خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ12؍ ستمبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
غزوۂ حنین کے حوالے سے ذکر کر رہا تھا۔ اس کی مزید تفصیل یوں ہے۔ جنگِ حنین میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لشکروں کے نازل کیے جانے کا ذکر ملتا ہے جنہیں فرشتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ غزوۂ حنین کے ذکر میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہَ
أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْم۔ ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ(التوبۃ :26)
پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔
مفسرین اور سیرت نگاروں نے اس جنگ میں فرشتوں کے نزول پر مختلف بحثیں کی ہیں۔’’ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں کا نزول محض مؤمنوں کے لیے بطور بشارت اور ان کے دلی اطمینان کے لیے تھا وگرنہ فرشتے جنگ میں عملاً شریک نہیں ہوئے تھے۔ یہ تصور بھی بعض احادیث صحیحہ جو ہیں ان کے منافی ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ فرشتے جنگ میں عملاً شریک ہوئے۔ البتہ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نصرت کے لیے تو ایک ہی فرشتہ کافی تھا تو ہزاروں فرشتے کیوں نازل ہوئے؟ امام ابن کثیر عرصہ جنگ میں فرشتوں کے نزول کی صحیحین میں موجود احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے فرشتوں کا نزول اور مسلمانوں کو اس کی اطلاع بطور خوشخبری تھی ورنہ اللہ اس کے بغیر بھی اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کر سکتا ہے اس لیے اس نے فرمایا مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے اورسورۂ محمد میں یہ فرمایا کہ اللہ چاہے تو خود ہی ان کافروں سے بدلہ لے لے لیکن وہ آزماتا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل مورخہ24؍ تا 29؍جولائی2023ء صفحہ8-9خطبہ جمعہ7جولائی 2023ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی یہ بات بیان فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن میں فرشتوں کی مدد کی خوشخبری کا واقعہ ہے تا کہ مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے اور معرکے میں انہیں کوئی ڈر نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مومنوں سے وعدہ کیا اور انہیں خوشخبری دی کہ وہ پانچ ہزار فرشتوں سے ان کی مدد کو آئے گا۔ اس عدد کو زیادہ کر کے اس لیے دکھایا تا کہ ان کے لیے خوشخبری ہو حالانکہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہی یہ قدرت رکھتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم سے زمین کو تہ و بالا کر دے۔ اس کے لیے پانچ ہزار کی نہیں بلکہ پانچ کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کو عظیم نصرت دکھائے تو اس نے وہ لفظ اختیار کیا جس سے امداد کرنے و الے کی کثرت ظاہر ہوتی ہے اور یہی مراد لیا تھا۔(اردو ترجمہ از التبلیغ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 448)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تفسیر صغیر میں اس کے بارے میں مختصر نوٹ دیا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت ایک سو ستائیس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ’’فرشتوں کا ذکر صرف اس لیے ہے کہ خواب یا کشف میں خوشخبری ملنے سے انسان کی ہمت بڑھتی ہے۔ ورنہ اصل مراد یہی تھی کہ خدا تعالیٰ مدد کرے گا۔‘‘(تفسیر صغیر صفحہ 96سورۃ آل عمران زیر آیت:127)یعنی یہ بھی کشفی رنگ ایک ظاہر ہوا تھا۔ پھر ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’ خوب اچھی طرح یاد رکھو جو شخص مرنے کے لیے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مار سکتا۔ سچے طور پر موت قبول کرنے والی انبیاء کی جماعت ہی ہوتی ہے۔ پھر کوئی ہے جو اسے مار سکے؟ ہر گز نہیں۔ دائمی زندگی حاصل کرنے کا اصل یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لیے موت قبول کرے اور جب کوئی انسان اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اسے زندہ کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گویا کشتی شروع ہو جاتی ہے انسان زور لگاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں موت حاصل ہو لیکن فرشتے زور لگاتے ہیں کہ اسے زندہ رکھا جائے۔
جب خدا کا بندہ کہتا ہے کہ میں خدا کے لیے مرنا چاہتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے سارے فرشتے کہتے ہیں ہم مرنے نہیں دیں گے اور آخر فرشتے ہی جیتتے ہیں۔ بندہ چاہتا ہے کہ مر جائے۔ وہ اس کے لیے اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈالتا ہے جن کا نتیجہ موت ہوتی ہے مگر وہ مرتا نہیں… حنین کے واقعہ کو ہی دیکھ لو جب دشمن حملہ کر کے آگے بڑھا تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف بارہ آدمی تھے۔ باقی سب دشمن کی تیر اندازی سے تتّر بتّر ہو گئے تھے۔ اس وقت حضرت عباسؓ نے کہا حضور ذرا پیچھے ہٹ جائیں مگر آپؐ نے سواری کو ایڑی لگائی اور آگے بڑھتے ہوئے فرمایا: اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں میں پیٹھ کس طرح دکھا سکتا ہوں۔ یہ ایک ایسا کلمہ تھا جو انسانیت کو بھلا کر خدا تعالیٰ کے سامنے لانے والا تھا۔ چار ہزار تیراندازوں کے مقابلہ میں ایک شخص کہتا ہے میں یہاں سے ہٹ نہیں سکتا تو یہ انسان نہیں بلکہ خدا بول رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس وقت کہا بھی کہ اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ۔ میں انسان ہی ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کہا کہ میں خدا کی راہ میں مرنا چاہتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اتر آئے اور حنین کی شکست فتح سے بدل گئی اور آپ فاتح بن کر میدان جنگ سے لوٹے۔‘‘(خطاباتِ شوریٰ جلد اوّل صفحہ 612-613، مجلس مشاورت 1935ء، نظارت نشرو اشاعت قادیان 2013ء)
دشمن کی شکست اور فرار کے بارے میں
یہ تفصیلات پہلے بیان ہو چکی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انصار کو پکارا اور وہ واپس آ گئے اور پھر خوب جوش و خروش سے لڑنے لگے تو اس کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اپنے ہاتھ سے کنکریوں کی مٹھی کفار کی طرف پھینکی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو ھَوَازِن جن کا یہ دعویٰ تھا کہ آج تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کسی جنگجو قوم سے ہوا ہی نہیں۔ ہم سے مقابلہ ہوگا تو ہم بتائیں گے کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور جو فی الحقیقت عرب کے طاقتور ترین قبائل میں سے ایک تھا۔ یہ نہیں کہ صرف باتیں تھیں بلکہ واقعی تھا وہ طاقتور قبیلہ۔ وہ تھوڑی ہی دیر میں شکست کھا کے بھاگنے لگے۔ اپنے بیوی بچوں اور مال مویشی کی کسی کو خبر نہ رہی۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بہت سے لوگ قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں قید ہوئے اور بھاگنے والوں کی بھاری تعداد اوطاس کی طرف بھاگ گئی۔(شرح زرقانی جلد3صفحہ530-531 و زرقانی جلد4صفحہ19،دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
اس جنگ میں ھوازن کے سینکڑوں لوگ قتل ہوئے۔ حضرت ابو طلحہؓ نےبیس مشرکین قتل کیے۔ اسی طرح سَرِیَّہ اَوْطَاسْ میں مشرکین کے تین سو افراد قتل ہوئے۔(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ ،جلد9صفحہ 285، بزم اقبال لاہور)
ھَوَازِن کے راہِ فرار اختیار کرنے کے باوجود ثقیف کے جنگجو ڈٹے رہے۔ جو ثقیف قبیلہ تھا وہ ڈٹے رہے اور نہایت دلیری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کے ستّر لوگ مارے گئے۔ ان کا سب سے آخری علمبردار عثمان بن عبداللہ تھا۔ جب وہ قتل ہوا تو پھر ثَقِیْف بھی بھاگ گئے۔ عثمان کے قتل کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی تو آپ نے اس دشمن اسلام کے بارے میں فرمایا۔ اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ یہ قریش سے بغض رکھتا تھا جبکہ اس کے قاتل حضرت عبداللہ بن اَبِی اُمَیَّہ کے لیے حصول رحمت کی دعا فرمائی اور حضرت عبداللہ نے کہا میں امید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے اسی حالت میں شہادت عطا فرمائے گا۔ پس انہوں نے طائف کے محاصرے کے دوران ہی شہادت پائی۔ بعض روایات کے مطابق آخری علمبردار عثمان بن عبداللہ کو حضرت علیؓ نے قتل کیا تھا۔ (مغازی الواقدی جلد3صفحہ911-912عالم الکتب1984ء)(طبقات ابن سعد جلد6صفحہ55۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(شرح زرقانی جلد3صفحہ 531، دارالکتب العلمیۃ )(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد5صفحہ 334دار الکتب العلمیۃ) لیکن وہ پہلی والی ز یادہ تفصیلی ہے۔
اس جنگ میں چار صحابہ ؓشہید ہوئے۔
ان کے نام ہیں حضرت اُمِّ اَیْمَن کے بیٹے اَیْمَن بن عُبَیْدْ۔ یہ ام ایمن وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حَاضِنَہ تھی یعنی نگہداشت و پرورش کرنے والی تھیں۔ سُراقہ بن حَارِث۔ یہ انصاری صحابی تھے۔ ان کے بیٹے حَارِثہ بن سُرَاقَہ جنگِ بدر میں شہید ہوئے تھے۔ یَزِید بِنْ زَمْعَہ، ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے تھے اور جاہلیت میں بھی قریش کے ہاں اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز تھے۔ قریش اہم امور میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ یہ اُمّ المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ کے بھانجے تھے۔ میدانِ جنگ میں گھوڑے کے بدکنے سے ان کی شہادت ہوئی تھی۔ نیچے گرے اور پھر اس کے نیچے آگئے۔ بعض کے نزدیک ان کی شہادت غزوۂ طائف میں ہوئی تھی اس کا ذکر بھی آگے آئے گا۔چوتھے حضرت ابو عامر تھے جن کی تفصیل بھی آگے سریۂ اوطاس میں آئے گی۔(ماخوذ ازدائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9 صفحہ284۔ بزم اقبال لاہور)(اسد الغابہ زیرلفظ یزیدبن زمعہ۔جلد 5 صفحہ 453 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت عائذؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ حنین میں میری پیشانی میں ایک تیر آ لگا اور میرے چہرے اور سینے پر خون بہ کر پھیلنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ میرے چہرے اور سینے سے پیٹ تک پھیرا اور خود خون صاف کیا جس سے خون اسی وقت بند ہو گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے میرے لیے دعا فرمائی۔ بعض روایت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہاتھ پھیرا تھا تو آپؐ کے مبارک ہاتھوں کے وہ نشان ان کے جسم پر بعد میں بھی رہے۔(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ162دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)(شرح زرقانی جلد5صفحہ457دارالکتب العلمیۃ 1996ء)
حضرت خالد بن ولیدؓ جو کہ ایک گھڑ سوار دستے کے امیر تھے وہ ابتدائی مرحلے میں ہی بری طرح زخمی ہو چکے تھے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ جب لشکر تتّر بتّر ہوا ہے تو آپؓ گر گئے تھے۔ ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ جب کفار کو شکست ہو گئی اور مسلمان اپنے اپنے خیموں کی طرف چلے گئے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ لوگوں کے درمیان چل رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ مجھے خالد بن ولید تک کون پہنچائے گا۔ جب ان کے پاس پہنچے تو خالد کجاوے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خالد کے پاس بیٹھ گئے اور زخم دیکھ کر اپنا لعاب دہن لگایا جس سے انہیں شفا ہو گئی۔ اس کے علاوہ حضرت عبداللّٰہ بن اَبِی اَوْفٰیؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بھی زخمی ہوئے تھے۔(ماخوذازدائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ279،بزم اقبال لاہور)(سیرت الحلبیہ جلد3صفحہ162 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)(السیرۃ النبویہ الصحیحہ محاولۃ التطبیق قواعد المحدثین جزء2صفحہ504مکتبہ العلوم والحکم1914ء)
اہلِ مکہ اور مدینہ کو فتحِ حنین کی بشارت بھیجی۔ ابتدا میں جب حنین کے میدان سے کچھ مسلمان بھاگے تو ان میں سے کچھ تو مکہ چلے گئے اور وہاں یہ بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو چکی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ قتل ہو گئے ہیں۔ اس خبر سے مکہ میں موجود منافقین اور جن کے دلوں میں بغض تھا وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اب عرب اپنے آبائی دین پر واپس آجائیں گے۔ اس موقع پر مکہ کے امیر عَتَّابْ بِن اَسِیْد نے کمال جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور اہلِ مکہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ إِنْ قُتِلَ مُحَمَّدٌ فَإِنَّ دِيْنَ اللّٰهِ قَائِمٌ، وَالَّذِيْ يَعْبُدُهٗ مُحَمَّدٌ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید بھی ہو گئے تو یقینا ًاللہ کا دین ہمیشہ قائم رہے گا اور جس ہستی کی عبادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ، وہ ہستی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گی اور کبھی نہیں مرے گی۔ اور ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ حنین سے یہ خوشخبری بھی آ گئی کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور بنو ہَوَازِن بہت بری طرح شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں۔ اسی طرح مدینہ میں بھی یہ خبر پہلے پہنچ چکی تھی۔ شکست کی خبر پہلے پہنچ گئی تھی، کسی نے پہنچا دی تھی۔ وہاںحضرت نَہِیْکْ بِنْ اَوْس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کی خوشخبری دے کر بھیجا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں سرشام ہی روانہ ہو گیا۔ راستے میں بھی لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ پہلے کبھی ایسی شکست نہ ہوئی ہو گی اور مالک بن عوف کا لشکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر پر غالب آ گیا ہے تو مَیں نے کہا یہ سب جھوٹ ہے بلکہ اللہ نے اپنے نبی کو فتح عطا فرمائی ہے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو بطور قیدی عطا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہ خبر دیتا ہوا تین دن میں مدینہ پہنچ گیا اور اس سے پہلے میں نے کبھی اتنی سواری نہیں کی تھی یعنی مسلسل تیز رفتاری سے سفر کرتا رہا۔ پھر مدینہ پہنچ کر اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں اور مسلمانوں کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی ہے۔ اور جب میں وہاں سے چلا تھا تو مسلمان کچھ مال غنیمت جمع کر چکے تھے اور کچھ جمع کر رہے تھے اور پھر وہ ازواجِ مطہرات کے حجروں کی طرف گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و سلامتی کی بشارت انہیں بھی دی اور اس پر سب نے اللہ کا شکر ادا کیا اور خوش ہو گئے۔(سبل الھدیٰ جلد5 صفحہ320و340دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)( زرقانی جلد3صفحہ508دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ280تا282،بزم اقبال لاہور)
بنو ھَوَازِن کا سپہ سالار مالک بن عوف جو بڑی مشکل سے جان بچا کر میدان سے بھاگا تھا وہ اور اس کے ساتھی ایک گھاٹی پر کھڑے ہو گئے۔ اس نے کہا رُک جاؤ حتی کہ کمزور لوگ اور تمہارے بھائی تمہیں آ ملیں۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے انہیں دیکھا تو انہوں نے ان پر حملہ کر دیا اور مالک وہاں سے بھاگ کر ثَقِیف کے قلعہ میں داخل ہو گیا۔(سیرت ابن ہشام صفحہ771دارالکتب العلمیۃ2001ء)( سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد 5صفحہ 333۔334دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
مُحَلِّم بن جَثَّامَہ کا ایک شخص کو قتل کرنا اور اس کی دیت کے واقعہ کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ فتح مکہ کے ذکر سے معاً قبل کے خطبہ میں سَرِیَہِ اِضَم کی تفصیل میں یہ ذکر ہواتھا کہ ایک صحابی مُحَلِّم بن جَثَّامَہ نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے گزرتے ہوئے السلام علیکم کہا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کو قتل کیا۔ اس واقعہ کی بابت کچھ مزید تفصیل بیان کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ غزوۂ حنین کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ طائف کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ ایک دن نماز ظہر کے بعد آپ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ عُیَیْنَہ بن حِصْن اٹھا۔ اس نے مقتول عَامِر بن اَضْبَط اَشْجَعِی کے خون کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی اَقْرَعْ بِنْ حَابِس اٹھا وہ مُحَلِّم بن جَثَّامَہ کو بچانا چاہتا تھا۔ ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بحث شروع کر دی۔ عُیَیْنَہ نے کہا یا رسول اللہ !اللہ کی قسم !میں اسے یعنی قاتل کو نہیں چھوڑوں گا۔ ان کی عورتوں پر بھی اسی طرح غموں کا پہاڑ گراؤں گا جس طرح اس نے ہماری عورتوں پر غموں کا پہاڑ ڈھایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ دیت لے لو۔ پچاس اونٹ ابھی لے لو اور پچاس اونٹ مدینہ پہنچ کر لے لینا لیکن عُیَیْنَہ نے دیت لینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال کچھ گفت وشنید کے بعد آخر ان لوگوں نے دیت قبول کر لی۔ قاتل مُحَلِّم ایک طرف کھڑا تھا وہ قصاص کے لیے تیار ہو کر آیا تھا کہ اب تو میری موت آئی۔ دیت وغیرہ کا فیصلہ ہونے کے بعد مُحَلِّم اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے عرض کیا جو بات آپؐ تک پہنچی ہے میں اس سے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ آپ بھی میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔ آپ نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے اس نے کہا مُحَلِّم بن جَثَّامَہ۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم نے شروع اسلام میں اسے قتل کر دیا یعنی کہ اس نے آتے ہی کہا تھا السلام علیکم پھر بھی تم نے قتل کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے کہا کہ اے اللہ !مُحَلِّم کو نہ بخشنا۔ یہ جملہ سب نے سنا۔مُحَلِّم نے دوبارہ کہا :یا رسول اللہؐ! میں معافی مانگتا ہوں۔ آپ بھی میرے لیے معافی طلب کریں۔ آپؐ نے پھر بلند آواز سے کہا تا کہ لوگ سن لیں کہ اے اللہ! مُحَلِّم بن جَثَّامَہ کو معاف نہ کرنا۔ اس نے تیسری بار پھر کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار بھی وہی کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ میرے سامنے سے اٹھ کر چلے جاؤ تو وہ آپ کے سامنے سے اٹھا اور وہ اپنے آنسو اپنی چادر سے صاف کر رہا تھا۔ ابن اسحاق کی بھی ایک روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محلم کی قوم کے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کی بخشش کی بھی دعا دی تھی۔(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد 5صفحہ 339-340دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(ماخوذ از سنن ابوداؤدکتاب الدیات باب الْإِمَامِ يَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِي الدَّمِ حدیث نمبر4503)(سنن ابن ماجہ کتاب الدیات باب من قتل عمدا…حدیث نمبر 2625)
سَرِیَّہ اَوْطَاسْ کی تفصیل یوں ہے۔ حنین کے میدان سے بری طرح شکست کھانے کے بعد بنو ھَوَازِن کا لشکر جدھر ان کا منہ اٹھا اس طرف بھاگ گیا۔ اس کا ایک حصہ جس میں بنو ھوازن کا سپہ سالار مالک بن عوف بھی تھا وہ طائف کی طرف بھاگا اور طائف کے قلعہ میں پناہ لے لی اور ایک حصہ اوطاس کی وادی میں جمع ہو گیا اور ایک نَخْلَہ یعنی نُخَیْلَہ کی طرف بھاگ گیا۔ اوطاس حنین کے قریب ہی ایک وادی کا نام ہے۔ بنوھوازن چونکہ اپنے بیوی بچے اور سارے مال مویشی ساتھ لے کر حملہ آور ہوئے تھے اور خود تو وہ بھاگ گئے اور اب یہ سب کچھ مالِ غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا تھا۔
اسلام کی تاریخ میں ابھی تک کا یہ سب سے زیادہ مالِ غنیمت تھاجو اُس وقت تک مسلمانوں کو ملا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدی اور مالِ غنیمت حضرت مسعود بن عَمْرْوغِفَارِی کی نگرانی میں جِعْرَانَہ مقام کی طرف بھجوا دیے اور خود سارا لشکر لے کر طائف کی طرف روانہ ہو گئے اور حضرت ابو عامر اَشْعَرِی ان کا نامعُبَیْد بِنْ سُلَیْم تھا ان کی قیادت میں ایک لشکر اَوطاس کی طرف روانہ فرمایا۔ اس لشکر میں ابو موسیٰ اشعری اور سَلَمَہ بِنْ اَکْوَع بھی تھے۔ حضرت ابوعامرؓ نے دشمن کو دعوتِ مبارزت دی۔ وہاں دشمنوں کے دس بھائی تھے جو بے مثل جنگی صلاحیتوں کے باعث شہرت رکھتے تھے۔ سب سے پہلے یہ دس بھائی مبارزت کے لیے نکلے۔ پہلے ایک بھائی آیا۔ ابوعامر نے اس کو پہلے اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے مقابلے کو ترجیح دی۔ ابوعامر نے کہا کہ اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہ۔ اے اللہ! اس پر گواہ رہنا۔ یہ کہہ کر انہوں نےتلوار کا ایسا وار کیا کہ وہ دو ٹکڑے ہوکر زمین پر جا گرا۔ پھر دوسرا بھائی آیا۔ ابو عامر نے اس کو بھی پہلے دعوتِ اسلام دی اور اس کے انکار پر مقابلہ کیا اور وہ بھی مارا گیا۔ یوں یکے بعد دیگرے نو بھائی مارے گئے جب دسواں بھائی آیا اور ابوعامر حسب سابق اَللّٰہُمَّ اشْہَدْ عَلَیْہ کہہ کر اس پر وار کرنے ہی لگے تھے کہ وہ بول اٹھا۔ اَللّٰہُمَّ لَا تَشْہَدْ عَلَیَّ۔ اے اللہ !مجھ پر گواہ نہ بننا اور یوں ظاہر کیا کہ جیسے وہ اسلام قبول کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی ابوعامر نے اپنی تلوار نیچے کر لی اور اس کو چھوڑ دیا لیکن اس نے پلٹ کر ابوعامر پر حملہ کر دیا۔ دھوکادیا اس نے۔ بعض روایات کے مطابق تو اس نے ابو عامر کو شہید کیا لیکن دوسری روایات کے مطابق یہ درست نہیں ہے کیونکہ جس نے ابوعامر کو شہید کیا تھا اس کو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے اسی وقت قتل کر دیا تھا۔ زیادہ درست روایت یہی ہے کہ دسواں بھائی جو تھا یہ بعد میں اسلام لے آیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا اور بعد میں جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر نظر پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ھٰذَا شَرِیْدُ اَبِی عَامِر۔ کہ یہ ابوعامر کی تلوار سے بچا ہوا ہے۔ بہرحال حضرت ابوعامرؓ اسی طرح بے جگری سے لڑتے رہے اور جو بھی ان کی تلوار کے سامنے آتا وہ مارا جاتا۔ آخر حارِث جُشَمِی کے دو بیٹوں عَلَاء اور اَوْفٰی نے ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک تیر ان کے سینے میں لگا اور ایک گھٹنے میں لگا۔ بعض روایات کے مطابق تیر مارنے والا دُرَیْدْ بِنْ صِمَّۃ کا بیٹا سَلَمَہ تھا۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے ابوعامر سے پوچھا کہ آپ کو کس نے تیر مارا ہے تو انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور میں نے اس کا تعاقب کیا جس پر وہ بھاگ کھڑا ہوا اور میرے للکارنے پر رکا تو ہم تلوار زنی کرنے لگے اور میں نے اس کو قتل کر دیا۔ واپس آ کر مَیں نے ابو عامر سے کہا۔ اللہ نے تمہارے قاتل کو جہنم رسید کر دیا ہے۔ ابوعامر نے مجھے کہا کہ میرا تیر نکالو۔ تیر تو ابھی جسم میں ہی تھا۔ کہتے ہیں جب مَیں نے تیر نکالا تو زخم سے پانی بہ نکلا۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ زخم گہرا ہے اور زندگی کی اب کوئی امید نہیں ہے۔ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ ابو عامر نے مجھے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دینا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرے لیے استغفار اور بخشش کی دعا کی درخواست کرنا۔ اور میرا گھوڑا اور میرے ہتھیار بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دینا اور ساتھ ہی مجھے اپنا جانشین مقرر کیا اور جھنڈا میرے سپرد کیا۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ فوت ہو گئے۔ ابوموسیٰ اشعری نے ان لوگوں سے جنگ کی اور دشمن شکست کھا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ ان کے کچھ لوگ مارے گئے اورابو موسیٰ وہاں سے بھی مال غنیمت اور قیدی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ رسیوں سے بُنی ہوئی ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر بچھونا وغیرہ کچھ نہیں تھا لیکن بخاری اور بعض دوسری روایات کے مطابق اس پر بچھونا بھی تھا لیکن بہت پتلا سا ہو گا۔ کوئی چادر سی بچھی ہوئی تھی۔ ان رسیوں کے نشانات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر ظاہر ہو رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے جنگِ اوطاس کی تفصیل آپؐ کی خدمتِ اقدس میں پیش کی اور ابوعامر کی شہادت کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کی دعا کی درخواست بھی پیش کر دی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو فرمایا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے فرمایا: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أبي عَامِرٍ۔ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيْرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ کہ اے اللہ !عبید ابوعامر کو بخش دے۔اے اللہ !قیامت کے دن اپنی مخلوق میں لوگوں سے سب سے اوپر اس کا مقام رکھنا۔ ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ !میرے لیے بھی بخشش کی دعا فرمائیں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی دعا کرتے ہوئے فرمایا۔ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهٗ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيْمًا اے اللہ !عبداللہ بن قیس یعنی ابوموسیٰ اشعری کا یہ نام تھا۔ ان کے گناہ معاف فرما دینا اور اس کو قیامت کے دن معزز مقام عطا کرنا۔(سیرت ابن ہشام ،صفحہ772مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد6صفحہ206-207وجلد5صفحہ333و 339دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء )(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ؐ،جلد9صفحہ331-334،بزم اقبال لاہور )(ماخوذاز شرح زرقانی جلد3 صفحہ532تا533 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)(تاریخ الخمیس جلد2صفحہ523دارالکتب العلمیۃ2009ء)(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اوطاس حدیث 4323)
پھرسَرِیَّہ طُفَیْل بن عَمْرْودَوْسِی
جو ذُوالْکَفَّیْن کی طرف ہے اس کا ذکر ہے۔ یہ شوال آٹھ ہجری میں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حنین سے طائف کی طرف چلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طفیل دوسی کو ذُوالْکَفَّیْن نامی بت گرانے کے لیے بھیجا۔ حضرت طفیل دَوْس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی قوم کے بلند پایہ شاعر اور حکیم و دانا مشہور تھے۔ انہوں نے مکی دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور اسی وقت مسلمان ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ غزوۂ حنین کے بعد انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ذُوالْکَفَّیْن نامی بت کو گرانے کے لیے انہیں بھیجا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس مہم کا امیر مقرر فرمایا اور یہ نصائح فرمائیں کہ
سلام خوب پھیلانا۔ یعنی سلامتی کو رواج دینا۔ لوگوں کو کھانا کھلانا، یہ نہیں کہ ان کو بھوکے مارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیا کرنا جس طرح ایک باوقار آدمی اپنے گھر والوں سے شرماتا ہے۔ جب بھی کوئی غلطی یا گناہ ہو جائے اس کے فوراً بعد نیکی کر لیاکرنا کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا ڈالتی ہیں
یہ آپؐ نے نصائح فرمائیں اور پھر فرمایا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لینا اور یہ کام مکمل کر کے واپس طائف چلے آنا۔ چنانچہ حضرت طفیل نے اپنی قوم کے چار سو افراد کو ساتھ لیااور لکڑی کے بنے ہوئے اس بت کو آگ لگا کر جلا دیا اور اس وقت یہ اشعار پڑھے کہ اے ذوالکفین! سن میں تیرے عبادت گزاروں میں سے نہیں ہوں کیونکہ تم تو اب بنائے گئے ہو جبکہ ہماری پیدائش تمہاری پیدائش سے بھی پہلے کی ہے۔ دیکھ میں نے تیرے اندر باہر سے سارا وجود آگ کے شعلوں سے بھر دیا ہے۔ یہ مہم کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کے بعد طائف واپس آگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی طائف پہنچے چار دن ہوئے تھے۔
حضرت طفیل اپنے ساتھ چار سو جنگجو بہادر بھی لے کر آئے اور اس وقت کے اعتبار سے یہ جدید جنگی اسلحہ یعنی منجنیق اور دَبَّابَہ بھی لائے۔
منجنیق ایک آلہ ہے جس سے بڑے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں یعنی توپ کی طرح کی چیز ہوتی ہے اور دَبَّابَہ لکڑی کا ایک مضبوط اور بند گاڑی نما ڈبہ ہے جس طرح آجکل آرمرڈ کاریں ہوتی ہیں اس طرح تھا اس زمانے میں جس میں نیچے سے کئی آدمی گھس کر قلعہ کی فصیل پر جا پہنچتے تھے اور دشمن کی زدسے محفوظ رہتے ہوئے فصیل میں شگاف کرتے تھے۔ یہ ہتھیار پہلی بار غزوۂ طائف میں استعمال ہوئے تھے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ337-339،بزم اقبال لاہور)(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ119-120دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)(فرہنگ سیرت صفحہ120 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)(فیروز اللغات صفحہ1291۔ زیر لفظ م۔ن۔فیروز سنز لاہور)
غزوۂ طائف شوال آٹھ ہجری میں ہوا۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ طائف مکہ سے مشرق کی جانب تقریباً نوے کلو میٹر پر ایک مشہور شہر ہے۔ طائف نہایت مضبوط مقام تھا۔ طائف اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے گرد حفاظت کے لیے چار دیواری تھی۔ یہاں ثَقِیْف کا جو قبیلہ آباد تھا نہایت شجاع تھا۔ بڑا بہادر تھا۔ تمام عرب میں ممتاز اور قریش کا گویا ہمسر تھا۔ عُرْوَہ بن مسعود جو یہاں کا رئیس تھا اس کی شادی ابوسفیان کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ قرآن اگر اترتا تو مکہ یا طائف کے رؤساء پر اترتا۔ یہ کہا کرتے تھے کہ بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے کے کسی بڑے آدمی پر اترنا چاہیے تھا۔ بڑے آدمی تو ان دو جگہوں پر رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ فنِ جنگ سے بھی واقف تھے۔ بہرحال یہاں ایک محفوظ قلعہ تھا۔ اہلِ شہرنے سال بھر کارسدکا سامان جمع کیا۔ چاروں طرف منجنیق اور جا بجا ماہر تیر انداز متعین کیے۔
یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا ہی تسلسل ہے چونکہ ھوازن اور ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے سردار مالک بن عوف نَصْرِی کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے فارغ ہو کر سارا مالِ غنیمت اور چھ ہزار سے زائد قیدی غلام اور لونڈیاں مکہ کے قریب ایک وادی جس کا نام جِعْرَانَہتھا وہاں بھیجا اور خود طائف کا قصد کیا۔ جِعْرَانَہ مکہ اور طائف کے رستے میں مکہ کے قریب ایک کنویںکا نام ہے۔ مکہ سے اس کا فاصلہ تقریباً سترہ میل ہے۔ اموال غنیمت پر آپ نے بُدَیْل بِنْ وَرْقَاءیا حضرت مسعودبن عَمْرْو غِفَاری کو نگران مقرر فرمایا۔(ماخوذ از سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول صفحہ360مکتبہ اسلامیہ 2012ء)(ماخوذ از الرحیق المختوم صفحہ567المکتبۃ السلفیہ لاہور 2002ء)(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادجلد5صفحہ 338۔339مکتبہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ88-178 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)
بہرحال آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہراول دستہ روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر قلعہ والوں سے یعنی طائف والوں سے مذاکرات کی کوشش کی مگر قلعہ والے آمادہ نہ ہوئے۔ حضرت خالد بن ولید ؓکو روانہ کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی طائف کا رخ فرمایا۔ ان راستوں کے ماہر ساتھ ساتھ تھے جو فوج کے آگے آگے چلتے رہے۔ راستے میں غزوہ حنین میں دشمن فوج کے سپہ سالار مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس میں اس وقت کوئی رہائش پذیر ہے؟ بتایا گیا کہ یہ خالی ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منہدم کروا دیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کر لیا۔(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5۔ صفحہ 382۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(ماخوذ از الرحیق المختوم صفحہ567المکتبۃ السلفیہ لاہور 2002ء)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9 صفحہ 305مکتبہ دارالسلام)(کتاب المغازی للواقدی جلد3 صفحہ924-925 عالم الکتب1984ء)( دائرہ معارف سیرت محمدﷺ جلد9صفحہ347،بزم اقبال لاہور)
اہلِ طائف ایک عرصہ سے اس جنگ کے لیے تیاری کر رہے تھے انہوں نے قلعہ کی تعمیر و مرمت بھی کی اور ایک سال کا اناج اور غلّہ وغیرہ بھی جمع کر لیا ہوا تھا اور حنین کے میدان میں غیر متوقع شکست کھاکر جتنے لوگ بھاگ سکتے تھے وہ سب بھاگ کر اس قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے اور قلعہ کے دروازے بند کر لیے۔(ماخوذاز سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ382دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9صفحہ309مکتبہ دارالسلام)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں طائف کے بہت قریب ایک کھلی جگہ پر پڑاؤ کیا۔ ابھی لشکر نے پوری طرح قیام بھی نہ کیا تھا کہ قلعہ سے تیر اندازوں نے سخت تیر اندازی کر کے بہت سے مسلمانوں کو زخمی کردیا۔ اسی دوران حضرت حُبَاب بِنْ مُنْذِر نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جگہ ہمارے پڑاؤ کے لیے مناسب نہیں ہے کیونکہ اہلِ طائف ماہر تیر انداز ہیں اور ان کے تیر دور تک پہنچتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ کسی مناسب جگہ کا انتخاب کریں۔ پھر ایک نئی جگہ پر سارا لشکر منتقل ہو گیا۔ دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھراؤ کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق لگا کر اہلِ طائف پر بڑے بڑے پتھر پھینکے۔ اس منجنیق کے متعلق بیان ہو چکا ہے کہ یہ حضرت طُفَیْلْ دَوْسِی سَرِیَّہ ذُوالْکَفَّیْن سے لوٹتے وقت اپنے ساتھ لائے تھے۔ پتھر پھینکنے سے ہی ایک دن قلعہ کی ایک دیوار میں ایک سوراخ ہو گیا۔ چنانچہ مسلمانوں کی ایک جماعت دَبَّابَہ کے ذریعہ قلعہ کی دیوار کی طرف بڑھی یہ ایک بکسہ ساتھا جس سے محفوظ کیا جاتا تھا۔ تا کہ اس میں آگے بڑھ کر اس کے ذریعہ وہاں اندر جا سکیں لیکن جب آگے بڑھے تو قلعہ والوں نے ان پر لوہے کے جلتے ہوئے ٹکڑے پھینکنے شروع کر دیے۔ دبابہ میں چونکہ بہت سارا چمڑا بھی استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کو آگ لگ گئی اور اس کے نیچے سے مسلمان مجاہدین کو باہر نکلنا پڑا اور جونہی وہ باہر نکلے تو طائف والوں نے ان پر تیر اندازی کی اور ان میں سے اکثر کو شہید کر دیا۔ اسی دوران ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کے انگوروں کے باغات کاٹنے کا بھی حکم دیا۔ میرا خیال ہے یہ آخری حربہ تھا۔ جو میرا خیال ہے کہ ڈرانے کے لیے عام طور پر استعمال کیا ہو گا کیونکہ بعد میں منسوخ بھی کر دیا تھا۔ پہلے تو قلعہ والوں نے بڑی رعونت سے کہا کہ آپ جلاتے ہیں ہمارے باغ تو جلا دیں۔ آپ لوگ ہماری مٹی اور پانی تو ساتھ نہیں لے کے جا سکتے۔ انہیں اپنے علاقے کی زرخیزی پر بہت مان تھا اور مقصد یہ تھا کہ ہم دوبارہ کاشت کر لیں گے ہم ڈرنے والے نہیں لیکن جب واقعی باغات کو تلف کرنا شروع کیا ۔ اورکچھ حصہ انہوں نے یہ بتانے کے لیے کاٹ دیا کہ اچھا تم یہ کہتے ہو تو پھر ہم کاٹتے ہیں تو طائف کے ایک سردار سفیان بن عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمارے باغات کیوں تلف کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے ہم پر فتح پا لی تو یہ سب کچھ آپ کا ہو جائے گا۔ نہیں تو خدا کی خاطر اور صلہ رحمی کرتے ہوئے آپ ایسا نہ کریں۔ اس نے یہ درخواست کی کہ اللہ کے لیے صلہ رحمی بھی ہم لوگوں پہ کریں اور یہ نہ کریں۔ قریش مکہ کی بہت سی رشتہ داریاں طائف والوں کے ساتھ تھیں۔ یہ نہ بھی ہوتیں تو بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا جو اسوہ تھا وہ یہی تھا کہ سختی نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ سفیان کی اس درخواست پر ان باغوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا اور نہیں کاٹا۔(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ793 الطریق الیٰ الطائف۔دارالکتب العلمیۃ 2001ء)(ماخوذ از شرح العلامۃ الزرقانی علی مواہب اللدنیہ۔جزء الرابع۔ صفحہ 10 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)(ماخوذاز غزوۂ حنین، ازباشمیل صفحہ227تا229۔242نفیس اکیڈمی)(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ349،بزم اقبال لاہور)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9 صفحہ312مکتبہ دارالسلام)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ نصف ماہ یا اس سے بھی زائد عرصہ تک اہلِ طائف سے جنگ میں مصروف رہے لیکن طائف والوں کے دلوں پر درحقیقت حنین کی شکست کا ایسا خوف اور رعب طاری ہو چکا تھا کہ وہ قلعہ کے اندر سے لڑتے رہے، باہر نہیں نکلے۔ اس دوران ان کا ایک بھی شخص حصار سے باہر آ کر نہ لڑا۔(تاریخ الطبری جلد2صفحہ 171۔ دارا لکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)(ماخوذاز غزوہ حنین از باشمیل صفحہ244نفیس اکیڈمی)
یہاں تک کہ ایک مرتبہ خالد بن ولید نے میدان میں نکل کر ثقیف کے بہادروں کو چیلنج کیا اور مبارزت کی دعوت دی لیکن باربار کی پکار پر کوئی بھی باہر نہ نکلا یہاں تک کہ ثقیف کے سردار عَبْدِیَالِیْل نے حضرت خالد کو بلند آواز سے پکار کر کہا۔ ہم میں سے کوئی بھی تمہارے مقابلے پرنہیں آئے گا۔ ہم اپنے قلعہ میں محفوظ ہیں اور سال بھر کے لیے ہمارے پاس کھانا اور خوراک ہے۔ ہمیں کوئی فکر نہیں۔ اسی دوران ایک مرتبہ حضرت یَزِیْد بِنْ زَمْعَہ نے قلعہ والوں سے بات کرنے کے لیے کہا کہ اگر تم مجھے امان دیتے ہو تومیں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ گارنٹی دو کہ تم مجھے نقصان نہیں پہنچاؤ گے۔ میں سفیر کے طور پر آنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے امان دی اور کہہ دیا کہ ٹھیک ہے ہم امان دیتے ہیں۔ وہ قلعہ کے قریب ہوئے لیکن انہوں نے بدعہدی کرتے ہوئے ان پر تیر برسانے شروع کر دیے اور وہ شہید ہو گئے۔ یہ اس غزوہ کے پہلے شہید تھے۔یہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ کے بھانجے تھے۔ انہیں شہید کرنے والا ہُذَیْل بِنْ اَبِی صَلْت تھا۔ وہ ان کو شہید کرنے کے بعد تکبر سے قلعہ سے باہر نکلا اور اس کا خیال تھا کہ مسلمان اس واقعہ سے خوفزدہ ہو چکے ہوں گے اور کچھ نہیں کر سکیں گے لیکن جونہی وہ قلعہ کے دروازے سے باہر نکلا تو حضرت یزید بن زمعہؓ کے بھائی یعقوب بن زمعہ جو قلعہ کے دروازے کے قریب ہی چھپے ہوئے تھے انہوں نے اس کو دبوچ لیا اور پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ میرے بھائی کا قاتل ہے۔ چنانچہ اس کو قتل کر دیا گیا۔(دائرہ معارف سیرت محمدﷺ جلد9صفحہ351تا354،بزم اقبال لاہور)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ229تا230نفیس اکیڈمی)
یہ تفصیلات ابھی چل رہی ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ مزید بیان ہوں گی۔
نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا مکرم ڈاکٹر سید شہاب احمد صاحب کا ہے جوآجکل کینیڈا میں تھے۔ بنیادی طور پر انڈیا کے تھے۔ گذشتہ دنوں میں چھیانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ آگے بھی ان کی نسل ہے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے صحابی حضرت سید ارادت حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف صوبہ بہار کے نواسے تھے۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم ایس سی کی۔ پھر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ایم اے کیا۔ بعد ازاں گلاسگو یونیورسٹی سکاٹ لینڈ سے اسی مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1968ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر کینیڈا چلے گئے وہاں یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسرکلینیکل سائیکالوجی کا مضمون پڑھایا۔ نو سال تک یہ کلینیکل سائیکالوجسٹ کے طور پر پریکٹس کرتے رہے۔ مرحوم کومختلف وقتوں میں ہندوستان اور کینیڈا میں جماعت کی خدمت کی بھی توفیق ملی۔آپ لمبا عرصہ تک سسکاٹون جماعت کے صدر بھی رہے۔ اس سے پہلے سیکرٹری تبلیغ کے طور پر بھی فعال خدمت کی توفیق پائی۔ پھر ایڈمنٹن میں سیکرٹری اشاعت کے علاوہ تربیت اور تعلیم کے شعبوں میں خدمت بجا لاتے رہے۔ کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ کئی بیعتیں کروانے کی ان کو توفیق ملی۔ جماعت احمدیہ کینیڈا کی تاریخ انگریزی زبان میں لکھی جارہی ہے اس کی ایک حد تک اصلاح کی بھی ان کو توفیق ملی۔ سسکاٹون کینیڈا میں کئی بین المذاہب کانفرنس منعقد کروانے کی توفیق ملی جس سے وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے تک جماعت کا پیغام پہنچا۔ آپ کو مختلف اداروں میں اسلام اور احمدیت پر تقاریر کرنے کا بھی موقع ملا۔ مختلف لائبریریوں میں جماعت کی کتابیں بھی رکھوائیں۔ ایک علمی شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام احمدیت کی تائید میں انگریزی اور اردو زبان میں آپ کے مختلف مضامین بھی جماعتی اخبارات اور رسائل کے علاوہ دیگر اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔ ان کا ایک اہم کارنامہ صوبہ بہار انڈیا کی تاریخ احمدیت کو مرتب کرنا بھی ہے۔ آپ کی دو کتب ہیں صوبہ بہار کے اصحابِ احمد اور صوبہ بہار کے شہدائے احمدیت اور چند ابتدائی مخلصین۔ یہ دو کتابیں شائع بھی ہوچکی ہیں۔ اچھی کتابیں ہیں۔ صوبہ بہار کے احمدیوں سے مسلسل رابطہ کیا اور ان کے حالات جمع کیے اورآپ کی ایک تیسری کتاب ’’صوبہ بہار میں احمدیت‘‘ بھی مکمل ہو چکی ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔ ایک نیک متقی بزرگ اور ایک مثالی احمدی تھے۔ ہمیشہ اسلامی احکامات کی پابندی کرنا اپنا اوّلین فرض سمجھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے ان کا گہرا عقیدت اور فدائیت کا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے سید مبارک کہتے ہیں کہ پوری زندگی کا انہوں نے صرف ایک ہی مقصد بنایا اور وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا۔ چنانچہ پنجگانہ نمازوں کے بہت پابند تھے۔ عبادت کا ایک خاص شغف تھا۔ پڑھنے لکھنے اور سیکھنے کا بھی ان کو بہت شوق تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں بھی نئی کتابیں خریدتے تھے اور بڑھاپے کے باوجود جمعہ کی نماز کے لیے باقاعدگی سے جاتے اور وفات سے ایک ہفتہ پہلے بھی ویسٹرن کینیڈا کے جلسہ میں شامل ہوئے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا اور مختلف قصبوںمیں جا کے تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ہر معاملے میں خلیفہ وقت سے راہنمائی لیتے تھے۔ ان کے بڑے خط مجھے بھی آیا کرتے تھے۔ کتابیں بھی اپنی لکھی ہوئی بھیجا کرتے تھے۔ چندہ جات میں ہمیشہ سب سے آگے رہتے۔ زندگی کے آخری چار سالوں میں اپنی آمدنی کا پانچواں حصہ وصیت میں پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
دوسرا ذکر ہے مبارک کھوکھر صاحب لاہور کا جو انشاء اللہ کھوکھر صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں اکاسی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم بھی موصی تھے۔ افضل کھوکھر صاحب شہید گوجرانوالہ کے سب سے چھوٹے بھائی اور اشرف کھوکھر صاحب شہید کے چچا تھے۔ دو شہید ہیں ان کے خاندان میں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ انہوں نے ہی ان کی شادی کروائی۔ ان کا رشتہ کروایا اور خلافت سے پہلے بھی ان کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر ہی آپ نے کراچی میں اپنا کاروبار شروع کیا اور بڑا کامیاب کاروبار رہا۔ جماعتی لحاظ سے کوئی ایسی اہم خدمت تو ان کے سپرد نہیں ہوئی لیکن جماعتی خدمت کے لیے جب بھی ان کو بلایا جاتا یہ فوراً حاضر ہو جاتے۔ جماعت اور خلافت کے ساتھ نہایت گہری عقیدت رکھتے تھے۔ نہایت ملنسار ،شفیق اور لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنے والے تھے، اسے دور کرنے کی کوشش کرتے۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر تعلیمی وظیفہ بھی انہوں نے جاری کیا ہوا تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
