خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 19؍اکتوبر 2007ء

عزیز خداتعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خداتعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں۔ وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت و قوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے۔ پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے۔
ہماراکام یہ ہے کہ جہاں اپنے ایما ن کی مضبوطی اور ثبات قدم کے لئے اس خدا کے حضور جھکیں وہاں ان ظلموں سے بچنے اور فتح کے نظارے دیکھنے کے لئے بھی اس قوی اور عزیز خدا کو ہی پکاریں جو اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سچے کرتا آیاہے۔
(اللہ تعالیٰ کی صفت اَلْعَزِیْز کے مختلف معانی کا تذکرہ)
پاکستان کے لئے دعا کی تحریک جہاں سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے اور جھوٹی اَناؤں اور عزتوں کے لئے پوری قوم اور ملک کو داؤ پر لگایا ہواہے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 19؍اکتوبر 2007ء بمطابق19؍اخاء 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ۔ وَمَکْرُ اُوْلٰئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ(فاطر:11)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو بھی عزّت کے خواہاں ہیں، پس اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے، اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ لوگ جو بُری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے، ان کا مکر ضرور اکارت جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عزیز ہے، جس کا قرآن کریم میں قریباً سَو دفعہ بیان ہوا ہے۔ یہ بیان مختلف آیات میں مختلف مضامین کے ساتھ اور ایک آدھ بار کے علاوہ دوسری صفات کے ساتھ مل کر ہوا ہے۔ اس صفت کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے اہل لغت نے جو مختلف معانی کئے ہیں وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔
مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلْعَزِیْز وہ جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو۔ یعنی جو دوسروں کو دبا لے اور اُسے کوئی دبا نہ سکے، اس پر غلبہ نہ پا سکے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّہٗ ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ

یعنی وہ یقینا غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔
پھر امام راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ (المنافقون:9)

اس کا ترجمہ ہے اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے۔
عزت کا مطلب بھی قوت، طاقت اور غلبہ ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ وہ عزت جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو حاصل ہے یہی ہمیشہ باقی رہنے والی دائمی اور حقیقی عزت ہے۔
پھر لکھتے ہیں کہ آیت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا،

اس کے معنی ہیں کہ جو شخص معزز بننا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے عزت حاصل کرے۔ کیونکہ سب قسم کی عزت خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
امام راغب قرآنی آیات کے حوالے سے ہی عموماً معانی بیان کرتے ہیں۔
پھر لسان العرب میں اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں۔ اَلْعَزِیْزُ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ زُجاج کہتے ہیں کہ عزیز وہ ذات ہے جس تک رسائی ممکن نہ ہو اور کوئی شے اسے مغلوب نہ کر سکتی ہو۔
بعض کے نزدیک اَلْعَزِیْزوہ ذات ہے جو قوی ہو اور ہر ایک چیز پرغالب ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اَلْعَزِیْز وہ ذات ہے جس کی کوئی مثل نہیں۔ اَلْمُعِزّ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور وہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عزت عطا کرتا ہے۔ اَلْعِزُّ ذلّت کے مقابلے پر عزت استعمال ہوتا ہے اَلْعِزُّ کا اصل مطلب قوت، شدت اور غلبہ ہے،

اَلْعِزُّ وَالْعِزَّۃُ

کے معانی ہیں

اَلرِّفْعَۃُ وَالْاِ مْتِنَاعُ۔

وہ بلندی کہ جس تک رسائی نہ ہو سکے۔
اس ساری وضاحت کا خلاصہ یہ نکلا کہ عزیز خداتعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خداتعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں۔ وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت و قوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے۔ پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآن کریم میں تقریباً سَوجگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر ہے۔ اس بارے میں بعض مفسرین نے بعض آیات کی جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں تاکہ اس کے مزید معنی کھل سکیں۔
علامہ فخرالدین رازی

اَمْ عِنْدَ ھُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَھَّاب (سورۃ صٓ:10)

کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ’’عزیز کی صفت بیان کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبوت کا منصب ایک عظیم منصب اور ایک بلند مقام ہے اور اس کو عطا کرنے پر قادر ہستی کے لئے ضروری ہے کہ عزیز ہو یعنی کامل قدرت رکھنے والی ہستی ہو اور وھاب ہو یعنی بہت زیادہ سخاوت کرنے والی ہو اور اس مقام پر فائز صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کامل قدرتوں والا اور کامل الجود ہے۔ (یعنی سخاوت اور بخشش کرنے والا ہے۔ )
(تفسیرکبیر امام رازی تفسیر سورۃص زیر آیت نمبر10)
یہ آیت جس کی علامہ رازی نے وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز بیان کی ہے یہ اصل میں کافروں کے اس سوال کے جواب میں ہے جو اس آیت سے پہلی آیت میں بیان ہوا ہے جب کافروں نے کہا تھا کہ

ءاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا(سورۃ صٓ:9)

کیا ہماری ساری قوم میں سے اسی پرذکر نازل ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرا ربّ جو غالب اور بخشنہارہے کیا اس کی رحمت کے خزانے انہی کافروں کے پاس ہیں جسے چاہے یہ دیں، جسے چاہیں نہ دیں۔ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جیسا شخص ہے اس پر کس طرح نبوت اتر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کے خزانے تمہارے پاس نہیں ہیں بلکہ مَیں جو غالب اور تمام قدرتوں والا ہوں، مَیں ہی جسے چاہے خزانے دیتا ہوں۔ تم تو میری مخلوق ہو۔ تکبر کس بات کا ہے؟ پس اللہ جسے مناسب سمجھتا ہے، اپنی رحمت کے خزانوں میں سے دیتا ہے اور نبوت کا انعام اسے ہی دیتا ہے جس کے لئے سمجھتا ہے کہ یہ بہترین طور پر اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس پیغام کو پہنچائے گا۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی یہی اعترض ہوتا ہے۔ عیسائی، مسلمان کئی ہیں جو یہ اعتراض کرتے ہیں، مسلمانوں میں سے تو اکثریت ہے جنہوں نے قبول نہیں کیا ان کا یہی اعتراض ہے کہ مسیح و مہدی ایک عام آدمی؟ یہ الہام اور یہ نبوت کا مقام مرزا غلام احمد قادیانی کو کس طرح مل گیا؟ کیا اس عام آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنانا تھا؟
ایک عیسائی عورت نے بھی جرمنی میں مجھ سے ایک سوال کیا کہ دُور دراز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک شخص کو کیوں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا دیا، یہ کس طرح ہو گیا، جس کا پیغام بھی باہر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چھوٹی سی جگہ ہے، اس زمانے میں کوئی ذرائع نہیں تھے۔ تو مَیں نے اس سے یہی کہا تھا کہ جواب تمہارے سوال میں ہی آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی رحمت کا خزانہ کھولا تو اس پیغام کے پہنچانے کے لئے انتظام بھی کر دیا۔ آج جرمنی میں بھی تم یہ پیغام سن رہی ہو۔ تمہیں بھی یہ پیغام پہنچ گیا ہے۔ دنیا کے 189ممالک میں یہ پیغام پہنچ گیا ہے۔ تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ مقام بخشا گیا جو غالب ہے، جو سب عزتوں کا مالک ہے، جو اپنے پیاروں کو غلبہ عطا فرماتا ہے بلکہ اس سے منسلک مومنین کی جماعت سے بھی وعدہ ہے کہ غلبہ عطا فرمائے گا۔ عرب کہتے ہیں کہ عرب سے باہر مسیح و مہدی کس طرح ہو سکتا ہے؟ باقی دنیا میں بسنے والے مسلمان کہتے ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ پنجابی کس طرح مسیح و مہدی ہو سکتا ہے؟ حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ یہ نشانیاں پوری نہیں ہوئیں، ظاہری معنوں کو دیکھتے ہیں۔ اس پیغام پر غور نہیں کرتے جو احادیث میں بیان ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کرکے فرمایا کہ پہلے انبیاء سے بھی یہ سوال ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ سے بھی یہی سوال ہوا اور ظاہر ہے جب آپؐ کے عاشق صادق نے مبعوث ہونا تھا، تب بھی یہی سوال ہونا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں عزیز ہوں، مَیں وہاب ہوں۔ تم لوگ جو قرآن کریم پڑھنے والے ہو اس بات پر غور کرو۔ رحمت کے خزانوں کا بھی مَیں مالک ہوں، تم نہیں۔ جس کو مسیح و مہدی بنانے کے لئے مَیں نے مناسب سمجھا، بنا دیا۔ قرآن میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا بیان فرما دیا کہ جب آئندہ کبھی موقع آئے تو اس پر غور کرو تاکہ تمہیں ٹھوکر نہ لگے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ پیغام کو سمجھنے والے بنیں۔
یہ بات بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی کہ جس پر اپنی رحمت اتارتا ہوں، جسے انعام سے نوازتا ہوں، پھر اس کی مدد بھی کرتا ہوں۔ اور مدد کرنے اور فتح دینے کا اعلان بھی صفت عزیز کے تحت بڑے زور دار طریق سے فرمایا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(المجادلہ:22)۔

امام فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیر کے تحت بیان کرتے ہیں کہ’’افضل طور پر تمام رسولوں کا غلبہ حجت اور دلائل سے متعلق ہے سوائے اس کے کہ ان میں سے بعض نے دلائل کے غلبے کے ساتھ تلوار کا غلبہ بھی شامل کر دیا لیکن بعض انبیاء کے ساتھ یہ صورتحال نہیں۔ اس کے بعد فرمایا ’’قَوِیٌّ کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت کرنے کی قوت رکھتا ہے اور وہ عزیز یعنی غالب ہے اور کوئی اسے اپنی مراد کے حصول سے روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے سوا سب ممکن الوجود ہیں اور اللہ واجب الوجود ہے‘‘۔ یعنی باقی سب تو مخلوقات ہیں، ان کا وجود ممکن ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وجود حق ہے، ہمیشہ سے ہے اور جو واجب الوجود ہے وہ ممکن الوجود پر غالب ہوتا ہے۔
(تفسیر کبیر امام رازی تفسیر سورۃ المجادلہ زیر آیت 22)
پھر روح المعانی میں

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ

کے تحت علامہ ابو الفضل شہاب الدین آلوسی لکھتے ہیں کہ

لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی

یعنی حجت اور تلوار یا اس کے متبادل کے ساتھ یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ غالب آئیں گے۔ رسولوں کے غلبہ میں یہ بات کافی ہے کہ حجت کے علاوہ ان رسولوں کے زمانے میں ان کی حقانیت ثابت ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے دشمنوں کو مختلف قسم کے عذابوں سے ہلاک فرما دیا۔ جیسے قوم نوحؑ، قوم صالح اور قوم لوط وغیرہ اور ہمارے نبیﷺ کے مخالفین کو جنگ کے ذریعہ سے ہلاک کیا۔ اگرچہ ان جنگوں کے نتائج بعض دفعہ(ڈول کی طرح) ناموافق بھی رہے لیکن انجام کار آنحضرت ﷺ کوہی غلبہ حاصل ہوا۔ اسی طرح آپؐ کے بعد آپ کے متبعین کے ساتھ بھی یہی سلوک ہے (لیکن ایک شرط کے ساتھ) جب ان کا جہاد رسولوں کے جہاد کی طرح خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ ملک، سلطنت اور دنیاوی اغراض کے لئے نہ ہو تو ایسے مجاہدین غالب اور منصور رہیں گے۔ تاہم بعض مفسرین نے صرف دلائل کا غلبہ ہی مراد لیا ہے‘‘۔ لیکن یہ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ (تفسیر روح المعانی تفسیر سورۃ المجادلہ زیر آیت نمبر 22)
تو یہ جہاد کی جو اغراض بتائی گئی ہیں یہ اغراض آج تلوار سے جہاد کرنے والوں پر پوری نہیں اتر رہیں۔ اسی لئے غلبہ بھی نہیں مل رہا۔ خدا کی صفت قوی اور عزیز میں تو کمی واقع نہیں ہوئی۔ تو صاف ظاہرہے کہ مسلمانوں کے عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نیتوں میں فتور ہے۔ اس لئے نتیجہ موافق نہیں نکل رہا۔
ابو محمد عبداللہ قرطبی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور وہ دلائل کے ساتھ غالب آئے۔ تو یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے یہ دلائل کی جنگ کا زمانہ ہے اور مسیح موعود کی جماعت یہ جنگ ان براہین اور دلائل سے لڑ رہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کو عطا فرمائے تھے۔ زمین کے کناروں سے لوگ اس مرکز کی طرف آہستہ آہستہ جمع ہو رہے ہیں جس کو دلائل کی تلوار دی گئی، جو اسلام کے محاسن ایسے خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے کہ دل گھائل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کو بھی الہاماً یہ فرمایا تھا’’کہ

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ’‘۔

(یعنی) خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے یعنی گو کسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (تذکرہ صفحہ 317ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
اور پھر یہ الہام بھی ہوا

اِنَّہٗ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ

کہ وہ قوی اور غالب ہے۔
لیکن یہ بھی واضح فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے کہ یہ غلبہ اور فتح جنگ اور قتال کے ذریعے سے نہیں ہو گی بلکہ دلائل کا جہاد ہو گا اور انشاء اللہ تعالیٰ اسی سے غلبہ ملے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :

‘’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلہ:22)

یعنی خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء (ﷺ) کا نام پا کر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت ﷺ تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانے میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بدزبانی کے حملے شروع کئے اس زمانے میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا۔ گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے‘‘ اور فرمایا کہ’’اِس وقت (جب آپؑ نے یہ لکھا تھا) خداتعالیٰ کے فضل سے 70ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے جو نہ میری کوشش سے‘‘ اتنی تعداد ہوئی ہے’’بلکہ اس ہوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں۔ اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلے کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے۔ یہاں تک کہ حُکّام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں، خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایااو رہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئیے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں۔ مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجزنامرادی کے اور کیا ہوا۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جا ن توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نذیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا۔ پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحۂ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے۔ مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پرآرام کر رہے ہیں ‘‘۔
(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ384-379)
پس یہ تعداد جو بڑھ رہی ہے اور آج دنیا کے 190کے قریب ملکوں میں جماعت احمدیہ پھیل گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسی وعدے کے مطابق ہے جو طاقتور ہے اور جن پر اپنی رحمت کا انعام نازل فرماتا ہے انہیں پھر غلبہ بھی عطا فرماتا ہے۔ پس بجائے اس کے کہ یہ اعتراض ہو کہ ایک عام آدمی کو کس طرح مقام مل گیا مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غور کرنا چاہئے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں بھی یہ پیغام پہنچائیں اور یہ پیغام پہنچانے کا فریضہ احسن رنگ میں سرانجام دینا چاہئے۔
ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ۔
‘’اگر خداتعالیٰ کا خوف ہو تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے ساتھ آپ کا مقابلہ تقویٰ سے بعید ہے کیونکہ آپ لوگوں کی دستاویز صرف وہ حدیثیں ہیں جن میں سے کچھ موضوع اور کچھ ضعیف اور کچھ ان میں سے ایسی ہیں جن کے معنی آپ لوگ سمجھتے نہیں۔ مگر آپ کے مقابل پر میرا دعویٰ علی وجہ البصیرت ہے اور جس وحی نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور آنے والا مسیح موعود یہی عاجز ہے، اس پرمَیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ مَیں قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان صرف حسن اعتقاد سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کی روشنی نے جو آفتاب کی طرح میرے پر چمکی ہے یہ ایمان مجھے عطا فرمایا ہے۔ جس یقین کو خدا نے خارق عادت نشانوں کے تواتر اور معارف یقینیہ کی کثرت سے اور ہر روزہ یقینی مکالمہ اور مخاطبہ سے انتہا تک پہنچا دیا ہے اس کومَیں کیونکر اپنے دل میں سے باہر نکال دوں۔ کیامَیں اس نعمتِ معرفت اور علم صحیح کو ردّ کردوں جو مجھ کو دیا گیا ہے یا وہ آسمانی نشان جو مجھے دکھائے جاتے ہیں مَیں ان سے منہ پھیر لوں یا مَیں اپنے آقا اور اپنے مالک کے حکم سے سرکش ہو جاؤں، کیا کروں ؟ مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہوا ہے مَیں اس سے برگشتہ ہو جاؤں۔ یہ دنیا کی زندگی کب تک؟ اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا مَیں ان کے لئے اس یار عزیز کو چھوڑ دوں۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ میرے مخالفوں کے ہاتھ میں محض ایک پوست ہے جس میں کیڑا لگ گیا ہے۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ مَیں مغز کو چھوڑ دوں اور ایسے پوست کومَیں بھی اختیار کر لوں۔ مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں لیکن مجھے اُسی عزیز کی قسم ہے جس کو مَیں نے شناخت کر لیا ہے کہ مَیں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ مجھے اس کے ساتھ غم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو۔ مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو۔ جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اس کو رات نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا مَیں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا اور جبکہ آپ اپنے ان عقائد کو چھوڑ نہیں سکتے جو صرف شکوک اور توہمات کا مجموعہ ہے تو مَیں کیونکر اس راہ کو چھوڑ سکتا ہوں جس پر ہزار آفتاب چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا مَیں مجنون یا دیوانہ ہوں کہ اس حالت میں جبکہ خداتعالیٰ نے مجھے روشن نشانوں کے ساتھ حق دکھا دیا ہے پھر بھی مَیں حق کو قبول نہ کروں۔ مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ ہزار ہا نشان میرے اطمینان کے لئے میرے پر ظاہر ہوئے جن میں سے بعض کو مَیں نے لوگوں کو بتایا اور بعض کو بتایا بھی نہیں اورمَیں نے دیکھا کہ یہ نشان خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور کوئی دوسرا بجز اس وحدہٗ لاشریک کے ان پر قادر نہیں اور مجھ کو ماسوا اس کے علم قرآن دیا گیا اور احادیث کے صحیح معنے میرے پر کھولے گئے۔ پھر مَیں ایسی روشن راہ کو چھوڑ کر ہلاکت کی راہ کیوں اختیار کروں؟ جو کچھ مَیں کہتا ہوں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں وہ صرف ظن ہے۔

اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا (النجم29:)

اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اندھا ایک اونچی نیچی زمین میں تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کہاں قدم پڑتا ہے۔ سو مَیں اس روشنی کو چھوڑ کر جو مجھ کو دی گئی ہے تاریکی کو کیونکر لے لوں جبکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا اور مجھ سے ہمکلام ہوتا اور اپنے غیب کے اسرار پر مجھے اطلاع دیتا ہے اور دشمنوں کے مقابل پر اپنی قوی ہاتھ کے ساتھ میری مدد کرتا ہے اور ہر میدان میں مجھے فتح بخشتا ہے اور قرآن شریف کے معارف اور حقائق کا مجھے علم دیتا ہے تو مَیں ایسے قادر اور غالب خدا کو چھوڑ کر اس کی جگہ کس کو قبول کرلوں۔ مَیں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ خدا وہی قادر خدا ہے جس نے میرے پر تجلّی فرمائی اور اپنے وجود سے اور اپنے کلام اور اپنے کام سے مجھے اطلاع دی اورمَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قدرتیں جو مَیں اس سے دیکھتا ہوں اور وہ علم غیب جو میرے پر ظاہر کرتا ہے اور وہ قوی ہاتھ جس سے مَیں ہر خطرناک موقع پر مدد پاتا ہوں وہ اسی کامل اور سچے خدا کے صفات ہیں جس نے آدم کو پیدا کیا اور جو نوح پر ظاہر ہوا اور طوفان کا معجزہ دکھلایا۔ وہ وہی ہے جس نے موسیٰ کو مدد دی جبکہ فرعون اس کو ہلاک کرنے کو تھا۔ وہ وہی ہے جس نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سید الرسل کو کافروں اور مشرکوں کے منصوبوں سے بچا کر فتح کامل عطا فرمائی اسی نے اس آخری زمانے میں میرے پر تجلی فرمائی‘‘۔ (براہین احمدیہ جلد پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ298-296)
پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عزیز خدا کا اپنے ساتھ سلوک کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان اور اس اعلان کے بعد جو آپ نے مخالفین کو مخاطب کرکے فرمایا آپ کئی سال زندہ رہے اور چیلنج بھی دیا۔ کوئی مخالف آپؑ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا اور کسی مخالف کا کوئی حربہ بھی آپؑ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ کیونکہ یہ اس سچے خدا کا آپؑ سے وعدہ تھا جو اپنے فضل سے جب اپنا انعام اتارتا ہے تو اس کے پھر بہترین نتائج بھی پیدا فرماتا ہے۔ اپنے غالب اور قوی ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ آج دنیا میں جماعت احمدیہ کی ترقی انہی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن دشمن پہلے بھی انبیاء کی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختلف جگہوں سے کبھی ماردھاڑ، کبھی دوسرے ظلموں کی اور کبھی اِکاّ دُکاّ احمدیوں کی شہادتوں کی خبریں بھی آتی ہیں۔ لیکن آج تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچی پیروی کرنے والوں کے ایمانوں کو یہ دھمکیاں اور یہ ظلم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ ان کے ایمانوں کے پایۂ ثبات میں کبھی لغزش نہیں آئے گی۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ جہاں اپنے ایمان کی مضبوطی اور ثبات قدم کے لئے اس خدا کے حضور جھکیں وہاں ان ظلموں سے بچنے اور فتح کے نظارے دیکھنے کے لئے بھی اُس قوی اور عزیز خدا کو ہی پکاریں جو اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سچے کرتا آیا ہے اور سچے مومنوں سے بھی اس کا یہی وعدہ ہے کہ ان کو بھی غلبہ عطا فرمائے گا۔ وہ آج بھی انشاء اللہ تعالیٰ اسی غلبہ کو سچ کرکے دکھائے گا، بلکہ دکھا رہا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری کامیابی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑے رہنے سے ہی مقدر ہے۔ تمام عزتیں اب زمانے کے امام کے ساتھ رہنے سے ہی ملنی ہیں۔ کیونکہ یہی ہے جو آنحضرت ﷺ کا غلامِ صادق ہے اور اس کے ساتھ جڑنا آنحضرت ﷺ کے ساتھ تعلق جوڑنا ہی ہے۔ پس اس مسیح و مہدی کے ساتھ حقیقی تعلق ہی اعمال کی بلندیوں پر بھی لے جانے والا ہو گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آج بعض جگہ احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں، ان کو بعض جگہ بڑی بے دردی سے ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے یا شہید کیا جاتا ہے۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قربانیاں ان کا مقام اونچا کرنے والی ہیں اور دشمن کی تدبیریں انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اکارت جانے والی ہیں۔ آخرکاراس دنیا میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے مسیح کے غلبہ کو دیکھیں گے اور ذلت کا سامنا کریں گے اور اللہ کہتا ہے کہ بعد میں بھی، اگلی زندگی میں بھی، اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اندر آئیں گے۔
پس ہمارا کام یہ ہے کہ حتی الوسع کوشش کریں کہ ایسے ظالموں کے پنجوں سے اُن معصوم لوگوں کو چھڑانے کی کوشش کریں اور انہیں قوی و عزیز خدا کی پناہ میں لانے کی کوشش کریں جو غلط فہمیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں اور اُن کو اِس جال سے نکال کر قوی و عزیز خدا کے ساتھ ان کا حقیقی تعلق جوڑنے کی کوشش کریں۔ وہی ہے جو عزت اورغلبہ دینے والا خدا ہے اور اس کے ساتھ جڑے بغیر اب کوئی نجات کا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنا یہ فرض بھی ادا کرنے والے بنیں۔
پاکستان کے لئے بھی دعا کے لئے مَیں کہنا چاہتا ہوں۔ سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے اور جھوٹی اناؤں اور عزتوں کے لئے پوری قوم اور ملک کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے اور بجائے سیاست کھیلنے کے لوگوں کے لئے ان کے اندر ہمدردی اور رحم کے جذبات ابھریں اور وہ بھی قوم پر رحم کریں۔ بلاوجہ سینکڑوں آدمیوں کو ذرا ذرا سی بات پر اپنی اَناؤں کی خاطر مروا رہے ہیں۔ کل ہی ایک جلوس میں جوخوفناک طور پر بم پھٹے ہیں اس میں سینکڑوں آدمی مر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سیاستدانوں کو بھی عقل دے اور لوگوں کو بھی عقل دے کہ وہ ان لوگوں کے جال سے نکلنے کی کوشش کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں