خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ26؍ ستمبر 2025ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گذشتہ خطبہ میں حنین کے اموالِ غنیمت کی تقسیم کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس ضمن میں مزید تفصیل

بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اموالِ غنیمت تقسیم فرمائے اور مجاہدین کو ان کے حصے بھی عطا فرما دیے تو جو خُمس تھا وہ البتہ کم و بیش سارے کا سارا آپ نے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْب کے لیے سردارانِ قریش اور دیگر عرب سرداروں میں تقسیم کر دیا کہ کسی کو سو اونٹ دیے اور کسی کو پچاس اونٹ۔ اتنی کثرت سے دوسروں کو مال دیے جانے پر انصار کے بعض نوجوانوں نے اس کو محسوس کیا اور یوں سمجھا کہ جیسے اپنی خدمات اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ حقدار تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ يَغْفِرُ اللّٰهُ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، يُعْطِیْ قُرَيْشًا وَيَدَعُنَا وَسُيُوْفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَآئِهِمْ کہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشش سے نوازے آپ قریش کو نواز رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں۔ یہ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا۔ کہتے ہیں حالانکہ ہماری تلواروں میں سے ان دشمنوں کا خون ٹپک رہا ہے۔(بخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبھم 3147)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 396 دارالکتب العلمیۃ1993ء)( دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ290بزم اقبال لاہور)

اسی طرح ان میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ جب حالات سخت اور نامساعد ہوں تو ہمیں بلایا جائے اور مالِ غنیمت ہمارے علاوہ اَوروں کو دیا جائے۔(صحیح ابن حبان کتاب السیرباب ذکر ما یستحب للامام ان یدعو انصارہ صفحہ1287 حدیث4769دارالمعرفہ بیروت2004ء)

ان باتوں کا علم جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپؐ نے انصار کے رئیس حضرت سَعْد بِنْ عُبَادَہؓ کو بلایا۔ بعض کے نزدیک یہ ساری بات بتانے والے بھی حضرت سعدؓ ہی تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:فَاَیْنَ اَنْتَ مِنْ ذٰلِکَ یَا سَعْد۔ سعد! تمہاری اس کے متعلق کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میں بھی اپنی قوم ہی کا فرد ہوں۔ مجھے بھی یہ بات اثر کر سکتی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو فرمایا کہ تمام انصار کو اکٹھا کرو۔ چنانچہ سب ایک خیمہ میں جمع ہوئے۔ کچھ مہاجرین بھی شامل ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے صرف انصار کو بلایا ہے اور مہاجرین کو وہاں سے واپس بھیج دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے انصار کی جماعت! جو بات تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے وہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس با ت پر انصار کے صائب الرائے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے سمجھدار لوگوں میں سے کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی البتہ کچھ جذباتی نوجوانوں نے کہا ہے کہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش فرمائے آپؐ قریش کو نواز رہے ہیں اور ہم آپؐ کی عطا سے محروم ہیں جبکہ ہماری تلواروں سے ان دشمنوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر ہونے والے احسانات اور انعامات کا ذکر کرتے ہوئے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :اے انصار !کیا مَیں جب تمہیں ملا تھا تو میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا اور پھر اللہ نے میرے ذریعہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم پراگندہ اور منتشر قوم تھے اور ایک دوسرے کے دشمن تھے، اللہ نے میرے ذریعہ سے تمہارے اندر باہمی الفت اور محبت پیدا کر دی اور تم نادار اور محتاج تھے اور اللہ نے میری وجہ سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی بات کرتے انصار اس پر کہتے۔ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَمَنُّ۔ کہ یہ سب اللہ اور اس کے رسول کا احسان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی طرف سے جب یہ جواب سنا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے۔ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ !ہم کیا جواب دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو مجھے یہ جواب دے سکتے ہو اور تم سچ کہہ رہے ہو گے اور تمہاری بات کی تصدیق کی جائے گی۔ تم کہہ سکتے ہو کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا اور آپ کی تکذیب کی گئی تھی لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی اور آپ بے یارومددگار تھے اور لوگوں نے آپ کو نظر انداز کیا تھا لیکن ہم نے آپ کی مدد کی اور ان لوگوں نے آپ کو اپنے شہر سے نکال دیا تھا لیکن ہم نے آپ کو پناہ دی اور آپ کثیرالعیال تھے اور ہم نے آپ کی غم خواری کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر کوئی انصاری بھی نہ بولا۔ سب کے سب سر جھکائے آپ کی باتیں سن رہے تھے اور شرمندہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو یہ بھی بتایا کہ میں نے کیوں قریش کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ تو پہلے اسلام قبول کر چکے تھے اور اسلام و ایمان تمہارے دلوں میں خوب راسخ ہو چکا تھا لیکن قریش میں اکثر لوگ فتح مکہ کے موقع پر نئے نئے مسلمان ہوئے تھے بلکہ متعدد تو ایسے تھے کہ جو ابھی تک اسلام سے وابستہ نہیں ہوئے تھے اور پرانے اہل ایمان کی نسبت یہ نو مسلم صلہ رحمی اور انعام و اکرام کے زیادہ مستحق تھے تا کہ اسلام ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جائے اور قریش اس لیے بھی اس انعام کے حقدار تھے کہ کثیر جنگوں میں ان کا بہت کچھ ضائع ہو چکا تھا اس لیے میرا مقصد یہ تھا کہ ان کی دلجوئی کی جائے اور یہ پوری طرح اسلام اور ایمان کے دائرے میں آ جائیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ چیز پسند نہیں کہ لوگ تو بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ؟ اللہ کی قسم !جس سعادت کو تم لے جا رہے ہو وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ لوگ لے کر جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ چلنا پسند کروں گا۔ یعنی میں انصار کے گروہ میں شامل ہوں گا۔ فرمایا کہ لوگ میرا بیرونی لباس ہیں جبکہ انصار میرا اندرونی لباس ہیں یعنی کپڑا جو جسم کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انصار !میرے بعد تم اپنے اوپر اَوروں کو ترجیح پاتے دیکھو گے لیکن تم صبر کرنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر تمہاری مجھ سے ملاقات ہو جائے یعنی قیامت والے دن ملاقات ہو گی اور سرداری تمہیں نہیں ملے گی۔ آخر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما۔ انصار کی اولاد پر رحم فرما اور انصار کی آئندہ نسلوں پر بھی رحم فرما۔

راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ خطاب فرما رہے تھے اور انصار روتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ یہی کہتے چلےجا رہے تھے کہ رَضِیْنَابِرَسُوْلِ اللّٰہِ قِسْمًاوَحَظًّا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم اور اپنے حصے پر دل و جان سے راضی ہیں۔

( صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب ما کان النبیؐ یعطی المؤلفۃ قلوبھم… حدیث 3147)(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف…حدیث4331)(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ192-193 عالم الکتب)(السیرۃ النبویہ کما جاءت فی الاحادیث الصحیحۃ جلد4 صفحہ 81 مکتبہ العبیکان ،الریاض 2014ء)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 403 دارالکتب العلمیۃ1993ء)( دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ293-298 بزم اقبال لاہور)

کبھی بے دھیانی میں کی گئی بات بہت دوررَس نتائج رکھتی ہے۔ ہرچند کہ رسول اللہ ﷺکی تقسیم پر انصار کے نوجوانوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا لیکن سب نے نہیں کیا تھا لیکن یہ خدا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی ناراض کرنے والی بات تھی کہ انصار کو رہتی دنیا تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے جن کی نگاہیں بوجہ ایمان سے پوری طرح روشناس نہ ہونے کے ابھی دنیا ہی کی طرف تھیں۔ اس کے بعد کی ایک جنگ میں کچھ اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اموال ان لوگوں میں تقسیم کردیئے۔ ایک انصاری نوجوان نے کسی مجلس میں کہاکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے ۔ آپ کو اس کا علم ہواتو اکابر انصار کو بلایا اور دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات پہنچی ہے۔ انصار رو پڑے اور کہا کہ کسی نادان نے کی ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں اے انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس وقت جگہ دی جب اسے کوئی جگہ نہ دیتا تھا اور اس کے شہر والوں نے اسے نکال دیا تھا۔ پھر اس کےلیے عزت اور فتح مندی حاصل کی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں کوبانٹ دیئے۔ اس پر انصار کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے پھر کہا کہ یارسول اللہ !ہم ایسا نہیں کہتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم اسی بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ جس شخص کوخدانے تمام دنیا کی ہدایت کےلیے مبعوث کیا وہ مکہ کی چیز تھی مگر خدا اسے مدینہ میں لے گیا او رپھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکہ کو اس کےلیے فتح کیا۔ اس وقت مکہ والوں کاخیال تھا کہ ان کی چیز انہیں مل جائے گی مگر مکہ والے بھیڑ اور بکریوں کو لے گئے اور مدینہ والے خدا کے رسول کولے کر اپنے شہر کی طرف چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: بےشک یہ بات ایک نادان کے منہ سے نکلی ہے مگر اس کی وجہ سے اب تمہیں اس دنیا کی حکومت نہیں مل سکتی۔ اب تمہاری خدمات کا بدلہ تمہیں حوض کوثر پر ہی ملے گا۔ دیکھ لو’’آپؓ فرماتے ہیں دیکھ لو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ‘‘تیرہ صدیاں گزرچکی ہیں اور چودھویں صدی گزر رہی ہے’’بلکہ اب تو وہ بھی گزر گئی۔‘‘اس عرصہ میں ہرقوم ہی اسلام کی بدولت بادشاہ بنی ہے مگر کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہوسکا۔ سو بعض اوقات ایک شخص کاقول ساری قوم کےلیے نقصان کا موجب ہو سکتا ہے۔’’(خطبات محمود جلد17صفحہ728خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4دسمبر1936ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ اپنے ایک خطبہ میں بیان کیا اور اسے بیان کر کے جماعت کو جو نصیحت فرمائی وہ آج بھی ہمارے لیے اسی طرح اہم ہے جیسے اس وقت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں کوئی عہدہ ملے یا دولت وغیرہ ملے وہ ہرگز میرے بلانے پر یعنی خلیفہ وقت کے بلانے پر قربانی کے لیے نہ آئیں بلکہ وہی لوگ آئیں جو خدا کے لیے قربانی کرتے ہیں کیونکہ میں تو خود کمزور اور بیمار انسان ہوں۔میں کسی کا احسان نہیں اٹھا سکتا۔ پس میں اپنے لیے نہیں مانگتا ۔ جو خدا تعالیٰ کےلیے دیتا ہے وہ دے اورخدا تعالیٰ اس کا بدلہ بھی دے گا۔خدا تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہیے اگر وہ چاہے تو اس دنیا میں دے دے اوراگر وہ چاہے تو آخرت میں دے۔بہرحال جو اخلاص سے قربانی کرتا ہے اس کی قربانی ضائع نہیں جاتی۔ مومن کی قربانی کو کوئی ضائع نہیں کرسکتا۔ پس قربانی کرنے والے وہی لوگ ہیں جو خدا کو مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ دنیا کو۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد17صفحہ 728-729، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4دسمبر 1936ء)

پس ہمیشہ قربانی اور عہدے کے لیے خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنا چاہیے تبھی وہ خدا تعالیٰ کے اصل انعامات کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔ ایک عمر پر پہنچ کر افراد جماعت میں بھی یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمارا اتنا تجربہ ہے، ہم نے اتنا کام کیا ہےہمیں اس کا ریوارڈ ملنا چاہیے جو نہیں دیا جاتا۔ وہ سوچیں کہ کیا صرف دنیا کا ریوارڈ لینا ہے یا اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بننا ہے؟

انصار اللہ کا اجتماع بھی آج سے ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں جب تجربہ حاصل ہو جاتا ہے تو اس حوالے سے خیال آتا ہے۔ اس لیے انصار کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں اپنے تجربہ اور خدمت کے حوالے سےکوئی خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے جھٹک دے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

اس موقع پر اعرابیوں بدوؤں کی بے صبری کا بھی ذکر ملتا ہے۔ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت کچھ بدو لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور مال کا مطالبہ کرنے لگے۔ ان کے ہجوم کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک بھی ایک خاردار جھاڑی سے اٹک گئی اور کچھ دھکم پیل ہونے لگی تو آپ نے فرمایا میری چادر تو مجھے واپس دے دو اور پھر ان کانٹوں بھرے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر ان کانٹوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو وہ بھی میں سب تم میں تقسیم کر دیتا اور تم مجھے بخیل، جھوٹ بولنے والا اور بزدل نہ پاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدوؤں کی اس بدتہذیبی پر انہیں کوئی سرزنش نہیں کی، نہ ناراض ہوئے بلکہ مسکراتے ہوئے احسن رنگ میں ان کی تربیت فرمائی اور انہیں مال سے بھی نوازا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ299بزم اقبال لاہور)

حضرت مصلح موعودؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اِن جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مغلوب دشمنوں کے جرمانوں اور میدانِ جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں سے جمع ہوئے تھے حسبِ دستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے لیکن اس موقع پر آپ نے بجائے ان اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے مکہ اور اِردگرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ ان لوگوں کے اندر ابھی ایمان تو پیدا نہیں ہوا تھا بہت سے توا بھی کافر ہی تھے اور جو مسلمان تھے وہ بھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے یہ ان کے لیے بالکل نئی چیز تھی کہ ایک قوم اپنا مال دوسرے لوگوں میں بانٹ رہی ہے۔ اِس مال کی تقسیم سے بجائے ان کے دل میں نیکی اور تقویٰ پیدا ہونے کے حرص اَور بھی بڑھ گئی۔’’ بعض لوگوں میں۔‘‘ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمگھٹا ڈال لیا اور مزید مطالبات کے ساتھ آپ کو تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ دھکیلتے ہوئے وہ آپ کو ایک درخت تک لے گئے اورر ایک شخص نے تو آپ کی چادر جو آپ کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی پکڑ کر اِس طرح مروڑنی شروع کی کہ آپ کا سانس رکنے لگا۔ آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر میرے پاس کچھ اور ہوتا تو میں وہ بھی تمہیں دے دیتا تم مجھے کبھی بخیل یا بزدل نہیں پاؤ گے۔ پھر

آپؐ اپنی اونٹنی کے پاس گئے اور اس کا ایک بال توڑا اور اسے اونچا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے تمہارے مالوں میں سے اِس بال کے برابر بھی ضرورت نہیں سوائے اس پانچویں حصہ کے جو عرب کے قانون کے مطابق حکومت کا حصہ ہے اور وہ پانچواں حصہ بھی میں اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا بلکہ وہ بھی تمہیں لوگوں کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اور یاد رکھوکہ خیانت کرنے والا انسان قیامت کے دن خدا کے حضور اس خیانت کی وجہ سے ذلیل ہو گا۔

لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے خواہشمند تھے کیا بادشاہوں اور عوام کا ایسا ہی تعلق ہوا کرتا ہے؟ کیا کسی کی طاقت ہوتی ہے کہ بادشاہ کو اس طرح دھکیلتا ہوا لے جائے اور اس کے گلے میں پٹکہ ڈال کر اس کو گھونٹے؟اللہ کے رسولوں کے سوا یہ نمونہ کون دکھا سکتا ہے مگر باوجود اس طرح تمام اموال غرباء میں تقسیم کرنے کے پھر بھی ایسے سنگدل لوگ موجود تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کو انصاف کی تقسیم نہیں سمجھتے تھے۔’’(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ357-358)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق عمومی طریق کار

تو یہ تھا کہ مال غنیمت میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ الگ فرما لیتے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صوابدید پر تقسیم فرماتے یا خرچ فرماتے تھے اور باقی کا سارا مال شاملین کے درمیان تقسیم فرما دیتے تھے جس میں پیدل اور گھڑسوار کے الگ الگ حصے ہوتے تھے لیکن حنین کے اموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق جب کچھ انصار کی طرف سے یہ سوال یا اعتراض کیا گیا کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں دیا اور دوسروں کو دے دیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا آپؐ نے جنگ میں شامل ہونے والوں کو مالِ غنیمت میں سے کچھ بھی نہیں دیا تھا یا صرف ان کا حصہ دیا تھا اور باقی اموال دوسروں میں تقسیم کیا تھا۔ بہرحال جو ہماری تحقیقی ٹیم ہے وہ کہتے ہیں ہم نے سیرت کی جو ابتدائی اور معتبر کتب دیکھی ہیں کسی میں بھی وضاحت سے اس کا جواب نہیں دیا گیا البتہ ان کے خیال میں تاریخ و سیرت کی کتب کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شاملین کو ان کا حصہ رسدی دیا تھا جو ہر ایک کو چار اونٹ یا چالیس بکریوں کی صورت میں دیا گیا اور گھڑ سواروں کو اس کا حصہ دیا گیا اور یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے تالیف قلب کے لیے لوگوں کو اموال عطا فرمائے تھے لیکن یہ بھی امکان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال غنیمت میں سے کسی کو بھی کچھ نہ دیا ہو یعنی عام دستور کے مطابق یہ اموال شاملین جنگ میں تقسیم نہ کیے گئے ہوں اور سارے اموال دوسرے لوگوں میں تالیف قلب کے طور پر تقسیم کر دیے گئے ہوں۔ اس کی تائید بھی تاریخ و سیرت کی متفرق کتب سے ہوتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے ایک اقتباس سے بھی یہی تاثر ملتا ہے جیساکہ ابھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ‘‘ان جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مغلوب دشمنوں کے جرمانوں اور میدان جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں سے جمع ہوئے تھے یعنی جیسا کہ بتایا ہے حسب دستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے لیکن اس موقع پر آپ نے بجائے ان اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے مکہ اور ارد گرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔’’

احادیث میں روایات ملتی ہیں کہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے دوران ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش ہو جاؤ۔ وہ بدو کہنے لگا آپ نے بہت دفعہ یہی کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ۔ گویا آپؐ نے دیا کچھ نہیں۔ بس کہتے ہی رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا یہ ردعمل بہت ناگوار گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے اپنا چہرہ مبارک ہٹا لیا اور وہاں ابو موسیٰ اشعری اور بلال کھڑے تھے ان کی طرف اپنا چہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے تو خوشخبری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اب تم قبول کر لو۔ دونوں نے سنا تو فوراً بولے یا رسول اللہ! ہم نے قبول کر لی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کاپیالہ منگوایا اور اس میں اپنا ہاتھ اور منہ دھویا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچا ہوا پانی حضرت ابوموسیٰؓ اور حضرت بلال ؓکو دیتے ہوئے فرمایا تم دونوں اس پانی کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر بھی ڈال لو اور خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ یہاں

ازواجِ مطہرات کے اخلاص اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے برکت کے حصول کی تشنگی کا ایک عجیب اور قابلِ رشک نظارہ

بھی نظر آتا ہے۔ لکھا ہے کہ قریب ہی خیمہ میں ام المومنین حضرت اُمِّ سَلَمَہ بھی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا واقعہ حضرت ام سلمہ کے خیمے کے قریب ہی ہوا تھا۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے انہیں یعنی جو دو صحابہ تھے حضرت بلال اور حضرت ابوموسیٰ، اُن سے کہ اپنی ماں کے لیے بھی پانی بچانا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہؓ کے لیے بھی کچھ پانی پیالے میں چھوڑ دیا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف…حدیث:4328)( ماخوذاز دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ 300 بزم اقبال لاہور)

روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ دیکھا جو دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یہ مجھے دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی توقف کے وہ اس کو دے دیا۔ وہ یہ ریوڑ لے کر اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ لوگو !محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آؤ ۔ وہ تو اتنا دیتا ہے کہ اس کو فقر اور فاقہ کا کوئی ڈر ہی نہیں ہوتا۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بھی اسی موقع کا ہے۔ یہ حدیث ہی کی روایت ہے۔ بہرحال اور واقعات بھی ہیں جو ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوں گے۔(صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ باب فی سخائہﷺحدیث: 2312)( دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ300 بزم اقبال لاہور)

اس وقت میں بعض مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جمعہ کے بعد جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر ہے مکرم فہیم الدین ناصر صاحب کا جو مبلغ سلسلہ رومانیہ تھے۔

گذشتہ دنوں باون سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا حضرت مرزا علم دین صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ قادیان کے قریب واقع گاؤں لودھی ننگل کے امام مسجد نور محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے آئے۔ انہوں نے واپس گاؤں میں آ کر اعلان کیا کہ امام مہدی آ گئے ہیں اور سچے ہیں ان کو مان لو۔ اس کے بعد بذریعہ خط بیعت کرنے والوں میں مرزا علم دین بھی تھے۔ فہیم الدین ناصر صاحب نے جون 1996ء میں جامعہ پاس کیا۔ پھر ان کا پاکستان میں مختلف جگہوں پہ تقرر ہوا اور پھر انہوں نے تفسیر قرآن میں تخصص بھی کیا۔ 2006ء میں ان کو رومانیہ بھجوایا گیا اور وفات تک یہ وہیں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔

ان کی اہلیہ نصیرہ فہیم لکھتی ہیں کہ ایک مثالی شوہر تھے۔ میرے جذبات و احساسات کو میرے کچھ کہے بغیر جان لیتے تھے۔ بڑا خیال رکھنے والے باپ تھے۔ زندگی کے نمایاں پہلوؤں میں خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق، توکّل، عبادت، دعا، صبر، حوصلہ، حکمت، برداشت، خدمت دین کا شوق اور جذبہ، اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس اور مقررہ وقت پر ہر کام کو مکمل کرنا شامل ہے۔ خلافت سے گہرا محبت اور اخلاص کا تعلق تھا۔ ہر ذاتی اور جماعتی کام سے پہلے خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھتے تھے اور راہنمائی لیتے تھے اور افراد جماعت اور اپنے بچوں کی ہمیشہ اپنے عملی نمونے سے تربیت کی۔ سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ بروقت نمازوں کی ادائیگی، تہجد اور نوافل پڑھنا آپ کا معمول تھا۔ بیماری کی شدت میں بھی نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ رہی اور آخر میں ان کو کینسر ہوگیا تھا تو جب بیماری شدت اختیار کر گئی اور بولنا بھی مشکل تھا تو اشارے سے کہا کہ کاپی لاؤ اور لکھا کہ عبادت اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا ہر مشکل اور پریشانی میں اس کے آستانے پر جھکنا۔ نصیحت فرمائی اپنے بیوی بچوں کو کہ جو بھی ہو جائے تم نے اللہ کا در نہیں چھوڑنا۔ ہمیشہ تلقین کی کہ بس خدا سے مانگنا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہی زندہ تعلق پیدا کرو۔ اسی سے دوستی کرو وہ تمہیں کبھی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔

تبلیغ اور جماعت کا تعارف کروانے کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اپنے ساتھ جماعتی تعارف پر لٹریچر اور فلائرز رکھتے تھے۔ ہسپتال کے ڈاکٹرز کے پاس جاتے تو ان کو بھی تبلیغ کرتے تھے اور اس بات پر بڑا شکر ادا کرتے تھے کہ میں ڈاکٹروں کو بھی تبلیغ کر کے آیا ہوں۔ ہر وقت چہرے پر رہنے والی مسکراہٹ تھی۔ بہت ملنسار تھے۔ آپ کی طبیعت کی وجہ سے ہر کوئی آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ آپ کی وفات کا سن کے مشن ہاؤس کے پاس رہنے والے رومانین ہمسایوں نے روتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا، بڑا صدمے کا اظہار کیا۔ بیماری کے دوران بھی اپنے فرائض منصبی بدستور انجام دیتے رہے یہاں تک کہ وفات سے دو دن پہلے جبکہ صحت نہایت کمزور تھی سانس لینے میں تنگی اور کھانا پینا بھی مشکل تھا جماعتی خطوط کا جواب لکھتے رہے اورکسی ارجنٹ ای میل کا جواب بھی دیا۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ رومانیہ میں جماعت مضبوط ہو اور ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب حکمت عملی کے ساتھ اس کے لیے کوشاں بھی رہتے تھے۔ بچوں سے کہتے تھے کہ تمہارا کردار اور طرز عمل ایسا ہونا چاہیے کہ تبلیغ کا ذریعہ بنے۔ رومانین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کرنا چاہتے تھے۔ ایک ڈیڑھ پارے کا ترجمہ مکمل کر چکے تھے لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے مزید کام نہیں ہو سکا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بھی ترجمہ کر رہے تھے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوکل رومانین افراد کے ساتھ جب بھی آپ کا ملنا ہوتا تو وہ رومانین لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ ان کی زبان بہت شائستہ اور ادبی ہے جو عام طور پر یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر بولتے ہیں۔ وہاں کے لوکل لوگ کہتے تھے کہ ہم نے کسی غیر رومانین کو اتنی اچھی اور عمدہ زبان بولتے نہیں دیکھا۔ بہت اچھی زبان تھی ان کی۔

ان کی والدہ صفیہ بیگم کہتی ہیں کہ مرحوم کے نانا اور نانی دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ مربی صاحب اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ ہر کوئی اس کا ذکر کر رہا ہے۔ حسنِ سلوک اور صبر اور دینی کاموں کے شوق سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا تھا۔ کہتی ہیں بہت فرمانبردار بیٹا تھا۔ ان کے والد نے ان کی پیدائش سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ انہوں نے ایک بچہ اٹھایا ہوا ہے اور اس کو دیکھ رہے ہیں کہ اس کی پیشانی پر چاند اور ستارہ بنا ہوا ہے۔ پھر کہتی ہیں مربی بنا تو تب ہمیں سمجھ آئی کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ ایک دن ضرور چمکے گا۔ 2006ء میں یہ رومانیہ گئے تھے۔ رومانیہ کے پہلے مبلغ تھے اور زبان بھی انہوں نے سیکھی اور بہت عمدہ زبان سیکھی اور وہاں سے گریجوایشن کی ڈگری انہوں نے مکمل کی۔ جماعت کے لیے بڑا کام کیا۔ انہوں نے وہاں جماعت کو رجسٹرڈ کروایا۔ مشن ہاؤس قائم کیا اور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک روز کا روز کام مکمل نہ کر لیں۔

ان کے بھائی رفیع الدین کہتے ہیں میٹرک کے بعد خود ہی بغیر کسی کے کہے جامعہ میں چلے گئے اور وقف کو پھر بہت عمدہ رنگ میں نبھایا اور حقیقت میں نبھایا۔ چھٹی بھی نہیں لیتے تھے۔ کہتے ہیں رخصت بھی نہیں لیتے تھے سوائے ایک دفعہ رخصت لی جب ان کی چھوٹی ہمشیرہ فوت ہوئیں۔

ان کے بیٹے مرزا لبید کہتے ہیں کہ مَیں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مجھے فکر تھی کہ یہ تعلیم مکمل بھی کروں گا کہ نہیں۔ مجھے ہر روز فون کر کے ہمت دلاتے۔ درود شریف پڑھنے، تہجد پڑھنے، دعائیں کرنےکی تلقین کرتے۔ محنت کرنے کی تلقین کرتے اور اس طرح مجھے انہوں نے بہت encourageکیا۔ ان کے دوسرے بیٹے دانش کہتے ہیں کہ جو شخص بھی ایک دفعہ ان سے ملا ان کے وصال کی خبر سن کر رونے لگا اور کہنے لگا کہ وہ نہایت نیک اور پرہیز گار انسان تھے۔ بےحد شفقت کرنے والے تھے۔

لیٹویا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ مرحوم بڑے محنتی، بااخلاق اور خوش مزاج تھے۔ ان کی عاجزی اور انکساری اور سادگی ہر انسان کو ان کا گرویدہ بنا لیتی۔ ان کی طبیعت میں ایک خاص گرمجوشی ہوتی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ ان کے ملک رومانیہ میں بعض دوسرے ممالک کے طلبہ بغرض تعلیم قیام پذیر تھے ان طلبہ سے بھی بہت شفقت اور پیار کا سلوک کرتے تھے۔

تصویر جاوید میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے اب ڈاکٹر بن گئے ہیں۔ کہتے ہیں طلبہ کی روحانی تربیت کے لیے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جہاں احمدی طلبہ پڑھ رہے ہوتے تھے ٹرین یا بس پر کئی کئی گھنٹے سفر کر کے آتے تھے۔ جماعت کے پیسے بچانے کا انہیں بہت خیال رہتا تھا یہاں تک کہ گتوں سےاور مختلف چیزوں کو اکٹھا کر کے خود ہی ڈائس بھی بنا لیا تھا تا کہ جماعتی رقم بچ جائے۔ شدید بیماری میں بھی آخری لمحات تک انہوں نے بڑی مشکل کے باوجود نمازوں کا اہتمام کیا۔ بہت سادہ اور عاجز انسان تھے۔ ہمیں اور بچوں کو بھی انہوں نے شرافت اور عاجزی سکھانے کی کوشش کی۔

رومانیہ سے ایک عزیزم رومان شمس ہیں۔ کہتے ہیں امتحان بڑے مشکل تھے مجھے شک تھا کہ پاس نہیں کر پاؤں گا تو مربی صاحب مجھے تسلی دیتے تھے کہ آپ فکر نہ کرو۔ امتحان سے ہفتہ پہلے میں تمہیں ایسے نکات سمجھاؤں گا کہ تم انشاء اللہ کامیاب ہو جاؤ گے اور ان کا فائدہ ان کو ہوا۔

عدیل عدریان (Adrian) رومانیہ کے ایک نومبائع ہیں، کہتے ہیں میں انہیں ہسپتال میں لے کر آیا تو انہوں نے اگلے دن ایک جماعتی کام کے سلسلہ میں میری مدد طلب کی جس کے لیے قریبی شہر آنا تھا۔ جب ہم کام کے لیے گئے تو راستے میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے ایک موقع پر چند منٹوں کے لیے مربی صاحب نے ایک جذباتی کیفیت میں مجھ سے کہا کہ اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو جائے تو وہ یہیں دفن ہونا چاہتے ہیں تا کہ یہ یاد رہے کہ وہ یہاں رہے اور انہوں نے یہاں رہ کر ایک مثبت تبدیلی پیدا کی۔ پھر لکھتے ہیں کہ صحت مزید خراب ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر کےاور خود سے ایک خط لکھ کر اپنے کام کو جاری رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ ہمیشہ خدا کے دین اور دوسروں کے لیے زیادہ فکر مند رہتے تھے۔ اپنی آخری سانس تک کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں نہیں سوچا۔ پھر یہ نومبائع لکھتے ہیں کہ میں نے مربی صاحب کو اپنا وقت اور نیند دوسروں کے لیے قربان کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ اس بات پر شکر گزار رہتے کہ انہیں دوسروں کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ کہتے ہیں میں نے کبھی ان کے منہ سے کسی کے بارے میں معمولی سی بھی بری بات نہیں سنی۔ رو روکر نہ صرف اپنے اہل خانہ کے لیے بلکہ ہماری رومانیہ جماعت کے لیے اور اس کے اراکین کے لیے بھی دعائیں کیا کرتے تھے۔ کبھی ایک دن کی چھٹی نہیں لی اور نہ ہی کبھی زیادہ آرام کرنا چاہا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ جماعت کی ہر طرح سے بہترین صلاحیتوں کے ساتھ خدمت کریں چاہے اس کے لیے انہیں اپنی نیند یا صحت کی کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ہمیشہ اپنا پورا توکل اللہ تعالیٰ پر کرتے۔ دوسروں کو بھی کثرت سے دعا کرنے اور اس کی مدد پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے اور ترغیب دیتے۔ یہ نومبائع لکھتے ہیں کہ میرے لیے مربی صاحب صرف مربی ہی نہیں تھے بلکہ ایک والد کی طرح تھے۔ وہ میرے لیے غیرمعمولی روحانی راہنما تھے اور ایک بہت اچھے اور قریبی دوست تھے۔

یہ ہیں مربی کی صفات جو اس نومبائع نے بیان کی ہیں اور یہی تربیت اور اپنا نمونہ ہے جو تبلیغ اور تربیت میں آسانیاں پیدا کرتا ہے اور نتائج پیدا کرتا ہے۔ غیر ملک میں دین کی خاطر قربان ہوئے اس لحاظ سے ان کا مقام بھی شہید کا مقام ہی ہے۔ آخری سانس تک اپنے عہد وفا کو نبھایا اور خوب نبھایا۔ ہمیشہ میں نے بھی دیکھا ہے ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہی رہتی تھی۔

مولوی عبیداللہ صاحب جو ماریشس میں میدان عمل میں فوت ہو گئے تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے جماعت کو بھی نصیحت فرمائی تھی کہ ایسے لوگ شہید ہوتے ہیں اور ہمیں مرحوم سے سبق لینا چاہیے۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 8صفحہ263-264خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7دسمبر1923ء)

یقینا ًفہیم ناصر مرحوم کا بھی ایسا ہی ایک کردار تھا۔ اور یہ نمونہ تھا جو ایک سبق ہے اور خاص طور پر واقفینِ زندگی کے لیے یہ سبق ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں اور والدہ کو سب کو صبر عطا فرمائے۔

دوسرا ذکر مکرم عبدالعلیم فاروقی صاحب کا ہے۔ عبدالرشید فاروقی صاحب کینیڈا کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ وفات بھی اس طرح ہوئی کہ تین مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ یہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ اہلیہ اور تین بچیاں نیچے تھیں۔ بیٹا بھی اپنے کمرے میں تھا۔ ڈاکوؤں نے سب کے فون لے لیے۔ مرحوم شور سن کر بیدار ہوئے۔ ایک ڈاکو آپ کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ مرحوم نے ڈاکو کو ڈرانا چاہاتو اس وقت اس نے آپ کے ناک اور کندھے پر ایک ڈنڈے سے ضرب لگائی اور فرار ہو گیا۔ اس وقت مرحوم اپنے بیٹے کے کمرے کی طرف جانے لگے تو ایک ڈاکو جو سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا اس نے آپ پر دو فائر کیے۔ ایک گولی مرحوم کے دل کے قریب لگی اور جسم سے نکل کر دوسری طرف تک چلی گئی۔ موقع پر ہی آپ کی وفات ہو گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ اور حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ کے پڑنواسے تھے۔ جماعت کے فعال ممبر تھے۔ پنجوقتہ نماز اور تہجد میں باقاعدہ تھے۔ پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ اپنے حلقہ میں بطور لوکل سیکرٹری تبلیغ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت حلقہ کے صدر کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

زکریا خان صاحب مشنری انچارج ان کے عزیز تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بڑے نیک طبع اور نافع الناس وجود تھے ۔ ان کو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ نماز تہجد میں باقاعدہ تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کو سنوار کر ادا کرتے۔پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ اپنی مصروفیات کے باوجود دن رات جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے۔ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ خلافت کے ساتھ گہرا وفا کا تعلق تھا۔

ان کی اہلیہ مریم صاحبہ لکھتی ہیں کہ اچھے شوہر تھے۔ ان سے میں نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا۔ تبلیغ کرنے کا ان کو بہت شوق تھا اور حیران کن تبلیغ کا جذبہ تھا۔ ہمیشہ نئے نئے تبلیغی منصوبے سوچا کرتے تھے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے۔ خلافت سے تعلق کا بھی انہوں نے لکھا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ اہل محلہ کے ساتھ بڑا حسن سلوک تھا اور سب ان کے گرویدہ تھے۔ خوش مزاج تھے ۔شفیق تھے۔ گھر میں ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے۔ بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ بیٹی عزیزہ عظمٰی کہتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سےلے کر بڑی بڑی ضروریات تک فکر مند رہتے۔ سارا دن اپنا کام ہوتا تھا یا جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے تب بھی رات کو سونے کے وقت ہمارے کمرے میں آ کر پوچھتے اور ہماری خبر گیری کرتے کہ کیسا وقت گزرا؟ نمازیں وغیرہ پڑھیں کہ نہیں؟ اپنے بارے میں بھی بتاتے۔ تو ایک دوستانہ ماحول ہمارے ساتھ تھا۔

بیٹے عزیزم کظیم کہتے ہیں۔ ہمارے لیے والد رول ماڈل تھے اور کہتے ہیں میں کوشش کروں گا ان شاءاللہ کہ ان کے رستے پہ چلوں۔ تبلیغ کے لیے ہم روزانہ ہر ہفتے اتوار کے دن جایا کرتے تھے۔ جہاں بھی موقع ملتا تبلیغی سٹال لگاتے اور مجھے انہوں نے حفظ قرآن بھی کروایا۔ شجر فاروقی صاحب جو یہاں ہیں ان کے یہ بھتیجے تھے۔ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے ساری خوبیاں بیان کی ہیں۔ بڑے صاف دل، نیک سیرت اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان تھے اور عمرہ بھی ان کو کرنے کی توفیق دی تو وہاں بھی لوگوں نے کہا کہ ہم نے ان میں عبادت میں شغف اور توجہ ایسی دیکھی ہے جو قابل تعریف ہے۔ بیٹیوں کی تربیت کی فکر ان کو رہتی تھی۔ پندرہ سال کی بیٹی تھی تو میرے سے پوچھا کہ اس کو فون لے کے دینا چاہیے کہ نہیں اور پھر جب میری ہدایات ان کو ملیں تو اس کے مطابق انہوں نے اس پر عمل کیا۔ ہر چیز کو باریکی سے دیکھنے والے تھے۔ لازمی چندوں کے علاوہ دیگر مالی تحریکات میں بہت وسیع حوصلے سے بڑھ چڑھ کر خدمت کرتے تھے۔ پاکستان میں غریبوں کی خدمت کے لیے بھی بڑی رقم بھجوایا کرتے تھے۔ ان کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ میرا بچہ جماعت کا فدائی، خلافت سے والہانہ محبت رکھتا تھا۔ ہر چیز میں سچ کو اہمیت دیتا تھا۔ ہر چھوٹے بڑے سے محبت کا سلوک کرتا تھا۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ ہر اتوار کو تبلیغ کے لیے جاتا۔ تہجد گزار اور دوسروں کی مدد کرنے والا تھا اور کہتی ہیں نماز باجماعت کا اتنا شوق تھا کہ بعض دفعہ مجھے اپنے کام سے فون کر کے کہتا تھا کہ اگر آپ نے نماز نہیں پڑھی تو انتظار کریں میں آ رہا ہوں ہم اکٹھے نماز پڑھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ والدہ اور بیوی بچوں کو صبر عطا فرمائے۔ ان کی اولاد ان کے نیک نمونے اور ان کی خواہشات پر چلنے والی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں