خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ15؍ اگست 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گذشتہ جمعہ مَیں نے تین بڑے بتوں کو مسمار کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ ایک سریہ حضرت سعد بن زید اَشْھَلِیْؓ کا تھا جو رمضان آٹھ ہجری میں مَنَاۃکی طرف بھیجا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس رمضان کو حضرت سعد بن زید کو مناة بت کے انہدام کے لیے بھیجا تھا۔ اسے بحیرہ احمر کے ساحل پر قُدید کے قریب مُشَلَّلْ کے مقام پر نصب کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو سریہمُشَلَّلْ بھی کہا جاتا ہے۔(شرح زرقانی جلد3 صفحہ 490-491دار الکتب العلمیۃ بیروت)(بخاری کتاب التفسیر،باب ومناۃ الثالۃ الاخری حدیث 4861)(من معارك الإسلام الفاصلة از باشمیل جلد 9صفحہ 12 المکتبۃ الشاملۃ)

حضرت سعد بن زید اَشھلیؓ بیس سواروں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو وہاں ایک مجاور بھی تھا۔ مجاور نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ مَنَاة کا گرانا۔ اس نے کہا کہ تم اور یہ کام؟ یعنی یہ ناممکن ہے کہ یہ تمہارے سے ہو سکے۔ حضرت سعدؓ اس بت کی طرف بڑھے۔پتہ نہیں حقیقت ہے یا بعض دفعہ رنگ دینے کے لیے بیان کر دیتے ہیں ۔ بہرحال راوی نے بیان کیا ہے کہ اس وقت ایک برہنہ سیاہ رنگ اور پراگندہ بالوں والی عورت کمرے سے باہر نکلی اور مجاور نے اپنے بت کو کہا کہ اے مناة! اپنا غضب بھیج۔ کہتے ہیں حضرت سعد بن اَشھلیؓ نے اسے یعنی اس مجاور کو قتل کر دیا۔ اگر یہ قتل کی روایت صحیح ہے تو ممکن ہے مجاور نے مقابلہ کی کوشش کی ہو اور مقابلہ میں مارا گیا۔ صرف بددعا دینے پر قتل کرنا یہ تو اسلامی تعلیم ہی نہیں ہے۔ صحیح بھی نہیں لگتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی ہدایات کے بھی خلاف ہے۔ بہرحال پھر آپ اور آپ کے ساتھی بت کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے توڑ دیا۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔(الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ 111، 112 سریۃ سعد بن زید الاشھلی الیٰ مناۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت)(شرح زرقانی جلد3صفحہ490، 491 باب ھدم مناۃ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1996ء)

ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناة کی طرف ابوسفیان بن حرب کو روانہ کیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کام حضرت علیؓ نے کیا تھا۔ البتہ واقدی اور ابن سعد کی رائے کے مطابق حضرت سعد بن زیدؓ نے اس کو مسمار کیا تھا۔(بحوالہ اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9 صفحہ 208 دار السلام)اور باقی روایت بھی اگر واقدی کی ہے تو ہو سکتا ہے اس نے بعض باتیں زائد بھی کر دی ہوں۔

سریہ حضرت خالد بن ولیدؓ بطرف نخلہ۔

یہ پچیس رمضان 8؍ ہجری/ جنوری 629ء میں ہوا۔ پچیس رمضان المبارک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس افراد پر مشتمل ایک دستہ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں نخلہ کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہاں قریش کا معروف بت جس کا نام عُزّٰ ی تھا اس کو گرا دیا جائے۔ نخلہ وادی مکہ کے مشرق کی جانب ایک دن کی مسافت پر مکہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔

یہ نخلہ کے مقام پر ایک گھر تھا جس کے نگران و نگہبان بَنُو شَیْبَان تھے۔ یہ بنو ہاشم کے حلیف تھے۔ یہاں عُزّٰ ی قریش کا سب سے بڑا بت تھا۔ امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ اس کا گھر تین کیکر کے درختوں پر مشتمل تھا۔ یعنی ارد گرد اس کے کیکر کے درخت لگے ہوئے تھے، بیچ میں گھر تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب عُزّٰ ی کے مجاور کو حضرت خالد کی آمد کا علم ہوا تو وہ بت پر تلوار لٹکا کر خود پہاڑ پر چڑھ گیا اور یہ شعر پڑھنے لگا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے عُزّٰ ی! خالد پر ایسا شدید حملہ کر جو کچھ بھی باقی نہ چھوڑے۔ جنگی نقاب پہن اور آستین چڑھا۔ اے عُزّٰ ی! اگر تم اس شخص خالد کو قتل نہ بھی کروتو اسے جلد واقع ہونے والے گناہ کا مستحق بناؤ یا اس سے اس کا انتقام لو۔ حضرت خالدؓ نے نخلہ پہنچتے ہی کیکر کے درختوں کو کاٹا اور اس گھر کو مسمار کیا جس میں عُزّٰ ی بت تھا۔ پھر واپس مکہ آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم نے وہاں کوئی خاص چیز دیکھی تھی۔ حضرت خالد نے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو تم نے عُزّٰ ی کو ختم نہیں کیا۔ واپس جاؤ اور اس کا قلع قمع کر کے آؤ۔ اس حکم کے سنتے ہی حضرت خالد تعمیل ِحکم کے لیے فوراً پلٹے۔ جب نگرانوں نے دوبارہ حضرت خالد کو دیکھا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اے عُزّٰ ی! انہیں ہلاک کر دے۔ اس بت خانے میں سے ایک بکھرے بالوں والی سیاہ رنگ (یہاں بھی انہوں نے عورتیں رکھی ہوں گی) وہ نکلی اور حضرت خالدؓ اس وقت یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ وہ شعر عربی میں یہ تھا۔

يَا عُزَّ كُفْرَانَكَ لَا سُبْحَانَكْ

إِنِّيْ رَأَيْتُ اللّٰهَ قَدْ أَهَانَكْ

اے عُزّٰ ی! میں تیرا انکار کرتا ہوں۔ تیری پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ اللہ نے تجھے رسوا کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے واپس پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ روئیداد پیش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نَعَمْ،تِلْکَ الْعُزّٰی، وَ قَدْ یَئِسَتْ أَنْ تُعْبَدَ بِبِلَادِکُمْ أَبَدًا۔ ہاں یہ وہ عُزّٰ ی ہے جو مایوس ہو گئی ہے کہ تمہارے شہروں میں اس کی اب کوئی بھی پرستش نہ ہو گی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 760-761دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 299زوار اکیڈمی کراچی)(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 487تا 490 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ203تا208دارالسلام)

پھر سریہ حضرت عمرو بن عاصؓ بطرف سُوَاع کا ذکر ہے۔ یہ بھی رمضان آٹھ ہجری میں ہوا۔ عُزّٰ ی بت کے انہدام کی مہم کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو سُوَاع بت کے قلع قمع کی خاطر بھجوایا۔ آپؓ کے ساتھ کچھ ساتھی بھی تھے مگر ان کی تعداد مذکور نہیں۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،سریۃ عمرو بن العاص الی سُواع، جلد 2 صفحہ111دارالکتب العلمیۃ بیروت)(شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 3صفحہ490دار الکتب العلمیۃ بیروت)

سُوَاع مدینہ سے مغربی جانب ساحل سمندر پر رُھَاط میں بنی ھُذَیل کا بت تھا اور یہ جگہ مکہ سے تین میل کی مسافت پر تھی۔ اس بت کی شکل ایک عورت کی تھی اور لوگ اس کی تعظیم کے ساتھ ساتھ اس کا طواف بھی کرتے تھے۔ اس کے مجاور بَنُو لَحْیَان تھے جو ھُذَیل ہی کی ایک شاخ ہے۔( فرہنگ سیرت صفحہ136زوار اکیڈمی کراچی)(شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 3صفحہ 490دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ 210 دار السلام)

قرآن کریم میں کچھ بتوں کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے اس میں اس بت کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ سورت نوح میں آتا ہے: وَقَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّلَا یَغُوۡثَ وَیَعُوۡقَ وَنَسۡرًا (نوح:24) اور انہوں نے کہا ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور نہ وَدّ کو چھوڑو اور نہ سُوَاع کو اور نہ ہی یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ وہ بت جو کہ قومِ نوح میں تھے وہ بعد میں عربوں میں آ گئے اور وَدّ جو بت تھا وہ کَلب قبیلہ کا تھا جو دُومۃ الجندل میں آباد تھا اور جو سُوَاع تھا وہ ھُذیل قبیلہ کا تھا اور یَغُوث مُرادقبیلے کا تھا۔ پھر وہ بنو غُطَیْف کا ہو گیا جو سَبَا شہر کے پاس جُرُف میں رہتا تھا اور جو یَعُوق تھا وہ ہمدان قبیلے کا تھا اور جو نسر تھا وہ حِمْیَرْ کا تھا جو ذِی الْکَلَاع کی اولاد تھی۔ دراصل یہ سب ان چند نیک آدمیوں کے نام ہیں جو حضرت نوح کی قوم میں سے تھے۔ جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ ڈالا کہ ان جگہوں میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے بت کھڑے کر دو اور ان کے ناموں پر ان کے نام رکھو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان آدمیوں کو نہیں پوجا جاتا تھا مگر جب وہ ہلاک ہو گئے اور اصل معلومات نہ رہیں تو ان بتوں کو پوجنا شروع کر دیا یا ان کے نمونے بنا کے، ان کے نام بناکے پوجنا شروع کر دیا۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب ودًا ولا سواعًا…حدیث4920 ، مترجم حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، جلد 12، صفحہ 293، 294)

حضرت عمرو بن عاصؓ جب رُھَاط کے مقام پر سُوَاع کے پاس پہنچے تو وہاں انہیں اس کا مجاور ملا۔ آپ نے اسے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس بت کو توڑنے کے لیے آئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ تم اسے توڑنے پر ہرگز قادر نہیں ہو گے۔ آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ تم بہرحال روک دیے جاؤ گے۔ آپ نے کہا تم پر افسوس۔ کیا یہ سن سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے؟ پھر آپ نے آگے بڑھ کر اسے توڑ دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اس کوٹھڑی کو بھی مسمار کر دیں جو اس کے ساتھ بنی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے بھی مسمار کر دیا۔ پھر آپ نے اس مجاور سے پوچھا اب بتاؤ؟ اس نے اپنے معبود کا یہ حال دیکھا تو فوراً بول اٹھا۔ میں اللہ کی اطاعت کرتا ہوں اور اسلام قبول کرتا ہوں۔( الطبقات الکبریٰ جزء 2صفحہ 111باب سریہ عمرو بن العاص الی سُواع، دار احیاء التراث العربی بیروت)(شرح العلامۃ الزرقانی جلد3 صفحہ490باب ھدم مناۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)( اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ210دار السلام)

اس حوالے سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پہلے مجاور کو یا کسی کو قتل کرنے کا جو قصہ بیان ہوا ہے وہ بہرحال محل نظر ہے۔

سریہ حضرت خالد بن ولیدؓ بطرف بنو جَذِیمہ

یہ بھی شوال 8؍ ہجری کا ہے۔ فتح مکہ کے بعد جب حضرت خالد بن ولیدؓ  عُزّٰ ی بت کو گرا کر واپس تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو جَذِیمہ کی طرف بھیجا۔ یہ قبیلہ بنو کِنَانہ کی شاخ تھا جو مکہ کے قریب یَلَمْلَمْ کی جانب آباد تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد کو فرمایا: اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان سے جنگ نہیں کرنی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصولی ارشاد ہمیشہ سے تھا اور یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ نہیں کرنی۔ حضرت خالد بن ولید مہاجرین و انصار اور بنو سُلیم کے تین سو پچاس آدمیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ 112دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جب حضرت خالدؓ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں جیسا کہ حملہ آور ہوں۔ حضرت خالد نے ان لوگوں سے کہا کہ ہتھیار رکھ دو۔ لوگ تو اسلام قبول کر چکے ہیں۔ خالد کی یہ بات سن کر ان میں سے ایک شخص جَحْدَم نام کا کھڑا ہوا اور اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے بنو جَذِیمہ! ہتھیار نہ رکھنا۔ یہ خالد ہے۔ ہتھیار رکھنے کے بعد تم لوگوں کو گرفتاری اور موت کا سامنا کرنا ہو گا اس لیے میں تو ہتھیار نہیں رکھوں گا۔ اس پر باقی لوگوں نے جَحْدَم کو سمجھایا کہ کیوں تم ہمارا خون کروانے پر تلے ہوئے ہو۔ ہتھیار رکھ دو۔ اور لوگ اس کو سمجھاتے رہے یہاں تک کہ اس سے ہتھیار لے لیے۔ ہتھیار پھینک دینے کے بعد ان لوگوں کو قید کر لیاگیا۔ یہ بھی روایت میں ہے۔ اور ہر مسلمان کو ایک ایک دو دو قیدی دیے گئے اور رات بھر یہ قید میں رہے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ755دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ215دار السلام)

شاید اس لیے قید کیا کہ انہوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے اور ان کی نیت کا پتہ نہیں تھا۔ بہرحال ایک روایت کے مطابق جب حضرت خالدؓ وہاں پہنچے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تو ان لوگوں نے اَسْلَمْنَا کہنے کی بجائے یہ کہنا شروع کیا کہ صَبَأْنَا صَبَأْنَا کہ ہم نے دین چھوڑ دیا۔ ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔ اس پر حضرت خالد کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب بعث النبیؐ خالد بن الولید … روایت 4339)یہ تاویل پیش کی جاتی ہے۔

ابن سعد نے بیان کیا کہ جب خالد ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ تم کس دین پر ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں وغیرہ۔ حضرت خالدؓ نے پوچھا کہ پھر تم نے ہتھیار کیوں اٹھا رکھے ہیں؟ وہ بولے کہ ہمارے اور عرب کی ایک قوم کے درمیان دشمنی چلی آرہی ہے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ وہی دشمن قوم ہے اس لیے ہتھیار پکڑ لیے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2صفحہ 112 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اگر اس کی کوئی توجیہ دینی بھی ہے تواس کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خالدؓ محتاط ہو گئے اور ان کے دل میں ان کے متعلق کچھ شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ بہرحال روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیدی نماز بھی پڑھتے تھے اور مسلمان بھی دکھائی دیتے تھے لیکن عین ممکن ہے کہ ان قیدیوں میں سے کچھ قیدی ایسے ہوں گے جیسے خود جَحْدَم اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے جو سرکشی کا مظاہرہ کرنے والے تھے اور حضرت خالدؓ ان کی طرف سے مطمئن نہیں ہو رہے تھے اور کچھ صَبَأْنَا صَبَأْنَا کہنے نے حضرت خالد کو چوکنا کر دیا۔ اس لیے انہوں نے ایک رات کے آخری پہر میں یہ فتویٰ دے دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس پر کچھ مسلمانوں نے اپنے قیدیوں کو قتل کر دیا لیکن مہاجرین اور انصار کے گروہ نے جو پرانے مسلمان تھے انہوں نے خالد کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے قیدیوں کو قتل نہیں کیا۔ انصار کے سردار ابو اُسَید ساعدی حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ یہ مسلمان ہیں۔ ان کو قتل کرنا درست نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ، حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہؓ نے بھی حضرت خالد ؓکی رائے سے اتفاق نہ کیا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو اپنے اپنے قیدی قتل کرنے سے منع کیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک قیدی نے مدینہ پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صورتحال بیان کی تو آپ نے پوچھا کہ کسی نے خالد کی بات سے اختلاف نہیں کیا یا روکا نہیں؟ اس نے بتایا کہ ایک سفید رنگت والا درمیانی قد کا شخص تھا اور ایک لمبے قد کا شخص تھا اور ان دونوں نے خالد سے بات کی تھی اور ایک نے ذرا تیز لہجے میں بات کی تھی۔ حضرت عمرؓ اس وقت مجلس میں موجود تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ایک تو میرا بیٹا عبداللہ تھا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ لمبے قد کے اور دوسرا سالم مولیٰ ابوحذیفہ تھا۔(ماخوذ از اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9صفحہ215تا 217دار السلام)(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 756 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس سارے واقعہ کا علم ہوا تو آپؐ کو بہت دکھ ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے خالد کو انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ میں نے تو صرف انہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کا کہا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ خدا کے حضور عرض کی: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَبْرَأُ اِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِد کہ اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں تیرے حضور اس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ اسی طرح آپ نے خالد بن ولید سے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ کیوں اتنی جلد بازی سے کام لیا گیا۔ اچھی طرح تحقیق کرنی چاہیے تھی۔(ماخوذ از اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9صفحہ217دار السلام)( صحیح البخاری کتاب المغازی باب بعث النبیؐ خالد… حدیث: 4339)

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بنو جَذِیمہ کی طرف ان کے مقتولین کی دیت ادا کرنے اور سارے معاملے کی تحقیق کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت علیؓ نے وہاں جا کر تمام مقتولین کے ورثاء کو خون بہا ادا کیا اور ان کے جو اموال مسلمانوں نے لیے تھے وہ سب انہیں واپس دیے یہاں تک کہ لکڑی کا وہ برتن بھی واپس کیا جس میں کتا پانی پیتا تھا۔ سب کو دیت وغیرہ کی رقوم دینے کے بعد حضرت علیؓ کے پاس کچھ مال بچ گیا تو آپ نے بنو جَذِیْمَہ کے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی ایسا شخص رہ گیا ہو جس کے کسی نقصان کا ازالہ نہ ہوا ہو۔ سب نے کہا کہ نہیں۔ پھر حضرت علیؓ نے اس پر بچا ہوا مال بھی انہی لوگوں کو دے دیا اور کہا کہ میں یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور احتیاط دے رہا ہوں تا کہ اس ممکنہ نقصان کا بھی ازالہ ہو جائے جسے نہ اللہ کا رسول جانتا ہے اور نہ تم جانتے ہو۔حضرت علیؓ واپس تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ساری رپورٹ پیش کی اور یہ بھی بتایا کہ ان کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کو لوٹا دی گئی ہے اور باقی بچا ہوا مال بھی ان کو دے دیا ہے تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علیؓ سے فرمایا: أَصَبْتَ وَاَحْسَنْتَ۔ تو نے بالکل ٹھیک کیا اور بہت اچھا کیا۔ اس واقعہ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب بھی دیکھا تھا جس کا سیرت ابن ہشام میں ذکر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں نے حَیس جو کھجور پنیر اور گھی سے ملا ہوا ایک کھانا ہے۔ اس کا ایک لقمہ لیا تو مجھے اس کا ذائقہ لذیذلگا لیکن جب میں نے اس کو نگلا تو اس کا کچھ حصہ میرے حلق میں پھنس گیا۔ پھر علی نے ہاتھ ڈال کر اس کو نکالا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ آپ کے بھیجے ہوئے سرایا میں سے ایک سریہ ہے جسے آپؐ روانہ کریں گے۔ اس کی کچھ چیزیں تو آپ کو پسند آئیں گی اور کچھ قابل اعتراض ہوں گی۔ پھر آپ علی کو روانہ کریں گے اور وہ اس میں آسانی کر دیں گے یعنی معاملہ کو درست کر دیں گے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 756دار الکتب العلمیۃ بیروت)(صحیح مسلم مترجم از وحید الزمان جلد3صفحہ152)

چنانچہ اس سریہ کے واقعہ سے یہ خواب پورا ہو گیا۔ بخاری کے شارح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو جماعت کے معروف بزرگ بھی ہیں۔ انہوں نے بخاری کی شرح لکھی ہے ۔ اس سارے واقعہ اور روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ طبقات ابن سعد اور سیرت ابن ہشام دونوں میں اس مہم کا ذکر ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اطراف میں کچھ دستے بھیجے تا کہ متعدد قبائل کی طرف سے ان کی اسلام کی طرف رغبت معلوم کی جائے۔ یہ نہیں کہ زبردستی مسلمان بنایا جائے۔ چنانچہ آپ کا حضرت خالد بن ولید کو بنوجَذِیْمَہ کی طرف بھجوانا بھی اسی غرض سے تھا۔ طبقات ابن سعد میں اس امر کی ان الفاظ سےصراحت ہے کہ بَعَثَہٗ اِلٰی بَنِیْ جَذِیْمَۃ دَاعِیًا اِلَی الْاِسْلَامِ وَلَمْ یَبْعَثْہُ مُقَاتِلًا کہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تین سو مہاجرین اور انصار کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ کو شوال آٹھ ہجری میں بنو کِنَانہ کے قبیلہ بنوجَذِیْمَہ کے پاس بھیجا جو مکہ کے قریب یَلَمْلَم کے اطراف میں آباد تھا اور انہیں وہاں لڑنے کے لیے نہیں بلکہ دعوت اسلام کی غرض سے بھیجا تھا۔ یہ قبیلہ اسلام کی طرف راغب تھا۔ اس مہم کا نام یوم الغُمَیْصَاءبھی ہے۔غُمَیصَاءسے مراد چشمہ سے نکلنے والا پانی ہے۔ مکہ مکرمہ کے قریب بادیہ میں یہ ایک مقام تھا جہاں بنو جَذِیْمَہ رہتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  جو اس روایت کے راوی ہیں اس مہم میں موجود تھے۔ ان کے بیان میں اختصار ہے۔ ابن اسحاق نے واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو جَذِیْمَہ کے ایک مخصوص حصے نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور اکثر مسلمان ہو چکے تھے۔ منکرین اسلام مسلح ہو کر لڑنے لگے جس کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان کا مقابلہ کیا اور شکست ہونے پر وہ قید کیے گئے۔ ان میں سے بعض اپنے آپ کو نرغے میں دیکھ کر صَبَأْنَا صَبَأْنَا کے الفاظ سے اپنے اسلام کا اظہار کرنے لگے۔ صَبَأْنَا کے معنی ہیں ہم صابی ہو گئے یعنی اپنا دین تبدیل کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں لفظ صابی سے طنزاً پکارے جاتے تھے اور لوگوں کو اس لفظ سے نفرت دلائی جاتی تھی کہ انہوں نے اپنا دین بدل لیا ہے۔ بہرحال لڑنے والوں نے واضح طور پر اور انشراح سے اسلام قبول کرنے کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ وہ صَبَأْنَا کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ اس فقرے سے وہ اپنے آپ کو لڑائی میں قتل سے بچا نہ سکے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓکا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پیغام پر اپنے قیدی قتل نہیں کیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا جس پر آپ نے ہاتھ اٹھائے اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے بیزاری اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ ابن اسحاق اور ابن سعد کے بیان میں ہے کہ مجاہدین میں بنو سُلَیم اور مُدْلَجْقبیلے کے جنگجو بھی شامل تھے جو بنو جَذِیمہ کی طرح بنو کِنانہ کی ایک شاخ تھے اور جَذِیمہ کو اس سے پہلے کسی جنگ میں نقصان پہنچا چکے تھے۔ جب بنو جَذِیمہ نے بنو سُلَیم اور مُدْلَجْ کو مجاہدین اسلام کے لشکر کے ساتھ دیکھا تو وہ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے مسلح ہو گئے۔ حضرت خالد نے ان سے کہا کہ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں تو یہ لڑائی کس لیے؟ ہتھیار ڈال دو۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ جَحْدَم نامی سردار نے انہیں مشورہ دیا کہ ہتھیار نہ ڈالنا ورنہ قتل و قید ہو گے۔ قوم کے بعض لوگوں نے اسے روکا اور کہا کہ خونریزی کیوں کراتے ہو۔ لوگ تو مسلمان ہو چکے ہیں۔ ابن ہشام کی روایت سے پایا جاتا ہے کہ ان قبائل بنی کنانہ کے درمیان بعض خونریزیوں کے انتقام کا سوال بھی تھا جس کی وجہ سے بعض لڑے اور مارے اور قید کیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بنو سُلَیم کے جنگجو لوگوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے فتویٰ پر اپنے بعض قیدی کسی دیرینہ انتقام میں قتل کر دیے اور ان کے اظہار اسلام کو نفاق پر محمول کیا لیکن مہاجرین اور انصار نے خالد کا یہ فتویٰ قبول نہیں کیا اور اپنے قیدی مذکورہ بالا الفاظ سے اظہارِ اسلام پر آزاد کر دیے۔ انہوں نے قتل کرنے کی بجائے انہیں آزاد کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ واضح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓکے بیان مندرجہ روایت سے بھی ظاہر ہے کہ اسیروں کے قتل کرنے کے متعلق حضرت خالد بن ولید ؓکا حکم نہ تھا بلکہ ایک فتویٰ تھا جس سے صحابہ کرام ؓکی اکثریت نے اتفاق نہیں کیا۔ اگر حکم ہوتا تو سب اس کو مانتے اورکوئی اس سے اختلاف نہ کرتا لیکن فتویٰ دینے میں حضرت خالدؓ سے بعض وجوہ سے غلطی ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خالد کی اس مذکورہ غلطی سے شدید صدمہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلافی کے لیے حضرت علی ؓکو بھیجا جنہوں نے جا کر ایک ایک بچے کا خون بہا ادا کیا یہاں تک کہ جن کے کتے بھی مارے گئے تھے ان کے کتوں کا بھی خون بہا دیا گیا۔ سیرت ابن ہشام میں یہ لکھا ہے اور علاوہ واجبی دیت کے ان کو مزید رقم بھی دی۔ امام باقرؒ نے بھی حضرت علی کے ذریعہ تلافی نقصان کرنے کا ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد لڑائی میں انہیں قتل اور قید کرنے لگے۔ اس سے مراد یہ نہیں تھی کہ ہتھیار ڈالنے پر بھی انہیں قتل کرنے لگے۔ ابن سعد نے اس تعلق میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں سے ایک روایت بحوالہ ابن اسحاق حضرت ابنِ ابی حَدْرَدْ اسلمیؓ کی ہے وہ اس رسالے میں، اس فوج میں موجود تھے۔ ابن سعد کے بیان سے ظاہر ہے کہ بعض نے لڑائی کی اور یہ ذکر بھی ہے کہ بنو جَذِیمہ کو مسلح دیکھ کر حضرت خالد نے ان سے دریافت کیا۔ مَا بَالُ السِّلَاحِ عَلَیْکُمْ ؟ کیا بات ہے تم ہتھیار اٹھائے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور بعض عرب قبائل کے درمیان پرانی دشمنی ہے سو ہم اس بات سے ڈرے کہ تم وہی لوگ ہو اس لیے ہم ہتھیار بند ہو گئے۔ حضرت خالد نے انہیں قید کرنے کے لیے حکم دیا۔ ان کے بازو جکڑے گئے اور انہیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا۔

امام ابن حجر نے یہ حوالہ نقل کر کے لکھا ہے کہ لڑنے والوں نے لڑائی کے بعد اپنے آپ کو سپرد کیا۔ امام بخاری کی روایت میں اختصار ہے اور کتاب مغازی کی روایت میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں بھی واضح ارتباط نہیں ہے البتہ اس سے مجملاً معلوم ہوتا ہے کہ جو جھڑپ اس تبلیغی مہم کے دوران ہوئی ہے اس میں زمانہ جاہلیت کی کسی خونریزی کا دخل ضرور تھا۔ محض لفظ صَبَأْنَا سے متعلق اختلاف رائے پر بعض قیدیوں کو قتل کیا جانا بعید از عقل ہے خصوصاً جب مہاجرین و انصار برملا فتویٰ مذکورہ بالا کے خلاف تھے۔ خطابی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فقرے سے کہ اَللّٰھُمْ اِنِّی اَبْرَأُاِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ ظاہر ہے کہ آپ نے فیصلہ میں حضرت خالد کی جلد بازی اور لفظ صَبَأْنَاسے متعلق عدم تحقیق کو برا منایا۔ حضرت خالد کا فرض تھا کہ وہ پوری طرح معلوم کر لیتے کہ لفظ صَبَأْنَاکہنے والوں کی اس سے کیا مراد ہے۔

امام باقر کی روایت میںہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جائیں اور جاہلیت کی بات اپنے قدموں میں مسل دیں۔ چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ایک ایک کی دیت دی۔ اس روایت سے ظاہر ہے کہ دیرینہ کینہ و بغض و انتقام واقعہ قتال کے پیچھے کار فرما تھا جو آپ نے کہا کہ ماضی کی باتوں کو مسل دو تو آپ کو پتہ لگ گیا تھا کہ کوئی پرانا کینہ ہے ان کے دلوں میں اور وہی قتل کی وجہ بنا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کوئی مہم روانہ فرمائی اسے یہی ہدایت فرمائی کہ لڑائی میں جلدی نہ کرنا۔ آہستگی اور نرمی اختیار کی جائے اور مقابلہ کرنے سے قبل دعوت اسلام ہو۔ اس کے احکام واضح کیے جائیں تا حجت پوری ہو اور جہاں سے اذان سنائی دے وہاں حملہ نہ ہو۔

مذکورہ بالا واقعہ میں خود قبیلہ بنو جَذِیمہ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کا پیغام پہنچا تھا جس پر مذکورہ بالا مہم اس صراحت کے ساتھ روانہ کی گئی کہ اس سے مقصود دعوت اسلام ہے لڑائی نہیں۔ چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ جب حضرت خالد بن ولید بنو جَذِیمہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا مسلمان۔ ہم نماز پڑھتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مانا ہے۔ اپنے آنگنوں میں مسجدیں بنائی ہیں اور ان میں اذانیں دی ہیں۔ حضرت خالد نے پوچھا۔ پھر یہ ہتھیار کیسے؟ انہوں نے کہا ہمارے اور عربوں کی ایک اَور قوم کے درمیان عداوت ہے ہمیں اندیشہ ہوا کہ تم لوگ وہی نہ ہو۔ مذکورہ بالا وضاحت کے بعد ان کے ساتھ جنگ کسی صورت میں جائز نہیں تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یَلَمْلَم کے اطراف میں قیام کے اثناءقدیمی عداوت کی چنگاری سلگی ہے جس سے ایک فریق کے ساتھ لڑائی کی صورت پیدا ہوئی اور اس کے بعد جنگجو افراد کی طرف سے صَبَأْنَاسے اظہار اسلام کرنے پر ان کی جان بخشی نہیں ہوئی اور حضرت خالد بن ولیدؓ امیر جیش (جو امیر لشکر تھے) ہونے کی وجہ سے زیرعتاب آئے۔ ابن ہشام نے حضرت خالدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے اختلاف اور آپس کی ناراضگی کا بھی ذکر کیا ہے جو اس موقع پر دونوں کے درمیان ہوئی۔ حضرت عبدالرحمٰن نے ان سے کہا۔ عَمِلْتَ بِاَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ فِی الْاِسْلَامِ کہ آپ نے اسلام میں جاہلیت والی بات کی ہے تو حضرت خالد نے انہیں جواب دیا۔ إنَّمَا ثَأَرْتَ بِأَبِيكَ۔ تُو نے مجھے یہ بات کہہ کے اپنے باپ کا انتقام لیا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن نے جواب دیا یہ درست نہیں کیونکہ میں اپنے باپ کے قاتل کو مار کر بدلہ لے چکا ہوں لیکن آپ نے اپنے چچا فَاکِھْہ بن مُغِیرہ کا بدلہ لیا ہے۔ اس جھگڑے سے دونوں ایک دوسرے سے بگڑے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ناراضگی کا علم ہوا تو آپ نے خالدؓ سے فرمایا: میرے صحابہ سے متعلق ایسا خیال نہ کرو۔ بخدا!(یہ جوابتدائی صحابہ تھے) اگر اُحد جتنا سونا بھی تمہیں مل جاتا اور وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردو تو بھی میرے صحابہ میں کسی شخص کا مقام نہیں پا سکتے جو انہیں صبح و شام ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔

سیرت ابن ہشام میں ابن اسحاق کی یہ روایت بھی موجود ہے اور اس میں ذکرہے کہ فَاکِھْہ بن مغیرہ مخزومی، عوف بن عبد ِعوف زُہری اور عَفَّان بن ابی العاص یمن کی طرف تجارت کی غرض سے گئے اور واپسی پر ایک جَذیمی شخص کا مال جو یمن میں مر گیا تھا لائے تا اس کے وارثوں کو دیا جائے۔ بنوجَذِیمہ کا ایک شخص خالد بن ہشام راستے میں ان سے ملا اور جب اسے جذیمی شخص کی موت کا علم ہوا تو اس نے کہا کہ وہ اس مال کا حقدار ہے۔ انہوں نے دینے سے انکار کیا۔ اس پر آپس میں لڑائی ہو گئی اور لڑائی میں عوف بن عبد عوف اور فَاکِھْہ بن مغیرہ دونوں مارے گئے اور عفان بن ابی العاص اور ان کا بیٹا عثمان بچ نکلے اور انہوں نے فَاکِھْہ بن مغیرہ اور عوف بن عبد عوف کا مال لے لیا اور عبدالرحمٰن بن عوف نے موقع پا کر خالد بن ہشام کو قتل کر کے اپنے باپ عوف کا انتقام لے لیا۔ قریش بھی اس واقعہ سے سخت طیش میں تھے اور انہوں نے قبیلہ بنو جَذِیمہ پر حملہ کر کے اپنے مقتولین اور مالی نقصان کا بدلہ لینا چاہا تو بنو جَذِیمہ نے کہا کہ تمہارے آدمیوں کا قتل ایک انفرادی واقعہ ہے۔ اس میں ہمارے ارادے کا دخل نہیں اور ہمیں ان کا علم نہیں تھا۔ ہم مقتولین اور مالی نقصان کا معاوضہ دے دیں گے۔ قریش نے ان کی معذرت اور تجویز قبول کر لی۔ یہ سیرت ابن ہشام میں مروی ہے۔

بہرحال یہ واقعات ہیں جو پس منظر ہے بعض چیزوں کا کہ کیوں دشمنیاں تھیں۔ دشمنیوں کی وجہ بننے میں یہ بھی ایک واقعہ اس میں لکھا ہے اور واقعہ کا یہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ محل اعتراض بنے اور صحابہ اسی وجہ سے حضرت خالد کے فیصلہ کے متعلق مطمئن نہ تھے۔ بہرحال حضرت خالد کی طرف سے کسی قسم کا عذر بنایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ صرف دعوت اسلام کی غرض سے بھیجے گئے تھے جس میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں تھا اور صحابہ کرام کی اکثریت نے انہیں نیک مشورہ دیا تھا اور جو قبول نہیں ہوا اور بنو سُلَیم کو راتوں رات اپنے قیدی قتل کرنے کا موقع مل گیا۔

ابن اسحاق کی ایک روایت میں حضرت خالد بن ولید کا یہ عذر نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا انکار دیکھ کر حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی کے مشورہ پر ان سے جنگ کی۔ اس بارے میں ابن اسحاق کے یہ الفاظ ہیں کہ بعض لوگ جو حضرت خالد کو اس قتل کرنے سے معذور ٹھہراتے ہیں ان کا بیان ہے کہ عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی نے آپ سے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اگر یہ اسلام سے باز رہیں۔ یہ عذر درست نہیں کیونکہ امیر خالد تھے نہ کہ عبداللہ بن حذافہ سہمی۔ خواہ یہ غلطی عمداً ہوئی ہے یا تاویلاً بہرحال امیر لشکر اس غلطی کا ذمہ دار تھا خصوصاً جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کے بعد خالد پر شدید ناراضگی اور ان سے اپنی بیزاری کا اعلان فرمایا تو بہرحال اب ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم کرنا چاہیے اور یہ واقعہ معمولی نہ تھا کہ فیصلہ نبوی کے بعد اس کے لیے عذر تلاش کیے جائیں کہ خالد نے ٹھیک کیا یا غلط کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے غلط کیا اور بیزاری کا اظہار کیا۔ بس اتنا کافی ہے ہمارے لیے۔ بہرحال عذر تلاش کریں گے تو اس سے آزادی مذہب سے متعلق اسلام کی جو اصولی تعلیم ہے اس پہ زد آتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لڑنے والوں سے جنگ کی اجازت دی ہے اور تبلیغ اسلام میں نرمی برتنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد متعدد مہمیں دعوت اسلام کی غرض سے قبائل عرب کی طرف روانہ فرمائیں اور ان کے امیروں کو صریح ہدایت کی گئی کہ اس میں لڑائی سے بچا جائے۔ کتب مغازی و تاریخ میں صراحت ہے کہ یہ وفود تو دعوت اسلام ہی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ سیرت ابن ہشام اور طبقات ابن سعد کا بیان اس بارہ میں گزر چکا ہے۔ علامہ طبری نے بھی بایں الفاظ تشریح کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے اطراف میں سرایا روانہ فرمائے تا وہ لوگوں کو صنم پرستی، بت پرستی سے ہٹائیں اور اللہ عز وجل کی عبادت کے لیے انہیں بلائیں اور ان سرایا کو لڑائی کرنے کا قطعاً حکم نہیں دیا تھا۔

بہرحال آجکل جو شدت پسند مولوی ہیں وہ انہی چیزوں کو دلیل بنا کے قتل کرنے کا اور لڑنے کا جواز نکالتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی واضح تعلیم ہے کہ کوئی جو سامنے سے جنگ نہ کرے اس سے تم نے جنگ نہیں کرنی اور یہ جرم ہے۔

امام بخاری کی مندرجہ بالا روایت سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ دعوت اسلام ہی کے لیے بنو جَذِیمہ کی طرف بھیجے گئے تھے۔ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ اور انہوں نے تعمیلِ حکم میں انہیں اسلام کی دعوت دی۔ وہ اچھی طرح یوں نہ کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے۔ گھبراہٹ میں کہنے لگے ہم نے اپنا دین بدل ڈالا۔ اس فقرے کا تعلق سارے قبیلہ سے نہیں تھا کیونکہ ان میں سے اکثر پہلے مسلمان ہو چکے تھے بلکہ صرف ایک خاص خاندان سے تھا جن کو اندیشہ تھا کہ ان سے انتقام لیا جائے گا اس لیے وہ مسلح ہو کر لڑنے لگے۔ لڑائی میں اپنی شکست دیکھ کر صَبَأْنَاسے اسلام کا اظہار کیا۔ امام بخاری کی روایت میں غایت درجہ اختصار ہے اور انہوں نے وہی روایت قبول کی ہے جو ان کے معیار صحت پر ہے۔ جَحدم نے اپنے لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ ہتھیار نہ ڈالو بلکہ مقابلہ کرو۔ اس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اسے سابقہ خونریزی کی وجہ سے اندیشہ تھا۔ ابن اسحاق کی پہلی روایت میں اس کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں کہ اے بنو جَذِیمہ! یاد رہے یہ خالد ہے۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد قید و بند ہوگا اور اس کے بعد گردن زنی۔ اس کی قوم کے بعض لوگوں نے اسے پکڑا اور کہا کہ تم خونریزی چاہتے ہو۔ لوگ تو مسلمان ہو چکے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جنگ ختم ہے اور امن ہے۔ لوگ اسے سمجھاتے رہے اور اس سے ہتھیار لے لیے اور حضرت خالد کے کہنے پر باقی لوگوں نے بھی ہتھیار اتار دیے۔ سیرت ابن ہشام میں اس طرح ذکر ہے۔

اس بیان سے ظاہر ہے کہ جَحْدَم کے خدشات بلا وجہ نہ تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قبیلے کے نومسلمین کو دینِ اسلام کی تعلیم دینے کی غرض سے وہاں کچھ عرصہ ٹھہرے ہیں۔ جیسا کہ روایت کےالفاظ حَتّٰی اِذَا کَانَ یَوْمٌ اَمَرَ خَالِدٌ سے پایا جاتا ہے اور دوران قیام ناگوار صورت پیدا ہوئی ہے جس سے قبیلہ کے بعض لوگوں سے جنگ ہوئی اور شکست کھانے پر وہ قید ہوئے اور جب قیدی مجاہدین کے سپرد کیے گئے تو بعید نہیں کہ بعض افراد کو اپنا پرانا کینہ نکالنے کا موقع مل گیا ہو اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ ابن ہشام نے اس تعلق میں ابراہیم بن جعفر محمودی کی سند سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب اور حضرت ابوبکر ؓکی تعبیر کا بھی ذکر کیا ہے جو پہلے میں بیان کر چکا ہوں کہ آپ نے کھجور، ستو اور گھی کے مالیدہ سے چند لقمے لیے جو مزیدار تھے لیکن آخر ایک لقمہ حلق میں اٹک گیا اور حضرت علیؓ نے ہاتھ ڈال کر نکال لیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ تعبیر کی کہ اس کا تعلق تبلیغی وفد سے ہے اور مشورہ دیا کہ حضرت علیؓ کو بھیجا جائے تا خالد کی غلطی کا تدارک ہو۔ اس خواب سے بھی ظاہر ہے کہ واقعہ کا تعلق قبیلہ جَذِیمہ کے ایک محدود حصہ سے ہے اور مخصوص قیدیوں سے تھا۔ یہ نہیں کہ سارے قیدی محض صَبَأْنَاکہنے سے قتل کیے گئے۔ دراصل یہ لوگ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور سابقہ انتقام کا خوف و ہراس ان کے ذہنوں پر اتنا غالب تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کی خاطر لڑنے لگے۔ سُلَیم بن منصور اور مُدْلَجْ بن مُرَّہ کے بعض افراد کی طرف سے جو حضرت خالد کے لشکر میں شامل تھے انہیں انتقام لیے جانے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ سُلَیم قبیلے کے افراد ہی تھے جنہوں نے اپنے قیدی رات کو قتل کر کے اپنا بدلہ لے لیا۔ مہاجرین و انصار میں سے کسی نے اپنے قیدی قتل نہیں کیے بلکہ انہیں آزاد کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل کیا۔(ماخوذ از صحیح البخاری، ترجمہ و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، جلد9صفحہ 193تا199)

یہ تشریح بخاری کی حضرت ولی اللہ شاہ صاحب نے لکھی ہے اور مزید آپ نے یہ بڑا عالمانہ نوٹ بھی لکھا ہے۔ جس سے یہ اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی کوئی بدنیتی شامل نہ تھی۔

ان سے ایک اجتہادی غلطی ہوئی اور جلد بازی میں انہوں نے ایک فیصلہ کیا اور بعد میں بطور امیر لشکر کے جو صورتحال ہوئی اس کی ذمہ داری ان کی بنتی تھی۔ اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خالد سے ناراض بھی ہوئے اور خدا کے حضور اپنی بیزاری کا اظہار بھی فرمایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے معاملہ کی تحقیق فرمائی تو یہی ثابت ہوا کہ کسی غلط فہمی کی بنا پریہ قتل ہوئے ہیں تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کی بجائے دیت دیے جانے کا فیصلہ فرمایا۔ حضرت خالد بن ولید ؓکی گزارشات اور معذرت پیش کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو نہ صرف معاف فرما دیا۔ (یہ کہنا کہ ان کو سزا دی تھی۔ بددعا کی تھی۔ اس لیے بہت ناراضگی رہی۔ درست نہیں۔) انہوں نے خالد کو معاف فرما دیا بلکہ چند ہی دنوں بعد غزوہ حنین کے لیے تیار کیے جانے والے لشکر کے ہراول دستے اور گھڑ سواروں کے دستے کا نگران اور سالار حضرت خالد ؓکو مقرر فرمایا۔(ماخوذ از اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9صفحہ212-224دار السلام)(غزوہ حنین از محمد احمد باشمیل صفحہ 48نفیس اکیڈمی کراچی)

اگر ناراضگی اتنی تھی تو دوسرے دستے کا نگران نہ مقرر فرماتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کو نگران مقرر فرمایا۔ اس کے علاوہ دو اَور سرایا کا بھی مختصر ذکر ملتا ہے۔

سَرِیّہ یَلَمْلَم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہشام بن عاص ؓکی قیادت میں دو سو افراد پر مشتمل یہ سریہ مکہ کے جنوب مشرق میں واقع یلملم کی طرف بھیجا جو مکہ اورطائف کے درمیان دو راتوں کے فاصلے پر واقع ہے۔

سریہ عُرَنَہْ یہ عرفات کے سامنے ایک وادی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کو تین سو افراد کے لشکر کا امیر بنا کر اس طرف بھیجا تھا۔ بہرحال اس سرایا کا ذکر محمد بن عمر واقدی نے کیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور معروف سیرت نگار نے اسے بیان نہیں کیا۔ اس لیے محل نظر ہے کہ یہ صحیح بھی ہے کہ نہیں اور نہ ہی مزید کوئی تفصیل اس کی ملتی ہے البتہ ایک سیرت نگار نے یہ لکھا ہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی مؤرخ نے اس فوجی دستے کی کارروائیوں کی تفاصیل کا ذکر نہیں کیا جس کی قیادت خالد بن سعید بن عاص نے عُرَنَہ تک کی تھی۔ ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ اسے ھُذَیل قبیلہ کی طرف بھیجا گیا تھا جو عُرَنَہ میں قیام پذیر تھے۔(ماخوذ از اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9صفحہ224 دار السلام)( غزوہ حنین ازباشمیل صفحہ35تا 37 نفیس اکیڈمی کراچی)

بہرحال اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ کہیں بھی آپؐ نے سختی نہیں کی اور یہ الزام بھی جو دشمنان اسلام لگاتے ہیں غلط ہے کہ جنگوں میں آپؐ نے قتل کروایا۔ آپؐ نے تو جہاں غلطی سے بھی کچھ ہواہے بڑی ناراضگیوں کا اظہار فرمایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی غزوات اور سرایا کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں