خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 8؍ اگست 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جلسہ سے پہلے فتح مکہ کے واقعات کا ذکر ہو رہا تھا۔میں نے بعض شدید مخالفین اسلام اور ان کے قبول اسلام کا ذکر کیا تھا۔ ان میں سے چند ایک اَور بھی ہیں۔ ایک وحشی بن حرب

ہے۔ غزوۂ احد میں حضرت حمزہؓ کو اسی نے شہید کیا تھا اور فتح مکہ کے بعد طائف بھاگ گیا۔ جب اہل طائف نے اسلام قبول کیا تو یہ بھی آیا اور اسلام قبول کر لیا۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ225دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بخاری کی روایت میں وحشی کے قبول اسلام کا ذکر اس طرح ہے جو خود اس نے بیان کیا ہے۔ کہتا ہے میں مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب اس میں اسلام پھیلا تو پھر میں طائف کی طرف نکل گیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایلچی بھیجے اور مجھے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایلچیوں سے تعرّض نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا میں ان کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کیا تم وحشی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا بات یہی ہے جو آپ کو پہنچی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لو؟ کہتے ہیں اس کے بعد میں وہاں سے نکل گیا۔ یعنی آپ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اپنا چہرہ نہ دکھاؤ تا کہ مجھے دوبارہ خیال نہ آ جائے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا تا کہ میں اسے قتل کروں اور اس کے ذریعہ حضرت حمزہ کا بدلہ ادا کر سکوں۔ انہوں نے کہا میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا۔ پھر اس کا حال ہوا جو ہوا یعنی اس کو قتل کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوار کے ایک شگاف میں کھڑا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا ایک اونٹ ہے۔ سر کے بال پراگندہ ہیں۔ یہ مسیلمہ کذاب تھا جس کو انہوں نےوہاں کھڑا دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کو اپنی برچھی ماری اور اسے اس کی چھاتیوں کے درمیان مارا یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان سے نکل گئی۔ انہوں نے کہا کہ انصار میں سے ایک شخص اُس کی طرف لپکا اور اس کی کھوپڑی پر تلوار کی ضرب لگائی۔ اس طرح وہ قتل کیا گیا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ بن عبد المطلبؓ حدیث 4072)

اسی طرح ایک عمرو بن ہاشم کی لونڈی سارہ تھی۔ یہ مُغَنِیّہ تھی۔ فتح مکہ سے قبل آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ سے کچھ مانگا اور محتاجی کا شکوہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری نغمہ سرائی کو کیا ہوا تم تو بڑی گانا گایا کرتی تھی، پیسے کماتی تھی؟ اس نے کہا جب سے مشرکین کے سردار غزوہ بدر میں مارے گئے ہیں انہوں نے گانے سننے بند کر دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک اونٹ غلہ عطا فرمایا پھر وہ قریش کے پاس آ گئی۔ ابن خَطَل اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہجویہ شعر بتاتا تھا اور یہ ان ہجویہ شعروں کو گاتی تھی۔ یہ انعام لینے کے باوجود بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی اوریہ وہی تھی جس کے پاس حضرت حاطب کا خط ملا تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا اور حضرت عمرؓ کی خلافت تک زندہ رہی۔

اسی طرح ایک ابن خَطَل کی لونڈی فَرْتَنٰی تھی۔ یہ بھی آپؐ کے بارے میں ہجویہ اشعار گاتی تھی۔ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 225دارالکتب العلمیۃ بیروت) پھر

حضرت حارث بن ہشام ؓکے اسلام قبول کرنے کے بارے میں لکھا ہے۔ یہ مکہ کا ایک ہر دلعزیز رئیس تھا اور ابوجہل کا باپ کی طرف سے بھائی تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓکی بہن اس کی بیوی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ اور عبداللہ بن ابی ربیعہ حضرت ام ہانیؓ کے گھر داخل ہو گئے کیونکہ حضرت علیؓ ان کے پیچھے ان کو قتل کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ حضرت ام ہانیؓ نے ان دونوں کو اپنے گھر میں چھپاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ان کو پناہ دی ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ہانی سے فرمایا۔ جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی۔(سیرت حلبیہ صفحہ133-134دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حارث بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ہم دو دن اس گھر میں ٹھہرے رہے پھر ہم اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ ہم صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کوئی ہم سے تعرّض نہیں کرتا تھا۔ ہمیں حضرت عمر سے ڈر لگتا تھا۔ کہتے ہیں کہ بخدا مَیں چادر اوڑھے اپنے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا تو اچانک حضرت عمر آ گئے۔ ان کے ساتھ کچھ مسلمان تھے۔ انہوں نے سلام کیا اور گزر گئے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے شرم آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر جگہ مشرکین کے ہمراہ دیکھا تھا۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی، رحمت اور صلہ رحمی یاد آ گئی۔ میں نے آپؐ سے ملاقات کی۔ اس وقت آپ مسجد حرام میں داخل ہورہے تھے۔ آپ نے میرے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کلمہ شہادت پڑھا۔ آپ نے فرمایا: ساری تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ تم جیسا انسان اسلام سے کیسے دور رہ سکتا تھا۔ حارث نے کہا بخدا! میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسلام سے دور نہیں رہا جا سکتا۔(سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 133-134، 146دار الکتب العلمیۃ بیروت)(امتاع جلد1صفحہ389دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ250دارالکتب العلمیۃ بیروت)(اسد الغابہ جلد اول صفحہ 644-645 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اسی طرح سُہَیل بن عمرو کا قبول اسلام ہے۔ یہ بھی مکہ کا رئیس تھا اور یہ وہی تھا جو معاہدہ حدیبیہ کرنے کے لیے قریش کی طرف سے بطور نمائندہ آیا تھا۔ سُہیل بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور غلبہ پا لیا تو میں اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ میں نے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے لیے پناہ طلب کرے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں مجھے قتل نہ کر دیا جائے۔ حضرت عبداللہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والد آپؐ سے امان طلب کر رہے ہیں۔ اہالیان ِمکہ کو تو عام معافی اور امان دی جا چکی تھی۔ دراصل یہ وہ ائمة الکفر تھے اور اتنے شدید مخالف رہ چکے تھے کہ انہیں تسلی نہیں ہوتی تھی اور سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ وہ امان میں رہیں گے اور اپنی جاہلانہ سوچ کے مطابق ان کو ایک دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ان سے انتقام لیا جائے گا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کو پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امان کے ساتھ امن میں ہے۔ وہ سامنے آئے یعنی آزادانہ باہر گھوما پھرا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گرد بیٹھے ہوئے صحابہ سے فرمایا تم میں سے جو سُہیل سے ملے تو اسے تیز نظروں سے نہ دیکھے۔ سُہیل جیسا صاحبِ عقل و شرف زیادہ دیر اسلام سے دور نہیں رہ سکتا۔ اس نے دیکھ لیا ہے کہ جس امر میں وہ تھا یعنی کفر کی جو حالت ہے وہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ اپنے باپ کے پاس گئےاور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بارے میں بتایا تو سُہیل نے کہا بخدا !آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں بھی احسان کرنے والے تھے اور اس عمر میں بھی احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت سُہیل امن سے آتے جاتے رہے۔ غزوۂ حنین میں آپ کے ساتھ مشرک ہونے کی حالت میں شامل ہوئے تھے۔ غزوہ حنین میں شامل ہوئے لیکن اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔ غزوۂ حنین سے واپسی پر جعرانہ کے مقام پر اسلام قبول کر لیاجو مکہ سے ستائیس کلو میٹر کے فاصلے پر بتایا جاتا ہے طائف کے راستے میں ایک کنواں ہے۔(سیرت حلبیہ جلد3صفحہ146دار الکتب العلمیۃ بیروت)(امتاع الاسماع جلد13صفحہ386دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ 88 زوار اکیڈمی)

اسلام قبول کرنے کے بعد ان میں حیرت انگیز روحانی انقلاب پیدا ہوا۔ لکھا گیا ہے کہ فتح مکہ پر سرداران قریش میں سے اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے زیادہ نماز روزے کے پابند اور صدقہ دینے میں سُہَیل سے بڑھ کر اَور کوئی نہ تھا۔ کثرت سے گریہ و بکا کرنے والے تھے۔ قرآن پڑھتے وقت اکثر رویا کرتے تھے۔(اسدالغابہ جلد2صفحہ586دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع میں دیکھا کہ سُہَیل بن عمرو ذبح کرنے کی جگہ پر کھڑے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کررہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیا۔ پھر سر مونڈھنے والے کو بلایا اور اپنے بال منڈھوائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے سُہَیل کو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک اپنی آنکھوں سے لگا رہا تھا۔ جو بال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کٹوائے تھے وہ سُہیل کے ہاتھ میں آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے لگایا۔ کہتے ہیں اس وقت مجھے یاد آ گیا کہ یہی سُہیل صلح حدیبیہ کے وقت آپؐ کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنے سے روک رہا تھا جو معاہدے پہ لکھی جانی تھی اور لفظ محمد کے ساتھ رسول لکھنے پر بھی معترض تھا اور جب تک رسول اللہ کا لفظ مٹایا نہیں گیا اس نے معاہدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس نے سُہیل کو اسلام کی طرف ہدایت دی اور پھر جب ہدایت دی تو پھر اخلاص و وفا میں بے انتہا بڑھے۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ64دارالکتب العلمیۃ بیروت)

سہیل بن عمرو کا ایک اَور کارنامہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں سُہیل قریش کے زبردست خطیب بھی تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں کافر ہونے کی حالت میں مسلمانوں کے قیدی بنے۔ انہوں نے اپنے ہونٹوں پر نشان بنا رکھا تھا۔ حضرت عمر نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کے سامنے والے دو دانت نکلوا دیں جہاں اس نے نشان بنائے ہوئے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کبھی بھی خطاب کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اس کے دانت نکال دیں منہ میں دانت نہیں ہوں گے تو ٹھیک طرح بولا نہیں جائے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! اسے چھوڑ دو۔ قریب ہے کہ یہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ تم اس کی تعریف کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس کو سزا دلوانا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں کچھ نہیں کہنا۔ ایک موقع آئے گا جب یہ اس مقام پر کھڑا ہو گا اور ایسی باتیں کرے گا کہ تم اس کی تعریف کرو گے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ یہ مقام اس وقت آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مکہ والے متزلزل ہو گئے۔ جب قریش نے اہلِ مکہ کو مرتد ہوتے دیکھا اور ایسی خراب حالت ہوگئی کہ حضرت عَتَّاب بن اَسِیْد اُمَوِی جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل مکہ پر امیر مقرر تھے وہ چھپ گئے، تو اس وقت حضرت سُہیل بن عمرو خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا اے قریش کے گروہ! تم آخر میں اسلام لائے ہو۔ آخر میں اسلام لاکر سب سے پہلے ارتداد اختیار کرنے والے نہ بننا۔ خدا کی قسم! یہ دین اسی طرح پھیلے گا جس طرح کہ چاند اور سورج طلوع سے غروب تک پھیلتے ہیں۔ اس طرح آپ نے یعنی سُہَیل نے ایک طویل خطاب کیا۔ چنانچہ اس خطاب نے مکہ والوں کے دلوں پر اثر کیا اور وہ رک گئے۔ حضرت عَتَّاب بن اَسِید جو چھپ گئے تھے وہ بھی بلائے گئے اور قریش اسلام پر ثابت قدم ہو گئے۔(اسدالغابہ جلد2صفحہ585دارالکتب العلمیۃ بیروت)

پھر حضرت عُتْبہ اور مُعَتِّب کا قبول اسلامہے۔ اس بارے میں لکھا ہے۔ یہ حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کے دن آپؐ مکہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تمہارے بھتیجے ابولہب کے بیٹے عتبہ اور مُعَتِّب کہاں ہیں؟ مَیں نے انہیں نہیں دیکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ وہ کہاں ہیں؟ حضرت عباس نے کہا وہ دیگر مشرکین کی طرح کنارہ کش ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں میرے پاس لے کر آؤ۔ حضرت عباس سوار ہو کر عُرَنَہ گئے جو عرفات کے قریب ایک وادی ہے اور انہیں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور دونوں نے بیعت کر لی۔ پھر آپؐ کھڑے ہوئے ان کے ہاتھ پکڑے اور انہیں مُلْتَزِم پر لے آئے جو حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان بیت اللہ کی دیوار کا حصہ ہے جس سے لپٹ کر دعا مانگنا مسنون ہے اور یہ دعا کی قبولیت کا خاص مقام ہے اور کچھ دیر دعا مانگی پھر واپس تشریف لے آئے۔ خوشی آپ کے چہرے پر دیکھی جا سکتی تھی۔ حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ آپ کو خوش رکھے۔ میں آپؐ کے چہرے پر خوشی کے اثرات دیکھ رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے اپنے چچا کے ان دو بیٹوں کو اپنے رب سے مانگا تھا تو اس نے مجھے یہ عنایت کر دیے۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ250دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ 59، 284 زوار اکیڈمی)

پھرصَفْوَان بن اُمَیَّہ کا قبول اسلام ہے۔ صَفْوَان بن امیہ مکہ کے رئیس امیہ بن خَلَف کا بیٹا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اشراف میں سے تھا اور قریش کے سب سے فصیح البیان لوگوں میں سے ایک تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا۔ یہ مسلمانوں کو مکہ میں تکلیف اور اذیت دینے والوں میں سے ایک تھا۔ غزوہ بدر کے بعد اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش بھی کی تھی اور عُمیر بن وہب کو اس کام کے کے لیے تیار کیا تھا۔

ہرچند کہ اس کا نام ان لوگوں میں شامل نہ تھا جن کے قتل کا حکم ہوا تھا لیکن یہ خود اس خوف اور اندیشے سے مکہ سے بھاگ گیا تھا کہ اس کو مار دیا جائے گا۔ یہ بحیرۂ احمر کی طرف جدہ کی طرف بھاگ گیا۔ عُمیر بن وہب جو اس کا دوست تھا اور اسلام قبول کر چکا تھا۔ یہ وہی عُمیر تھا جس کو صَفْوَان نے یہ کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مدینہ بھیجا تھا کہ تم ان کو قتل کر دو تو تمہارے بال بچوں کی کفالت و حضانت میرے سپرد ہو گی لیکن عُمیر جب مدینہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سارے منصوبے کا علم ہو گیا اور یہ معجزہ دیکھ کر عُمیر اسی وقت اسلام لے آئے۔ اب فتح مکہ کے موقع پر عُمیر اپنے دوست صَفْوَان کے اسلام لانے کے آرزومند تھے اور متفکر تھے۔ حضرت عُمیر بن وہبؓ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! صَفْوَان میری قوم کا سردار ہے۔ وہ آپؐ کے خوف سے بھاگ گیا ہے۔ آپ اسے امان عطا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے امان ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ مجھے اپنی کوئی نشانی عطا فرمائیں جو میں اسے آپ کی طرف سے امان کے طور پر دکھا سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ جو پہنا ہوا تھا اتارا اور اس کو دے دیا۔ حضرت عُمیر عازم سفر ہوئے حتی کہ صَفْوَان کو جا لیا جو کہ کشتی میں سوار ہونے والا تھا۔ حضرت عُمیر نے اسے کہا میں اس ذات کے پاس سے آیا ہوں جو سارے لوگوں سے زیادہ پاک باز ہے۔ سارے لوگوں سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے۔ خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان لے کر آیا ہوں۔ صَفْوَان نے کہا میں تمہارے ساتھ واپس نہیں جاؤں گا حتیی کہ تم مجھے ان کی کوئی نشانی دکھاؤ جسے میں جانتا ہوں۔ اس پر انہوں نے آپؐ کا دیا ہوا عمامہ دکھایا۔ صَفْوَان حضرت عُمیر کے ساتھ آ گیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ اس وقت مسجدمیں صحابہ کو نماز عصر پڑھا رہے تھے۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو صَفْوَان نے بلند آواز سے کہا اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!عُمیر میرے پاس آپ کی چادر لے کر آیا ہے کہ آپ نے مجھے امان دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بالکل درست ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دیں میں ابھی اسلام قبول کرنا نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار مہینے دیے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ تم اسلام قبول کر لو گے۔ چنانچہ صَفْوَان مشرک ہونے کی حالت میں ہی مکہ میں رہنے لگا۔ جب آپ ہَوَازِن تشریف لے گئے اور غزوہ طائف اور حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم فرمایا تو آپ نے صَفْوَان کو دیکھا۔ وہ اس گھاٹی کو دیکھ رہاتھاجو بھیڑ بکریوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ لگاتار انہیں دیکھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صَفْوَان کو دیکھ رہے تھے کہ وہ گھاٹی کو دیکھ رہا ہے جہاں مال بھرا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اس گھاٹی نے تمہیں تعجب میں ڈال دیا ہے کہ کتنا مال اس گھاٹی میں ہے؟ صَفْوَان نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ گھاٹی اور اس میں جو کچھ ہے سب کچھ تمہارا ہے۔ لے جاؤ اسے۔ صَفْوَان نے ان کے سارے اموال پر قبضہ کر لیا اور کہا جس عمدہ طریقے پر نبی کا نفس سخاوت کرتا ہے اس طرح کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور اسی جگہ اسلام قبول کر لیا۔

صَفْوَان نے مکہ میں بیالیس ہجری میں حضرت معاویہ کی خلافت میں وفات پائی۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ہنگامے کے وقت شہید ہوئے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 253۔254دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سیرت حلبیہ جلد3صفحہ135دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ ازمحمدباشمیل صفحہ321تا 325 نفیس اکیڈمی کراچی)(اسد الغابہ جلد3صفحہ24-25دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 297)( ابن ہشام صفحہ 449 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے والے ان رؤسائےمکہ کی اکثریت نے بعد میں اپنی زندگیوں میں ایک زبردست روحانی انقلاب پیدا کیا تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں مکہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤساءجو مشہور خاندانوں میں سے تھے ان کے ملنے کے لیے آئے۔ انہیں خیال پیدا ہوا کہ حضرت عمر ہمارے خاندانوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے اب جبکہ وہ خود بادشاہ ہیں ہمارے خاندانوں کا بھی پوری طرح اعزاز کریں گے اور ہم پھر اپنی گم گشتہ عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے آپ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باتیں شروع کر دیں۔ ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت عمر کی مجلس میں حضرت بلال آ گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو حضرت خَبَّاب آ گئے اور اس طرح یکے بعد دیگرے اول الایمان غلام آتے چلے گئے یعنی شروع میں جو ایمان لانے والے غلام تھےوہ سارے ایک کے بعد ایک کر کے چلے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ان رؤساء یا ان کے آباء کے غلام رہ چکے تھے۔ بہرحال رؤساءبیٹھے ہوئے تھے۔ یہ سارے آنے والے ان کے آباءواجداد کے غلام تھے جیسا کہ میں نے بتایا اور جب وہ غلام تھے تو اس وقت اپنی طاقت کے زمانے میں یہ لوگ ان پر شدید ترین ظلم کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر نے ہر غلام کی آمد پر اس کا استقبال کیا۔ یعنی وہ جو غلام تھے، ماضی کے غلام اور آج کے معزز لوگ تھے ان کا معزز کے طور پر استقبال کیا۔ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے ہر غلام کی آمد پر اس کا اس طرح استقبال کیا جیسے رؤساءہوں اور رؤساءسے کہا کہ آپ ذرا پیچھے ہو جائیں۔ رؤساءمجلس میں آگے بیٹھے ہوتے تھے۔ جب یہ پرانے ایمان لانے والے آتے تھے تو آپ ان رؤساءکو جو مکہ کے رؤساءتھے کہتے ذرا پیچھے ہٹ جاؤ ان کو آگے بیٹھنے دو حتٰی کہ وہ نوجوان رؤساءجو حضرت عمر سے ملنے آئے تھے وہ ہٹتے ہٹتے دروازے تک پہنچ گئے۔ اس زمانے میں کوئی بڑے بڑے ہال تو ہوتے نہیں تھے ایک چھوٹا سا کمرہ ہو گا اور چونکہ وہ سب اس میں سما نہیں سکتے تھے اس لیے پیچھے ہٹتے ہٹتے رؤساءکو جوتیوں میں بیٹھنا پڑا۔جب مکہ کے وہ رؤساءجوتیوں میں جا پہنچے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک مسلمان غلام آیا اور اس کو آگے بٹھانے کے لیے ان لوگوں کو یا رؤساء کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تو ان کے دل کو سخت چوٹ لگی۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے بھی اس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دیے کہ یکے بعد دیگرے کئی ایسے مسلمان آ گئے جو کسی زمانے میں کفار کے غلام رہ چکے تھے۔ اگر ایک بار ہی وہ رؤساءپیچھے ہٹتے تو ان کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لیے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔ باہر نکل کروہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو آج ہماری کیسی ذلّت اور رسوائی ہوئی ہے۔ ایک ایک غلام کے آنے پر ہم کو پیچھے ہٹایا گیا ہے یہاں تک کہ ہم جوتیوں میں جا پہنچے۔ اس پر ان میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے؟ عمر کا ہے یا ہمارے باپ دادا کا ہے؟ اگر تم سوچو تو معلوم ہو گا کہ اس میں حضرت عمر کا تو کوئی قصور نہیں۔ یہ ہمارے باپ دادا کا قصور تھا جس کی آج ہمیں سزا ملی کیونکہ خدا نے جب اپنا رسول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی مگر ان غلاموں نے اس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکلیف کو خوشی سے برداشت کیا۔ اس لیے آج اگر ہمیں مجلس میں ذلیل ہونا پڑا ہے تو اس میں عمر کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ اس کی یہ بات سن کر دوسرے کہنے لگے کہ ہم نے یہ تو مان لیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کے قصور کا نتیجہ ہے مگر کیا اس ذلّت کے داغ کو دور کرنے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا کوئی نہیں ؟ اس پر سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی۔ چلو حضرت عمر سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ اس کا کیا علاج ہے۔ چنانچہ وہ حضرت عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے اس کو آپ بھی خوب جانتے ہیں اور ہم بھی خوب جانتے ہیں۔ حضرت عمر فرمانے لگے کہ معاف کرنا میں مجبور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں معزز تھے۔ شاید تمہارے غلام ہوں گے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں یہ لوگ معزز تھے۔ اس لیے میرا بھی فرض تھا کہ میں ان کی عزت کرتا۔ انہوں نے کہا ہم جانتے ہیں۔ یہ ہمارے ہی قصور کا نتیجہ ہے لیکن آیا اس عار کو مٹانے کا بھی کوئی ذریعہ ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو اس زمانے میں آجکل جو ہم یہاں بیٹھے ہیں اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ آجکل اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ وہ لوگ جو مکہ کے رؤساء تھے انہیں مکہ میں کس قدر اثر و رسوخ حاصل تھا لیکن حضرت عمرؓ اُن کے خاندانی حالات کو بخوبی جانتے تھے۔ آپ مکہ میں پیداہوئے تھے اور مکہ میں بڑے ہوئے تھے۔ اس لیے حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کس قدر عزت رکھتے تھے۔ حضرت عمر جانتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ آپ جانتے تھے کہ انہیں کس قدر رعب اور دبدبہ حاصل تھا۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمر کے سامنے ایک ایک کر کے یہ تمام واقعات آ گئے اور آپ پر رقت طاری ہو گئی۔ اس وقت آپ غلبۂ رِقَّت کی وجہ سے بول بھی نہ سکے صرف آپ نے ہاتھ اٹھایا اور شمال کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ شمال میں یعنی شام میں بعض اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں۔ اگر تم ان جنگوں میں شامل ہو جاؤ تو ممکن ہے کہ اس کا کفارہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ وہاں سے اٹھے اور جلد ہی ان جنگوں میں شامل ہونے کے لیے چل پڑے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ رئیس زادے جتنے تھے ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا سب اسی جگہ شہید ہو گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے داغِ ذلت کو مٹا دیا۔(ماخوذازتفسیرکبیرجلد11 صفحہ 97تا 99)

بیان کیا جاتا ہے کہ جنگ یرموک میں ان رؤساءنے قابل تعریف جرأت اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ جب جنگ ختم ہوئی تو مسلمانوں نے خاص طور پر عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کیا تو کیا دیکھا کہ ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی ہیں ان میں ایک عکرمہ بھی تھے۔ ایک مسلمان سپاہی ان کے پاس آیا اور عکرمہ کی حالت دیکھی۔ بڑی خراب تھی۔ اس نے کہا : اے عکرمہ! میرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو۔ عکرمہ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباس کے بیٹے حضرت فضل زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ عکرمہ نے اس مسلمان سے کہا کہ میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولاد تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا ایک نیا جذبہ ان میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے پہلے انہیں یعنی حضرت فضل بن عباس کو پانی پلا لو اگر کچھ بچ جائے تو پھرمیرے پاس لے آنا۔ وہ مسلمان حضرت فضل کے پاس گیا۔ انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ۔ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پانی پلاؤ۔ اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کے پاس بھیج دیتا اور کوئی نہ پیتا۔ جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ وہ واپس دوسرے کی طرف آیا یہاں تک کہ عکرمہ تک پہنچا مگر وہ سب فوت ہو چکے تھے۔(ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے، انوار العلوم جلد 26صفحہ 230-231)

دعوت الی اللہ کے لیے اور بعض بڑے بتوں کے انہدام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دستے مقرر فرمائے تھے۔ ان کو روانہ فرمایا۔ اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات کی طرف دستے بھیجے۔ بنیادی طور پر یہ جنگ و قتال کے لیے نہیں تھے۔ ان کا مقصد دعوت الی اللہ کا پیغام پہنچانا تھا اور بعض جگہوں پر نصب کیے ہوئے بتوں کو گرانا تھا جو توحید پر ایمان لانے میں ایک روک تھی۔ جس کا فرضی اور مصنوعی خوف لوگوں کے دلوں میں سمایا ہوا تھااور ان کا یہ تصور خدائے واحد و یگانہ پر ایمان لانے میں روک بنا ہوا تھا۔ اہل عرب کی اکثریت کے دلوں میں تین بتوں یا دیویوں کی بہت عظمت تھی۔ ان کے نام یہ ہیں لات، منات اور عُزّٰی۔

لات: یہ دیوی طائف میں تھی تمام عرب میں اس کی عظمت اور توقیر تھی۔ لوگ اس کا نام لے کر قسم کھایا کرتے تھے اور اس پر چڑھاوے چڑھایا کرتے تھے۔ عمرو بن لُحَیّ جو عربوں میں بت پرستی کا بانی سمجھا جاتا ہے اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ موسم سرما میں طائف میں لات کے پاس اور گرمیوں کا موسم عُزّٰی کے پاس گزارتا ہے۔

منات: یہ عربوں کا قدیم ترین بت تھا۔ یہ سمندر کے کنارے قُدَیْد میں مکہ اور مدینہ کے درمیان تھا۔ اہل عرب اس کی تعظیم کرتے اور اس پر قربانیاں کرتے تھے۔ اوس اور خزرج خاص طور پر اس کی اس قدر تعظیم کرتے تھے کہ وہ منات کے نام پر احرام باندھتے تھے۔ اس کی عظمت و تعظیم کے پیش نظر صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی نہیں کرتے تھے۔ جب حج کرتے تو اپنے سروں کو نہ منڈواتے بلکہ واپسی پر منات کے پاس آتے اور یہاں سر منڈواتے، قیام کرتے اور اس کے بغیر اپنا حج مکمل نہ سمجھتے تھے۔

عُزّٰی: یہ قریش کا سب سے بڑا بت تھا جو نخلہ کے قریب نصب تھا۔ انہوں نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بھی بنائی ہوئی تھی جس میں وہ اپنی قربانیاں کرتے تھے۔ اس کے نام پر اپنے لوگوں کے نام رکھتے اور اس کی قسم کھایا کرتے تھے۔ عَمرو بن لُحَیّ جو عربوں میں بت پرستی کا بانی سمجھا جاتا ہے اس نے لوگوں کے دلوں میں بتوں کے بارے میں جو غلط خیالات شدید طور پر پیدا کر دیے تھے اس سے لوگ ان بتوں سے بہت خوفزدہ بھی تھے اور بڑا احترام کرتے تھے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے۔ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ مختلف موسم ان بتوں کے پاس گزارتا تھا۔ بہرحال اس طرح کے تصورات نے عُزّٰی دیوی کی عظمت اس قدر لوگوں میں پیدا کر دی کہ جس طرح کعبہ کی طرف ہدیہ اور نذرانے لائے جاتے تھے اسی طرح وہ عُزّٰی کی طرف لے جانے لگے۔ یہ وہی بت ہے کہ جنگ احد کے موقع پر ابوسفیان نے فتح کی خوشی میں اس کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔ إِنَّ لَنَا الْعُزّٰى وَلَا عُزّٰى لَكُمْ۔کہ ہمارے لیے عُزّٰی ہے اور تمہارا کوئی عُزّٰی نہیں۔

یوں تو اہل عرب عموماً ان تینوںبتوں کی تعظیم کرتے تھے البتہ عُزّٰی قریش کے لیے مخصوص تھا۔ لات بنوثقیف اور منات اوس اور خزرج کے لیے خاص تھا۔ اہل عرب کے تصور کے مطابق یہ تینوں مؤنث تھے یعنی دیویاں تھیں۔(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ202-203، 207دار السلام)( اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 1صفحہ 346 دار السلام)(تصورات عرب قبل ازاسلام از عبید اللہ قدسی صفحہ 52 تا 55)(ابن ہشام صفحہ 77دارالکتب العلمیۃ بیروت)(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ما یکرہ من التنازع … حدیث 3039)

قرآن کریم نے ان تینوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَالۡعُزّٰی ﴿ۙ۲۰﴾وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی ﴿۲۱﴾ اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۲﴾ تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۳﴾ اِنۡ ہِیَ اِلَّاۤ اَسۡمَآءٌ سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَاٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنۡ یَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہۡوَی الۡاَنۡفُسُ ۚ وَلَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۴﴾(النجم :20تا 24)

تم بھی ذرا لات اور عُزّٰی کا حال سناؤ۔ کیا ان کی بھی یہی شان ہے اور تیسرے منات کا بھی جو ان کے علاوہ ہے۔ کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہیں اور خدا کے لیے لڑکیاں۔ یہ تو نہایت ہی ناقص تقسیم ہے۔ یہ تو کچھ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ورنہ ان میں حقیقت کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے ان بتوں کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ وہ صرف ایک وہم کی اور خواہش نفسانی کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے مگر پھر بھی نہیں سمجھتے۔

بہرحال جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ فتح مکہ کے فوراً بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کے ان ٹھکانوں کو مسمار کرنے کا ارشاد فرمایا تا کہ لوگوں کے دلوں سے ان کے فرضی خوف اور عظمت کا خیال جاتا رہے اور یہ پُرحکمت فیصلہ بہت بابرکت ثابت ہوا کیونکہ ان کے انہدام سے لوگوں کے دلوں میں ان کا جھوٹا خوف اور رعب جاتا رہا اور ان کو یقین ہونے لگا کہ اس خدائے واحد و یگانہ کا تصور ہی صحیح ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔

ان بتوں کو کس طرح گرایا گیا کس طرح یہ جگہیں مسمار کی گئیں اور اس کا پھر ردّعمل کیا ہوا۔ ابتدامیں کوئی مخالفت ہوئی کہ نہیں، اس کے کچھ تھوڑے سے واقعات جو ہیں یہ ان شاء اللہ آئندہ آگے بیان کروں گا۔

نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جن میں سے ایک ہیں

مکرم چودھری عبدالغفور صاحب ابن چودھری غلام قادر صاحب جو جام شورو حیدرآباد کے ہیں۔ گذشتہ دنوں بانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ زمیندار خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ بڈھا کوٹ سے 1900ء کے اوائل میں کوٹ احمدیاں شفٹ ہوئے۔ آپ کے والد نے سلسلہ اور خلافت سے محبت کے باعث آپ کو اعلیٰ دینی اور دنیوی تعلیم کے لیے 1942ء میں قادیان بھجوایا جہاں چودھری صاحب نے ہجرت پاکستان تک تعلیم حاصل کی اور وہاں بزرگان اور صحابہ کی نیک صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ یہاں آنے کے بعد پھر بقیہ تعلیم چودھری غفور صاحب نے چنیوٹ اور ربوہ میں حاصل کی۔ پھر بعد میں کراچی سے مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور 1993ء میں ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے زندگی وقف کی۔ یوگنڈا میں دو سال تک ایک پراجیکٹ پرخدمت کی توفیق پائی۔ احمدیت کے بڑے دلیر سپوت تھے۔ خدمت خلق کرنے والے، بہت وسیع القلب تھے۔ بلا امتیاز سب کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ قائد علاقہ رہے ہیں۔ انصار اللہ میں بھی نمایاں خدمات انجام دیتے رہے۔ لمبا عرصہ تک سیکرٹری امور عامہ حیدر آباد بھی رہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو امیر ضلع نوابشاہ اور نوشہروفیروز مقرر فرمایا تھا جس کی ذمہ داری آپ نے بڑی محنت سے ادا کی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

ان کی ایک بیٹی حمیرہ صاحبہ کہتی ہیں کہ خدمت خلق کو یہ اپنا بینک بیلنس کہا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ یقین رکھتے تھے۔ بےشمار احمدی اور غیر احمدی ایسے ہیں کہ آپ کے ذریعہ ان کی حاجات پوری ہوئیں۔ بلا امتیاز مسافروں، مریضوں، لاچاروں کی مالی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور بڑی بڑی رقمیں بھی دے دیا کرتے تھے۔ سلسلہ کی خاطر مالی قربانی کا جذبہ بھی غالب تھا۔ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے صد سالہ جوبلی منانے کے لیے مالی تحریک فرمائی تو فوراً لبیک کہتے ہوئے اگلے روز ہی ربوہ میں اپنے مکان کو فروخت کر کے اس کی ساری رقم اس مدّ میں دے دی۔ حضرت خلیفة المسیح الثالث نے خلافت کے بعد 1966ء میں جب سندھ کا دورہ کیا تو حیدرآباد سے ان کے گھر کوٹ احمدیاں میںبھی گئے۔1981ء میں قصرِخلافت کی ربوہ میں جب تعمیر ہو رہی تھی اور اس وقت ان کو حکومت کی طرف سے کسی پراجیکٹ کے لیے افریقہ بھیجا جا رہا تھا اور وہ ان کے لیے بڑا اچھا موقع تھا۔ جب یہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ  کی خدمت میں مشورے کے لیے حاضرہوئے تو انہوں نے کہا کہ وہاں نہیں جانا۔ اس کو چھوڑو، یہاں میرا قصر خلافت بن رہا ہے اس کی چھتیں وغیرہ پڑ رہی ہیں اس کی نگرانی کرو۔ چنانچہ اگلے روز ہی انہوں نے کام سنبھال لیا اور وہیں رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی پھر ان کو نوازا۔ اس کے بعد جب وہ وہاں رخصت کو پورا کر کے واپس گئے تو گورنمنٹ کی طرف سے وہی کنٹریکٹ ان کو دوبارہ مل گیا اور کہتے تھے یہ محض خلافت کی برکت سے ہوا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور رابعؒ سے بھی بڑا تعلق تھا۔ وہ بھی ان کے ہاں آتے تھے۔ گھر میں بھی رہے۔ اسی طرح جب میں وہاں پاکستان میں تھا تو مجھے بھی ان کے گھر جانے کا موقع ملا اور ان کے گھر ٹھہرنے کا بھی موقع ملا۔ بڑی مہمان نوازی کرنےو الے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ تو مجھے رات کے وقت سفر کرنا پڑا ۔سندھ میں حالات بھی ٹھیک نہیں تھے توانہوں نے کہا مَیں تمہیں رات کو لے کر جاؤں گا، بارش بھی ہو رہی تھی۔ طوفانی بارش تھی۔ سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں لیکن بہرحال یہ لے گئے۔ ہم رات کو منزل پہ پہنچے جہاں میں نے پہنچنا تھا۔ اس کے بعد میں نے انہیں کہا آپ رات یہیں گزاریں۔ صبح چلے جائیں۔ اکیلے نہ جائیں تو کہتے ہیں نہیں۔ اور اسی وقت اپنی گاڑی میں بیٹھےاور رات کو ہی روانہ ہوگئے۔ بڑے دلیر اور بہادر انسان تھے۔ اسیران ِراہ مولیٰ کے لیے بھی آپ کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ جیلوں میں جا کے انتظامیہ سے رابطہ کرکے ان کے لیے سہولیات کا انتظام کیا کرتے تھے۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا۔ عزیز رشتہ داروں کا، غریبوں محتاجوں کا خیال رکھتے۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں بڑی خدمت کرتے۔ نظام خلافت سے گہری محبت رکھتے تھے۔ خلیفہ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہنے والے تھے اور ان کی روزانہ کی گفتگو کا حصہ ہی خلافت ہوتی تھی۔ ان کے جو غیراحمدی ملنے والے ہیں وہ بھی ان کی نیکیوں کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ ان پر بھی انہوں نے ایک اچھا اثر نیک اثر چھوڑا ہوا تھا۔ حلقہ احباب ان کا بہت وسیع تھا اور ہر جگہ ایک احمدی کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ گورنمنٹ کے افسران، سندھ کے جتنے بڑے بڑے سیاسی خاندان تھے ان سے ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کو اکثر وہ جماعت کا چھپا ہوا قرآن کریم پیش کیا کرتے تھے اور کھل کر جماعت کا تعارف کراتے بلکہ ممکن ہوتا تو ان کو ربوہ بھی لے کر آتے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا ذکر مکرم محمد علی صاحب۔ چک 275کرتار پور فیصل آباد کا ہے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں ستر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے بھی تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے ان کے لوساکا زیمبیا میں مبلغ سلسلہ ہیں جو آجکل یہاں جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے والد کے جنازہ میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔

یہی طاہراحمد سیفی صاحب (مبلغ سلسلہ) کہتے ہیں کہ والد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا آغاز خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں ہوا جب آپ کے دادا موسیٰ صاحب نے احمدیت قبول کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، تہجد گزار، خوش مزاج، خاموش طبع، ملنسار، خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار، خندہ پیشانی سے پیش آنے والے نیک اور مخلص انسان تھے۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ ہر کام کے لیے پہلے خلیفہ وقت کو خط لکھ کر دعا کے لیے کہتے۔ جماعتی اور دینی امور میں خاموشی سے حصہ لیتے اور جہاں تک ممکن ہوتا حتی الوسع اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی میں بھی حصہ لیتے۔ جب ایم ٹی اے کا آغاز ہوا ہے اس وقت ان کے گھر ٹی وی نہیں تھا تو ایم ٹی اے کا آغاز ہوتے ہی فوری طور پر ٹی وی گھر میں لے آئے کہ خلیفہ وقت کی آواز کو براہِ راست سننا ہے۔ کہتے ہیں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی ایسی تحریک ہو جس میں والد صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو۔ غیروں سے بھی ان کا بڑا شفقت کا سلوک تھا۔ فیکٹری میں جہاں یہ ملازمت کرتے تھے وہاں بہت سارے غیر احمدیوں کو انہوں نے فیکٹری میں ملازمت دلوائی لیکن جیسا کہ عادت ہے غیراحمدیوں کی بعضوں کا اتنا ظرف نہیں ہوتا تو اس کے باوجود کہ انہوں نے ان سے نیکی کی انہوں نے لوگوں کی باتوں میں آکر مالکان سے شکایت کی اور زور دیا کہ ان کو نوکری سے نکالا جائے۔ بہرحال ان کو نوکری سے نکال دیا گیا لیکن انہوں نے کوئی شور شرابہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی فریاد کی اور کچھ عرصہ بعد فیکٹری کے مالک نے دوبارہ ان کو بلایا اور وہیں اسی پوزیشن پہ دوبارہ ان کو بحال کر دیا لیکن جنہوں نے ایسا سلوک کیا تھا انہوں نے ان سے بدتہذیبی کا نہیں بلکہ ان سے بھی نیک سلوک کیا اور ان کے پھر بھی کام کرتے رہے۔ کہتے ہیں تبلیغ سے زیادہ ان کا حسن سلوک تھا جس کی وجہ سے فیصل آباد شہر کے آٹھ افراد نے احمدیت قبول کی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں