خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ جون 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گذشتہ خطبہ میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر کے ساتھ خاموشی سے مکّہ کے قریب پہنچنے اور پڑاؤ ڈالنے کا ذکر

ہو رہا تھا۔ آپؐ نے دس ہزار جگہ آگ روشن کروائی۔ ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں نے اس چیز کو دیکھا تو سخت گھبرا گئے۔ اس کی کچھ تفصیل پہلے بیان ہوئی تھی۔ اس ضمن میں مزید تفصیل بیان کرتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ یہ تفصیل ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’چونکہ عباسؓ ابوسفیان کے پرانے دوست تھے اس لیے … انہوں نے ابوسفیان سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ سواری پر بیٹھ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ چنانچہ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اونٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اونٹ کو ایڑی لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے۔ حضرت عباس ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ جو ان کے ساتھ پہرہ پر مقرر تھے کہیں اس کو قتل نہ کردیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اگر ابوسفیان تم میں سے کسی کوملے تو اسے قتل نہ کرنا۔ یہ سارا نظارہ ابوسفیان کے دل میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر چکا تھا۔ ابوسفیان نے دیکھا کہ چند ہی سال پہلے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکّہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن ابھی سات ہی سال گزرے ہیں کہ وہ دس ہزار قدوسیوں سمیت مکّہ پر بِلا ظلم اور بِلا تعدّی کے جائز طور پر حملہ آور ہوا ہے اور مکّہ والوں میں طاقت نہیں کہ اِس کو روک سکیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک پہنچتے پہنچتے کچھ ان خیالات کی وجہ سے اور کچھ دہشت اور خوف کی وجہ سے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات اپنے پاس رکھو۔ صبح اِسے میرے پاس لانا۔ چنانچہ رات ابوسفیا ن حضرت عباسؓ کے ساتھ رہا۔ جب صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے توفجر کی نماز کا وقت تھا۔ مکّہ کے لوگ صبح اٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے۔ اس نے اِدھر ادھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر آتے جاتے دیکھا اور اسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے، کوئی صف بندی کر رہا ہے تو ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لیے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے گھبرا کر حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ یہ لوگ صبح صبح یہ کیا کر رہے ہیں ؟ حضرت عباسؓ نے کہا تمہارے لیے ڈرنے کی وجہ نہیں۔ یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور جب آپؐ رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپؐ سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں۔ حضرت عباسؓ چونکہ پہرہ پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے، ابوسفیان نے ان سے پوچھا اب یہ کیا کر رہے ہیں ؟ میں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں۔ عباسؓ نے کہا تم کن خیالات میں پڑے ہو۔ یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان کو حکم دیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں۔

ابوسفیان نے کہا مَیں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے لیکن ان کی قوموں کو ان کا اتنا فدائی نہیں دیکھا جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اس کی فدائی ہے۔

پھر عباسؓ نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج یہ درخواست کرو کہ آپ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں؟ جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا۔ ابوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ نہایت ہی حلیم، نہایت ہی شریف اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ میں اب یہ بات تو سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اَور معبود ہوتا تو کچھ تو ہماری مدد کرتا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابوسفیان نے کہا’’پھر اس نے یہی کہا کہ ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اِس بارہ میں ابھی میرے دل میں کچھ شبہات ہیں۔ مگر

ابوسفیان کے تردّد کے باوجود اس کے دونوں ساتھی جو اس کے ساتھ ہی مکّہ سے باہر مسلمانوں کے لشکر کی خبر لینے کے لیے آئے تھے اور جن میں سے ایک حکیم بن حزام تھے وہ مسلمان ہو گئے۔

اس کے بعد ابوسفیان بھی اسلام لے آیا، مگر اس کا دل غالباً فتح مکّہ کے بعد پوری طرح کھلا۔ ایمان لانے کے بعد حکیم بن حزام نے کہا۔ یا رسول اللہ! کیا یہ لشکر آپ اپنی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے اٹھا لائے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ان لوگوں نے ظلم کیا، اِن لوگوں نے گناہ کیا اور تم لوگوں نے حدیبیہ میں باندھے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور خُزَاعہ کے خلاف ظالمانہ جنگ کی۔ اس مقدس مقام پر جنگ کی جس کو خدا نے امن عطا فرمایا ہوا تھا۔ حکیم نے کہا یا رسول اللہ! ٹھیک ہے آپ کی قوم نے بیشک ایسا ہی کیا ہے لیکن آپ کو تو چاہیے تھا کہ بجائے مکّہ پر حملہ کرنے کے ہَوازِن قوم پر حملہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قوم بھی ظالم ہے لیکن میں خدا تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ مکّہ کی فتح اور اسلام کا غلبہ اور ہَوازِن کی شکست یہ ساری باتیں میرے ہی ہاتھ پر پوری کرے گا۔ اس کے بعد

ابوسفیان نے کہا۔ یا رسول اللہ! اگر مکّہ کے لوگ تلوار نہ اٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امن دیا جائے گا۔

حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔

آپؐ نے فرمایا بہت اچھا۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 338تا 340)

یہ ساری تفصیل دیباچہ تفسیر القرآن میں آپؓ نے درج فرمائی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو سفیان ایک بڑا ضعیف القلب اور کم فراست والا آدمی تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ پر فتح پائی تو اسے کہا کہ کیا تُو اب بھی نہیں سمجھتا؟ تجھے اب تک پتہ نہیں لگا کہ یہ انسانی ہاتھ کا کام نہیں ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اب سمجھ آگئی ہے کہ تیرا خدا سچا ہے اگر ان بتوں میں کچھ ہوتا تو یہ ہماری اس وقت مدد کرتے۔ پھر جب اسے کہا گیا کہ تُو میری نبوت پر ایمان لاتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا، اس سے سوال کیا توا س نے تردّد ظاہر کیا اور اس کی سمجھ میں توحید آئی اور نبوت نہ آئی۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ بعض مادےہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں فراست کم ہوتی ہے جو توحید کی دلیل تھی وہی نبوت کی دلیل تھی مگر ابو سفیان اس میں تفریق کرتا رہا۔ اس نے توحید اور نبوت کو علیحدہ کر دیا تو آپ فرماتے ہیں کہ سب ایک طبقہ کے انسان نہیں ہوتے۔ کوئی اول جیسے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ان جیسے ہوتے ہیں کوئی اوسط درجہ کے اورکوئی آخر درجہ کے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 414، ایڈیشن 2022ء)

ابن عُقبہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان اور حکیم بن حزام واپس جا رہے تھے تو حضرت عباسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہؐ! مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارے میں خدشہ ہے۔ حضرت عباسؓ نے کہا کہ اسے واپس بلا لیں یہاں تک کہ وہ اسلام کو سمجھ لے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کے لشکروں کو دیکھ لے۔ ابن ابی شَیبہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جانے لگا تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپؐ ابوسفیان کے بارے میں حکم دیں تو اس کو راستہ میں روک لیا جائے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جا رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے فرمایا ابوسفیان کو وادی کی گھاٹی میں روک لو۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو جا کر روک لیا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا اے بنی ہاشم! کیا تم دھوکہ دیتے ہو؟ حضرت عباسؓ نے فرمایا اہلِ نبوت دھوکا نہیں دیتے۔ ایک اور روایت کے مطابق انہوں نے کہا ہم ہرگز دھوکا دینے والے نہیں البتہ تُو صبح تک انتظار کر یہاں تک کہ تُو اللہ کے لشکر کو دیکھے اور اس کو دیکھے جو اللہ نے مشرکوں کے لیے تیار کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو اس گھاٹی میں روکے رکھا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ218 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مختلف قبائل ایک ایک دستہ ہو کر ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگے۔ جب ایک دستہ گزرا تو اس نے کہا اے عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا یہ غِفَار ہیں۔ غِفَار قبیلے کے۔اس نے کہا مجھے غِفَار سے کیا سروکار۔ پھر جُہَیْنَہ گزرے تو اس نے ویسے ہی کہا۔ پھر سعد بن ھُذیم گزرے تو اس نے ویسے ہی کہا کہ مجھے ان لوگوں سے کیا لینا۔ پھر سُلَیم گزرے تو اس نے پھر ویسے ہی کہا یہاں تک کہ ایک دستہ ایسا آیا کہ اس جیسا اس نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کہا یہ کون ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا یہ انصار ہیں ان کے سردار حضرت سعد بن عُبَادہؓ ہیں جن کے پاس جھنڈا ہے۔ حضرت سعد بن عُبَادہؓ نے جوش سے کہا اے ابوسفیان آج کا روز لڑائی کا روز ہے۔ آج کعبہ کی حرمت نہیں رہے گی۔ا بوسفیان نے یہ سن کر کہا۔ عباس! بربادی کا یہ دن کیا خوب ہو گا اگر مقابلے کا موقع مل جاتا۔ کہتے ہیں لڑتے تو پھر تو ٹھیک تھا اب تو ہم لڑ بھی نہیں سکتے۔ پھر ایک دستہ آیا اور وہ تمام دستوں سے چھوٹا تھا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپؐ کے صحابہ تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس تھا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح؟ حدیث 4280)

ایک دوسری روایت میں یہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یا رسول اللہؐ !کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتلِ عام کا حکم دے دیا ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ سعد بن عُبَادہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس نے کیا کہا ہے؟ ابوسفیان نے بتایا کہ وہ اس اس طرح کہہ رہا تھا میں آپ کو آپ کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں۔ آپ سارے لوگوں سے زیادہ پاکباز، صلہ رحمی کرنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا۔ آج کا دن تو رحمت کادن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ قریش کوحقیقی عزت عطا فرمائے گا۔

ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ نے جو کہا تھا وہ مہاجرین میں سے کسی نے سن لیا۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ وہ حضرت عمر ؓتھے جنہوں نے سنا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم امن میں نہیں۔ شاید حضرت سعد قریش پر حملہ کر دیں۔ دوسری روایت کے مطابق یہ بات حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت عثمانؓ نے کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے جھنڈا لیا اور ان کے بیٹے حضرت قیسؓ کو عطا کردیا۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 221-222 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تاریخوں کی کتابوں سے لے کے بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا انصار کے کمانڈر سعد بن عُبَادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے مکّہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے؟ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور ان کے ساتھی ایسا ایسا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بلند آواز یہ کہا ہے کہ آج لڑائی ہو گی اور مکّہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے۔ یا رسول اللہ! آپ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ کیا آج اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے؟ ابوسفیان کی یہ شکایت و التجاء سن کر وہ مہاجرین بھی جن کو مکّہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا، جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا تڑپ گئے اور ان کے دلوں میں بھی مکّہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! انصار نے مکّہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوسفیان! سعدؓ نے غلط کہا ہے آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بھیجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیس کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔ اس طرح آپؐ نے مکّہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیسؓ پر پورا اعتبار بھی تھا کیونکہ قیسؓ نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ ایسے شریف کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو میرے واقف ہیں میری عیادت کے لیے نہیں آئے۔ ان کے دوستوں نے کہا آپ بڑے مخیر آدمی ہیں۔ آپ ہر شخص کو اس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لیے آپ کی عیادت کے لیے نہیں آئے کہ شاید آپ کو ضرورت ہو اور آپ ان سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ آپؓ نے فرمایا اوہو میرے دوستوں کو بِلاوجہ تکلیف ہوئی۔ میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اسے معاف ہے۔ اِس پر اِس قدر لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ 342-343)

ابن ابی شَیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ مجھے اجازت دیں تو میں اہل مکّہ کے پاس جاؤں اور انہیں دعوت دوں اور آپ انہیں امن عطا کر دیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیدشَھْبَاء نامی خچر پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔ وہ مکّہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے کہا اے اہل ِمکّہ !اسلام لے آؤ نجات پا جاؤ گے۔ تمہارے پاس اتنا بڑا لشکر آیا ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 223 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب لشکر گزر چکا تو عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا۔‘‘ یہ دیکھ رہا تھا جیسے بیان ہوا ہے کہ سامنے سے لشکر گزر رہا تھا۔ ابوسفیان سے کہا کہ ’’اب اپنی سواری دوڑا کر مکّہ پہنچو اور ان لوگوں کو اطلاع دے دو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اور انہوں نے اِس اِس شکل میں مکّہ کے لوگوں کو امان دی ہے۔ جبکہ ابوسفیان اپنے دل میں خوش تھا کہ مَیں نے مکّہ کے لوگوں کی نجات کا رستہ نکال لیا ہے۔ اس کی بیوی ہندہ نے جو ابتدائے اسلام سے مسلمانوں سے بغض اور کینہ رکھنے کی لوگوں کو تعلیم دیتی چلی آئی تھی اور باوجود کافر ہونے کے فی الحقیقت ایک بہادر عورت تھی آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی داڑھی پکڑی اور مکّہ والوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ آؤ اور اِس بڈھے احمق کو قتل کر دو کہ بجائے اِس کے کہ تم کو یہ نصیحت کرتا کہ جاؤ اور اپنی جانوں اور اپنے شہر کی عزت کے لیے لڑتے ہوئے مارے جاؤ یہ تم میں امن کا اعلان کر رہا ہے۔ ابوسفیان نے اس کی حرکت کو دیکھ کر کہا کہ بے وقوف یہ اِن باتوں کا وقت نہیں جا اور اپنے گھر میں چھپ جا۔ میں اس لشکر کو دیکھ کر آیا ہوں جس لشکر کے مقابلہ کی طاقت سارے عرب میں نہیں ہے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ 343-344)

اسلامی لشکر کے مکّہ میں داخل ہونے کا واقعہ

لکھا ہے۔ بخاری میں حضرت عروہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے حضرت زبیر کو حکم دیا کہ مکّہ کے بالائی حصہ کَدَاءسے داخل ہوں۔ وہ اپنا جھنڈا حَجُون میں گاڑ دیں اور آپ کے آنے تک جگہ نہ چھوڑیں۔ حجون وادی مُحَصَّب کی طرف ایک پہاڑ ہے جو بیت اللہ سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ لشکر کے دائیں طرف، دائیں حصہ پرمقرر تھے۔ ان کے دستے میں اَسلم، سُلَیم، غِفار، مُزَینہ اور جُہَینہ کے قبائل شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ مکّہ مکرمہ کے نشیبی علاقے لِیط سے داخل ہوں۔ آپ نے انہیں قریبی گھروں کے پاس جھنڈا گاڑ دینے کا حکم دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاحؓ کا تقرر پیادہ دستے پر کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امراء کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ لڑائی سے اپنے ہاتھ روکے رکھیں۔ لڑائی نہیں کرنی۔ صرف اس کے ساتھ قتال کریں جو ان کے ساتھ قتال کرے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ صَفْوَان، عِکْرِمَہ اور سُہَیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے لیے لوگوں کو بلایا۔ انہوں نے لوگوں کو خَنْدَمہ میں جمع کیا جو منیٰ کے راستے میں مکّہ کا ایک مشہور پہاڑ ہے۔ قریش، بنو بکر اور ھُذَیل کے لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ انہوں نے ہتھیار پہن رکھے تھے۔ وہ اللہ کی قسمیں کھا رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی طاقت سے مکّہ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

بنو دِیل یعنی بنو بکر کے ایک شخص جِمَاشْ بن قَیس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ اپنے ہتھیار درست کرنے لگا۔ اس کی بیوی نے اسے کہا کہ یہ تیاری کس لیے ہو رہی ہے؟ اس نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کے لیے۔ اس عورت نے کہا بخدا! آج محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ عقل مند عورت تھی۔ جِمَاش بن قیس نے نہایت تکبر سے اور تمسخرانہ انداز میں کہا مجھے امید ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو تیری خدمت میں پیش کر دوں گا یعنی مسلمان کو غلام بنا کر لاؤں گا۔ تمہیں ایک شخص کی ضرورت ہے جو تمہاری خدمت کرے تو تمہارے لیے غلام لے کے آؤں گا۔ اس عورت نے کہا تیرے لیے بربادی ہو ایسا نہ کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال نہ کرو۔ بخدا !تمہاری رائے درست نہیں ہے۔ کاش تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ لیا ہوتا۔ جِمَاش نے کہا تم عنقریب دیکھ لو گی۔ پھر وہ صفوان، عکرمہ اور سُہیل کے ساتھ خندمہ چلا گیا۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓ وہاں سے اس طرح داخل ہوئے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا تو انہوں نے ایک جتھہ دیکھا جنہوں نے انہیں داخل ہونے سے روکا اور ان کے لیے ہتھیار لہرائے اور ان پر تیر اندازی کی۔ انہوں نے کہا تم طاقت کے ذریعہ یہاں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو پکارا اور مشرکین کے ساتھ جنگ ہوئی۔ بنو بکر کے بیس اورھُذَیل کے تین یا چار افراد مارے گئے ابن اسحاق کے مطابق مشرکین کے بارہ یا تیرہ آدمی مارے گئے۔ انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ وہ ہر طرف بکھر گئے۔ ایک گروہ پہاڑوں پر چڑھ گیا۔ جِمَاش بن قیس جو بڑے فخر سے اپنی بیوی کو جواب دے رہا تھا وہ وہاں سے بھاگا اور اپنے گھر پہنچ کر بیوی سے کہا دروازہ بندکر دو۔ بیوی نے اپنے خاوند سے پوچھا کہ وہ تمہارے دعوے کہاں گئے؟ تم نے تو ابھی کہا تھا میں غلام لے کے آؤں گا تو اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں جواب دیا اور کچھ شعر پڑھے، پڑھ کر سنائے جن کا مفہوم یہ تھا کہ اگر تو خندمہ کی جنگ خود دیکھ لیتی جب صفوان بھی بھاگ کھڑا ہوا اور عکرمہ بھی۔ ان سب کا استقبال تلواروں نے کیا۔ تلواریں ہر کلائی اور ہر کھوپڑی پر پڑ کر اس کو کاٹ رہی تھیں اور بجز شور کے کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ ہمارے پیچھے ان کی دھاڑیں اور سینے سے اٹھنے والے غل و غصہ ابلتا ہوا سنائی دے رہا تھا۔ لہٰذا تو اپنی زبان سے ملامت کا چھوٹا سا کلمہ بھی نہ نکال۔

بخاری میں ہے کہ حضرت خالد کے گھڑ سواروں میں سے دو شخص مارے گئے۔ حضرت حُبَیْش بن اَشعرؓ اور حضرت کُرزبن جَابِر فِہْرِیؓ۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح حدیث:4280)(سبل الھدیٰ جلد5 صفحہ227-228 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9 صفحہ 149-150 دار السلام)(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 416 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح الباری جلد 8 صفحہ 13 قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)(فرہنگ سیرت صفحہ 116،100 زوار اکیڈمی)

مکّہ والوں کے لیے امن کے اعلان کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو امان دی اور حکیم بن حزام کو امان دی اور فرمایاکہ مکّہ جا کر اعلان کر دیں کہ جو ہتھیار پھینک دے گا وہ امن میں ہوگا۔ جو اپنے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ امان پائے گا۔ جو خانہ کعبہ کے صحن میں چلا جائے گا وہ امان پائے گا جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ امان پائے گا اور جو حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بھی امان پائے گا۔

اب جب مکّہ والے امان حاصل کر رہے تھے ایسے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاںنثار عشاق، وفادار ساتھیوں کو نہیں بھولے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقیناً چند سال پہلے مکّہ کی گلیوں میں کیے جانے والے ظلم و ستم بھی یاد آ رہے ہوں گے۔ وہ بلال بھی جس کو رسیوں سے باندھ کر یہاں انہیں پتھریلی گلیوں میں گھسیٹا جایا کرتا تھا۔ آج وہ بلال اس فاتح فوج میں شامل تھا۔ ان کے دل و دماغ میں بھی ظلم و ستم کے سارے مناظر تازہ ہو چکے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انتقام لینا بھی ضروری سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر خوبصورت انتقام لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ ’’اس کے بعد ابی رُوَیْحَہؓ جن کو آپ نے بلالؓ  حبشی غلام کا بھائی بنایا ہو اتھا ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا ہم اِس وقت ابی رُوَیْحَہؓ  کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رُوَیْحَہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اس کو بھی کچھ نہ کہیں گے۔ اور بلالؓ سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رُوَیْحَہؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔

اِس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکّہ کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے۔ مکّہ کی گلیاں، مکّہ کے میدان بلالؓ کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلالؓ کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا ۔ اِس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس آپؐ نے بلالؓ کا انتقام اِس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلالؓ کو اِس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا۔ کیساحسین یہ انتقام تھا۔ جب بلالؓ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکّہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اس نے محسوس کر لیا ہوگا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تجویز کیا ہے اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 340-341)

ایک اور جگہ آپؓ نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’اِس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلالؓ کاجھنڈا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بنا تے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا۔‘‘ یعنی اس کے بھائی کا جھنڈا یہاں اس سے یہی مراد ہے۔ ’’اس کو پنا ہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکرؓ تھے مگر ابوبکرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد مسلمان ہو نے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمانؓ کا بھی کو ئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھا ئی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگرعلیؓ کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبدالرحمٰنؓ  کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ پھر عباسؓ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تھے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا۔ پھر سارے رؤساء اور چوٹی کے آدمی موجو د تھے، خالد بن ولیدؓ جو ایک سردار کا بیٹا خود بڑا نامور انسان تھا موجود تھا۔ عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا اِسی طرح اور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کا بھی جھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ جھنڈا بنایا جاتاہے تو بلالؓ کا بنایا جاتا ہے۔ کیوں ؟ اِس کی کیا وجہ تھی؟ اِس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا ابو بکرؓ دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اس کے بھائی بند ہیں اور اس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یارسول اللہؐ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے۔ وہ ظلموں کو بھو ل چکا تھا اور جا نتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ عمرؓ  بھی کہتے تو یہی تھے کہ یارسول اللہ! اِن کافروں کو ماریئے مگر پھر بھی جب آپؐ ان کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہوں گے کہ اچھا ہوا ہمارے بھا ئی بخشے گئے۔ عثمانؓ اور علیؓ  بھی کہتے ہوں گے کہ ہمارے بھائی بخشے گئے۔ اِنہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہوں گے کہ ان میں میرے چچا بھی تھے، بھائی بھی تھے، اِن میں میرے داماد، عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اگر میں نے اِن کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا میرے اپنے رشتہ دار بچ گئے۔ صرف ایک شخص تھا جس کی مکّہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی، جس کی مکّہ میں کوئی طاقت نہ تھی، جس کا مکّہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اس کی بیکسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکرؓ پر ہوا، نہ علیؓ پر ہوا، نہ عثمانؓ پر ہوا، نہ عمرؓ پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی نہیں ہوا۔ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلالؓ ننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو! ننگے پاؤ ں بھی مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔‘‘یہاں تو گرمی کم ہے لیکن گرم ممالک میں ننگے پاؤں بھی نہیں چل سکتے مئی جون کے مہینے میں تو وہاں بھی گرمی میں ننگے پاؤںنہیں چل سکتے۔ ’’اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر ِلٹا دیا جاتا تھا، پھر کیلوں والے جو تے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر نا چتے تھے اور کہتے تھے کہو! خد اکے سِوا اور معبود ہیں۔ کہو محمدؐ رسول اللہ جھو ٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبا ن میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھو ٹا کس طرح کہہ دوں۔ اس پر وہ اور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ مہینوں گرمیوں کے موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہو تا تھا۔ اِسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسی ڈال کر انہیں مکّہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ چمڑا ان کا زخمی ہو جاتا تھا۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو! جھوٹا ہے محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہو خدا کے سِوا اور معبود ہیں۔ تو وہ کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اب جبکہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کےلیے آیا۔ بلالؓ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج ان بو ٹو ں کا بدلہ لیا جائے گا۔ آج ان ماروں کا معاوضہ مجھے ملے گا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف، جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے وہ معاف، جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کرلیے وہ معاف۔ تو بلالؓ کے دل میں خیا ل آتا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں او راچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو میں معاف کر رہا ہوں وہ اس کے بھائی نہیں۔ جو اس کو دکھ دیا گیا ہے وہ او رکسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لونگا اور اِس طرح لو نگا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔

آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو اور ان مکّہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اس کے سینہ پر ناچا کرتے تھے، جو اس کے پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے، جو اسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہہ دو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ۔ میں سمجھتا ہوں جب سے دنیا پید ا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اس کو طاقت ملی ہے اِس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلالؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑ ا گیا ہو گا، جب عرب کے وہ ر ؤساء جو اس کو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھو ٹا ہے جب وہ دوڑ دوڑ کر اور اپنے بیوی بچوں کے ہا تھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کر بلا لؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہو نگے کہ ہماری جان بچ جائے تو اس وقت بلالؓ کا دل او راس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔ وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں اِن کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں۔ اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینہ پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدلہ تھا جو یوسفؑ کے بدلہ سے بھی زیا دہ شاندار تھا اِس لیے کہ یوسفؑ نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے او ر محمدؐ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسفؑ  کا بدلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔‘‘(سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 270 تا 273)

ایک کمزور شخص جس کا بچپن اور جوانی سرداران قریش کی غلامی میں گزری اس کی ایسی دلجوئی اور ایسی عزت افزائی آپ نے کی ہے جس کی مثال جیسا کہ بیان ہوا ہے تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ یہ ہمیشہ کے لیے یادگار رہے گی۔ پس یہ ہے ہمارے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لینے کا اسوہ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

ابن ہشام نے لکھا ہے کہ فتح مکّہ میں مہاجرین کا شِعار یَا بَنِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰن تھا۔ یعنی اے عبدالرحمٰن کے بیٹو۔ خزرج کا شعار یَا بَنِیْ عَبْدِاللّٰہ تھا یعنی اے عبداللہ کے بیٹو اور اوس کا شعار یَا بَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہ تھا یعنی اے عبید اللہ کے بیٹو۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 742دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَذَاخِر کے پہاڑی راستے پر آئے جو کَدَاء کا دوسرا نام ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے روز یہیں سے مکّہ میں داخل ہوئے تو آپؑ نے تلواروں کی چمک دیکھی تو فرمایا کہ میں نے تمہیں قتال سے منع نہیں کیا تھا؟ کہا گیا کہ خالد سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے بھی شمشیر زنی کی۔ پہلے دشمن نے حملہ کیا تھا۔ آپؑ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سب سے بہتر ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 103دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ242،34زوار اکیڈمی)

یعنی اللہ تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا تھا، کافروں کو دکھانا چاہتا تھاکہ آج تم طاقت کے زور پر مسلمانوں کو مکّہ میں داخل ہونے سے روک نہیں سکتے۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اٹل فیصلہ ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔یہ تھی مکّہ میں داخل ہونے کی ابتدائی تاریخ جو بیان کی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی اس کا بیان ہو گا۔

اس وقت میں ایک مرحومہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔یہ ہیں

مکرمہ امینہ شہناز صاحبہ اہلیہ مکرم انعام اللہ صاحب لاہور

جو گذشتہ دنوں ستاون سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد مکرم محمد دین صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1934ء میں پندرہ سال کی عمر میں قادیان جا کر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے بیٹے مکرم وجیہ اللہ صاحب سینیگال میں مبلغ ہیں اور وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ ان کے بیٹے وجیہ اللہ صاحب جو مربی ہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کی والدہ ایک انتہائی نیک سیرت خاتون تھیں۔ نماز روزہ کی پابند، قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرتی تھیں۔ بچوں کی بھی پوری نگرانی کرتی تھیں۔ خلافت احمدیہ سے بہت محبت کرنے والی تھیں۔ کوئی بھی پریشانی یا خوشی کا علم ہوتا تو مجھے کہا کرتی تھیں کہ خلیفہ وقت کو خط لکھو۔ مہمانوں کی دلجوئی کرنے والی اور اپنی حیثیت سے زیادہ ان کی خدمت کرتی تھیں۔ غیر احمدی ہمسایوں کے ساتھ بھی محبت کا سلوک تھا۔ باوجود اس کے کہ بعض ہمسائے مخالفت بھی کرتے تھے لیکن آپ ہمیشہ ان کا، ہمسائے کا حق ادا کرتی تھیں۔

ان کے میاں انعام اللہ صاحب کہتے ہیں کہ میرے ساتھ بہترین زندگی گزاری۔ ساری زندگی جتنی جماعتی خدمت کی توفیق ملی اس میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔ اگر جماعتی کام کی وجہ سے سارا دن یا رات بھی گھر سے باہر رہنا پڑتا تو کبھی شکایت نہیں کی۔ بڑی مہمان نواز تھیں۔ وفات سے ایک ماہ قبل بھی تقریباً بائیس جماعتی مہمانوں کے لیے خود کھانا بنایا۔ غرباء کی ہر ممکن مدد کرتی تھیں۔ چندہ جات کی ادائیگی میں اپنے مرحومین کی طرف سے بھی چندہ ادا کرتی تھیں۔ اولاد کی تربیت بھی بہترین رنگ میں کرنے کی کوشش کی۔ لمبا عرصہ اپنے حلقہ میں سیکرٹری مال کی خدمت انجام دی اور وفات کے وقت بھی اسی خدمت پر مامور تھیں۔ ان کے بڑے بھائی کہتے ہیں کہ میری بہن محبت کرنے والی اور ہر ایک سے شفقت کرنے والی تھیں۔ پنجوقتہ نمازیں بچپن سے پڑھنے والی،تہجد گزار اور خلافت سے والہانہ محبت کرنے والی، باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی،بچوں اور خاندان کے دوسرے جو بھی بچے تھے ان کے گھر جاتے تھے ان کو بھی نماز کی پابندی اور تلاوت کرنے کی تلقین کرتیں۔ غیر از جماعت کے ساتھ بھی اچھا تعلق تھا۔ ایک غیر احمدی ہمسائی کہتی ہے کہ میرے ساتھ ان کا بیس سال کا تعلق تھا اور مجھ سے بہنوں جیسا سلوک کیا کرتی تھیں۔ میرے بچوں سے ماں جیسا سلوک تھا۔ میرے بچے بھی ان کو امی جی ہی کہا کرتے تھے۔ ہر کام میں مجھے ہمیشہ بہترین مشورہ دیتی تھیں۔ شریف غیر از جماعت بھی ہیں جو تعلق بھی رکھتے ہیں اور پھر قدر بھی کرتے ہیں۔ صدر لجنہ رچنا ٹاؤن کہتی ہیں کہ مرحومہ کی وفات سے ہماری مجلس کی ایک انتہائی مخلص اور جماعتی نظام سے وفا شعارلجنہ چلی گئی۔ تقریباً بیس سال سے سیکرٹری مال کا کام سرانجام دے رہی تھیں اور بہت اخلاص سے کام کر رہی تھیں۔ جماعتی تحریکات میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ حالات کیسے بھی ہوں کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتی تھیں۔ ہر گرمیوں میں یہ کہتی ہیں باقی بچیوں نے بھی بیٹیوں نے بھی لکھا ہے کہ ہر ہفتے جمعرات کے روز روزہ رکھا کرتی تھیں۔ ان کے گھر میں کوئی پروگرام رکھا جاتا تھا تو کھلے دل سے اسے قبول کرتیں۔ اس کی مہمان نوازی بھی کرتیں۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ایک بیٹا جو مربی ہے جو میں نے ذکر کیا ہے میدان عمل میں ہے اور وہاں ہونے کی وجہ سے جنازے میں شامل بھی نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان سب بچوں کو ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں