خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍مئی 2008ء

افریقہ کے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو عزت کے ساتھ اپنے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں اپنے مخصوص انداز میں جب’’غلام احمد کی جے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو عزت کے ساتھ شہرت کا وعدہ ایک خاص شان سے پورا ہوتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں۔
(افریقن احمدیوں کے خلافت سے اخلاص اور محبت اور فدائیت کے نہایت دلچسپ اور رُوح پرور واقعا ت کا بیان)
گھانا کی جماعت تو حقیقت میں ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ خلافت سے محبت ان کے دل، آنکھ، چہرے اور جسم کے روئیں سے روئیں سے ٹپکتی ہے۔
مغربی افریقہ کے تین ممالک گھانا، بینن اور نائیجیریا کے حالیہ سفر کی نہایت ایمان افروز تفصیلات
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 9؍مئی 2008ء بمطابق9؍ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کے تین ممالک کے دورہ کی مجھے توفیق دی۔ اس دورے کے کچھ پروگرام، بلکہ کہنا چاہئے کہ جو بڑے مین (Main) پروگرام، جلسے وغیرہ تھے، ایم ٹی اے دیکھنے والی ہر آنکھ نے دیکھے اور نظارہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق نازل ہوتے دیکھی۔ بہت سی باتیں رپورٹس میں آبھی رہی ہیں، کچھ چھپ چکی ہیں، کچھ انشاء اللہ چھپ جائیں گی۔ لیکن اکثریت تک کیونکہ بہت سارے الفضل دیکھتے نہیں، پڑھتے نہیں، یہ رپورٹس پہنچتی نہیں۔ بہرحال یہ اکثر احباب کی خواہش ہوتی ہے کہ مَیں ان دوروں کے کچھ حالات بیان کروں بلکہ اس بارے میں بعض فیکسیں آنی بھی شروع ہو گئی ہیں۔ اس لئے مَیں مختصراً اس سفر کے کچھ حالات بیان کر دیتا ہوں۔ وہ باتیں بیان کروں گا جن کو بعض دفعہ کیمرے کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی یا جن کا تعلق جذبات سے ہے، گو کہ اس کا اظہار پوری طرح نہیں ہو سکتالیکن کچھ حد تک۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت جوبلی کے حوالے سے یہ پہلا دَورہ تھا اور جن ملکوں کا دَورہ کیا اس وجہ سے وہاں کے احمدی احباب و خواتین حتی کہ بچوں تک نے بڑے جذباتی انداز میں ان جلسوں کی، ان تقاریب کی تیاری شروع کر دی تھی اور بعض کے اس تیاری کے تعلق میں جذبات دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح قربانی کرنے والے ہیں۔ پیار کرنے والے، محبت، اخلاص اور نیکی میں بڑھنے والے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں۔ جن کی قومیتیں مختلف ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں، جن کے رسم و رواج مختلف ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مسیح محمدی کے خلیفہ سے بھی ایسی ہی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں کہ انسان جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور یہ ہونا تھاکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے۔ اور وہ خدا جو ہمارا خدا ہے، جو مسیح موعود کا خدا ہے، جو محمد رسول اللہ ﷺ کا خدا ہے، وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ اس سچے، تمام طاقتوں کے مالک اور اپنے وعدے پورے کرنے والے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا۔ ہر روز ایک نئی شان سے ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور ایک دنیا گواہ ہے کہ افریقہ کے اس دَورہ میں خاص شان کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھا۔ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ کیمرے کی آنکھ نے ٹی وی کی سکرین پر ایک دنیا کو دکھا دیا اور روز روشن کی طرح دکھا دیا کہ افریقہ کے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو عزت کے ساتھ اپنے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں اپنے مخصوص انداز میں جب’’غلام احمد کی جے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو عزت کے ساتھ شہرت کا وعدہ ایک خاص شان سے پورا ہوتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ مَیں تیرا ذکر بلند کروں گا، ایک نئے انداز میں نعروں کی صورت میں فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ نور ایمان میں بڑھے ہوئے اور بھرے ہوئے افریقنوں کے دلوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی انسانی کوشش یہ محبت دلوں میں ڈال سکتی ہے؟ کیا چہروں کی رونقیں اور آنکھوں سے پیار اور محبت کی چھلک کسی دنیاوی لالچ کا نتیجہ ہو سکتی ہے؟
کہتے ہیں کہ غریبوں کو لالچ دو تو جو چاہے کروا لو۔ لیکن لالچ کبھی محبتیں نہیں پیدا کر سکتی۔ اِن غریبوں کے پاس بظاہر دنیاوی دولت تو نہیں ہے لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اِن کو جتنا چاہے لالچ دے لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت ان کے دلوں سے نہیں نکال سکتے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے آقا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کی وجہ سے ان کو جو خلافت احمدیہ سے محبت ہے دنیا کی بڑی سے بڑی محبت بھی اس کے پاسنگ بھی نہیں ہے۔ پس یہ ہے ہماراخدا، جس نے احمدیوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے خلافت کی محبت سے بھی احمدیوں کو سرتاپا بھر دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ افریقہ کے احمدی اس کی روشن مثال بنتے جا رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ محبتیں آگے محبتوں کی جاگیں لگاتی چلی جائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
‘’انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ اُن کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اُن باتوں سے پہلے ہی فارغ التحصیل سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اپنی بڑائی اور پوشیدہ کبر اور مشیخت کی وجہ سے ایسے حلقے میں بیٹھنا بھی ہتک اور باعث ننگ و عار جانتے ہیں جس میں غریب لوگ، مخلص، کمزور مگر خداتعالیٰ کے پیارے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ صد ہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسرآتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگران کے لاانتہا اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو ان سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے۔ یا جس کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور باوفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال ودولت کے بندوں، ان دنیوی لذات کے دلدادوں کو اس لذت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 10صفحہ307-306)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایسے محبت کرنے والے عطا فرمائے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خلافت کے تعلق میں یہ فرمایا کہ یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے۔ توپھر بعد میں آنے والوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کے ساتھ خلافت کی محبت بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی اور افریقہ کے اِن روشن دلوں کی محبت آپ نے دیکھ بھی لی۔
اب مَیں مختصراً چند واقعات بتا دیتا ہوں۔ میرا سب سے پہلا دَورہ غانا کا تھا۔ غانا کا استقبال ائرپورٹ پر آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ رات ہونے کی وجہ سے احمدیوں کا جوش تو کیمرہ آپ کو دکھا سکا ہوگا، لیکن ان آنکھوں کی محبت جو وہاں موجود تھے صرف وہاں موجود ہی دیکھ سکے۔ ’ اکرا‘ جو اُن کا دارالحکومت ہے، ہمارا ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہے۔ وہیں مَیں پہلے گیا تھا۔ لیکن جلسہ وہاں سے تقریباً 40-30 میل کے فاصلے پر ایک نئی جگہ پر منعقد ہونا تھا۔ اس لئے ہم اگلے روز اس نئی جگہ ’باغ احمد‘ میں چلے گئے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں، اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ بڑی باموقع 460 ایکڑ زمین عین ہائی وے کے اوپر اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ یہاں جب مَیں پہنچا ہوں تو اکثریت احباب و خواتین کی پہنچ چکی۔ ایک شہر بسا ہوا تھا۔ غانا جماعت نے اس زمین کو بڑا ڈویلپ (Develop) کیا ہے۔ پلاننگ کرکے سڑکیں وغیرہ بنائی ہیں اور ہر جگہ سے وہاں آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ سارے علاقے کی جھاڑیاں، گھاس وغیرہ صاف کیا ہوا تھا۔ اِن افریقن ملکوں کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ ذرا سی بارش ہو تو فوراً سبزہ ہو جاتا ہے جس طرح یہاں یورپ میں ہے۔ یہ جو نئی جگہ خریدی گئی ہے، یہ ایک بہت پرانا اور بڑا پولٹری فارم تھا۔ اس میں شیڈ وغیرہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ انہیں صاف کرکے، فرش وغیرہ بھی نئے بنا کر، کچھ کھڑکیاں دروازے لگا کر رہائش کے لئے بیرکس بن گئی تھیں۔ لیکن اگر جگہ کی تنگی تھی تو کسی نے شکوہ نہیں کیا کیونکہ بہت بڑی تعداد میں احمدی وہاں آئے تھے۔ بہت سارے اچھے بھلے کھاتے پیتے، کاروباری لوگ یا سکول ٹیچرز یا دوسرے کام کرنے والے، اگر ان کو رہائش نہیں ملی تو باہر صف بچھا کر آرام سے سو گئے۔ اِن لوگوں میں اس لحاظ سے بڑا صبر ہے۔
مجھے کسی نے بتایا کہ انہوں نے ایک دو ایسے لوگوں سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ہم جلسہ سننے آئے ہیں۔ خلیفہ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہو رہا ہے۔ دو دن کی عارضی تکلیف سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم خوش ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا۔ نئی جگہ پر اور پھر تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض انتظامات میں کمی بھی تھی لیکن مجال ہے جو کسی نے شکوہ کیا ہو۔ اُن کی حاضری تقریباً ایک لاکھ سے اوپر تھی اور مرکزی طورپر لنگر چلانے کا بھی پہلا تجربہ تھا۔ عموماً وہاں یہ رواج ہے کہ ہر ریجن کو اپنے لوگوں کو کھانا کھلانے کا اور اپنے انتظام چلانے کا کام سپرد کیا جاتا ہے کہ وہی خوراک وغیرہ سنبھالیں۔ اس دفعہ گھانا سے باہر سے بھی تقریباً 5ہزار افراد آئے ہوئے تھے اور ان کا اپنا بھی انہوں نے مرکزی طور پر لنگر چلایا تھا۔ اس لئے بہرحال بعض انتظامی دقتیں سامنے آئیں۔
ایک دن مجھے پتہ چلا کہ بورکینا فاسو کے بعض افراد کو کھانا نہیں ملا۔ بورکینا فاسو سے بھی تقریباً 3ہزار افراد آئے تھے، سب سے بڑی تعداد وہاں سے آئی تھی۔ یہ گھانا کا ایک ہمسایہ ملک ہے۔ 300کے قریب خدام سائیکلوں پر 1600کلو میٹرسے زائد کا سفر کرکے آئے تھے۔ بہرحال مَیں نے وہاں جو ان کے ساتھ مبلغ آئے تھے ان کو کہا کہ جن کو کھانا نہیں ملا ان سے معذرت کریں اور آئندہ خیال رکھیں۔ جب انہوں نے جا کر معذرت کی تولوگوں کا جواب تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہ ہم نے حاصل کر لیا ہے۔ کھانے کا کیا ہے روز کھاتے ہیں لیکن جو کھانا ہم اس وقت حاصل کر رہے ہیں وہ رو ز روز کہاں ملتا ہے۔
بورکینا فاسو کی جماعت تو اتنی پرانی نہیں ہے۔ اکثریت گزشتہ 15-10 سال پر مشتمل ہے۔ لیکن اخلاص اور وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غربت کایہ حال ہے کہ بعض لوگ ایک جوڑے میں آئے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مشکل سے بدن پر لباس بھی ہوتا ہے لیکن پیسے جوڑ کر جلسے پر پہنچے تھے کہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے۔ خلیفہ وقت کی موجودگی میں ہو رہا ہے اور ہم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے اور چھوڑنا نہیں۔ ایسی محبت خداتعالیٰ کے علاوہ اور کون پیدا کر سکتا ہے!
جو خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے، ان کے اخلاص کا اندازہ اس بات سے بھی کر لیں کہ یہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے، سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے ہیں۔ ان سائیکل سواروں میں 50سے 60سال کی عمر کے سات انصار بھی شامل تھے اور 13اور 14 سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔ جب ان بچوں سے امیر صاحب بورکینا فاسو نے کہا کہ آپ سفرپر نہیں جا سکتے۔ آپ چھوٹے ہیں اور سفر لمبا ہے تو وہ بڑے غمگین ہو گئے اور اپنے قائد اور معلم کے پیچھے بھاگے کہ امیر صاحب کو کہیں ہم نے ضرور ساتھ جانا ہے اور اب ہم واپس نہیں جائیں گے۔ وہ اپنے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ ان بچوں کو اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ یہ سارا سفر مکمل کیا۔
وہاں کے صدر خدام الاحمدیہ عبدالرحمن صاحب نے کسی کے پوچھنے پر کہا کہ ابتدائی مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بے حد قربانیاں کیں۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جوبلی کے سلسلے میں کوئی ایسا خاص کام کیا جائے جس سے خلافت کے ساتھ ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار ہو اور ہم خلیفۂ وقت کو بتائیں کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ ہم نے سائیکل سفر کے ذریعہ جلسہ غانا میں شمولیت کی تحریک کی جس پر خدام نے لبیک کہا اور 1435 خدام نے اپنے نام پیش کئے۔ لیکن بعض انتظامی دقتوں کی وجہ سے 300کا انتخاب کیا گیا۔ یہ سائیکل سوار بڑے اعلیٰ اور نئے سائیکلوں پر سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ پرانے زنگ آلود سائیکل، کسی کی بریکیں نہیں ہیں، کسی کے ٹائر گھسے ہوئے ہیں لیکن جوش و جذبہ تھا۔ خلافت احمدیہ کے لئے اخلاص اور محبت تھی اور ہے۔ اس دائمی خلافت کے لئے جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی۔ میڈیا نے بھی اس کو دیکھا اور کوریج دی۔ میڈیا نے اس کو کس طرح دیکھا؟ ٹی وی کے نمائندے نے ان سے پوچھا، جب یہ سائیکل سوار سفر شروع کرنے لگے تھے کہ سائیکل تو بہت خستہ حال ہیں یہ کس طرح اتنا بڑا سفر کر سکتے ہیں۔ تو جماعتی نمائندے نے ان سے کہا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم بڑا ہے کہ ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کر رہے ہیں۔ اور نیشنل ٹی وی نے جب یہ خبر نشر کی تو اس کا آغاز اس طرح کیا کہ’’اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لئے واگا سے اکرا کاسائیکل سفر۔ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط’‘۔ پھر ٹی وی نے ان سا ئیکلو ں کی حالت بھی دکھائی کہ کس طرح خستہ حال سائیکل ہیں۔ اور کچھ خدام سے سوال بھی پوچھے کہ کیوں جا رہے ہیں ؟ ایک خادم نے جواب دیا کہ اپنے خلیفہ سے ملنے کے لئے جا رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ احمدیہ خلافت جوبلی کی سو سالہ تقریبات میں ہمارے خلیفہ آرہے ہیں اس میں شامل ہونے کے لئے جا رہا ہوں۔ تو یہ ہیں ان کے جذبات۔ اور یہ احمدی کوئی پیدائشی احمدی نہیں ہیں۔ کوئی صحابہؓ کی اولاد میں سے نہیں ہیں۔ بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بعض ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور ان لوگوں نے چند سال پہلے احمدیت قبول کی ہے۔ ایسی جگہوں پہ رہنے والے ہیں جہاں بجلی پانی کی سہولت بھی نہیں ہے۔ اب کہیں بعض جگہوں پر کنکشن لگ رہے ہیں تاکہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے رابطے رہیں۔ بعض جگہ غربت و افلاس نے ان کو بے حال کیا ہوا ہے لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہوگیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔
بورکینا فاسوکے ایک دوست عیسیٰ سیاما صاحب نے کہا کہ مَیں نے2005ء میں بیعت کی ہے۔ یعنی صرف 3سال پہلے احمدی ہوئے ہیں۔ مجھے آج پتہ چلا ہے کہ مَیں کیا ہوں اور کتنا خوش قسمت ہوں اور مَیں نے کیا پایا، اپنی خوشی کا اظہار میرے بیان سے باہر ہے۔ بعض کی خلافت سے محبت آنسوؤں کی شکل میں ان کی آنکھوں سے بَہ رہی تھی۔
بعض بدقسمت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزاصاحب نے کیا دیا؟ وہ ان لوگوں کو دیکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدا نے ان کے دلوں میں کیا انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ خلیفۃ المسیح کے لئے بھی وہ محبت پیدا کر دی جس کے بیان کے الفاظ متحمل نہیں ہوسکتے۔
گیمبیا سے 22 افراد کا ایک وفد آیا تھا جو غربت کی وجہ سے بائی ائیر (By Air) تو سفر نہیں کر سکتے تھے، بس کے ذریعہ ان لوگوں نے سفر کیا۔ تین ملکوں سینیگال، مالی اور بورکینافاسو، یہ بڑے بڑے ملک ہیں ان میں سے گزرتے ہوئے پانچ دن میں کوئی سات ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے یہ گھانا پہنچے تھے اور سفر کی تکان سے بھی چُور تھے۔ سڑکیں بھی ان ملکوں میں کوئی ایسی اچھی نہیں ہیں۔ بسوں کا معیار بھی کوئی ایسا اچھا نہیں ہے۔ جنہوں نے کبھی افریقہ کا سفر کیا ہو ان کو پتہ ہے۔ لیکن جب یہ لوگ جلسہ گاہ پہنچے تو بجائے آرام کی جگہ تلاش کرنے کے یہ سیدھے نماز کی جگہ پہنچے کیونکہ اس وقت نماز کا وقت تھا اور وہاں کسی کے چہرے سے یہ عیاں نہیں تھا، یہ ظاہر نہیں ہو رہا تھاکہ یہ غلامانِ مسیحِ محمدی کسی لمبے اور تھکا دینے والے سفر سے ابھی پہنچے ہیں۔ تفصیلی رپورٹس بعد میں الفضل میں آتی جائیں گی۔ جن کو موقع ملے وہ پڑھیں۔
پھر آئیوری کوسٹ سے بھی تقریباً ایک ہزار سے اوپر افراد کا قافلہ لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد گھانا پہنچا، لیکن اخلاص فدائیت اور محبت نے ان کے چہروں پر کسی قسم کی تھکان کے آثار نہیں آنے دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض مقامی احمدیوں کو یہ بھی توفیق دی کہ انہوں نے کئی کئی غریب احمدیوں کا سفر خرچ بھی برداشت کیا، ان کی حالت کو دیکھ کر جو تڑپ رہے تھے کہ جلسے پر جائیں۔ ان کی وہی کیفیت تھی کہ جب زاد سفر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انکار کیا گیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ کون ہے جو ان لوگوں کے اخلاص و محبت کا مقابلہ کر سکے؟
پھر خلافت جوبلی کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے ان غریبوں نے کیا کیا طریقے اختیار کئے؟ اس کے بھی ایک دوواقعات سن لیں۔ ابینگرو ریجن آئیوری کوسٹ کی ایک جماعت نے عزم کیا کہ کیونکہ خلافت کے سو سال مکمل ہو رہے ہیں تو اس مناسبت سے ہمارے گاؤں سے 100افراد کا وفد جلسہ سالانہ غانا میں شرکت کرے گا۔ یہ انتہائی غریب لوگ ہیں لیکن ان کے عزم کے سامنے پہاڑ بھی ہیچ تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ جلسہ سالانہ غانا سے چھ ماہ قبل ایک کھیت اس مقصد کے لئے تیار کریں گے اور اس کی ساری آمد جلسہ سالانہ غانا کے لئے ٹرانسپورٹ پر خرچ کریں گے۔ تو انہوں نے کچھ فصل بوئی۔ اللہ تعالیٰ بھی پھر ایسے مخلصین کے کاموں پر پیار کی نظر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فصل میں برکت ڈالی اور ایسی برکت پڑی کہ نہ صرف ان 100کے اخراجات پورے ہوئے بلکہ زائد آمد ہوئی اور 100کی بجائے 103 افراد وہاں سے آئے۔
پھر آئیوری کوسٹ کے ہی ایک گاؤں سے 57 افراد نے اس تاریخ ساز جلسے میں شرکت کی توفیق پائی۔ ان میں 23عورتیں بھی تھیں جنہوں نے قرض لے کر سفر کے اخراجات برداشت کئے۔ یہ کہتی تھیں کہ ہمیں خدا کی رحمت سے امید ہے کہ ہمارے اس مبارک سفر کی برکت سے کھیتوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور اس قدر آمد ہوجائے گی کہ ہمارے قرض اتر جائیں اور ہماری دیگر ضروریات بھی پوری ہو جائیں۔
پھراب بچوں کا یہ حال دیکھیں کہ ایک ریجن کی دو بچیاں جن کی 13-12 سال کی عمر تھی اپنے حصے کے ٹرانسپورٹ اخراجات جمع کروانے آئیں اور کہا کہ جس روز سے خلیفۃ المسیح کے غانا آنے کی خبر ہمیں ملی ہے، اسی روز سے ہم نے ایک کھیت میں کام کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہم جیسے غریب اور بے سرمایہ لوگ خلیفۃالمسیح کے دیدار سے فیضیاب ہو سکیں اور اپنے سفر کے لئے محنت کرکے یہ پیسے کمائے ہیں۔ یہ آپ رکھ لیں اور ہمارے سفر پر خرچ کریں۔
آئیوری کوسٹ ہی کی ایک خاتون حبیبہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے آئیں۔ وہ بڑی سخت بیمار تھیں۔ ان کو ٹی بی کی یا اس طرح کی کوئی اور۔ ان کے بھائی اور خاوند نے بتایا کہ جب اپنے گاؤں سے جلسے کے لئے چلی ہیں تو اپنے گھر والوں کو انہوں نے کہہ دیا کہ مَیں اپنی بیماری کے باوجود خلافت جوبلی کے جلسے میں شرکت کرنے جا رہی ہوں اور ہو سکتا ہے کہ ملاقات کے بعد مَیں واپس نہ آؤں اور مجھے لگتا ہے کہ میں واپس نہیں آؤں گی اس لئے میری غلطیاں معاف کر دو۔ وہ شدید بیمار تھیں اور وہاں آکربیماری اور زیادہ بڑھ گئی۔ سفر کی تھکان بھی تھی۔ اسی بیماری کی حالت میں لمبا سفر اور گرمی کا سفر، بہرحال ان کی ملاقات ہو گئی تھی اور ایک دن کے بعد ان کی وفات ہو گئی، مَیں نے ان کا وہیں جنازہ پڑھایا اور وہ وہیں دفن بھی ہوئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

تو یہ عورتوں بچوں، بڑوں کی اخلاص و محبت کی چند مثالیں ہیں۔
حالانکہ گھانا آئے ہوئے وفدوں کے قصے مَیں نے سنائے قصے بھی طویل ہو گئے ہیں اور کافی وقت گزر گیا ہے، میرا خیال ہے مَیں نے 100واں کیا، 200واں اور 300واں حصہ بھی بیان نہیں کیا ہو گا اور نہ بعض جذبات کا اظہار الفاظ میں ہو سکتا ہے۔ گھانا والے بھی انتظار میں ہوں گے کہ اب ہمارا ذکر نہیں ہو رہا۔ جلسہ تو گھانا کا تھا۔ غانا کا ذکر تو مَیں اپنی تقریروں میں کر چکا ہوں کہ ان کا خلافت کے لئے جو پیار ہے اور مسیح محمدی کا جو عشق ہے وہ دوسروں کے لئے ایک مثال بن کر ہر دورہ پر ابھرتا ہے۔ پیار و محبت کا ایک سمندر ہے جس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔
مجھے یاد ہے 1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھانا کا دورہ کیا۔ مَیں ان دنوں وہاں تھا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نائیجیریا سے غانا آئے تھے اور نائیجیریا میں بڑا شاندار استقبال تھا۔ مکرم مسعود دہلوی صاحب جو الفضل کے ایڈیٹر ہوتے تھے وہ ساتھ تھے، رپورٹس وہی لکھا کرتے تھے، تو نائیجیریا کا استقبال دیکھ کر انہوں نے یہ لکھا کہ ہزاروں افراد کا والہانہ اور عدیم المثال استقبال اور اس طرح کے اور فقرات لکھے۔ غانا پہنچے تو کہتے تھے میرا خیال تھا کہ نائیجیریا کا استقبال ایک انتہا ہے۔ لیکن غانا کا استقبال دیکھ کر تو جیسے پریشان ہو گئے۔ آخر انہوں نے کہا، یہی لکھا جا سکتا ہے کہ احمدی مردو زن کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر۔ تو گھانا کی جماعت تو حقیقت میں ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ خلافت سے محبت ان کے دل، آنکھ، چہرے اور جسم کے روئیں روئیں سے ٹپکتی ہے۔ اب تو گھانا کی جماعت نومبائعین کی وجہ سے مزید وسعت اختیار کر چکی ہے اور پرانوں کے زیر اثر یہ نئے بھی اسی اخلاص و وفا میں رنگین ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلو ں کا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس دفعہ جلسہ نئی جگہ پرہوا تھا اور یہ اتنا بڑا جلسہ وسیع پیمانے پر تھا، ایک لاکھ سے اوپر حاضری تھی۔ ان کی رجسٹریشن تقریباً 83ہزار تھی۔ اس کے بعد ان کا انتظام اس کو سنبھال نہیں سکا اور ہزاروں کی تعداد میں اس کے بعد احباب و خواتین آئے اور پھر چھوٹے بچوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی۔
جمعہ پر حاضری کا نظارہ دنیا نے کر ہی لیا ہے۔ آئیوری کوسٹ سے آئے ہوئے ایک دوست نے یہ تبصرہ کیا کہ حج کے بعد اتنا بڑا مجمع میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے۔
جب مَیں خطبے کے دوران ان لوگوں کو دیکھتا تھا تو دل میں خیال آتا تھا کہ پتہ نہیں ایم ٹی اے والے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو پوری طرح دنیا میں دکھا بھی سک رہے ہیں کہ نہیں۔ لیکن الحمدللہ کہ ہمارے ایم ٹی اے کے لڑکوں نے جو یہاں سے ساتھ گئے تھے اپنی مہارت کا خوب اخلاص سے مظاہرہ کیا اور ایک دنیا نے اس کو دیکھا، اور ان کا بھی ان میں بڑا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے۔
غانینز(Ghanians) کی ایک خوبی جو آپ نے جمعہ میں دیکھی وہ یہ ہے کہ بڑے صبر سے، تحمل سے گرمی میں بیٹھے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ تک دھوپ میں خطبہ سنتے رہے اور بڑی تعداد میں بیٹھے رہے۔ صرف وہی خوبی نہیں ہے بلکہ تہجد کی نماز اور فجر کی نماز میں بھی میدان اسی طرح بھرا ہوتا تھاجس طرح جمعہ میں آپ نے دیکھا۔ اور آخری دن جو ہفتہ کا دن تھا اور اس دن چھٹی تھی، شاید اس میں مزید لوگ بھی آئے ہوں۔ صبح جب مَیں نماز کے لئے گیا ہوں تو حیران رہ گیا کہ جو حاضر مرد و زن وہاں میدان میں نماز پڑھنے کے لئے جمع تھے، ان کی تعداد جمعہ سے بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ عورتوں کا جوش بھی دیدنی تھا۔ نماز کے بعد واپس گھر تک تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ گاڑی میں جاتا تھا تورینگتی ہوئی گاڑی گزرتی تھی۔ دو رویہ عورتیں کھڑی ہوتی تھیں، مرد کھڑے ہوتے تھے۔ بچوں کو اٹھایا ہوتا تھا۔ ان سے سلام کرواتی تھیں۔ محبت یوں ٹپک رہی ہوتی تھی کہ جیسے دو سگے بہن بھائی یا بھائی بھائی آپس میں مل رہے ہیں۔ پس یہ ہیں گھانین عورتیں اور مرد۔ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم 50ہزار تھی جو خلافت سے اخلاص و محبت کے ساتھ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنا جانتی تھیں اور کر رہی تھیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خداتعالیٰ کا دائمی خلافت کاو عدہ ہے اور جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی خلافت کی محبت نسل درنسل چلتی چلی جائے گی۔
گھانا میں لنگر کا انتظام بھی عورتوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ دنیا میں تو مرد سنبھالتے ہیں وہاں عورتوں نے سنبھالا ہوا تھا۔ مَیں ایک دن صبح نماز کے بعد معائنہ کے لئے گیا تو قیام گاہ قریب ہونے کی وجہ سے جب دوسری خواتین کو علم ہوا تو وہ بھی آگئیں۔ لنگر میں کام کرنے والی خواتین کی اپنی تعداد بھی کافی تھی اور اس قدر فلک شگاف نعرے تھے اور جوش تھا کہ مَیں لنگر دیکھنے تو گیا تھا لیکن تھوڑا سا آگے جا کر اس لئے واپس آگیا کہ اب یہ جوش جو ہے یہیں نہیں رہے گا اور یہ نہیں دیکھے گاکہ آگے چولہے پر دیگ پڑی ہوئی ہے یا آگ جل رہی ہے۔ تو اس خطرے کی وجہ سے کہ کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے مجھے واپس آنا پڑا۔
خدام کا صبر اور ڈیوٹی بھی ماشاء اللہ معیاری تھی۔ ایک دن جلسہ گاہ میں شدید ہوا اور بارش تھی، مَیں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا تو خادم ڈیوٹی پر موجود تھے اور بغیر کسی چھتری کے طوفان میں یوں چاق و چوبند کھڑے تھے جیسے زبان حال سے کہہ رہے ہوں کہ کون ہے جو ہمارے پائے ثبات میں لغزش لا سکے۔ تو یہ ہے غانا کا خلاصہ۔
گھانا سے ہم نائیجیریا میں ایک رات قیام کے بعد بینن چلے گئے۔ وہاں کے امیر اور مشنری انچارج کا اصرار تھا کہ’ پور تونووو‘ جہاں چار سال پہلے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا ایک بڑی مسجدکی تعمیر ہوئی ہے، اب مکمل ہو گئی تھی تو اس کا افتتاح بھی کر دیں۔ اور اسی طرح اتفاق سے انہی دنوں میں وہاں کا جلسہ بھی ہو رہا تھا اس میں بھی کچھ کہہ دیں پہلے بینن جانا شامل نہیں تھا۔ بینن کی جماعت نئی ہے، اکثریت نومبائعین پر مشتمل ہے۔ اس لئے مَیں نے شروع کے پروگرام میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے، اس کو شامل کر دیا۔ نائیجیریا سے کاروں کے ذریعہ بارڈر کراس کیا، وہاں حکومتی وزیر لینے آئے ہوئے تھے، ماشاء اللہ اچھا استقبال تھا۔ گزشتہ دورے کی نسبت حکومتی سطح پر بھی کافی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ بہرحال میرا کام تو زیادہ تر احمدیوں کو ملنا تھا۔ نائیجیریا، بینن بارڈر پر کافی تعداد میں احمدی موجود تھے۔ استقبال کے لئے احباب وخواتین آئے ہوئے تھے۔ بڑے پر جوش اور نعرے لگا رہے تھے۔ اگلے دن جلسے کا آخری دن تھا۔ وہاں مَیں نے تھوڑی سی تقریر بھی کی۔ وہاں تقریباً22ہزار کی حاضری تھی اور بڑے دُور سے لوگ آئے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ جوں جوں نومبائعین کو احمدیت کو سمجھنے میں ترقی ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا بھی ان کا بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اخلاص اور محبت میں بڑھاتا چلا جائے۔
دَوروں کا جہاں اپنوں پر اثر ہوتا ہے، تعلق بڑھتا ہے وہاں تبلیغ کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ وہاں ریسیپشن تھی۔ وہاں ایک ایم این اے آئے، کافی دیر سے ان کا تعلق ہے، انہوں نے بعد میں کہا مَیں نے بیعت کرنی ہے تو مَیں نے کہا آپ مزید غور کر لیں لیکن وہ بڑے تیار تھے۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے پھر فارم Fill کردیں۔
بینن کے ایک ہمارے احمدی دوست الحاجی راجی ابراہیم صاحب نے کہا کہ ان کا ایک مسلمان دوست الحاجی ہے۔ اس نے بڑی حیرت سے کہا کہ مَیں نے نیشنل ٹی وی پر آپ کے امام کا خطبہ جمعہ سنا ہے، جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی۔ پھر قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے ان کو سنا۔ مَیں نے تو عرصے سے یہی سنا ہے کہ احمدی نماز نہیں پڑھتے تو مَیں حیران ہوں کہ اتنا بڑا جھوٹ ہم روز سنتے رہے۔ اب آپ کو نماز پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ تو ان دَوروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ میڈیا کافی کوریج دے دیتا ہے۔ اسی طرح ایک احمدی دوست کے ایک غیر احمدی دوست مجھ سے ملنے آئے، مختلف باتیں کرنے کے بعد کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے خلیفۃالمسیح کا یہ دَورہ غیر معمولی برکات کا دورہ تھا۔ غیروں کو بھی دَوروں کی برکات نظر آرہی ہیں۔
پھر صدر مملکت کی مشیر خاص ایک خاتون الحاجہ مادام گراس لوانی ان کا نام ہے وہ وہاں مشن ہاؤس میں مجھے ملنے بھی آئی تھیں۔ پھر ہمارے آنے کے بعد دوبارہ مشن ہاؤس گئیں اور وہاں جاکے کہا کہ مَیں ایک تو یہ پتہ کرنے آئی ہوں، میرا پوچھا کہ وہ یہاں سے خوش گئے ہیں۔ (وہ جمعہ پڑھنے بھی مسجد میں آئی تھیں) دوسرے یہ بتانے کے لئے کہ مَیں نے زندگی میں ایسا جمعہ کبھی نہیں پڑھا۔ مَیں نے اماموں کو دیکھا ہے۔ قرآن کریم کی بہت ساری آیات پڑھ جاتے ہیں اور طوطے کی طرح پڑھتے چلے جاتے ہیں اورآگے نکلتے جاتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح قرآن کریم ہمیں سمجھایا ہے وہ میری روح اور دل کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے۔ مَیں نے اس طرح قرآن کریم سمجھاتے کسی کو نہیں سنا۔ بہرحال وہ احمدیت کے کافی قریب ہیں اور امید ہے انشاء اللہ بیعت کر لیں گی۔
بینن سے پھر واپسی نائیجیریا کی تھی۔ جب ہم بارڈر پر پہنچے ہیں تو امیرصاحب نائیجریا نے کہا کہ راستے میں ایک نئی جگہ مسجد بنی ہے گو کہ وہاں جانا پروگرام میں شامل نہیں ہے۔ مین سڑک سے بھی 12-10 میل اتر کر جانا پڑتا ہے وہاں ایک تختی کی نقاب کشائی کر دیں۔ تو مَیں نے کہا ٹھیک ہے چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ نائیجیریا کے ساؤتھ کا جو علاقہ ہے اس میں پرانی جماعتیں قائم ہیں۔ 2004ء میں بھی جب مَیں گیاہوں تو مَیں نے دیکھا ہے۔ وہاں پھر ان کے اخلاص و وفا کا اندازہ ہوا، پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا۔ یہ لوگ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ لگتا ہے ان کے اندر سے پیار پھوٹ رہا ہے۔ بہرحال جب وہاں پہنچا تو مَیں نے بڑا شکر کیا کہ مَیں آگیا۔ امیر صاحب کی بات مان لی۔ کیونکہ وہاں ساری جماعت انتظار میں کھڑی تھی۔ ان کو یقین تھا کہ ضرور آؤں گا۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہر بچے، بوڑھے، جو ان کی یہ خواہش تھی کہ مصافحہ کرے۔ عورتیں بھی چاہتی تھیں کہ قریب سے ہو کر دیکھیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے مصافحہ تو ممکن نہیں تھا لیکن جو زور لگا کر کر سکتے تھے، انہوں نے کر لیا۔ اس رش میں ہمارے قافلے کے ایک ساتھی نے کسی عورت کو کہہ دیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، ایک وقت میں بڑا دباؤ پڑ گیا۔ وہ عورت تو بڑی سیخ پا ہوئی۔ لگتا تھا اس بات پر غصہ میں وہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے گی۔ کہنے لگی تم کو ن ہو میرے اور خلیفہ وقت کے درمیان میں حائل ہونے والے۔ یہ تو خیریت ہوئی کہ وہ عقلمند تھے، فوراً دبک گئے اور ایک طرف ہو گئے لیکن وہاں کی اتنی زور آور عورتیں ہیں کہ کوئی بعید نہیں تھا کہ اٹھا کر باہر پھینک دیتیں اور جوش میں ویسے بھی انسان میں طاقت زیادہ آجاتی ہے۔
مَیں نے مسجد میں جب انہیں تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ خاموش ہو کے بیٹھ جاؤ تو تب سارے احمدی جو سینکڑوں کی تعداد میں تھے وہ خاموش ہوئے۔ جب انہیں کہا کہ پروگرام میں یہاں آنا شامل نہیں تھا اور صرف تمہاری وجہ سے یہاں آیا ہوں تو اس کے بعد جو انہوں نے فلک شگاف نعرے لگائے ہیں، لگتا تھا کہ مسجد کی چھت اڑ جائے گی۔ ان کے نعرے سنے اور کچھ مَیں نے ان سے باتیں کیں۔ جوش ٹھنڈا ہوا تو پھر ان سے اجازت لے کروہاں سے آیا۔
ہم وہاں سے چلے تودو تین راتیں راستے میں گزرتی گئیں۔ ان کا مرکز ابو جاؔ شہر ہے جہاں جلسہ ہونا تھا تقریباً 13-12 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ راستے میں جہاں بھی جماعتیں تھیں وہاں سڑکوں پر استقبال کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔ وہی جوش اور جذبہ، وہی پیار، وہی اخلاص جو ہر جگہ افریقن احمدیوں میں نظر آتا ہے، ان میں دیکھنے میں ملا۔ عورتیں بچوں کو اسی طرح گود میں لئے ساتھ ساتھ کار کے دوڑ رہی تھیں اور بچوں کی توجہ میری طرف کرانے کی کوشش کر رہی تھیں تاکہ خلافت سے محبت ان کی زندگیوں کا حصہ بن جائے۔
نائیجیریا میں بھی ہمسایہ ممالک نائیجر، چاڈاور کیمرون وغیرہ کے وفود آئے تھے۔ نائیجر میں بھی گھانا اور بینن کی طرح سرکاری افسران اور غیر از جماعت لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر ایک کا جماعت کے بارہ میں تاثر مزید نکھر کر ابھرا۔ انہیں مزید جماعت سے آگاہی ہوئی جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا۔ نائیجیریا میں ان کی ایک بڑی کنگڈم ہے نیو بُصّہ سٹیٹ میں۔ اس کے امیر بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں، پی ایچ ڈی ہیں اور نائیجیریا کی سینٹ کے ممبر بھی ہیں۔ انہوں نے بڑے اصرار سے مجھے اپنے علاقے میں یہاں سے چلنے سے پہلے بلوایا تھا کہ وہاں آؤں۔ وہ دو سال سے جلسہ یو کے میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔ بڑے پیار سے انہوں نے اپنا مہمان رکھا۔ اپنے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا۔ اپنی والدہ کی یاد میں لڑکیوں کا ایک سکول کھول رہے ہیں۔ سکول تو چل رہاہے لیکن بڑے وسیع پیمانے پر اس کو بنانا چا ہتے تھے۔ اس کا سنگ بنیاد انہوں نے مجھ سے رکھوایا اور اس فنکشن میں بہت سے سرکاری افسرا ن بھی تھے۔ روایتی بادشاہ بھی تھے۔ سیاسی لیڈر بھی تھے۔ ممبرز آف پارلیمنٹ بھی تھے۔ اس کنگ (King) نے سب کے سامنے جماعت کی خدمات اور میرے سے ذاتی تعلق کا برملا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کا سینہ مزید کھولے اور انہیں وہ جرأت عطا فرمائے جس سے وہ مسیح محمدی کی غلامی میں جلد سے جلد آسکیں۔ بہرحال ہم نے ہر قدم پر ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تائید و نصرت کی بارش دیکھی ہے۔ کچھ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اور رپورٹوں کے ذریعہ سے باتیں آپ کے علم میں آتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ تمام سعید روحوں کو مسیح محمدی کے ہاتھ پر جلد از جلد جمع ہونے کے نظارے ہمیں دکھائے۔
نائیجیریا میں 1940ء میں ایک گروپ جو بڑی تعداد میں تھا اور امیر لوگ تھے، وہاں اس وقت کے امیر اور مشنری انچارج سے ناراض ہوئے اور جماعت کے خلاف ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ان سے کہا کہ یا تو اطاعت کرو یا جماعت سے باہر ہو جاؤ تو وہ اپنی مسجدیں وغیرہ لے کر باہر ہو گئے۔ وہاں پریس کے ایک نمائندے نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا تھا ؟ اس پر مَیں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑا؟ جماعت تو اب یہاں بھی ترقی کر رہی ہے اور دنیا میں بھی ترقی کر رہی ہے۔ جبکہ ان علیحدہ ہوئے لوگوں کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن ان لوگوں کو خود بھی اب احساس پیدا ہو رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ کسی بہانے سے جماعت کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ ان کے امام اور ایک اور بزرگ مجھے ملنے آئے۔ ان کو مَیں نے کہا کہ اب تو ہر چیز روشن اور واضح ہو کر سامنے آرہی ہے۔ تم یہاں نائیجیریا میں بھی دیکھ رہے ہو اوردنیا میں بھی دیکھ رہے ہو۔ اس لئے اب ضد چھوڑو اور آجاؤ کیونکہ جماعت کی ترقی اور برکات خلافت سے وابستہ ہیں۔ بظاہر تو بڑے آرام سے بات سن کر گئے۔ اب دیکھیں اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے۔
یہاں ایک بات مَیں وہاں کے مبلغین کو بلکہ دنیا کے سب مبلغین کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق اوراپنے اخلاق کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے میں مزید ترقی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ خود بھی یاد رکھیں او ر اپنے بیوی بچوں کو بھی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ہے تو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنا ہر ایک کا فرض ہے۔ پہلے سے بڑھ کر مقامی لوگوں سے پیار اور محبت کا تعلق رکھیں، خاص طور پر افریقہ میں رہنے والے۔ آپ کے نمونے اور عمل مقامی احمدیوں کے لئے مثال بنتے ہیں۔ پہلے شروع میں، ابتداء میں جو مشنریز ہمارے گئے، مبلغین گئے، ان میں سے صحابہ بھی تھے انہوں نے بڑی قربانیاں کی ہیں۔ اپنی نیکی اور تقویٰ کے اور ہمدردیٔ انسانیت کے بڑے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں اور ایک نام پیدا کیا ہے۔ تو یہ معیار ہیں جو ان لوگوں نے قائم کئے اور یہ کم از کم معیار ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جماعت کے اخلاص و وفا اور فدائیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
‘’بعض اوقات جماعت کا اخلاص اور محبت اور جوش ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے، یہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہے‘‘۔ اور جب دشمن تعجب میں ہو تو حسد میں بڑھتا ہے۔ نئے نئے طریقے نقصان پہنچانے کے تلاش کرتا ہے۔
اس افریقہ کے دورہ کی بھی اور ویسے بھی جب جماعتی ترقی کی خبریں دشمن تک پہنچتی ہیں تو وہ ہر طریقہ آزماتا ہے کہ کس طرح جماعت کو نقصان پہنچائے۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اب جبکہ تمام دنیا یہ نظارے دیکھ رہی ہے تو ہمیں بھی حاسدوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اس کے آگے جھکنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ خلافت جوبلی کے حوالے سے جوخبریں آتی ہیں ان پر پاکستان میں تو مولویوں کی بیان بازیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ پس بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ گو کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ حاسدوں اور معاندوں کے گروہ پر اللہ تعالیٰ جماعت کو غالب کرے گا۔ لیکن ہمیں بھی اخلاص و وفا اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر اس کے آگے جھکنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ترقیات کی نئی سے نئی منزلیں ہمیں دکھائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں