خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 16؍مئی2003ء

آ ج ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے اوپر بہت بڑھ کر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں- اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں ، اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ قائم کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتاہے۔
قرآن مجید، احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کی صفت الخبیر کے تعلق میں مختلف امور کا تذکرہ )

خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۶؍مئی ۲۰۰۳ء مطابق ۱۶؍ہجرت۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلااللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین-
وَتَرَی الْجِبَالُ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔ صُنْعَ اللہِ الَّذِیٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْء۔اِنَّہٗ خَبِیْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ (سورۃ النمل:۸۹)۔

اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں- (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَاب سے یہ مراد نہیں کہ پہاڑ الگ چلتے ہیں اور زمین الگ چلتی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ زمین چلتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں اور جس طرح زمین بادلوں کو اپنے ساتھ کھینچے چلی جاتی ہے اسی طرح وہ پہاڑوں کو بھی اپنے ساتھ اٹھائے چلی جاتی ہے۔
اس آیت میں ظاہری طورپر تو پہاڑوں کے چلنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور بادلوں کے ساتھ ان کی مشابہت بیان کی گئی ہے لیکن باطنی طورپر اس میں بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کی خبر دی گئی ہے۔ اور بتایا گیاہے کہ تمہیں تو اپنے زمانہ کی حکومتیں ایسی مضبوط دکھائی دیتی ہیں کہ تم سمجھتے ہو وہ صدیوں تک بھی تباہ نہیں ہو سکتیں مگر خدا تعالیٰ اسلام کی شوکت ظاہر کرنے کے لئے ان کو اس طرح اڑادے گاکہ ان کا نشان تک بھی نظر نہیں آئے گا۔ چنانچہ اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جس طرح ہوائیں بادل کو اڑا کر لے جاتی ہیں اسی طرح جب اسلام کی تائید میں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوائیں چلنی شروع ہوئیں توکفروشرک کے بڑے بڑے دیوقامت پیکر اس طرح اڑیں گے کہ ان کا نشان بھی دکھائی نہیں دے گا۔ مگر یہ سب کچھ انسانی تدابیر سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہاتھ سے ہوگا اور اس کی قدرت اور صنعت کا اس سے ظہور ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ

اِنَّہٗ خَبِیْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ

یہ عظیم الشان انقلاب اس صورت میں آ سکتاہے جبکہ مسلمان بھی اپنے اندر انقلاب پیدا کریں-اگر تم اپنے اندر تبدیلی پیدانہیں کروگے اور خداتعالیٰ کی نگاہ میں ظالم بنو گے تو خداتعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک ظالم کومٹا کر دوسرا ظالم اس کی جگہ بٹھا دے۔ خداتعالیٰ اسی صورت میں ان پہاڑوں کواڑائے گا جب تم اپنے آپ کو اسلامی احکام کا نمونہ بناؤگے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا مقام حاصل کرو گے۔
پس آ ج ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمارے اوپر بہت بڑھ کر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں پید ا کریں- اپنے گھروں کو بھی جنت نظیر بنائیں ، اپنے ماحول میں بھی ایسا تقویٰ قائم کریں جو اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتاہے۔ اور ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس خدائی بشارت کو ہم سے دور کردے۔پس ہم پریہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں کیونکہ آج عالم اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ پر ہے۔ ہمارے پاس کوئی طاقت تو نہیں ، کوئی نمونہ حکومت کا نہیں لیکن دعاؤں کے ذریعہ جس طرح حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ سب مراحل انشاء اللہ طے ہوں گے۔
اب قرآن کریم کی بعض اورآیات بھی آپ کے سامنے پیش کرتاہوں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفت خبیر کا ذکر ہے۔

یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللہُ۔ اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ (سورۃ لقمان : ۱۷)

اے میرے پیارے بیٹے! یقینا اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز ہو پس وہ کسی چٹان میں (دبی ہوئی) ہو یا آسمان یا زمین میں کہیں بھی ہو، اللہ اسے ضرور لے آئے گا۔ یقینا اللہ بہت باریک بین (اور) باخبر ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :۔

’’ اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ

کسی شئے کے پیدا کرنے کے واسطے اس شئے کا کامل علم لازم ہے، خدا لطیف ہے،خبیر ہے۔ روح اور مادہ کے متعلق اسے کامل علم ہے کہ وہ کیونکر پیدا ہو سکتاہے اور پھر اسے قدر ت بھی ہے۔اگر خداتعالیٰ نے کوئی ذرّہ اورروح پیدا ہی نہیں کیا تو اس کے متعلق کامل علم کیونکر رکھ سکتاہے۔ (حقائق الفرقان جلد۴صفحہ ۱۷۰)
پھر فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ ادنیٰ واعلیٰ سب باتوں سے باخبر ہے۔ علم الٰہی پر ایمان لانے سے نیکی پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ کوئی بڑا شخص مجھے دیکھ رہاہے توپھر وہ بدی کرنے سے رکتا ہے۔ پھر اپنے بزرگوں، افسروں، حاکموں کے سامنے بدی کرنے سے اور بھی رکتاہے۔ ایسا ہی جس کویہ ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام افعال، حرکات و سکنات کو دیکھتاہے اور ہمارے دل کے خیالات اور ارادات سے بھی باخبرہے وہ شخص کبھی بدی کے نزدیک نہیں جاسکتا۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۳۶۷)
اگلی آیت ہے:

وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا (سورۃ الاحزاب :۳)۔

اور ا س کی پیروی کر جو تیری طرف تیرے ربّ کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔ یقینا اللہ، اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
پھر سورۃ سبا میں فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْآخِرَۃِ۔ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ (سورۃ السبا:۲)

سب حمد اللہ ہی کی ہے جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ اور آخرت میں بھی تمام تر حمد اسی کی ہوگی اور وہ بہت حکمت والا اور ہمیشہ خبر رکھتاہے۔
اب آئندہ زمانہ میں ظاہرہونے والی وہ خبریں جن کا قرآن کریم میں بیان فرمایا گیاہے ان کا کچھ پہلے ذکر آچکا ہے، کچھ مزید خبروں کا یہاں مختصراً ذکرکروں گا۔ مثلاً اس زمانہ میں منتشر یہودیوں کی فلسطین میں جمع ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی۔ فرمایا:

وَقُلْنَامِنْ بَعْدِہٖ لِبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اسْکُنُوْا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْد ُالْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا

اوراس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیارکرو اور جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔
اس کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُالْاٰخِرَۃ یعنی اب تم کنعان میں جاؤ لیکن ایک وقت کے بعد تم کو وہاں سے نکلنا پڑے گا۔ پھر خداتعالیٰ تم کوواپس لائے گا۔ پھر تم نافرمانی کروگے اور دوسری دفعہ عذاب آئے گا اس کے بعد تم جلاوطن رہو یہاں تک کہ تمہاری مثیل قوم کے متعلق جو دوسری تباہی کی خبر ہے اس کاوقت آ جائے اس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے اکٹھا کرکے ارض مقدس میں واپس لایا جائے گا۔
چنانچہ دیکھ لیں ا س الٰہی خبرکے مطابق ۱۸۸۲ء سے ۱۹۰۳ء کے دوران عثمانی ترکوں نے یہود کو پہلی دفعہ دوبارہ فلسطین کے علاقہ میں آباد ہونے کی اجازت دی توروس کے یہودی یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔ بیسویں صدی کے شروع میں یہود کی تعداد بہت تھوڑی تھی لیکن پھر یہ تعداد بڑھتی گئی اور پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی سلطنت کمزور ہونے پر یورپ کی مفادپرست طاقتوں نے بیت المقدس میں کئی قونصلیٹ قائم کئے اور پھر یہودی شہر تل ابیب کا قیام ہوا۔ پھر برطانوی حکومت نے ایک ا علان کے ذریعہ آزاد یہودی ریاست کا منصوبہ دیا اورپھر ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کا یہ حق بھی لیگ آف نیشن نے تسلیم کیا کہ وہ فلسطین کی آبادکاری میں اس کا پورا پورا ساتھ دے۔ پھر ۱۹۴۷ء میں دنیا کے تمام علاقوں سے اس قدر یہودی اکٹھے ہوئے کہ آج آپ دیکھیں کہ تمام مسلمان ممالک کو ایک عجیب عذاب میں مبتلا کیا ہواہے اور یہ اب تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اور یہ خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے۔
پھر فرمایا :

یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰـھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْمِنْھُمْ اَحَدًا (سورۃ الکہف:۴۸)

اور جس دن ہم پہاڑوں کو حرکت دیں گے اور تو زمین کو دیکھے گا کہ وہ اپنا اندرونہ ظاہر کردے گی اور ہم (اس آفت میں) ان سب کو اکٹھا کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آدمیوں کا ذکر ہے پہاڑوں اور دریاؤں کا ذکر نہیں- اور بتایا گیاہے کہ یہ سب پیشگوئیاں اس دن پوری ہوں گی جب بڑے بڑے لوگ جنگوں کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اور تو ساری زمین کو یعنی سب اہل زمین کو دیکھے گا کہ جنگ کے لئے ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے ہوجائیں گے۔ اور ایسی جنگ ہوگی کہ گویا ان میں سے ایک بھی نہ بچے گا۔ اس واقعہ کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے۔ حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں قوم پر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت چڑھائی کرے گی۔( متی باب ۲۴)۔فرمایا : ہو سکتاہے کہ اَ لْاَرْض سے ادنیٰ طبقہ کے لوگ مراد ہوں اور اَلْجِبَال سے بڑے لوگ۔ یعنی ا س دن ایک طرف سے جبال یعنی بڑی لوگ یا دوسرے لفظوں میں ڈکٹیٹرز نکلیں گے۔ اور دوسری طرف سے اَرْض یعنی ڈیموکریسی کے حامی اور حکومت عوام کے نمائندے نکلیں گے اور آپس میں خوب جنگ ہوگی۔
اب بڑی طاقتوں کو جو اپنے آپ کو بہت مہذب سمجھتی ہیں دیکھ لیں کہ وہ یہی کچھ حرکتیں کر رہی ہیں اور گو کہ پہلے خیال تھا کہ بلاک ختم ہو رہے ہیں اب پھر نئے سرے سے نئے بلاک بن رہے ہیں اور دنیا بلاکوں میں تقسیم ہو رہی ہے اور یہ عمل اب شروع ہو چکا ہے۔ اب یہ جنگیں کب ہوں گی،اللہ بہتر جانتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔
پھر فرمایا

اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰـھُمَا۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْء حَیٍّ۔ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ۔ وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ۔ وَجَعَلْنَا فِیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ (سورۃ الانبیاء:۳۱۔۳۲)

کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ ان کے لئے غذا فراہم کریں اور ہم نے اس میں کھلے رستے بنائے تاکہ وہ ہدایت پاویں-
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت کائنات کے اسرار پر سے ایسا پردہ اٹھاتی ہے جو اس زمانے کے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ فرمایا: یہ ساری کائنات ایک مضبوطی سے بند کئے ہوئے ایسے گیند کی شکل میں تھی جس میں سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑ ا اور اچانک ساری کائنات اس میں سے پھوٹ پڑی اور پھر پانی کے ذریعہ ہر زندہ چیز کو پیدا فرمایا۔ اور پانی کے معاً بعد رَوَاسِی کے ساتھ اس پانی کے نازل ہونے کے نظام کا ذکر فرمادیا۔ اور پھر یہ ذکر فرمایا کہ کس طرح آسمان، زمین اور اہلِ زمین کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر زمین و آسمان اور تمام اجرام کی دائمی گردش کا ذکر فرمایا اور جس طرح زمین اور آسمان دائمی نہیں ہیں اسی طرح یہ بھی متوجہ فرمایا کہ انسان بھی دائم رہنے والا نہیں-
پھرقیامت کی گھڑی پر گواہی دینے والے عظیم واقعات کی خبرہے۔ فرمایا:

اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ وَاِذَاالنُّجُوْمُ انْـکَدَرَتْ۔ وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۔ وَاِذَاالْعِشَارُعُطِّلَتْ (سورۃالتکویر:۲ تا ۵)

ترجمہ یہ ہے کہ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔
اس کی مختصر تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم دنیا میں رونما ہونے والے عظیم واقعات کی خبر دیتا ہے جو قیامت کی گھڑی پر گواہ ٹھہریں گے۔ اور گواہ ٹھہرایا گیا ہے سورج کو جب اسے ڈھانپ دیا جائے گا-یعنی آنحضرتﷺ کی روشنی کو اس زمانہ کے دشمن بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نہیں پہنچنے دیں گے اور ان کا مکروہ پراپیگنڈا بیچ میں حائل ہوجائے گا۔ اور جب صحابہؓ کے نور کو بھی دشمن کی طرف سے گدلا دیا جائے گا اور جس طرح سورج کے بعد ستارے کسی حد تک روشنی کا کام دیتے ہیں اسی طرح صحابہ کا نور بھی انسان کی نظر سے زائل کردیا جائے گا۔ یہ وہ زمانہ ہوگا جبکہ بڑے بڑے پہاڑ چلائے جائیں گے یعنی پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے سمندری جہاز بھی اور فضائی جہاز بھی سفر اور باربرداری کے لئے استعمال ہوں گے اور اونٹنیاں ان کے مقابل پر بیکار کی طرح چھوڑ دی جائیں گی۔
ا ب ایک آیت ہے جس میں آج کل کے زمانے میں احمدیوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کا بھی ذکرہے۔

قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِالنَّارِذَاتِ الْوَقُوْدِ۔ اِذْ ھُمْ عَلَیْھَاقُعُوْدٌ۔ وَّھُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ۔ وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللہ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (سورۃ البروج:۵تا ۹)

ہلاک کردیئے جائیں گے کھائیوں والے۔ یعنی اُس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے۔ جب وہ اُس کے گرد بیٹھے ہوں گے۔ اور وہ اُس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے۔ اور وہ اُن سے پرخاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ، کامل غلبہ رکھنے والے، صاحبِ حمد پر ایمان لے آئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ان آیات میں ان لوگوں کی ہلاکت کی پیشگوئی کی گئی ہے جنہوں نے کھائی میں آگ جلائی تھی اور اس میں مومنوں کو پھینک کر بیٹھے ان کا تماشا دیکھتے تھے۔ ان آیات میں یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ یہ واقعہ آئندہ بھی رونما ہو گا اور وہ زمانہ موعود کا زمانہ ہوگا۔ پس لازماً اس کا اطلاق ان مظلوم احمدیوں پر ہوتا ہے جن کو گھروں میں زندہ جلانے کی کوشش کی گئی اور قُعُود کا لفظ بتاتا ہے کہ لوگ بیٹھے تماشا دیکھتے رہے اور ظالموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پس یہ عظیم الشان پیشگوئی اس رنگ میں کئی بار پوری ہوچکی ہے کہ پولیس کی نگرانی میں بلوائیوں نے معصوم احمدیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی اور کئی بار کامیاب بھی ہوگئے اور بعض اوقات ناکام بھی ہوئے۔حالانکہ ان کا اس کے سوا کوئی جرم نہیں تھا کہ وہ آنے والے پر ایمان لے آئے۔ یہ ایسے سچے متبعین ہیں جو اپنی قربانیوں کے ذریعے آنے والے موعود کی صداقت پر گواہ بن گئے ہیں-
اور پھر یہ ہے کہ ایسی حرکتیں کرنے والوں کو کوئی ذرا سا بھی احساس،شرم،حیا کچھ نہیں بلکہ یہ حرکتیں کرنے کے بعد بڑے فخر سے بیا ن کی جاتی ہیں کہ ہم نے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا، یہ سلوک کیا۔ اوریہ باتیں ایسی نہیں کہ جو پہلے ہواکرتی تھیں اور آج نہیں ہو رہیں-یا احمدیت کے ابتدائی دور میں ہو رہی تھیں-آج بھی یہ خبریں مستقلاً آتی رہتی ہیں اور یہ عمل اسی طرح جاری ہے۔اور یہ ظلم کی داستانیں آج بھی اسی طرح رقم ہو رہی ہیں- پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ بعض جگہوں پر جو سلوک ہوتاہے اس سیـ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- اور جب پوچھو کہ قصور کیاہے تو کوئی جواب نہیں- اب لوگ اپنی مسجد میں بیٹھے اپنے امام کی تقریر سن رہے ہیں یہی ان کا بہت بڑا قصورہے کیونکہ ہمارے جذبات مشتعل ہوتے ہیں- اور ظلم کی یہ انتہا کہ یہ سب کچھ خدا کے نام پہ ہورہاہے۔ اب ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں اگر ان کو ذرا بھی خوف خدا ہو کہ’’خداکا نام نہ لوظالمو خدا کے لئے ‘‘۔لیکن خدا کاواسطہ تو وہاں دیا جاتاہے جہاں خدا کا خوف ہو۔ اس لئے ہماری اپنے رب کے آگے یہی التجا ہے کہ ؎

خداوندا بندہ خدا بن گیاہے
یہی تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں

اب آنحضرت ﷺنے آخری زمانہ میں پیش آنے والے مختلف حالات وواقعات کی خبریں بھی بیان فرمائیں جو آپ کے صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں- ان میں سے چند روایات نمونہ کے طورپر پیش کرتاہوں جو بڑی شان کے ساتھ ہم نے پوری ہوتے دیکھیں اور دیکھ رہے ہیں-
حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوااسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہرتو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔ ( مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ ۳۸)۔ اور یہی کچھ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں-
پھر فرمایا۔ حضر ت حذیفہؓ بن یمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اسلام اس طرح مدھم ہو جائے گا جس طرح کپڑے پر بنے ہوئے نقوش مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ روزے کیا ہیں؟نماز کیاہے؟قربانی کیا ہے؟ اور صدقہ کیا ہے؟۔ اور کتاب اللہ پر ایک ایسی رات آئے گی کہ اس کی ایک آیت بھی زمین پر نہ رہے گی۔ اور زمین پر لوگوں کے طبقات رہ جائیں گے-ایک بوڑھا شخص اور ایک بوڑھی عورت کہے گی ہم نے تو اپنے آبا ء واجداد کو کلمہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہ پرپایا اس لئے ہم بھی یہ کلمہ پڑھتے ہیں-(ابن ماجہ کتاب الفتن۔باب ذھاب القراٰن والعلم) یعنی کہ عمل کوئی نہیں رہے گا۔ظاہری طورپر عمل تو کریں گے لیکن اس کی روح قائم نہیں رہے گی۔
پھر امت مسلمہ کے یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے کی خبر۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے مسلمانو! تم ضرور بضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی عادات کی پیروی کروگے۔ اس طرح جیسے بالشت بالشت کے برابر اور بازو بازو کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوگے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! پہلے لوگوں سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا تو اور کون؟ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل)
ایک روایت ہے کہ حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بنی اسرائیل ۷۱فرقوں میں بٹ گئے تھے ان میں سے ۷۰فرقے ہلاک ہو گئے اور ایک فرقہ بچایا گیا۔ اور عنقریب میری ا مت ۷۲فرقوں میں بٹ جائے گی۔پھر اس کے ۷۱فرقے تو ہلاک ہو جائیں گے اور ایک فرقہ کہ نجات دی جائے گی۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ وہ فرقہ کون سا ہوگا۔ اس پررسول اللہ ﷺنے فرمایا: وہ فرقہ جماعت ہوگا، جماعت ہوگا۔
اب حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بعض واقعات کی خبر دی ان میں سے کچھ پیش ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھی کہ مسجد میں خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے سے روکاجاتا، راستہ میں کیلے گاڑ دئے جاتے تا کہ گزرنے والے گریں- اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایاکہ مجھے دکھایا گیاہے کہ یہ علاقہ اس قدر آباد ہوگاکہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی۔
۱۸۸۸ء کا ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس میں حضر ت مصلح موعود کی ولادت کی خبر دی ہے۔ فرماتے ہیں :میرا پہلا لڑکا زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طورپر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور مَیں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھاہوا پایاکہ ’’محمود‘‘۔ تب مَیں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے۔(تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۴۔ تذکرہ صفحہ ۱۶۴۔۱۶۵مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
پھر اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ قادیان کے آریوں نے جب حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک نشان طلب کیا تو آپ کو جنوری ۱۸۸۶ء میں حصول نشان کے لئے خلوت گزیں ہو کردعائیں کرنے پر بایں الفاظ الہام ہوا:’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی‘‘۔
اس الہام کی اتباع میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیار پور کا سفر اختیار کیا اور وہاں چلّہ کرنا شروع کر دیا۔ وہاں چلّہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان فرزند کی بشارت دی جس کا اظہار آپ نے ۲۰؍جنوری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کے ذریعہ کیا۔اس پیشگوئی میں آپ کو جس موعودبیٹے کی ولادت کی خبر دی گئی اس کے بارہ میں آ پ نے مزید انکشافات ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کو الٰہی خبر پانے کے بعد کئے۔ فرمایا: ’’ایک لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا۔اس سے ظاہر ہے کہ غالباًایک لڑکاابھی ہونے والاہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں- لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا‘‘۔
( اشتہار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول)
چنانچہ بشیر اوّل الٰہی خبر کے مطابق کہ’’ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے ‘‘۔ ۷؍اگست ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے اس الہام کے تحت۔ اور ۲۰؍فرور ی۱۸۸۶ء والی پیشگوئی میں مذکور ‘‘خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتاہے‘‘کی آسمانی خبر کو پورا کیا اور جلد ہی ۱۸۸۸ء میں وفات پا گئے۔ اس پر مخالفین نے بڑا شورمچایا مگر وہ موعودجس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ ’’یا وہ کسی اوروقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا‘‘۔اس الٰہی خبر کے مطابق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے اورالٰہی بشارتوں کے مطابق پروان چڑھتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ۵،۶؍جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی شب ایک عظیم رؤیا کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓپر یہ انکشاف کیا کہ آپ ہی وہ موعود ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا تھا۔ آپ کا دور خلافت،آپ کاعلم قرآن،آپ کی خدمت دین،آپ کی خدمت انسانیت ا س بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ آپ ہی وہ موعود ہیں ‘‘۔
پھر مضمون بالا رہنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر دی گئی تھی۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں بیان کرتاہوں کہ:
’’ ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یاد نہیں رہا۔ اور کہا کہ مَیں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتاہوں- آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے۔ مَیں نے عذر کیا پر اس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں-چونکہ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں- مَیں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے مَیں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے۔ مَیں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے۔ میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندرمحسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ مَیں نے ا س مضمون کا کوئی مسودّہ نہیں لکھا۔ جو کچھ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے مَیں لکھتا جاتا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی اس کی نقل لکھے۔ جب مَیں مضمون ختم کر چکا تو خداتعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔
فرماتے ہیں :خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالمِ وجد تھا۔ اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی۔ یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدرنشین اس مجمع کے تھے ان کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا۔ اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جو لاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طورپر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا۔ اور شاید بیس کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہ شہادت دی‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۹۱۔۲۹۲)
پھر پنجاب آبزور ایک انگریزی کا اخبار ہے اس کی بھی گواہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ بباعث مرض ذیابیطس جو قریباًبیس سال سے مجھے دامنگیر ہے آنکھوں کی بصارت کی نسبت بہت اندیشہ ہوا کیونکہ ایسے امراض میں نزول الماء کا سخت خطرہ ہوتاہے۔ تب خداتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے اپنی اس وحی سے تسلی اور اطمینان اور سکینت بخشی اور وہ وحی یہ ہے

’’نَزَلَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی ثَلٰثٍ اَلْعَیْنُ وَعَلَی الْاُخْرَیَیْنِ‘‘،

یعنی تین اعضاء پر رحمت ناز ل کی گئی۔ ایک آنکھیں اور دو اور عضو اوران کی تصریح نہیں کی اور مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیساکہ پندرہ بیس برس کی عمر میں میری بینائی تھی ایسی ہی اس عمر میں بھی کہ قریباً ستّر برس تک پہنچ گئی ہے وہی بینائی ہے۔ سو یہ وہی رحمت ہے جس کا وعدہ خداتعالیٰ کی وحی میں دیا گیاتھا‘‘۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۹)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آج رات کے دو بجے الہام ہواتھا‘‘۔ (یہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۷ء کی بات ہے )

اِنَّ خَبْرَ رَسُوْلِ اللہِ وَاقِعٌ

جس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی پیشگوئی واقع ہونے والی ہے۔ دوتین ماہ میں کوئی نہ کوئی نشان ظہور میں آ جاتاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا کے خاتمہ کے دن قریب ہیں کیونکہ لکھاہے کہ آخری زمانہ میں نئے نئے نشانات ظہورمیں آئیں گے اور جیسے تسبیح کا دھاگہ توڑ دیا جاوے تو دانے پردانہ گرتا ہے ویسے ہی نشان پرنشان ظاہر ہوگا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کوئی سا ل اب خالی نہیں جاتا، دو چارمہینہ میں کوئی نہ کوئی نشان ضرور واقع ہو جاتا ہے- تمام نبیوں نے اس بات کو مان لیاہے کہ جس زور سے آخری زمانہ میں نشانات کا نزول ہوگا اس سے پہلے ویسا کبھی نہیں ہوا ہوگا۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۵۶۔۲۵۷ جدید ایڈیشن)۔
اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک انتباہ پڑھتاہوں- حضورفرماتے ہیں :
’’ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم … امن میں رہوگے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تیئں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں- انسانی کا موں کا اس دن خاتمہ ہوگا… اے یوروپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں- وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں و ہ سنے کہ وہ وقت دور نہیں ‘‘۔
(حقیقہ الوحی۔ روحانی خزائن جلد نمبر۲۲ صفحہ ۲۶۹)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں