کے لئے کمالات نبوت کا باب بند ہو گیا اور کوئی نبی مستقل طور پر نہ آئے گا۔ نبی عربی اور عبرانی دونو زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنی ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوئی کرنے والا۔ جو لوگ خود براہ راست خدا سے خبریں پاتے تھے، وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہو گئی تھی۔ مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بند کر دیا ہے اور مہر لگا دی ہے کہ کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بغیر نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی امّت میں داخل نہ ہو اور آپ کے فیض سے مستفیض نہ ہو وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف نہیں پا سکتا جبتک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا ہے کہ وہ بِدُوں اس امت میں داخل ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے کے بغیر کوئی شرف مکالمہ الٰہی حاصل کر سکتا ہے تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 114۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ     (آل عمران:32)۔ خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مدّعا صرف اس ایک واحد لا شریک خدا کی تلاش ہونا چاہئے۔ شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہئے۔ رسوم کا تابع اور ہواوہوس کا مطیع نہ بننا چاہئے۔ دیکھو مَیں پھر کہتا ہوں کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 124۔125۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں۔ آجکل کے فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں۔ سو تم اُن سے پرہیز کرو۔ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنا لی ہے۔ تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ  اَور اَور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے۔  (ملفوظات جلد 5 صفحہ 125 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پس نہ کوئی پیر نجات کا باعث بن سکتا ہے نہ کوئی مولوی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع میں ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بندوں کے ایک دوسرے پر حقوق قائم کرنے کا اور ان کا ادراک دلوانے بھی آئے تھے۔ آپ علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ اگر تم ایک دوسرے کے حقوق قائم نہیں کرو گے تو نہ ہی خدا تعالیٰ سے تمہارا تعلق ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارا تعلق ہے۔ اور نہ ہی اسلام سے تمہارا تعلق ہے۔ آپ علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور صلح اور بندوں کے حقوق قائم کرنے کی بنیاد ڈالی ہے۔ آپ علیہ السلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس بھیجے ہوئے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین ہیں ان کا صحیح ادراک پیدا کروایا۔

          آپ علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ قرآن کریم نے ہر طبقہ کے حقوق قائم کئے ہیں۔ اسلام کے اس امن اور سلامتی کے اصول کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:

          ’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دِلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی۔ اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)

           پھر اس بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں:

          ’’یہ بھی عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اسلامی تعلیم کے رُو سے دین اسلام کے حصے صرف دو ہیں۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے۔ اوّل ایک خدا کو جاننا جیسا کہ وہ فی الواقعہ موجود ہے۔ اور اس سے محبت کرنا اور اس کی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت و محبت ہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی میں اپنے تمام قویٰ کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنیٰ انسان تک جو احسان کرنے والا ہو، شکر گزاری اور احسان کے ساتھ معاوضہ کرنا۔‘‘  (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 281)

          پس یہ ہے وہ مقصد جس کو ہر اس شخص کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ہے وہ مقصد جس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ افسوس کہ اس اصول کو مسلمان بھولے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے جو اسلامی ممالک میں فتنہ و فساد پھیلا ہوا ہے۔ رعایا اور حکومتیں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہی ہیں۔ ہر شخص ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومتیں عوام سے ناجائز مطالبے کرتی ہیں اور عوام حکومت سے ناجائز مطالبے کرتے ہیں۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

          ’’ایک پہلو سے سلاطین رعایا پر حُکم چلاتے ہیں اور دوسرے پہلو سے رعیّت سلاطین پر حُکم چلاتی ہے۔اور  جب تک یہ دونوں پہلو اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اُس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بے اعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اٹھ جاتا ہے۔‘‘(چشمہ معرفت،    روحانی خزائن جلد 23صفحہ 33)

           پس جب تک دونوں طرف سے انصاف نہ ہو، جب تک دونوں طر ف سے اپنے فرض پورے کرنے اور دوسرے کا حق دینے کی روح نہ ہو سلامتی اور امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اور یہی آجکل جیسے میں نے کہا مسلمان کہلانے والے ممالک کا المیہ ہے۔ ہم احمدیوں نے جس جس ملک میں وہ ہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے اور انصاف کی حقیقی اسلامی روح سے دنیا کو آشنا کرنا ہے تا کہ امن اور سلامتی قائم ہو اور ایک دوسرے کے حق صحیح رنگ میں ادا ہوں۔

           ایک حقیقی احمدی کو کس طرح حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اس بارے میں حضرت   مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اٹھانا چاہئے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لئے سعی کی جاوے۔ پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کی غِیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اُکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو۔اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کئے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں۔اس کی خلاف مرضی  تمہارا چال چلن ہے۔ پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداء کوئی نہ ہو ں۔ خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لئے الگ امر ہے۔ یعنی جو شخص خدا اور اس کے رسول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں۔بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لئے دعا کرو۔ اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 104-105۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

          پھر اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ علیہ السلام نے ہمیں فرمایا کہ:

          ’’ ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے۔ اس کا بڑا بھاری مطالبہ انسان کے ذمہ ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ کہے گا کہ مَیںبھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا اور تُو نے مجھے پانی نہ دیا۔ مَیں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی۔ جن لوگوں سے یہ سوال ہو گا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! تُو کب بھوکا تھا جو ہم نے کھانا نہ دیا۔ تُو کب پیاسا تھا جو پانی نہ دیااور تُو کب بیمار تھا جو تیری عیادت نہ کی۔ پھر خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ جو ہے وہ اِن باتوں کا محتاج تھا مگر تم نے اس کی کوئی ہمدردی نہ کی۔ اس کی ہمدردی میری ہی ہمدردی تھی۔ ایسا ہی ایک اَور جماعت کو کہے گا کہ شاباش! تم نے میری ہمدردی کی۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایاوغیرہ ۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایاوغیرہ ۔ وہ جماعت عرض کرے گی کہ اے ہمارے خدا! ہم نے کب تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرے فلاں بندہ کے ساتھ جو تم نے ہمدردی کی وہ میری ہی ہمدردی تھی۔ دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کیا ہو گا کہ وہ اُس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہو گا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی۔ مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔

           غرض اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔ جو شخص نوع انسان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ایمان کو ضائع نہیں کرتا۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرتا ہے اور اپنے ضعیف بھائی کی ہمدردی کرتا ہے تو اس اخلاص سے اُس کا ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نمائش اور نمود کے لئے جو اخلاق برتے جائیں وہ اخلاق خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتے اور ان میں اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح پر تو بہت سے لوگ سرائیں وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی اصل غرض شہرت ہوتی ہے۔ اور اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کرے تو خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس کا بدلہ دیتا ہے۔‘‘

           فرمایا کہ ’’مَیں نے تذکرۃ الاولیاء میں پڑھا ہے کہ ایک ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ بارش ہوئی اور کئی روز تک رہی۔ ان بارش کے دنوں میں مَیں نے دیکھا کہ ایک اسّی برس کا بوڑھا گبر ہے جو کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا ہے۔‘‘ (گبر کہتے ہیں جو آتش پرست لوگ تھے) ’’مَیں نے اس خیال سے کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں اس سے کہا کہ کیا تیرے اس عمل سے تجھے کچھ ثواب ہو گا؟ اس گبر نے جواب دیا کہ ہاں ضرور ہو گا۔ پھر وہی ولی اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو مَیں حج کو گیا تو دیکھا وہی گبر طواف کر رہا ہے۔ اس گبر نے مجھے پہچان لیا اور کہا کہ دیکھو اُن دانوںکا مجھے ثواب مل گیا یا نہیں ؟ یعنی وہی دانے میرے اسلام لانے کا موجب ہو گئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 280-281۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

          ’’ اللہ تعالیٰ نے جا بجا رحم کی تعلیم دی ہے۔ یہی اخوت اسلامی کا منشاء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں۔ ایسی صورت میں کہ تم میں اسلامی اخوت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوّت بھی ساتھ ہو۔‘‘ یہاں پر احمدیوں کو مخاطب کرکے فرما رہے ہیں کہ ایک تو تمہارے اندر اسلامی اخوّت قائم ہو اور پھر اس سلسلے میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوّت بھی بڑھے۔ آپ نے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ نے دو ہی قسم کے حقوق رکھے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔‘‘ فرمایا کہ ’’جو شخص حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا وہ آخر حقوق اللہ کو بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ حقوق العباد کا لحاظ رکھنا یہ بھی تو امرِ الٰہی ہے جو حقوق اللہ کے نیچے ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 350۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

           اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کو بھی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ ہم صحیح اسلامی تعلیم کے پھیلانے والے ہوں اور دنیا کو یہ باور کرانے والے ہوں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس پر حقیقی رنگ میں عمل کر کے انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور دنیا میں حقیقی امن کا قیام ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ بنگلہ دیش میں سب شاملین جلسہ کو جو  اس وقت وہاں بیٹھے ہوئے ہیں خیریت سے اپنے گھروں کو واپس لے کر جائے اور ان کے گھروں میں بھی ہر لحاظ سے خیریت رکھے۔ بنگلہ دیش کے حالات بھی بعض دنوں میں کافی خراب ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو وہاں اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں احمدیوں پر مشکلات ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور محفوظ رکھے۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں