خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اگست 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گذشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ یوکے اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ یہ تین دن بڑی برکتوں والے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دکھانے والے دن تھے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان تین دنوں میں اپنے بےشمار فضلوں سے نوازا اور جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمایا اور جلسہ بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے موسم بھی اچھا رہا اور تمام پروگرام بڑی خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے۔ جلسے کی بنیادی کارروائی یعنی تقریروں اور دیگر پروگراموں کے علاوہ تبلیغی اور معلوماتی لحاظ سے مختلف شعبہ جات نے نمائشوں کی جو ترتیب دی ہوئی تھی اس کا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیروں پر بہت اچھا اثر ہوا اور اکثر لوگوں کو، احمدیوں کو بھی اپنی معلومات میں مزید اضافہ کی توفیق ملی۔ اسی طرح ایم ٹی اے نے بھی جلسہ کی کارروائی کے درمیانی وقفوں میں مختلف معلوماتی پروگرام دکھائے اور معلومات دیں جن کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا۔ دوسرے ممالک میں بیٹھے ہوئے احمدیوں نے بھی اسے بڑا پسند کیا کہ ہمیںبھی بہت سی نئی باتیں پتہ لگیں اور اسی طرح ایم ٹی اے نے اس دفعہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی جلسے کے آخری دن اعلان کیا تھا کہ دنیا کے تقریباً چھپن ممالک میں ایک سو انیس مراکز کے ساتھ جلسہ کو جوڑا۔ اس رابطے کے ذریعہ دونوں طرف سے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے ہم یہاں سے انہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ وہاں سے براہ راست ہمیں دیکھ رہے تھے۔ محض ٹی وی کی نشریات نہیں تھیں جو وہ سن رہے تھے بلکہ براہ راست رابطہ بھی تھا جس کا بہت گہرا اور اچھا اثر ہوا۔ اس اثر کو صرف یہاں موجود لوگوں نے ہی محسوس نہیں کیا۔ یہاں بھی لوگوں نے اس کو بڑا پسند کیا بلکہ مختلف ممالک میں بیٹھے جلسہ سننے والوں کے جذبات اور احساسات بھی یہی تھے کہ گویا وہ جلسہ گاہ کی مارکی میں بیٹھے جلسہ سن رہے ہیں۔ ہزاروں میل دور بیٹھے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے انہیں یوں جلسہ سننے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ خود کو وہیں حاضر محسوس کر رہے تھے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے جو اس نے جماعت احمدیہ پر فرمایا ہےکہ ان نئی ایجادات کے ذریعہ تمام دنیا کے احمدیوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ اُمّت واحدہ بننے کا یہ نظارہ دنیا میں اَور کہیں نظر نہیں آتا۔ اس دفعہ عمومی طور پر انتظامات بھی گذشتہ سالوں کی نسبت بہت بہتر تھے اور اکثر نے اس کا اظہار کیا ہے۔ یہاں شامل ہونے والوں نے بھی اور ٹی وی پر مختلف ممالک میں پروگرام دیکھنے والوں نے بھی یہ کہا ہے۔ ایک خاص ماحول تھا اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے جو ہر ایک کو غیر معمولی طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ جلسہ پر اللہ تعالیٰ کی خاص برکات نازل ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس کے شکرگزار بندے بنو اور جب تم شکر گزاری کرو گے تو میں تمہیں اپنے فضلوں سے اور زیادہ نوازوں گا اور زیادہ فضل تم پر برساؤں گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ (ابراہیم:8) کہ اگر تم شکر ادا کرو گے، شکرگزار بنو گے تو میں تمہیں اَور بھی زیادہ دوں گا۔ پس
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کامزید وارث بننے کے لیے شکرگزاری کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ (البقرۃ:159) کہ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت قدر دان اور جاننے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو وہ قدردانی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ شکرگزاروں کی قدر کرتا ہے اور اس قدر کے نتیجہ میں پھر اللہ تعالیٰ ان کو اَور نوازتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو مالک ہے اس نے بندوں کا شکریہ تو ادا نہیں کرنا بلکہ اس کا قدر کرنا ہی اس شکرگزاری کی قدر کرنا ہے جو بندے کر رہے ہیں۔ پس وہ علم بھی رکھتا ہے اور اسے پتہ ہے کہ کون حقیقی شکرگزار ہے۔ اگر شکرگزاری حقیقی ہو گی تو وہ مزید نوازتا چلا جائے گا۔ یہ صرف باتیں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ شکرگزاری کا ایک جذبہ ہونا چاہیے اور یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت میں بہت پیدا کیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے۔
یہاں یہ بات بھی سب شامل ہونے والوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں وہاں کام کرنے والے کارکنان کا بھی شکریہ ادا کریں۔ اس بات کا شکر کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نےکام کرنے والوں کے کاموں میں آسانیاں پیدا کیں۔ ان کی مشکلات کو دُور کیا، ان کے ہر کام میں بہتری پیدا کرنے کی اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خدمت کرنے کی توفیق دی اور اس طرح شاملین کے لیے سہولت کے زیادہ سامان میسر ہوئے، بہتر سامان میسر ہوئے۔ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ پہلے میں نے گذشتہ جلسہ کے آخری دن بتایا تھا کہ چھیالیس ہزار سے اوپر حاضری تھی بلکہ لجنہ کی بعد کی جو رپورٹ ہے اس کے اندازے کےمطابق ان کی گنتی صحیح طرح شمار نہیں ہوئی اور انہوں نے بعد میں اپنی گنتی کی جو رپورٹ بھیجی ہے اس کو شامل کیا جائے تو مردوں اور عورتوں کو ملا کر کل تعداد پچاس ہزار بن جاتی ہے کیونکہ وہ کہتی ہیں ہم پچیس ہزار تھیں۔ پس ان پچاس ہزار شامل ہونے والے لوگوں کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کام کرنے والوں کے ذریعہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ انہیں ٹرانسپورٹ کے معاملے میں دقت پیدا نہیں ہوئی۔ کھانے کے معاملے میں دقت پیدا نہیں ہوئی اور جلسہ کے پروگرام سننے کے معاملے میں کوئی دقت پیدانہیں ہوئی اور ان کی دیگر مختلف ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ رہائش کا بھی انتظام تھا اور کافی مناسب تھا۔ چنانچہ جومہمان جماعتی رہائش گاہوں میں ٹھہرے ان کے لیے بہتر انتظام ہوا۔ پس یہ سارے کام جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئے اس پرہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جہاں کام کرنے والے شکرگزار ہوں وہ بھی یہ شکرگزاری کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور ہمارے کاموں کے بہتر نتائج عطا فرمائے وہاں شامل ہونے والوں کو بھی شکرگزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کس طرح سامان مہیا فرمائے کہ بےشمار لوگوں نے جو مختلف طبقوں اور مختلف تعلیمی معیاروں سے تعلق رکھتے تھے سب نے رات دن ایک کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر رضاکارانہ طور پر اپنی ڈیوٹیاں دیں۔ مختلف شعبوں میں جیسا کہ میں نے کہا مردانہ جلسہ گاہ میں بھی اور زنانہ جلسہ گاہ میں بھی کارکنان میں ہزاروں بچے بچیاں، لڑکیاں لڑکے، عورتیں مرد شامل ہیں۔ سب لوگوں نے بے نفس ہو کر خدمت کرنے کی توفیق پائی اور یہ سب لوگ شامل ہونے والوں کی شکرگزاری کے مستحق ہیں۔ اسی طرح کینیڈا اور آسٹریلیا سے بھی خدام بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے انہوں نے جلسہ سے پہلے بھی جلسہ کے کام میں مدد کی، جلسہ کے دوران میں بھی اور بعد میں بھی وائنڈ اپ میں مدد کر رہے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےبندوں کو فرمایا کہ میرے فلاں بندے نے تم پر احسان کیا تھا اور تم نے اس کا شکریہ ادا نہیں کیا تو بندہ کہے گا اے اللہ !احسان تو تُو نے مجھ پر کیا تھا میں نے تیرا شکریہ ادا کیا ہےاور کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہیں میں نے اس بندے کے ذریعہ سے تم پر احسان کیا تھا اور تمہارے کام ہوئے تھے۔ اس لیے اس بندے کا شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے۔(ماخوذ از مجمع الزوائد جلد8 صفحہ 233کتاب البر والصلۃ باب شکر المعروف … حدیث13634 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پس اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے ان کاموں کی جو اس کی خاطر کیے جارہے ہوں اس قدر قدر کرتا ہے کہ فرماتا ہے ان کا شکریہ ادا کرو اور ہم سے بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے شکرگزار بنیں تا کہ پھر ایک ایسا ماحول پیدا ہو جو مکمل طور پر شکرگزاری کا ماحول ہو جس میں ہر طرف سے شکرگزاری ہو رہی ہو اور یہی چیز ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ یہ سب کام کرنے والے لوگ جیسا کہ میں نے کہا شکرگزاری کے مستحق ہیں۔ غیروں پر بھی اس کا بہت اثر ہے۔ ان کے جذبے کو دیکھ کر ان پر اثر ہوتا ہے۔ حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح بچے بھی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، پانی پلا رہے ہیں۔ روٹی پکانے، مہمان نوازی اور مختلف جگہوں پر صفائی وغیرہ پر کس طرح خوشی سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں آئے ہوئے مہمانوں کے جو تاثرات ملے ہیں ایک نہیں بلکہ کئی تاثرات ایسے ہیں کہ ہم نے مختلف کام کرنے والوں سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ جس طرح وہ کام کر رہے ہیں وہ شاید کوئی مزدوری وغیرہ کرتے ہوں گے۔ کسی نے بتایا کہ میں ایک فرم میں ایک افسر ہوں۔ کسی نے بتایا کہ میں پڑھاتا ہوں۔ کسی نے کہا میں پی ایچ ڈی کا طالبعلم ہوں۔ کسی نے پی ایچ ڈی کی کوئی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، تو اس طرح کا جذبہ رکھنے والے موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔
پس یہ بات اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ سب شامل ہونے والے ان لوگوں کے شکرگزار ہوں اور کارکنوں کو بھی اس بات پر شکرگزار ہونا چاہیے کہ اگرچہ سارا سال انہیں تبلیغ یا جماعت کا پیغام پہنچانے کا اس طرح موقع نہیں ملتا جو اس کا حق ہے لیکن یہاں جلسے پر ڈیوٹیاں دیتے ہوئے ان کی ملاقات مختلف لوگوں سے ہوتی ہے۔ یہاں غیر بھی آتے ہیں۔ مختلف ممالک سے ایسے لوگ آتے ہیں جن کا جماعت سے ابتدائی تعارف ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھنے آ رہے ہو تے ہیں کہ کیا واقعی یہ لوگ وہی ہیں جو یہ کہتے ہیں اور جب وہ ان کارکنوں کو جو مختلف پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں اس طرح کام کرتے دیکھتے ہیں اور ہر ایک عام مزدوروں والا کام کر رہا ہوتا ہے تو ان کو دیکھ کر ان پر اس کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ ایک خاموش تبلیغ ہے جس کا وہ اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اس اظہار کے چند نمونے پیش کروں گا کیونکہ بےشمار نمونے ہیں۔ بےشمار لوگ مجھے اپنی رائے بھیج رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالتا ہے۔ جہاں وہ جلسے کی تقریروں سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں وہاں ہمارے کارکنوں کے کاموں اور بچوں کے رویوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پس یہ خاموش تبلیغ اور اسلام کا حقیقی پیغام ہے جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح جو نئے آنے والے یعنی جماعت میں شامل ہونے والے ہیں یا وہ پہلی دفعہ یہاں آتے ہیں تو ان کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح عزت و احترام سے ان کی مہمان نوازی کی جا رہی ہے ؟کس طرح ان لوگوں سے یہاں کے لوگ پیش آ رہے ہیں؟ پس یہ بہت اہم چیز ہے اور اس پر ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
بعض آرا جیسا کہ میں نے کہا پیش کرتا ہوں۔ روڈریگز آئی لینڈ کی پولیس فورس کے اسسٹنٹ کمشنر یہاں آئے ہوئے تھے مسٹر منوج لوچن صاحب کہتے ہیں: میں نے پولیس کمشنر اور ڈویژنل کمانڈر کی حیثیت سے بہت سی سرکاری اور سماجی تقریبات میں حصہ لیا ہے لیکن جلسے کے دنوں میں جو میں نے دیکھا ہے وہ ایک واقعی مثالی چیز تھی۔ تنظیم اور نظم و ضبط کا ایک انمول سبق تھا۔ دس ہزار رضاکاروں کی موجودگی ایک عجیب معجزہ تھا۔ ہر کسی نے بے مثال لگن کے ساتھ شانہ بشانہ خدمت کی۔ میں نے ایک رضاکار کو دیکھا۔ اس کا ہاتھ زخمی تھا۔ اگرچہ پٹی میں لپٹا ہوا ہاتھ تھا لیکن مسکراہٹ کے ساتھ دوسروں کی خدمت کر رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں ڈاکٹروں،آئی ٹی پروفیشنلز،بزنس مین، پی ایچ ڈی ہولڈرز سے ملا سبھی عاجزی اور عزم کے ساتھ خدمت کے کام سرانجام دے رہے تھے۔وہ ڈرائیور جو ہمیں جلسہ سالانہ لے کر گیا جب میں نے اس سے اس کا پیشہ پوچھا تو اس نے کہا کہ اس نے بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ اس کا مجھ پربڑا گہرا اثر ہوا۔ کمیونٹی کے مقصد کے لیے ایسی عقیدت اور عاجزی میں نے اپنی زندگی میں کبھی تجربہ نہیں کی۔ پھر کہتے ہیں: پروگرام بہت اچھا تھا۔ سیکیورٹی کا انتظام بہت اچھا تھا۔ بہرحال ہر چیز نے میرے پہ ایک گہرا اور دیرپا اثر چھوڑا ہے اور میں واپس اپنے ملک لوٹ رہا ہوں لیکن میرے پاس اپنے ساتھی پولیس اہلکاروں اور خاندان کے افراد میں بانٹنے کے لیے بہت کچھ ہے جو یہاں سے میں یادیں لے کےجا رہا ہوں۔
بیلجیم کے ایک مہمان HansNoot صاحب جو کہ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر ڈبلیو ایف (HRWF) کے نمائندے ہیں جلسہ میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ غیر معمولی اجتماع کا حصہ بننا میرے لیےحقیقی خوشی تھی۔ یہ محض ایک یادگار تجربہ ہی نہیں بلکہ آپ کی گرمجوشی اور عمدہ مہمان نوازی کے باعث یہ گہرے اثرات چھوڑنے والا تجربہ بن گیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ایک اجتماع کا انتظام جس میں ہزاروں افراد کئی دنوں تک شریک رہے یقیناً ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ رضا کاروں سے گفتگو کے دوران مجھے معلوم ہوا کس طرح ہر شعبہ کئی مہینے قبل سے تیاری کا آغاز کرتا ہے۔ ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں اور افراد کو نہایت واضح طریقے سے تربیت دی جاتی ہے۔ مجھے صرف انتظامی مہارت نہیں بلکہ اس کے پیچھے موجود اخلاقی بنیاد بھی متاثر کن لگی۔ تربیت دینے والے صرف ضوابط کی وضاحت نہیں کرتے بلکہ اللہ اور انسانیت کی خدمت عاجزی اور ہر مہمان کی عزت و تکریم جیسی اقدار کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ اقدار ہر ذمہ داری میں نمایاں تھیں۔ کارپارک میں راہنمائی کرنے والے، ٹائلٹس صاف کرنے والے، کھانا پیش کرنے والے، رجسٹریشن کرنے والے یا سیکیورٹی پر بیگز چیک کرنے والے ہر فرد نے اپنی ذمہ داری کو وقار اور شفقت سے ادا کیا۔ ایک غیر جماعتی مہمان کے طور پر میں نے انتہائی مربوط نظام دیکھا اور نہ ہی کسی بڑے مسئلے یا تصادم کا مشاہدہ یا ذکر سنا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی جماعت نے امن اور عدم تشدد کی عملی تربیت کو گہرائی سے اپنا لیا ہے۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ جو نمایاں پہلو میں نے دیکھا وہ تعلیم اور فکری ترقی کے لیے آپ کی جماعت کی سنجیدگی ہے۔ جلسے کے دوران نمایاں کارکردگی کرنے والے طلبہ کے اعلان ہوئے اور یہ اقدام ذاتی ترقی اور علم کے احترام کی عکاسی کرتا ہے۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ جلسہ کے دوران میں نے بارہا حقیقی ہمدردی کے مظاہرے دیکھے۔ والدین کی اپنے بچوں سے شفقت، گروپ لیڈروں کا اپنی ٹیم کی خبرگیری، رضا کاروں کا ازخود مدد کے لیے آگے بڑھنا، مہمانوں سے چاہے اجنبی ہی کیوں نہ ہوں پوچھنا کہ آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟ اور عمومی طور پر لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بڑھ کر خدمت کرتے نظر آئے اور پھر یہ کہتا ہے کہ یہ دیکھ کر میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا کہ آپ کی جماعت روحانی تجدید اور فکری وسعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ آج بھی انسانوں سے کلام فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت کو چھوڑنہیںدیا بلکہ صالح قیادت اور الہام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
برازیل سے صوبائی پارلیمنٹ کے ممبر یوری مورا (Yuri Moura) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے جلسہ پر اسلام کی پُرحکمت تعلیمات جان کر دلی مسرت ہوئی۔ نمازوں کا نظارہ انتہائی روح پرور تھا۔ اسی طرح جو نظمیں پڑھی گئیں وہ دل میں اترتی چلی گئیں۔یہ میرے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا اور مہمان نوازی پر خلیفۂ وقت کا خطاب جو تھا اس نے بھی مجھ پر اثر کیا اور یہ حیرانی ہوئی کہ عارضی انتظام تھا اور چھیالیس ہزار لوگ یہاں جمع ہوئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے چھوٹے بچوں کو دیکھا وہ خود اس خواہش کا اظہار کر رہے تھے کہ لوگوں کو پانی پیش کرنےکی خدمت سرانجام دیں۔ خدمت خلق اور قربانی کا یہ جذبہ تربیت یافتہ دلوں میں ہی ہو سکتا ہے اور پھر اس سے بھی متاثر ہوا کہ احمدی واقعةً محبت کرنے والے با ادب اور مخلص لوگ ہیں اور یہ ایک ایسی جماعت ہے جو انسانوں، قوموں اور مذہب کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی بجائے محبت اور پیار سے دلوں کو جوڑنے کا درس دیتی ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جماعت احمدیہ جو تعلیم دیتی ہے اس پر عمل کرتی ہے جو کہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے اور کہتے ہیں مجھے بھی یہ باتیں دیکھ کر میرے دل کو بڑی تقویت پہنچی ہے اور میرے خیالات بھی انسانیت کے لیے مزید بہتر ہوئے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ آپ کا مذہب میرے مذہب سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن یہ بہرحال ایک ایسا دین ہے جو انسانوں کو الگ نہیں کرتا بلکہ جوڑتا ہے اور میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ اس روشنی کے مینار بنے رہیں۔ جماعت احمدیہ برازیل میں اور دنیا بھر میں سلامت رہے اور ترقی کرتی رہے۔ میں لوگوں کو خاص طور پر برازیلین افراد کو کہنا چاہوں گا کہ وہ جماعت احمدیہ کو آ کر دیکھیں کہ احمدی دنیا بھر میں روحانی، مذہبی، علمی اور انسانی میدانوں میں کس طرح اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پھر روستیو کارٹس صاحبہ ہیں ۔ یہچِلّی سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیتھولک یونیورسٹی میں تھیولوجی اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ کی پروفیسر ہیں۔ مختلف بین المذاہب تقریبات میں شامل ہوتی رہتی ہیں۔ اس سال جلسہ میں شامل ہوئیں۔ کہتی ہیں جلسہ جیسی تقریب جس میں اس عمدگی کے ساتھ گہرائی میں ہر پہلو کا انتظام کیا گیا ہے یہ ایک بے مثال تقریب ہے۔ موصوفہ نے بیان کیا کہ پہلے دن ان کی کوشش تھی کہ جس حد تک ممکن ہو کم سے کم کھایا اور پیا جائے تا کہ واش روم جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ موصوفہ کا خیال تھا کہ اس قدر بڑے مجمع کے پیش نظر جس طرح دنیاوی میلوں میں ہوتا ہے، یہی حال اس جلسہ میں ہو گا۔ واش روم وغیرہ گندے ہوں گے اور قابل استعمال نہیں ہوں گے، مشکل پیش آئے گی۔ بہرحال جب موصوفہ کو ضرورت محسوس ہوئی تو کہتی ہیں ان کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ انہوں نے بعد میں ہمارے نمائندے کو کہا جس کے ساتھ وہ تھیں کہ آپ لوگوں کی صفائی کا معیار بے مثال ہے اور واش رومز ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا کوئی انہیں استعمال ہی نہیں کرتا۔ بعض لوگوں نے شکایت بھی کی ہے کہ غسل خانے گندے تھے لیکن ہمارے احمدی لوگ ہیں جو شکایت کرنے والے ہیں حالانکہ احمدیوں کو تو میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ وہ خود مدد کر دیا کریں صفائی کرنے والوں کی اور خود جب استعمال کرتے ہیں تو اس کے بعد اچھی طرح صفائی کر کے آیا کریں۔ اگر ہر احمدی خود اس طرف توجہ دے تو یہ معیار اَور بہتر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح موصوفہ نے جماعت کی باہمی اخوت اور وحدانیت کے بارے میں ذکر کیا کہ ہم Latin امریکہ سے آئے ہوئے غیرازجماعت مہمان بھی آپ لوگوں کے رنگ میں رنگین ہو گئے ہیں۔ آپ کے جلسہ کے ماحول کے زیر اثر ہم میں بھی یہی روح قائم ہو گئی ہے۔ جلسہ سے پہلے ہم ایک دوسرے کو جانتے نہ تھے اور جلسے کے طفیل اب ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم ایک فیملی ہیں۔
بینن سے ایک مہمان خاتون چابی آدم تارو (Chabi Adam Taro) صاحبہ آئی تھیں۔ منسٹر برائے سوشل افیئرز رہ چکی ہیں۔ اس وقت نیشنل اسمبلی کی پریذیڈنٹ کی پولیٹیکل ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں میرا پہلا تجربہ ہے کہ میں جلسہ سالانہ میں شرکت کر رہی ہوں۔ میں اس روحانی اجتماع میں شرکت کرنے پر بہت شکرگزار ہوں جسے احمدیہ مسلم جماعت نے نہایت عمدہ طریقے سے منظم کیا ہے۔ میرا بڑا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا، استقبال کیا گیا۔ بڑا نظم و ضبط تھا۔ ساری ٹیموں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور خلیفۂ وقت کے پیغامات نے اس تقریب کو مزید بلند کر دیا اور میں بہت کچھ یہاں سے سیکھ کےجا رہی ہوں۔ یہاں جلسہ سالانہ اتحاد کا بھی مظہر ہے۔ یہاں مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے بھائی اور بہنیں اکٹھے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے ایک ہی پیغام میں جڑے رہتے ہیں۔ اور پھر کہتی ہیں کہ میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور قومی اسمبلی کے صدر اور بینن کی عوام کی طرف سے بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے اتنی گرمجوشی سے میرا انتظام کیا، استقبال کیا اور سلوک کیا۔
ایک مہمان گاستن اکمفو (Gaston Ocampo) ارجنٹائن سے تعلق رکھتے ہیں۔ پرتگال میں اس وقت رہائش رکھتے ہیں۔ آئی پی ڈی اے ایل (IPDAL) ایک معروف تھنک ٹینک ہے اس کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ کیتھولک ہیں لیکن اسلام میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسے کے دوران مجھے آپ کی جماعت کی بہت سی خوبیاں دیکھنے کا موقع ملا جن میں مجھے سب سے بڑھ کر یہ پہلو پسند آیا کہ آپ کے نوجوان اپنے دین سے وابستہ ہیں اور اپنی تعلیمات پر پختگی سے عمل پیرا ہیں۔ کہنے لگے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر رسمی عیسائی ہیں اور اپنی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح ہماری کیتھولک تقریبات میں اکثریت بڑی عمر کے طبقہ کی ہوتی ہے جبکہ آپ کے جلسہ میں نہ صرف شاملین بلکہ اہم خدمات بھی نوجوانوں کے سپرد کی گئی ہیں۔ کہتے ہیں مجھے ایک طرف تو یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا اور ساتھ ہی بحیثیت کیتھولک شرم بھی آئی کہ ہم میں وہ ڈسپلن کا معیار قائم نہیں جو آپ لوگوں میں ہے۔ اور آپ کے خلیفہ کی یہ لوگ جو عزت کرتے ہیں اور جس طرح احترام کرتے ہیں، جس طرح ان سے تعلق کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی ایک مثالی ہے۔
اٹلی سے ایک مہمان جارجیا کیوئلے (Giorgia Lacuele) صاحبہ ہیں۔ یورپین پارلیمنٹ کی اٹلی میں سرکاری پریس ایجنسی کی ڈائریکٹر ہیں۔ کہتی ہیں میں نے سوچا کہ یہ محض ایک مذہبی اجتماع ہو گا لیکن میں غلط تھی۔ جلسہ سالانہ ایک حقیقی جذباتی تجربہ ہے جو روح پر گہرا نقش چھوڑتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ایسی دنیا میں داخل ہو گئی ہوں جہاں ایمان، بھائی چارہ اور روحانیت ایک محسوس ہونے لگے جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے مختلف کونوں سے آئے ہوئے ہزاروں لوگوں کا ایک ہی مقصد کے لیے جمع دیکھنا، اللہ اور انسانیت سے تعلق مضبوط کرنا میرے لیے نہایت متاثر کن تجربہ تھا۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ شاندار تنظیم تھی اور یہ کہ سب کچھ رضا کاروں کے ذریعہ انجام پا رہا تھا جن میں بچے نوجوان مرد اور خواتین سب شامل تھے اور سب نہایت مہربان اور خوش اخلاق تھے۔ یہ سب جماعت احمدیہ کے اصل پیغام امن خدمت اور بے لوث محبت کی عملی تصویر ہے اور پھر کہتی ہیں ایک چیز جو ہمیشہ میرے دل میں نقش رہے گی وہ دعا کا ایسا لمحہ ہے جس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ خاموشی گہرے معانی اور تعلق سے بھرپور تھی۔ کہتی ہیں میرے لیے جلسہ سالانہ صرف ایک تقریب نہیں بلکہ یہ خود احتسابی اور دوسروں سے سلوک کے بارے میں سوچنے کی دعوت تھی۔ غیروں پر بھی اس طرح اس کا اثر ہوتا ہے۔
کیپ ورڈے آئی لینڈ (Cape Verde Island) کے دارالحکومت ’’پرایا‘‘ کے وائس میئر فرنینڈو پینتو (Fernanda Jorge Taraves Pinto) صاحب جلسے پہ آئے۔ کہتے ہیں جلسہ کے متعلق اپنے جذبات کا الفاظ سے اظہار نہیں کر سکتا۔ میری پینسٹھ سال عمر ہے اور میں نے دنیا میں بڑی بڑی کانفرنسیں attend کی ہیں مگر جلسے جیسی بڑی اور منظم کانفرنس کہیں نہیں attend کی جہاں چھیالیس ہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے اور ہر ایک فرد ایک دوسرے سے پیار اور محبت سے مل رہا تھا اور سب لوگ ایک فیملی کا حصہ لگ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں امن کے لیے خدا کی ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ جماعت احمدیہ کا پیغام ہمارے ملک میں پھیلے۔ ہمارے لیڈرز تک بھی یہ پیغام پہنچے۔ ہمارے ملک میں بھی جماعت احمدیہ کے مشن کھلیں۔ اور کہتے ہیں میں نے امام جماعت کی تمام تقریریں سنی ہیں۔ میرے دل کو انہوں نے چھوا ہے اور یہ پیغام دنیا کے سب لیڈروں کو بھی سننا چاہیے تاکہ ان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
بیلیز سے نومبائع ایتھن ماریانو صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں شامل ہو کے اور خلیفہ وقت سے مل کر میرا یقین بہت بڑھ گیا۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ میں خلیفہ وقت کا اپنی آخری سانس تک وفا دار رہوں گا اور میں خلافت سے محبت کرتا ہوں۔ پھر کہتے ہیں کہ مغربی معاشرہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے لیے کچھ کر رہا ہے تو بس کرنے دو۔ مگر یہاں ہر شخص اس کوشش میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدمت کرے تا کہ زیادہ برکت حاصل ہو۔ ہر کوئی اپنی حد سے بڑھ کر مدد کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ عمر یا نسل کی کوئی پروا نہیں۔ سب ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں سے بات چیت کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ یہاں لوگ خدمت خلق کو اپنے پیشوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ان برکتوں کو حاصل کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ کے بعد میری زندگی میں جو تبدیلی آئی وہ حیرت انگیز ہے۔ خلافت کی قدر نہ جاننے سے لے کر اپنے دل میں خلیفہ وقت کے لیے شدید محبت ہونے تک کا سفر واقعی قابل ذکر ہے۔ مجھے پہلے قدر نہیں تھی خلافت کی لیکن اب بڑی محبت ہے مجھے خلافت سے۔ کہتے ہیں بیلیز میں تو ذرا سےچند لوگ اکٹھے ہوں تو جھگڑا ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارے شہر کی آبادی پچاس ہزار ہے اور یہاں بھی اس کے قریب لوگ شامل تھے لیکن بالکل امن تھا۔ کہتے ہیں بڑا منظم انتظام۔ بڑی باریکی سے سوچا گیا ہر انتظام۔ بچوں کا پانی پیش کرنا، نوجوانوں کا پارکنگ میں گاڑیوں کی قطاریں لگوانا، کھانے کی تقسیم اور صفائی، ہر شخص پوری لگن اور محبت سے کام کر رہا ہے۔ یہ سب دیکھنا بہت متاثر کن ہے۔ اعلیٰ پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بغیر کسی اَنا کے خدمت میں مصروف ہیں صرف اس لیے کہ وہ خدمت کرنا چاہتے ہیں اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ نوجوانوں سے بات کر کے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سب تعلیم پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔
چیک ریپبلک سے ایک سینیئر پروفیسر پیٹر پیلیکان (Petr Pelikan) جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ چیک ریپبلک میں اسلامیات اور علم الفقہ کے ماہر ہیں۔ حکومتی سطح پر مختلف شعبوں پر فائز ہیں۔ مختلف مضامین میگزینز اور اخبارات میں لکھتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ سنی مسلمان ہیں۔ کہتے ہیں اس دفعہ میرا دوسرا جلسہ ہے۔ پہلے میں جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوا تھا اور یہاں بھی وہی اعلیٰ معیار میں نے دیکھا جو پہلے میں نے دیکھا تھا لیکن یہاں ایک زائد چیز تھی جو خلیفہ وقت کی موجودگی تھی جس کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ کہتے ہیں میں نے دنیا میں بہت سے اجتماعات اور نمائشیں دیکھی ہیں لیکن اس درجے کی یکجہتی، محبت اور پُرامن فضا پہلی بار دیکھی ہے۔ یہاں ہر فرد کے چہرے پر مسکراہٹ اور خدمت کا جذبہ نمایاں تھا جو کہ احمدیہ جماعت کی اعلیٰ تربیت کا مظہر ہے۔ کہتے ہیں جو پہلا خطاب تھا خلیفہ وقت کا وہ بھی میرے لیے غیر متوقع اور حیرت انگیز تجربہ تھا۔ انہوں نے بڑی حقیقت پسندی سے ساری باتیں کیں اور مہمانوں کے بارے میں بتایا کہ کس طرح ان کا خیال رکھنا ہے۔ ان کا دل شیشے کی طرح ہوتا ہے ان کا خیال رکھنا ہے اور پھر لوگوں نے اس طرف توجہ بھی دی اور واقعی خیال رکھا۔ پھر کہتے ہیں سیکیورٹی کے انتظامات بھی اچھے تھے اور ہر جگہ بڑے منظم طریقے سے کام ہوئے اور حیران کن تھا کہ بغیر کسی رکاوٹ کے یہ سارا کام smoothly چل رہا ہے۔ کہتے ہیں میرے خیال میں دوسروں کو بھی یہاں ضرور آنا چاہیے تا کہ خود آ کر اس بھائی چارے کے ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور محسوس کر سکیں کہ کس طرح محبت، اخوت اور امن یہاں کی فضا میں رچا بسا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر شخص کو کم از کم ایک بار ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ یہ تجربہ مجھے اس بات پر قائل کرتا ہے کہ احمدیہ جماعت کا مستقبل روشن ہے۔ اس جلسہ نے میرے دل میں اسلام کے متعلق مزید گہرائی اور وسعت پیدا کی ہے۔ اگرچہ میں خود سنی مسلمان ہوں مگر میں نے کبھی احمدی بھائیوں کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھا۔ یہاں مجھے مختلف زبانوں میں احمدی علماء اور بھائیوں سے روبرو گفتگو کا موقع ملا جنہوں نے نہایت خلوص سے مجھے جماعت کے عقائد اور نظریات سے آگاہ کیا۔ یہ میرے لیے نہ صرف ایک مسلمان کے طور پر بلکہ چیک ریپبلک میں پروفیسر ہونے کی حیثیت سے بھی بہت اہم ہے۔ کہتے ہیں رضا کاروں سے بھی مجھے بات کرنے کا موقع ملا جن میں بڑی عمر کے بھی تھے، جوان بھی تھے اور ان سب سے میں نے پوچھا کہ کیوں یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟ تو ہر ایک کا جواب کم و بیش ایک ہی تھا کہ ہم یہ خدمت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ،مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خاطر اور اپنی روحانی ترقی اور اصلاح کے لیے انجام دیتے ہیں۔ ایک خادم نے بتایا کہ وہ گذشتہ پندرہ سال سے اس شعبہ میں خدمت کر رہا ہے اور جب سے وہ طفل تھا تب سے ہر سال جلسہ کے ایام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے وقف کرتا آیا ہے۔ یہ سب خدمات وہ بغیر کسی دنیوی معاوضے یا صلے کے انجام دیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہی وہ اعلیٰ روحانی تربیت ہے جو خلافت نے ان کے دلوں میں راسخ کر دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر کارکن اخلاص، ایثار اور محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنی خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ میرے دل میں ان مخلص رضاکاروں کے لیے بےحد احترام اور عقیدت ہے جو ہر موسم، ہر حالت میں بے لوث ہو کر اپنی توانائیاں پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بطور پروفیسر میرے لیے یہ امر بھی خوشگوار اور حیرت انگیز تھا کہ جماعت احمدیہ تعلیم و تدریس کو کس قدر اہمیت دیتی ہے۔ بک سٹالز پر کئی گھنٹوں تک میں نے وقت گزارا۔ مختلف کتب کا بغور مطالعہ کیا۔ ان کے معیار، مواد اور علمی انداز کو نہایت عمدہ اور قابل ستائش پایا۔ یہ ایک حیرت انگیز اور متاثر کن علمی خدمت ہے اور اسی طرح کے ان کے پاس احساسات و خیالات ہیں۔
فرنچ گیانا سے نومبائعہ امینہ مالا سنگھ (Amina Mala Singh)کہتی ہیں جلسہ کے دوران سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والی بات لوگوں کا اخلاق اور ان کی مہمان نوازی تھی۔ اگر آپ تھکے ہوئے ہوں اور بیٹھنے کی جگہ درکار ہو تو وہ لوگ جو پہلے سے بیٹھے ہوتے تھے فوراً اٹھ کر اپنی جگہ دے دیتے۔ ایک عجیب سا سکون اور آزادی کا احساس تھا۔ ایک روحانی فضا جو بیان سے باہر ہے اور سب سے زیادہ مؤثر لمحہ وہ تھا جب میں نے خلیفہ وقت کو دیکھا اور ملاقات کی۔ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ابتدا میں ہی خلافت سے تعلق اور وفا کا اظہار، یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کی ہوئی ہیں کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا۔
بلغاریہ سے بھی ایک نومبائعہ ایولینا (Ivelina) صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں میں اپنے گھر میں اکیلی احمدی ہوں۔ میں نے احمدیت کو بہت گہرائی سے پڑھا اور تین سال کی تحقیق کے بعد قبول کیا۔ یہ میرا یوکے کا پہلا جلسہ ہے۔ یہ ایک نہایت روحانی جلسہ تھا۔ اگرچہ میں طویل عرصہ سے اس موقع کا انتظار کر رہی تھی کہ یوکے کا جلسہ خود دیکھوں جو یہاں کا سب سے بڑا جلسہ ہے کیونکہ خلیفة المسیح اس میں شامل ہوتے ہیں اور خطاب بھی کرتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ ان بابرکت دنوں کے دوران میں نے ایک بےمثال روحانی فضا کو محسوس کیا اور اس کا حصہ بننے کی توفیق پائی۔ خدا کے فدائیوں کے درمیان رہ کر میرا اپنا تعلق بھی خدا تعالیٰ سے اَور زیادہ مضبوط ہوا۔ بھائی چارے کا جذبہ اور اعلیٰ اخلاق اور روحانی معیار جو ہر پہلو میں نظر آیا میرے دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے ان تمام کارکنان، رضا کاروں اور منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے اس عظیم الشان جلسہ کے انعقاد کے لیے انتھک محنت کی۔ میرا تجربہ نہایت شاندار رہا اور بڑا متاثر کن تھا کہ کس قدر باریک بینی سے مہمانوں کی سہولت اور آرام کا خیال رکھا گیا۔ کہتی ہیں اس بابرکت جلسہ کے اختتام پر میں گھر واپس ایسے ایمان کے ساتھ لوٹوں گی جو پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور ایسے علم کے ساتھ جو زیادہ صحیح ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ میرا تعلق اب حقیقی اسلام سے ہے۔ میرے لیے سب سے زیادہ اثر انگیز لمحہ وہ تھا جب خلیفة المسیح کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں خطاب ہوا جس کا وعدہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ اگرچہ میں اس موضوع پر پہلے بھی غور کر چکی تھی لیکن خلیفہ وقت کے الفاظ نے مجھے نئی بصیرت دی ہے اور مجھے نئے زاویے دکھائے ہیں جو پہلے میرے سامنے نہیں آئے تھے۔ اور کہتی ہیں یہ خطاب ان الزامات اور شکوک و شبہات کا بھرپور اور مدلل جواب تھا جو بعض مخالفین کی طرف سے خاتم النبیین کے بعد کسی کے آنے کے امکان پر کیے جاتے ہیں۔ یہ تقریر میرے فہم کو وسعت دینے والی، میری بصیرت کو گہرا کرنے والی اور میرے نقطہ نظر کو مزید جامع کرنے والی بنی ہے اور پھر کہتی ہیں کہ ایک اَور تقریر جس نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا ہے وہ ہے قرآن مجید کے خدا کی طرف سے ہونے کے دلائل۔ یہ سن کر کہ موجودہ دَور کے اعتراضات کو کس قدر منطقی مدلل اور واضح انداز میں ردّ کیا گیا ہے مجھے نہ صرف دلی سکون ملا بلکہ ایک نیا اعتماد بھی حاصل ہوا کہ جب بھی کسی محفل میں قرآن کریم کی سچائی پر حملہ کیا جائے تو میں بھی اب ان الزامات کا دفاع کر سکوں۔ تو یہ نیا جذبہ ہے جو ان لوگوں میں پیدا ہوتا ہے۔
برازیل سے ایک مہمان ایگورلوکاس (Igor Lucas) ایک صحافی ہیں اور ممبر صوبائی پارلیمنٹ کے سیکرٹری ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسے کے پروگراموں میں وقت کی پابندی قابل تعریف تھی۔ یہ بہت خوبی کی بات ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد کی مہمان نوازی اور خلوص دل انتہائی متاثر کن ہے۔ کھانے سے لے کر باتھ رومز کے استعمال تک، آمد و رفت سے لے کر جلسہ گاہ کے داخلی و خارجی راستوں تک مہمانوں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی۔ یہ ماحول انسان کو یکجہتی اور ایثار کا سبق دیتا ہے۔ اور پھر یہ کہتے ہیں اس بات نے بھی مجھے متاثر کیا کہ کھانے کے ضیاع سے بچنے کی سنجیدگی سے کوشش کی جاتی ہے لیکن خوراک بہت فراخدلی سے ہر فرد تک پہنچائی جاتی ہے۔
انڈونیشیا کے ایک مہمان گومار گلتوم ہیں۔ یہ پادری ہیں۔ کمیونین آف چرچز انڈونیشیا کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ کہتے ہیں میں احمدیت کو جانتا تھا لیکن اس جلسے کے ذریعہ میں نے بہتر طریقےسے سمجھا کہ احمدیت ایک روحانی تحریک ہے جو قادیان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہوئی تھی اور اب یہ ایک عالمی روحانی تحریک بن چکی ہے۔ میں نے دیکھا کہ کیسے مختلف ممالک سے احمدی احباب اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک ہی جذبے کے ساتھ حاضر ہوئے۔ کہتے ہیں متاثر کن بات یہ تھی کہ انسان کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے بہت سے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہاں یہ بنیادی چیزیں بن جاتی ہیں۔ اور اس طرح کے ان کے تاثرات ہیں۔
آئس لینڈ سے ایک مہمان ننڈ کیسورو (Nandkisore) صاحب یونیورسل پیس فیڈریشن کے چیئرمین ہیں۔ کہتے ہیں متی 7:16میں لکھا ہے کہ تم ان کے پھلوں سے انہیں پہچان لو گے۔ یہ الفاظ میرے لیے جلسہ سالانہ 2025ء کے دوران نہایت مؤثر اور زندہ حقیقت بن کر سامنے آئے۔ شاملین جلسہ کے چمکتے اور خوشی سے بھر پور چہروں کو دیکھ کر میرے دل پر گہرا اثر ہوا۔ میری نظر میں یہ اس بات کی واضح علامت تھی کہ خداوند ان بندوں کی اکائی دیکھ کر خوش ہے جو اس کی رضا کی تلاش میں جمع ہوئے ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ کے ایک کارکن نے جو افریقہ میں انسانی ہمدردی کی خدمت سرانجام دے رہے تھے بتایا کہ یہ خدمت نہ صرف دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ اسے اللہ کے قریب بھی لے جاتی ہے۔یہ ایمان کو عملی طور پر ظاہر کرنے کی ایک طاقتور یاددہانی ہے۔ اور اس طرح کے ان کے بہت سے تاثرات ہیں۔
قازقستان سے ایک غیر از جماعت مہمان صالح (Sauley) صاحبہ کہتی ہیں کہ میرا تعلق قازقستان سے ہے۔ مجھے پہلی مرتبہ جلسہ میں شمولیت کا موقع ملا۔ مجھے بہت سی دنیاوی تقریبات اور کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے لیکن یہاں شاملین کی تعداد نے مجھے بہت متاثر کیا۔ پھر یہ بھی کہ اس قدر زیادہ لوگ جو مختلف ممالک سے محض خیرو بھلائی کے لیے آئے تھے۔ ان کا مقصد ہی صرف بھلائی کے الفاظ سننا تھا اور یہ کہ دنیا میں لوگ امن اور آشتی کے ساتھ کیسے رہیں نیز یہ کہ نفرت کے جذبات کو دنیا سے کیسے دور کیا جائے اور کیسے دنیا میں پیار و محبت کا بول بالا ہو۔ پھر یہ کہتی ہیں خلیفة المسیح کے الفاظ عورتوں کے مقام کو بلند کرنے کے حوالے سے انتہائی شاندار تھے۔ اس جلسے کا نعرہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور لوگوں کا اتحاد اس امر کی طرف راہنمائی کر رہا تھا کہ ہم ایک ہو کر رہیں۔ میں نے اس طرح کے الفاظ کبھی نہیں سنے اور یہ سب کچھ روح میں سرایت کرتا جاتا تھا۔ یہ عورت غیر احمدی تھیں۔ کہتی ہیں میری باس ایک احمدی تھی۔ مَیں پہلے تو اس کے خلاف تھی لیکن اب مَیں یہ سارا ماحول دیکھ کے کم از کم مخالفت چھوڑ دوں گی بلکہ اس کی حمایت کروں گی۔
آسٹریا سے مُسْتاغ ظہیر نیزا (Moshtagh Zaherinezah) صاحب آئے تھے۔ یہ آسٹریا میں اسلامیات کے استاد ہیں اور کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں مَیں نے ہر طرف مومنین کو دیکھا۔ ہر کوئی بہت دوستانہ تھا اور اسلام کی خدمت کے لیے خاص جذبہ رکھتا تھا اور خلیفہ وقت کے الفاظ سے میں بہت متاثر ہوا۔ کہتے ہیں اس وقت تو مین سٹریم مسلمانوں میں علماء جو ہیں صرف داڑھی کو لمبا کرنا اور خاص لباس پہننا ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور نام کے مسلمان ہیں لیکن جماعت احمدیہ واحد جماعت ہے جو سچے دل سے اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور کہتے ہیں شاید دو سو سال کے عرصہ میں یہ دنیا پر غالب آ جائے۔ کہتے ہیں کہ میں ایک سنی مسلمان ہوں لیکن یقین رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے بانی واقعی ایک مقدس شخصیت تھے اور اس وقت مجھے لگتا ہے کہ وہ وقت کے مجدد تھے۔ یہاں تک تو اس نے مانا ہے۔ کہتے ہیں لیکن ابھی میں یہ سوچ رہا ہوں۔ اس پہ غور کر رہا ہوں۔ مجھے مسیح موعود اور مہدی معہود ماننے پہ ابھی ذرا تھوڑا تھوڑا انقباض ہے بہرحال ریسرچ میں کر رہا ہوں۔ بہرحال ان کی ایک سوچ ہے۔ اس طرف ان کا دھارا آیا ہے۔ کم از کم سعید فطرت ہیں۔ انہوں نے یہ تو کہہ دیا کہ میں سوچ رہا ہوں اور ڈھٹائی نہیں دکھائی کہ میں سوچوں گا بھی نہیں۔
بلغاریہ سے ایک نومبائعہ ہیں الستا روڈی (Elista Rudy Demange) صاحبہ۔ عیسائیت سے اسلام قبول کیا ہے۔ کہتی ہیں جلسہ میں شامل ہونے سے قبل میرے دل میں یہ خدشہ تھا کہ شاید میں خود کو ہر وقت اس ماحول کا حصہ محسوس نہ کر سکوں کیونکہ میں نئی ہوں اور میرا کلچر اور زبان مختلف ہے لیکن جو وحدت اور محبت میں نے یہاں دیکھی وہ دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھی۔ میں نے دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کی مگر وہ سب ایک ہی خاندان کا حصہ محسوس ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوئے بھی مسکراکر ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ کبھی کبھی انسان کے ایمان اور تقویٰ پر شکوک و شبہات یا غفلت کی گرد جم جاتی ہے جلسہ سالانہ میں شرکت ایسی ہوتی ہے جیسے دل و روح کو پھر سے پاکیزگی مل جائے اور انسان ایک نئی روحانی زندگی کا آغاز کرے۔ یہ تجربہ روح کو تازگی بخشتا ہے اور دل کو اطمینان و سکون سے بھر دیتا ہے۔
جارجیا سے رولانڈ شاوادزِے (Rolannd Shavadze) کہتے ہیں کہ جلسے کا پُرامن ماحول تقاریر اور خلیفہ کے خطابات روحانیت میں آگے بڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں اور یہ جمعہ کا جو خطبہ تھا مجھے بڑا اچھا لگا جس میں مہمان نوازی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بتایا گیا اور اسی طرح خلیفہ وقت کا عورتوں کا خطاب جو تھا یہ بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ میرے پر اس کا بڑا اثر ہوا اور کہتے ہیں کہ میں ایک جارجین مسلمان ہوں اور یونیورسٹی میں لیکچرر بھی ہوں۔ دوسال قبل مجھے جارجیا کے بیسٹ ٹیچر کا ایوارڈ ملا ہے اور میری فیلڈ بھی ایجوکیشن کی ہے اور مجھے خاص طور پر اچھا لگا کہ کس طرح آپ کی جماعت عورتوں اور مردوں کی تعلیم کے حوالے سے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ کہتے ہیں کیونکہ مجھے اس سال اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی سے جارجین زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق ملی ہے۔ ترجمہ کرتے وقت مجھے بہت لطف آیا اور خلیفة المسیح نے اتوار کے روز جو اختتامی خطاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ دوسرے مسلمان جو آپ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کے جھوٹے الزام کا ردّ اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ساتھ دیا گیا ہے یہ مجھے بڑا اچھا لگا اور پھر بیعت کا نظارہ اس نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ کہتے ہیں آجکل اسلام کے بارے میں منفی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ جس نے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم دیکھنی ہے تو وہ جلسہ پر آئے اور محبت، بھائی چارہ اور امن کی فضا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مشاہدہ کرے۔
اسی طرح جیسیکا گارسیا کوہل (Jessica Garcia Kohl Liccardo) کانگریس مین سیم ریکارڈو (Sam Liccardo) کی اہلیہ ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ میں ڈومیسٹک وائلینس(Domestic violance) کے خلاف ایک شعبہ میں کام کرتی ہوں اور یہ جان کر میں حیران رہ گئی کہ خلیفہ نے نہ صرف عورتوں کے خلاف جسمانی تشدد کا ذکر کیا بلکہ خواتین کے خلاف جذباتی تشدد کا بھی اپنی تقریر میں ذکر کیا۔ ایک سوال کا جواب ان کے لیے ادھورا تھا۔ کہتی ہیں وہ مجھے نہیں ملا تھا کہ اگر کسی خاتون کے ساتھ کچھ ہو جائے تو وہ کہاں مدد حاصل کر سکتی ہے؟ پھر کہتی ہیں میرے سے انہوں نے سوال بھی کیا تھا۔ میں نے ان کو بتایا کہ وہ جماعت کا نظام ہے۔ خلیفہ وقت کے پاس بھی آتی ہیں۔ جماعت کے نظام کے پاس آتی ہیں۔ پھر جماعت ان کی مدد بھی کرتی ہے اور دوسرے ذرائع بھی اختیار کر سکتی ہے۔ بہرحال کہتی ہیںیہ سب باتیں سن کر مجھے تسلی ہوئی اور اس بات سے بھی تسلی ہوئی کہ خلیفہ وقت کا جماعت کے لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعض باتیں آپ نے کیں جن پر اعتراض اٹھتے ہیں۔ خاص طورپہ مارنے کا جہاں سوال تھا تو اس کی ایک وضاحت تو لمبی ہے اور وہ ایک علیحدہ مضمون ہے اور شرائط بھی پوری نہیں ہوتیں اور اگر ان شرائط کو پورا کیا جائے تو جہاں تک عورت کو مارنے کا سوال ہے تو ان شرائط کے پورا ہونے تک تو ویسے ہی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ مارنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس لیے ایک بہت دُور کا امکان ہے جس کی بہرحال اسلام نے تعلیم دی ہے۔
ایک عرب لجنہ سویڈن سے یہاں آئی ہیں ۔کہتی ہیں جلسہ سالانہ ایک وسیع گھر کی مانند ہے جو کہ پوری فیملی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ سویڈن میں بہت ہی محدود عرب احمدی ہیں جبکہ جلسہ سالانہ پر جب عرب ٹینٹ کا نام سنتے ہیں تو ایک عجیب سکون اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور پھر دیگر عرب بہنوں اور بھائیوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اس نے مجھ پر بڑا اثر ڈالا۔ خلیفہ وقت سے ملاقات ہوئی اس کا بھی اچھا اثر ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب مہمانوں کے جو شامل ہوئے ہیں مزید سینے کھولے اور وہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو سمجھنے والے اور زمانے کے امام کو ماننے والے بھی بنیں۔ نومبائعین کو بھی ایمان اور اخلاص میں بڑھاتا رہے۔ اسی طرح ہر احمدی کو بھی توفیق دے کہ جلسے پر جو انہوں نے پروگرام دیکھے، سنے اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور یہ جذبہ ہمیشہ قائم رہے۔ جلسہ کی برکات سے ہر احمدی ہمیشہ حصہ لیتا رہے۔ اور اپنے نفس اور اپنے ماحول کی اصلاح کے لیے بھی بھرپور کوشش کرنے والے ہوں۔
اس بارے میں پریس والوں کی رپورٹ بھی مختصر دے دوں۔ اٹلی کی پریس کوریج میں رپورٹیں شائع ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ اس جلسہ سالانہ کی بعض اہم نشستوں کو یورو کمیونیکیشن(Eurocomunicazione) نیوز ایجنسی جو یورپی پارلیمنٹ کی سرکاری پریس ایجنسی ہے، نے براہ راست نشر کیا ہے اور مختلف انٹرویوز کو نشر کیا ہے اور شائع کیا ہے۔ اب تک ساٹھ اخبارات اور دیگر اخباری ایجنسیوں میں جلسے کے بارےمیں خبر اوررپورٹس شائع ہوئی ہیں اور اس میں آن لائن انفلوئنسرز نے ایک پیغام بھی میرا دیا ہے۔ اٹلی سے آنے والے دو صحافیوں نے جن کے سوشل میڈیا پر تقریباً آدھے ملین فالوورز ہیں، جماعت کی مثبت انداز میں رپورٹ دی ہے۔
جماعتی پریس اینڈ میڈیا سیکشن نے جو کام کیا ہے اس کے تحت بھی آن لائن ویب سائٹ پر تقریباً پچاس ملین لوگوں نے دیکھا۔ انچاس کے قریب ویب سائٹس ہیں۔ پرنٹ میڈیا جو ہے، اخبارات ہیں ان میں سترہ آرٹیکل شائع ہوئے۔ بیس ملین لوگوں نے دیکھا پڑھا۔ ریڈیو پر پچیس پروگرام ہوئے اور ان پچیس پروگراموں میں جلسے کو کور (cover) کیا اور سننے والوں کی تعداد بیس ملین تھی۔ ٹی وی پر جلسہ کو کوریج دی گئی۔ ٹی وی چینلز کو پانچ ملین کے قریب دیکھنے والے ہیں۔ اسی طرح میڈیا آؤٹ لٹس جرنلسٹ اور پبلک فگرز نے سوشل میڈیا پراس حوالے سے بہت کچھ لکھا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سے چودہ ملین تک یہ خبر گئی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کو ملایا جائے تو سو ملین کے قریب لوگوں تک یہ خبر پہنچی۔ مشہور میڈیا آؤٹ لٹس میں آئی ٹی وی ہے۔ ایل بی سی ہے۔ دی ٹائمز ہے۔ دی گارڈیئن۔ٹیلیگراف۔ ڈیلی میل۔ انڈیپنڈنٹ۔ بی بی سی۔ العربی ٹونٹی ون۔ ڈیلی ایکسپریس۔ لنڈن ایوننگ سٹینڈرڈ۔ دی نیو عرب شامل ہیں اور اس طرح بہت سارے دوسرے میڈیا بھی ہیں جن تک خبر پہنچی ہے۔
ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ سے مختلف چینلز پہ میرے خطابات نشر ہوتے رہے اور پچاس سے زائد احباب نے جلسہ سالانہ کی نشریات دیکھنے کے بعد بیعت بھی کی۔ جلسہ سالانہ کی نشریات بائیس نیشنل اور ریجنل ٹی وی چینلز پر ہوئیں۔ تین سو چار گھنٹے کی نشریات ہوئیں۔ پینسٹھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔ جلسہ سے متعلق ریڈیو سٹیشن پر اکانوے مختلف رپورٹس نشر ہوئیں۔ سولہ ملین تک اس ذریعہ سے پیغام پہنچا اور کہتے ہیں مختلف دوسرے میڈیا آؤٹ لٹس کے ذریعہ سے سینتالیس رپورٹس نشر ہوئیں اور اس پر ایک سو پچاس ملین تک پیغام پہنچا۔
ایم ٹی اے افریقہ کے تاثرات یہ ہیں مالی کے علاقے کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ جلسہ کے تیسرے دن ایک روح پرور نظارہ دیکھنے میں آیا۔ کہتے ہیں صبح کے وقت سےبارش ہو رہی تھی اور شدید بارش تھی۔ لگتا تھا کہ آج مسجد کوئی نہیں آئے گا لیکن کہتے ہیں عالمی بیعت سے کچھ دیر قبل چند احباب جن میں کچھ نومبائعین بھی تھے بارش میں پیدل یا سائیکل پر مسجد پہنچے۔ مکمل طور پر بھیگے ہوئے تھے۔ تو مبلغ نے ان سے کہا کہ آپ گھر بیٹھ کےریڈیو پر بھی یہ سارا سن سکتے تھے۔ بارش میں آئے ہیں تو ایک نومبائع نے جواب دیا۔ ہم گھر بیٹھ کر سن سکتے تھے لیکن خلیفہ وقت کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور جو خوشی اس میں ہے وہ کسی اَور چیز میں نہیں ہے اور عالمی بیعت کا نور اور برکتیں مَیں کھونا نہیں چاہتا تھا اس لیےبارش میں بھیگتے ہوئے بھی مَیں مسجد آ گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان اور یقین میں اضافہ کرتا چلا جائے۔
نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم عبدالکریم جمال جودہ صاحب، غزہ
کا ہے۔ گذشتہ دنوں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے یہ شہید ہو گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کے بھائی کہتے ہیں کہ ان کی عمر پینتالیس سال تھی۔ شادی شدہ تھے۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر سولہ سال ہے۔ سب سے چھوٹے بچے کی عمر اڑھائی سال ہے۔ غزہ کی پٹی میں جبالیہ کے علاقے میں رہتے تھے۔ قدامت پسند مسلمان خاندان میں پروان چڑھے۔ گیارھویں جماعت کے بعد گھر کے اخراجات میں والد کی مدد کے لیے اپنے والد کے ساتھ بلڈنگ کے کام میں شامل ہو گئے۔ گیارہ بہن بھائی تھے جن میں یہ دوسرے نمبر پر تھے اور پھر انہوں نے ایک دھات کی ورکشاپ بھی کھولی جس کو اسرائیلی حملے نے مسمار کر دیا۔ 2013ء میں ان کا اپنے بھائی کے ذریعہ سے جماعت سے تعارف ہوا تھا۔ اس دوران انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ جماعت کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے۔ بہت فعال اور سچے انسان تھے۔ جماعت سے تعلق کی وجہ سے غزہ سیکیورٹی اداروں نے کئی بار ان سے پوچھ گچھ کی اور کئی قسم کی تحقیقات کا انہیں سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے خیالات نہیں بدلے۔ جماعت سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مسلسل جماعت کے ساتھ رابطہ اور تعلق جاری رکھا۔ 2025ء میں قابض فوج نے ان کا گھر مسمار کر دیا۔ اس کے بعد کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ پھر غزہ کی پٹی میں حالیہ قحط کے بعد مرحوم امدادی سامان کی تقسیم کے مقام پر گئے۔ وہاں فوج نے آٹے وغیرہ پر مشتمل امدادی سامان کو داخل ہونے کی اجازت دی تھی تو ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ اور وہ اسرائیل کی فوج کے بہت سے قریبی علاقوں تک پہنچ گئے۔ نہتے لوگوں کے اس ہجوم پر اسرائیلی فوج نے شدید فائرنگ کی جس سے کہتے ہیں میرے بھائی کے قریب ایک شخص زخمی ہو گیا اور میرے بھائی نے اس کی مدد کی کوشش کی تو اسی دوران ایک گولی میرے بھائی کے سینے میں لگی جس سے وہ موقع پہ شہید ہو گیا۔ کہتے ہیں میرا بھائی جس زخمی شخص کی مدد کرتے ہوئے خود شہید ہو گیا اس نے بتایا کہ میرے بھائی نے شہادت سے قبل تین بار کلمہ پڑھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کی سنت پر وفات پائی۔ ہمیں اس بات کی تسلی ہے کہ اس کی وفات سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر اور امام مہدیؑ کی بیعت پر قائم رہتے ہوئے ہوئی۔ وہ اللہ کے فضل سے مخلص اور سچے لوگوں میں سے تھا۔
ڈاکٹر حفیظ صاحب ہیومینٹی فرسٹ یوکے کے انچارج ہیں۔ کہتے ہیں کہ نومبر 2021ء میں جماعت کی زیارت کے سلسلہ میں ہیومینٹی فرسٹ کے دورے کے تحت جب غزہ گیا تو وہاں عبدالکریم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں نہایت مخلص اور فدائی احمدی مسلمان دیکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔