خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍اپریل 2006ء

خلافت کے نظام کی برکت سے آپ تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں گے اور آپ ؐ کے عاشق صادق کی تعلیم پر بھی عمل کرنے والے ہوں گے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، نمازوں کے قیام، مالی قربانی، اطاعت نظام اور باہمی محبت و اخوت کو لازم پکڑنے کی تاکیدی نصائح۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ اورآپؑ کا پیغام پہلے قادیان سے دنیا کے کناروں تک اور اب دنیا کے کنارے سے پھر تمام دنیا میں پھیل رہا ہے۔
(زمین کے کنارے فجی آئی لینڈ سے پہلی بار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا فرمودہ خطبہ جمعہ ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ تمام دنیا میں براہ راست نشر ہوا۔ جماعت احمدیہ فجی کی تاریخ کا ایک نہایت اہم سنگ میل۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے الٰہی وعدوں کے ایک اور عظیم الشان رنگ میں ایفاء کا روح پرور نظارہ)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 28؍اپریل 2006ء (28؍شہادت 1385ہجری شمسی)بمقام صووا (جز ائر فجی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کا یہ شکر و احسان ہے کہ آج مجھے دنیا کے اس خطے اور ملک سے بھی براہ راست خطبہ دینے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ دنیا کا یہ حصہ دنیا کا آخری کنارہ کہلاتا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کا ایک اَور طرح سے نظارہ کروا رہا ہے۔ ایک تو وہ نظارے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھائے اور دکھا رہا ہے کہ د نیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ اور آپ کا پیغام ہم ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پہنچتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور2005ء کے جلسہ قادیان اور اس سال کے شروع میں دو خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی بھی قادیان سے براہ راست نشر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہاں سے خطبات دینے کی توفیق دی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا دنیا کے کناروں تک پہنچے۔اور آج جیسا کہ مَیں نے کہا فجی کے اس شہر سے جو(فجی کا ہی) ایک دوسرا شہر ہے اور دنیا کا آخری کنارہ ہے یہ خطبہ دے رہا ہوں۔ تو ایک لحاظ سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کے آخری کنارے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام دنیا کے باقی حصوں میں پہنچانے کا سامان اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کوشش جو ہم براہ راست خطبہ نشر کرنے کے لئے کر رہے ہیں، کامیاب بھی ہو اور یوں ہم اس پیشگوئی کو اس طرح بھی پورا ہوتے دیکھیں کہ پہلے یہ پیغام دنیا کے ان کناروں تک پہنچا اور اب دنیا کے کنارے سے پھر تمام دنیا میں پھیل رہاہے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیں اس کا شکر گزار بنانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا ذریعہ بننا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے مسیح و مہدی ہیں جو سب جانتے ہیں۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر مبعوث فرمایا۔ آج دنیا اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ ہر کوئی پکار رہا ہے اور کہہ رہا ہے،دنیا زبان حال سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی مصلح کوئی مہدی کوئی مسیح اس زمانہ میں ہونا چاہئے جو دنیا کو صحیح راستے پر چلا سکے۔ آج دنیا اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حقیقی رنگ کو بھول چکی ہے۔ نفس نے بہت سے خدا دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں جن کی ہر شخص پوجا کر رہا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے کے حق کو بھلایا جا چکا ہے۔ اور اس طرح نفسانفسی کا عالم ہے کہ اپنے بھائی کے حقوق چھین کر بھی اپنے حقوق قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آج سینکڑوں لکھنے والے اخباروں میں لکھتے ہیں خود دوسرے مسلمان بھی یہ لکھتے ہیں کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، عمل نہیں۔ تو یہی زمانہ تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس زمانے میں میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو گا۔پس وہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان خوش قسمتوں میں شامل کیا جنہوں نے اسے قبول کیا۔
کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو صرف قبول کر لینا ہی کافی ہے؟ نہیں بلکہ آپؑ کے آنے کا ایک مقصد تھا کہ بندے کا تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے قائم کروانا ہے۔ اور پیداکرنے والے خدا ا ور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کرنا ہے۔ تاکہ ان دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی سے ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور یوں اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کو سمیٹیں یا سمیٹنے وا لے بنیں اور مرنے کے بعد بھی اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو سکیں۔پس ہمیں آپؑ کی تعلیم کی روشنی میں جو دراصل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم ہے جس کو لوگ بھلا بیٹھے ہیں، اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے۔ پس اس وقت جو خداتعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں ‘‘۔ یعنی گناہ سے بچنے کا راستہ دکھاتا ہوں۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 11جدید ایڈیشن)
پس دیکھیں یہ سب سے بڑا مقصد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کا کہ خدا کی پہچان کروائیں اور جب بندے کو خدا کی پہچان ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے۔ پس آپ نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا آپ کی بیعت میں شامل ہو گئے تو اپنا جائزہ لیں، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ جومقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آنے کا بیان فرمایا ہے اور سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے، اور بھی مقاصد ہیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے پھر بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے اور یہ سارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ تو جیسا کہ مَیں کہہ رہا تھا اس مقصد کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اور جب ہم اس مقصد کو سامنے رکھیں گے تو ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے اور عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہمیں اللہ کے حضور جھکنے اور اس کی پہچان کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو ہمارا یہ صرف نام کی بیعت کر لینا بے فائدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شامل کرتا ہے۔ اگر آپ ان کو پڑھیں تو پتہ لگتا ہے کہ آپؑ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔
دوسرے اس اقتباس میں جومَیں نے پڑھا ہمارے ان بھائیوں کا بھی جواب آ گیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجدد تھے،مصلح تھے، لیکن نبی نہیں تھے۔ آپؑ نے یہ لکھ کر کہ میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی، واضح فرمایا کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا درجہ عطا فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور بہت ساری جگہوں پر لکھا ہوا ہے کہ میری حیثیت نبی کی ہے اور یہ بھی کہ آپ کس حیثیت سے نبی ہیں۔ بہرحال مَیں نے یہ اقتباس پڑھا تھا تو ضمناً یہ بات بھی سامنے آ گئی۔ آپؑ کی نبوت ایسی نبوت ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی پیشگوئیوں کے مطابق آپؑ آئے ہیں۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پیشگوئیوں کو پورا ہوتا دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور آپؐ کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ہر وقت ڈوبا رہتا تھا۔ آپؑ اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں ؎

بعد از خدا بعشق محمد ؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

کہ اللہ تعالیٰ کے بعد مَیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوبا ہوا ہوں۔ اگر یہ عشق جو مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، کفر ہے، تو مَیں بہت بڑا کافر ہوں۔ تو یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عشق خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس ہم جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم تبھی حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں جب ہم بھی اپنے پیدا کرنے والے خدا اور اس کے آخری شرعی نبی سے عشق کرنے والے بنیں۔ اس کوشش میں رہیں کہ اس عشق کے معیارہمیں بھی حاصل ہوں اور یہ کوشش کس طرح ہو گی؟ یہ تب ہو گی جب ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے، اُس تعلیم پر چلنے والے ہوں گے جو ان پاک اور نیک عملوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے۔
آپؑ اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں :
’’ ہر وقت جب تک انسان خداتعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ا ن ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے حقوق بھی دوقسم کے ہیں۔ایک حقوق اللہ‘‘(یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور)’’ دوسرے حقوق العباد‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ایک دوسرے کے حقوق۔’’ اور حقوق العباد بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں ‘‘۔ یعنی آپس میں احمدیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ حقوق ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق ہیں، ’’خواہ وہ بھائی ہیں یا باپ ہے یا بیٹا ہے۔ مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے‘‘۔ ایک دین کا ایسا رشتہ ہے جو بھائی بھائی کا رشتہ ہوتا ہے’’ اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ دوسرے انسان ہیں کسی بھی مذہب کے ہوں، کسی بھی فرقے کے ہوں ، ان سب سے سچی ہمدردی کرنا ہے۔
’’ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو‘‘۔ یعنی کسی اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ ہو ’’بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے‘‘ یعنی جواللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے’’ کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے، پورے طورپر سینہ صاف نہیں ہوتا۔ ادْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن :61)میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ96جدیدایڈیشن)
تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے دو حقوق ادا کرو، ایک اللہ کا حق جو بندے پر ہے دوسرا بندے کا حق دوسرے بندے پر یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی جو مخلوق ہے، اس میں ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق۔
اللہ تعالیٰ کے حق کے بارے میں آپؑ نے فرمایا کہ اللہ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور بے غرض ہو کر عبادت کی جائے۔ یہ نہیں کہ جب کسی مشکل میں یا مصیبت میں گرفتار ہو گئے یا پڑ گئے تو اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا اور جب آسائش کے، آسانی کے دن آئے، ہر قسم کی فکروں سے آزاد ہو گئے تو دنیا میں ڈوب گئے اور خدا کو بھول گئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ اس بات کا خیال ہی نہ رہے کہ ہمارا ایک خدا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور سب نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ رکھیں اور عبادت کا جوبہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے وہ پنجوقتہ نمازیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

اِنَّنِیٓ اَنَا اللہُ لَااِلٰہَ اِلَّا ٓ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ۔وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:15)

یقینا مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سوا اور کوئی معبود نہیں،پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر۔ پس اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ میری عبادت اور میرا ذکر نماز کو قائم کرنے سے ہی ہو گا۔ اور نماز کو قائم کرنا یہ ہے کہ باقاعدہ پانچ وقت نماز پڑھی جائے اور مردوں کے لئے حکم ہے کہ باجماعت نماز پڑھی جائے۔ عورتیں تو نماز گھر میں پڑھ سکتی ہیں۔
یاد رکھیں نماز کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے اس قدر فرمائی ہے کہ فرمایا کہ نماز چھوڑنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی بہت زیادہ حفاظت کرنی چاہئے۔ جو بھی حالات ہوں، نمازوں کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ اگر آپ نماز پڑھنے والے ہوں گے تو خداتعالیٰ سے آپ کا براہ راست تعلق پیدا ہو گا۔ نہ آپ کو کسی اور وظیفہ کی ضرورت ہے، نہ کسی اور ورد کی ضرورت ہے، نہ کسی پیر فقیر کے پاس جانے کی ضرورت ہے۔ نماز کو ہی اپنا وظیفہ اور ورد بنا لیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے۔(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ)۔
یعنی جو نماز نہیں پڑھتا وہ مومن نہیں ہے۔ پس اللہ کے حکم کے مطابق اپنی نمازوں کی بہت حفاظت کریں، یہ آپ پہ فرض کی گئی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کی زاہدانہ زندگی‘‘ یعنی انسان کی نیکی کی زندگی ’’کا بڑا بھاری معیار نماز ہے۔ وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے ‘‘یعنی کہ جھکا رہتا ہے، روتا ہے، ’’امن میں رہتا ہے‘‘۔ جو انسان دعائیں مانگتا ہے وہ امن میں رہتا ہے ’’جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ‘‘ یعنی اپنے آپ کو عاجز کرکے رونا اور گڑ گڑانا۔فرمایا ’’ خدا کے حضور گڑاگڑنے والااپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو ربّ ہے اس کی مہربانی اور شفقت اور پیار کی گود میں اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے۔’’ یاد رکھو اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا‘‘۔ یعنی اس شخص نے اپنے ایمان کا مزا نہیں اٹھایا ’’جس نے نماز میں لذت نہیں پائی‘‘۔ جس کو نماز میں مزا نہیں آیا۔ نماز پڑھتے ہوئے مزا آنا چاہئے تبھی ایمان کا مزا ہے۔ نہیں تو ایمان کے بھی زبانی دعوے ہیں۔ ’’نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ‘‘دانہ کھاتے ہوئے’’ ٹھونگے مارتی ہے، ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا۔ اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اور حضور الٰہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں۔ نماز میں دعا مانگو، نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو۔
فاتحہ، فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے۔ یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے‘‘ فرق پیدا کر دیتی ہے’’ اور دل کو کھولنے، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے‘‘۔ انسان کے دل میں اس سے ایک روشنی پیدا ہوتی ہے۔’’ اس لئے سورۃ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہئے‘‘۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے جو شروع ہوتی ہے اس کو سورۃفاتحہ کہتے ہیں ’’اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے۔ انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بناوے‘‘۔ یہ ضروری ہے ہر انسان کے لئے کہ ایک ایسا سوالی ہو جو کسی سے سوال کرنے میں بالکل پیچھے پڑنے والا سوالی ہوجائے۔ اور ایسی شکل بنائے جس کو بہت زیادہ کسی چیز کی ضرورت ہے۔ ’’ اور جیسے ایک فقیر اورسائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے۔ اس طرح سے چاہئے کہ پوری تضرع اور ابتہال کے ساتھ‘‘ یعنی منت سے گڑ گڑا کر، زاری کرکے روئے ’’اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کیا جائے۔ پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لے ‘‘جب تک نمازمیں روئے نہیں ’’اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے، نماز میں لذت کہاں ‘‘۔(ملفوظات جلد نمبر2صفحہ146-145)
پس یہ معیار ہیں جو ہمیں حاصل کرنے چاہئیں۔ اپنے آپ کو دیکھیں جائز ہ لیں کیا حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کے بعد یہ چیزیں ہم میں پیدا ہو گئی ہیں، یہ معیار ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعض لوگ مختلف وظیفوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں بجائے اس کے کہ نماز پڑھیں اور دعائیں کریں۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وظیفوں کے ہم قائل نہیں البتہ دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو۔ سچے اضطراب اور سچی تڑپ سے، جناب الٰہی میں گداز ہو، یعنی ایک بے چینی سے اور ایک تڑپ کے ساتھ، ایک شوق کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھکے ایسا کہ وہ قادر حیی و قیوم دیکھ رہا ہے۔ اور یہ سمجھے کہ خداتعالیٰ جو ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے وہ ہمیں دیکھ بھی رہا ہے۔ جب یہ حالت ہو گی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا۔ جب آدمی اس طرح نماز پڑھتا ہے اور عبادتیں کرتا ہے تو گناہوں سے بھی ہٹتا جاتا ہے، برائیوں اور بدیوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ جس طرح انسان آگ یا ہلاک کرنے والی اوراشیاء سے ڈرتا ہے، خطرناک چیزوں سے انسان ڈرتا ہے، ویسے ہی اس کو گناہ کی سرزنش سے ڈرنا چاہئے۔ اسی طرح اس گناہ کرنے سے بھی ڈرنا چاہئے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ گناہ کرنے والے کو پکڑے گا۔ اگر یہ ڈر ہو گا تو بچے گا۔ گناہگار زندگی انسان کے لئے اس دنیا میں مجسم دوزخ ہے جس پر عذاب الٰہی کی سموم چلتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ گناہگار انسان کو مکمل طور پر دوزخ بنا دیتی ہے۔ اور ایسے گناہگاروں پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی، غصے کی، ناراضگی کی ہوائیں چلتی ہیں اور اس کو ہلاک کر دیتی ہیں مار دیتی ہیں۔ جس طرح آگ سے انسان ڈرتا ہے، اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے۔ہمارا یہی مذہب ہے کہ نماز میں رو رو کر دعائیں مانگو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے فضل کی نسیم چلائے۔ اپنے فضل کی ہوا چلائے۔ فرماتے ہیں کہ تمام رسولوں کو استغفار کی ایسی ضرورت تھی جیسے ہم کو ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبییّن کا فعل اس بات پر شاہد ہے۔ کون ہے جو آپؐ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی استغفار کیا کرتے تھے، جب آپؐ استغفار کرتے تھے تو پھر ہمیں کس قدر کرنا چاہئے۔ پس یہ سنت جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمائی کہ نمازیں پڑھتے تھے، اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے اس کے آگے گڑ گڑاتے تھے، روتے تھے۔ اس طرح دعائیں کرتے تھے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ کی سجدے کی حالت میں ایسی کیفیت ہو جاتی تھی جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو۔
یعنی اس طرح آپ تڑپتے تھے اور روتے تھے اور سینے سے ایسی آواز آتی تھی جیسے ابلتی ہوئی ہانڈی پک رہی ہو۔ اس میں سے ابلتی ہوئی ہنڈیا کی آواز آتی ہے۔ پس دیکھیں ہمیں کس قدر استغفار کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں تاکہ اپنے خدا کو راضی کریں۔
پھر ایک بہت بڑا حق جو ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، وہ نظام جماعت کی اطاعت ہے۔ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ زکوٰۃ بھی ادا کرو اور رسول کی اطاعت بھی کرو۔ فرمایا

وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰـوۃَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن (النور:57)

کہ اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو پھر نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے اس میں مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے خلافت کا وعدہ ہے جو عبادت کرنے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والے ہوں گے۔ اور عبادت کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے وہ لوگ ہیں جیسا کہ اس آیت میں فرمایا جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں، اس طرف توجہ رکھتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کی گئی مالی قربانی بھی عبادت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ مالی قربانیاں کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں، چندے دیتے ہیں تو وہ بھی عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ آج اگر آپ دیکھیں تو بحیثیت جماعت صرف جماعت احمدیہ ہے جوزکوٰۃ کے نظام کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر مالی قربانیاں کرنے والی بھی ہے۔ اور اس میں خلافت کا نظام بھی رائج ہے۔ پس اس نظام کی برکت سے آپ تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے اور عاشق صادق کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ آپ نے بیعت کرکے ایک معاملے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرلی، آپ کے اس حکم کو مان لیا کہ جب میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو تو اگر تمہیں برف کی سلوں پر بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور میرا سلام کہنا۔ اللہ نے فضل فرمایا یہاں آپ تک یہاں احمدیت کا پیغام پہنچا اور آپ نے احمدیت کو قبول کر لیا لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اتنا کر لینا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے مان لیا اور سلام کہہ دیا۔ بلکہ اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہیں۔ خلافت اور نظام جماعت سے تعلق بھی قائم کرنا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔
اس بارے میں اب پھر مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ یعنی ایک موقع پیدا کر دیا ہے ایسے لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں نیکی تھی۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز مغرور نہ ہوجاؤ۔ اس بات پر تمہیں کوئی فخر نہ ہو کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے، یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان منکرین سے بہرحال بہتر ہو جنہوں نے مسیح و مہدی موعود کا انکارکرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خداتعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی۔ حسن ظن کیا کہ جو دعویٰ کرنے والا ہے وہ سچا ہی ہے اور یہی شخص ہے جس نے آنا تھا تم نے مان لیا اور اس سے تم اللہ تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچاؤ گے لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خداتعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ ایسا چشمہ ہے جہاں سے پانی نکلتا ہے اس کے قریب تو آ گئے ہو جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ قریب پہنچ گئے ہو اب پانی بھی پینا ہے پس خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ اس پانی کو پینے کی بھی تمہیں توفیق عطا فرمائے۔ صرف چشمے کے قریب پہنچ کے کھڑے نہ ہو جاؤ۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ میں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پیئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر جو اسلام کی تعلیم ہے اس پر چلنا، قرآن کریم پر عمل کرنا۔یہ ایسا پانی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے اس چشمے سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خداتعالیٰ نے جودو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کروان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا حق۔ اللہ کی مخلوق کے حق کیا ہیں۔ جیسا کہ آپؑ فرما چکے ہیں مَیں نے پہلے بھی اقتباس میں پڑھا تھا۔ ایک دوسرے سے سچی ہمدردی ہو۔ حدیث میں آتا ہے، مسلمان کو آپس میں اس طرح ہونا چاہئے جس طرح ایک جسم کا حصہ۔ جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام جسم کو تکلیف پہنچتی ہے پس جماعت کے ہر ممبر کو چاہئے، ہر احمدی کو چاہئے کہ اس طرح اپنے اندر ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس پیدا کریں کہ جب ایک کو تکلیف ہو تو سب کو تکلیف ہو، اور پھر اس طرح جب ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس پیدا کریں گے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی کو اپنے سے کم تر سمجھیں یا کسی احمدی کے لئے دل میں رنجش پیدا ہو۔ ایک دوسرے سے ناراضگیاں پیدا ہوں، شکایتیں پیدا ہوں۔ اور اس ہمدردی کو حضرت مسیح موعودؑ نے صرف آپس میں تعلق بڑھانے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ فرمایا کہ یہی نہیں کہ یہ ہمدردیاں تم آپس میں ہی احمدی احمدی سے رکھو بلکہ فرمایا کہ بظاہر جن کو تم اپنا دشمن سمجھتے ہو یا جو تمہارے سے دشمنی کا سلوک کرتے ہیں، تمہاری مخالفت کرتے ہیں ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح تمہیں نقصان پہنچائیں، ان کے ساتھ بھی ہمدردی کرو اور ہمدردی کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کے لئے دعا کرو اور ان تکلیف دینے والے لوگوں کے لئے بھی اپنا سینہ صاف رکھو۔ جب تم اس طرح سینہ صاف رکھو گے، اپنا دل لوگوں کے لئے صاف رکھو گے تو پھر یہی حقیقی معنوں میں رسول کی اطاعت ہو گی اور تم رسول کی اطاعت کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہو۔
اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جوتجھے نہیں دیتا اسے بھی دے‘‘۔جو تمہارے سے تعلق توڑتا ہے اس سے بھی تعلق قائم کرو جو تمہیں نہیں دیتا اس کو بھی دو، کوئی کسی قسم کا تمہارا حق ادا نہیں کرتا تب بھی اس کا حق ادا کرو۔ جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تُو درگزر کرے‘‘۔(مسند احمد بن حنبل صفحہ438)جو تمہیں برا بھلا کہے گالیاں دے اس کو معاف کر دو، نظر پھیر کے اس سے چلے جاؤ بجائے لڑائی کرنے کے۔
تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جس پر چلنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔جب ہم ایسے رویے اختیار کریں گے تو جماعت کے اندر بھی اور ماحول میں بھی درگزر اور قصور معاف کرنے کی فضا پیدا کریں گے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے والے ہوں گے۔ اور نتیجۃً جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے والے ہوں گے۔
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ آپس میں ایک د وسر ے کے حقوق ادا کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرو۔ کیونکہ تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے عائشہ! عاجزی اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور تکبر کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے۔
پس یہ حکم ایسا ہے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں، سوسائٹی میں امن اور محبت کی فصلیں اگا رہے ہوں گے کسی کو کبھی اپنی قوم کا یا خاندان کا تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کریں، احترام کریں، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں تو یہی چیزیں ہیں جو ہر قسم کی دشمنیاں ختم کرنے والی ہوں گی۔
یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے کی ضرورت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃٰ والسلام نے فرمایا۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں اور اس سے دعا مانگیں۔ آپ کے دل میں اللہ کا خوف ہو ہر وقت یہ احساس ہو کہ ایک خدا ہے جس کے سامنے ہم نے پیش ہونا ہے اور پھر ہمارا حساب کتاب بھی ہونا ہے۔ اگر تو یہ احساس قائم رہے گا تو جس دل میں بھی یہ احسا س قائم رہے گا وہ اللہ کے حقوق ادا کرنے والا بھی ہو گا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والا بھی ہو گا۔ اور ایک احمدی کے دل میں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ احساس ہونا چاہئے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک احمدی میں اور دوسروں میں عبادت کے لحاظ سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لحاظ سے بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے،اور نظر بھی آنا چاہئے۔ ہر ایک کو نظر آئے اور آپ کے یہ نیک نمونے ہی ہیں جو دوسروں کو آپ کے قریب کریں گے اور آپ کو یہ توفیق ملے گی کہ دنیا کو بھی اس طرف توجہ دلا سکیں کہ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے یہ راستے ہیں جن پر ہم چل رہے ہیں تم بھی آؤ اور اپنی دنیا کوبھی سنوار لو اور اپنی آخرت کو بھی سنوار لو۔ ہر بچہ، بوڑھا، مرد، عورت اس طرف توجہ کرے کہ ہم نے حقیقی معنوں میں خدا کا عبادت گزار بندہ بننا ہے اور مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ جب آپ میں سے ہر ایک اپنے میں یہ انقلاب پیدا کرنے والا بن جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ جماعت کی ترقی آپ کو اس چھوٹے سے خوبصورت جزیرے میں نظر آئے گی۔ پس ابھی سے اپنے اندر یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں ، اس جلسے کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان جلسوں کا مقصد یہ بیان فرما یا تھا کہ احمدیوں کے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا ہو۔ تو اس سے فائدہ اٹھائیں، اپنے یہ دو دن دعاؤں میں لگائیں اور پھر ان دعاؤں کو ہمیشہ زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ یہ نہ ہو کہ یہاں سے جائیں تو پھر بھول جائیں کہ نمازیں بھی پڑھنی تھیں کہ نہیں، دعائیں بھی کرنی تھیں کہ نہیں، بندوں کے حقوق بھی اداکرنے تھے کہ نہیں۔ بلکہ آپ کی زندگی کا یہ حصہ بن جانی چاہئیں۔ اسی طرح دعاؤں کے علاوہ اس جلسے کے ماحول میں، جب کافی یہاں اکٹھے ہوں گے، جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بھی عادت ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ کوئی اونچ نیچ ہو جاتی ہے، اس لحاظ سے ایک دوسرے کو برداشت کریں گے تو حقوق بھی ادا ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں