خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اگست 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جنگ حنین کے تعلق میں آج کچھ مزید تفصیل بیان کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضرت عَتَّابْ بن اَسِیْدؓ کو مکہ کا امیر بنایا۔ یہ مکہ کے پہلے امیر تھے جو مقرر کیے گئے۔ اس وقت حضرت عتاب ؓکی عمر تقریباً بیس سال تھی۔ حضرت مُعاذ بن جبلؓ  کو اہلِ مکہ کو دین کی تعلیم سکھانے کی ذمہ داری سونپی۔

حضرت عَتَّابؓ کا تعارف یہ ہے کہ ان کے والد کا نام اَسِید بن ابو العِیص بن اُمیہ تھا۔ یہ دونوں باپ بیٹا قریش خاندان کے سرکردہ فرد تھے اور اسلام کے سخت مخالف تھے۔ ان کی والدہ کا نام زینب تھا۔ عتاب کے والد فتح مکہ سے پہلے وفات پا چکے تھے اور عتاب کی اسلام سے نفرت اور دوری کا یہ عالم تھا کہ فتح مکہ کے روز جب حضرت بلالؓ نے خانہ کعبہ میں اذان دی تو عتاب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میرا باپ یہ اذان سننے سے پہلے ہی دنیا سے چلا گیا۔ بہرحال عتاب نے اس کے بعد فتح مکہ کے دن اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ رؤیا میں ان کے والد اَسِیْدبن ابو العیص کو اسلام کی حالت میں مکہ پر عامل کے طور پر دیکھا تھا۔ وہ تو کفر کی حالت میں مر گیا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا کی تعبیر اس کے بیٹے حضرت عتابؓ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ عَتَّابؓ جنت کے دروازے پر آئے اور بڑے زور سے دروازے کو کھٹکھٹایا۔ آخر دروازہ کھولا گیا اور وہ اس میں داخل ہو گئے۔ ایک اور روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عتاب کے والد اَسِید کو جو کہ کافر تھے اور کفر کی حالت میں فوت ہوئے جنت میں دیکھا اور خیال کیا کہ اَسِید کیسے جنت میں داخل ہو گیا۔ فتح مکہ کے دن عتاب بن اَسِید سامنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسی کو جنت میں دیکھا تھا۔ اس کو میرے سامنے لاؤ۔ انہیں آپؐ کے سامنے لایا گیا اور آپؐ نے انہیں مکہ کا امیر مقرر فرما دیا اور فرمایا :اے عتاب!تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کن لوگوں پر تمہیں امیر بنایا ہے۔ میں نے تمہیں اہل اللہ یعنی اللہ کے گھر والوں پر امیر بنایا ہے۔اس لیے ان کے ساتھ نیک معاملہ کرنا۔ آپؐ نے انہیں یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک مکہ پر عامل رہے۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ عہد ابوبکرؓ میں بھی مکہ کے عامل تھے اور ان کی وفات اسی روز ہوئی جس دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تھی اور ایک روایت کے مطابق یہ حضرت عمرؓ کے دَور خلافت تک زندہ رہے۔

مکہ سے حنین کی طرف روانگی کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین کے لیے چھ شوّال کو ہفتہ کے دن روانہ ہوئے اور دس شوّال کو مقام حنین پر پہنچے۔ ابن کثیر کے نزدیک پانچ شوال کو روانگی ہوئی تھی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف چلے تو آپؐ کی دو ازواج مطہرات یعنی حضرت ام سلمؓہ اور حضرت زینبؓ  آپؐ کے ہمراہ تھیں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ام سلمؓہ اور میمونہؓ ساتھ تھیں لیکن معتبر روایات کے مطابق حضرت ام سلمہؓ اور حضرت زینبؓ  آپؐ کے ہمراہ تھیں۔(شرح زرقانی جلد سوم صفحہ 498-499دار الکتب العلمیۃ بیروت)(السیرۃالحلبیہ جلد3صفحہ139، 165 ،149-150دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت النبویہ لابن ہشام صفحہ745دارالکتب العلمیۃ بیروت)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ 251دار السلام)(اسد الغابہ جلد3صفحہ549دارالکتب العلمیۃ بیروت)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 6صفحہ 5۔دار الکتب العلمیۃ بیروت)(البدایۃ و النہایۃ جلد 7صفحہ 5دار ہجر)(تاریخ الخمیس جزء ثانی صفحہ 528دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے کہ غزوہ حنین میں اسلامی لشکر کی تعداد اگرچہ مخالفین کی نسبت کم تھی لیکن ابھی تک کے تمام سابقہ غزوات کی نسبت زیادہ تعداد تھی۔ نہ صرف عددی لحاظ سے بلکہ ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی۔ ائمہ مغازی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ہزار مسلمانوں کے ساتھ عازم سفر ہوئے۔

دس ہزار صحابہؓ جو مدینہ سے فتح مکہ کے لیے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آئے تھے۔ اہل مکہ میں سے دو ہزار لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ بعض نے چودہ ہزار بھی بیان کیا ہے لیکن زیادہ تر بارہ ہزار کی تعداد کی روایت ہی ملتی ہے۔ دو ہزار مکہ کے نَومسلم شامل ہوئے تھے۔جو چودہ ہزار بتاتے ہیں انہوں نے مدینہ سے آنے والوں کی تعداد دس کے بجائے بارہ ہزار بتائی ہے لیکن مکہ سے شامل ہونے والے دو ہزار ہی بتائے ہیں۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 233تا 235بزم اقبال لاہور)(البدایۃ و النہایۃ جلد7صفحہ 11دار ہجر )(سیرت ابن ہشام صفحہ763دار الکتب العلمیۃ بیروت)(شرح زرقانی جلد سوم صفحہ498دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حنین کے راستے میں ذَاتِ اَنْوَاطْ نام کا ایک بیری کا بڑا درخت تھا جس کا مشرکین بہت احترام کرتے تھے اور فتح کے شگون کے طور پر اپنے ہتھیار اس پر لٹکاتے تھے اور یہاں اعتکاف بھی کرتے تھے اور بہت عقیدت و احترام کا اظہار کرتے تھے۔ جب قافلہ اس درخت کے قریب سے گزرا تو مکہ کے چند نَومسلموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لیے بھی اسی طرح کا کوئی درخت مقرر کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! تم نے وہی بات کی ہے جو موسیٰ کی قوم نے ان سے کہی تھی کہ یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ تَجۡہَلُوۡنَ۔ (الاعراف:139) اے موسیٰ !ہمارے لیے بھی ویسا ہی معبود بنا دے جیسے ان کے معبود ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ یقیناً تم ایک بڑی جاہل قوم ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہی حرکتیں جو تم کر رہے ہو۔ ان سے تم بھی ضرور بالضرور پہلے لوگوں کی طرح چلو گے۔(سنن الترمذی کتاب الفتن باب ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم حدیث 2180)(السیرة الحلبیہ جلد3صفحہ 153دارالکتب العلمیۃ بیروت)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 241بزم اقبال لاہور)

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حنین کی جنگ کے لیے دو ہزار وہ نَومسلم نوجوان بھی شامل ہوئے جن کے دلوں میں اسلام اور ایمان ابھی راسخ بھی نہیں ہوا تھا اور جنگی مہارت بھی کوئی خاص نہ تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہتھیاروں کا بھی خاص اہتمام نہ کیا۔ اور یہی وہ لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے حنین میں بھگدڑ مچی جو وقتی پریشانی اور پسپائی کا باعث بنی۔اسی طرح مکہ سے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جو مسلمان نہیں تھے۔ کچھ سوار اور کچھ پیدل۔ یہاں تک کہ عورتیں بھی ساتھ چل پڑیں جو بس یہ دیکھنے کے لیے ساتھ ہوئی تھیں کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو مال غنیمت مل جائے گا اور انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ ؓکو کوئی صدمہ یا تکلیف پہنچے۔ ان کا ایک حصہ محض تماش بین کے طور پر ساتھ شامل ہوا تھا اور ان میں کچھ مشرکین بھی تھے جو مشرک ہونے کی حالت میں ہی ساتھ شامل تھے۔

ان مشرکین کی تعداد اسّی کے قریب بیان کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بعض سیرت نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ وہ پہلی جنگ تھی کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں سے بھی مدد لی جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کسی بھی مشرک کو جنگ میں شامل نہ فرماتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ إِنَّا لَا نَسْتَعِيْنُ بِمُشْرِكٍ۔ کہ ہم کسی مشرک سے مدد نہیں چاہتے۔ لیکن ان کے مطابق جنگ حنین میں آپؐ نے پہلی مرتبہ مشرکین کو بھی شامل کیا۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ آپؐ نے مدد نہیں لی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جنگ بدر میں بھی کسی مشرک کی مدد قبول کرنے سے انکار فرما دیا تھا جب ایک ایک آدمی کی بہت ضرورت تھی اور اہمیت تھی تو اب تو مسلمانوں کی اس قدر کثرت تھی کہ قرآن کے مطابق ان کی کثرت نے ان کو عُجب میں مبتلا کر دیا تھا تو بھلا اب مٹھی بھر مشرکین کی مدد کی کیوں ضرورت پڑتی؟ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز کسی بھی مشرک کو نہ شامل فرمایا او رنہ ہی کسی مشرک کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے کہا

بلکہ سیرت کی کتب کی تفصیلات جو ہیں ان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مکہ سے بہت سے لوگ ازخود محض جنگ کا نظارہ کرنے کے لیے اور مالِ غنیمت کے لالچ میں لشکر میں شامل ہو گئے جن کی حیثیت محض یہ تھی کہ مسلمانوں کو فتح تو ہونی ہی ہے چلیں! تماشا دیکھیں گے اور مال غنیمت لوٹیں گے۔ ہاں !کچھ مشرکین بدنیت بھی تھے۔ جو اس نیت سے بھی شامل ہو گئے کہ انہیں مکہ کی فتح کی ذلت اور ندامت بھول نہیں رہی تھی اور جس طرح ایسے لوگوں نے مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی وہ یہاں بھی چلے آئے کہ اگر دشمن نہ مار سکا تو شاید ہمیں انتقام لینے کا موقع مل جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کر کے اپنا بدلہ لے کر سینہ ٹھنڈا کرسکیں۔ بہرحال بارہ ہزار کا لشکر مکہ سے روانہ ہوا اور تین دن کے سفر اور بعض کے نزدیک پانچ دن کے سفر کے بعد یہ حنین کی وادی میں پہنچا۔ راستے میں جب بھی کوئی ڈھال یا تلوار یا صحابہؓ  کا کوئی سامان گر پڑتا تو ابوسفیان بن حرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دیتے کہ یہ سامان مجھے دے دیا جائے۔ مَیں اس کو اٹھا لیتا ہوں۔ یہاں تک کہ ان کا اونٹ سامان سے بھر گیا۔

حضرت سَہْل بن حَنْظَلِیہؓ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے دن چل رہے تھے۔ انہوں نے بہت لمبا سفر کیا یہاں تک کہ شام ہو گئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہوا۔ اتنے میں ایک سوار آیا اس نے کہا: یا رسول اللہؐ! مَیں آپ لوگوں کے آگے آگے گیا یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو دیکھا کہ ھَوَازِن کے لوگ اپنی عورتوں، اپنے اونٹوں اور اپنی بکریوں اور جانوروں کو لے کر جمع ہوئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور فرمایا: کل ان شاء اللہ یہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہو گا۔ پھر فرمایا :آج رات کو کون ہمارا پہرہ دے گا؟ انس بن ابی مَرْثَدؓ نے کہا :مَیں دوں گا یا رسول اللہ!۔ فرمایا: پھر سوار ہو جاؤ۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس گھاٹی میں جاؤ۔ یہ پہرہ آپؐ کا نہیں تھا بلکہ آپؐ نے ارد گرد کے علاقے کی خبر لینے کے لیے، اس کے پہرے کے لیے بات کی تھی اور اس کے اونچے حصہ میں چلے جاؤ اور ہم تمہاری وجہ سے رات کو دھوکانہ کھائیں یعنی یہ نہ ہو کہ تم غافل ہو جاؤ اور دشمن دھوکادے جائے۔

جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی جگہ کے لیے نکلے۔آپؐ نے دو رکعت فجر کی سنت پڑھیں۔نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے لگے۔ آپؐ کا رخ گھاٹی کی طرف تھا۔جب آپؐ نے نماز پڑھا لی اور سلام پھیرا تو فرمایا :خوش ہو جاؤ، تمہیں بشارت ہو کہ تمہارا سوار آ گیا ہے۔یعنی جسے ڈیوٹی پر متعین کیا گیا تھا۔ صحابہؓ کہتے ہیںکہ ہم گھاٹی میں درختوں میں دیکھنے لگے یہاں تک کہ وہ آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے سلام کیا اور کہا :میں چلتا گیا یہاں تک کہ اس وادی کی اونچی جگہ پر چلا گیا جہاں جانے کا مجھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا۔ جب صبح ہوئی تو مَیں دونوں وادیوں میں چڑھا۔ میں نے دیکھا مگر مجھے کوئی نظر نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کو تم نیچے اترے ہو؟ اس نے کہا نہیں سوائے نماز کے لیے یا قضائے حاجت کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تمہارے لیے جنت واجب ہو گئی۔ تم نےاچھی ڈیوٹی دی۔

مشرکین کے جاسوسوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس شوّال منگل کی عشاء کے وقت حنین پہنچ گئے تھے۔ مالک بن عوف نے ھوازن کے تین آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا کہ وہ مسلمانوں کے لشکر میں پھر کر جائزہ لیں اور ساری تفصیل آ کر بتائیں۔لیکن یہ تینوں جب واپس آئے تو وہ حواس باختہ تھے۔ مالک نے کہا کہ تمہارا برا ہو تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے گھوڑوں پر سفید آدمیوں کو دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم!اگر جنگ ہو گئی تو ہم اس حالت پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ اللہ کی قسم !ہم زمین والوں سے قتال نہیں کر سکتے تو ہم آسمان والوں سے کیسے جنگ کریں گے؟ اگر تُو ہماری بات مانے تو تُو اپنی قوم کے ساتھ واپس چلا جا۔ اگر لوگوں نے وہی دیکھا جو کچھ ہم نے دیکھا ہے تو ان کو بھی وہی تکلیف پہنچے گی جو ہمیں پہنچی ہے۔ اس نے کہا تم پر ہلاکت ہو !تم لشکر میں سے سب سے زیادہ بزدل ہو۔ اس نے اس خوف سے انہیں چھپا دیا، باہر نہیں جانے دیاکہ یہ خبر سارے لشکر میں نہ پھیل جائے۔اور کہا کہ مجھے بہادر آدمی کی خبر دو۔ ان سب نے وہاں جو لوگ تھے انہوں نے ایک آدمی پر اتفاق کیا کہ یہ بہت بہادر ہے۔ پھر بھیجا اس کو اور وہ نکلا۔وہ بھی جلدی واپس لوٹ آیا۔ وہ بھی اسی طرح مرعوب تھا جیسے ان کے پہلے تین ساتھی مرعوب تھے۔ اس نے، مالک نے پوچھا کہ تم نے کیا دیکھا؟ تو اس بہادر نے جواب دیا کہ میں نے ایسے سفید لوگوں کو چتکبرے گھوڑوں پر دیکھا ہے جن کی طرف دیکھنے کی بھی طاقت نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے وہ رعب لاحق ہو گیا ہے جس کو تُو دیکھ رہا ہے۔ میں اس پر قابو نہیں پا سکتا۔ بہتر ہے کہ ہم یہاں سے واپس لوٹ جائیں لیکن اس کے باوجود مالک بن عوف اپنے ارادے سے باز نہ آیا۔

دشمن کے جاسوسوں نے اپنے جس مشاہدے کا ذکر کیا ہے سیرت نگاروں کے بیان کے مطابق اس کے دونوں پہلو مراد ہو سکتے ہیں۔ ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ ان جاسوسوں نے فرشتوں کو دیکھا اور ان کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے جبکہ ایک یہ خیال ہو سکتا ہے کہ انہوں نے جب مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا تو ایک خدائی رعب ان پر ایسا طاری ہوا کہ وہ خوفزدہ ہو گئے۔( السیرۃ الحلبیہ جلد 3صفحہ 153دار الکتب العلمیۃ بیروت)( ماخوذ از غزوہ حنین از محمد احمد باشمیل صفحہ 123تا 125، 111 نفیس اکیڈمی )(دلائل النبوۃ جلد5صفحہ130دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی فضل الحرس فی سبیل اللہ، حدیث 2501، باب فی المشرک یسھم لہ 2732)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ، جلد 9صفحہ235، 240 بزم اقبال لاہور)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ316دار الکتب العلمیۃ بیروت)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ245-246، 252دار السلام)

حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ھوازن پر حملہ آور ہوئے اور اسی اثنا میں چاشت کے وقت ایک شخص اونٹ پر آیا۔ اس وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔اس آدمی نے اپنا اونٹ بٹھا کر رسّی سے باندھا اور آگے ہو کر صحابہؓ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا ایک روایت میں ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ کہتے ہیں کہ ہم کافی تھکے ہوئے بھی تھے،سواریاں بھی کم تھیں ،پھر وہ شخص ان سے باتیں کرنے کے بعد تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف چلا گیا اور جلدی سے رسّی کھولی۔ اس پر سوار ہوا اور اونٹ کو بھگا کر لے جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا کہ یہ جاسوس ہے اس کو پکڑو اور قتل کر دو۔ بنو اسلم میں سے ایک شخص نےاونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا۔ حضرت سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی اونٹنی پر اس کے پیچھے بھاگا۔ اس کے قریب پہنچ کر آگے سے اس کے اونٹ کی نکیل پکڑ لی۔ میں نے اس کے اونٹ کو بٹھایا۔ جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے تلوار سے وار کیا اور اس شخص کی گردن اڑا دی اور وہ نیچے گر گیا۔ میں نے اس کا اونٹ، اسلحہ اور سب سامان لے لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ اس کو کس نے مارا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا ابنِ اکوع نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ سارا سامان بھی اسی کا ہے۔(بخاری کتاب الجھادباب الحربی اذا دخل دار الاسلام بغیر امان ،حدیث3051)(مسلم کتاب الجہاد والسیر باب استحقاق القاتل سلب القتیل حدیث 1754)( سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 336۔337دار الکتب العلمیۃ بیروت)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 250-251 بزم اقبال لاہور)

مسلمانوں کی بارہ ہزار کی تعداد کے مقابل دشمن کی تعداد تیس ہزار تھی۔

جنگ حنین کے وقت بیان کرتے ہوئے کبھی دشمن کی تعداد تیس ہزار بیان کی جاتی ہے ،کبھی بیس ہزار اور کبھی چار ہزار۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مدّمقابل دشمن جنگجو بیس ہزار تھے اور اگر ان کے بیوی بچے شامل کر لیے جائیں تو تیس ہزار تعداد بن جاتی ہے۔اور مالک بن عوف نے اپنی فوج کے بہترین تیر انداز منتخب کر کے پہاڑوں میں چھپا دیے جو گھات لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور جنہوں نے مسلمانوں پر اچانک یکدفعہ حملہ کر کے مسلمان لشکر میں انتشار کی کیفیت پیدا کر دی۔ یہ چار ہزار کی تعداد میں تھے۔

بنو ھوازن کے سپہ سالار مالک بن عوف نے اپنی فوج کی صف بندی اس طرح کی کہ جب رات دو تہائی گزر چکی تو مالک بن عوف اپنے لشکر کے پاس گیا اور ان کو وادی حنین میں مقررہ جگہوں پر چھپا دیا۔یہ وادی ایسی ہے کہ اس میں بہت سی گھاٹیاں اور درّے ہیں۔اس میں لوگوں کو پھیلا دیا اور وہ اس میں گھات لگا کر بیٹھ گئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپؐ کے اصحاب پر دفعةً حملہ کر دیں۔ کفار کی صف بندی یوں تھی کہ سب سے آگے گھڑ سوار ،ان کے پیچھے پیادہ فوج، ان کے پیچھے عورتیں اور ان کے بچے اور ان کے پیچھے دوسرا مال اونٹ، بھیڑ، بکریاں اور دیگر مویشی۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 229، 246بزم اقبال لاہور)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ312 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ 135و 140نفیس اکیڈمی )(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیاجلد9صفحہ 261-262دار السلام)(تاریخ الخمیس جلد2صفحہ508دارالکتب العلمیۃ بیروت)(غزوات النبیؐ از محمد عبد الاحد صفحہ 490-491زاویہ پبلیشرز)

مکہ سے حنین کی طرف روانگی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کاایک ہزار کا گھڑسوار دستہ فوج کے ہراول میں رکھا اور اس کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے سپرد تھی۔ جب لشکر جِعْرَانَہ مقام پر پہنچا تو سحری کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لشکر کو مَیْمَنَہ یعنی دایاں حصہ اور مَیْسَرَہ بایاں حصہ اور قَلْب یعنی درمیانہ حصہ میں تقسیم فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی حصہ میں تھے۔

آپؐ نے مہاجرین و انصار میں بڑے جھنڈے تقسیم کیے۔

مہاجرین کا ایک پرچم آپؐ نے حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔ نیز ایک پرچم آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور ایک پرچم آپؐ نے حضرت عمر فاروق ؓکو دیا۔ انصار میں سے خزرج کا پرچم حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ کو عنایت فرمایا اوراَوس کا پرچم حضرت اُسَید بن حُضَیرؓکوسپرد فرمایا۔ اسی طرح حضرت ابوبُردہ بن نِیَارؓ، حضرت ابولُبَابَہ بن عبدالمنذِرؓ اور حضرت قتادہ بن نعمانؓ کو بھی پرچم عطا ہوئے۔ اس کے علاوہ بیس سے زائد چھوٹے چھوٹے جھنڈے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف گروہوں میں تقسیم فرمائے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 245 بزم اقبال لاہور)(غزوۂ حنین ازباشمیل صفحہ132تا 136 نفیس اکیڈمی )(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 153دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حنین کے دن کسی نے کہا کہ آج ہم تھوڑے ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے یعنی آج ہم بہت زیادہ ہیں۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سخت ناپسند فرمایا اور قرآن کریم نے بھی اس بات کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس طرح بیان کیا ہے کہ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ۔(توبہ:25)کہ جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبر میں مبتلا کر دیا۔

حنین کے معرکے میں ابتدائی فتح مسلمانوں کو ہوئی۔پھر دشمن کے زبردست حملے سے بھگدڑ مچ گئی جس کا پہلے ذکر ہوا ہے اور عارضی شکست ہوئی لیکن آخر کار مسلمانوں کو زبردست فتح نصیب ہوئی۔

اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ غزوۂ  حنین کے بارے میں عموماً یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر صبح کے اندھیرے میں حنین کی وادی میں داخل ہوا جبکہ کفار کا لشکر پہلے سے ہی وادی میں پہنچ چکا تھا اور ان کے بہترین، ماہر تیر انداز وہاں گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تھے۔ مسلمان ان سے بے خبر جب وادی میں داخل ہوئے تو ان تیراندازوں نے یکبار حملہ کر دیاجس سے مسلمانوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور واپس بھاگنے لگے یہاں تک کہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے چند صحابہؓ وہاں رہ گئے اور پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسلسل پکارا گیا تو مسلمانوں کا لشکر واپس پلٹا اور پھر دشمن کے ساتھ ایک بھرپور جنگ ہوئی اور دشمن بری طرح پسپا ہوا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔(ماخوذ از سیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ764-765دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 317دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذ از غزوہ حنین ازباشمیل صفحہ 135-136 نفیس اکیڈمی )

ابنِ ہشام کی جو سیرت ہے یہ اس میں سے ماخوذ کیا گیا ہے لیکن صحیح بخاری میں ایک روایت ہے جس کو دیکھا جائے تو حنین کا معرکہ کچھ مختلف تفصیل لیے ہوئے ہے۔

حضرت بَرَاء بن عازِبؓ جو کہ غزوۂ  حنین میں شامل تھے ان کی روایت صحیح بخاری میں بہت ساری جگہ پر موجود ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے بنو ھَوَازِن پر حملہ کیا تو وہ شکست کھا کر پسپا ہو گئے اور ہم مالِ غنیمت اکٹھا کرنے لگے تو اس دوران انہوں نے ہم پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی جس کی وجہ سے وہ نوجوان جن کے پاس بچاؤ کا کوئی سامان بھی نہ تھا وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے لیکن جہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے تو اس وقت بھی میدان میں ڈٹے رہے۔ راوی بَرَاء بن عازِب کہتے ہیں اور

مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپؐ سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپؐ یہ فرما رہے تھے

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

کہ مَیں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں اور مَیں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

بخاری کی اس روایت کے بغیر اگر دیکھا جائے تو جنگ حنین کے دو مراحل بنتے ہیں اور عمومی طور پر سیرت نگار ایسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اوّل تو مسلمانوں کا اچانک حملے کی وجہ سے منتشر ہونا اور دوم یہ کہ مسلمانوں کا پھر سے جمع ہو کر حملہ کرنا اور دشمن کو شکست سے دوچار کرنا۔لیکن اگر بخاری کی اس روایت کو بنیاد بنایا جائے اور یہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے تو

جنگ حنین کے تین مراحل بنتے ہیں۔

پہلے مرحلےمیں کہ مسلمانوں کا لشکر بلا جھجک حنین کی وادی میں داخل ہوا تو دشمن کا جو لشکر ان کے سامنے تھا وہ پسپا ہوتا چلا گیا اور مسلمانوں نے جب ان کی پسپائی دیکھی تو مسلمانوں کا ایک حصہ مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گیا۔

دوسرے مرحلے میں یہ ہوا کہ بنو ھوازن کے سپہ سالار مالک بن عوف نے اپنے بہترین چار ہزار تیر انداز جو گھاٹیوں میں پوشیدہ طور پر متعین کیے ہوئے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر وادی میں داخل ہو رہا ہے تو اس پر انہوں نے یکبارگی تیروں کا زبردست حملہ کر دیا۔ بنوھوازن عرب کے بہترین تیر انداز تھے۔ صبح کا اندھیرا اور مسلمانوں کی ایک تعداد مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف اور ان میں بھی ایک تعداد مکہ کے ان نومسلموں کی تھی جن کے دلوں میں اسلام ابھی اچھی طرح راسخ نہیں ہوا تھا اور ان کے پاس خَود اور زرہ وغیرہ کوئی خاص حفاظتی سامان بھی نہ تھا کہ تیروں سے اپنا بچاؤ کرسکتے۔چنانچہ تیروں کے اس اچانک حملے سے بچنے کے لیے یہ لوگ وہاں سے بھاگے۔ ان کی سواریاں بھی تھیں۔ جب یہ پیچھے کی طرف اچانک بھاگے تو سارے لشکر میں ایک بھگدڑ سی مچ گئی اور اونٹوں اور گھوڑوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ جانور بدکنے لگے۔ گھاٹی کی وجہ سے راستہ بھی تنگ تھا۔ جانور لوگوں کو پاؤں تلے روندتے رہے۔ لشکر کی اس بھگدڑ کی وجہ سے حضرت خالد بن ولیدؓ خود زخمی ہو کر گھوڑے سے نیچے گر گئے اور مسلمانوں کا لشکر منتشر ہو گیا۔یہ بھی ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے۔

اور تیسرا مرحلہ جو فیصلہ کن ہے وہ اس طرح ہوا جس کی حضرت انس بن مالکؓ نے روایت کی ہے کہ لشکر کے پہلے حصہ کے قدم اکھڑ گئے۔ سب سے پہلے بنو سُلَیم کا دستہ بھاگا ،ان کے پیچھے مکہ کے نومسلم، پھر عام لوگ بھی ان کے پیچھے شکست کھا کر بھاگے اور کسی کی پروا نہ کی اور اتنا غبار اڑا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی ہتھیلی کو دیکھ نہ سکتا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی جنگیں کیں ان میں سب سے قابل ذکر امر یہ ہے کہ میدان جنگ میں صورتحال کیسی بھی رہی ہو ،ہر جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت قدمی اور جرأت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جس وقت بڑے بڑے بہادروں کے بھی پاؤں اکھڑ جاتے ہیں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹان کی طرح وہاں موجود نظر آتے رہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر حسین و جمیل اور سب سے زیادہ جود و سخا کے حامل اور سب لوگوں سے بڑھ کر بہادر تھے۔

اسی جنگ حنین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب تمام لوگ منتشر ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تنہا رہ گئے اور دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگا تو ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی دشمن کی طرف بڑھتے چلے گئے اور بلند آواز میں کہتے جا رہے تھے کہ میں ابن عبدالمطلب ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ

خدا کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجایا کرتے تھے اور سب سے زیادہ بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتا تھا۔

اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت اور بہادری کی شان یہ تھی کہ ایسے میں بھی کہ جب آپؐ تنہا رہ گئے تھے آپؐ اپنی خچر کو دشمن کی طرف دھکیل رہے تھے۔حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور ابوسفیان بن حارث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ہی رہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی آپؐ سے جدا نہیں ہوئے۔ جب لوگ منتشر ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو دشمن کی طرف تیزی سے لے جانے لگے۔ اس موقع پر مَیں لگام پکڑ کر خچر کو روکنے لگا کہ وہ اَور تیز نہ ہو اور ابوسفیان بن حارث رکاب تھامے ہوئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ اس وقت بھی آپؐ کے ساتھ ہی تھے وہ خچر کی لگام پکڑ کر اس کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عباس! درخت والوں کو بلاؤ۔یعنی جنہوں نے حدیبیہ کے موقع پر جان قربان کرنے کے عہد پر بیعت کی تھی۔ حضرت عباسؓ بلند آواز والے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے بلند آواز سے پکارا۔ اَصْحَابُ السَّمُرَۃ یعنی درخت والے کہاں ہیں؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ

اللہ کی قسم !جب لوگوں نے میری آواز سنی تو وہ اس طرح واپس لوٹے جیسے گائے اپنے بچے کی طرف پلٹتی ہے اور وہ لوگ پکارنے لگے لبیک لبیک یارسول اللہؐ! ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں اور وہ دیوانہ وار واپس لوٹے اور دشمن سے جنگ شروع کر دی۔

یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر انتشار کا شکار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند افراد موجود تھے اور ان کی تعداد چار سے لے کر تین سو تک بیان کی جاتی ہے۔

تعداد کے اختلاف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پاس چند افراد ہوں گے اور باقی کچھ لوگ مختلف جگہوں پر دشمن سے مقابلہ کر رہے ہوں گے اور یوں میدان جنگ میں تین سو کے قریب افراد ہوں گے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی تعداد مختلف اوقات میں کم و بیش ہوتی رہی ہو گی اور جس نے تین یا چار لوگ دیکھے اس نے وہ تعداد بیان کر دی جس نے دس بارہ دیکھے اس نے وہ تعداد بیان کر دی اور جس نے اس سے زیادہ افراد دیکھے اس نے وہ تعداد بیان کردی۔ بہرحال ایک وقت ایسا رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف چند ایک افراد ہی رہ گئے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت بَراءؓ سے کہا کہ اے ابوعَمَّارہ !کیا تم حنین کے دن فرار اختیار کر گئے تھے؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں دکھائی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے جلد باز نوجوان جن کے پاس ہتھیار نہ تھے یا بہت کم ہتھیار تھے جب ان کی ایسی تیرانداز قوم سے مڈھ بھیڑ ہوئی جن کا کوئی تیر خطا نہ جاتا تھا یعنی ھوازن اور بنو نصر کے جتھے سے۔ انہوں نے مسلسل تیراندازی کی جن کا کوئی تیر شاذ ہی خطا جاتا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف آگے بڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارِث اسے چلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مدد چاہی اور فرمایا

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

مَیں نبی ہوں اور یہ کوئی جھوٹ نہیں اور مَیں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

اِیَاس بن سَلَمہؓ اپنے والد سَلَمہ بن اکوعؓ سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ حنین کی طرف گئے۔ جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو میں آگے بڑھا اور ایک گھاٹی پر چڑھا کہ دشمن کے ایک شخص سے میرا سامنا ہوا۔ میں نے اسے تیر مارا تو وہ مجھ سے چھپ گیا۔ مجھے پتہ نہیں چلا کہ اسے کیا ہوا۔میں نے دیکھا کہ لوگ دوسری گھاٹی سے نکل رہے ہیں۔ان میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں جنگ ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ واپس مڑ گئے۔میں پسپا ہو کر لوٹا۔ مجھ پر دو چادریں تھیں۔ ایک میں باندھے ہوئے تھا اور دوسری اوپر لیے ہوئے تھا۔میری چادر کھلنے لگی تو میں نے دونوں کو اکٹھا کر لیا اور میں پیچھے ہٹتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا۔ آپؐ سیاہ و سفید رنگ کے خچر پر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن اکوع نے کوئی پریشانی دیکھی ہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ حنین حدیث،4317)(صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب من صف اصحابہ … حدیث 2930)(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فی غزوہ حنین حدیث1777، 1776، 1775)(سنن ابن ماجہ،کتاب الجہاد، باب الخروج فی النفیر حدیث 2772)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 253 تا 255 بزم اقبال لاہور)(مجمع الزوائد جلد6صفحہ189-190 دارالکتب العلمیۃ بیروت)( سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ318 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(تاریخ الخمیس جلد2صفحہ513 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس حالت میں واپس کیوں دوڑ رہا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حنین کے دن تیر کھا کر واپس مڑنے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’غزوہ حنین میں جب مسلمانوں کا لشکر پیچھے ہٹا کیونکہ دشمن کے تیروں کے حملہ نے شدت اختیار کرلی تھی تو آپؐ صرف چند صحابہؓ  کو ساتھ لے کر دشمن کی طرف آگے بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے یہ دیکھ کر کہ دشمن کا حملہ شدید ہے آپؐ کو روکنا چاہا اور آگے بڑھ کر آپؐ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی مگر آپؐ نے فرمایا چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو۔ اس کے بعد آپؐ یہ شعر پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب

یعنی مَیں خدا تعالیٰ کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور مَیں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

آپؐ کا یہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اِس کا یہ مطلب تھا کہ اِس وقت دشمن کا حملہ اِس قدر شدید ہے کہ دشمن کے چارہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسارہے ہیں اِس حالت میں میرا آگے بڑھنا انسانیت کی شان سے بہت بلند اور بالا نظر آتا ہے اس سے کوئی دھوکا نہ کھائے اور یہ نہ سمجھے کہ مجھ میں خدائی طاقتیں ہیں۔مَیں تو عبدالمطلب کا بیٹا ہی ہوں اور ایک بشر ہوں صرف اللہ تعالیٰ کی مدد میرے نبی ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔‘‘(خوف اور امید کا درمیانی راستہ، انوار العلوم جلد19صفحہ47)

سارے لوگ فرار نہیں ہوئے تھے

اس بارے میں بھی روایات ہیں۔ امام نووی لکھتے ہیں کہ سب لوگ نہیں بھاگے تھے بلکہ مکہ کے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْب لوگوں میں سے جو منافق لوگ تھے اور مکہ کے دیگر لوگ جو اس جنگ میں شریک ہو گئے تھے اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا تھا اور یہ ناگہانی شکست اس وجہ سے ہوئی کہ دشمنوں نے ایک ساتھ تیروںکی بارش کر دی تھی۔(المنھاج شرح مسلم از علامہ نووی صفحہ 1374 مطبوعہ دار ابن حزم)

بہرحال امام نووی کی یہ بات درست ہے کہ میدان جنگ سے ڈر اور خوف کے مارے فرار ہونے والے تمام مسلمان بالکل بھی نہیں تھے۔یعنی سب لوگ نہیں دوڑے تھے وہ صرف مکہ کے نَومسلم تھے جن میں ایک تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو دل سے لڑائی کے لیے شامل نہیں ہوئے تھے۔ وہ تو مال غنیمت کےلالچ میں یا محض تماشائی کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بھاگنے کی وجہ سے اور زبردست تیراندازی کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کی سواریاں بدک گئی تھیں اور وہ سواریاں ان مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ کھڑی ہوئی تھیں اور بہت بڑی تعداد اس طرح دوڑی تھی جوارادةً نہیں دوڑے تھے مگر بدکی ہوئی سواریوں کی وجہ سے پیچھے مڑ گئے جس کی وجہ سے مخلص اور وفادار مسلمان بھی کچھ دیر کے لیے بے بس ہو گئے تھے۔ بہرحال اس کی مزید تفصیلات بھی ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوں گی۔

آج سے جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہوا ہے۔ وہاں کے تمام شاملین کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مقاصد کوپورا کرنے کی توفیق دے اور صرف میلہ سمجھ کر یہاں جمع نہ ہوں بلکہ

ان دنوں میں اپنی علمی، عملی اور روحانی ترقی میں مستقل بڑھتے چلے جانے کا عہد کریں اور اس کے لیے کوشش کریں۔ ان دنوں میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور دعاؤں میں وقت گزاریں۔

جہاں اپنے لیے اپنی نسلوں کے لیے دعا کریں وہاں جماعت کی ترقی اور ہر مخالف کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور ان کے شر کے خاتمہ کے لیے بھی دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے۔

پاکستان میں آئے دن کوئی نہ کوئی تکلیف دہ واقعہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ان مخالفین کی پکڑ کے سامان فرمائے۔ عمومی طور پر دنیا کے امن کے لیے بھی دعا کریں۔

یہ دنیا والے اپنے عمل کی وجہ سے اپنی تباہی کے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس خوفناک تباہی سے بچائے۔

فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں اسرائیلی حکومت نے تو اب ظلم و بربریّت کی انتہا کر دی ہے۔ لگتا ہے کہ فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹانا چاہتے ہیں۔ مظلوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور بیماروں معصوموں پر ظلم کی حد ہو گئی ہے۔ایک قتل عام ہر جگہ ہو رہا ہے۔ اب تو بعض دنیادار سیاستدان اور حکومتیں بھی کچھ آواز اٹھانے لگ گئی ہیں کہ یہ غلط ہے بند کرو اس کو۔لیکن ان کی باتیں بھی اب اسرائیلی حکومت سننے کو تیار نہیں۔ دولت اور طاقت کے نشے نے ان کو اور امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کو تکبر اور ظلم کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔

مسلمان حکومتیں جو ہیں وہ بھی کچھ نہیں کر رہیں۔اگر کچھ نہیں کر سکتیں تو کم از کم اپنی حالتوں کو بدل کر اللہ تعالیٰ کے آگے ہی جھکیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی مدد کو آئے۔ کاش !کہ ان کو یہ بھی عقل آ جائے۔ اسی طرح مسلمان مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس ظلم سے روکے۔

آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ان سب ظلموں کے خلاف جہاں جہاں بس چلتا ہے آواز پہنچائیں اور خاص طور پر دعائیں کریں اور درد دل سے دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں