خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ11؍ جولائی 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا کہ فتح مکہ سے پہلے کعبہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے پاس تھی۔ جب فتح مکہ ہوئی تو اس وقت حضرت علیؓ نے سقایہ یعنی پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ کلید برداری کا اعزاز بھی حاصل کرنے کی درخواست کی یعنی کہ اب چابی ان کو دے دی جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ سے نکلتے ہوئے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور اس کو چابی واپس کر دی اور فرمایا:

اَلْيَوْمُ يَوْمُ بِرٍّ وَ وَفَاءٍ کہ آج نیکی اور ایفائے عہد کا دن ہے۔

اس وقت عثمان بن طلحہ مسلمان ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں کہا؟ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ایک مرتبہ عثمان بن طلحہ سے کعبہ کی چابی مانگی تھی تو اس نے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور نہایت غلیظ زبان استعمال کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت نہایت تحمل سے کام لیا اور فرمایا يَا عُثْمَانُ لَعَلَّكَ سَتَرٰى هٰذَا الْمِفْتَاحَ يَوْمًا بِيَدِيْ أَضَعُهٗ حَيْثُ شِئْتُ کہ اے عثمان !یاد رکھو یہ چابی کسی نہ کسی دن میرے ہاتھ میں آئے گی اور میں اسے اپنی مرضی سے جسے چاہوں گا دوں گا۔عثمان نے اس وقت تو یہ جواب دیا تھا کہ اگر ایسا وقت آیا تو وہ قریش کی ہلاکت اور ذلّت کا وقت ہو گا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بَلْ عَمَرَتْوَعُزَّتْ يَوْمَئِذٍ۔ ایسا نہیں بلکہ اس وقت تو قریش کی آبادی اور عزت و تکریم ہو گی۔

یہ ساری زیادتیاں جو آپؐ سے کی گئی تھیں اس وقت آپؐ کو یاد تھیں لیکن باوجود اس کے آپ نے ان لوگوں پر رحمت اور شفقت فرمائی۔ ایک دوسری روایت میں عثمان بن طلحہ خود بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں سوموار اور جمعرات والے دن ہم خانہ کعبہ کھولا کرتے تھے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کچھ لوگوں کے ساتھ کعبہ کے اندر جانا چاہا۔ اس پر میں آپ سے سخت کلامی سے پیش آیا لیکن آپ نے بہت نرمی سے کلام کیا اور فرمایا

اے عثمان! ایک دن یہ چابی تم میرے ہاتھ میں دیکھو گے اور میں جس کو چاہوں گا یہ دوں گا۔

آج وہ دن تھا۔ یہ ساری باتیں عثمان کو بھی یاد آ رہی ہوں گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہ دن نہیں بھولے ہوں گے لیکن آپؐ نے اسے فرمایا اے عثمان! اپنی چابی سنبھالو۔ اس کے باوجود آپ نے اسے یہی کہا کہ لو چابی مَیں تمہیں دیتا ہوں آج۔ آج نیکی اور ایفائے عہد کا دن ہے۔ یہ چابی ہمیشہ کے لیے لے لو تم سے صرف ظالم ہی اسے چھینے گا۔(سیرت النبی ﷺ ازڈاکٹرصلابی،جلد3صفحہ415-416،دار السلام)( تاریخ الخمیس جلد2صفحہ482، 487، 488دار الکتب العلمیۃ بیروت)اب یہ تمہارے خاندان میں رہے گی۔ چنانچہ آج تک خانہ کعبہ کی چابی اسی خاندان میں نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔

روایت ہے کہ فتح مکہ کے دوسرے روز بنو خُزَاعہ نے بنو ہُذَیل کے ایک مشرک آدمی کو قتل کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کعبہ کے ساتھ لگائے ہوئے تھے، وہاں ٹیک لگائے ہوئے تھے اور ایک روایت ہے کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا

اے لوگو !اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس روز سے حرم بنایا ہے جس روز اس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی اور جس روز اس نے سورج اور چاند کو بنایا اور یہ دو پہاڑ صفا اور مروہ نصب کیے۔اسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا۔آپ نے فرمایا اسے لوگوں نے حرم نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ قیامت کے دن تک حرم ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں خونریزی کرے اور نہ اس کا درخت کاٹے۔ یہ نہ مجھ سے قبل کسی کے لیے حلال ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے یہ گھڑی بھر کے لیے حلال ہوا تھا پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل تھی۔ تم میں سے حاضر غائب تک پہنچا دے جو تمہیں کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قتال کیا تھا تو اسے کہو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول کے لیے حلال کیا تھا اور اس نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا۔ اے لوگو !لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ پر سب سے زیادہ جرأت کرنے والا وہ شخص ہے جس نے حرم میں قتل کیا یا اپنے قاتل کے علاوہ کسی اَور کو قتل کیا یا زمانہ جاہلیت کے خون کے بدلے کی وجہ سے قتل کیا۔

اے بنو خُزَاعہ! قتل سے ہاتھ روک لو۔ تم نے ایک شخص کو قتل کیا ہے۔ میں اس کی دیت ادا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا: میں دوں گا اب اس کی دیت، معاہدہ ہے۔ جو میری ضمانت کے بعد کسی کو قتل کرے گا تو اس کے اہل کو دو اختیار ہوں گے اگر وہ چاہیں تو دیت لے لیں اور اگر چاہیں تو اسے قتل کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی دیت ایک سو اونٹ دے دی جسے بنو خُزَاعہ نے قتل کیا تھا۔ ان کی طرف سے آپ نے دیت عطا فرمائی۔(سبل الھدیٰ ،جلد5صفحہ257,256دار الکتب العلمیۃ بیروت)

انہی دنوں میں فَضَالَہ بن عُمَیر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ

بھی ظاہر ہوا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ فتح مکہ کے دن بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اندر ہی اندر پیچ وتاب کھا رہے تھے لیکن وہ بے بس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے کچھ دلیر نوجوانوں جیسے عکرمہ وغیرہ نے باقاعدہ ایک پلٹن بنا کر ایک جگہ کھڑے ہو کر مسلح مزاحمت بھی کی تھی۔ اسی طرح کی سوچ رکھنے والوں میں سے ایک شخص فَضَالَہبن عُمیربھی تھا۔ یہ کہتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے تو میں بھی اس بھیڑ میں شامل ہو گیا اور سوچا کہ جونہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوں گا تو چپکے سے اپنے خنجر سے وار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کر دوں گا۔ وہ اس ارادے سے آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ جونہی وہ آپ کے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کے فرمایا کہ تم فَضَالہ ہو؟ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ فرمایا دل میں کیا سوچ رہے ہو؟ کہنے لگا کہ میں اللہ کا ذکر کر رہا ہوں۔ اس نے جھوٹ بولا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا اللہ سے استغفار کرو۔ تم جو کہہ رہے ہو وہ تم نہیں کر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب آئے اور اس کے سینے پر ہاتھ رکھا۔

فَضَالہ بیان کرتے ہیں کہ بخدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے سے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی لگنے لگے اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس لوٹ آیا۔(سبل الھدیٰ (مترجم) ،جلد5صفحہ232، زاویہ پبلیشرز لاہور)(تاریخ الخمیس،جلد2صفحہ487دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذ از دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ170 بزم اقبال لاہور)(فتح مکہ از باشمیل صفحہ241-242نفیس اکیڈمی کراچی)

اس ارادے سے گیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی کایا پلٹ گئی۔

انہی دنوں میں حضرت ابوبکرؓ کے والد ماجد کے قبول اسلام کے واقعے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر کے والد فتح مکہ تک ایمان نہیں لائے تھے۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی۔ فتح مکہ کے وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اپنے والد کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم اس عمر رسیدہ شخص کو گھر ہی میں رہنے دیتے۔ اتنی بڑی عمر کے آدمی کو میرے پاس لے آئے ہو۔ میں خود ان کے پاس آ جاتا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے نہ یہ کہ آپؐ ان کے پاس تشریف لاتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹھایا تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اسلام لے آئیں۔ آپ سلامتی میں آ جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے (حضرت ابوبکرؓ کے والد نے) اسلام قبول کر لیا۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4صفحہ374-375دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ232-233دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک ذکر حضرت اُمّ ہانیؓ کے گھر آپؐ کے کھانا تناول فرمانے کا ملتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز حضرت ام ہانیؓ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کھانا ہے جسے ہم کھائیں؟ انہوں نے عرض کی: سوکھی ہوئی روٹی کے ٹکڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور مجھے حیا آتی ہے کہ میں انہیں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں ہی لے آؤ۔ آپ نے انہیں پانی میں بھگویا۔ وہ نمک ساتھ لے آئیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا شوربہ ہے کوئی؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ !میرے پاس سرکہ کے علاوہ اَور کچھ نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ سرکہ لے آؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے پر انڈیلا اور اس میں سے کھایا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر فرمایا سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے۔ اے ام ہانی جس گھر میں سرکہ موجود ہو وہ غریب نہیں ہوتا۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ235دار الکتب العلمیۃ بیروت)شکرگزاری کی بھی انتہا ہے اور ام ہانی کی دلجوئی بھی کر دی۔ یہ فاتح مکہ کا حال ہے جبکہ ہر گھر سے سب کچھ میسر آ سکتا تھا لیکن آپ نے ان چھوٹے سوکھے روٹی کے ٹکڑوں پر اس وقت گزارا کیا۔

آپؐ کے مکہ پہنچنے اور وہاں ہر چیز خاص طور پر خانہ کعبہ کو محبت سے دیکھنے سے انصار کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں آپؐ یہیں نہ رہ جائیں۔ مثل مشہور ہے کہ عشق است و ہزاربدگمانی۔ کہ ایک محبت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہزار بدگمانیاں اور وسوسے ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والا ہر وقت اپنے محبوب کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔ عشق و محبت اور حسن و وفا کے بہت سے منظر فتح مکہ کے موقع پر دیکھے گئے۔ ان میں سے ایک بہت ہی پاکیزہ اور پُر لطف نظارہ مدینہ کے انصار کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مکہ میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرِ اسود کی طرف آئے اور اسے اِستلام کیا یعنی حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر صفا پر چڑھے جہاں سے آپؐ بیت اللہ کو دیکھ رہے تھے اور آپؐ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ عز وجل ّ کا ذکر کرنے لگے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپؐ اس کا ذکر کریں اور اس سے دعا مانگتے رہے۔ انصار آپؐ سے نیچے تھے۔ آپؐ نے دعا کی اور اللہ کی حمد کی اور دعا کی جتنا اس نے چاہا کہ دعا کریں۔(سنن ابوداؤد کتاب المناسک باب فی رفع الید اذا رأی البیت حدیث1872)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات اور اہالیان مکہ سے حسن سلوک کے ناقابل یقین مناظر دیکھتے ہوئے انصار اپنی ہی سوچوں میں گم ہو گئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے وطن کی محبت اور اپنے قبیلے کی محبت غالب آ گئی ہے اور شاید اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہیں اپنی بستی میں اپنے عزیز رشتہ داروں میں رہ جائیں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا سوچتے ہی وہ غمزدہ ہو گئے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں جب انصار کی یہ حالت تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس دوران میں وحی نازل ہوئی اور جب وحی آتی تھی تو ہم پر مخفی نہ رہتی تھی۔ پس جب وہ آتی تو ہم میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو گئی اور جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اےگروہِ انصار! انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! حاضر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم یہ سوچ رہے ہو کہ اس شخص پر وطن کی محبت غالب آ گئی ہے؟ انہوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اگر ایسا ہوا تو میرا نام کیا ہوگا۔ میں محمد ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی تھی۔ اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہی ہے۔ اس پر وہ بے اختیار روتے ہوئے آپ کی طرف بڑھے اور کہنے لگے اللہ کی قسم !ہم نے جو بھی کہا وہ اللہ اور اس کے رسول کی شدید محبت اور آپ سے جدائی کے ڈر کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ اور اس کا رسول تمہاری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔(صحیح مسلم (مترجم ) کتاب الجھاد والسیر باب فتح مکہ جلد 9صفحہ185تا 189حدیث 3317-3318)

اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیارتِ کعبہ کی متعلقہ عبادتوں میں مصروف تھے اور اپنی قوم کے ساتھ بخشش اور رحمت کا معاملہ کررہے تھے تو انصار کے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے اشاروں میں کہہ رہے تھے شاید آج ہم خدا کے رسول کو اپنے سے جدا کر رہے ہیں کیونکہ ان کا شہر خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح کر دیا ہے اور ان کا قبیلہ ان پر ایمان لے آیا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے انصار کے ان شبہات کی خبر دے دی۔ آپؐ نے سر اٹھایا، انصار کی طرف دیکھا اور فرمایا اے انصار! تم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر کی محبت ستاتی ہو گی اور اپنی قوم کی محبت اس کے دل میں گدگدیاں لیتی ہو گی۔ انصار نے کہا یا رسول اللہ! یہ درست ہے ہمارے دل میں ایسا خیال گزرا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: تمہیں پتہ ہے میرا نام کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہلاتا ہوں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں کو جنہوں نے دین اسلام کی کمزوری کے وقت میں اپنی جانیں قربان کیں چھوڑ کر کسی اَور جگہ چلا جاؤں۔ پھر فرمایا

اے انصار! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ مَیں نے خداکی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا تھا اور اس کے بعد اب میں اپنے وطن میں واپس نہیں آ سکتا۔ میری زندگی تمہاری زندگی سے ہے اور میری موت تمہاری موت سے وابستہ ہے۔ مدینہ کے لوگ آپ کی یہ باتیں سن کر اور آپؐ کی محبت اور آپؐ کی وفا کو دیکھ کر روتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا یا رسول اللہ! خدا کی قسم! ہم نے خدا اور اس کے رسول پر بدظنی کی۔ بات یہ ہے کہ ہمارے دل اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتے کہ خدا کا رسول ہمیں اور ہمارے شہر کو چھوڑ کر کہیں اَور چلا جائے۔ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول تم لوگوں کو بَری سمجھتے ہیں اور تمہارے اخلاص کی تصدیق کرتے ہیں۔

جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے لوگوں میں یہ پیار اور محبت کی باتیں ہو رہی ہوں گی اگر مکہ کے لوگوں کی آنکھوں نے آنسو نہیں بہائے ہوں گے تو ان کے دل یقیناً آنسو بہا رہے ہوں گے کہ وہ قیمتی ہیرا جس سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز اِس دنیا میں پیدا نہیں ہوئی خدا نے ان کو دیا تھا مگر انہوں نے اس کو اپنے گھروں سے نکال کر پھینک دیا اور اب کے وہ خدا کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ دوبارہ مکہ میں آیا تھا وہ اپنے وفائے عہد کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس جا رہا ہے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن،انوارالعلوم جلد20صفحہ 348-349)

حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ ابوسفیان نے آپ کو دیکھا۔ آپ چل رہے تھے اور صحابہ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اس نے دل میں کہا کہ کاش میں ان کے ساتھ پھر قتال کر سکتا اور ان کے لیے لشکر جمع کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا تب پھر اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا کر دے گا۔ تم یہ سوچ رہے ہو کہ قتال کرتے تو پھر رسوا ہو جاتے۔ انہوں نے کہا میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور جو کچھ میں نے کہا اللہ سے اس کی معافی چاہتا ہوں۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں۔ کہتے ہیں میں تو اپنے دل میں یہ بات سوچ رہا تھا۔ میں نے تو کسی کو بتائی ہی نہیں تھی اور آپ نے وہ بات مجھ پر ظاہر کر دی۔(اللؤلؤالمکنون فی سیرۃ النبی المأمونؐ، جلد4صفحہ 63، ریاض 2013ء)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ246دار الکتب العلمیۃ بیروت)

خانہ کعبہ کی چھت پر سے ظہر کی اذان دی گئی۔ جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓکو حکم دیا۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ248دار الکتب العلمیۃ بیروت)

روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ بالعموم ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے لیکن آج جب صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی وضو کے ساتھ نمازیں پڑھتے دیکھا تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے آج وہ کیا ہے جو آپ نہیں کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر میں نے دانستہ ایسا کیا ہے۔ علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے وقت ایسا کرنے کی سہولت کی خاطر یہ نمونہ دیا تھا۔(اللؤلؤالمکنون فی سیرۃ النبی المأمونؐ،جلد4صفحہ 64-65، ریاض 2013ء)

اس دوران آپؐ نے عام بیعت بھی لی جس کی تفصیل میں لکھا ہے حضرت اسود بن خَلْفؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے روز آپؐ کو دیکھا۔ آپ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔ آپ قَرْنِ مَسْفَلَہْکے پاس بیٹھ گئے جو مکہ کے نچلی جانب ایک چٹان ہے اور اسلام پر لوگوں سے بیعت لی۔ چھوٹے بڑے، مرد اور خواتین آپ کی خدمت میں آئے۔

آپؐ نے ان سے ایمان باللہ اور اس شہادت پر بیعت لی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔

اِبنِ جَرِیر طَبَرِی بیان کرتے ہیں کہ لوگ مکہ میں جمع ہو گئے تا کہ اسلام پر آپ کی بیعت کریں۔ آپ کوہ صفا پر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نیچے تھے۔ آپ اس بات پر لوگوں سے بیعت لے رہے تھے کہ وہ حتی الاستطاعت اللہ اور اس کے رسول کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ جب مردوں کی بیعت سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی بیعت لی۔ ان خواتین میں ابوسفیان کی بیوی ہِند بھی تھی جس نے نقاب کر رکھا تھا۔ اسے خوف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلوک کے بارے میں پوچھیں گے جو اس نے حضرت حمزہؓ سے کیا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ اس کی وجہ سے اس کی گرفت نہ ہو جائے۔ جب وہ خواتین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپؐ نے فرمایا اس امر پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی اس پر کہ تم چوری نہیں کرو گی۔ ہِند نے کہا اللہ کی قسم !میں ابوسفیان کے مال سے بعض اوقات کچھ لے لیتی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ یہ میرے لیے حلال ہے یا حرام۔ ابوسفیان وہاں موجود سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا تم نے جو گذشتہ مال لیا وہ تمہارے لیے حلال ہے۔ اللہ تعالیٰ تم سے درگذر کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہِند کو پہچانتے ہوئے فرمایا تم ہِند بنت عُتبہ ہو۔ اس نے کہا جی ہاں لیکن جو پہلے ہو چکا اس کو معاف فرما دیں۔ مطلب یہ کہ اسلام اور آپ کی ذات مبارک کے خلاف جو کچھ میں نے کیا اس سے درگزر فرمائیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا تم بدکاری نہیں کرو گی۔ ہِند نے کہا کیا آزاد عورت بھی بدکاری کرتی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گی۔ ہِند نے کہا ہم نے بچپن میں انہیں پالا لیکن بڑے ہوئے تو آپؐ نے انہیں بدر کے موقع پر قتل کر دیا۔ آپ جانیں یا وہ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا بہتان نہیں لگاؤ گی جسے تم نے اپنے سامنے گھڑا ہو۔ ہِند نے کہا بہتان لگانا بہت برا فعل ہے اور بعض گناہ اس سے بھی برے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تم امر معروف میں میری نافرمانی نہیں کرو گی۔(اللؤلؤالمکنون فی سیرۃ النبی المأمونؐ،جلد4صفحہ78-79، ریاض 2013ء)( سبل الھدیٰ جلد5صفحہ247-248، 295دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک روایت میں یہ ہے کہ ہِند بنت عتبہ کو سمجھ آ گئی کہ وہ گمراہی پر تھی تواپنے خاوند ابوسفیان کو کہنے لگی کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ ابوسفیان نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ آج تک تو تم انکار ہی کرتی چلی آئی ہو۔ یہ اچانک اتنی بڑی تبدیلی کیسے آ گئی؟ کہنے لگی کہ اللہ کی قسم! میں نے فتح مکہ والے دن مسلمانوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ساری رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی خانہ کعبہ میں اس طرح عبادت کرتے رہے کہ کوئی قیام کی حالت میں تھا کوئی رکوع کی اور کوئی سجدے کی حالت میں۔ اس طرح عبادت کرتے ہوئے مَیں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا۔ ابوسفیان نے کہا کہ اپنی قوم کے کسی آدمی کے ساتھ جانا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا ہے تو اپنی قوم کے کسی آدمی کے پاس جانا ۔چنانچہ وہ حضرت عمر کے پاس گئی اور ان کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد وہ گھر گئی اور جو بت اس کے گھر میں پڑا تھا اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہنے لگی کہ تیری وجہ سے ہم دھوکے میں پڑے رہے۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد8صفحہ 347دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ ازمحمدباشمیل صفحہ 311 نفیس اکیڈمی کراچی)

ایک دوسری روایت میں ہے ہِند اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اپنے اس دین کو غالب کیا جو اس نے اپنے لیے پسند کیا۔ کیا آپ کی رحمت کا کچھ حصہ مجھے بھی مل سکے گا؟ یا رسول اللہ! میں وہ عورت ہوں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئی ہے اور اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔ آپ نے فرمایا تمہیں خوش آمدید ہو۔

ہندنے کہا اے اللہ کے رسولؐ !میں روئے زمین کے اہلِ خیمہ میں سےکسی کے بارے میں یہ نہ چاہتی تھی کہ وہ آپؐ کے خیمے سے زیادہ رسوا ہو لیکن اب مجھے روئے زمین کے سارے اہل خیمہ کی عزتوں سےآپؐ کی عزت زیادہ عزیز ہے۔

حضرت ہندنے اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت و اخلاص کا اظہار اس طرح کیا کہ دو کم عمر بکرے بھون کر آپ کی خدمت میں لونڈی کے ہاتھ بھجوائے۔ لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری مالکن نے یہ آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں۔ گوشت بھون کے بھیجا ہے اور وہ عذر کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں، معذرت کر رہی ہیں کہ آجکل ہماری بکریوں کے بچے کم ہیں۔ اس لیے میں صرف دو بھیج رہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری بکریوں اور ان کی اولاد میں برکت ڈالے۔ بعد میں یہ لونڈی کہتی تھی کہ بخدا کہ میں نے بکریوں اور ان کے بچوں کی اتنی کثیر تعداد دیکھی جو پہلے نہیں دیکھی تھی۔ حضرت ہِند کہتی تھیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے طفیل ہے۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ255دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت الحلبیہ باب ذکرمغازیہ جلد3صفحہ139دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ ابوسفیان کی بیوی ہِند کی بیعت کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا مُثْلہ کروایاتھا۔آپؐ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اورخلافِ انسانیت حرکت کی سزادی جائے۔ اس وقت پردہ کاحکم نازل ہوچکا تھا۔ جب عورتیں بیعت کے لیے آئیں توہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اس نے بیعت کرلی۔ جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی توچونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی۔ اس نے کہا یارسول اللہ! ہم اب بھی شرک کریں گی؟ آپؐ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آپ کامقابلہ کیا۔ اگر ہمارے خدا سچے ہوتے توآپ کیوں کامیاب ہوتے۔ وہ بالکل بیکارثابت ہوئے اور ہم ہار گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہندہ ہے؟ آپؐ اس کی آواز کوپہچانتے تھے، آخر رشتہ دار ہی تھی۔ہندہ نے کہا یارسول اللہ! اب میں مسلمان ہو چکی ہوں۔ اب آ پ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہو سکتی۔غرض وہ قوم جو سمجھتی تھی کہ آپ نے سب خداؤں کو کُوٹ کر ایک خدا بنا لیا ہے ان میں اتنا تغیر پیدا ہو گیا کہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ خدا ایک نہیں۔‘‘

(اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 14، 15)

بیعت کے انہی دنوں کا ایک واقعہ ملتا ہے۔ ایک شخص بیعت کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب اور جلال سے وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا

ڈرو نہیں اور عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں۔ مَیں تو اس عورت کا بیٹا ہوں جو مکہ میں خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔(اللؤلؤالمکنون فی سیرۃ النبی المأمونؐ، جلد4صفحہ 83، ریاض 2013ء)(سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید،حدیث 3312)

وہ مجرم جن کے قتل کا حکم صادر ہوا،

ان کے بارے میں لکھا ہے۔ تفصیل بیان کرتا ہوں گو کہ اس بارے میں بعض لوگوں کے تحفظات بھی ہیں اور واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کیونکہ جن وجوہات کی بناپر قتل کے حکم کے بارے میں بیان کیا گیا ہے یہ صاف طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور طبیعت کے خلاف ہے۔ بہرحال پہلے یہ بیان کر دیتا ہوں کہ کون لوگ تھے۔ تاریخ میں بعض جگہ ذکر ہوا ہے اور بعد میں اس کے ردّ میں بھی بیان کر دوں گا۔

ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ وہ افراد جن کے جرائم کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہاں بھی نظر آئیں ان کو قتل کر دیا جائے وہ آٹھ مرد اور چھ عورتیں تھیں۔ یہ فتح الباری میں لکھا ہے۔ سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ یہ کل گیارہ افراد تھے۔ واقدی نے لکھا ہے کہ یہ کل دس افراد تھے جن میں چھ مرد تھے اور چار عورتیں تھیں۔(فتح الباری جلد8صفحہ 14کتاب المغازی، حدیث نمبر4280آرام باغ کراچی)(سیرت الحلبیہ جلد3صفحہ117دار الکتب العلمیۃ بیروت)(کتاب المغازی واقدی جلد2صفحہ 258دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بخاری کی شرح فتح الباری میں ان چودہ افراد کے نام بھی لکھے ہیں جن میں عبدالعُزّٰی بن خَطَل، عبداللہ بن سعد بن ابی سَرَح، عِکْرِمَہ بن ابی جہل، مِقْیَسْ بن صُبَابَہ، ھَبَّاربن اسود وغیرہ شامل ہیں۔(فتح الباری جلد8صفحہ 13قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روزچار مردوں اور دو عورتوں کے علاوہ سب کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا انہیں قتل کر دو، چاہے وہ کعبہ ے پردوں کے ساتھ لٹکے ہوئے ہوں۔(سنن النسائی کتاب المحاربہ [تحریم الدم] باب الحکم فی المرتد حدیث:4072)

ایک روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز ان چار افراد کے علاوہ سب کو امان دے دی تھی۔ جن میں عبدالعزی بن خَطَل، مقیس بن صُبَابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور اُمِّ سَارَہ تھیں۔(البدایہ و النھایۃ جلد6صفحہ 562مکتبہ دار ہجر بیروت)

ایک سیرت نگار نے لکھا ہے کہ جن لوگوں کے قتل کو مباح قرار دیا گیا تھا یعنی جائز قرار دیا گیا تھا ان میں سے اکثر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا تھا اور صرف چند ہی لوگ قتل ہوئے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عام معافی سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔(فتح مکہ از باشمیل  صفحہ 261تا 262نفیس اکیڈمی کراچی)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس حوالے سے اپنی رائے جو لکھی ہے وہ یہ ہے کہ

’’صرف گیارہ مرد اور چار عورتیں ایسی تھیں جن کی نسبت شدید ظالمانہ قتل اور فساد ثابت تھے، وہ گویا جنگی مجرم تھے اور ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ قتل کر دیےجائیں کیونکہ وہ صرف کفر یا لڑائی کے مجرم نہیں تھے بلکہ جنگی مجرم ہیں‘‘ لیکن’’…ان میں سے اکثر کو مسلمانوں کی سفارش پر آپ نے چھوڑ دیا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن،انوارالعلوم جلد20صفحہ 344، 349)

تو اکثر ان میں سے چھوڑ دیےگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلّی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا اور صرف انہی چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لیے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا‘‘ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا تھا ’’اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 286-287 بقیہ حاشیہ نمبر 11)

جن افراد کو قتل کیا گیا تھا تاریخ میں ان کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں جوکہ بیان تو کر دیتا ہوں لیکن بہرحال تسلی بخش وجوہات نہیں ہیں۔ جو پہلا نام لکھا ہے عبدالعزیٰ بن خَطَل کا ہے۔ اس نے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام عبداللہ رکھا تھا اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ آپ نے اسے زکوٰة لینے کے لیے بھیجا۔ اس کے ہمراہ بنو خُزَاعہ میں سے ایک شخص تھا جو اس کے لیے کھانا بناتا تھا اور اس کی خدمت کرتا تھا۔ ان دونوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جہاں لوگ اکٹھے ہو کر زکوٰة دیا کرتے تھے۔ اِبن خَطَل نے خُزَاعِی شخص کو حکم دیا کہ وہ کھانا تیار کرے اور خود دوپہر کے وقت سو گیا۔ جب جاگا تو خُزَاعِی شخص سو رہا تھا۔ اس نے کچھ تیار نہیں کیا تھا۔ ابن خَطَل نے تلوار کے ساتھ اسے قتل کر دیا اور اسلام سے مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا۔ یہ اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو بیان کرتا تھا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے سر پر خَود تھا۔ آپ نے اسے اتارا۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا ابن خَطَل خانہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اسے قتل کر دو۔

دوسرا ہے مِقْیَس بن صُبَابہ ۔ اس نے ایک انصاری صحابی کو شہید کرنے کے لیے اسلام قبول کیا تھا۔ انصاری صحابی نے ایک غزوے میں مِقْیَس کے بھائی کو دشمن سمجھ کر غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ مِقْیَس نے بھائی کی دیت بھی لی اور انصاری صحابی کو شہید بھی کر دیا۔ پھر اسلام ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔ حضرت نُمَیْلَہ بن عبداللہ نے فتح مکہ کے روز اس کو قتل کیا۔

حُوَیْرَث بن نُقَیْذہے۔ یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری فرمایا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاپہنچاتا تھا۔ حضرت علیؓ نے اس کو قتل کیا۔ ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ حویرث بن نُقَیذکے قتل کی یہی وجہ ملتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتا تھا لیکن اس کے قتل کا سبب اس کے علاوہ کوئی اَور ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے۔

پھر ہے حُوَیْرَثْ بن طَلَاطِلْ خُزَاعی۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ اسے بھی حضرت علی نے قتل کیا۔

پھر ابن خَطَل کی لونڈی قرینہ تھی۔ اسے اَرنب بھی کہتے تھے۔ یہ آپؐ کے بارے میں ہجویہ اشعار گاتی تھی۔ اسے قتل کر دیا گیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 223تا 225دار الکتب العلمیۃ بیروت)(امتاع الاسماع جلد 1صفحہ399دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ از باشمیل صفحہ 264۔265نفیس اکیڈمی کراچی)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد نہم صفحہ 157دار السلام)

گو یہ تعداد جن کو قتل کیا گیا تھا چودہ پندرہ تک ملتی ہے لیکن تحقیق پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد درست نہیں ہے کیونکہ جن جرائم کی وجہ سے ان کو قتل کرنے کا ذکر ملتا ہے وہ جرائم خود بتاتے ہیں کہ مؤرخین کو غلطی لگی ہے۔ اکثریت کے جرائم یہ بیان ہوئے ہیں کہ وہ مرتد ہو گئے تھے یا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ اور تکلیف پہنچایا کرتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے۔ یہ فرد جرم بتاتی ہے کہ یہ بعد کے زمانے کی سوچ ہے کیونکہ جب قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کرتے ہوئے یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مرتد کی سزا قتل ہے یا توہین رسالت کی سزا قتل ہے تو یہ بعد کی سوچیں ہیں۔ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ ہوتا ہی نہیں تھا۔ جب قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتداد کی سزا قتل نہیں ہے۔ جب قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینے، آپ کو اذیت پہنچانے اور آپ کے ہجو کرنے کی سزا قتل نہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جس جس کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا یقینی طور پر ان کا جرم کوئی اور ہونا چاہیے تھا۔ جنگی جرم جیسے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ وہ جنگی مجرم تھے یا وہ قاتل تھے اور وہ تو تھے ہی لیکن یہ کہ ہجو کر دی یا توہین کی یہ غلط ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر قتل کیے جانے کی ان روایات پر جرح کرتے ہوئے برصغیر کے ایک معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ارباب سِیَر کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گو اہل مکہ کو امن عطا کیا تھا تاہم دس شخصوں کی نسبت حکم دیا کہ جہاں ملیں قتل کر دیےجائیں۔ ان میں سے بعض مثلاً عبداللہ بن خَطَل، مِقْیَس بن صُبَابہ خونی مجرم تھے اور قصاص میں قتل کیے گئے۔ اگر ان کو مانا بھی جائے تو یہ دو قاتل تھے اس لیے قتل کیے گئے لیکن متعدد دوسرے جو ہیں ایسے تھے کہ ان کاصرف یہ جرم تھا کہ وہ مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا کرتے تھے یا آپ کے ہجو میں اشعار کہا کرتے تھے۔ آپ کو ستاتے تھے یا ہجویہ اشعار کہتے تھے۔ ان میں سے ایک عورت اس جرم میں قتل کی گئی کہ وہ آپؐ کے ہجویہ اشعار گایا کرتی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ محدثانہ تنقید کی رو سے یہ بیان صحیح نہیں ہے۔ اس جرم کا مجرم تو سارا مکہ تھا۔ اگر یہی بات لی جائے کہ ہتک کیا کرتے تھے اور ہجویہ اشعار کہتے تھے تو یہ تو سارا مکہ یہی کرتا تھا پھر تو ساروں کو قتل کرنا چاہیے تھا۔ قریش میں سے بجز دو چار کے کون تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایذائیں نہیں دیں۔ بایں ہمہ انہی لوگوں کو یہ مژدہ سنایا گیا کہ اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ کہ تم لوگ آزاد ہو۔ جن لوگوں کا قتل بیان کیا جاتا ہے وہ نسبتاً کم درجہ کے مجرم تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ روایت صحاح ستہ میں موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔

خیبر میں جس یہودی عورت نے آپ کو زہر دیا اس کی نسبت لوگوں نے دریافت بھی کیا کہ اس کے قتل کا حکم ہو گا ارشاد ہوا کہ نہیں۔ خیبر کے کفرستان میں ایک یہودیہ زہر دے کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے جانبر ہو سکتی ہے تو حرم میں اس سے کم درجہ کے مجرم عفوِ نبوی سے کیونکر محروم رہ سکتے ہیں۔ اگر درایت پر قناعت نہ کی جائے تو روایت کے لحاظ سے بھی یہ واقعہ بالکل ناقابل اعتبار رہ جاتا ہے۔ عقل سے جائزہ نہ بھی لیں تو تب بھی روایت غلط ہے کیونکہ صحیح بخاری میں صرف ابن خَطل کا قتل مذکور ہے اور یہ عموماً مسلّم ہے کہ وہ قصاص میں قتل کیا گیا تھا۔ مقیس کا قتل بھی شرعی قصاص تھا باقی جن لوگوں کی نسبت حکمِ قتل کی وجہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ کسی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا کرتے تھے وہ روایتیں صرف ابن اسحاق تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں یعنی اصولِ حدیث کی رو سے وہ روایت منقطع ہے جو قابلِ اعتبار نہیں۔ سب سے زیادہ معتبر روایت جو اس بارے میں پیش کی جاسکتی ہے وہ ابوداؤد کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ چار شخصوں کو کہیں امن نہیں دیا جا سکتا۔ ابوداؤد نے اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند جیسی چاہیے مجھ کو نہیں ملی۔ابوداؤد کی ان روایات کے متعلق دوسری کتب میں بھی لکھا ہے کہ وہ کمزور ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض سردارانِ قریش جو مخالفینِ اسلام کے پیشرو تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ سے بھاگ گئے لیکن یہ صرف ابن اسحاق کا قیاس ہے کہ وہ اس وجہ سے بھاگ گئے تھے کہ ان کےقتل کا حکم دیا گیا تھا۔(ماخوذاز سیرت النبی ﷺ ازشبلی جلداول صفحہ 350-351مکتبہ اسلامیہ)

الغرض فتح مکہ کے وقت صرف چند ایک افراد کے قتل ہونے کا فیصلہ ہوا تھا اور وہ وہی تھے جن کے بارہ میں حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ

’[صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لیے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا ‘‘یعنی وہ تین چار آدمی تھے ’’اور بجز اِن ازلی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم ،روحانی خزائن جلد1صفحہ 287 بقیہ حاشیہ نمبر 11)

تو یہ ہے اس کی حقیقت۔ اس لیے یہ کہنا کہ اتنے آدمی جو قتل کیے گئے تھے وہ ہجو کرتے تھے۔ توہین رسالت تھی۔ یہ سب غلط باتیں ہیں۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

دنیا کے حالات تو آپ لوگوں پر واضح ہیں۔ دعائیں کرتے رہیں۔ اس کے لیے پہلے بھی میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں، کہتا رہتا ہوں۔ ہنگامی حالات کے لیے جو بھی میں یاددہانی کرواتا رہتا تھا پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ

ہنگامی حالات کے لیے لوگوں کو کچھ مہینوں کا راشن گھروں میں رکھنا چاہیےجو رکھ سکتے ہیں۔

اب تو بعض حکومتوں نے بھی اپنے لوگوں کو کہا ہے کہ تین مہینے کا راشن رکھیں۔

اللہ تعالیٰ بہرحال دنیا پر رحم کرے اور جنگ کے خطرناک،خوفناک حالات سے بچائے۔

اب میں کچھ مرحومین کا ذکر کروں گا۔ ان کا جنازہ نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ ان میں پہلی ہیں امۃ النصیر نگہت صاحبہ راجہ عبدالمالک صاحب کی اہلیہ ہیں۔ ان کی گذشتہ دنوں ستر سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں۔ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نواسی تھیں۔ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ امریکہ میں بھی انہوں نے لمبا عرصہ گزارا ہے۔ وہاں دس سال کے قریب ان کو لجنہ کی بطور سیکرٹری مال اور سیکرٹری ضیافت خدمت کی توفیق ملی۔

ان کی بیٹی آمنہ کہتی ہیں کہ صدقہ دینے میں بہت باقاعدہ تھیں خاموشی سے دیا کرتی تھیں اور تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد یہ خاص طور پہ بکرا صدقہ دے کر غریبوں میں بانٹا کرتی تھیں۔مالی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ گھر بھی بنا کے دیا غریبوں کو۔ کہتی ہیں ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اپنی چوڑیاں اتار کے اپنی خالہ کو دے رہی ہیں تو انہوں نے فوراً وہ سونے کی چوڑیاں ان کو غریبوں کو دینے کے لیے دے دیں۔ بہت مہمان نواز تھیں۔ مستحقین کی بھی بہت مدد کیا کرتی تھیں۔ بڑا ہمدردی کا جذبہ تھا۔ یہ کہتی ہیں کہ مزاحیہ طبیعت تھی اس لیے لوگ جانتے نہیں ہیں لیکن میں نے ان کو دیکھا ہے کہ راتوں میں شدت سے دعا کرتی تھیں کہ ہمارے گھر کا فرش بھی ہلنے لگ جاتا تھا اور مہمان نوازی تو خاص طور پہ ان کی صفت تھی۔ کہتی ہیں ہم نے ذکر الٰہی کا طریقہ امی سے سیکھا ہے۔ درودشریف ہر وقت پڑھتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظموں کے شعر پڑھتی رہتی تھیں۔ ہم نے اتنی دفعہ سنے ہیں کہ ہمیں زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ ہمسایوں، رشتہ داروں سے بڑا حسن سلوک کرنے والی تھیں۔ یہ ان کی بیٹی عائشہ نے لکھا ہے۔

ان کے بھانجے نے لکھا ہے کہ خاموشی سے مدد کیا کرتی تھیں اور اللہ تعالیٰ بھی ان کو بعض دفعہ کسی شخص کے بارے میں مدد کے لیے اطلاع کر دیتا تھا۔ ایک دفعہ خواب میں آپ کو بتایا گیا کہ ایک واقفِ زندگی کی بیٹی کی شادی ہے اس کی مدد کرو تو فوری طور پر اس کو ایک لاکھ روپیہ بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ جس کاذکر ہے مکرم الحاج یعقوب احمد بن ابوبکر صاحب ہیں۔ یہ احمدیہ سینئر ہائی سکول کے سابق ہیڈ ماسٹر ہیں اور نیشنل سیکرٹری تبلیغ گھانا تھے۔ ایک حادثہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں ان کی گذشتہ دنوں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موصی تھے۔ منکسم (Mankessim) وہاں ایک شہر ہے وہاں جاتے ہوئے ایک ٹرالر سے ان کی گاڑی ٹکرا گئی اور وہاں دماغی چوٹ لگی اس کی وجہ سے یہ وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ پسماندگان میں دو بیویاں، چار بچے، والدہ، ایک بہن اور ایک بھائی شامل ہیں۔

ابتدائی تعلیم کے بعد احمدیہ مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پونڈ میں داخلہ لیا اور وہاں سے فارغ ہو کر پھر وہ مختلف جگہوں پر جماعتی خدمت پر متعین ہوئے۔ پھر ان کو جماعت کی طرف سے ہی یونیورسٹی آف گھانا میں داخل کروایا گیا جہاں بزنس ایڈمنسٹریشن میں انہوں نے ڈگری لی اور وہاں سے ڈگری لینے کے بعد ان کو گورنمنٹ سروس کی آفر ہوئی لیکن انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ کیونکہ یہ واقف زندگی تھے اور وقف کی روح کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ کام کیا ہے باوجود اس کے کہ حکومت کے سکول میں چلے گئے۔ حکومت ایڈ کرتی تھی لیکن سکول جماعت کا ہی تھا۔ بعد میں تعلیم حاصل کرکے وہاں ہیڈ ماسٹر لگ گئے۔ سلاگا (Salaga) اور کماسی (Kumasi) کے احمدیہ سکولوں میں یہ ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور وہاں کے لوگ انتظامیہ بھی اور حکومت کے افسران بھی اور طلبہ بھی ہمیشہ ان کو یاد رکھتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھے اور انصار اللہ میں قائد تربیت کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ علمی شخصیت تھے۔ ان کو تعلیم کے محکمے میں بعض جو بڑی کمیٹیاں ہوتی ہیں ان میں ان کے ممبر بننے کی توفیق ملی۔ CHASSکے پریذیڈنٹ تھےیعنی کانفرنس آف ہیڈ زآف اسسٹڈ (Assisted) سیکنڈری سکول گھانا کے پریذیڈنٹ تھے۔ کونسل ممبر تھے نسٹ KNUST کے یعنی Kwame Nkrumahیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کونسل ممبر تھے۔ بورڈ ممبر تھے جی ٹی ای سی (GTEC) گھانا ٹیریٹری (Tertiary) ایجوکیشن کمیشن کے۔ بورڈ ممبر تھے ڈبلیو اے ای سی (WAEC) یعنی ویسٹ افریقن ایگزامینیشن کونسل کے۔ سیکرٹری جنرل تھے اے سی پی (ACP) کے جو کہ افریقن کانفیڈریشن آف پرنسپلز ہے اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔

ان کی وفات پر ساؤتھ افریقہ کی Eswatini پرنسپل ایسوسی ایشن (EPA) جو ہے انہوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور یہ لکھا کہ بڑے اصول پسند تھے اور ان کی قیادت بڑی اعلیٰ تھی۔

ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ میری کامیابیوں کا مرکز دین سے وابستگی اور خلافت احمدیہ سے تعلق ہے۔ ایک شفیق شوہر، باپ اور خاندان کے لیے ایمان، نظم و ضبط اور شفقت کی علامت تھے۔ رمضان میں کئی بار قرآن کریم کا دور مکمل کرتے تھے۔ گھر والوں کو ہمیشہ عبادت کی طرف توجہ دلاتے۔ ان کی طبیعت میں جہاں اعلیٰ رنگ کی قائدانہ صلاحیت تھی لیکن وہاں انکساری بھی ساتھ تھی اور بڑی دیانتداری سے خدمت کرتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی نے احمدیت قبول کی تھی اس کے بعد ان کے خاندان میں احمدیت آئی۔ ان کے بھائی ابوبکر سعید لکھتے ہیں۔ ان کو ان کے والد نے مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پونڈ بھجوایا جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ پھر لوکل مشنری بنے۔ پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے انہوں نے اپنی فیلڈ میں جو بھی جماعتی اور حکومتی طور پر اچھا مقام تھا وہ حاصل کیا۔

میرے ساتھ گھانا میں قیام کے دوران میں ان کا بہت قریبی تعلق تھا۔ بڑا دوستی کا تعلق تھا۔ بڑا پیار کا تعلق تھا اور جو بھی اہم کام ہوتے تھے اور ایسے کام جن میں اعتماد کی ضرورت ہو وہ میں انہی سے کروایا کرتا تھا۔ بڑی قابل اعتماد شخصیت تھے اور خلافت کے بعد تو ان کا مجھ سے ایسا تعلق تھا جو اعلیٰ اخلاص کے معیاروں کو چھو رہا تھا۔ جماعت اور خلافت کے لیے بڑی غیرت رکھنے والی شخصیت تھے۔

ان کی والدہ کہتی ہیں میرا بڑا فرمانبردار بیٹا تھا۔ بچپن سے ہی ہمیشہ میری دیکھ بھال کرتا اور حج کرنے کا اپنا ارادہ کیا لیکن اس سے پہلے اس نے کہا کہ آپ حج کریں اور والدہ کو پہلے حج کرایا پھر خود حج پہ گئے۔ کہتی ہیں کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔

اہلیہ کہتی ہیں کہ محبت کرنے والے اور ذمہ دار شوہر تھے۔ بچوں کے لیے شفیق باپ تھے اور ہمیشہ یہی تلقین کرتے تھے کہ جماعت کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔

ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ہمیشہ ہمارے ایمان اور احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ انہوں نے مذہب سے وابستگی کی اہمیت سکھائی اور ہر قدم پر راہنمائی دی اور کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ہمارے پورے خاندان کے لیے مشعل راہ ہے۔ نماز فجر ،تہجد کے لیے بھی ہمیں اٹھاتے اور رمضان میں تو خاص طور پہ اس کا خیال رکھتے اور ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ کہتے ہیں ان کا دل بڑا اورعاجزی سے بھرا ہوا تھا۔ ہر شخص سے عزت سے پیش آتے چاہے وہ ان کا ماتحت ہی کیوں نہ ہو۔ بڑے ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کے بھائی سعید بن ابوبکر کہتے ہیں کہ والد کی وفات کے بعد انہوں نے میری سرپرستی کی اور ایک حقیقی والد کی طرح انہوں نے مجھے پالا، میرا خیال رکھا، میری تربیت کی۔ نمازوں کی طرف توجہ دلائی اور ہر طرح میری ضروریات کو پورا کیا۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان جیسا وفا شعار اور نیکیوں میں بڑھنے والا بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں