خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 2؍جنوری2004ء

تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی آنحضرت ﷺکی ذات میں نظر آتی ہے
تواضع اور فروتنی اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بلندیاں عطا کرتاہے
عاجزی ، انکساری اور فروتنی کے بارہ میں پرمعارف اور ایمان افروز خطبہ جمعہ
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
2؍ جنوری2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (سورۃ الفرقان آیت ۶۴)

عاجزی اور انکساری ایک ایسا خلق ہے جب کسی انسان میں پیدا ہو جائے تو اس کے ماحول میں اور اس سے تعلق رکھنے والوں میں باوجود مذہبی اختلاف کے جس شخص میں یہ خلق ہو اس پر انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملتا بلکہ اس خُلق کی وجہ سے لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ، اس سے تعلق رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں- ہمیں تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر آتی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے چنانچہ دیکھ لیں باوجود خاتم الانبیاء ہونے کے آپ اپنے ماننے والوں کو یہی فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو اور اس یہودی کو بھی پتہ تھا کہ باوجود اس کے کہ میں یہودی ہوں اور جھگڑا میرا مسلمان سے ہے اور پھر معاملہ بھی آپ ﷺ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اپنے اس جھگڑے کا معاملہ آپ ﷺ کے پاس ہی لاتا ہے، آپ کی خدمت میں ہی پیش کرتا ہے۔ کیونکہ مذہبی اختلاف کے باوجود اس کو یہ یقین تھا اور وہ اس یقین پر قائم تھا کہ یہ عاجز انسان ﷺ کبھی اپنی بڑائی ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ا وراس یہودی کو یہ بھی یقین تھا کہ میرا دل رکھنے کے لئے اپنے مرید کو یہی کہیں گے کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ یہ یقین اس لئے قائم تھا کہ آپ کی زندگی جو زندگی اس یہودی کے سامنے تھی اس سے یہی ثابت ہو اتھا اور آپ کا یہ حسن خلق اس کو پتہ تھا اور یہ حسنِ خلق آپ میں اس لئے تھا کہ وہ شرعی کتاب جو آپ پر ا تری یعنی قرآن کریم اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو میں نے آیت پڑھی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام۔ یعنی جھگڑے کو بڑھاتے نہیں بلکہ وہیں معاملہ نپٹا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں- اور اگر کوئی جھگڑا کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ جاہلوں کی طرح ذرا ذرا سی بات پر سالوں جنگیں لڑنے کی ان کو عادت نہیں ہے۔ تو یہ ہے وہ حسن خلق جوآنحضرت ﷺ میں تھا اور جو آپ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
اس بارہ میں علامہ رازی آیت قرآنی

اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا

کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ھَوْن سے مراد نرمی اور ملائمت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ چال میں نرمی ہو چال میں نرمی ہوتی ہے، سکینت ہوتی ہے، وقار اور تواضع ہوتی ہے اور تکبر اور نخوت سے اپنے پاؤں زمین پر نہیں مارتے اور متکبر لوگوں کی طرح اکڑ کر نہیں چلتے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا-یعنی وہ زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے۔ لکھتے ہیں کہ زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ھَوْنَ کی تفسیر تلاش کی تو مجھے نہ ملی تو خواب میں مجھے بتایا گیا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد نہیں چاہتے۔
پھر ایک روایت ہے،حضرت ایاز بن حمار سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے ہم سے خطاب فرمایا اور فرمایا ’’کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ انکساری اختیار کرو اس حد تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے۔
اب امت کو تو یہ حکم ہے کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے لیکن کیا ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں- کسی کو اپنی قوم کا فخر ہے،خاندان کا فخر ہے،تو کسی کو دولت کا فخر ہے،کسی کو دوستوں کا فخر ہے،کسی کو اولاد کا فخر ہے اور جس طرف بھی نظر ڈالیں آپ کوئی نہ کوئی فخر کا راستہ یا کوئی نہ کوئی فخر کی سوچ ہر ایک میں نظر آجاتی ہے۔ پھر اور تو اور بعض دفعہ بعض لوگ اچھے سوٹ سلوالیں یا کپڑے پہن لیں تو اسی پر فخر ہونے لگ جاتا ہے۔ اس تعلیم پر نظر نہیں- اگر ہر ایک کی اس تعلیم پر نظر ہو جو ہمیں آنحضرت ﷺ نے دی تو فخر کے بجائے ہم میں سے ہر ایک میں ہر وقت عاجزی ہی عاجزی نظر آنی چاہئے۔
پھر دیکھیں روایت میں ہے جس میں آپ نے اپنے زبردست مقام کے بارے میں اعلان فرمایا ہے کہ

اَنَا سَیَّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ۔

یعنی پہلی بات تو یہ

اَنَا سَیَّدُ وُلْدِ اٰدَمَ۔

اور پھر ساتھ ہی عاجزی کا بھی ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ پھر فرما رہے ہیں وَلَا فَخْرَ۔کہ میں تما م بنی آدم کا سردار ہوں اور یہ بہت بڑا اعلان ہے لیکن عاجزی کی انتہا کہ مگر کوئی فخر نہیں کرتا۔اس میں مجھے کوئی فخر نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے لئے اس طرح تواضع اختیار کی۔ یہ فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اپنی ہتھیلی کوزمین کے ساتھ لگا دیا۔ اس کو میں ا س طرح بلند کروں گا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو آسمان کی طرف اونچا کرنا شروع کیا اور بہت بلند کر دیا یعنی جو عاجزی اختیار کرے اور زمین کے ساتھ لگ جائے اس کو خدا تعالیٰ خود بلند کرتا ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل مسند العشر المبشرین بالجنۃ)
اب ایسے لوگ جن کو اپنی بڑائی بیان کر کے اپنے مقام کا اظہار کرنے کا بڑا شوق ہو تا ہے ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے۔ اچھا باغبان یا مالک ہو باغ کا وہ ہمیشہ درخت کی اُس شاخ کی قدر کرتا ہے۔ جو پھلوں سے لدی ہواورزمین کے ساتھ لگی ہو۔ اسی طر ح مالک ارض و سما اس سر کی قدر کرتا ہے جو زمین کی طرف جھکتا ہے۔ عاجزی کے مقابلے پہ فخر، غرور اور تکبّر ہی ہے یعنی اس کا الٹ، تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں کہ شرک کے بعد تکبّر جیسی کوئی بَلا نہیں- اگر غور کریں تو تکبّر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف بھی لے کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ عاجزانہ راہوں پر چلائے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ؐنے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یعنی اس کو ایک درجہ بلند کرے گا۔ جس نے عاجزی اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا یہاں تک کہ اسے علییّن میں جگہ دے گا۔ بہت اونچے مقام پر لے جائے گا اور جس نے اللہ کے مقابل پر ایک درجہ تکبّراختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کر دے گا (مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین من الصحابۃ)۔یعنی انتہائی نچلے درجے پر جہنم کے بھی نچلے درجے میں لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اسفل السافلین میں گرنے سے بچائے۔
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے۔ ایک زنجیر ساتویں آسمان تک جاتی ہے اور دوسری زنجیر ساتویں زمین تک جاتی ہے۔ جب انسان تواضع یا عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں آسمان تک لے جاتا ہے اور جب وہ تکبّر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں زمین تک لے جاتا ہے۔انتہائی نیچے گرا دیتا ہے۔ ( کنزالعمال)
پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں اپنا سر بلند کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کاٹ دے گا۔ اور جس نے خدا کی خاطر دنیا میں تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ایک فرشتہ بھجوائے گا جو اسے مجمعے میں سے اپنی طرف کھینچ لے گااور کہے گا کہ اے صالح بندے اللہ تعالیٰ کہتا ہے میری طرف آ،میری طرف آ،کیونکہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ( کنزالعمال)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ اے عائشہ !عاجزی اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اور تکبّر کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے۔ ( کنزالعمال)
اب حضرت عائشہؓ کو حالانکہ ان کا بھی ایک مقام تھا اور بڑی عاجزی تھی ان میں بھی۔ آپؐ نصیحت فرمارہے ہیں کہیں ہلکی سی کوئی چیز دیکھی ہو شائد۔ تو آج کل اگر کسی کو نصیحت کرو تو وہ کہتا ہے کیا ہم تو بڑے عاجز ہیں- کیا تم دیکھتے نہیں ہم میں عاجزی۔
پھر حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تواضع انسان کو صرف بلندی میں ہی بڑھاتی ہے۔پس تواضع اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں رفعتیں عطا کرے گا۔ ( کنزالعمال)
پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عاجزی اور انکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ ایمان کی پوشاکوں میں سے جو پوشاک چاہے پہن لے۔ ( ترمذی کتاب ا لصفۃ القیامۃ باب ما جاء فی صفۃ اوانی الحوض)
اب صرف اس سے یہی مراد نہیں-اصل میں تو نیّت مراد ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں ، صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جو ڑا پہنا ہو ا ہے۔ صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھاپرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا۔ کام سچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یااگلے بچوں کے کام میں آجائیں ایسے کپڑے۔ یونہی ضائع ہو جاتے ہیں ،ضائع ہو رہے ہوتے ہیں- پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔فیشن میں بس ایسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا۔تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہوتا ہو پرہیز کرنا چاہئے۔ اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیاوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے۔ اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں ،لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں- صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں- اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو، دکھاوا ہوتا ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تواضع میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان اپنے بھائی کا جوٹھا پی لے۔ اور جس نے اپنے بھائی کا جوٹھا پی لیا اللہ تعالیٰ اس کے ستّر درجے بڑھائے گا۔ اس کے ستّر گناہ معاف کردے گا اور اس کے لئے ستّر نیکیاں لکھی جائیں گی۔( کنزالعمال)
بعض لوگ اس لئے کراہت کرتے ہیں کہ جوٹھا ہے یا فلاں میرے ہم پلہ نہیں- اس لئے اس کا جوٹھا نہیں پینا،دوسرے کا پی لینا ہے۔ اس میں بھی ایک قسم کا تکبّر ہے۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہے ہمارے ایک بزرگ تھے ان کے بچے نے آکر شکایت کی کہ ابّا !فلاں بھائی نے یا بہن نے میرا پانی پی کر جوٹھا کر دیا ہے۔ تو انہوں نے کہا بچے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔ اور اسی پانی کو پی لیادیکھو اس کا جوٹھا میں نے پی لیا۔ جوٹھا کوئی نہیں ہوتا۔ تو بچے نے اور رونا شروع کردیا کہ اب آپ نے بھی جوٹھاکردیا۔ تو بہرحال یہ جوٹھ کوئی نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی بیماری ہو اور چھوت لگنے والی ہو اس میں احتیاط ضروری ہے۔
پھر ایک دفعہ کسی نے آنحضرت ﷺ کو

یاخَیْرُ الْبَرِیَّہ

کہہ دیا (یعنی اے مخلوق کے بہترین وجود) توآپ ؐ نے فرمایا وہ تو ابراہیم علیہ السلام تھے۔ عاجزی کی انتہا ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۸)
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آکر آنحضرت ﷺکو مخاطب کر کے فرمایا۔ اے محمدﷺ۔ہم میں سے سب سے بہترین اوراے ہم میں سے سب سے بہترین لوگوں کی اولاد۔اے ہمارے سردار اور اے ہمارے سرداروں کی اولاد۔آپ ؐ نے سنا تو فرمایا۔کہ دیکھو!تم اپنی اصلی بات کہو اور کہیں شیطان تمہاری پناہ نہ لے۔ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں- میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحہ ۳۴۹ مطبوعہ مصر)
آج کل یہاں کسی کی تعریف کردیں تو پھولے نہیں سماتا بلکہ فخر ہو رہا ہوتا ہے چاہے وہ اس مقام کا ہو بھی یا نہ۔اور آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ دیکھیں-
ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنّت میں لے کر نہیں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے تعجب سے عرض کیا۔ یارسول اللہ !کیا آپ کے عمل بھی؟۔ توآپ نے فرمایا ہاں- مجھے بھی اگر خدا کی رحمت اور فضل ڈھانپ نہ لیں تو میں بھی جنّت میں نہیں جاسکتا۔ (مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ)
اب دیکھیں عاجزی کی کتنی انتہا ہے حالانکہ کائنات کو آپ کی خاطر پیدا کیا گیا۔اور آپ کی عاجزی اس حدتک ہے اس انتہا تک ہے۔
پھر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین اخلاق والا نہیں تھا۔ آپ کے صحابہ میں سے یا اہل خانہ میں سے جب بھی کسی نے آپ کو بلایاتو ہمیشہ آپ کا جواب یہ ہوتا تھا کہ میں حاضر ہو ں- تب ہی تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ آپ عظیم خلق پر قائم تھے۔ (الوفاء باحوال المصطفی از علامہ ابن جوزی صفحہ ۴۲۱ مطبوعہ بیروت)
پھر اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے خاندان کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لئے اور ان کو عباد الرحمن بنانے کے لئے آپ ؐ نے کیسی خوبصورت نصیحت فرمائی۔ ایک موقع پر آپ نے اپنی پھوپھی صفیّہ کو فرمایا اے میری پھوپھی صفیّہ بنت عبدالمطلب اور اے میری لخت جگر فاطمہ، میں تم کو اللہ کے عذاب سے ہر گز نہیں بچا سکتا۔ اپنی جانوں کی خود فکر کرلو۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین)
تو ہمیشہ اللہ کا فضل اور صرف اس کا فضل ہی ہے جو انسان کو بچائے اور ہر وقت اس کے آگے جھکے رہنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ہر وقت تعمیل کرتے رہنا چاہئے اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتے رہنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دلوں کے پاس تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قو م کیا ہے یا تمہارا خاندان کیا ہے بلکہ سوال یہ ہو گاکہ تمہارا عمل کیا ہے۔ ا سی طرح پیغمبر خدا نے اپنی بیٹی کو فرمایا کہ اے فاطمہ !خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کرو گی توخدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷۰ جدید ایڈیشن)
پھر دیکھیں آج کل اگرکسی کو کوئی عہدہ مل جائے یامالی حالت کچھ بہتر ہو جائے تو زمین پر پاؤں نہیں ٹکتے۔ اپنے آپ کو کوئی بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں- ماتحتوں سے یا غریب رشتہ داروں سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کوئی انتہائی کم درجہ کے لوگ ہوں- لیکن اسوۂ رسول ؐدیکھیں کیا ہے۔
ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ؐ کے پاس ایک شخص آیا آپ اس سے گفتگو فرما رہے تھے تو اسی دوران میں اس پر آپ کا رعب اور ہیبت طاری ہوگئی اور اس وجہ سے اس کو کپکپی طاری ہو گئی کانپنے لگ گیا وہ۔ تو آپؐ اسے فرمانے لگے۔ کہ دیکھو اطمینان اور حوصلہ رکھو، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں کوئی جابر بادشاہ تھوڑا ہی ہو ں میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب القدید)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہوبلکہ انکسار،عاجزی،فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں-

اللّٰہم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰل مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔

تو یہ ہے وہ نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردو پیش حاضر رہتے ہیں- فرمایا اس لئے اگر کسی کے انکسار اور فروتنی اور تحمل اور برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمت گا ر سے ذرا کوئی کام بگڑا۔ مثلاً چائے میں نقص ہو اتو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کردیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا تو بس بیچارے خدمتگاروں پر آفت آئی۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۳۷۔۴۳۸ جدید ایڈیشن)
ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ایک کم سن لونڈی کو بازار میں روتے دیکھا جو گھر کے مالکوں کا آٹا پیسنے نکلی تھی مگر درہم گم کر بیٹھی۔آپ ؐ نے اسے درہم بھی مہیا کئے اور اس کے مالکوں کے گھر جا کر سفارش بھی کی۔ اس بات پر کہ آنحضرتﷺ سفارش کرنے کے لئے آئے ہیں مالکوں نے اس کو آزاد بھی کر دیا۔ (مجمع الزوائد ازعلامہ ھیثمی جلد ۹ صفحہ ۱۴ مطبوعہ بیروت)
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ایک مجلس میں اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا، ذرا پاگل پن تھا تھوڑا۔ تو حضور کے پاس آئی اور عرض کیاکہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپ سے ا ن لوگوں کے سامنے باتیں نہیں کروں گی۔علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں- حضور نے فرمایا ٹھیک ہے جہاں بھی مدینہ کے راستوں میں سے جس رستہ پہ چاہو یا سڑک پہ چاہو یاجو بیٹھنے کی جگہیں ہیں وہاں چاہو مجھے بتادو میں وہاں جا کر بیٹھتا ہوں اور تم بات کرو اور میں تمہاری بات سنوں گا۔اور فرمایا جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کردوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں حضور کی بات سن کر وہ حضور کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات سن کر اس کا کام نہیں کر دیا حضور وہیں بیٹھے رہے۔ (شفا لقاضی عیاض باب تواضعہ)
تو اس زمانہ میں یہی مثال یہی اسوہ ٔ ہمیں آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے تو درکنا ر میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو اور لاابالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ پھر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سیر کو جارہا تھا تو ایک پٹواری میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستے میں ایک بڑہیا ۷۰،۷۵ سال کی ملی پہلے ان پٹواری صاحب کو اس نے خط پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ پھر اس بڑھیا نے وہ خط مجھے دیا تو فرماتے ہیں کہ میں اس کو لے کرٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا۔ اس پر پٹواری کو بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۸۲۔۸۳ جدید ایڈیشن)
پھر آنحضرت ﷺ کی عاجزی کی ایک اور مثال دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کس طرح عاجزانہ مناجات کرتے ہیں باوجود اس کے کہ آپ کو ہر طرح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی،باوجود اس کے کہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے پاس شیطان کا گزر نہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کس خوف اور عاجزی سے مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے۔
روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کی شام میں اس طرح دعا کی کہ:
اے اللہ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر مخفی نہیں میں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما اور ڈرا ہوااپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں- میں تجھ سے عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں ہاں تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگارکی طرح زاری کرتا ہوں ، ایک اندھے نابینے کی طرح ٹھوکروں سے خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے۔ اے اللہ تو مجھ ا پنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہر ا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔ اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا۔ (مجمع الزوائد ھیثمی مطبوعہ بیروت جلد نمبر ۳ صفحہ ۲۵۲۔ وطبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۱۷۴۔بیروت)
تو اندازہ کریں کہ ان عاجزانہ دعاؤں کا۔ کیا ہم اس سے کم عاجزانہ دعائیں مانگ کر اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طالب ہو سکتے ہیں- ہمیں تو بہت بڑھ کر اپنی عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔ اصل میں تویہ وہ طریقے ہیں یا اسلوب ہیں جو آنحضرت ﷺ نے دعا کر کے ہمیں سکھائے ہیں- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اس اسوہ ٔ حسنہ پر چل کر اسی طرح عاجزی اور انکساری اختیار کرنے والے ہوں-
پھر حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنااور میری نصرت کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا،اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنااور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان بنا دے اور مجھ پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کر اے اللہ مجھے اپنا بہت شکر کرنے والا کثرت سے ذکر کرنے والا اور بہت زیادہ ڈرنے والا بنا دے مجھے اپنا بے حد مطیع اپنی طرف انکساری کے سر تسلیم خم کرنے والا بہت نرم دل اور سچے دل سے جھکنے والا بنادے اے اللہ میری توبہ قبول کر اور میرے گناہوں کو دھو ڈال میری دعا قبول کر اور میری دلیل کو مضبوط بنا دے اور میری زبان کو بہتری بخش اور میرے دل کو ہدایت عطا کر اور میرے سینے کے کینے کو دور کردے۔ (ترمذی کتاب الدعوات)
وہ جو داعیان الی اللہ ہیں وہ بھی جب جائیں تو اس دعا کے ساتھ ان کو باہر نکلنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ اے اللہ میں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہو ں جس میں عاجزی اور انکساری نہیں اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو مقبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔ اور ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں- (مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب استحباب العفو والتواضع)
تو یہ عاجزی اور انکساری کے وہ چند نمونے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں بہت سارے بے شمار واقعات ہیں ان میں سے ہی یہ چند لئے گئے ہیں تو آپ کی زندگی کا تو لمحہ لمحہ عاجزی اور انکساری میں گزرا باوجود اس کے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کل عالم کے لئے نبی مبعوث فرمایا تھا اور آپ خاتم الانبیاء تھے۔ کوئی نبی آپ کے بعد بجز آپ کی سچی اتباع کے اور اطاعت کے آنہیں سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے نظارے آپ ہر روز دیکھتے تھے لیکن پھر بھی عاجزی کی یہ انتہا تھی جس کی چند مثالیں میں نے دیں-اب اس زمانے میں بھی دیکھیں آپ سے وفا اور غلامی کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس عاجزی کی وجہ سے جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقاسے سیکھی تھی پیارکے جلوے دکھائے اور پھر آپ نے اپنی جماعت کو ا ن اسلوب اور طریقوں کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ جماعت احمدیہ کی اجتماعی ترقی ہو یا ہر احمدی کی انفرادی ترقی ہو اس کا راز اب عاجزی دکھانے میں اور عاجز رہنے میں ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا ہے کہ’’ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں ‘‘۔ (الہام ۱۸؍مارچ ۱۹۰۷ء۔ تذکرہ طبع چہار م صفحہ۷۰۵)
ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے بارہ میں فرماتے ہیں :
’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
سو اے سننے والو!ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خداکا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ (اور ہم اللہ کے فضل سے ان کو پورا ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں )۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں- یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا ‘‘۔(روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹۔۴۱۰)
آپ ؑ اپنے ایک کلام میں ،شعرو ں میں فرماتے ہیں ؎

لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
مَیں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگاہ میں بار
تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب وجوار

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
وہ عبادالرحمن جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عمر بسر کی۔ جو دن کے اوقات میں بھی احکام الٰہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ وقیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے رہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائے گا یعنی و ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پرہی ہیں-(مسنداحمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۲۰۷۔۲۰۸)۔ اس کی طرف رسول کریم ﷺنے اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایاہے کہ

اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَی السَّمَآء السَّابِعَۃِ

(کنزالعمال جلد ۲صفحہ۲۵) کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان میں جگہ دیتاہے۔ چونکہ ان لوگوں نے خدا کے لئے ھَوْن اور تَذَلُّلْ اختیار کیا ہوگا اس لئے خداتعالیٰ بھی انہیں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائے گا اور انہیں منازل قرب میں سے سب سے اونچی منزل عطا کی جائے گی۔(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۵۹۷)
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرماتے ہیں ؎

جو خاک میں ملے اسے ملتاہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

جیساکہ مَیں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس زمانے میں عاجزی اختیار کرنے کے طریقے اور سلیقے حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھائے اس لئے آپ علیہ السلام کے نسخوں پرعمل کر کے ہی ہم اس خلق کو حاصل کر سکتے ہیں-
آپ فرماتے ہیں کہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتاجب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔ اپنے آپ کو ٹٹولو، اگر بچے کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں-

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔ راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھائے۔ آنحضرت ﷺکے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸ جدید ایڈیشن)
پھر آپ فرماتے ہیں : :’’عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے۔ انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کیلئے ہی پیداکیا گیا ہے۔

مَاخَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡن (اَلذَّاریات:57)۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 232 جدید ایڈیشن)
تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ عاجزی اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو،اس کی عبادت کرو۔ تو عاجزی سمیت تمام خلق پیدا ہوتے جائیں گے انشاء اللہ۔
پھر آپ فرماتے ہیں :’’پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنا منع نہیں ہے۔ نماز کامزہ نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو اور حضورِ قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو۔ عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے۔ اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کیلئے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۳۴ جدید ایڈیشن )
جب آدمی دعا کررہا ہوسمجھ نہ آ رہی ہو تو عاجزی کس طرح پیدا ہو گی اگر مطلب نہ آرہا ہو۔ اس لئے اپنی زبان میں دعائیں کریں- اللہ تعالیٰ سے مانگیں اس کے آگے روئیں ، گڑگڑائیں-
پھر آپ فرماتے ہیں : ’’…انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں- ان میں سے ایک ہنر سَلبِ خودی کا ہوتا ہے۔ا ن میں خودی نہیں رہتی۔ وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کرلیتے ہیں- کبریائی خدا کے واسطے ہے۔ جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے‘‘۔(ملفوظات جلد ۵صفحہ ۲۱۶ جدید ایڈیشن)
پھر آپ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’انسان بیعت کنندہ کو اول انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنے خودی اور نفسانیت سے الگ ہونے پڑتاہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتاہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتاہے اسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا‘‘۔(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۱۷۳)
پھرآپ نے فرمایا:’’ میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ …ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتاہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیاہے۔ … کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دُنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو۔ اور جس قدر دُنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۲۔۴۰۳)
فرمایا:انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکار انہیں پا سکتا۔ کبیر نے سچ کہا ہے۔

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام
جے ہوتے گھر اونچ کے ملتا کہاں بھگوان

(یعنی اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگرعالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی کم ذات پر نظر کر کے شکر کرتاتھا۔)۔پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں- میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہیچ جان لے گا۔ انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب
عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۱۴۔۳۱۵ جدید ایڈیشن)
فرمایا: خداتعالیٰ کی یہ عادت ہرگزنہیں کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے۔ جو اس کی طر ف آتاہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھااور پھر و ہ نامراد رہا۔ خداتعالیٰ بندے سے یہ چاہتاہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے۔ جواس طرح جھکتاہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتاہے

مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِب

اس جگہ رزق سے مراد صرف روٹی نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کوضرورت ہے اس میں داخل ہیں- خداتعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتاہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا

مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ-

ہمارے ملک ہندوستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خداتعالیٰ سے ان کا سچا تعلق تھا…۔‘‘۔(البدر جلد ۲نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۷)
پھر فرمایا : ’’خداتعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤاور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شرکا بیج پہلے دل ہی میں پیدا ہوتاہے۔ اگر تیرادل شر سے خالی ہو تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضائ۔ ہر یک نور یا اندھیر ا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتاہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتاہے۔ سو اپنے دلوں کوہر دم ٹٹولتے رہو۔
پھر آ پ نے فرمایا : ’’اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو۔ اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو۔ اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلاتکلف وتصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ۔ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو۔ اور نہ کسی بات سے اس (کے دل) کو زخمی کرو۔ بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرلو اور جو کوئی (ملنے کے لئے) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو۔ترجمہ( عربی عبارت اعجاز المسیح) از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ۲۰۳)
خلاصہ ان باتوں کا یہ ہوا کہ تم عاجزی دکھانے والے تب شمارکئے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تب ہوگے جب تم اپنے سے نفرت کرنے والوں سے بھی محبت کرو، جب ضرورت ہوتو ان کے کام آؤ اوران کے لئے دعا کرو۔ اور پھر دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے بنو۔ غلطیوں کی وجہ سے کسی کے پیچھے نہ پڑ جاؤ۔ اور ان کی تشہیر نہ کرتے پھرو۔ کسی کی غلطی کو دیکھ کر دوسروں کو بتاتے نہ پھرو بلکہ پردہ پوشی کی بھی عاد ت ڈالو۔
پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اپنے دل کو ٹٹولتے رہو،اس کو پا ک رکھنے کی کوشش کرو، اپنا خود محاسبہ کرتے رہو۔ کسی کے لئے بھی دل میں کینہ،نفرت، بغض، حسد وغیرہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں دل میں ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دل بڑائی اور تکبر سے بھرا ہواہے اور اس میں عاجزی نہیں ہے۔ پھر کسی کو اپنی باتوں سے دکھ نہ دو اور ہر ایک کی عزت کرو۔ چاہے کوئی غریب ہو،فقیرہو، کم طاقت کا ہو یا ماتحت ہو یا ملازم ہو سب کی عزت کرو۔ پھر سلام کہنے کی عاد ت ڈالو۔ اس سے بھی معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوتی ہے اور عاجزی اور انکساری بڑھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ،اپنے اندر بھی اور دوسرے ماحول میں بھی۔ تو فرمایاکہ یہ کام تو بہت مشکل ہے اور یہ تب ہی کرسکتے ہوجب گویا کہ اپنے آپ کو مار لیا، اپنے نفس کو بالکل ختم کردیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہو۔ اس کے سامنے جھکے رہواوردعائیں کرتے رہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں عاجزی اور انکساری کے ا علیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند شعرہیں وہ مَیں پڑھتاہوں ؎

اے کرم خاک چھوڑ دے کبر وغرور کو
زیبا ہے کبر حضرت رب غیور کو
بدتر بنو ہرایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
چھوڑو غرور وکبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہوجاؤ خاک مرضیٔ مولیٰ اسی میں ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اب نئے سال کی مبارک باد کی بہت ساری فیکسیں آ رہی ہیں- جواب تو ان کو جائیں گے تو وقت لگے گا بہرحال ان سب کو جنہوں نے نئے سال کی مبارک باد دی فیکسوں کے ذریعہ یا فون کے ذریعہ سے ان سب کو مبارک ہو۔ جنہوں نے نہیں بھجوائی ان کو بھی نیا سال مبارک ہو۔ ساری جماعت کو نیا سا ل مبارک ہو۔ اللہ کرے کہ یہ سال ہمارے لئے ہمیشہ کی طرح کامیابیاں لے کر آئے اور پہلے سے بڑھ کر کامیابیاں ہمیں دکھائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں