خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ19؍ ستمبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گذشتہ خطبات میں طائف کی جنگ کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس موقع پر ایک صحابی جو ان سے بات کرنے کے لیے گئے تھے اور طائف والوں نے اس کی ضمانت بھی دی تھی کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن جب وہ قلعہ کے قریب گئے تو انہیں شہید کر دیا گیا اور ان لوگوں نے عہد شکنی کی لیکن اہلِ طائف کی اس عہد شکنی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی کوشش ترک نہیں فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ حضرت حَنْظَلَہ بِنْ رَبِیعکو اہلِ طائف کی طرف بھیجا۔ وہ جب قلعہ کے قریب پہنچے اور بات چیت کا پیغام بھیجا تو ان کے کچھ لوگ گفتگو کے لیے باہر آئے اور حضرت حَنْظَلَہ نے کہا کہ تم لوگ مصالحت چاہتے ہو کہ نہیں؟ وہ لوگ کچھ کہنے کی بجائے حضرت حَنْظَلَہ پر حملہ آور ہوئے اور انہیں پکڑ کر قلعہ میں لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو حَنْظَلَہ کو بچا کر لائے گا؟ اس کو ہمارے تمام مجاہدین جتنا اجر اور ثواب ملے گا جو بھی ان کو لے کے آئے گا۔ اس پر حضرت عباسؓ دوڑتے ہوئے گئے اور مشرکین کے چنگل سے حضرت حَنْظَلَہ کو چھڑا کر لے آئے۔ واپسی پر دشمن نے قلعہ سے پتھر بھی برسائے لیکن یہ کفار کی سنگ باری سے محفوظ رہے۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ 352-353،بزم اقبال لاہور)
جیسا کہ گذشتہ خطبات میں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اہلِ طائف اور ھَوَازن کے اہلِ مکہ اور خاص طور پر قریش سے خاندانی اور گہرے معاشی تعلقات تھے۔ ایک دوسرے سے شادی بیاہ کے ذریعہ بھی تعلقات تھے۔ اس بنا پر مصالحت کے لیے حضرت ابوسفیان بن حربؓ اور حضرت مُغِیْرَہ بن شُعْبہؓ قلعہ کے اندر گئے لیکن انہیں بھی کامیابی نہ ہوئی البتہ قلعہ والوں نے یہ درخواست کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ ہمارے باغات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اللہ کی خاطر اور رشتہ داری کی خاطر انہیں ویسے ہی رہنے دیا جائے۔ خود کسی معاہدے پر عمل نہیں کرنا لیکن درخواست کر رہے ہیں کہ ہم پر رحم کیا جائے۔ یہ ذکر ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست پر ان کے باغات کو تلف کرنے کا حکم واپس لے لیا تھا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ358-359،بزم اقبال لاہور)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ ایک بے مثال پہلو ہے کہ آپؐ نے اتنی اعلیٰ ظرفی اور حوصلہ مندی کا ثبوت دیا کہ کئی دنوں سے محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی جنگی چال تھی کہ اگر باغوں کے کاٹنے کا حکم ہوتا تو جنگ کا پلڑا مسلمانوں کی طرف جھک سکتا تھا لیکن جب انہوں نے خدا کا واسطہ دیا اور صلہ رحمی کا واسطہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست مان لی اور بظاہر ایک بہت بڑا جنگی نقصان قبول کر لیا۔
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کروایا کہ جو غلام قلعہ کی فصیل سے اتر کر ہمارے پاس آ جائے گا وہ آزاد ہو گا۔ اس پر تیئس غلام اتر کر مسلمانوں سے آ ملے۔ اہل طائف اس پر بہت رنجیدہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ ان میں سے ایک ایک آدمی کو آپؐ نے ایک ایک مسلمان کے سپرد کیا اور کفالت کی ذمہ داری اس مسلمان پہ ڈالی۔(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃجلد4صفحہ11تا13دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)(سبل الھدیٰ و الرشادجلد5صفحہ384دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کے متعلق یہ بھی نصیحت فرمائی کہ ان کو اچھی طرح دین سکھایا جائے۔ کچھ عرصہ بعد جب اہلِ طائف نے اسلام قبول کر لیا تو انہوں نے اپنے انہی غلاموں کی بات کی تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے غلام ہمیں واپس لوٹا دیے جائیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست ردّ کر دی۔ ان غلاموں میں سے بعض نے تاریخ اسلام میں نیکی تقویٰ میں نام پیدا کیا جن میں سے ایک حضرت اَبُوبَکْرَہؓ بھی تھے۔(غزوہ حنین ازباشمیل صفحہ235-236نفیس اکیڈمی)
ایک موقع پر عُیَیْنَہ بن حِصْنْ فَزَارِی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ وہ قلعہ کے اندر جا کر بنو ثقیف کو اسلام کی دعوت دے۔ عُیَیْنَہ بن حِصنْ کا تعارف یہ ہے کہ یہ غزوۂ احزاب کے موقع پر کفار کی طرف سے بنوفَزَارَہ کا سردار تھا۔ غزوۂ احزاب میں کفار کی شکست کے بعد بھی اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر سے باہر نکل کر اس کے حملے کو روکا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا تھا اور اس میں شرکت بھی کی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ بظاہر مسلمان تھا ۔ غزوہ حنین اور طائف میں بھی شرکت کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں باغی مرتدوں کے ساتھ یہ بھی فتنہ ارتداد کا شکار ہو گیا اور مدعی نبوت اور باغی طُلَیحہ کی طرف مائل ہو گیا اور اس کی بیعت کر لی اور اس کے ساتھ مل کر اسلامی فوجوں کے ساتھ اس نے جنگ کی یعنی اسلامی فوجوں کے خلاف جنگ کی اور جب بری طرح شکست کھا کر قیدی بن کر حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے ندامت کا اظہار کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو معاف کر دیا اور یہ دوبارہ اسلام لے آیا اور اس وقت اس نے یہ بھی کہا کہ اس سے پہلے تو میں کبھی بھی ایمان نہ لایا تھا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اکھڑ مزاج اور ترش رو شخص تھا۔ اپنے قبیلے کا مشہور جنگجو اور سردار تھا۔ اس کے متعلق آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو الاحمق المطاع فرمایا تھا یعنی ایسا لیڈر اور راہنما ہے جو احمق ہے۔
بہرحال جب اس نے کہا کہ میں جاتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دے دی اور عُیَیْنَہ قلعہ میں ان لوگوں کے پاس پہنچا اور اسلام کی دعوت دینے کے بجائے بنو ثقیف سے کہنے لگا تم لوگ مضبوطی کے ساتھ اپنے قلعہ میں ڈٹے رہو کیونکہ ہماری حیثیت تو ایک غلام سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ دیکھو! کسی حال میں بھی اپنا قلعہ نہ چھوڑنا اور نہ کسی بات سے متاثر اور پریشان ہونا۔ جب عُیَیْنَہ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا عُیَیْنَہ! تم نے ان لوگوں سے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا میں نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت کی اور دین کی دعوت دی۔ دوزخ سے ڈرایا اور جنت کا راستہ بتلایا جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بابت بذریعہ وحی اطلاع دے دی تھی کہ یہ وہاں کیا کہہ کے آیا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم نے ان لوگوں سے یہ یہ کہا ہے اور آپ نے عُیَیْنَہ کی وہ ساری باتیں دہرا دیں جو اس نے وہاں کہی تھیں۔ یہ سنتے ہی عُیَیْنَہ حیران رہ گیا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سچ کہتے ہیں۔ میں اپنی اس حرکت پر آپ سے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 168، جلد2صفحہ376دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)( اصابہ جلد4 صفحہ639دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)( الاستیعاب جلد3صفحہ317دارالکتب العلمیۃ 2002ء)(حضرت سیدناابوبکرصدیق ازمحمد حسین ہیکل صفحہ139بک کارنر شوروم)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ 360-361 بزم اقبال لاہور)
لیکن ایمان بہرحال ابھی بھی پوری طرح قائم نہیں ہواتھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کی صورتحال کے پیش نظر حضرت نَوْفَل بِن مُعَاویَہ دَیْلِیْ سے مشورہ کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے لومڑی اپنے بھٹ میں گھسی ہوئی ہو۔ اس پر کھڑے رہیں گے تو پکڑ لیں گے اور چھوڑ دیں گے تو وہ نقصان کی طاقت نہیں رکھتی۔ لومڑی اپنی غار میں چلی جاتی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرما لیا اور حضرت عمرؓ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ ان شاء اللہ کل واپسی ہو گی۔(تاریخ الطبری جلد دوم صفحہ 172دار الکتب العلمیۃ بیروت1987ء)(الرحیق المختوم مترجم اردو صفحہ 568مکتبہ السلفیہ لاہور 2002ء)
معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت صرف مشورہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خاص راہنمائی یا اشارہ ملا تھا تو آپؐ نے یہ محاصرہ اٹھا لیا۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی مہمات میں یہ پہلا موقع تھا کہ بظاہر اتنی اہم اور ضروری فتح کو بظاہر ادھورا چھوڑ کر آپ واپس جا رہے تھے۔
تبصرہ کرنے والے اور روایات لکھنے والے جو بھی لکھیں بہرحال ہم نے تاریخ میں یہ دیکھا ہے کہ اس سے زیادہ مشکل اور ناممکن معرکوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر معمولی فتح اور نصرت سے نوازا تھا۔ بنو قریظہ اور خیبر کی فتوحات اس کی روشن مثالیں ہیں۔ حنین کی مثال بھی اس وقت قریبی مثال تھی اسے کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ حنین کے موقع پر بعض مکہ والوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکست کا یقین تھا اور ان میں سے ایک گروہ تو دراصل آپ کی شکست کا تماشا دیکھنے کے لیے ساتھ ہو لیا تھا لیکن اس وقت بھی ایک یقینی شکست کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز غیر معمولی اور تاریخی فتح عطا فرمائی تھی اور طائف میں تو وہی بھاگا ہوا اور شکست خوردہ لشکر ہی چھپا ہوا تھا اور دبکا ہوا بیٹھا تھا۔ اس سابقہ نصرتِ الٰہی کے نظاروں کی روشنی میں طائف کو فتح کرنا بھی کوئی زیادہ مشکل اور ناممکن امر نہیں تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر اس ہار کو تسلیم کیا اور محاصرہ ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔ تو دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک بہت تابناک پہلو ہمیں نظر آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ لشکر کشی بھی دراصل کسی نفسانی جوش کے تحت نہیں تھی۔ مالِ غنیمت حاصل کرنے یا زمینوں کو فتح کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک حرکت اور سکون اور قول و فعل خدائے علیم و خبیر کی مرضی کے تابع تھا
اور آپ کی ساری زندگی اسی آیت کی مصداق تھی کہ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام:163)
تُو ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
طائف کے محاصرے کے موقع پر دو باتیں ایسی ہوئی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ راہنمائی مل گئی تھی کہ یہ محاصرہ ختم کر دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً محاصرہ ختم کرنے کا اعلان فرما دیا۔ اس ضمن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خواب کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ طائف کے محاصرہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اے ابوبکر! میں نے آج خواب میں دیکھا ہے کہ ایک برتن میں مکھن بھرا ہوا میرے پاس تحفہ میں آیا ہے۔ پھر ایک مرغ نے چونچ مار کر اس برتن کو گرا دیا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا میرا خیال تو یہ ہے کہ اس مرتبہ آپ ثقیف سے جو چاہتے ہیں وہ حاصل نہ کر سکیں گے۔ یہ قبیلہ تھا۔ یعنی یہ جو محاصرہ کیا ہوا ہے اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلے گا جو ہمارے حق میں ہو یا ہم نے سوچا ہوا ہے۔ فتح ملنی مشکل لگتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے خیال میں بھی اس کا حصول فی الحال اس طرح ناممکن ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ793دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ366بزم اقبال لاہور)
اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ خَوْلَہْ بنت حَکِیْم ان کا نام خَوَیْلَہْ بھی آیا ہے جو حضرت عثمان بن مَظْعُوْن ؓکی بیوی تھیں، انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر اللہ تعالیٰ آپؐ کو طائف کی فتح نصیب کرے تو بَادِیَۃ بنت غَیْلَانْ یا فَارِعَہ بنت عَقِیْل کا زیور مجھ کو عنایت فرمائیں کیونکہ تمام ثقیف میں ان عورتوں کے برابر کسی عورت کے پاس قیمتی زیور نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے خَوْلَہْ! ثقیف پر فتح پانے کی اگر مجھے اجازت ہی نہ دی گئی تو پھر کیا؟ حضرت خَوْلَہْ ؓوہاں سے نکلیں اور حضرت عمرؓ سے اس کا ذکر کیا۔ حضرت عمرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیایا رسول اللہ! خَوْلَہ کیسی بات کر رہی ہے؟ وہ کہتی ہے کہ یہ بات آپؐ نے ان سے فرمائی ہے۔ فرمایا ہاں! میں نے یہ کہی ہے۔ حضرت عمرؓ فوراً سمجھ گئے اور عرض کیا۔ کیا ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس فتح کے بارے میں یا اس جنگ کو جاری رکھنے کے بارے میں اذن نہیں دیا گیا؟ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر میں لوگوں کو کوچ کرنے کے لیے کہہ دوں۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ چنانچہ اجازت ملنے پر حضرت عمرؓ نے کوچ کا، یہاں سے واپسی کا اعلان کروا دیا۔(سبل الھدیٰ و الرشادجلد5 صفحہ387دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء )(اسد الغابہ صفحہ 1509مکتبہ دار ابن حزم)
جب اس واپسی کا اعلان ہوا تو اس اعلان پر بعض لوگوں نے یہ اظہار کیا کہ ہم بغیر فتح کے کیونکر لوٹ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض جوشیلے نوجوانوں کا یہ ردِّ عمل تھا۔ پہلے تو وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کریں کہ فتح ہونے تک ہم محاصرہ جاری رکھیں لیکن انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی فیصلہ فرمایا ہے وہ درست ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے اس بات کو کہنے کا انکار کر دیا۔ اس پر یہ جذباتی نوجوان خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے جذباتی انداز میں عرض کیا کہ حضور ہم لڑیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش پر فرمایا کہ ٹھیک ہے کل صبح لڑو۔ چنانچہ وہ لوگ اگلے دن لڑنے کے لیے نکلے تو انہیں سوائے زخموں کے اور کچھ نہ ملا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم ان شاء اللہ کل واپس روانہ ہوں گے یعنی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ زخمی ہو کے واپس آگئے تو ان سب نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور اب ان کی رائے میں تبدیلی دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیے۔(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلد4 صفحہ13تا14 دار الکتب العلمیۃ بیروت1996ء )( دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ367-368 بزم اقبال لاہور)
اس غزوہ میں کفار کے تین لوگ قتل ہوئے۔ البتہ ان کے زخمیوں اور مزید مقتولین کی بابت کوئی زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں کیونکہ یہ لوگ قلعہ کے اندر ہی محصور رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے زخمیوں کی بھی معین تعداد معلوم نہیں ۔کچھ زخمیوں کی بابت تفصیل ملتی ہے۔ جیسے مشرکین کی تیر اندازی سے زخمی ہونے والوں میں ایک حضرت ابوسفیان بن حربؓ کا ذکر ملتا ہے۔ ایک تیر ان کی آنکھ میں آ کر لگا جس سے ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔ یہ سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس حال میں کہ ان کی آنکھ ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے آپؐ سے عرض کیا یا رسول اللہ! میری یہ آنکھ اللہ کے راستے میں جاتی رہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کروں گا اور تمہاری یہ آنکھ واپس اپنی جگہ پر ٹھیک ہو جائے گی اور اگر آنکھ نہ چاہو تو تمہیں جنت میسر آئے گی۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عَیْن یعنی آنکھ نہ چاہو تو جنت میں تمہیں عَیْن یعنی چشمہ آبِ رحمت میسر آئے گا۔ عربی زبان میں عَیْن کے ایک معنی آنکھ کے ہوتے ہیں اور چشمہ کو بھی عَیْن کہتے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا مجھے جنت ہی عزیز ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھ پھینک دی۔ یہ وہی ابوسفیان ہیں کہ جو فتح مکہ تک اسلام کے شدید دشمن تھے اور جنگ احد میں کفار کی فوج کے سپہ سالار بھی تھے اور اب مسلمان ہونے کے بعد بھی قربانیوں میں پیش پیش نظر آ رہے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کی دوسری آنکھ جنگ یرموک میں ضائع ہو گئی تھی۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ373بزم اقبال لاہور)(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 164 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)(منجد مترجم صفحہ 596 زیر لفظ عَیْن مکتبہ القدوسیہ)
اسی طرح ایک دوسرے صحابی کا ذکر ملتا ہے وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے عبداللہ تھے۔ ان کا زخم اتنالمبا چلا اور جان لیوا ثابت ہواکہ آخر اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں اسی زخم کے نتیجہ میں ا ن کی وفات ہو گئی۔(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ169دار الکتب العلمیۃ بیروت1423ھ)
اس غزوہ میں بارہ صحابہ شہید ہوئے جن کے اسماء یہ ہیں۔ حضرت سعید بن سعید بن عاصؓ، حضرت عُرفُطَہ بن جَنَّابؓ، حضرت عبد اللّٰہ بن اَبِی اُمَیَّہؓ، حضرت عبد اللہ بِنْ عامرؓ، حضرت سَائبْ بن حارثؓاور ان کے بھائی عبداللہ بن حارث، حضرت جُلَیْحَہ بن عبداللّٰہؓ، حضرت ثابت بن جَذَعؓ، حضرت حارِث بن سَہْلؓ، حضرت مُنْذِر بن عبد اللّٰہ ؓ، حضرت رُقَیْم بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ جو بعد میں وفات پا گئے تھے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ794-795دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس غزوہ میں آپ کی دو ازواج مطہرات حضرت اُمّ سَلَمَہؓ اور حضرت زینبؓ تھیں۔ ان دونوں کے لیے دو خیمے نصب کیے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محاصرہ کے دوران ان دونوں خیموں کے درمیان نماز ادا فرماتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعدجزء 2 صفحہ120غزوۃ رسول اللہؐ الطائف دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا کتنے روز محاصرہ کیا تھا اس بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں دس سے کچھ زائد راتیں محاصرہ کیا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سترہ راتیں محاصرہ کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیس دن محاصرہ کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ نے بیس سے کچھ زائد راتیں محاصرہ کیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس کے قریب راتیں اہلِ طائف کا محاصرہ کیا۔ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ہم نے چالیس راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ792 ذکر غزوة الطائف بعد حُنَین دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5 صفحہ388 فی غزوۃ الطائف دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم علی الاسلام حدیث نمبر 2442)
بہرحال جب روانگی کا وقت آیا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پڑھتے ہوئے واپس لوٹو۔ آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ ہم لوٹنے والے ہیں۔ توبہ کرنے والے ہیں۔ عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے ربّ کی تعریف کرنے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنو ثقیف کے لیے بددعا کریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت حوصلہ اور رحمت کا یہ عالم تھا کہ بظاہر مقصد حاصل کیے بغیر جا رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کے بجائے یہ دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَاْتِ بِھِمْ مُسْلِمِیْنَ۔ اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں مسلمان بنا کر لے آ۔
اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپسی کے لیے سوار ہوئے تو دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِھِمْ وَاَکْفِنَا مُؤْنَتَھُمْ۔ اے اللہ! ان کو ہدایت عطا فرما اور ان کی سپلائی اور رسد کے مقابلے پر تُو ہمارے لیے کافی ہو۔ کیونکہ آپ کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ بھولی بھٹکی مخلوق اپنے خالق کی طرف رجوع کر لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ یہی طائف والے ابھی سال بھی نہیں گزرا تھا کہ رمضان نو ہجری میں سارے کے سارے مسلمان ہو گئے۔(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃجلد4صفحہ15تا 18دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک جگہ اس بارے میں بیان فرمایا ہوا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)طائف کی طرف روانہ ہوئے۔ وہی شہر جن کے باشندوں نے پتھراؤ کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر سے نکال دیا تھا۔ اس شہر کا آپ نے کچھ عرصہ تک محاصرہ کیا لیکن پھر بعض لوگوں کے مشورہ دینے پر کہ ان کا محاصرہ کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں سارے عرب میں اب صرف یہ شہر کر ہی کیا سکتا ہے آپ محاصرہ چھوڑ کر چلے آئے اور کچھ عرصہ کے بعد طائف کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ357)
حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کا بھی ذکر ملتا ہے کہ پانچ ذوالقعدہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے جِعْرَانہ تشریف لائے جہاں تمام قیدی اور اموال غنیمت جمع تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر ان قیدیوں سے حسن سلوک کا یہ عالَم تھا کہ ان کی رہائش کے لیے عارضی تعمیرات کی گئی تھیں تا کہ سردی گرمی کی شدت سے بچا ؤ ہو سکے۔(سبل الھدیٰ و الرشادجلد5 صفحہ640 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ265نفیس اکیڈمی)
اموالِ غنیمت کی تفصیل اس طرح سے تھی کہ چھ ہزار غلام اور لونڈیاں تھیں۔ ان کی رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ بعض روایات میں آٹھ ہزار بھی بیان کیا جاتا ہے۔ آج کی جنگوں کی طرح نہیں ہیں جو دشمنی کرتے ہیں کہ بنے ہوئے گھر اجاڑ دیتے ہیں۔ گرا دیتے ہیں جو آجکل اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ بلکہ ان کے لیے آپؐ نے رہائشیں تعمیر کروائیں چھ ہزار سے آٹھ ہزار تھے۔ چوبیس ہزار اونٹ تھے مالِ غنیمت میں۔ چالیس ہزار سے زائد بھیڑ بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی جو کہ قریباً چار سو نوے کلو گرام بنتی ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی مسلمانوں کو اس قدر مالِ غنیمت نہیں ملا تھا۔ ایسے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ ؓکی تربیت کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے مالِ غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے اعلان فرمایاکہ اس مال میں سے سوائے خمس کے میرا حق بھی وہی ہے جس کا تم میں سے ہر کوئی حق دار ہے اور وہ خمس بھی آخر تمہارے پاس ہی پلٹ آئے گا۔ اس کے بعد فرمایا۔ سوئی اوراس کا دھاگہ یا اس سے بھی چھوٹی چیز اگر کسی کے پاس ہے تو وہ واپس کر دے۔ خیانت سے بچو کیونکہ روز قیامت یہ خیانت کرنے والے کے لیے باعثِ عار اور ایک دھبہ ثابت ہو گی۔ یہ اعلان سن کر ایک صحابی اونٹ کے بالوں سے بنی ہوئی رسّی کا ایک گولہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے پھٹی ہوئی زین سینے کے لیے یہ دھاگہ مالِ غنیمت میں سے لے لیا تھا اور ایک اور صحابی نے مال غنیمت میں سے ایک سوئی اٹھا کر اپنی بیوی کو دی تھی۔ وہ یہ اعلان سن کر فوراً اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے وہ سوئی لے کر مالِ غنیمت میں واپس رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم کرنے کی ابتدا کی تو آغاز تالیف قلبی سے کیا۔ یہ عرب کے بڑے لوگ تھے جن کو آپ نے پہلے دیا۔ اپنے اپنے قبیلوں میں شرف اور بزرگی کا مقام رکھتے تھے۔ آپ نے ان کو مانوس کرنے کے لیے عطایا دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو ایک سو اونٹ دیے کسی کو پچاس اونٹ دیے۔ چاندی اور غلام اس کے علاوہ تھے۔
ایک سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوسفیان بن حرب کو ایک سو اونٹ دیے۔ ابوسفیان جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چاندی کا ایک ڈھیر لگا ہوا دیکھا تو دیکھ کر کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ تو قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور ابوسفیان کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ دیے جانے کا ارشاد فرمایا۔ ابوسفیان نے کہا میرے بیٹے یزید کو بھی عطا فرمائیں آپ نے اس کے لیے بھی چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دیے جانے کا ارشاد فرمایا۔ یہ یزید ابوسفیان کا بیٹا تھا۔ عام طور پر جس بدنام زمانہ یزید کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے وہ ابوسفیان کا پوتا تھا یعنی حضرت معاویہ کا بیٹا تھا۔ ابوسفیان کہنے لگا یا رسول اللہؐ! میرے دوسرے بیٹے معاویہ کو بھی آپ کچھ دیں۔ آپ نے اس کے لیے بھی چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دینے کا ارشاد فرمایا۔ اس پر ابوسفیان کہنے لگا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپ کریم ہیں۔ میں نے آپ سے جنگیں کی ہیں اور آپ کیا ہی اچھے جنگجو ہیں۔ پھر میں نے آپ سے صلح کی اور آپ کیا ہی اچھے صلح کرنے والے ہیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃجلد 4صفحہ18-19دار الکتب العلمیۃ بیروت1996ء)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ396دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(دائرہ معارف جلد9صفحہ289 بزم اقبال لاہور)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ217، 273-274نفیس اکیڈمی)
مکہ کے معززین اور شرفاء میں سے ایک حکیم بن حِزَام بھی تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ جو حکیم بن حِزام کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کو امان دی جائے گی۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے بھائی کے بیٹے تھے انہیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ عطا فرمائے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سو اَور مانگے تو آپ نے وہ بھی مجھے عطا فرمائے۔ میں نے مزید سو مانگے تو آپ نے مجھے مزید سو اونٹ عطا فرمائے۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حکیم! یہ مال اچھا اور شیریں ہے۔ اچھا مال ہے۔ جو اس کو نفس کی بے رغبتی سے لے گا تو اس میں برکت ہو گی اور جو اس کو نفس کی حرص اور لالچ سے لے گا تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔ وہ اس آدمی کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ یعنی لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا ایسا اثر ہوا کہ اسی وقت عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی قَسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے آج کے بعد مرتے دم تک میں کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا اور بعض روایات کے مطابق انہوں نے وہ دو سو اونٹ جن کا سوال کیا تھا وہ بھی واپس کر دیے اور پھر زندگی بھر اپنے اس عہد پر قائم رہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگا بلکہ یہاں تک اس پر کاربند رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب کوئی مال دیتے تو یہ لینے سے انکار کر دیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں مال دینے کے لیے بلایا۔ اسلامی فتوحات کے نتیجہ میں بہت سے اموال آیا کرتے تھے تو خلفاء صحابہ ؓکو بطور عطیہ ان میں سے دیا کرتے تھے لیکن حضرت حکیم بن حزامؓ نے لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تمام حاضرین سے مخاطب ہو کر کہاکہ لوگو گواہ رہنا۔ میں نے ان کا حق انہیں دیا تھا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ303-304بزم اقبال لاہور)( السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 170دارالکتب العلمیۃ 2002ء)(اصابہ جلد2صفحہ97دارالکتب العلمیۃ بیروت1995ء)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش و عطا سے فیضیاب ہونے والوں میں سے ایک مکہ کا ایک سردار صفوان بن امیہ بھی تھا۔ یہ وہی صفوان تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ حنین کے لیے زرہیں اور ہتھیار مستعار لیے تھے اور یہ مشرک ہونے کی حالت میں ہی غزوۂ حنین میں بھی شامل ہوا تھا۔(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ 273نفیس اکیڈمی)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ316دارالکتب العلمیۃ1993ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ 236 بزم اقبال لاہور)
بعض روایات کے مطابق صفوان دل میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ کاش! ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا موقع مل جائے یا مخالف دشمن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو شکست دے دیں ۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ321دارالکتب العلمیۃ1993ء)لیکن اسی جنگ میں ہی اس کے دل کی کایا پلٹنے لگی اور جب اموالِ غنیمت کی تقسیم کا وقت آیا تو آپ نے اس کو سو اونٹ عطا فرمائے بلکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق تین سو اونٹ عطا فرمائے۔ ایک اَور روایت ہے کہ انہی دنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھاٹی سے گزرے جس میں مالِ غنیمت کے اونٹ اور بکریاں تھیں اور وہ وادی ان اونٹوں اور بکریوں سے بھری ہوئی تھی۔ صفوان اس قدر مال دیکھ کر حیرت زدہ ہو کر دیکھنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اَبُووَہْب! یہ صفوان کی کنیت تھی۔ اس گھاٹی نے تجھے تعجب میں ڈال دیا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ سارا مال تمہارا ہوا۔ تم لے لو۔ صفوان نے بے ساختہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں کیونکہ اس طرح کی عطا کوئی نبی ہی کر سکتا ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق صفوان بن امیہ خود بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مجھے حنین کے اموالِ غنیمت دیتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ساری مخلوق سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ساری مخلوق سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف سرداران عرب کو عطا فرماتے رہے۔ ان سب کی تعداد پچاس سے زائد بیان کی گئی ہے۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی سخائہ روایت 2313 )(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃجلد4صفحہ 21 دار الکتب العلمیۃ1996ء)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ396 دارالکتب العلمیۃ1993ء)
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابتؓ کو باقی لوگوں کو بلانے کا ارشاد فرمایا اور ان میں مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔ ہر ایک کے حصے میں چار اونٹ یا چالیس بکریاں آئیں اور یوں آپؐ نے وہ مالِ غنیمت جو ابھی تک کا سب سے زیادہ مال تھا سارے کا سارا لوگوں میں تقسیم فرما دیا۔(شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلد4صفحہ27 دار الکتب العلمیۃ1996ء)(غزوہ حنین از باشمیل صفحہ270نفیس اکیڈمی)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 9 صفحہ 289، 323 بزم اقبال لاہور)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ پہلو قابل غور ہے کہ مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جنگوں کے متعلق یہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلمان چونکہ غریب اور مال و دولت سے محروم تھے اس لیے جنگیں شروع کی گئیں۔ اگر اس بات میں تھوڑی سی بھی حقیقت ہوتی تو جنگ حنین کے اموال غنیمت کی تقسیم کچھ اَور طریقے سے ہوتی لیکن یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مالِ غنیمت کا ایک بھاری حصہ تالیفِ قلب کے لیے غیروں کو دیا گیا۔(ماخوذ از سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول صفحہ 396، حصہ چہارم صفحہ 247مکتبہ اسلامیہ 2012ء)
قریش کے امراء کو دیا گیا بلکہ بعض روایات کے مطابق تو سارے کا سارا مال دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا گو اس میں مصالح کچھ بھی ہوں لیکن یہ تو دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کچھ بھی نہیں رکھا بلکہ بعض روایات کے مطابق جس کی تفصیل آگے آئے گی کہ اپنے جاں نثار اور وفادار ساتھیوں یعنی انصار مدینہ کو بھی اس مال غنیمت میں سے کچھ نہیں دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اموال دینے کی ایک حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: إِنِّيْ أُعْطِيْ قُرَيْشًا أَتَأَلَّفُهُمْ، لِأَنَّهُمْ حَدِيْثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍکہ میں قریش کو دے کر ان کے تالیف قلب کا سامان کر رہا ہوں کیونکہ انہیں کفر سے تعلق توڑے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ایمان اتنا مضبوط نہیں ہے۔(صحیح بخاری،کتاب فرض الخمس ، بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ…حدیث 3146)
بخاری کی ایک اَور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيْثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ، وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ وَأَتَأَلَّفَهُمْ(صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غزوۃ الطائف 4334) کہ قریش کے کفر اور تباہی اور بربادی کی مصیبت کا زمانہ نیا نیا گزرا ہے۔ میرا مقصد ان کے نقصان کی تلافی اور ان کی دلجوئی کرنا ہے۔ اور پھر اس پرحکمت تقسیم اور نوازشات کے ایسے بابرکت اثرات سامنے آئے کہ وہ جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے اب ان کے لیے دنیا بھر میں سب سے زیادہ افضل اور محبوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو گئے۔ وہ جو پہلے اسلام کو ختم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے تھے اب اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہو گئے اور ان میں سے کئی وہ تھے جو بعد میں اسلامی جنگوں میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے اور ان سب کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔(دائرہ معارف سیرت محمدﷺجلد9صفحہ298-299 بزم اقبال لاہور)
اس موقع پر کچھ منافقین نے اموال کی تقسیم میں اعتراض کرتے ہوئے بے ادبی اور گستاخی کا مظاہرہ بھی کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اتہام لگایا کہ نعوذ باللہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف سے کام نہیں لیا اور نہ ہی خدا کی رضا کے مطابق کام کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول بھی انصاف سے کام نہیں لے گا تو کون ہے جو عدل و انصاف کرے گا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ میرے بھائی موسیٰ پر رحم کرے انہیں اس سے بھی بڑی بڑی تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائی گئیں اور انہوں نے صبر سے کام لیا۔ اسی طرح ایک اَور شخص جس کا نام ذُوالْخُوَیْصِرَہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے جو آج کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا کیا دیکھا ہے۔ کہنے لگا آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا برا ہو اگر میرے پاس عدل نہیں تو کس کے پاس ہے؟ اس پر حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ممکن ہے یہ شخص نماز پڑھتا ہو۔ اب یہ بھی کوئی یقینی بات نہیں لیکن اس شک پہ ہی کہ ممکن ہے یہ نماز پڑھتا ہو اس لیے میں کس طرح کہہ سکتا ہوں اس کی گردن اڑاؤ۔ آجکل کے مسلمانوں کے عمل دیکھیں کیا ہیں۔ اس پر حضرت خالدؓ نے عرض کیا۔ کیا کوئی نمازی ایسی بات کہہ سکتا ہے جو اس کے دل میں نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالد! مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دل چیر کر یا سینے چاک کرکے دیکھوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ شخص اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا۔ ایمان ان کا سطحی ایمان ہے اور یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے اس طرح آر پار ہو جاتا ہے کہ تیر پر خون کا ذرا سا بھی نشان نہیں ہوتا۔ تم ان کی نماز اور روزہ کے مقابلے پر اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانو گے یعنی وہ بظاہر لمبی لمبی اور باقاعدہ نماز پڑھنے والے ہوں گے اور روزہ رکھنے میں بھی متشدد ہوں گے۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ 404-405دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)( السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ173-174دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
بہت سارے مسلمانوں کے عمل اور خاص طور پر علماء کہلانے والوں کے عمل آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ہو رہے ہیں۔ اس کی پہلے ہی آپؐ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ شارحین بیان کرتے ہیں کہ یہی شخص فتنہ خوارج کے بانیوں میں سے ہوا اور حضرت علیؓ کے زمانے میں یہ گروہ سامنے آیا اور پھر حضرت علیؓ نے ان کے خلاف جہاد کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس طرح ان لوگوں کے بارے میں بیان فرمایا تھا بعینہٖ وہ اسی طرح کے نکلے۔(ماخوذاز عمدۃ القاری جلد 15صفحہ 345 داراحیاء التراث2003ء)(ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری جلد 6صفحہ 159دارالفکر2010ء)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ذوالخُویصرہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا ۔ اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم )جو کچھ آپ نے آج کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے کیا دیکھا‘‘ ہے؟ ’’اس نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ نے آج ظلم کیا ہے اور انصاف سے کام نہیں لیا۔‘‘ نعوذ باللہ۔ ’’آپ نے فرمایا تم پر افسوس!اگر میں نے عدل نہیں کیا تو پھر اور کون انسان دنیا میں عدل کرے گا۔ اس وقت صحابہؓ جوش میں کھڑے ہوگئے اور جب یہ شخص مسجد سے اٹھ کر گیا تو ان میں سے بعض نے کہا یا رسول اللہ !یہ شخص واجب القتل ہے۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم اسے مار دیں؟‘‘ اب توہین رسالت کے بارے میں بڑی باتیں کرتے ہیں تو یہاں بھی دیکھ لیں۔ ’’آپ نے فرمایا اگر یہ شخص قانون کی پابندی کرتا ہے تو ہم اس کو کس طرح مار سکتے ہیں۔‘‘ یعنی جو ہمارے قاعدے قانون ہیں ان کی پابندی کر رہا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی ضرورت نہیں مارنے کی۔ ’’صحابہ ؓنے کہا یا رسول اللہ! ایک شخص ظاہر کچھ اَور کرتا ہے اورا س کے دل میں کچھ اَور ہوتا ہے۔ کیا ایسا شخص سزا کامستحق نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ میں لوگوں سے ان کے دلوں کے خیالات کے مطابق معاملہ کروں۔ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے ان کے ظاہر کے مطابق معاملہ کروں۔
پھر آپ نے فرمایا یہ اور اس کے ساتھی ایک دن اسلام سے بغاوت کریں گے۔‘‘
ہاں یہ میں بتا دوں کہ مَیں اب تو کچھ نہیں سزا دے رہا لیکن بغاوت کریں گے تو پھر وہ سزا بھی پائیں گے۔ ’’چنانچہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں یہ شخص اور اس کے قبیلہ کے لوگ ان باغیوں کے سردار تھے جنہوں نے حضرت علیؓ سے بغاوت کی اور خوارج کے نام سے آج تک مشہور ہیں۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 358)
