خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 30؍مئی2003ء

دنیا اور عقبیٰ میں کامیابی کا گر یہ ہے کہ انسان ہر قول وفعل میں یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ میرے کاموں سے خبردار ہے۔یہی تقویٰ کی جڑ ہے۔
خبیر میں علاوہ خبر رکھنے کے مجرموں کی سزا اور ان کی خبر لینے کی طرف اشارہ ہوتاہے

خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۳۰؍مئی ۲۰۰۳ء مطابق ۳۰؍ہجرت۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ۔ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (سورۃ الانعام:۱۰۴)۔

اس کا ترجمہ ہے :آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وَرَاء الْوَرَاء ہے اور کوئی عقل اُس کو دریافت نہیں کرسکتی۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے

لَاتُدۡرِکُہُ الۡاَ بۡصَارُ وَھُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ

یعنی بصارتیں اور بصیرتیں اُس کو پا نہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے۔ پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بُتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے ایساہی انفسی باطل معبودوں سے پرہیز کرے۔ یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور ان کے ذریعہ سے عجب کی بلامیں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہوسکتی۔اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلا سکتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ۱۴۳۔۱۴۴)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی تجلّی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل حاصل ہو

لَاتُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَ ھُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَار

سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے۔ ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے اسے شناخت کرلیں-‘‘(البدر جلد۲ نمبر ۴۷ مورخہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۷۳ )
اب صفت خبیر کے بارہ میں کچھ اور آیات ہیں :

یٰٓـاَیُّھَاالَّذِینْ َ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَت لِغَدٍ۔وَاتَّقُوْااللہَ۔اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورۃ الحشر :۱۹)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اے ایمان والوخدا سے ڈرتے رہو اور ہر ایک تم میں سے دیکھتا رہے کہ مَیں نے اگلے جہان میں کون سا مال بھیجا ہے۔ اور اس خدا سے ڈر وجو خبیر اور علیم ہے اور تمہارے اعمال دیکھ رہاہے یعنی و ہ خوب جاننے والا اور پرکھنے والاہے اس لئے وہ تمہارے اعمال ہرگز قبول نہیں کرے گا اور جنہوں نے کھوٹے کام کئے انہیں کاموں نے ان کے دل پر زنگار چڑھا دیا۔ سو وہ خدا کو ہر گز نہیں دیکھیں گے ‘‘۔
(ست بچن،روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۵۔۲۲۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الاو ل رضی اللہ عنہ ا س ضمن میں فرماتے ہیں کہ :
’’تقویٰ اللہ اختیار کرو اور ہر ایک جی کو چاہئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کے لئے کیا کِیا۔ جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں- اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہوگا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہوگا۔ لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اُس کو مفید اور مثمر بثمرات حسنہ بنا دیتا ہے‘‘۔
(حقائق ا لفرقان جلد ۴ صفحہ۶۶)
پھر آپ (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) فرماتے ہیں :
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر نفس کو چاہئے کہ دیکھتا رہے کہ کل کے لئے اس نے کیا کیا۔ اور تقویٰ اپنا شعار بنائے۔ اور اللہ جوکچھ تم کرتے ہو، اس سے خوب آگاہ ہے۔
غرض دنیا و عقبیٰ میں جس کامیابی کا ایک گُر بتایا کہ انسان کل کی فکر آج کرے۔ اور اپنے ہر قول و فعل میں یہ یاد رکھے کہ خداتعالیٰ میرے کاموں سے خبردار ہے۔ یہی تقویٰ کی جڑ ھ ہے۔ اور یہی ہر کامیابی کی روحِ رواں ہے۔ برخلاف اس کے انجیل کی یہ تعلیم ہے جو (متی) باب ۶آیت ۳۳ میں مذکور ہے بایں الفاظ کہ ’’کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرے گا۔ آج کا دُکھ آج کیلئے کافی ہے‘‘۔
اگر ان دونوں تعلیموں پر غور کریں تو صرف اسی ایک مسئلے سے اسلام و عیسائیت کی صداقت کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ ایک نیک دل، پارسا، طالبِ نجات، طالبِ حق خوب سمجھ لیتا ہے کہ عملی زندگی کے اعتبار سے کون سا مذہب احق بالقبول ہے۔
اگر انجیل کی اس آیت پر ہم کیا، خود انجیل کے ماننے والے عیسائی بھی عمل کریں تو دنیا کی تمام ترقیاں رُک جائیں اور تمام کاروبار بند ہوجائیں- نہ تو بجٹ بنیں- نہ ان کے مطابق عمل درآمد ہو۔ نہ ریل گاڑیوں اور جہازوں کے پروگرام پہلے شائع ہوں- نہ کسی تجارتی کارخانے کو اشتہار دینے کا موقعہ ملے۔ نہ کسی گھر میں کھانے کی کوئی چیز پائی جائے۔ اور نہ غالباً بازاروں سے مل سکے۔ کیونکہ کل کی تو فکر ہی نہیں ، بلکہ فکر کرنا گناہ ہے۔ برخلاف اس کے قرآن مجید کی تعلیم کیا پاک اور عملی زندگی میں کام آنے والی ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ عیسائیوں کا اپناعمل درآمد بھی اسی آیت پر ہے ورنہ آج ہی سے سب کاروبار بند ہوجائیں اور کوئی نظامِ سلطنت قائم نہ رہے۔ قرآن پاک کی تعلیم

وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّ مَتۡ لِغَدٍ

پر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دنیا میں کامرا ن ہوتا ہے بلکہ عقبیٰ میں بھی خدا کے فضل سے سُرخرو ہوگا۔ ہم کبھی آخر ت کے لئے سرمایۂ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دارالقرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں-‘‘
(تشحیذ الاذہان۔جلد ۷ نمبر ۵ صفحہ ۲۲۷۔۲۲۸)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں :
’’چاہیے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے۔ انسان کے ساتھ ایک نفس لگاہوا ہے جو ہر وقت مبدّل ہے۔ کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہورہا ہے۔ جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے اور اس کے ذرّات جد اہوتے جاتے ہیں ، اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیاکئے جاتے ہیں- تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہیے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے۔ اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے۔ کاش کہ اتنا فکر اس کے نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌ بِمَا تَعۡمَلُوۡن : اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے۔ اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرتِ انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے۔ ‘‘(بدر۔ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۰۶ء-صفحہ ۹)
پھر حقائق الفرقان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاو لؓ فرماتے ہیں :

’’ وَاتَّقُوْااللہَ۔اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ:

تقویٰ کا علاج بتایاکہ تم یہ یقین رکھو کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا اور ان سے خبر رکھنے والا بھی کوئی ہے ‘‘۔(حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۸۵)
پھر آپ نے فرمایا :
’’مومن کو چاہیے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ انسان غضب کے وقت قتل کردینا چاہتا ہے۔ گالی نکالتا ہے۔ مگر سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس اصل کو مدّ نظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی۔ نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو۔ اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ

وَاللہُ خَبِیۡرٌ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ

جو کام تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ انسان اگر یہ یقین کرے کہ کوئی خبیرو علیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری، دغا، فریب، سُستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا، تو وہ بچ سکتا ہے۔ ایسا ایمان پیداکرو۔ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری، حرفہ، مزدوری وغیرہ میں سُستی کرتے ہیں- ایسا کرنے سے رزقِ حلال نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو تقویٰ کی توفیق دے۔ ‘‘(الحکم۔ ۲۱ تا۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء۔صفحہ ۲۶)
اب اس ضمن میں ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتاہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں-بعض دفعہ لڑکی کو لڑکے کے حالا ت نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتاہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتاہے۔ایسی صورت میں بعض دفعہ دیکھا گیاہے کہ لڑکا تو شرافت سے ہمدردی سے بچی کو، بیوی کو گھر میں بسانا چاہتا ہے لیکن ساس یا نندیں اس قسم کی سختیاں کرتی ہیں اور اپنے بیٹے یا بھائی سے ایسی زیادتیاں کرواتی ہیں کہ لڑکی بیچاری کے لئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں- یا تو وہ علیحدگی اختیار کر لے یا پھر تمام عمر اس ظلم کی چکی میں پستی رہے۔ اور یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں ، جب لڑکی بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کرجاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے۔اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتاہے۔ حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب وقبول ہوتاہے،تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر ا س طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں-لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہرحال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں- اب یہ جو آیت جس کی تشریح ہو رہی ہے یہ بھی نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ہے۔جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی ا للہ عنہ نے فرمایا کہ ہر بات سے پہلے،ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ خیال ہوتاہے زیادتی کرنے والوں کا‘‘ کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں- اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہاہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور (حضر ت خلیفۃ المسیح الاولؓ) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جا سکتاہے۔ اللہ کرے کہ ہرا حمدی گھرانہ خاوند ہو یا بیوی، ساس ہو یا بہو،نند ہو یا بھابھی تقویٰ کی راہوں پر قدم مارنے والی اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والی ہوں-
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآء اَجَلُھَا۔ وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورۃ المنافقون:۱۲)۔

اور اللہ کسی جان کو، جب اس کی مقررہ مدت آپہنچی ہو، ہرگز مہلت نہیں دے گا۔ اور اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’منافقانہ رجوع در حقیقت رجوع نہیں ہے لیکن جو خوف کے وقت میں ایک شقی کے دل میں واقعی طور پر ایک ہراس اور اندیشہ پیدا ہوجاتاہے اُس کو خداتعالیٰ نے رجوع میں ہی داخل رکھاہے اور سُنت اللہ نے ایسے رجوع کو دنیوی عذاب میں تاخیر پڑنے کا موجب ٹھہرایا ہے گو اُخروی عذاب ایسے رجوع سے ٹل نہیں سکتا مگر دُنیوی عذاب ہمیشہ ٹلتا رہا ہے اور دوسرے وقت پر پڑتا رہا ہے۔ قرآن کو غور سے دیکھو اور جہالت کی باتیں مت کرو اور یاد رہے کہ آیت

لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفۡسًا

کو اس مقام سے کچھ تعلق نہیں- اِس آیت کا تو مدّعا یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آجاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔ مگر اِس جگہ بحث تقدیر معلق میں ہے جو مشروط بشرائط ہے جبکہ خداتعالیٰ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے کہ میں استغفار اور تضرّع اور غلبہ خوف کے وقت میں عذاب کو کفار کے سر پر سے ٹال دیتا ہوں اور ٹالتا رہا ہوں- پس اس سے بڑھ کر سچا گواہ اور کون ہوسکتا ہے جس کی شہادت قبول کی جائے۔‘‘(ضمیمہ انوار الاسلام : اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ صفحہ ۱۰)
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

فَاٰ مِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِالَّـذِیٓ اَنْزَلْنَا۔ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (سورۃ التغابن:۹)

پس اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس نور پر جو ہم نے اتارا ہے۔ اور اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
علامہ ابن جریر الطبری اس کی تفسیر میں

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ

کے تحت لکھتے ہیں کہ: اس حصہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اے لوگو !اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ تم میں سے اپنے رب کی اطاعت کرنے والا اور اس کی نافرمانی کرنے والا اس سے مخفی نہیں ہے- اور وہ تم سب کو تمہارے اعمال کی جزا دینے والا ہے۔ محسن کو اس کے احسان کے مطابق اور نافرمان کو اس کی اہلیت کے مطابق، یا وہ معاف فرما دے گا‘‘۔(تفسیر طبری)۔ قادر ہے جس طرح چاہے۔ بادشاہ اور مالک ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ۔ وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ۔ اِنَّ رَبَّھُمْ بِھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّخَبِیْرٌ-( سورۃ العادیات:۱۱۔۱۲)۔

پس کیا وہ نہیں جانتا کہ جب اُسے نکالا جائے گا جو قبروں میں ہے؟ اور وہ حاصل کیا جائے گا جو سینوں میں ہے۔ یقینا اُن کا ربّ اُس دن ان سے پوری طرح باخبر ہوگا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ بصیر اور علیم کے الفاظ صرف علمی حالت پر دلالت کرتے ہیں لیکن خبیر کا لفظ اُس علم کے مطابق عمل کرنے پر بھی دلالت کرتا ہے یعنی خبیر میں علاوہ خبررکھنے کے مجرموں کی سزا اور اُن کی خبر لینے کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے چنانچہ یہ آیت میرے اس دعوے کی مُصَدِّق ہے۔ یَوۡمَئِذٍ کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محض علم تو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ حاصل ہے اُس دن عالم ہونے کے کوئی معنے ہی نہیں- پس خبیر میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ایک یہ کہ اُس سے تمہارا کوئی جُرم پوشیدہ نہ ہوگا اور دوسرے یہ کہ اس علم تفصیلی کے مطابق وہ اُس دن جزا بھی دے گا۔ یَوۡمَئِذٍ کے ساتھ قرآن کریم میں صرف خبیر کا استعمال ہوا ہے، علیم و بصیر کا استعمال نہیں ہوا۔ اُردو میں بھی’ خبر لوں گا‘ محاورۃً استعمال ہوتا ہے جو شاید خبیر کے لفظ سے ہی نکلا ہے۔ اسی طرح پنجابی زبان میں بھی کہتے ہیں ’’میں تیری خبر لانگا‘‘ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تجھے تیرے اعمال کا بدلہ دوں گا۔ پس اللہ فرماتا ہے

اِنَّ رَبَّھُمۡ بِھِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّخَبِیۡر-

یعنی نہ صرف ان کے حالات سے واقف ہوگا بلکہ ان حالات کی ان کو جزا بھی دے گا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہمیشہ

یَوۡمَئِذٍ ٍ لَّخَبِیۡر

کا استعمال ہوا ہے،

یَوۡمَئِذٍ لَعَلِیْم یا یَوۡمَئِذٍ لَبَصِیْر

استعمال نہیں ہوا۔اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں خبیر سے محض علم مراد نہیں بلکہ اُن کو سزا دینا مراد ہے اور

اِنَّ رَبَّھُمۡ بِھِمۡ یَوۡمَئِذٍ ٍ لَّخَبِیۡر۔

کے معنے یہ ہیں کہ اُس دن اُن کا ر بّ اُن کی خوب خبر لے گا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم اُن کی خبر تو ضرور لیں گے مگر پہلے نہیں بلکہ

حُصِّلَ مَافِی الصُّدُوۡرِ

کے بعد۔ جب تک اُن کے چھپے ہوئے گند پوری طرح ظاہر نہیں ہوجائیں گے ہم اُن کو سزا نہیں دیں گے۔ یہ مجرموں کی سزا کے متعلق ایک ایسا اصل ہے جسے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو لوگوں پر مخالفت کے بعد فوراً عذاب نازل کیوں نہیں ہو جاتا۔ اس شبہ کا اس آیت میں جواب موجود ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو خطاب کرتے ہوئے اس جگہ اِس سوال کا جواب دیا گیا ہے … اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ رَبَّھُمۡ بِھِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّخَبِیۡر

ہم خبیر ہیں ، اِن لوگوں کے اندرونی حالات کو خوب جانتے ہیں مگر ہم حجت تمام ہونے کے بعد ان کو سزا دیں گے۔ پہلے ان کے گندظاہر کریں گے اور پھر مسلمانوں سے حملہ کر وائیں گے۔ بے شک ہم خبیر ہیں اور ہم پہلے بھی اُن کے حالات کو جانتے تھے مگر ہم نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کے دلوں میں اُن کے تقدس کا کوئی خیال باقی رہے۔ ہم اُس وقت اُن کو سزا دیں گے جب

حُصِّلَ مَافِی الصُّدُوۡرِ

ہوجائے گا اور اُن کے گند لوگوں پر اچھی طرح ظاہر ہوجائیں گے۔(تفسیر کبیر۔ سورۃ العٰدیٰت: صفحہ ۵۰۴)
اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ یہی حال آ پﷺکے عاشق صادق اور غلام کے دشمنوں اور ان کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا اڑانے والوں کے ساتھ بھی ہوگا۔ انشاء اللہ۔
پھر بعض خبریں ہیں جو قرآن کریم میں آئندہ آنے والے زمانے کے لئے بیان ہوئی ہیں- فرمایا

وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ-

اور جب نفوس ملا دئے جائیں گے۔حضر ت خلیفۃالمسیح ا لرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک تفسیری نوٹ میں اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہوگا جب کثرت سے چڑیا گھر بنائے جائیں گے۔ ظاہرہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔اور اس زمانے کے چڑیا گھر بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے جانور سمندری اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ ان میں منتقل کئے جاتے ہیں کہ اس زمانے کے انسان کو اس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
پھر غالباً سمندری لڑائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پھر غالباً سمندر ی لڑائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے جب کثرت سے سمندروں میں جہازرانی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں دُور دُور کے لوگ آپس میں ملائے جائیں گے۔ یعنی صرف جانور ہی اکٹھے نہیں کئے جائیں گے بلکہ بنی نوع انسان بھی ملائے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :-

’’ وَاِذَاالنُّفُوۡسُ زُوِّجَت

یعنی ایسے اسبابِ سفر مہیا ہوجائیں گے کہ قومیں باوجود اِتنی دور ہونے کے آپس میں مل جائیں گی حتیٰ کہ نئی دُنیا پرانی سے تعلقات پیدا کر لے گی… نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں سفر کی تمام راہیں نہ کھلی تھیں- تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بعض ایسے مقامات بھی ہیں جن میں آنحضرتﷺ کی دعوت نہیں پہنچی مگر اب تو ڈاک تار، ریل سے زمین کے اس سرے سے اُس سرے تک خبر پہنچ سکتی ہے۔ یہ حجاز ریلوے جو بن رہی ہے یہ بھی اِسی پیشگوئی کے ماتحت ہے۔ ‘‘(بدر جلد نمبر ۳ مورخہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳)۔ یہ ۱۹۰۸ء میں آپ نے فرمایا۔
پھرحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’نفوس کے ملانے کی علامت کئی طریق سے پوری ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک تو ٹیلیگراف (تار برقی) کی طرف اشارہ ہے جو ہرتنگی کے وقت میں لوگوں کی مدد کرتا ہے اور زمین کے دُور افتادہ حصوں میں رہنے والے عزیزوں کی خبر لاتا ہے اور قبل اس کے کہ دریافت کرنے والا اپنی جگہ سے اُٹھے تار برقی اس کے عزیزوں کی خبر دیدیتی ہے اور مغربی اور مشرقی شخص کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ چلا دیتی ہے، گویا کہ وہ آپس میں ملاقات کر رہے ہیں- پھر وہ ان پریشا ن و مضطر لوگوں کوان لوگوں کے حالات سے بہت جلد اطلاع پہنچا دیتی ہے جن کے متعلق وہ فکر مند ہوتے ہیں- پس اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دُور بیٹھے ہوئے اشخاص کو ملا دیتی ہے اور ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ یوں بات کرتا ہے کہ گویا ان کے درمیان کوئی روک نہ ہواور وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہوں- اور لوگوں کے آپس میں ملانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ بحری اور برّی راستوں پر امن ہوگا اور سفر کی مشکلات دُور ہوجائیں گی اور لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک تک بغیر کسی خوف و خطر کے سفر کرسکیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں ملکوں کے ملکوں کے ساتھ تعلقات زیادہ ہوگئے ہیں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے تعارف بڑھ گیا ہے۔ پس گویا کہ وہ ہر روز ایک دوسرے سے ملائے جاتے ہیں- اور اللہ تعالیٰ نے تاجروں کو تاجروں سے اور ایک سرحد پر رہنے والوں کو دوسری سرحد پر رہنے والوں کے ساتھ اور ایک حرفہ والوں کو دوسرے حرفہ والوں کے ساتھ ملا دیا ہے اور وہ نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دُور کرنے میں باہم شریک ہوگئے ہیں اور وہ ہر نعمت، سرور،لباس، کھانے اور سامانِ آسائش میں ایک دوسرے کے معاون بن گئے ہیں- اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں ہر چیز لائی جاتی ہے۔ پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ملا دیا ہے گویا کہ وہ ایک ہی کشتی میں سوار ہیں- نیز آپس میں ملانے کے ان سامانوں میں سے خشکی اور تری کی گاڑیوں میں لوگوں کا سفر کرنا ہے۔ وہ ان سفروں کے دوران ایک دوسرے سے متعار ف ہوتے ہیں-
اور ملائے جانے کے ان اسباب میں ایک خطوط کا سلسلہ بھی ہے جس کے بھجوانے کے وسائل بہت عمدہ بنا دئے گئے ہیں- تم دیکھ رہے ہو کہ خطوط کیسے دنیا کے کناروں تک بھیجے جاسکتے ہیں اور اگر تم اس بارے میں غور کرو۔(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م فرماتے ہیں کہ) اگر تم اس بارے میں غور کرو تو تمہیں ان کی کثرت ِ ترسیل تعجب میں ڈالے گی اور تم اِس کی پہلے زمانوں میں نظیر نہیں پاؤگے اور اسی طرح تم کو مسافروں اور تاجروں کی کثرت بھی تعجب میں ڈالے گی۔ سو یہ سب لوگوں کے آپس میں ملانے اور ان کے آپس میں تعارف کے اسباب و ذرائع ہیں جن کا اس سے قبل نام ونشان تک بھی نہ تھا۔ اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کیا تم نے اس سے قبل کبھی ایسا دیکھا یا کیا تم نے اِس سے قبل کتابوں میں یہ سب باتیں پڑھی ہیں-(آئینہ کمالات اسلام۔ صفحہ ۴۷۲ تا ۴۷۴)
اب دیکھیں اس زمانہ میں ٹیلی فون، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ پہ کمپیوٹر کے ذریعہ سے آپ گھر بیٹھے ایک ہی وقت میں باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں ،تحریر بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں ،تصویر یں بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں- تویہ سب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیلیں ہیں یہ ایجادات۔
آپؑ فرماتے ہیں :-

’’…وَاِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ

بھی میرے ہی لئے ہے … پھر یہ بھی جمع ہے کہ خداتعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کردئے ہیں- چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں ، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کُل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اَور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسبابِ تبلیغ جمع ہورہے ہیں- اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے۔ اخباروں اور رسالوں کا اجرائ۔ غرض اِس قدر سامان تبلیغ جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانے میں ہم کو نہیں ملتی۔‘‘(الحکم۔ جلد ۶۔ نمبر ۴۳۔ بتاریخ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۲ء۔ صفحہ اوّل)
پھر اللہ تعالیٰ نے آنحصرت ﷺ کو ایک خبر دی جومکہ کی واپسی کی خبر تھی۔ اور ہجرت سے پہلے کی یہ خبر ہے کہ

لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ (البلد:۲۔۳)۔

خبردار! میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں- جبکہ تو اس شہر میں (ایک دن) اُترنے والا ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور تیسرے چوتھے سال کی ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہجرت کے وقت میں نازل ہوئی تھی۔(تفسیر کبیر جلدہشتم صفحہ ۵۷۷)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ (القصص:۸۶)۔

یقینا وہ جس نے تجھ پرقرآ ن کو فرض کیاہے تجھے ضرور ایک دن واپس آنے کی جگہ کی طر ف واپس لے آئے گا۔
اس سورۃ کے متعلق عمر بن محمد کی یہ رائے ہے کہ یہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جاتے وقت نازل ہوئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں :’’اس خیال کو اگر درست مانا جائے تب بھی یہ سورۃ مکی ہے ‘‘۔
پھر آپؓ فرماتے ہیں :
’’ہم تو کہتے ہیں ایک مانی ہوئی مکی سورۃ میں لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ کا آنا بتاتاہے کہ رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی خبر دی اور پھر فتح مکہ کی بھی خبر دی‘‘۔( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ ۴۵۹)
چنانچہ اس الٰہی خبر کے مطابق رمضان ۸؍ہجری میں آپ ؐ ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔
پھر فرمایا:

’’وَاَنۡتَ حِلٌّ بِھٰذَ ا الۡبَلَد-

اور تُو شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اس شہر میں مُحِل ہونے والا ہے۔ یعنی نزول کرنے والاہے۔‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اگست ۱۹۱۲ء )
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ :
’’ لَرَآدُّ کَ اِلٰی مَعَادٍ : قرآن جب کوئی بڑا دعویٰ کرتا ہے تو ساتھ ہی ا س کی دلیل دیتا ہے جو بہت قوی ہوتی ہے۔ پہلے فرمایا کہ میرے اتباع بادشاہ ہوجاویں گے۔ اس کی دلیل میں فرمایاکہ یہ قرآن جس میں لکھا ہے کہ تیرے ساتھی حکمران بن جائیں گے۔ اس میں یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ وہ مکہ جہاں سے تمہیں نکالا گیا۔ جہاں کے لوگوں کے سامنے کوئی تدبیر نہ چل سکی ایک وقت آتاہے کہ اسی مکہ میں تم فاتح بن کر داخل ہوگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
پھر آنحضرت ﷺ سـے مروی آئندہ زمانہ کے لئے چند خبریں ہیں-اس میں سب سے پہلے تو یہاں پیش کروں گا خلافت راشدہ اور ملوکیت اور بادشاہت کے آنے کی خبر اور پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہونے کی خبر۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھروہ اس کو اٹھا لے گا۔اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی۔جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کردے گا۔اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ یہ فرما کر آنحضرت ﷺ خاموش ہوگئے۔(مسند احمد بن حنبل جلد چہارم صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ بیروت و مشکوٰۃ باب الانذار والتحذیر)
اب اللہ تعالیٰ سے علم پا کر سیدنا محمد ﷺ نے جو خبر دی تھی اس کے عین مطابق آپ ؐکے وصال کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا جو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک چلی اور اس کے بعد ایذارساں بادشاہت اور حکمران اور جابر بادشاہت قائم ہوگئی۔ پھر مخبر صادق ﷺکی خبر کے مطابق چودھویں صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اور پھر ان کی وفات کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کا دوبارہ قیام ہوا۔ اللہ کرے یہ قیامت تک قائم رہے۔
پھر ایک خبر چاند اور سورج گرہن لگنے کے بارہ میں تھی۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
’’صحیح دار قطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں- اِنّ لِمَھۡدِینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السّمٰوت والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃ من رمضان و تنکسف الشمس فی النّصف منہ۔ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں- اور جب سے زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دونشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا۔ یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کاگرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔ یعنی اسی رمضان کے مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ کو۔ اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں ظہور میں نہیں آیا۔ صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے۔ اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گذر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے۔‘‘(حقیقہ الوحی صفحہ ۱۹۴)
چنانچہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، یہ ۱۸۹۴ء میں یہ گرہن لگا۔چاند کی تاریخوں میں سے ۱۳؍تاریخ کو کیونکہ ۱۳؍،۱۴؍ اور ۱۵؍تاریخ کو چاند کو گرہن لگتاہے۔اوراسی مہنیہ میں ۲۸؍تاریخ کو جو بیچ کی تاریخ ہے کیونکہ ۲۷؍،۲۸؍ اور ۲۹؍کو سورج کی عموماً تاریخیں ہوتی ہیں ، سورج گرہن ہوا اور مغربی اقوام پر بھی اتمام حجت کے لئے اگلے سال یہ نظارہ مغرب نے بھی دیکھا۔
پھر مغرب سے سورج کے طلوع ہونے اور طاعون کے بارہ میں ایک روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ :علامات قیامت کے اعتبار سے یہ نشان پہلے ہوں گے۔ مغرب کی طرف سے سورج کا طلوع ہونا اور چاشت کے وقت ایک عجیب وغریب کیڑے کا لوگوں پر مسلط ہو جانا۔ کیڑے کا مسلط ہوجاناجو ہے یہ ہو سکتاہے کہ طاعون یا اور کوئی وبائی جراثیمی بیماریاں یا جنگوں کی وجہ سے ان بیماریوں کی طرف اشارہ ہو۔
(سنن ا بن ماجہ کتاب الفتن باب طلوع الشمس من مغربھا)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
’’طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیاوہ یہ ہے کہ جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتاہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب ِ صداقت سے منور ہو جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا۔ اور مَیں نے دیکھا کہ مَیں شہرِ لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہاہوں- بعد اس کے مَیں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا۔سو مَیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے۔ درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالا ت بھی انہی لوگوں کو ملے۔اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پرنظر رحمت ڈالنا چاہتاہے۔اور اب یہ آپ لوگوں کا کام ہے جو یہاں یورپ میں رہ رہے ہیں کہ اس پیغام کو آگے پہنچائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس رؤیا کوپورا کریں-
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض خبریں دیں-آپ فرماتے ہیں کہ :
’’ براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے:

’سبحان اللہ تبارک وتعالیٰ زاد مجدک ینقطع اباء ک ویبدء منک ‘۔

( دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۰)۔ خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے۔ وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا۔تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا۔ یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور مَیں ایسے گمنام کی طرح تھا جو گویا دنیا میں نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اس پر اب قریباً تیس برس گزر گئے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزارہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں- اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی۔پس افسوس ان پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے۔ پھر اس پیشگوئی میں جس کثرتِ نسل کا وعدہ تھا اس کی بنیاد بھی ڈالی گئی۔ کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چار فرزند نرینہ اورایک پوتا اور دو لڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں جو اُس وقت موجود نہ تھیں ‘‘۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۴۔۲۶۵)
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے وقت آپ کے آبائی خاندان کے قریباً سترمردزندہ تھے۔اور اس کے بعدیہ سب وفات پا گئے اور ان کی کوئی نسل نہیں چلی۔ صرف وہ افراد زندہ رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور آپ کو قبول کیا اور آگے نسلیں بھی انہی کی چلیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ایسا اتفاق دو ہزار مرتبہ سے بھی زیادہ گزرا ہے کہ خداتعالیٰ نے میری حاجت کے وقت مجھے اپنے الہام یا کشف سے یہ خبر دی کہ عنقریب کچھ روپیہ آنے والا ہے اور بعض وقت آنے والے روپیہ کی تعداد سے بھی خبر دیدی اور بعض وقت یہ خبر دی کہ اس قدر روپیہ فلاں تاریخ میں اور فلاں شخص کے بھیجنے سے آنے والا ہے۔ اور ایسا ہی ظہور میں آیا اور اس بات کے گواہ بھی بعض قادیان کے ہندو اور کئی سو مسلمان ہوں گے جو حلفاً بیان کرسکتے ہیں- اور اس قسم کے نشان دو ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہیں اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کیونکر خداتعالیٰ حاجات کے وقت میں میرا متولی اور متکفل ہوتا رہاہے۔ اور اکثر عادت الٰہی مجھ سے یہی ہے کہ وہ پیش از وقت مجھے بتلا دیتا ہے کہ وہ دنیا کے انعامات میں سے کس قسم کا انعام مجھ پر کرنا چاہتا ہے اور اکثر وہ مجھے بتلا دیتا ہے کہ کل تُو یہ کھائے گا اور یہ پیئے گا اور یہ تجھے دیا جائے گا اور ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے کہ جو وہ مجھے بتلاتا ہے۔ اور ان باتوں کی تصدیق چند ہفتہ میرے پاس رہنے سے ہر ایک شخص کر سکتا ہے۔‘‘(تریاق القلوب صفحہ۶۴۔۶۵)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ االصلوٰۃ ولسلام فرماتے ہیں کہ :
’’خداتعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تیرے لئے میں زمین پر اُترا اور تیرے لئے میرا نام چمکا اور مَیں نے تجھے تمام دنیا میں سے چن لیا۔ اور فرماتا ہے۔ قال ربّک انّہ نازل من السّماء مایُرضیک۔ یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبردست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا … افسوس اس زمانہ کے منجم اور جوتشی ان پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا۔ اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں اور بلعم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ میں سب کو شرمندہ کرونگا اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز ہرگز نہیں دونگا۔ ان سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں- اور اگر کسی حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامرد ہیں- اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان سب کو شکست دوں گا اور میں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہارکے لئے میں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے۔ ‘‘
(تجلیات الٰہیہ۔ صفحہ۳تا ۱۵)
آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے :

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِؤۡا نُوۡرَاللہِ بِاَفۡوَاھِھِمۡ وَاللہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکَافِرُوۡنَ

یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نورِ خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اپنے نُور کو پورا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں-یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے حسبِ بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا۔ تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہلِ مکہ کے پاس خلافِ واقعہ باتیں بیان کر کے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا۔ قتل کے فتوے دئیے گئے۔ حکام کو اکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی۔ مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے۔ افسوس کس قدرمخالف اندھے ہیں- ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں- کیا بجز خداتعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو۔ نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے۔ کس نے ان کو نامراد رکھا؟ اسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ۲۳۰)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کرچکا اور اسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گاجب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کردے۔ پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو۔ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام و نشان نہ رہتا مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خداتعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہورہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں- دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کرکے ہلاک ہوگئے۔ اے بندگانِ خدا ! کچھ تو سوچو کیا خداتعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۱۱۸)
پھر آپ کے کچھ الہامات کا ذکر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:
ضرور تھا کہ دوسرا مسیح بھی تلوار کے ساتھ نہ آتا اور اس کی بادشاہت صرف آسمان میں ہوتی اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی۔ ایک درندہ بکر ی کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا۔ یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں- غرض مَیں اس لئے ظاہر نہیں ہوا کہ جنگ و جدل کا میدان گرم کروں بلکہ اس لئے ظاہر ہواہوں کہ پہلے مسیح کی طرح صلح اور آشتی کے دروازے کھول دوں- اگر صلح کاری کی بنیاد درمیان نہ ہو توپھر ہمارا سارا سلسلہ فضول ہے اور اس پر ایمان لانا بھی فضول۔ (الاشتہارواجب الاظہار۔ضمیمہ تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۵۲۱)
پھر ایک الہام کا ذکر ہے ۱۸۹۸ء میں- ’’مَیں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا۔ دیکھو مَیں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمہ تھا‘‘۔(ضرور ۃ الامام۔روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۴۹۷)
ایک اقتباس ہے، آپ ؑفرماتے ہیں :-
’’میرا خدامیرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے۔ اور میں اس کے ساتھ ہوں اور میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں- اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے۔ نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مَکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور یہ سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا۔ مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کرسکے۔ میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کانپتے ہیں- خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے۔ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں- اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلاوے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے۔ ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا وے اور پھر دیکھے کہ انجامکار وہ غالب ہوا یا خدا۔ پہلے اس سے ابوجہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے۔ مگر اب وہ کہاں ہیں؟۔ وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقینا سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا۔ وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے۔ بد قسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ۔ صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں