خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ5؍ ستمبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جنگِ حنین میں جو دشمن کے تیر اندازوں کی وجہ سے مسلمان لشکر میں بھگدڑ مچی تھی اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ نور کی آیت چونسٹھ کی تفسیر میں بھی یہ واقعہ بیان فرمایا ہے کہ کس طرح نبی کی اطاعت کرنی چاہیے۔ آیت یہ ہے کہ
’’لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ (النور :64)
اس کا ترجمہ ہے کہ( اے مومنو) !یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا۔ اللہ (تعالیٰ)ان لوگوں کو جانتا ہے جو کہ تم میں سے پہلو بچا کر( مشورہ کی مجلس سے) بھاگ جاتے ہیں۔ پس چاہئے کہ جو (اس رسول) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس سے ڈریں کہ ان کو خدا (تعالیٰ)کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا ان کو دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔‘‘
آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’ امام کی آواز کے مقابلہ میں افراد کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہو تو تب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے
…بہرحال نبی کی آواز پر فوراً لبیک کہنا ایک ضروری امر ہے بلکہ ایمان کی علامتوں میں سے ایک بڑی علامت ہے… اور اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مؤمنو! اگر کبھی خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلائے تو اس کے بلانے کو دوسروں کے بلانے جیسا مت سمجھو بلکہ فوراً اس کی آواز پر لبیک کہا کرو۔ گویا بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو الگ الگ حیثیتیں ہیں، ایک افسر دنیوی ہونے کی اور ایک نبی ہونے کی۔ دنیوی رئیس ہونے کے لحاظ سے بھی اس کے احکام کو ماننا ضروری ہے مگر رئیس دینی ہونے کے لحاظ سے تو اس کی آواز پر لبیک کہنا اور بھی مقدم ہے۔‘‘ آپؓ نے یہاں جنگِ حنین کا واقعہ بیان کیا ہے، اس کی تفسیر میں وضاحت کرتے ہوئے کہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ’’جنگ حنین کے موقع پر جب مکہ کے کافر لشکر اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنوثقیف کے حملے کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے۔ اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھاگڑ مچ گئی اور کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھا۔ آپ کے دائیں بائیں پہاڑیوں پر چڑھا ہوا آپ پر تیر برسا رہا تھا مگر اس وقت بھی آپ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھبرا کر آپ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری جان آپؐ پر قربان ہو۔ یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں۔ ابھی لشکر اسلام جمع ہو جائے گا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے مگر آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑی لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ یعنی میں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے جھوٹا نہیں ہوں اس لیے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا میں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا ( یعنی پوتا) ہوں۔ آپ کے چچا حضرت عباس کی آواز بہت اونچی تھی۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا !عباسؓ آگے آؤ اور آواز دو اور بلند آواز سے پکاروکہ اے سورۂ بقرہ کے صحابیو !(یعنی جنہوں نے سورۂ بقرہ یاد کی ہوئی ہے) اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتنا ہم روکتے تھے اتنا ہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں یہاں تک کہ عباسؓ کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ ’’اے سورۂ بقرہ کے صحابیو!‘‘’’خاص سورہ بقرہ کا نام لے کر اس لیے پکارا کہ مدینہ میں نازل ہونے والی یہ سب سے پہلی سورت تھی اور اس سورت میں یہ بھی آیات ہیں کہ تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں پر خدا کے حکم سے غالب آتے ہیں اور اس میں عہد و پیمان پورا کرنے کی تلقین ہے۔ ‘‘’’اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو !خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔‘‘یہ آواز’’ کہتے ہیں
’’جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہوں اور اسرافیل کا صُور فضا میں گونج رہا ہے۔ میں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اس کا سر پیٹھ سے لگ گیا لیکن وہ اتنا بدکا ہوا تھا کہ جونہی میں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا۔ اس پر میں نے اور میرے بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا آپ کے گرد جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اس نے دشمن کا تہس نہس کر دیا اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد8صفحہ 624تا626، النور زیر آیت 64)(سیرت حلبیہ جلد3صفحہ155دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اسی طرح اپنی ایک تقریر ’’اسوۂ حسنہ‘‘ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کا یہ ذکر بھی کیا ہے کہ’’فتح مکہ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض عرب قبائل کے مقابلہ کے لیے غزوہ حنین میں تشریف لے گئے تو چونکہ مکہ میں بہت سے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اس لیےوہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شا مل ہو گئے اور جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ بھی صرف اظہار شان اور قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے اپنی کثرت اور طاقت پر لاف زنی شروع کر دی ‘‘کہنا شروع کر دیا کہ ہم بہت کثیر ہیں آج ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کبر کی سزا دینے کے لیے ایسے سامان پیدا کر دیے کہ جب مسلمانوں کا لشکر آگے بڑھا تو دشمن کمین گاہ میں چھپ گیا اور ان کے بڑے بڑے ماہر تیر انداز کچھ دائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ بائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب لشکر اس مقام سے گزرا جس کے دائیں بائیں ہزاروں تیر انداز چھپے بیٹھے تھے تو انہوں نے یکدم اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ یہ دیکھ کر وہ حدیث العھد’’یعنی نوعمر ‘‘اور نئے مسلمان جن میں ابھی کمزوری پائی جاتی تھی اور مکہ کے وہ کافر جو صرف قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے بے تحاشہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسی صورت میں جب اگلے لوگ بھاگیں تو لازماً پیچھے آنے والوں کے گھوڑے بھی بدک جاتے ہیں اور وہ بھی بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب وہ حدیث العھد مسلمان اور کفار تیروں کی بوچھاڑ برداشت نہ کرتے ہوئے بھاگے تو صحابہؓ کے گھوڑوں اور اونٹوں نے بھی بھاگنا شروع کر دیا اور تمام اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا۔ یہ مصیبت یہاں تک بڑھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے ۔باقی سب میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عباس ؓنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور عرض کیا: اب ٹھہرنے کا وقت نہیں۔ گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تا کہ اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کر کے حملہ کیاجائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کے نبی میدان جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کی باگ اٹھائی اور اسے ایڑھ لگا کر اور بھی آگے بڑھا دیا اور فرمایا
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور میں جو آج ان تیر اندازوں سے نہیں ڈرا اور چار ہزار تیر اندازوں کے نرغہ میں گھرے ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہوں تو اس نظارہ کو دیکھ کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں خدا ہوں یا مجھ میں بھی خدائی صفات پائی جاتی ہیں۔ یاد رکھو! میں خدا نہیں ،میں تو وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں مگر یہ لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں’’ یعنی جو نبی اور رسول ہوتے ہیں اللہ کے اولیاء یہ خدانما وجود ہوتے ہیں۔ خدا کو دکھانے والے ہوتے ہیں۔‘‘ جب یہ حالت پیدا ہوئی اور دشمن خوش ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو مار لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ عباس! آواز دو کہ اے انصار !خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے… جب حضرت عباس نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ دہرایا کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے تو اس وقت ایک انصاری کا بیان ہے کہ حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضہ سے نکلے جا رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ اور مدینہ کے ورے یہ نہیں رکیں گے۔ وہ بوجہ مکہ کے ہزاروں لوگوں کے بھاگنے کے اس قدر ڈر گئے تھے کہ کسی طرح واپس لوٹتے ہی نہ تھے۔ ہم اپنی سواریوں کی باگیں کھینچتے اور اس قدر زور لگاتے کہ ان کا منہ ان کی دم کو آ لگتا، مگر بجائے واپس لوٹنے کے وہ پیچھے کی طرف ہی بھاگتیں۔ ہماری یہی حالت تھی کہ ہمارے کانوں میں حضرت عباسؓ کی یہ گونجنے والی آواز آئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس آواز کے سنتے ہی ہماری یہ حالت ہو گئی کہ ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ ہمیں کوئی آدمی پکار رہا ہے بلکہ ہمیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ قیامت کا دن ہے اور مُردہ روحوں کو زندہ کرنے کے لیے صُور اسرافیل پھونکا جا رہا ہے۔ اس وقت ہمیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہ رہا اور صرف ایک ہی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگی اور وہ عباسؓ کی آواز تھی۔ اس وقت ہماری تمام کمزوری جاتی رہی اور یا تو ہمارے اندر یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ہم اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو نہیں روک سکتے یا پھر ہم نے آخری دفعہ پھر زور لگایا اور اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو موڑنے کی پوری کوشش کی۔ چنانچہ جو مُڑ گئے سو مُڑ گئے اور جو نہ مُڑے ہم نے تلواریں نکال کر ان کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ایمان سے فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان تھی کہ خواہ کیسا ہی خطرہ ہو خدا آپ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا یہی شان اپنے درجے کے مطابق صحابہ میں پیدا ہو گئی ‘‘تھی (آپ کی تربیت کے زیر اثر)۔‘‘(اسوہ حسنہ، انوارالعلوم جلد17صفحہ93تا95)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون کون ثابت قدم رہا
ایک روایت میں آتا ہے۔ اور یہ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ مسلمان بھاگ گئے اور آپ کے پاس مہاجرین و انصار میں سے صرف اسّی لوگ رہ گئے۔ ہم ثابت قدم رہے اور پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگے اور یہی وہ لوگ تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر موجود تھے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے تھے۔ آپ کی خچر جھکی تو آپ زین سے نیچے جھکے۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر ہو جائیں۔ اللہ آپ کو بلند کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے مٹی کی ایک مٹھی دو تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھی میں مٹی بھر کے دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وہ مٹی لے کے ان کے، دشمن کے چہروں کی طرف پھینکی تو ان کی آنکھیں مٹی سے بھر گئیں۔ پھر فرمایا: مہاجرین و انصار کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا وہ یہاں موجود ہیں تو فرمایا ان کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو وہ اپنی تلواروں کو اپنے دائیں ہاتھوں میں لیتے ہوئے آئے اور مشرکین پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب لوگ بھاگ گئے یعنی مسلمانوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریباً ایک سو افراد رہ گئے۔ اس وقت آپ نے یہ دعا مانگی اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَاِلَیْکَ الْمُشْتَکٰی وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ اے اللہ !تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ ہم تجھ ہی سے شکوہ کرتے ہیں اور مدد کے لیے تجھی کو پکارتے ہیں۔ تو جبرئیل نے عرض کی۔ آپ پر وہی کلمات القاء ہوئے ہیں جو حضرت موسیٰ کو سمندر کے پھٹنے کے دن سکھائے گئے تھے۔(ماخوذاز سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 325تا 327دار الکتب العلمیۃ بیروت )
حضرت حارثہ بن نعمان سے روایت ہے کہ جب لوگ الٹے قدم واپس لوٹے تو مجھے اندازہ ہوا کہ آپ کے ساتھ صرف سو افراد رہ گئے ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اسی روز یعنی حنین کے موقع پر آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ ہر ایک نے دس دس سے زائد ضربیں لگائیں۔ حضرت ابن مسعود بھی ان میں شامل تھے اور انصار میں سے حضرت ابو دُجانہؓ، حَارِثہ بن نعمان، سَعْد بن عُبادہ، ابوبَشِیْر، اُسَیْد بن حُضَیْراور اہل مکہ میں سے شَیْبَہ بن عثمان ثابت قدم رہے۔ خواتین میں سے حضرت اُمِّ سُلَیم بنت مِلْحَان، ام عُمارہ نَسِیْبَہ بنت کعب، اُمِّ حارِث، اُمّ سُلَیط بنت عُبیدیہ بھی جنگ کے میدان میں تھیں۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 329۔330دار الکتب العلمیۃ بیروت)
صحابیات کی ثابت قدمی کے بارے میں آتا ہے۔ عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سُلَیم بنت مِلْحَان کو دیکھا وہ اپنے شوہر ابوطلحہ کے ہمراہ تھیں اور وہ حاملہ تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ اونٹ انہیں نیچے نہ گرا دے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ہاتھ نکیل اور لگام کے اندر سے ڈال کر اونٹ کا سر اپنے قریب کر رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاام سُلَیمہے؟ انہوں نے کہا جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والدین آپ پر قربان ہوں۔ ان خاتون کے پاس ایک خنجر تھا۔ تو حضرت ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ ام سُلیم ہے اس کے پاس خنجر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: یہ خنجر کس لیے ہے؟ تو انہوں نے، ام سُلیم نے جواب دیا کہ میں نے یہ اس لیے رکھ لیا ہے کہ اگر مشرکوں میں سے کوئی میرے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سن کے مسکرائے۔ حضرت ام سُلیم جو اس نازک وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ کر لوگوں کے بھاگنے کا اتنا دکھ اور رنج اور غصہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مغلوب ہو کر آپ سے عرض کرنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے بعد جو طُلَقَاء یعنی آزاد کیے گئے ملے۔ طُلَقَاء سے مراد مکہ کے وہ باشندے ہیں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لَاتَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَومَ اِذْهَبُوْا أَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ کہہ کر احسان فرمایا تھا اور ان میں سے دو ہزار جنگِ حنین میں شامل ہوئے اور دشمن کے تیروں کے سامنے بھاگ پڑے اور پرانے صحابہ کو بھی دھکیل کر پیچھے ہٹنے کا باعث بنے اس میں ان کا ذکر ہے۔ بہرحال آپ نے کہا کہ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہوتے ہوئے شکست کھائی ہے ان کو، ان طُلَقَاء کو قتل کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام سلیم! یقیناً اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابلے میں کافی ہوا اور اس نے احسان فرمایا۔
ایک اَور بہادر صحابیہ حضرت عُمارہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ غزوۂ حنین کے دن جب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تو ہم چار عورتیں تھیں۔ میرے پاس تیز کاٹ والی تلوار تھی اور ام سُلیم کے پاس خنجر تھا اور انہوں نے وہ خنجر اپنی کمر کے ساتھ باندھ رکھا تھا اور وہ امید سے تھیں۔ ان کے علاوہ حضرت ام سُلیط اور اُمّ حارِث بھی موجود تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام عُمارہ نے بلند آواز دی اور کہنے لگیں کہ اے انصار! تمہیں فرار ہونے سے کیا تعلق؟ وہ کہتی ہیں کہ میں نے ھَوَازِن کے ایک شخص کو دیکھا جو جھنڈا اٹھائے گندمی اونٹ پر سوار تھا۔ وہ مسلمانوں کے پیچھے بھاگاجا رہا تھا۔ میں اس کے سامنے آئی اور اس کے اونٹ کی کونچوں پر وار کیا تو وہ سوار اپنی پیٹھ کے بل نیچے گرا تو میں نے اس پر حملہ کیا اور اس پر تلوار سے وار کرتی رہی یہاں تک کہ اسے موت کی نیند سلا دیا۔ پھر مَیں نے اس کی تلوار لے لی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تلوار سونتے ہوئے میدان جنگ میں کھڑے تھے۔ میں وہاں پہنچی اور آپؐ پکار رہے تھے کہ اے اصحابِ سورہ بقرہ! چنانچہ انصار حملہ کرتے ہوئے واپس پلٹے اور ھوازن کے لوگ صحابہ کے سامنے اتنی دیر ہی ٹھہرے جتنی دیر میں اونٹنی کو دوہا جاتا ہے یعنی تھوڑی دیر وہ مقابلہ کر سکے۔ پھر وہ دشمن شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے دشمن کی اس طرح کی ذلت آمیز شکست کبھی نہیں دیکھی۔ وہ ہر سمت منہ اٹھائے بھاگے جا رہے تھے۔ میرے بیٹے حُبَیْب اور عبداللہ میرے پاس واپس آئے اور ان کے ہاتھوں میں قیدی تھے۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ النساء مع الرجال، حدیث 3360، مترجم نور فاؤنڈیشن جلد9صفحہ 241 ، 242)(ماخوذ ازسبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد5صفحہ 330۔331دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت الحلبیہ جلد3صفحہ139دار الکتب العلمیۃ بیروت)(کتاب المغازی (مترجم) جلد دوم صفحہ 316مکتبہ رحمانیہ)
حضرت ابو بَشیر مَازِنِیؓ سے روایت ہے کہ حنین کے دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی۔ پھر ہم اس جگہ پہنچے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھڑا کیا تھا۔ سورج طلوع ہونے کے قریب تھا۔ ہمیں علم نہ تھا کہ اچانک ہم پر حملہ ہو گیا۔ ہمارے لشکر کا اگلا حصہ ہماری طرف واپس پلٹا اور وہ شکست کھا چکے تھے۔ ہماری صفیں خلط ملط ہو گئیں اور ہم لشکر کے اگلے حصے سمیت شکست کھا گئے۔ میں پلٹ کر آگے بڑھا۔ میں نوجوان لڑکا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے اگلے حصے میں ہیں تو میں کہنے لگا کہ اے انصار !میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ تم کہاں پھرے جا رہے ہو؟ انہوں نے آواز دی۔ میں شکست خوردہ لوگوں کو پیچھے موڑ رہا تھا۔ میری کوشش صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامت دیکھنے کی تھی یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اور آپ فرما رہے تھے اے انصار !اے انصار! میں آپؐ کی سواری کے قریب گیا اور میں نے پیچھے دیکھا انصار فوراً واپس لوٹ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر دشمن کے سا منے کھڑے تھے اور انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قتال کرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ تو انصاری دشمن کو دور کر رہے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایک فرسخ یعنی تین میل تک دھکیل دیا۔ وہ گھاٹیوں میں پھیل گئے یہاں تک کہ وہ ہمارے سامنے شکست کھا گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل اور اپنے خیمہ کی طرف لوٹ گئے اور قیدی آپ کے اردگرد بندھے ہوئے تھے۔ ایک گروہ آپ کے خیمہ کے گرد تھا اور آپ کے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ازواج حضرت ام سَلَمہؓ اور حضرت زینب ؓ تھیں۔ ایک روایت میں حضرت ام سَلَمؓہ اور حضرت میمونہؓ کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے ارد گرد اُن لوگوں کی جماعت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ دے رہے تھے اور وہ عَباد بن بِشر، ابونَائِلہ اور محمد بن مَسْلَمہ تھے۔
ابن عُقبہ بیان کرتے ہیں کہ ایک قریشی آدمی صَفوان بن اُمیہ کے پاس سے گزرا۔ (یہ ابھی تک مشرک تھا اور حنین کی جنگ کا نظارہ کرنے کے لیے ساتھ آیا تھا) اور کہا تجھے بشارت ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے اصحاب کو شکست ہو گئی۔ پہلے جو حملہ ہوا تھا اس کی وجہ سے اس نے یہ شکست کی خبر دی اور پھر وہ مشرک کہنے لگا کہ اللہ کی قسم !وہ اب کبھی بھی پہلی حالت میں نہیں آ سکتے یعنی اب ان کو فتح نصیب نہیں ہو سکتی تو صفوان نے کہا تُو مجھے بدوؤں کے غلبہ کی خوشخبری دیتا ہے۔ اللہ کی قسم! کسی قریشی کا سردار بننا مجھے بدوؤں کے سردار بننے سے زیادہ محبوب ہے۔ صفوان اس بات سے غصہ میں آ گیا۔ اس دشمن کی بات جب سنی تو انہوں نے اپنے ایک غلام کو خبر لانے کے لیے بھیجا اور کہا کہ غور سے سنو یہ کس کے شِعار کی آواز آ رہی ہے کیونکہ اس وقت نعروں کی آواز بھی شروع ہو گئی تھی۔ وہ واپس اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اے بنوعبدالرحمٰن! اے بنو عبیداللہ !اے بنو عبداللہ! اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے ہیں اور یہ ان کا جنگ میں شِعار ہے۔ اس سے صفوان کو تسلی ہوئی اور وہ کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی ہے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 318تا320دار الکتب العلمیۃ بیروت)( دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 9صفحہ 260بزم اقبال روڈ،لاہور)
اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفار پر کنکریاں پھینکنےاور دعا کرنے کے بارے میں بھی یوں ذکر ملتا ہے جس طرح پہلے ذکر ہوا آپ نے فرمایا تھا مٹی دو مجھے پھینکوں گا۔ اس کی مزید تفصیل میں ایک جگہ یوں لکھا ہے کہ صحابہ کے واپس پلٹنے پر جب جنگ اپنے زوروں پر تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر جنگ کا نظارہ کیا اور آپ اپنی خچر پر سوار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنگ خوب زوروں پر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پکڑے اور انہیں کفار کے چہرے کی طرف پھینکا پھر فرمایا محمد کے ربّ کی قسم! ایک اَور روایت میں ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کے رب کی قسم! یہ لوگ شکست کھا گئے۔
حضرت عباس کہتے ہیں کہ میں دیکھنے لگا تو لڑائی ویسے ہی ہو رہی تھی جیسے میں دیکھتا تھا۔ وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم !جونہی آپ نے کنکریاں پھینکیں تو میں نے دیکھا کہ ان کی تیزی ماند پڑنے لگی یعنی دشمن کا حملہ جو تھا ماند پڑنے لگا اور ان کا معاملہ الٹنے یعنی معاملہ دشمن کی شکست کی طرف پھر گیا۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب فی غزوہ حنین۔ حدیث 1775)
اس کی مزید تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں رکابوں میں پاؤں رکھ کےکھڑے ہو گئے اور آپ اپنے خچر پر سوار تھے۔ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کرتے ہوئے کہنے لگے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ مَا وَعَدْتَنِی اَللّٰھُمَّ لَا یَنْبَغِی لَھُمْ اَنْ یَظْھَرُوْا عَلَیْنَا۔ اے اللہ !میں تجھے اس کا واسطہ دیتا ہوں جو تُو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ !مناسب نہیں ہے ان کے لیے کہ وہ ہم پر غالب آئیں اور ہم مغلوب ہو جائیں۔
یزید بن عامر سُوَائی سے روایت ہے کہ وہ حنین میں مشرکین کے ساتھ موجود تھے اور بعد میں اسلام لائے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر زمین سے ایک مٹی کی مٹھی لی۔ پھر مشرکین کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے چہروں کی طرف پھینک دی اور فرمایا کہ تم لوٹ جاؤ۔ چہرے سیاہ ہو گئے۔ جو شخص بھی اپنے بھائی سے ملتا تھا وہ اپنی آنکھوں میں چبھن کی شکایت کرنے لگتا اور اپنی آنکھوں کو ملتا تھا یعنی دشمن کی آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی۔ اس وقت آپ دُلدُل نامی خچر پر سوار تھے۔(ماخوذ از سبل الھدیٰٰ والرشاد، جلد5صفحہ 322، 324، دارالکتب العلمیۃ بیروت)(السیرة الحلبیہ جلد3صفحہ 154دارالکتب العلمیۃ بیروت)
شَیبہ بن عثمان ایک قریشی معزز شخص تھا اس کا باپ عثمان بن طلحہ جنگِ احد میں قتل ہوا تھا۔ یہ مکہ سے حنین کے لشکر میں شامل ہوا۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا تھا۔ وہ خود بیان کرتا ہے کہ میں اس نیت سے شامل ہوا تھا کہ جب بھی (اس کا مطلب ہے مسلمان نہیں ہوا تھا) مجھے موقع ملا تو میں اپنے باپ کے قتل کے بدلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے نعوذ باللہ اپنے دل کو ٹھنڈا کروں گا۔ اسلام سے مخالفت کا یہ عالم تھا کہ یہ کہا کرتا تھا کہ سارا عرب و عجم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ لے میں تب بھی ان کی پیروی نہیں کروں گا۔ تو شَیبہ نے جب دیکھا کہ مسلمان میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند ایک لوگوں کے درمیان رہ گئے ہیں تو وہ بیان کرتے ہیں میں نے سوچا کہ میرے لیے اب بہترین موقع ہے کہ نعوذ باللہ مَیں آپ کو قتل کر سکتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں آپ کے دائیں جانب سے آپ پر حملہ کرنے کے لیے آگے ہوا تو میں نے وہاں آپ کے چچا عباس کو کھڑے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ عباس کی موجودگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا ممکن نہیںہے۔ چنانچہ میں واپس پلٹا اور پھر میں آپ کے بائیں جانب ہوا کہ ادھر سے حملہ کرتا ہوں تو وہاں دیکھا کہ ابوسفیان بن حارث کھڑے ہیں تو وہاں سے واپس ہو گیا اور پھر آپ کے پیچھے کی جانب سے آپ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو جب حملہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھا تو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے الٹے پاؤں تیزی سے واپس پلٹ گیا۔ بعد میں وہ بیان کرتے تھے کہ عین اس وقت مجھے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دکھائی دیے اور یوں لگا وہ شعلے مجھے بھسم کر کے رکھ دیں گے، کر دیں گے۔ اسی دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ شیبہ میرے قریب آؤ۔ آپ کو پتہ لگ گیا کہ یہ پیچھے کھڑے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا۔ آپؐ نے تبسم فرمایا اور میرے سینے پر اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا کی
اَللّٰہُمَّ اذْھَب عَنْہُ الشَّیْطَان ۔ اے اللہ !شیطان کو اس سے دور کر دے۔
شَیبہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے کان، میری آنکھ اور میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہو گئے اورمیرا سینہ صاف ہو گیا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیبہ سے فرمایا: اے شیبہ! کافروں سے جنگ کرو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں دشمنوں کی طرف تلوار لے کر آگے بڑھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں یوں جنگ کرنے لگا کہ اس وقت اگر میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو اس کو بھی قتل کر دیتا۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 256تا258بزم اقبال روڈ،لاہور)(غزوات النبی ﷺ ازعلامہ علی برہان حلبی، مترجم صفحہ639مکتبہ دارالاشاعت کراچی)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 9صفحہ 272 مکتبہ دارالسلام)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے رنگ میں بیان کیا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اور وہ جنگِ حنین میں شریک ہوا لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دوں گا۔ جب لڑائی تیز ہوئی تو اس شخص نے تلوار کھینچ لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اکیلے تھے، صرف حضرت عباسؓ ساتھ تھے۔ اس شخص نے موقع غنیمت جانا اور آگے بڑھ کر وار کرنا چاہا۔ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہاماً بتا دیا کہ اس شخص کے اندر کَپَٹْ ہے‘‘ یعنی دشمنی ہے۔‘‘ وہ شخص خود ذکر کرتا ہے کہ میں آپ کی طرف بڑھتا گیا اور میں خیال کرتا تھا کہ اب میری تلوار آپ کی گردن اڑا دے گی لیکن جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور سینہ پر رکھ کر فرمایا۔ اے خدا !تُو اس کو شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے بغض کو دور کر دے۔ وہ شخص کہتا ہے مجھے یکدم یوں محسوس ہوا کہ آپ سے زیادہ پیاری چیز اَور کوئی نہیں۔ اِس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگے بڑھو اور لڑو۔ میں نے تلوار سونت لی اور خدا کی قسم !اگر اس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اِس کے سینہ میں بھونک دینے’’یعنی گھونپ دیتا اور اس ‘‘سے بھی دریغ نہ کرتا۔ یہ محبت ہے جس نے اس کی دشمنی کو دور کر دیا۔‘‘ (بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر۔ انوارالعلوم جلد22 صفحہ114)یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو محبت تھی اس نے اس کی دشمنی ختم کر دی۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمہ میں تشریف فرما تھے کہ شَیبہ بن عثمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت و ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا اے شیبہ! جو کچھ تم اس وقت سوچ رہے تھے اس سے وہ بہترہے جو اب اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر دیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیبہ کو وہ تمام باتیں بتائیں جو شیبہ اس وقت میدان جنگ میں اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ شیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو کچھ ماضی میں ہوا اس کی بخشش کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کو دعا دیتے ہوئے فرمایا غَفَرَاللّٰہُ لَکَ ۔ اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ258بزم اقبال روڈ،لاہور)
اسی طرح نُضَیر بن حارِث کی بد نیتی اور ان کے نیک انجام کا ذکر بھی ملتا ہے کہ مکہ سے جو لوگ بدنیتی اور بد ارادوں سے حنین کے لشکر میں شامل ہوئے تھے ان میں سے ایک نُضَیر بن حارِث بھی تھا۔ یہ قریش کے سرداروں میں سے ایک شخص تھا اور اس کا بھائی جنگِ بدر میں مارا گیا تھا۔ یہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اس نیت سے حنین کی طرف نکلا تھا کہ موقع ملتے ہی مشرکین کی طرف سے حملہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا اور جب مسلمان ابتدامیں منتشر ہوئے تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے ان کی طرف گیا لیکن جونہی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد سفید چہروں والے کچھ لوگ ہیں جو مجھے کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے دُور ہو جاؤ۔ ان کی آواز میں ایسی دہشت تھی کہ میں ڈر گیا اور میں کانپنے لگ گیا اور تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ مسلمان واپس جمع ہونے لگے اور دشمنوں پر حملہ کرنے لگے۔ اس دوران مَیں وہاں سے واپس ہو گیا اور درختوں میں چھپ گیا اور کئی دن چھپا رہا کیونکہ جو کچھ میں نے دیکھا تھا اس کا رعب مجھ سے دور نہیں ہو رہا تھا یہاں تک کہ مجھے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف چلے گئے اور پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جِعْرَانَہ چلے گئے۔ تو جنگ ختم ہونے کے بعد میں نے سوچا کہ اب اسلام کا غلبہ ہو چکا ہے اور سب نے اسلام قبول کر لیا ہےمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں۔ چنانچہ میں چھپتا چھپاتا جِعْرَانَہ چلا گیا اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا اور فرمانے لگے نُضَیْر تم ہو؟ میں نے عرض کی جی حضور حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تیرے لیے اُس سے بہتر ہے جو تم نے حنین کے موقع پر ارادہ کیا تھا اور اس میں اللہ تیرے اور اس کے درمیان حائل ہو گیا تھا یعنی تیرے ارادے کے اور تیرے درمیان حائل ہو گیا تھا۔ نُضَیر بیان کرتے ہیں کہ میں یہ بات سن کر تیزی سے حضورؐ کی طرف بڑھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کے علاوہ کوئی اَور معبود ہوتا تو وہ مجھےکچھ فائدہ دیتا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اَللّٰہُمَّ زِدْہُ ثَبَاتًا ۔ اے اللہ !اسے ثابت قدمی میں بڑھا دے۔ نُضَیر نے کہا اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے طفیل میرا دل ثابت قدمی کے اعتبار سے چٹان کی طرح ہو گیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب تعریف اللہ کے لیے جس نے اسے ہدایت فرمائی۔(ماخوذ از البدایۃ والنہایۃ جلد7صفحہ 112-113، دار ھجر بیروت)(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 321۔322دار الکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نو مسلم سردارانِ قریش کو تالیفِ قلوب کے لیے سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ ان میں سے ایک یہ نُضَیْر بن حَارِث بھی تھے۔ انہوں نے ایسی خودداری کا مظاہرہ کیا جو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کو ثباتِ ایمانی عطا کیے جانے کی دعا کا اثر تھا کہ ایک شخص ان کو یہ خبر سنانے کے لیے آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا ہے لہٰذا وہ اونٹ لے لیں۔ اس پر نُضَیر نے اس کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تالیفِ قلب کے لیے یہ دے رہے ہیں۔ اس لیے میں یہ اونٹ نہیں لوں گا یعنی میں تو اللہ کے فضل سے اسلام پر ثابت قدم ہوں۔ مجھے تالیف قلب کے لیے اس طرح کا مال لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر خود ہی بعد میںکہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تو یہ مال نہیں مانگا اور نہ ہی سوال کیا ہے اور یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطیہ اور تحفہ ہے اس لیے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر انہوں نے یہ خبر لانے والے کوان اونٹوں میں سے دس اونٹ تحفہ کے طور پر دے دیے اور باقی خود رکھ لیے۔(ماخوذازاسدالغابہ جلد5صفحہ307دارالکتب العلمیۃ)
بعد میں اکثر اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس شرک پر نہیں مرے جس پر ہمارے آباءواجداد تھے۔ ان کا اسلام بہت اچھا رہا ۔یہ ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور پھر وہاں سے جہاد کی غرض سے شام کی طرف چلے گئے اور پندرہ ہجری میں جنگ یرموک میں شہادت پائی۔باقی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ۔