خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍ جولائی 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گذشتہ خطبہ میں فتح مکّہ کے ضمن میں مکّہ میں داخل ہونے کے حالات کا ذکر
ہوا تھا۔ اس کی مزید تفصیل اس طرح ہے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب ابوسفیان خدا تعالیٰ کے لشکروں کا جو اس کے پاس سے گزرے تھے مشاہدہ کر کے مکّہ پہنچا اور اس وقت مسلمان ذی طُویٰ پہنچ چکے تھے جو مسجد حرام سے نصف میل کے فاصلے پر مکّہ کی ایک وادی ہے اور صحابہؓ وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے حتٰی کہ سارے صحابہ وہیں جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سبزپوش دستے کے ساتھ آئے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ آپ اپنی اونٹنی قَصواءپر حضرت ابوبکرؓ اور اُسید بن حضیرؓ کے درمیان تھے۔ حضرت عبداللہ بن مُغَفَّلؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ فتح مکّہ کے روز آپ اپنی اونٹنی پر تھے اور آپ سورۂ فتح پڑھ رہے تھے۔ یہ روایت بخاری میں ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو لوگ آپ کی زیارت کے لیے آئے۔ عاجزی کی وجہ سے آپ کا سر کجاوے کو چھو رہا تھا۔ یعنی جو اونٹ کی سیٹ تھی، جہاں بیٹھے ہوئے تھے اس کے اگلے حصے کو چھو رہا تھا۔ جب آپؐ مکّہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپؐ نے سیاہ رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا۔ آپؐ کا جھنڈا بھی سیاہ تھا اور پرچم بھی سیاہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق چھوٹا جھنڈا یعنی لواء سفید رنگ کا تھا۔ آپؐ ذِی طُویٰ جگہ پر کھڑے ہوئے۔ آپ لوگوں کے درمیان تھے۔ فتح اور مسلمانوں کی کثرت دیکھ کر آپ کی ریش مبارک عاجزی کی وجہ سے کجاوے کو چھو رہی تھی یا قریب تھا کہ وہ چھو لے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللّٰهُمَّ اِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَةِ
کہ اے اللہ! یقیناً اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
عدل و انصاف اور انکسار و تواضع کا ایک اَور پہلو یہ تھا کہ آپ نے اپنے پیچھے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ کو سوار فرمایا ہواتھا حالانکہ قریش کے رؤساء اور بنو ہاشم کے بیٹے بھی موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس رمضان المبارک کو مکّہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت سورج کچھ بلند ہو چکا تھا۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ226دار الکتب العلمیۃ بیروت)(صحیح البخاری کتاب المغازی باب این رکز النبیؐ الرایۃ یوم الفتح حدیث:4281)(فرہنگ سیرت صفحہ نمبر180زوار اکیڈمی کراچی)(الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 103-104دار الکتب العلمیۃ بیروت)( امتاع الاسماع جلد8صفحہ384دار الکتب العلمیۃ بیروت)( تاریخ الخمیس جلد2صفحہ84،77از مکتبۃ الشاملہ)(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ122دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سنن الترمذی ابواب الجھاد باب ما جاء فی اللویہ حدیث1679)(ماخوذ از زرقانی جلد3 صفحہ414دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’یہ علوّ جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے اور شیطان کا علوّ استکبار سے ملا ہوا تھا۔ دیکھو! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکّہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح پر اُن مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکّہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا۔‘‘(ملفوظات جلد3حاشیہ صفحہ 260،ایڈیشن 2022ء)
اس بارے میں کہ فتح مکّہ کے روز آپؐ کا قیام کہاں ہوا تھا؟
لکھا ہے کہ مکّہ کے قریب پہنچ کر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ مکّہ میں قیام کہاں ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مکّہ میں عقیل نے کوئی گھر ہمارے لیے چھوڑا بھی ہے! عقیل حضرت ابوطالب کے بیٹے تھے اور یہ حدیبیہ سے کچھ پہلے اسلام لائے تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے ساری جائیداد وغیرہ فروخت کر دی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا قیام خَیْف بنی کِنَانہ میں ہو گا جہاں قریش نے کفر پر قسمیں کھائی تھیں۔ اور تمام صحابہ کو حکم ہوا کہ وہیں جمع ہوں۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اس روز مَیں ان لوگوں میں سے تھا جو آپؐ کے ساتھ ساتھ تھے۔ فتح مکّہ کے دن میں آپ کے ساتھ ہی داخل ہوا اور جب مکّہ کے گھر دیکھے تو آپ رک گئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ آپؐ نے اپنے خیمے کی جگہ کو دیکھا اور فرمایا اے جابر! یہ ہمارے قیام کی جگہ ہے۔ اسی جگہ قریش نے ہمارے خلاف کفر کی حالت میں قسمیں کھائی تھیں۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں اس پر مجھے وہ بات یاد آ گئی جسے میں نے مدینہ میں آپ سے سنا تھا۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ جب ہم مکّہ فتح کریں گے تو ہمارا قیام خَیْف بنی کِنَانہ میں ہو گا جہاں کفر کی حالت میں انہوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ وہ بنو ہاشم سے خرید و فروخت نہیں کریں گے اور نہ ان سے نکاح کریں گے اور نہ انہیں پناہ دیں گے اور انہیں ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
علماء کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار تشکر کے طور پر اب یہاں قیام کرنے کا فیصلہ فرمایا ہو گا۔ کیونکہ یہ بعض کا خیال ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ مکّہ میں اپنے گھر کے علاوہ کسی اَور گھر قیام فرما لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا میں دوسرے گھروں میں داخل نہیں ہوں گا۔ حضرت ابو رافع ؓنے حَجُون کے مقام پر آپ کا خیمہ لگایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کی ازواج میں سے حضرت اُمِّ سَلَمَہ اور میمونہ تھیں۔ آپ ہر نماز کے لیے حَجُون سے مسجد حرام میں تشریف لاتے تھے۔(ماخوذ ازسبل الھدیٰ جلد5صفحہ230-231دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فتح الباری جلد8صفحہ17-18آرام باغ کراچی)(اسد الغابہ جلد4صفحہ61دارالکتب العلمیۃ بیروت)(دائرہ معارف جلد9صفحہ99-100بزم اقبال لاہور)(اللؤلؤالمکنون،جلد4صفحہ49۔دارالصمیعی للنشروالتوزیع)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ کی کتب سے لے کر بیان کرتے ہیں کہ ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں داخل ہوئے آپ سے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپ اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا عقیل نے (یہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے) ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ یعنی میری ہجرت کے بعد میرے رشتہ داروں نے میری ساری جائیداد بیچ باچ کر کھالی ہے۔ اب مکّہ میں میرے لیے کوئی ٹھکانا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ہم خَیف بنی کِنَانہ میں ٹھہریں گے۔ یہ مکّہ کا ایک میدان تھا جہاں قریش اور کِنَانہ قبیلہ نے مل کر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر ہمارے حوالہ نہ کر دیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑ دیں ہم ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ خرید و فروخت کریں گے۔ اس عہد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چچا ابوطالب اور آپ کی جماعت کے تمام افراد وادی ابوطالب میں پناہ گزین ہوئے تھے اور تین سال کی شدید تکلیفوں کے بعد خد اتعالیٰ نے انہیں نجات دلائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب کیسا لطیف تھا۔ مکّہ والوں نے اِسی مقام پر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سپرد نہ کر دیے جائیں ہم آپ کے قبیلہ سے صلح نہیں کریں گے۔ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میدان میں جا کر اترے اور گویا مکّہ والوں سے کہا کہ جہاں تم چاہتے تھے میں وہاں آگیا ہوں مگر بتاؤ تو سہی کیا تم میں طاقت ہے کہ آج مجھے اپنے ظلموں کا نشانہ بنا سکو!! وہی مقام جہاں تم مجھے ذلیل اور مقہور شکل دیکھنا چاہتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ میری قوم مجھے پکڑ کر اِس جگہ تمہارے سپرد کر دے وہاں میں ایسی شکل میں آیا ہوں کہ میری قوم ہی نہیں سارا عرب بھی میرے ساتھ ہے اور میری قوم نے مجھے تمہارے سپر دنہیں کیا بلکہ میری قوم نے تمہیں میرے سپر دکر دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ دن بھی پیر کا دن تھا۔ وہی دن جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر صرف ابوبکرؓ کی معیت میں مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ وہی دن جس میں آپ نے حسرت کے ساتھ ثور کی پہاڑی پر سے مکّہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔ اے مکہ! تُو مجھے دنیا کی ساری بستیوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے باشندے مجھے اس جگہ پر رہنے نہیں دیتے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد20صفحہ 344-345)(دیباجہ تفسیر القرآن صفحہ215۔ ایڈیشن اوّل)
حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے بالائی حصہ میں پڑاؤ فرمایا تو بنو مَخْزُوم میں سے میرے دو سسرالی رشتہ دار بھاگ کر میرے پاس آ گئے۔ میرا بھائی حضرت علیؓ میرے پاس آیا اور اس نے کہا خدا کی قسم! میں ان دونوں کو قتل کر دوں گا۔ میں نے ان دونوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ پھر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکّہ کے بالائی حصہ میں آئی۔ میں نے آپ کو پانی کے ایک برتن میں سے غسل کرتے پایا جس میں گوندھے ہوئے آٹے کے نشانات موجود تھے اور آپ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ ایک کپڑے کے ساتھ آپ کے لیے پردہ کیے ہوئے تھی۔ غسل کے بعد آپ نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔ پھر چاشت کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے ام ہانی!خوش آمدید۔ تمہارا کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے ان دونوں آدمیوں اور حضرت علی کے متعلق سارا معاملہ بتایا کہ اس طرح حضرت علیؓ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور میں ان کو اپنے گھر میں چھپا کر آئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن کو تم نے پناہ دی انہیں ہم نے پناہ دی اور جن کو تم نے امان دی ان کو ہم نے امان دی۔ پس وہ ان دونوں کو قتل نہ کرے یعنی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علیؓ ان کو قتل نہیں کریں گے یہ دو افراد حضرت ام ہانیؓ کے سسرالی رشتہ دار حارث بن ہشام اور عبداللہ بن ربیعہ تھے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 743۔744دارالکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذ صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی الثوب الواحد ملتحفًابہ حدیث357)(سبل الھدیٰ والرشادجلد5صفحہ249-250دارالکتب العلمیۃ بیروت)
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں۔ ہم سے کسی نے بیان نہیں کیا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا سوائے ام ہانی کے۔ یعنی صرف یہ روایت ام ہانی کی ہے کہ آپ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے اور اس کا کوئی اَور گواہ نہیں ملا۔ حضرت ام ہانی بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے دن ان کے گھر میں تشریف لائے اور آپ نے غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ میں نے اس سے زیادہ ہلکی نماز کبھی نہیں دیکھی مگر آپ پوری طرح رکوع اور سجدہ کرتے تھے۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔(صحیح البخاری ابواب التطوع باب صلاۃ الضحیٰ فی السفر حدیث 1176)
آٹھ رکعت نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی۔ اس کے بارہ میں علماء نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے کہ یہ کون سی نماز تھی؟ بعض نے کہا کہ یہ چاشت تھی یا اشراق۔ کسی نے اس نماز کو اشراق کہا ہےاور کسی نے کہا کہ چاشت کی نماز تھی۔ بعض کے نزدیک یہ نماز، نماز فتح تھی جو کسی شہر یا قلعہ وغیرہ فتح کرنے کے بعد شکرانے کے طور پر پڑھی گئی اور اسی سنت کے طور پر بعد میں امرائے اسلام نے فتوحات کے بعد آٹھ رکعت نماز ادا کرنی شروع کی تھی۔(اللؤلؤالمکنون،جلد4صفحہ52دارالصمیعی للنشروالتوزیع)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ فتح مکّہ کی رات چونکہ بعض انتہائی اہم امور پیش نظر تھے جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مصروف رہے کہ تہجد کی نماز پڑھنے کا وقت نہیں ملا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ادا کی یعنی صبح کے وقت۔ اور شاید اسی وجہ سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے تہجد کی نماز رہ جائے تو صبح سورج نکلنے کے بعد آٹھ رکعت نماز پڑھ لینی چاہیے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر تم کسی دن تہجد نہ پڑھ سکو تو اشراق ہی پڑھ لو۔‘‘(خطبات محمود جلد22صفحہ477، خطبہ جمعہ فرمودہ 19ستمبر 1941ء)
یہ بھی بعض روایات میں ملتا ہے کہ اگر کبھی نہ پڑھ سکے ہوں تو آپؐ اس طرح تہجد کی نماز کی جگہ اشراق پڑھ لیا کرتے تھے۔
میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ آپؑ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ’’اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اَوْرَادِ معمولہ کو‘‘یعنی جو ورد آپ کرتے ہیں معمول میں ’’بدستور لازم اوقات رکھیں۔ صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو۔‘‘ اس سے پرہیز کریں۔ ’’پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں۔‘‘یہ نہیں ثابت ہوتا کہ آپ باقاعدہ اشراق پڑھا کرتے تھے۔ ’’تہجد کے فوت ہونے پر یا سفرسے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے۔‘‘(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ528مکتوب نمبر15)یعنی عبادت اور بندگی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پڑے رہنا یہی تو اصل سنت ہے۔
مسجد حرام میں داخلے کا اور طواف کا ذکر
ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کا کچھ حصہ اپنے خیمے میں تشریف فرما رہے۔ پھر آپؐ نے اپنی اونٹنی قَصْوَاء کو منگوایا۔ اسے آپ کے خیمہ کے دروازہ کے قریب کر دیا گیا۔ آپ ہتھیار لینے اور سر پر خَود پہننے کے لیے چلے گئے۔ صحابہ آپ کے ارد گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ خَنْدَمَہ سے لے کر حَجُون تک گھوڑوں کی بل کھاتی قطار تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ آپ ان کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر کَدَاء پہاڑ کی جانب سے مکّہ میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ عورتیں گھوڑوں کے منہ پر اپنے دوپٹے مار مار کر ان کو پیچھے ہٹا رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے حضرت ابوبکر ؓکی طرف دیکھا اور فرمایا اے ابوبکر! حَسّان بن ثابت نے کیا کہا ہے؟ یعنی حسّان بن ثابت نے کوئی شعر کہے تھے۔ ان کے بارے میں پوچھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنی پیاری بیٹی کو کھو دوں اگر تم ایسے لشکروں کو غبار اڑاتے ہوئے نہ دیکھو جن کے وعدوں کی جگہ کَدَاء پہاڑ ہے۔ وہ تیز رفتار گھوڑے اپنی لگاموں کو کھینچ رہے ہیں۔ عورتیں انہیں اپنی اوڑھنیوں سے مار رہی ہیں۔ یہ نقشہ کھینچا انہوں نے گھوڑوں کا اور وہی اس وقت وہاںواقعہ ہو رہا تھا۔
حضرت ابن عمر ؓاور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ فتح مکّہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے جنہیں سیسے کے ساتھ لگایا گیا تھا۔ ہُبَل سب سے بڑا بت تھا۔ یہ خانہ کعبہ کے سامنے تھا۔ اِسَاف اورنائلہ اس جگہ تھے جہاں لوگ اپنے جانور ذبح کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ نے کمان کو کنارے سے پکڑا۔
جب بھی آپؐ کسی بت کے پاس سے گزرتے تو اس کے ساتھ بت کی آنکھ میں مارتے اور فرماتے۔ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل:8) کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔ یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے۔
آپؐ خانہ کعبہ کے پاس پہنچ گئے اور اسے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر آگے بڑھے اور اپنے عصا کے ساتھ حجر اسود کو چھوا اور اللہ اکبر! کہا۔ مسلمانوں نے بھی جواباً تکبیر کہی۔ وہ بار بار نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے رہے یہاں تک کہ مکّہ اللہ اکبر! کے نعروں سے گونج اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا۔ پہاڑوں پر مشرکین یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ حضرت محمد بن مسلمہ اونٹنی کی نکیل پکڑے ہوئے تھے۔ آپؐ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چھوا اور بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب آپ نے طواف مکمل کر لیا تو اپنی سواری سے نیچے اتر آئے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہم نے مسجد میں اونٹنی کو بٹھانے کی جگہ نہ پائی تو آپ لوگوں کی ہتھیلیوں پر اترے یعنی لوگوں نے اپنے ہاتھ آگے کیے۔ آپ اس پہ کھڑے کھڑے اونٹ سے نیچے اتر گئے۔ اونٹنی کو باہر لے جایا گیا۔ حضرت معمر بن عبداللہ ؓآئے اور اونٹنی کو لے کر وادی میں چلے گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کو فتح مکّہ کے وقت حکم دیا کہ جب وہ بطحاء میں تھے کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر جائیں اور اس میں موجود ہر تصویر کو مٹا دیں جب تک اس میں موجود ہر تصویر مٹا نہیں دی گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل نہیں ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں بھی نکالی گئیں۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں فال نکالنے والے تیر تھے۔ ان کی بھی وہاں تصویریں بنائی گئی تھیں یا بت بنائے گئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تصاویر کو دیکھا تو فرمایا: اللہ ان بت پرستوں کو ہلاک کرے۔ ان بت پرستوں کو علم ہے کہ یہ جو ہاتھ میں پکڑائے ہوئے تیر ہیں، ان دونوں نے یعنی حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام نے ان کے ذریعہ سے کبھی فال نہیں نکالی۔ یہ جھوٹی کہانی بنائی ہوئی ہے۔ کبھی انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم پر آئے، آپؐ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ آپ نے وہاں دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر آپ زَم زَم کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب یا حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب نے ایک ڈول آپؐ کے لیے نکالا۔ آپ نے اس سے پانی پیا اور وضو کیا۔ صحابہؓ جلدی جلدی آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے لگے اور اسے اپنے چہروں پر ڈالنے لگے۔ مشرکین ان کی طرف دیکھ رہے تھے، وہ متعجب تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم نے اتنے بڑے بادشاہ کے بارے میں نہ سنا ہے نہ دیکھا ہے۔ مکّہ فتح کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل بت کے بارے میں حکم دیا۔ چنانچہ وہ گرا دیا گیا اور آپؐ اس کے پاس کھڑے تھے۔ اس پر حضرت زبیر بن عوام نے ابوسفیان سے کہا اے ابوسفیان! ہبل کو گرا دیا گیا حالانکہ تو غزوۂ احد کے دن اس کے متعلق بہت غرور میں تھا جب تو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے تم لوگوں پر انعام کیا ہے یعنی ہبل نے انعام کیا ہے۔ اس پر
ابو سفیان نے کہا اے عوام کے بیٹے! ان باتوں کو اب جانے دو کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتا تو جو آج ہوا وہ نہ ہوتا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع تھے۔(سنن ابو داؤد کتاب اللباس باب فی الصور حدیث: 4156)(فتح مکّہ از باشمیل صفحہ270-271نفیس اکیڈمی کراچی)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ227، 234-235دارالکتب العلمیۃ بیروت)(صحیح بخاری مترجم کتاب المغازی حدیث:4288)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے دن تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکر ؓتلوار سونتے آپ کی حفاظت کے لیے آپ کے سرہانے کھڑے تھے۔(مجمع الزوائد جلد6صفحہ187روایت 10252دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابن عمر ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے سال اُسامہ بن زید کی اونٹنی پر آئے پھر عثمانؓ بن طلحہ کو بلایا اور فرمایا: میرے پاس چابی لاؤ۔ وہ اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے انہیں خانہ کعبہ کی چابی دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم!تمہیں ضرور یہ چابی دینی ہو گی۔ اپنی والدہ کو یہ کہا یا پھر یہ تلوار میری پیٹھ سے پار ہو گی۔ یعنی پھر اس کے لیے مجھ پر سختی ہو گی اور وہ سختی تمہارے پہ بھی ہو گی اور آخرکار دینی پڑے گی۔ راوی کہتے ہیں تب اس نے انہیں چابی دے دی۔ وہ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو دے دی۔ آپؐ نے چابی انہیں واپس کر دی اور انہوں نے دروازہ کھولا۔(صحیح مسلم (مترجم) کتاب الحج باب استحباب دخول الکعبہ للحاج جلد6صفحہ 278حدیث 2345)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسامہ بن زید اور بِلال بن رَبَاح کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے۔ کعبہ کا کلید بردار عثمان بن طلحہ بھی ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا دروازہ بند کر دیا اور دیر تک اس کے اندر رہے اور دو رکعت نماز وہاں ادا کی۔ حضرت عبداللہ بن عمر جو کہ باہر دروازے کے پاس ہی کھڑے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو میں جلدی سے اندر گیا اور میں نے حضرت بِلالؓ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا یہاں جب آئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ستون کو اپنے بائیں طرف اور ایک ستون کو دائیں طرف اور تین ستونوں کو اپنے پیچھے رکھا۔ بیت اللہ میں اس وقت چھ ستون تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پڑھی کہ دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہو گئے۔
آگے جو پہلے ستون تھے اور پیچھے تین ستون تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے دو ستون اپنے بائیں اور ایک ستون اپنے دائیں اور تین ستون پیچھے رکھے۔ یعنی جو پہلے اگلے ستون تھے ان میں سے اس طرح تقسیم کیا کہ دو ایک طرف ہو گئے ایک ایک طرف اور پیچھے تین ستون تھے۔ بہرحال آپ نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔صحیح مسلم کی یہ روایت ہے۔( صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ بین السواری فی غیر جماعۃ حدیث:504، 505)(صحیح مسلم (مترجم) کتاب الحج باب استحباب دخول الکعبہ للحاج جلد6صفحہ 276حدیث 2344)(اللؤلؤالمکنون جلد4صفحہ58-59دارالصمیعی للنشروالتوزیع)
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مکّہ میں داخل ہوتے وقت حضرت ابوبکرؓ آپ کی اونٹنی کی رکاب پکڑے ہوئے آپ کے ساتھ باتیں بھی کرتے جا رہے تھے اور سورۂ فتح جس میں فتح مکّہ کی خبر دی گئی تھی وہ بھی پڑھتے جاتے تھے۔ آپؐ سیدھے خانہ کعبہ کی طرف آئے اور اونٹنی پر چڑھے چڑھے سات دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ خانہ کعبہ کے گرد جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے اسمٰعیلؑ نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا تھا جسے بعد کو ان کی گمراہ اولاد نے بتوں کا مخزن بنا کر رکھ دیا تھا گھومے اور وہ تین سو ساٹھ بت جو اس جگہ پر رکھے ہوئے تھے ان میں سے ایک ایک بت پر آپ چھڑی مارتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے۔ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ یہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورۂ بنی اسرائیل میں آپ پر نازل ہوئی تھی اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکّہ کی خبر دی گئی تھی۔ یورپین مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہجرت سے پہلے کی سورہ ہے۔ اس سورہ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ وَقُلْ رَّبِّ أَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا۔ وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل: 81) یعنی تُو کہہ دے میرے رب! مجھے اس شہر یعنی مکّہ میں نیک طور پر داخل کیجیو یعنی ہجرت کے بعد فتح اور غلبہ دے کر۔ اور اِس شہر سے خیریت سے ہی نکالیو یعنی ہجرت کے وقت۔ اور خود اپنے پاس سے مجھے غلبہ اور مدد کے سامان بھجوائیو۔ اور یہ بھی کہو کہ حق آگیا ہے اور باطل یعنی شرک شکست کھا کے بھاگ گیا ہے اور باطل یعنی شرک کے لیے شکست کھا کر بھاگنا تو ہمیشہ کے لیے مقدر تھا۔ اس پیشگوئی کے لفظاً لفظاً پورا ہونے اور حضرت ابوبکرؓ کے اِس کو تلاوت کرتے وقت مسلمانوں اور کفار کے دلوں میں جو جذبات پید ا ہوئے ہوں گے وہ لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتے۔ غرض اس دن ابراہیمؑ کا مقام پھر خدائے واحد کی عبادت کے لیے مخصوص کر دیا گیا اور بت ہمیشہ کے لیے توڑے گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیرؓ نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان! یاد ہے اُحُد کے دن جب مسلمان زخموں سے چُور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ھُبَلْ کی شان بلند ہو۔ ھُبَلْکی شان بلند ہو۔ اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو اُحُد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی۔ آج دیکھتے ہو وہ سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا زبیرؓ! یہ باتیں جانے دو۔ آج ہم کو اچھی طرح نظر آرہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اَور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا۔ پھر آپ نے خانہ کعبہ کے اندر جو تصویریں حضرت ابراہیمؑ وغیرہ کی بنی ہوئی تھیں ان کے مٹانے کا حکم دیا اور خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے شکریہ میں دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور باہر آکربھی دو رکعت نماز پڑھی۔ خانہ کعبہ کی تصویروں کو مٹانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو مقرر فرمایا تھا۔ انہوں نے اس خیال سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ہم بھی نبی مانتے ہیں حضرت ابراہیمؑ کی تصویر کو نہ مٹایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس تصویر کو قائم دیکھا تو فرمایا عمر! تم نے یہ کیا کیا؟ کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ مَا كَانَ إِبْرَاهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (آل عمران: 68) یعنی ابراہیم نہ یہودی تھانہ نصرانی بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا کامل فرمانبردار اور خدا تعالیٰ کی ساری صداقتوں کو ماننے والا اور خدا کا مؤحد بندہ تھا۔ چنانچہ آپ کے حکم سے یہ تصویر بھی مٹا دی گئی۔
خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر مسلمانوں کے دل اس دن ایمان سے اتنے پُر ہو رہے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر ان کا یقین اِس طرح بڑھ رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زمزم کے چشمہ سے (جو اسمٰعیلؑ بن ابراہیمؑ کے لیے خداتعالیٰ نے بطور نشان پھاڑا تھا) پانی پینے کے لیے منگوایا اور اس میں سے کچھ پانی پی کے باقی پانی سے آپ نے وضو فرمایا تو آپ کے جسم میں سے کوئی قطرہ زمین پر نہیں گر سکا۔ مسلمان فوراً اس کو اچک لے جاتے اور تبرک کے طور پر اپنے جسم پر مل لیتے تھے اور مشرک کہہ رہے تھے ہم نے کوئی بادشاہ دنیامیں ایسا نہیں دیکھا جس کے ساتھ اس کے لوگوں کو اتنی محبت ہو۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد20صفحہ 345تا 347)
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں ’’یہ بات بحضورِ دل یادرکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِاسود پڑا ہو اہے۔ اسی طرح قلب سینہ میں پڑاہوا ہے۔‘‘ مثال دے رہے ہیں آپ حجرِ اسودکی انسان کے دل سے جو ہمارے سینے میں ہے۔ فرمایا کہ ’’بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیاہواتھا کہ کفار نے وہاں بت رکھ دیئے تھے۔ ممکن تھا کہ بیت اللہ پر یہ زمانہ نہ آتا۔ مگر نہیں اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک نظیر کے طور پر رکھا۔ قلبِ انسانی بھی حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ماسویٰ اللہ کے خیالات وہ بت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں۔‘‘ یعنی دل میں جو بھی خیالات اللہ کے سوا آتے ہیں وہ سارے بت ہیں۔ ’’مکّہ معظمہ کے بتوں کا قلع و قمع اس وقت ہوا تھا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جاپڑے تھے اور مکّہ فتح ہوگیا تھا۔ ان دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (النحل:51)
اسی طرح پرانسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ ایسا ہی تمام قویٰ اور جوارح حکمِ انسانی کے نیچے ہیں۔ پس ماسوِی اللہ کے بتوں کی شکست اور استیصال کے لیے ضروری ہے کہ ان پر اسی طرح سے چڑھائی کی جاوے۔ یہ لشکرتزکیۂ نفس سے طیارہوتا ہے اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس:10) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہوجاوے تو کُل جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اور یہ کیسی سچی بات ہے آنکھ،کان،ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں وہ دراصل قلب کے ہی فتویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ ایک خیال آتا ہے پھر وہ جس اعضاء کے متعلق ہو وہ فوراً اس کی تعمیل کے لیے طیار ہو جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ172-173ایڈیشن2022ء)
آپؑ نے اس طرح یہ مثال فرمائی کہ اپنے دلوں کے بتوں کو بھی دور کرو تبھی تم حقیقی مومن بن سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خطاب بھی فرمایا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ کے دن فرمایا: اب ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو تم جہاد کے لیے نکلو اور اس شہر مکّہ کو اللہ نے حَرم قرار دیا ہے اس دن سے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ تو یہ روز قیامت تک اللہ کی حرمت سے حرم ہے اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس میں جنگ جائز نہیں ہوئی اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے ہی جائز ہوئی ہے۔ تو یہ شہر قیامت کے روز تک اللہ تعالیٰ کی حرمت سے حرم ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور اس کا شکاری جانور نہ بدکایا جائے یعنی اس کو ڈرایا نہ جائے۔ کوئی اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر وہی جو اسے شناخت کرائے اور اس کا گھاس نہ کاٹا جائے۔ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہ! اِذخر کو مستثنیٰ کریں۔ اِذخر بھی گھاس کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ یہ ان کے کاریگروں کے کام آتی ہے اور وہ ان کے گھروں کے لیے درکار ہے۔ فرمایا سوائے اِذخر کے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اِذخر کو کاٹ سکتے ہو اپنے مقاصد کے لیے۔(صحیح بخاری کتاب الجزیہ والموادعہ باب اثم الغادر للبر والفاجر حدیث3189)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکّہ فتح کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر آپ نے فرمایا یقیناً اللہ نے مکّہ کو ہاتھی والوں سے محفوظ رکھا اور اس نے اپنے رسول کواور مومنوں کو اس پر غلبہ دے دیا۔ مجھ سے پہلے کسی کے لیے وہ جائز نہ تھا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی جائز کیا گیا اور میرے بعد کسی کے لیے جائز نہ ہو گا یعنی فتح مکّہ میں کسی دن کی لڑائی ہے تو وہ میرے لیے صرف تھوڑے وقت کے لیے جائز کی گئی ہے اس کے بعد کسی کوجائز نہیں۔ تو نہ اس کا شکار بھگایا جائے نہ اس کے کانٹے توڑے جائیں اور نہ اس کی گری پڑی چیز جائز ہو گی سوائے اعلان کرنے والے کے اور جس کا کوئی قتل کیا جائے تو اسے دو باتوں کا اختیار ہے یا اس کو فدیہ دیا جائے یا قصاص لے۔ حضرت عباس نے عرض کیا سوائے اذخر کے کیونکہ ہم اس کو اپنی قبروں اور اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر گھاس کے۔ ٹھیک ہے اس کو کاٹ سکتے ہو۔ ابوشاہ جو اہل یمن میں سے ایک شخص تھا وہ کھڑا ہوا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لیے لکھ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوشاہ کے لیے لکھ دیں۔ راوی کہتے ہیں میں نے اَوزاعی سے پوچھا کہ اس کی اس بات کا کیا مطلب تھا کہ میرے لیے لکھ دیں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے لکھ دیں۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ انہوں نے کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ خطبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جو اس نے ابھی سنا ہے اِس کو اُس کو لکھ کے دے دیں۔ چنانچہ آپ نے اس کو لکھوا دیا۔(صحیح بخاری کتاب فی اللقطۃ باب کیف تعرف لقطۃ اھل مکۃ حدیث 2434)
سیرت ابن ہشام میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔ اے لوگو!تمام فخر، تمام انتقام اور تمام خون بہا وہ میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں مگر خانہ کعبہ کی کلید برداری اور زمزم سے پانی پلانے کی خدمت انہی کو ملے گی جن کے پاس پہلے سے یہ خدمت ہے۔ اے لوگو ! جو شخص غلطی سے مارا جائے لکڑی یا کوڑے وغیرہ سے اس میں پورا خون بہا یعنی دیت سو اونٹ ہیں۔ اے قریش!خداوند تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کی نخوت اور فخر کو دور کر دیا جو باپ دادا کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ یہ فخر کوئی نہیں رہا اب۔ سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی پیدائش مٹی سے ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی کہیٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ (الحجرات :14) اے لوگو!یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قریش!تم کیا خیال کرتے ہو کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا؟ قریش نے کہا جو مسلمان نہیں ہوئے تھے کہ آپ جو کچھ کریں گے بہتر کریں گے۔ آپ معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تو پھر جاؤ تم سب آزاد ہو۔(سیرت ابن ہشام صفحہ744دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک روایت میں ہےآپؐ نے فرمایا: أَقُوْلُ كَمَا قَالَ يُوْسُفُ: لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ (السنن الکبریٰ للبیہقی جلد9صفحہ 200، حدیث18275، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) میں وہی کہوں گا جو یوسف نے کہا تھا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہیں بخش دے گا اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ لوگ عام معافی کا اعلان سن کر اس طرح نکلے گویا کہ ابھی ابھی قبروں سے نکلے ہوں اور اسلام میں داخل ہو گئے۔ یہ بات سن کر انہوں نے فوراً اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔
حضرت مصلح موعودؓ اہل مکّہ کو معاف کرنے کے حوالے سے واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’جب آپ ان باتوں سے فارغ ہوئے اور مکّہ والے آپ کی خدمت میں حاضر کیے گئے تو آپ نے فرمایا اے مکّہ کے لوگو! تم نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات کس طرح لفظ بلفظ پورے ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ کہ تمہارے ان ظلموں اور ان شرارتوں کا کیا بدلہ دیا جائے جو تم نے خدائے واحد کی عبادت کرنے والے غریب بندوں پر کیے تھے؟ مکّہ کے لوگوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ یہ خدا کی قدرت تھی کہ مکّہ والوں کے منہ سے وہی الفاظ نکلے جن کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے سورۂ یوسف میں پہلے سے کر رکھی تھی اور فتح مکّہ سے دس سال پہلے بتادیا تھا کہ تُو مکّہ والوں سے ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ پس جب مکّہ والوں کے منہ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوسفؑ کے مثیل تھے اور یوسفؑ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بھائیوں پر فتح دی تھی تو آپ نے بھی اعلان فرما دیا کہ تَاللّٰہِ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ خدا کی قسم! آج تمہیں کسی قسم کا عذاب نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی سرزنش کی جائے گی۔‘‘(دیباچہ تفسیرالقرآن۔انوارالعلوم جلد20صفحہ347-348)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ فتح کر لیا تو تمام کفار گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کیے گئے تو کفار نے خود اپنے منہ سے اس وقت اقرار کیا کہ ہم بباعث اپنے سخت جرائم کے واجب القتل ہیں اور اپنے تئیں آپ کے رحم کے سپرد کرتے ہیں تو آپ نے سب کو بخش دیا اور اس موقع پر معافی کے لیے اسلام کی بھی شرط نہ لگائی لیکن وہ لوگ یہ اخلاقِ کریمانہ دیکھ کر خود بہ خود مسلمان ہو گئے۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ235)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی طاقت کا کمال اس وقت ذہن میں آ سکتا ہے جب کہ اس زمانے کی حالت پر نگاہ کی جاوے۔ مخالفوں نے آپؐ کو اور آپؐ کے متبعین کو جس قدر تکالیف پہنچائیں اور اس کے بالمقابل آپؐ نے ایسی حالت میں جبکہ آپؐ کو پورا اقتدار اور اختیار حاصل تھا ان سے جو کچھ سلوک کیا وہ آپؐ کی علوّ شان کو ظاہر کرتا ہے۔ ابوجہل اور اس کے دوسرے رفیقوں نے کون سی تکلیف تھی جو آپؐ کو اور آپؐ کے جانثار خادموں کو نہیں دی۔ غریب مسلمان عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر مخالف جہات میں دوڑایا اور وہ چیری جاتی تھیں۔‘‘دو حصے ہو جاتے تھے۔ ’[محض اس گناہ پر کہ وہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه پر کیوں قائل ہوئیں مگر آپؐ نے اس کے مقابل صبر و برداشت سے کام لیا اور جبکہ مکّہ فتح ہوا تو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف:93) کہہ کر معاف فرمایا۔ یہ کس قدر اخلاقی کمال ہے جو کسی دوسرے نبی میں نہیں پایا جاتا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ۔‘‘(ملفوظات جلد1صفحہ485ایڈیشن2022ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’مکّہ میں جن لوگوں نے دکھ دیے تھے جب آپؐ نے مکّہ کو فتح کیا تو آپ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے مگر آپ نے رحم کیا اور لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ(یوسف:93) کہہ دیا۔ آپؐ کا بخشنا تھا کہ سب مسلمان ہو گئے۔ اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیا کسی نبی میں پائے جاتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دی تھیں اور ناقابل عفو ایذائیں پہنچائی تھیں آپ نے سزا دینے کی قوت اور اقتدار کو پا کر فی الفور ان کو بخش دیا۔ حالانکہ اگر ان کو سزا دی جاتی تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا مگر آپ نے اس وقت اپنے عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا۔ یہ وہ امور تھے کہ علاوہ معجزات کے صحابہؓ پر مؤثر ہوئے تھے۔ اس لیے آپ اسم بامسمّٰی محمد ہو گئے تھے صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور زمین پر آپ کی حمد ہوتی تھی اور اسی طرح آسمان پر بھی آپ کی تعریف ہوتی تھی اور آسمان پر بھی آپ محمد تھے۔ یہ نام آپ کا اللہ تعالیٰ نے بطور نمونہ کے دنیا کو دیا ہے۔ جب تک انسان اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پیدا نہیں کرتا۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب تک انسان اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پیدا نہیں کرتا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بنا لے۔‘‘(ملفوظات جلد2صفحہ425-426ایڈیشن2022ء)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ۔ باقی قصے بعد میں آئندہ بیان کروں گا۔
اس وقت دو مرحومین کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور بعد میں ان کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا ہے
سیدہ لبنیٰ احمد صاحبہ، سید مولود احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ
تھیں۔ گذشتہ دنوں اکہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مرکزی طور پر تو نہیں لیکن اپنے محلے اور حلقے کے طور پر ان کو لجنہ میں خدمت کا موقع ملتا رہا۔ ان کی شادی سید مولود احمد صاحب سے ہوئی تھی جو صاحبزادی امة الحکیم بیگم صاحبہ اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کا نکاح حضرت خلیفة المسیح الثالثؓ نے پڑھایا تھا۔کیونکہ اس میں کچھ نصائح بھی ہیں اس لیے میں اس نکاح کے بھی بعض الفاظ پڑھ دیتا ہوں۔ یہ آجکل کے رشتوں کے لیے بھی فائدہ مند ہیں ۔ حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں جنہیں شروع میں بڑا سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اس پیوند کو قول سدید کے دھاگوں سے باندھنا پڑتا ہے تب جاکر اس کی حفاظت ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری نہ صرف ہر دو میاں اور بیوی پر بلکہ ان کے خاندانوں پر، ان کے ماحول پر بلکہ ان کے دوستوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ بہت سی خرابیاں بدظنیوں کے نتیجہ میں یا چغلیوں کے نتیجہ میں یا بے صبری کے نتیجہ میں یا طیش کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتی ہیں اور ان کو روکنے کے لیے قول سدید ایک بہت ہی مضبوط دھاگاہے۔
پھر آپؒ نے فرمایا تھا کہ خدا کرے کہ جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کر رہا ہوں وہ ہر دو خاندانوں کے لیے بہت بابرکت ہو۔ جماعت کے لیے بھی بابرکت ہو اور انسانیت کے لیے بھی بابرکت ہو اور خادم دین نسل اس سے چلے اور کہہ سکتے ہیں بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کیونکہ رشتہ داری بھی تھی کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؓ کے ان الفاظ کو محترمہ لبنیٰ صاحبہ نے اپنے رشتوں کے حق میں نبھانے کی، سنبھالنے کی کوشش کی۔ پھر آپؒ نے یہ بھی فرمایا کہ آج میں جن کا نکاح کر رہا ہوں یہ میری چھوٹی ہمشیرہ امة الحکیم صاحبہ اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے بیٹے سید مولود احمد ہیں اور بیٹی جو ہے، بچی جو ہے ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کی بیٹی ہے۔ پھرڈاکٹر صاحب کیونکہ واقف زندگی ڈاکٹر تھے۔ افریقہ میں رہے۔ شروع میں جب نصرت جہاں کا اعلان ہوا اس وقت ابتدائی واقفین ڈاکٹروں میں سے تھے۔ ان کا حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب ان ابتدائی ڈاکٹروں میں سے ہیں جنہوں نے مغربی افریقہ میں بطور وقف ڈاکٹر کام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا۔ ان کے ہاتھ میں بہت شفا بخشی اور بڑے کامیاب سرجن کے طور پر وہ غانا میں کام کرتے رہے۔ پھر اس کے بعد نائیجیریا میں بھی کام کیا۔(ماخوذ از خطباتِ ناصر جلد10صفحہ 771-772، خطبہ نکاح 25نومبر 1977ء)
سیدہ لبنیٰ صاحبہ کے بیٹے سید سعود احمد واقف زندگی ہیں اور آجکل فضل عمر ہسپتال میں ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ وہ اپنی والدہ کے حالات کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب میرے نانا نصرت جہاں سکیم کے تحت اوسوکورے گھانا گئے تو پوری فیملی گئی تھی، ان کی والدہ لبنیٰ صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ چھوٹی تھیں لبنیٰ صاحبہ کی شادی سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ کہتے ہیں اس وقت کیونکہ وہاں سامان کچھ نہیں ہوتا تھا تو اس وقت بعض دفعہ پٹیاں کاٹ کاٹ کر دیا کرتی تھیں۔ روشنی نہیں ہوتی تھی۔ ٹارچ کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب آپریشن کیا کرتے تھے اور یہ بچی بھی ٹارچ لے کر وہاں کھڑی رہتی تھیں تاکہ ڈاکٹر صاحب اس روشنی میں آپریشن کر سکیں۔
پھر یہ لکھتے ہیں کہ بہت پیار کرنے والی تھیں۔ اپنی تکلیف بھول کر دوسروں کی خدمت کرتی تھیں۔ اپنے خاوند،والدین،ساس،سسر سب کے حقوق عمدہ طور پر ادا کیے اور واقعی ادا کیے۔ 1986ء میں سیڑھیوں سے گر گئی تھیں۔ کمر کی تکلیف تھی۔ پھر اس کے بعد کینسر بھی ہو گیا۔ شوگر کی تکلیف بھی تھی لیکن کبھی تکلیف کا اظہار نہیں کیا اور بڑے صبر سے اپنی بیماری کاٹتی رہیں اور اس طرح ہی چلتی پھرتی رہیں جس طرح صحت مند ہوں۔ اپنے بچوں کو، پوتوں، نواسوں کو بھی دعائیں سکھاتی رہتی تھیں۔ خاص طور پر روزانہ اپنے پوتا پوتی کو جو ان کے ساتھ رہتے تھے سکھاتیں اور خیال رکھتیں۔ نظر بھی ان کی کمزور ہو گئی تھی۔ جب تلاوت نہیں کر سکیں تو پھر آن لائن تلاوت قرآن کریم سنا کرتی تھیں۔ اجلاسوں میں باقاعدہ جاتی تھیں۔ کسی نے ایک دفعہ کہا بھی کہ آپ بیمار ہیں اجلاس پہ کیوں آتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اجلاس ہو رہا ہو اور میں نہ جاؤں؟ جماعتی نظام ہے اس کے ساتھ مجھے پابندی کرنی چاہیے۔ جماعت کی پابندی کا بڑا احساس تھا۔ کیونکہ یہ میری اہلیہ کی بھابھی بھی تھیں اس لحاظ سے میں نے بھی دیکھا ہے کہ سادہ مزاج اور ہر قسم کے حالات میں رہنے والی اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے والی تھیں۔ سسرال کا تعلق بھی انہوں نے خوب نبھایا۔ اچھی طرح نبھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی ایک بیٹی اور بیٹا ہے۔ بیٹا واقف زندگی ہے جیسا کہ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی اپنے ماں باپ کے نیک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرمہ ناز مون بی بی زبیر صاحبہ کا ہے۔ یہ محمد شفیع زبیر صاحب جرمنی کی اہلیہ ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ ماریشس کی تھیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا محمد حنیف سدھن صاحب کے ذریعہ سے آئی۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بیٹے ان کے اطہر زبیر صاحب ہیں جو چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ جرمنی ہیں۔
اطہر زبیر صاحب لکھتے ہیں کہ آپ غیر متزلزل ایمان اور گہری عاجزی کا نمونہ تھیں۔ وہ کہتے ہیں جس طرح انہوں نے مجھے پالا اور جو باتیں ہمیں سکھائیں ان کا ایمان بڑا مضبوط تھا۔ میں اس بات کو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کبھی ان کو کسی قسم کا شکوہ اور شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا۔ جب وہ شدید بیمار ہوئیں تو کہتے ہیں اس وقت تو خاص طور پر ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور جب بھی ہوش میں آتیں تو اپنی نمازوں کے بارے میں پوچھتیں۔ نمازوں کی ان کو بڑی پابندی تھی۔ بے پناہ صبر اور تحمل کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہونے والی۔ پھرکہتے ہیں لوگوں کے کام بڑے آیا کرتی تھیں اور راز بڑا رکھا کرتی تھیں۔ ایک واقعہ ہے کہ کسی میاں بیوی کا کوئی معاملہ تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میاں سے پوچھوکہ کیا باتیں ہیں تو میں نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ بیوی نے کیا باتیں کی ہیں؟ کہتی ہیں نہیں اس نے تو مجھ پر اعتماد کر کے باتیں بتائی ہیں میں تمہیں نہیں بتاؤں گی۔ وہ خود اگر بتانا چاہیں گے تو بتا دیں گے تمہیں لیکن کوشش کرو کہ آپس میں ان کی صلح صفائی ہو جائے۔
خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا اور خطبات بڑے غور سے سنتی تھیں بلکہ ان کے پوتے نے لکھا ہے کہ دو تین دفعہ سنتی تھیں اور یہ کہتی تھیں کہ پہلی دفعہ سمجھ نہیں آتی اور اچھی طرح نہ سنو تو پھر فائدہ کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بڑا پختہ تعلق تھا۔ صاحب رؤیا تھیں۔ کئی ان کی خوابیں ہیں جو سچی ثابت ہوئیں۔ اب یہی آخری بیماری کے دنوں میں ہی زبیر صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا مجھے کینسر تو نہیں ؟ سی ٹی سکین ہوا تو پتالگا کہ واقعی مثانے کا کینسر تھا تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کس طرح پتالگا ؟ انہوں نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے۔ ان کی ایک وفات یافتہ عزیزہ تھیں وہ آئی ہیں انہوں نے کہا تمہارا بیٹا شاید تمہیں نہ بتائے کہ تم فکر مند نہ ہو جاؤ لیکن میں تمہیں بتاتی ہوں کہ تمہیں کینسر ہے۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی بیماری کا بھی پہلے بتا دیا تھا۔
ان کی بہوئیںجرمن ہیں اور ان کے ساتھ بھی انہوں نے ایسے ہی تعلق رکھا اور تربیت کی ہے کہ وہ دونوں باوجود جرمن ہونے کے ہر معاملے میں ان سے مشورہ لینے والی اور ان کی طرح ہر قسم کی قربانی کرنے والی ہیں۔ ایک بہو ان کی سوزن زبیر کہتی ہیں ساس کی حیثیت سے وہ شفقت اور رحمدلی کی روشن مثال تھیں۔ جو بھی ان کے پاس تھا وہ ہمیشہ اس پر شکر گزار رہتی تھیں۔ بہوؤں سے اپنی بیٹی کی طرح برتاؤ کرتی تھیں۔ بڑا پیار کرتیں۔ ہماری اصلاح بھی بڑے پیار سے کرتیں اور ہمیشہ ہمارے لیے دعا بھی کرتی تھیں۔ دوسری بہو ہیں ماریہ زبیر۔ وہ بھی کہتی ہیں کہ جب میں نے شادی کی تو مجھے کھانا پکانا اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا طریقہ سکھایا اور بغیر کسی دباؤ یا تنقید کے مجھے یہ باتیں سکھائیں اور انہوں نے میری پڑھائی کے دوران بھی بڑا کام کیا۔ بعد میں انہوں نے، اس بہو نے میڈیسن کیا تھا اور کہتی ہیں جماعتی سرگرمیوں میں بھی میرا پورا ساتھ دیا۔ میری اور بچوں کی دیکھ بھال کی۔ ہمیشہ حوصلہ دلایا کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔