خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ اکتوبر 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے بعد اور مدینہ واپس آنے کے بعد بھی بعض مہمات پیش آئیں جن کا مَیں ذکر کروں گا۔ ایک ذکر ہے سَرِیَّہْ قَیْس بن سعد بن عُبَادَہ کا۔ یہ صُدَاء کی طرف سنہ آٹھ ہجری میں ہوا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جِعْرانہ سے مدینہ واپس آئے تو آپؐ نے دعوتِ اسلام کے لیے مختلف علاقوں کی طرف لشکر روانہ کیے۔ چنانچہ مُہَاجِرْ بِنْ اَبِیْ اُمَیَّہ کو صَنْعَاء جو یمن کا دارالحکومت ہے اس کی طرف اور زِیاد بن لَبِیْد کو حَضْرَمَوْت کی طرف روانہ فرمایا اور ایک لشکر تیار کیا جس کا امیر قیس بن سعد کو مقرر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس بن سعد کو چار سو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تا کہ وہ یمن کے قبیلہ صُدَاء کو اسلام کی دعوت دیں۔ دوسرے قول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ قبیلہ صُدَاء سے قتال کریں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے، اگر یہ خبر صحیح ہے، بات صحیح ہے، اور یہ روایت زیادہ صحیح لگتی ہے تو پھر یقینا ًاس قبیلہ کی طرف سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی خبریں آئی ہوں گی جس پر آپؐ نے یہ قدم اٹھایا۔ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک سفید جھنڈا باندھا اور ایک سیاہ پرچم ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے قَنَاۃ وادی کے ایک جانب پڑاؤ ڈالا۔ قَنَاۃ مدینہ اور احد کے درمیان مدینہ کی تین مشہور وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ حضرت قیسؓ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عُبادةؓ کے بیٹے تھے۔ حضرت قیس بن سعدؓ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت سَعد بن عُبادةؓ سے جھنڈا واپس لیا تھا تو ان کے اسی بیٹے قیس کو دیا تھا۔ یہ بہت صائب الرائے اور بہادر شہسوار سمجھے جاتے تھے۔ جُودو سخا میں بھی بہت مشہور تھے۔
حضرت قیس قَنَاۃمیں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے کہ قبیلہ صُدَاءکے ایک شخص زِیاد بن حَارِثْ کا ادھر سے گزر ہوا۔ یہ کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہو چکا تھا۔ جب اس کو علم ہوا کہ یہ لشکر ان کے قبیلے پر حملہ کرنے جا رہا ہے تو اس وقت اس کو حیرانی کیوں نہیں ہوئی؟ یقینا ًاس کو پتہ ہو گا کہ یہ قبیلے والے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور یہ اب اس کے جواب میں آ رہے ہیں۔ بہرحال جب اس نے یہ دیکھا کہ ان کے قبیلے پر حملہ ہونے جا رہا ہے تو وہ وہاں سے سیدھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آپ نے جو لشکر بھیجا ہے وہ واپس بلا لیں۔ میں اپنی قوم کی ضمانت دیتا ہوں اوراس کے قبولِ اسلام کا بھی وعدہ کرتا ہوں۔ یعنی ایک ضمانت تو یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے، نقصان نہیں پہنچائیں گے اور دوسرا اسلام بھی آہستہ آہستہ قبول کر لیں گے۔ آپؐ نے اس کی بات قبول کرتے ہوئے لشکر کو واپس بلا لیا۔ اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علاقہ فتح کرنے کی غرض سے یا قوم کو زیر نگیں کرنے کی غرض سے آپ نے نہیں بھیجا تھابلکہ اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا تھا اور مسلمانوں کو محفوظ کرنا مقصد تھا اور جس طرح حضرت زِیاد بن حَارِثْ نے وعدہ کیا تھا انہوں نے اس پر عمل کیا اور گاہے گاہےان کی قوم کے لوگ اسلام قبول کرتے رہے۔ اگر صرف زبردستی مسلمان کرنا مقصود ہوتا تو آہستہ آہستہ سمجھ آنے پر اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔ سیدھا کہا جاتا کہ یا اسلام قبول کرلو یا تلوار ہے۔ بہرحال اس کے بعد جب انہوں نےآہستہ آہستہ تبلیغ کی تو اسلام بھی انہوں نے قبول کر لیا کیونکہ ایک حملہ کرنا، زبردستی مسلمان بنانا تو اسلام کی تعلیم کے بھی خلاف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فعل اور سنت کے بھی خلاف ہے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیادؓ کو ہی ان کا امیر مقرر کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم کو ایک امان نامہ بھی لکھ کر دیا تھا۔(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ28۔29دارالکتب العلمیۃ1996ء)(سبل الھدیٰ والرشاد، جلد6صفحہ349-350، جلد5صفحہ222دارالکتب العلمیۃ 1993ء)(نور اليقين في سيرة سيد المرسلين صفحہ 247 المکتبۃ العصریۃ للطباعۃ والنشر 2000ء)(فرہنگ سیرت صفحہ239زوار اکیڈمی پبلیکیشنزکراچی2003ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ 387تا389بزم اقبال، لاہور)
اور جو مسلمان ہو جائے اس کو امان نامہ لکھ کر دینے کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے لکھا تھاکہ ان میں سے بعض مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
سَریَّہ حضرت عُیَیْنَہ بن حِصْن فَزَارِی بطرف بنی تَمِیْم۔ اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ محرم نو ہجری میں بَنُو تَمِیْمْ کی طرف حضرت عُیَیْنَہ بن حِصْن کی قیادت میں ہوا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بِشْر بِن سُفیانؓ کو قبیلہ خُزَاعہ کی شاخ بنو کعب کی طرف صدقات یعنی اموالِ زکوٰة کی وصولی کے لیے بھجوایا۔ یہ لوگ سُقْیَاء اور بنوتمیم کی زمین کے درمیان آباد تھے۔ چنانچہ حضرت بِشْر بِن سُفیانؓ کے حکم پر بنو خُزَاعہ کا مال ہر طرف سے ان کے پاس جمع ہونے لگا۔ بنو تمیم جو مسلمان نہیں تھے انہیں یہ اموال بہت زیادہ لگے تو وہ کہنے لگے کہ یہ کیوں ناحق تمہارے اموال لے رہا ہے؟ اور اپنی تلواریں نکال لیں۔ بنو خزاعہ نے کہا کہ ہم نے دین اسلام قبول کر لیا ہے اور یہ ہمارے دین کا حکم ہے ہم دے رہے ہیں۔ تمہیں کیا تکلیف ہے؟ لیکن بنو تمیم نے کہا کہ یہ بِشْر بِن سُفیانؓکسی اونٹ تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جھگڑے اور جنگ و جدال کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت بِشْر بِن سُفیانؓ بغیر کسی قسم کی وصولی کے خود ہی وہاں سے واپس چلے آئے۔ یہ بات بنو خُزاعہ پر نہایت گراں گزری، بہت برا لگا انہیں۔ بنوخُزاعہ نے بنو تمیم پر حملہ کیا اور یہ کہتے ہوئے انہیں وہاں سے نکال دیا کہ اگر تمہاری رشتہ داری نہ ہوتی تو تم اپنے شہروں تک نہ پہنچ پاتے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ضرور ہمیں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب یہ ایسی بات جو تم نے کی ہے اور ہم نے زکوٰۃ نہیں دی۔ تم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے سے اعراض کیا اور اسے ہمارے اموال کی زکوٰة لینے سے روک دیا۔
دوسری طرف حضرت بِشْر بِن سُفیانؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو حالات سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون اس قوم کو سبق سکھائے گا؟ سب سے پہلے حضرت عُیَیْنَہ بن حِصْن نے لبیک کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُیَیْنَہ بن حِصْنکو پچاس عرب شہسواروں کے ہمراہ بنو تمیم کی طرف روانہ فرمایا جن میں مہاجرین اور انصار میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔ عُیَیْنَہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ وہ رات کو چلتے اور صبح کو چھپ جاتے حتی کہ وہ صحرا میں پہنچ گئے جہاں بنو تمیم فروکش تھے اور اپنے مویشی چرا رہے تھے۔ جب بنو تمیم نے اس لشکر کو دیکھا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ ان کے گیارہ مرد، گیارہ عورتیں اور تیس بچے قید ہوئے جنہیں وہ مدینہ لے آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حضرت رَمْلَہ بنت حارث کے گھر ٹھہرا دیا گیا۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 212۔دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
بعد میں بنو تمیم کے اسّی یا نوّے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وفد میں ان کے قبیلےکے بعض قادر الکلام شعراء اور خطیب بھی شامل تھے۔ یہ سب مسجد میں اس وقت آئے جب لوگ نمازِ ظہر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ وفد کے لوگوں نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر کر دی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے قریب جا کر اونچی آواز میں پکار کر کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہماری طرف باہر آئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھ کر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے۔ وفد کے امیر نے کہا کہ ہم اشعار اور خطاب میں آپ سے مُفَاخَرَتْ چاہتے ہیں۔ یعنی تقریر اور شعر میں ہم سے مقابلہ کر لیں کہ کس قوم کا خطیب اور شاعر بلند پائے کا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے خطیب بھی اچھے ہیں ہمارے شاعر بھی اچھے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ شعر و بیان میں مفاخرت میری بعثت کا مقصد نہیں ہے۔ میں اس لیے نہیں آیا کہ فخر سے اپنے شعر اور بیان اور تقریر کوپیش کروں۔ میرا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی طرف لانا ہے لیکن تمہاری آمد کی یہی غرض ہے تو اپنے فن کا مظاہرہ کرو۔ اگر تم چاہتے ہو تو پھر ٹھیک ہے کر لو، ہم اس کا جواب دے دیں گے۔ وفد والوں نے اپنے خطیب عُطَارِد بن حَاجِب کو آگے کیا۔ اس نے تقریر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قَیْس بن شَمَّاسؓ کو جواب دینے کا کہا۔ انہوں نے اس کے جواب میں زبردست تقریر کی جو اس دشمن کی تقریر پر غالب آ گئی۔(تاریخ الخمیس جلد3صفحہ4بعث عیینہ بن حصن الی بنی تمیم دار الکتب العلمیۃ2009ء)
حضرت حسان بن ثابتؓ اس وقت مجلس میں موجود نہیں تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلوایا۔ اس کے بعد وفد کے شاعر زِبْرِقَان بِن بَدْرْ نے اپنے اشعار پیش کیے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسانؓ سے فرمایا کہ وہ اس کے مقابل پر اپنا کلام سنائیں۔ حضرت حسان نے اس کا برجستہ جواب دیا۔(سیرت ابن کثیر کتاب الوفود الواردین الی رسول اللہ۔ جلد4صفحہ 81دار المعرفہ1976ء)(البدایۃ والنہایۃ جلد5صفحہ45-46دارالکتب العلمیۃ2001ء)
جب حضرت حسانؓ فارغ ہوئے اور وفد کے لوگ آپس میں اکٹھے بیٹھے تو اَقْرَعْ بن حَابِس جو اس وفد کے ساتھ آئے تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کے سامنے بے ساختہ تبصرہ کیا کہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بڑھ کر ہے اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے کہیں زیادہ بلند پائے کا ہے۔ یہ ہم سے بہت آگے ہیں۔ پھر جب لوگ فارغ ہو گئے تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت اَقْرَعْ بن حَابِسؓکچھ عرصہ پہلے اسلام لا چکے تھے اور اب وہ وفد کے ساتھ دوبارہ حاضر خدمت ہوئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو تمیم کے اسلام قبول کر لینے کے بعد ان کے قیدی واپس لوٹا دیے اور سب کو انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ ایک روایت کے مطابق وفد میں شامل ہر ایک شخص کو پانچ پانچ سو درہم عطا فرمائے۔(تاریخ الطبری جلد2صفحہ 190۔دار الکتب العلمیۃ1987ء)(اسدالغابہ جلد1صفحہ264دارالکتب العلمیۃ 2003ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ 403بزم اقبال،لاہور)
اس وفد میں شامل عُطَارِدْ بِنْ حَاجِب نے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرتﷺ کی خدمت میںایک چادر ہدیہ کے طور پر پیش کی۔ یہ چادر اسے کسریٰ نے دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چادر بہت اعلیٰ قسم کی ریشمی چادر تھی جس پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ صحابہ نے چادر کی نفاست اور ملائمت دیکھی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور اس کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھنے لگے۔ صحابہ کا یہ انداز دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس چادر پر اتنے حیران ہو رہے ہو؟ جنت میں سعد کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اور بہت زیادہ اچھی ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الھبہ باب قبول الہدیۃ من المشرکین روایت 2615)( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل سعد بن معاذ روایت 6348)( سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب سعد بن معاذؓ حدیث نمبر 3847)( اسد الغابہ جلد4صفحہ40دارالکتب العلمیۃ 2003ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی ایک عمومی رنگ میں اس واقعہ پر تبصرہ کیا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ ’’ایک عرصہ کے بعد جب آپ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پارچات ہدیةً آئے تو بعض صحابہ نے انہیں دیکھ کر ان کی نرمی اورملائمت کا بڑے تعجب کے ساتھ ذکر کیا اوراسے ایک غیر معمولی چیز جانا۔ آپ نے فرمایا’’کیا تم ان کی نرمی پرتعجب کرتے ہو۔ خدا کی قَسم! جنت میں سعد کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اوربہت زیادہ اچھی ہیں۔ ‘‘ آپ کا یہ کلام ایک استعارے کے رنگ میں تھا جس میں سعدؓ کے اس راحت کے مقام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جوانہیں جنت میں حاصل ہوا تھا ورنہ جیسا کہ قرآن شریف اوراحادیث سے اصولی طورپر پتہ لگتا ہے جنت کی نعمتوں کااس دنیا کی نعمتوں پر قیاس نہیں ہوسکتا اورنہ جنت کی نعمتیں ہماری اصطلاح کے لحاظ سے مادی کہلا سکتی ہیں اور حق یہی ہے کہ جو الفاظ قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ان میں صرف استعارہ اور تشبیہ کے طور پر نعمتوں کے کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 614-615)
پھر ایک سَرِیَّہْ قُطْبَہ بِنْ عَامِر ہے جو صفر نو ہجری میں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قُطْبَہ بِنْ عَامِر کو بیس آدمی دے کر قبیلہ خَثْعَمْ کی طرف بھیجا۔ ایک روایت کے مطابق انہیں تَبَالَہ کے نواح میں بھیجا۔ یمن کے راستے میں ارضِ تَہامہ میں تَبَالَہ کا شہر واقع ہے۔ اس کے اور مکہ کے درمیان آٹھ دن کی مسافت ہے اور اندازاً ایک سو چھپن میل کا فاصلہ ہے اور ایک روایت کے مطابق بِیْشَہْ کے نواح میں بھیجا اور ان کویہ حکم دیا کہ ایک دم سے ان پر حملہ کریں۔ یہ لوگ یقینا ًشرارت کر رہے ہوں گے۔ راستے میں انہوں نے ایک آدمی کو پکڑا۔ اس سے دریافت کیا تو اس نے اپنے آپ کو گونگا ظاہر کیا لیکن جب یہ قبیلے کے قریب پہنچے تو اس نے چیخ چیخ کر اپنے قبیلے کو متنبّہ کرنا چاہا۔ چنانچہ اس دھوکا دہی پر اس کو قتل کر دیا گیا۔ چونکہ اب قبیلے والے کچھ چوکنے ہو چکے تھے اس لیے رات ہونے کا انتظار کیا گیا اور جب ذرا اندھیرا ہو گیا تو مسلمانوں نے ایک دم ان پر حملہ کر دیا۔ سخت جنگ ہوئی اور فریقین میں کثرت سے زخمی ہوئے اور مخالف قبیلے کے بہت سے لوگ مارے گئے اور حضرت قُطْبَہْ مالِ غنیمت میں اونٹ بکریاں اور عورتیں مدینہ کی طرف لے کر آئے۔ خمس نکالنے کے بعد ان کے حصہ میں چار چار اونٹ یا چالیس چالیس بکریاں آئیں۔(ماخوذ ازمعجم البلدان جلد2صفحہ 10-11دارالکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ226 زوار اکیڈمی پبلیکیشنزکراچی2003ء)(سبل الھدیٰ والرشادجلد6صفحہ214دارالکتب العلمیۃ1993ء)(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ40-41سریہ قطبہ الیٰ خَثْعَم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)( الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد1صفحہ460، مطبع دارالفکربیروت، ایڈیشن 2012ء)(تاریخ الخمیس جلد3صفحہ 5-6 بعث قطبہ بن عامر الیٰ خثعم، دار الکتب العلمیۃ بیروت2009ء)
بہرحال ان کی شرارتوں کو روکنے کے لیے یہ حملہ کرنا پڑا تھا۔ پھر سَرِیَّہ ضَحَّاک بن سُفْیَان کِلَابِی کا ذکر ہے۔ یہ بنو کِلاب کی طرف ہوا۔ یہ ربیع الاول نو ہجری میں ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ضَحَّاک بن سُفْیَان کِلَابِی کو قُرَطَاء کے مقام پر ان کے اپنے قبیلہ بنو کلاب کی طرف بھجوایا۔ قُرَطَاء بنو بکر کی ایک شاخ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے سات دن کی مسافت پر آباد تھی۔ وہ انہیں نجد میں زُجْ لَاوَہ کے مقام پر ملے انہوں نے اسلام کا پیغام پہنچایا مگر قبیلے والوں نے انکار کر دیا اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔ انہوں نے اہل قُرَطَاء کو شکست دی اور مالِ غنیمت حاصل کیا۔(فرہنگِ سیرت صفحہ 233 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 215 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(تاریخ الخمیس جلد3صفحہ6بعث الضَّحَّاک بن سفیان الکلابی الیٰ بنی کلاب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)
اس سریہ کا ایک ایمان افروز واقعہ یہ بھی ہے کہ سَلَمَہْ بِنْ قُرْطْ ایک کافر تھا جو مخالفین کے سرغنوں میں شامل تھا البتہ اس کا بیٹا اَصْیَدْ بِن سَلَمَہ جو کہ مسلمان ہو چکا تھا وہ مسلمانوں کی طر ف سے اس لشکر میں شامل تھا۔ جب دشمن مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگا تو ان میں حضرت اَصْیَدْ کا والد سَلَمَہ بھی تھا۔ اَصْیَدْ نے اپنے والد کا تعاقب کیا تو وہ جان بچانے کے لیے اپنے گھوڑے سمیت پانی میں کود گیا۔ یہ بھی اس کے پیچھے گئے اور والد کو دوبارہ اسلام کی دعوت دی کہ کسی نہ کسی طرح میرا باپ دوزخ سے بچ جائے لیکن باپ نے جواب میں بیٹے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ بیٹے نے جب دیکھا کہ یہ اپنی سرکشی اور باغیانہ رویہ پر قائم ہیں تو والد کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور ایک دوسرے شخص نے آ کر اس کو قتل کر دیا۔(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ، جلد9صفحہ 426-427بزم اقبال، لاہور)
البتہ ایک دوسری روایت بھی ہے، اس کے مطابق جب اَصْیَدْ نے مدینہ آ کر اسلام قبول کر لیا تو ان کے بوڑھے باپ نے انہیں ایک خط لکھا جس میں کچھ اشعار تھے جس میں اپنے بڑھاپے کی عمر میں اپنے بیٹے کی نافرمانی کا شکوہ کیا اور بیٹے کو اسلام قبول کرنے پر طعن بھی کیا اور لکھا کہ وہ کیا باتیں ہیں کہ جس کی وجہ سے تم نے اپنے بوڑھے باپ کو چھوڑ دیا اور اسلام قبول کر لیا۔ اَصْیَدْ اپنے باپ کا خط لے کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات عرض کر کے والد کو جواب لکھنے کی اجازت چاہی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر انہوں نے اپنے والد کو ایک تبلیغی خط لکھا جس کو پڑھ کر ان کے والد نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یہ روایت بھی اس میں ہے اور زیادہ صحیح لگتی ہے۔(اسدالغابہ جلد1صفحہ253-254، زیرلفظ اصیدبن سلمہ۔ دارالکتب العلمیۃ2003ء)
پھر سَرِیَّہْ حضرت عَلْقَمَہ بِنْ مُجَزِّزؓ بطرفجَدَّہ کا ذکر ہے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ یہ سریہ ربیع الثانی نو ہجری میں ہوا جبکہ بعض دوسری روایات کے مطابق صفر نو ہجری میں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ حبشہ میں سے کچھ جنگجو جَدَّہ کے ساحل پر اترے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق وہ اہل مکہ کے خلاف ڈاکہ زنی کرنا چاہتے تھے۔ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے سمندر پار کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ جَدَّہ مکہ مکرمہ کے مغربی ساحلِ سمندر پر آباد ایک شہر ہے۔ آج بھی ہے۔ یہ حجاز کا ایک بڑا شہر ہے۔ مکہ اور جدہ کے درمیان 75 کلو میٹر کا فاصلہ ہے جبکہ مدینہ سے جدہ کا تقریباً اڑھائی سو میل کا فاصلہ ہے۔
آپ نے حضرت عَلْقَمَہؓ کو تین سو افراد کی کمان دے کر ان کی طرف بھجوایا۔ جو لوگ اہل حبشہ سے جدہ کے ساحل پر اترے تھے ان کو حضرت عَلْقَمَہؓ کی آمد کا علم ہوا تو وہ لوگ اپنی کشتیوں پرسوار ہو کر سمندر میں فرار ہو گئے۔ حضرت عَلْقَمَہؓ نے ایک جزیرے تک ان کا پیچھا کیا۔ اس مہم کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے جو یوں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر پر عَلْقَمَہ بِنْ مُجَزِّز کو سردار مقرر کیا اور میں بھی اس لشکر میں تھا۔ جب ہم منزلِ مقصود پر پہنچے اور مہم سے فارغ ہو کر جلد واپس جانے کے لیے ایک گروہ نے اپنے امیر سے اجازت چاہی تو انہوں نے اس کو اجازت دی اور ان پر عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی کو امیر مقرر کیا۔ ان کی طبیعت میں مزاح تھا۔ یہ لوگ راستے میں اترے۔ ان لوگوں نے آگ جلائی تا کہ وہ آگ تاپیں۔
سنن ابن ماجہ میں آیا ہے کہ عبد اللہ سہمی نے کہا کہ کیا میرا تم پر حق نہیں کہ تم سنو اور اطاعت کرو؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں جس بات کا حکم دوں گا تم اس پر عمل کرو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود جاؤ۔ کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور کودنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ تو کودنے لگے ہیں تو اس نے کہا اپنے آپ کو روک لو کیونکہ میں تو تم سے صرف مذاق کر رہا تھا۔ جب واپس آئے تو لوگوں نے اس بات کا ذکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ أَمَرَکُمْ مِنْھُمْ بِمَعْصِیَّۃِ اللّٰہِ فَلَا تُطِیْعُوہُ۔ ان امراء میں سے جو تمہیں اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا طَاعَۃَ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔(ہمارے حضورﷺ ازاہلیہ ڈاکٹر سہراب انور صفحہ 411 دارالاشاعت)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 9صفحہ432بزم اقبال،لاہور)(فرہنگِ سیرت صفحہ 86، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی2003ء)(Google Map)(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 216دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء)(سنن ابنِ ماجہ کتاب الجہاد باب لاطاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ حدیث 2863 )(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ 410مکتبہ دارالسلام)(تاریخ الخمیس جلد 3، صفحہ7، بعث عَلْقَمَہ بِن مُجَزِّز الیٰ الحبشۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت2009ء)
ایک اور روایت میں لکھا ہے کہ جب یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا لَوْ دَخَلُوھَا مَا خَرَجُوا مِنْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقَیَامَۃ ِ، اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔کہ اگر وہ اس میں داخل ہوتے تو قیامت تک اس میں سے یعنی آگ میں سے نہ نکلتے کیونکہ اطاعت تو معروف بات میں ہوتی ہے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب سریہ عبد اللّٰہ بن حذافہ السھمی…روایت نمبر 4340 )
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ ’’جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کو ایک چھوٹے سے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ راستہ میں انہوں نے کوئی بات کہی جس پر بعض صحابہ نے عمل نہ کیا، اس پر وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر امیر مقرر کیا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قائمقام ہوں تو تم نے میری نافرمانی کیوں کی؟ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے۔ انہوں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اطاعت کرتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے آگ جلانے کا حکم دیا اور جب آگ جلنے لگی تو صحابہ سے کہا کہ اس میں کود پڑو۔ بعض تو آمادہ ہو گئے’’ تیار ہوگئے‘‘ مگر دوسروں نے ان کو روکا اور کہا کہ اطاعت امورِ شرعی میں ہے۔ ان کو تو شریعت کی واقفیت نہیں۔ اس طرح آگ میں کود کر جان دینا ناجائز ہے اور خدا تعالیٰ کاحکم ہے کہ خودکشی نہیں کرنی چاہیے۔ جب یہ امر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے اس میں ان لوگوں کی تائید کی جنہوں نے کہا تھا کہ آگ میں کودنا جائز نہیں۔‘‘(خطبات محمود جلد19صفحہ260-261 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 22؍اپریل 1938ء)
پھر سَرِیَّہ حضرت علیؓ بطرف فُلْس بنو طَے کا ذکر بھی آتا ہے۔ ربیع الثانی نو ہجری میں ہوا۔ فُلْس نجد کے علاقے کا ایک بت تھا اور قبیلہ طے اس کی عبادت کرتا تھا۔ اس پر نذر و نیاز کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی نذر کیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو ڈیڑھ سو انصار کے ہمراہ اور جس میں سو اونٹ اور پچاس گھوڑے تھے بنو طے کے بت فُلْسکو گرانے کے لیے روانہ فرمایا۔ اس لشکر کی ایک خصوصیت تھی کہ سوائے حضرت علیؓ کے باقی سب لوگ انصار تھے۔ مہاجرین وغیرہ میں سے کوئی نہیں تھا۔ بنو طے عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے یہ لوگ شام کے قریب آباد تھے۔ آپ نے اس سریہ کے لیے حضرت علی ؓکو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا اور سفید رنگ کا چھوٹا پرچم عطا فرمایا۔ حضرت علی ؓصبح کے وقت حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فُلْس کو منہدم کر دیا۔ بہت سارے قیدی اور مال مویشی قبضے میں کیے۔ مشہور سخی حاتم طائی کا یہ قبیلہ تھا اور قیدیوں میں حاتم طائی کی بیٹی سَفَّانَہ بھی شامل تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی جو قبیلے کا سردار تھا وہ بھاگ گیا اور ملک شام کی طرف نکل گیا۔ قیدیوں پر ابوقتادہ کو نگران بنایا گیا اور مال مویشی پر عبداللہ بن عَتِیْک کو نگران مقرر کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس یعنی پانچواں حصہ نکال کر باقی مال غنیمت تقسیم کر لیا گیا۔ البتہ حاتم کی بیٹی سَفَّانَہکو انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور گرفتار کر کے مدینہ لے آئے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 124، دارالکتب العلمیۃ طبع اولیٰ 1990ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ435 بزم اقبال،لاہور)(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد9صفحہ418مکتبہ دارالسلام)(فرہنگ سیرت صفحہ64 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حاتم طائی کی بیٹی سَفَّانَہکو تمام قیدیوں کے ساتھ مسجد نبویؐ کے دروازے کے ساتھ ایک خیمے میں رکھا گیا۔ سَفَّانَہ بہت باہمت اور زیرک عورت تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خیمہ کے پاس سے گزرے تو وہ آپؐ کی تعظیم کے لیے کھڑی ہو گئی اور عرض کی: یا رسول اللہ !میرا باپ فوت ہو چکا ہے اور جو سرپرست بھائی تھا وہ فرار ہو گیا ہے۔ پس مجھ پر احسان فرمائیں اللہ آپ پر کرم فرمائے گا۔ آپؐ نے پوچھا تیرا سرپرست کون ہے؟ اس نے بتایا عَدِی بن حَاتِمْ طائی۔ آپؐ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگا ہوا ہے؟ آپؐ یہ فرما کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔ اگلے روز آپؐ جب وہاں سے گزرے تو سَفَّانَہ نے پھر وہی کل والی بات دہرائی۔ آپؐ نے بھی وہی کل والا جواب دیا اور تشریف لے گئے اور وہ مایوس ہو گئی۔ تیسرے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خیمے کے پاس سے گزرے تو آپؐ کے ساتھ حضرت علیؓ بھی تھے جو آپؐ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ حضرت علیؓ نے سَفَّانَہکو اشارہ کیا کہ وہ اٹھ کر پھر اپنا مدعا پیش کرے۔ وہ فوراً تعظیم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اپنی وہی درخواست پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے تیری درخواست قبول کرلی ہے۔ تُو اب آزاد ہے لیکن یہاں سے جانے میں جلد بازی سے کام نہ لینا۔ جب کوئی قابلِ اعتبار شخص میسر ہوا توتمہیں اس کے ساتھ تمہارے بھائی کے پاس شام روانہ کر دیا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر احسان فرمائیں یعنی آزاد کر دیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان فرمایا اور اسے رہا فرمادیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گئی۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ آزادی کے فوراً بعد مسلمان ہو گئی تھی۔ کچھ دن کے بعد بنو قُضَاعَہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے جو شام جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ سَفَّانَہکو ان کا علم ہوا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ وہ ان لوگوں پر اعتماد رکھتی ہے۔ اس لیے اسے ان کے ہمراہ شام جانے کی اجازت دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت عطا فرمائی اور ساتھ اسے کپڑے اور سواری اور زاد راہ بھی مہیا فرمایا۔ وہاں سے رخصت ہو کر وہ اپنے بھائی عدی کے پاس شام پہنچ گئی۔
جب وہ شام پہنچی اور اپنے بھائی سے ملی تو اس کو طعنہ دیا کہ اپنے بیوی بچے لے کر وہاں سے بھاگ آئے ہو اور اپنی بہن اور عزت کو وہیں چھوڑ آئے ہو۔ یہ سن کر بھائی نے معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد عدی نے اپنی بہن سے پوچھا کہ بتاؤ تو سہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ سَفَّانَہ جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق دیکھ کر مسلمان ہو چکی تھی کہنے لگی کہ اللہ کی قسم !میرا خیال ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے تم ان کے پاس چلے جاؤ۔ اگر وہ واقعی نبی ہیں تو ان کی طرف جلدی جانے والا کامیاب و کامران ہو گا اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو بھی تمہاری عزت و شرف میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عدی کہنے لگا کہ یہ رائے تو بہت اچھی ہے اور پھر وہ جلدی تیار ہو کر مدینہ پہنچ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ عدی نے اپنا تعارف کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باتیں کرنے کے لیے یا سوال پوچھنے کے لیے روک لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بڑھیا سے بات کرنے کے لیے کافی دیر رکے رہے۔ عدی نے یہ سب دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ یہ شخص بادشاہ نہیں ہو سکتا جو اس طرح بڑھیا کے روکنے پر رک گیا ہے۔ گھر پہنچ کر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا ایک گدیلا جس میں کھجورکے پتے بھرے ہوئے تھے وہ ان کی خدمت میں بیٹھنے کے لیے پیش کیا تو عدی نے عرض کیا کہ آپ اس پر بیٹھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں تم اس پر بیٹھو اور خود نیچے زمین پر بیٹھ گئے جس پر عدی نے پھر دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم !یہ شخص بادشاہ نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو کا آغاز فرمایا۔ ان کے مذہب اور ذاتی معاملات کے بارے میں بھی کچھ باتیں بیان کیں۔ ان میں سے بعض باتیں ایسی تھیں کہ سوائے عدی کے کسی کو معلوم نہیں تھیں جس پر عدی کو یقین ہو گیا کہ یہ واقعی رسول ہیں اور عرض کیا کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں کیونکہ آپ کو بعض مخفی باتوں سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
حضرت عدیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عدی !اسلام قبول کر لو تم محفوظ رہو گے۔ میں نے کہا میں پہلے سے ایک دین کا پیروکار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے کہا آپ میرے دین کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں !میں تمہارے دین کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم رَکُوْسِیْیعنی عیسائیت اور صابیت کے مابین مذہب نہیں رکھتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اپنی قوم کے سردار نہیں ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم سردار ہو نے کی وجہ سے غنیمت کا چوتھائی حصہ نہیں لیتے؟ میں نے کہا ہاں لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو تمہارے دین میں بھی تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اس طرح تم لو۔ تو مجھے اپنے آپ پر ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عدی ! شاید تجھے اس دین میں داخل ہونے سے مسلمانوں کی غربت روک رہی ہے۔ خدا کی قَسم !جلد ہی اتنا مال بہایا جائے گا کہ اسے لینے والا نہیں ملے گا اور شاید ان کے دشمنوں کی کثرت بھی تجھے اس دین میں داخل ہونے سے مانع ہو رہی ہے۔ دشمن بہت ہیں اسلام کے اس لیے شایدتم رک رہے ہو۔ خدا کی قَسم !تُوجلد ہی عورت کے متعلق سنے گا کہ وہ اپنے اونٹ پر حِیْرَہْسے روانہ ہو کر اس گھر خانہ کعبہ کی زیارت کرے گی اور اسے کوئی خوف نہ ہو گا اور شاید اس دین میں داخل ہونے سے تجھے یہ امر بھی مانع ہو کہ حکومت اور اقتدار غیروں کے پاس ہے تو خدا کی قَسم !تُو جلد ہی ارضِ بابل کے سفید محلات کے متعلق سنے گا کہ وہ ان کے لیے کھول دیے گئے ہیں اور کسریٰ کے خزانے کھول دیے جائیں گے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرائی۔
عدی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر میں مسلمان ہو گیا۔ حضرت عدی نے اسلام قبول کرنے کا واقعہ خود بیان کیا اور وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میں نے مسافر عورت کو دیکھا ہے کہ وہ ہمسفر کے بغیر حیرہ سے نکل کر بیت اللہ کا طواف کرنے کو آئی اور کسریٰ کی فتح کے لشکرمیں مَیں خود شامل تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد حضرت عدیؓ اسلامی احکام کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے۔ نماز کے لیے ہر وقت باوضو رہتے اور نماز کی ادائیگی کے لیے بہت فکر مند اور مستعد رہتے تھے۔
یہ جو لوگ بار بار سوال کرتے ہیں کہ محرم رشتہ کا حج کے لیے جانا ضروری ہے۔ اس کا میں کئی دفعہ جواب بھی دے چکا ہوں۔ وہ مخصوص حالات میں ضروری تھا لیکن یہ بات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک عورت حیرہ سے نکلی ہے اور اکیلی تھی اور کعبہ کے طواف کے لیے آئی اور کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا، کوئی محرم والی شرط نہیں تھی۔ حضرت علی ؓکی اس مہم کے کچھ دیر بعد طَے قبیلہ کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔(السیرۃ النبویۃ لابنِ ہشّام صفحہ 853-854 امر عدی بن حاتم، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 288دارالکتب العلمیۃ2002ء)(صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِحدیث 3595)(غزوہ تبوک ازباشمیل صفحہ 46-47نفیس اکیڈمی،کراچی)(مصنف ابن ابی شیبہ مترجم جلد 11صفحہ 239۔240مکتبہ رحمانیہ)(تاریخ الطبری جلد2صفحہ187-188دارالکتب العلمیۃ1987ء)( دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ 442بزم اقبال،لاہور)
پھر سَرِیَّہ عُكَّاشَہ بِنْ مِحْصَن کا ذکر ہے جو جِنَابْ کی طرف تھا۔ یہ سریہ ربیع الثانی نو ہجری میں رونما ہوا۔ حضرت عکاشہ کا یہ سریہ مدینہ منورہ کے شمال میں عُذْرَہ اور بَلِّی کے قبائل میں پیش آیا جو جِنَابْ کے آس پاس رہتے تھے۔ بعض روایات میں اس علاقے کا نام جِبَابْ بھی بیان ہوا ہے۔(سبل الھدیٰ والرشادجلد6صفحہ220دارالکتب العلمیۃ1993ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ124دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان1990ء)(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ50دارالکتب العلمیۃ1996ء)(فرہنگ سیرت صفحہ197زوار اکیڈمی پبلیکیشنزکراچی2003ء)
اس سریہ کی زیادہ تفصیلات بیان نہیں ہوئیں۔بس اتنا ہی ذکر ہے کہ یہ سریہ ہوا تھا۔(السیرۃ النبویۃ احمد بن زینی دحلان جلد 2 صفحہ123دار احیاء التراث العربی بیروت)
اب غزوۂ تبوک کے بارے میں بعض ابتدائی باتیں پیش کر دیتا ہوں۔ رجب 9؍ ہجری ستمبر 630ء میں یہ ہوا۔ غزوۂ طائف کے بعد ماہ رجب نو ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا آخری غزوہ تھا۔ تبوک مدینہ سے قریباً 685 کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 842از حضرت مرزا بشیر احمدصاحب ؓایم۔اے)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد9صفحہ 452، 456بزم اقبال، لاہور)
تبوک نام کے چشمہ پر ٹھہرنے کی وجہ سے اس غزوہ کو غزوۂ تبوک کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے قریب پہنچ کر شرکائے قافلہ سے فرمایا۔ اِنَّکُمْ سَتَاْتُوْنَ غَدًا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ عَیْنَ تَبُوْکَ۔ کہ کل تم تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے۔ ان شاء اللہ۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبیﷺ روایت نمبر 706 (5947) دارالمعرفۃ)
قرآن کریم میں غزوۂ تبوک کا ذکر سَاعَۃُ الْعُسْرَۃ یعنی تکلیف کی گھڑی کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس لیے اس غزوہ کو سَاعَۃُ الْعُسْرَۃ بھی کہا جاتا ہے۔ (التوبۃ: 117)(صحیح البخاری مترجم جلد 9صفحہ 300، کتاب المغازی باب غزوۃ التبوک وھی غزوۃ العسرۃ، حاشیہ)(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4صفحہ66ثم غزوة تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
چونکہ مسلمانوں کو اس میں بہت دشواری اور تنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا مثلاً شدید گرمی، دُور کا سفر، سواریوں کی بہت کمی، راستے میں پانی کی شدید قلت تھی۔ لشکر کی تیاری کے لیے اخراجات کی بھی کمی تھی اس کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ ان سب تکالیف کی وجہ سے اس کو جَیْشُ الْعُسْرَۃ بھی کہا جاتا ہے یعنی تنگی اور تکلیف والا لشکر۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزو ہ تبوک و ھی غزوۃ العسرۃ۔ حدیث 4415)(اللؤلؤ المکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9صفحہ445مکتبہ دارالسلام)
اس غزوہ کو غَزْوَةُ الْفَاضِحَہْ بھی کہتے ہیں۔ عربی میں فَضَاحَتْ رسوائی اور پردہ دری کو کہتے ہیں اور چونکہ اس کی وجہ سے بہت سے منافقین کا حال کھل کر سامنے آ گیا جو ان کی مزید رسوائی اور پردہ دری کا باعث بنا اس لیے اس کو یہ نام دیا گیا۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 183،غزوہ تبوک، دار الکتب العلمیۃ2002ء)(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺجلد9صفحہ 454بزم اقبال،لاہور)
غزوۂ تبوک کے اسباب اور عوامل اور پس منظر کیا تھے؟ ویسے تو اہل مدینہ کو بیرونی طاقتوں خاص طور پر رومیوں کے حمایت یافتہ بَنُوْغَسَّان کے حملے کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا اور ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ یہ دونوں یعنی رومی اور غَسَّانِی کسی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ غَسَّانِیحملہ کے خطرہ اور خوف کے بارے میں حضرت عمر ؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت غَسَّانِیوں کے حملے کا ڈر رہتا تھا یعنی ہر وقت یہ خدشہ اور خیال ہوتا تھا کہ اب حملہ ہوا کہ اب ہوا۔(السیرۃالحلبیۃجلد3صفحہ357دارالکتب العلمیۃ2002ء)(صحیح البخاری کتاب التفسیر حدیث4913 مترجم جلد 12صفحہ 266)
تبوک کی جنگ کا فوری سبب جو ہوا وہ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ تاجروں کی ایک جماعت نے جو مدینہ میں شام سے زیتون کا تیل لائی تھی، مسلمانوں کو بتایا کہ اہلِ روم نے شام میں ایک بہت بڑا لشکر جمع کیا ہے اور ہِرَقْل نے ان فوجیوں یا اتحادیوں کو ایک سال کا خرچہ فراہم کیا ہے۔ اس کے ساتھ لَخْم، جُذَامْ، عَامِلَہ، غَسَّان اور دیگر عیسائی قبائل مل گئے ہیں اور ان کا ہراول دستہ بَلْقَاءتک پہنچ چکا ہے۔ بَلْقَاءملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان ہے۔(معجم البلدان جلد1صفحہ579-580دارالکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت النبی ﷺ ازڈاکٹرعلی محمدصلابی، جلد3صفحہ528مکتبہ دارالسلام)(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 433دارالکتب العلمیۃ1993ء)
اس غزوہ کا دوسرا سبب یہ بھی ہوا۔ جس کا ذکر ایک روایت میں ملتا ہے کہ عرب کے عیسائیوں نے ہِرَقْلْ کی طرف لکھا کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہلاک ہو گیا ہے (نعوذ باللہ) اور اس کے ساتھیوں کو قحط سالی نے آ لیا ہے اور ان کے مال مویشی تباہ ہو گئے ہیں اور اب ان پر حملہ آور ہونے اور عیسائیت کو غالب کرنے کا نہایت سازگار موقع ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے فوجی جرنیل کو چالیس ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ کیا۔ اس جرنیل کا نام قَبَاذْ یا ضَنَّادْ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لشکر تیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔(شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ، جلد4صفحہ68دارالکتب العلمیۃ1996ء)( السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ183دارالکتب العلمیۃ2002ء)(اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد9صفحہ447-448مکتبہ دارالسلام)
بنیادی سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ مکہ فتح ہونے کے بعد اور جنگِ حنین میں بنو ھَوازن جیسےطاقتور ترین قبیلے کو بھی عبرت ناک شکست دینے کے بعد اور عرب کے ارد گرد کے تمام قبائل پر مسلمانوں کو غلبہ ملنے کے بعد یہود و نصاریٰ اور منافقین ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنی ہر کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر اس وقت کی سپر پاور یعنی قیصر روم سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے انہوں نےایک بہت بڑی اور بہت ہی خطرناک پلاننگ کی۔
ایک طرف قیصر روم سے رابطہ کیا اور اس کو تیار کیا کہ وہ اپنی فوج بھیجے تا کہ مسلمانوں کا قلع قمع کیا جائے اور دوسری طرف منافقین نے یہ کیا کہ مدینہ میں پہلے سے ہی یہ افواہیں اڑانا شروع کر دیں کہ قیصر روم اپنا لشکر بھیج رہا ہے جو مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمانوں کا قلع قمع کر دے گا۔ اس طرح سے منافقین اور دوسرے مخالف یہ چاہتے تھے کہ زیادہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے شام کی طرف نکل جائیں اور دونوں صورتوں میں سفر کی مشکلات یا قیصر روم سے مقابلہ مسلمانوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ ہلاکت کو یقینی بنا دے گا۔ بہرحال یہ ان کی خواہش تھی۔ اس کی اب مزید لمبی تفصیل ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
آج ربوہ میں مسجد مہدی جو گولبازار میں ہے اس پر دہشت گردوں نے حملہ بھی کیا اور ہمارے پانچ چھ لوگ وہاں زخمی ہیں۔ دو بہت زیادہ زخمی ہیں۔ ان کا آپریشن وغیرہ بھی ہو رہا تھا۔ اللہ کرے کہ ان کی حالت بہتر ہو گئی ہو۔ باقی بعض زخمی بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان پربھی فضل فرمائے اور جو دو serious زخمی ہیں ان کے پیٹ میں گولیاں لگی ہیں۔ ایک دہشت گرد کو بھی ہمارے سیکیورٹی والوں نے مارا ہے، مار دیا ہے۔ ایک دَوڑ گیا ہے۔ یہی ابھی تک کی رپورٹ ہے۔ باقی تفصیلات ابھی آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان دہشت گردوں اور قانون توڑنے والوں اور جماعت کے مخالفین کو جلد پکڑے۔ پنجاب کی حکومت اور وزیر اعلیٰ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب میں سو فیصد جرائم کنٹرول ہو چکے ہیں اور اب کوئی مجرم نہیں رہا لیکن احمدیوں پہ جو آئے دن حملے ہوتے ہیں۔ قتل، شہید کیے جا رہے ہیں یا زخمی کیے جا رہے ہیں یا ان کے مالوں کو آگیں لگائی جا رہی ہیں اس کو شاید یہ جرم سمجھتے نہیں۔
اللہ تعالیٰ ان حکومتوں کو بھی عقل دے اور جلد ہی اللہ تعالیٰ جماعت کے حق میں نشان ظاہر فرمائے۔
