خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍اکتوبر 2008ء

مساجد کی تعمیر کاسب سے بڑا مقصد تو تقویٰ کا قیام ہی ہے۔ مسجد ہمیں جہاں ایک خدا کے حضور جھکنے والا بنانے والی ہوتی ہے اور بنانے والی ہونی چاہئے، وہاں خداتعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والی بھی ہونی چاہئے۔
کئی صدیاں پہلے فرانس میں مسلمان سپین کے راستے سے داخل ہوئے تھے لیکن یہاں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑالیکن مسیح محمدی کو جو پیار اور محبت اور دعاؤں کا ہتھیار دیاگیاہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہے جو دلوں کو گھائل کرنے والا ہے۔ اس دفعہ یہ حملہ دلوں کو جیتنے کے لئے ہے۔ پس اس موقع کو ضائع نہ کریں اور اپنی عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق اور تبلیغ کے معیار پہلے سے بلند کریں تاکہ سعید فطرت لوگوں کو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے جلد سے جلد لے آئیں۔
فرانس کی پہلی احمدیہ مسجد کے نہایت مبارک افتتاح کے موقع پر احباب کو اہم نصائح
دو مبلغین سلسلہ مولانا بشیر احمد صاحب قمر ؔ اورمکرم مولانا عبدالرشید رازی صاحب کی وفات پرمرحومین کا ذکر خیر
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 10؍اکتوبر 2008ء بمطابق10؍اخاء 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک۔ پیرس (فرانس)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰبَنِیٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰ تِکُمْ وَرِیْشًا۔ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (سورۃ الاعراف 27)

الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فرانس کو بھی پہلی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد مزید مسجدوں کے لئے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہو۔ ملکی قوانین بھی راہ میں حائل نہ ہوں اور احباب جماعت کے اندر بھی مساجد کی تعمیر کے لئے قربانیوں کا شوق مزید بڑھے۔ اور تعمیر کے لئے صرف شوق ہی نہیں بلکہ وہ روح بھی پیدا ہو جس سے وہ مساجد کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس مسجد کی تعمیر نے یقینا افراد جماعت کو یہ سبق دیا ہو گا کہ اگر ارادہ پختہ ہو اور لگن سچی ہو تو وقت آنے پر خداتعالیٰ اپنے فضل سے تمام روکیں دُور فرما دیتا ہے۔ یہ جگہ جہاں اب یہ خوبصورت مسجد تعمیر کی گئی ہے گو میناروں وغیرہ کی اونچائی کے بارہ میں کونسل نے علاقہ کے لوگوں کے شور مچانے پر بعض یہاں پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں لیکن کم از کم اس جگہ مسجد کے نام کے ساتھ ہمیں ایک پراپر (Proper) مسجد بنانے کی، باقاعدہ مسجد بنانے کی اجازت تو ملی اور موجودہ ضرورت کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں کو نمازیں ادا کرنے کے لئے، جمعہ پڑھنے کے لئے جگہ میسر آگئی۔ آج تو باہر سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں اس لئے جگہ چھوٹی نظر آرہی ہے۔ فرانس کی جماعت کے لحاظ سے، اس علاقہ کی جماعت کے لحاظ سے مسجد کی یہ جگہ کافی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ میناروں کی اونچائی کا مسئلہ بھی آہستہ آہستہ حل ہو جائے گا۔ اس جگہ پر جیسا کہ آپ جانتے ہیں پہلے ایک عارضی ہال تھا جس میں نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ علاقہ کے لوگوں کے اکثر اعتراض بھی آتے رہتے تھے یہاں تک کہ ایک وقت میں وہی ہمارے مہربان میئر صاحب جو اس وقت بھی یہاں ابھی آئے ہوئے تھے وہ بھی ایک دن غصّہ میں بھرے ہوئے آئے اور یہاں نمازوں پر پابندیاں لگانے کی، اس ہال کو گرانے کی دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے ان لوگوں کے دلوں کو اپنے فضل سے بدلا تو انہی لوگوں نے باقاعدہ مسجد کی اجازت بھی دے دی۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ یہی میئر صاحب جو ایک زمانہ میں جماعت کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے ایک جلسہ پر یہاں تشریف لائے۔ مَیں یہیں تھا تو بڑے ادب احترام سے سٹیج پر بھی جوتے اتار کر آئے، بڑے احترام سے مجھے ملے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کا دل نرم کیا اور وہی شخص جو ہمیں نمازوں سے روکتے ہوئے ہمارے اُس عارضی ہال کو گرانے کے درپے تھا ہمیں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کے لئے نہ صرف اجازت دینے کے لئے تیار ہو گیا بلکہ راستے کی روکوں کو دور کرنے کے لئے خود ہمارا مدد گاربن گیا اور ابھی تک یہ ہماری مدد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کا سینہ مزید کھولے کہ وہ احمدیت کے پیغام کو، اسلام کے پیغام کو بھی سمجھنے والے بنیں۔
پس یہ جو اللہ تعالیٰ جماعت پر فضل فرماتا ہے اور اپنے بیشمار انعامات سے نوازتا ہے اور ہم جو مانگ رہے ہوتے ہیں اس سے بہت بڑھ کر دیتا ہے،

یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِنَ السَّمَآء

کے الفاظ کہہ کر جب تسلی دیتا ہے تو صرف اپنوں کو ہی مددگار نہیں بناتا بلکہ غیروں کے دلوں میں بھی ڈالتا ہے کہ وہ اس کے بندوں کے معین و مددگار بن جائیں۔ یہ باتیں ہمیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئیں اور شکر گزاری کا اظہار ہم کس طرح کر سکتے ہیں ؟ اس کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ ہو۔ مسجد کی زینت اور خوبصورتی کا خیال پہلے سے بڑھ کر رکھنے والے ہوں تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں کیونکہ مساجد کی تعمیر کاسب سے بڑا مقصد تو تقویٰ کا قیام ہی ہے۔ مسجد ہمیں جہاں ایک خدا کے حضور جھکنے والا بنانے والی ہوتی ہے اور بنانے والی ہونی چاہئے، وہاں خداتعالیٰ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والی بھی ہونی چاہئے۔ پس یہ ایک بہت بڑا مقصد ہے جو ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شکر گزاری تبھی ممکن ہے جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت پہلے سے بڑھ کر کرنے والے ہوں گے۔ اس کے گھر میں جب جائیں تو تمام دنیاوی سوچیں اور خیالات باہررکھ کر جانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ خدا کا گھر ہے اور جب ہم اس کے گھر اس لئے جا رہے ہیں کہ وہی ایک خدا ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے اور خالق ہے، وہ رب العالمین ہے۔ ہماری زندگی، ہمارے پیاروں کی زندگی عطا کرنے والا وہی ہے، ہماری ضروریات زندگی کو پورا کرنے والا وہی ہے تو پھر اس کے حضور حاضر ہوتے ہوئے کسی دوسری چیز کا ہمیں خیال نہیں آئے گا۔ جب ہماری یہ سوچ ہو گی، جب تک ہمارے اندر یہ سوچ قائم رہے گی ہر قسم کے مخفی شرکوں سے بھی اتنے عرصہ کے لئے ہم بچے رہیں گے۔
آج کل دنیا کے دھندے اور فکریں انسان کی سوچیں اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہیں اور نماز پڑھتے پڑھتے بھی سوچیں اس طرف نہیں ہوتیں اور اپنی سوچوں میں غائب انسان الفاظ تو دوہرا رہا ہوتا ہے لیکن اس کو سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ کیا کر رہا ہے۔ سلام پھیرتا ہے اور نماز سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اس زمانہ کے امام کو مان کر جب ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو پہلی بات تو یہ کہ جمعہ کے جمعہ نہیں بلکہ سوائے اشد مجبوری کے نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو نے کی کوشش کریں۔ مسجد میں آئیں تو صرف اور صرف اس کی طرف توجہ ہو اور پھر یہ کہ جیسا کہ مَیں نے کہا اپنی عبادتوں اور مسجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔
اور وہ حق کس طرح ادا ہو گا اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘’خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)

’‘یعنی ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ’’جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتااور رات دن دنیا کے حصول کی فکرمیں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ’’انسان کے دل میں خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدرشے ہو جاوے گا‘‘۔
فرمایا:’’پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجا لاتا ہے مگر دل خداکی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی‘‘۔ فرمایا: ’’اب دیکھو ہزاروں مساجد ہیں مگر سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ222۔ جدید ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد اور تنبیہ دل کو ہلا دیتا ہے کہ آپ ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ ہماری اصلاح کے لئے اور خداتعالیٰ سے ہمارا تعلق جوڑنے کے لئے کس درد سے ہمیں سمجھاتے ہیں۔ ہمیں خداتعالیٰ کے نزدیک قابل قدر شے بنانے کے لئے آپ میں کس قدر بے چینی پائی جاتی ہے۔ پس ایسی عبادتوں کا حصول ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے تبھی ہم اپنی عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن سکتے ہیں اور مساجد کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بھی بن سکتے ہیں۔ ورنہ مسجدیں تو دوسرے بھی بنا رہے ہیں، بعض مسجدیں خوبصورتی کے لحاظ سے اتنی خوبصورت ہیں کہ ہماری مساجد ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن کیونکہ وہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے باہررہ کر بنائی گئی ہیں اس لئے ظاہری خوبصورتی تو ان میں بیشک ہے لیکن جو اصل خوبصورتی جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے ان میں پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ مسجد بنانے والوں نے خداتعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے زمانے کے امام کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ اس کی مخالفت میں بھی بڑھ گئے۔ اُس مسیح و مہدی کو نہیں مانا جس کے آنے کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دی تھی۔
پس اب جبکہ ہم نے یہاں اپنی مسجد بنا لی ہے جو گو اتنی بڑی نہیں لیکن پھر بھی جیسا کہ مَیں نے کہا فی الحال یہاں کی ضرورت کے لئے کافی ہے۔ اب اس مسجد کے بن جانے کے ساتھ احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ مسلموں اور غیر مسلموں سب کی توجہ اب اس مسجد کی وجہ سے آپ کی طرف پھرے گی۔ بلکہ کل امیر صاحب نے مجھے یہاں چھپنے والا ایک رسالہ دکھایا جس کی بڑی سرکولیشن ہے جس نے مسجد کے حوالے سے ہمارا تعارف شائع کیا ہے۔ اس سے جہاں جماعت کا تعارف دوسروں تک پہنچے گا وہاں حاسدوں کے حسد بھی بھڑکیں گے اور دونوں باتوں کے لئے یعنی تعارف کی وجہ سے تبلیغ کے مواقع پیدا ہونے اور اس کے بہترین نتائج ظاہر ہونے کے لئے بھی اور حسد کی وجہ سے دشمنیاں پیدا ہونی ہیں۔ ان دشمنیوں کے پیدا ہونے پر نقصان سے بچنے کے لئے بہترین ذریعہ دُعا ہے۔ عبادتوں کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے اس سے تضرع اور عاجزی سے اس کی مدد مانگنا ہے۔ دلوں کو کھولنے والا بھی خدا تعالیٰ ہی ہے اور حاسدوں کے حسد سے بچانے والا بھی خداتعالیٰ ہی ہے۔ پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ کو دو بلکہ تین طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے۔ ایک تو عبادتوں کو پہلے سے بڑھ کر بجا لانے کی اور سجانے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لئے خالص ہو کر خداتعالیٰ کے گھر میں آکر پانچ وقت اپنی نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ جب نمازوں کی طرف بلایا جائے تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے لبّیک کہنا ہے کہ حقیقی فلاح نمازوں سے ہی ملتی ہے نہ کہ دنیاوی دھندوں سے۔ پس ان مغربی ملکوں میں رہنے والے عام طور پر اور فرانس کے اس شہر میں یا اس کے قریب رہتے ہوئے خاص طور پر جس کے بارہ میں مشہور ہے کہ دنیاوی رنگینیوں اور چکا چوند کا شہر ہے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنانا یقینا خداتعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والا بنائے گا۔ پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنی عبادتوں کے بھی نئے معیار قائم کریں۔
دوسرا چیلنج تبلیغ کا ہے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی مواقع پر بتا چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی جگہ فرمایا ہے کہ جہاں اسلام کو متعارف کرانا ہو، جہاں ایک مرکز کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہو۔ وہاں مسجد بنا دو، اس سے تعارف پیدا ہوتا ہے اور تبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
اور جیسا کہ مَیں نے بیان کیا، ابھی باقاعدہ اس مسجد کا افتتاح نہیں ہوا کہ رسالہ میں جماعت اور مسجد کا تعارف بھی شائع ہو گیا۔ پس یہ ابتداء ہے، انشاء اللہ تعالیٰ تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے اور جب یہ راستے کھلیں گے تو پھر لوگوں کی نظریں آپ پر ہوں گی۔ پس اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرانس کی جماعت کی تبلیغ کی مساعی اچھی ہے، کتنے فیصد لوگ شامل ہیں مجھے نہیں پتہ لیکن بہرحال اچھے نتائج ہوتے ہیں، لیکن بعض طبقوں اور قوموں تک محدود ہیں جس میں عرب مسلمان زیادہ ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے اور عربوں کا پہلا حق بنتا ہے کہ ان تک آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی آمد کا پیغام پہنچایا جائے۔ کیونکہ یہ ان لوگوں کا ہی ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچا کر ہمیں اس خوش قسمت اُمّت میں شامل ہونے کا سامان بہم پہنچایا، جس نے ہماری دنیا بھی سنواری اور اخروی اور دائمی زندگی کے راستے بھی دکھائے۔ پس اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ تمام عرب تک آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کا پیغام پہنچانا ہمارا اولین فرض ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس زمانہ میں یہ عظیم مشن مسیح موعود اور مہدی موعود کا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے دنیا کو اکٹھا کریں۔ پس یہ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ جس کو خداتعالیٰ ہدایت دینا چاہے گا جس کی فطرت نیک ہو گی اس کے آپ ﷺ کی غلامی میں آنے کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے گا۔
پس پیغام پہنچانا اور پھر دعا کرنا یہ ہمارا اہم کام ہے۔ کیونکہ د عاؤں کا ہتھیار ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سب سے کار آمد ہتھیار ہے اور یہی ہتھیار آپ کو دیا گیا ہے اس لئے کبھی اپنے علم اور اپنی تبلیغ پر بھی انحصار نہ کریں۔ پھل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی لگتے ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دعائیں انتہائی ضروری چیز ہیں اس لئے کبھی دعاؤں کو نہ بھولیں۔
اور پھر تیسرا چیلنج، جب دنیا کی نظر آپ پر پڑے گی تو اپنے اعمال پر بھی ہمیں نظر رکھنی ہو گی کیونکہ جس کو تبلیغ کریں گے وہ ہمارے عمل بھی دیکھتا ہے۔ وہ یقینا ہمارا اٹھنا بیٹھنا اور رکھ رکھاؤ دیکھے گا۔ وہ ہمارے آپس کے تعلقات کو دیکھے گا۔ وہ ہمارے قول و فعل کو دیکھے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے‘‘۔ فرمایا ’’جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونے سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ مَیں اگرچہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے۔

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ(النحل:129)

یقینا اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور احسان کرنے والے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھاہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جا تا بلکہ اُس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ455۔ جدید ایڈیشن)
پس آج ہم نے اپنے اعمال پر نظر رکھ کر اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اپنے ساتھ دنیا کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو زمینی اور سماوی آفات سے بچانا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لاکر اس دنیامیں بھی تباہ ہونے سے بچانا ہے اور آخرت کی آگ سے بھی بچنے کے راستے دکھانے ہیں۔ پس اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم نے ایک مسجد بنالی۔ مومنین کا ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اسے مزید ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے اسے مزید ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ تقویٰ میں مزید ترقی کی طرف سے توجہ دلاتا ہے اور جوں جوں تقویٰ میں ترقی ہوتی جاتی ہے، ذمہ داری کا احساس بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اور نیکیوں کو بجا لانے کے لئے نئے سے نئے راستے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔
پس یہ پہلا قدم تو آپ نے اٹھا لیا کہ ایک مسجد بنا لی لیکن اس کا اصل اجر تبھی ہمیں ملے گا جب یہ احساس رہے کہ ہمارا یہ عمل محض لِلّٰہ ہے، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور اس کا حق ہم نے ادا کرنا ہے اور جب یہ احساس ہو گا تو ہمارے تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ ہماری عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں گی۔
آنحضرت ﷺ نے جب مسجد بنانے والوں کو یہ خوشخبری دی کہ مسجد بنانے والے کو ایسا ہی گھر جنت میں ملے گا تو ساتھ یہ بھی فرمایا یہ شرط لگائی کہ مسجد اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اس کا اجر ہے اور جو مسجد اللہ کے لئے ہو اس میں انسان خالص ہوکر خداتعالیٰ کے لئے عبادت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کرکے یا اس کے لئے کسی قسم کی قربانی کرکے اس میں فخرنہیں پیدا ہو جاتا بلکہ اس کا دل اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی خشیت میں مزید بڑھتا ہے اور وہ یہ دعا کررہا ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اس کی اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے وہ وہی باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہے جو خداتعالیٰ کی پسندیدہ اور خدا کے بندوں کے لئے آسانی اور خوشی پیدا کرنے والی ہو نہ کہ تکلیف میں ڈالنے والی۔
پس آج جو آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکرگزاری کا اظہارکرنا ہے یا کر رہے ہیں تو اس کا بہتر ین طریقہ یہی ہے کہ تقویٰ میں ترقی ہو اور ہماری عبادتیں اور ہمارے سب عمل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں اور یہی چیز خداتعالیٰ کو پسند ہے۔ جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں خداتعالیٰ نے اس بات کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔
خداتعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زینت کے طورپر ہے۔ کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں، بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے ان کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں۔ موسموں کی شدت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اجا گر کرتا ہے۔ لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی ہے لباس کے فیشن کو ان لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا ننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں ان کو پورا کرو۔ اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں۔ لیکن تقویٰ سے دور چلے جانے کی وجہ سے یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خداتعالیٰ کو پسند ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہاں لفظ رِیْش استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی ہیں پرندوں کے پَر جنہوں نے انہیں ڈھانک کر خوبصورت بنایا ہوتا ہے۔ وہی پرندہ جو اپنے اوپر پروں کے ساتھ خوبصورت لگ رہاہوتا ہے اس کے پَر نوچ دیں یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ پَر جھڑ جائیں تو وہ پرندہ انتہائی کراہت انگیز لگتا ہے۔
پھر اس کا مطلب لباس بھی ہے اور خوبصورت لباس ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل خوبصورت لباس کی تعریف ننگا لباس کی جانے لگ گئی ہے اور اس میں مردوں کا زیادہ قصور ہے کہ انہوں نے عورت کو اس کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے اور عورتیں بھی اپنی حیا اور تقدس کو بھول گئی ہیں اور ہماری بعض مسلمان عورتیں بھی اور احمدی بھی اِکّا دُکّا متاثر ہو جاتی ہیں۔ پردے اور حجاب جب اترتے ہیں تو اس کے بعدپھر اگلے قدم ننگے لباسوں میں آجاتے ہیں۔ پس اپنے تقدس کو ہر عورت کو قائم رکھنا چاہئے۔ کل ہی مجھ سے ایک نئے احمدی دوست نے سوال کیا کہ اس معاشرے میں جہاں ہم رہ رہے ہیں بہت ساری برائیاں بھی ہیں ننگے لباس بھی ہیں تو ہم کس طرح اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ تو مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ بچپن سے ہی بچوں میں اپنی ذات کا تقدس پیدا کریں انہیں احساس ہو کہ وہ کون ہیں۔ خداتعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟ اور پھر بڑی عمر سے ہی نہیں بلکہ پانچ چھ سال کی عمر سے ہی انہیں لباس کے بارے میں بتائیں کہ تمہارے ارد گرد معاشرے میں جو چاہے لباس ہو لیکن تمہارے لباس اس لئے دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں کہ تم احمدی ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو وہی لباس پسند ہے جن سے ننگ ڈھکا ہو۔ ان کے اندر کی نیک فطرت کو ابھاریں کہ انہوں نے ہر کام خداتعالیٰ کی خاطر کرنا ہے۔ تو آہستہ آہستہ بڑے ہونے تک ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ اور راسخ ہو جائے گی۔
اسی طرح رِیْش کا مطلب دولت بھی ہے اور زندگی گزارنے کے وسائل بھی ہیں۔ یہاں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے بھی تقویٰ ضروری ہے، زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کے لئے کوئی غلط کام نہیں کرنا، غلط ذریعہ سے دولت نہیں کمانی۔ ناجائز کاروبار نہیں کرنا، حکومت کا ٹیکس چوری نہیں کرنا۔ اس طرح کی دولت سے تم اگر چوری کرتے ہو تو ظاہراًتو شاید عارضی طور پر خوبصورت گھر بنا لو لیکن تقویٰ سے دُور چلے جاؤ گے۔ اس لئے خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکنے کے لئے اور تمہاری زینت کے لئے جو جائز اسباب تمہارے لئے میسر کئے ہیں۔ ان کو استعمال میں لانا ضروری ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھو کہ لباس تقویٰ ہی اصل چیزہے۔ اس کی طرف اگر تمہاری نظر رہے گی تو ظاہری لباس، رکھ رکھاؤ اور زینت کے لئے بھی تم اس طرح عمل کرو گے جس طرح خداتعالیٰ کا حکم ہے اور جس طرح تمہارے باپ آدم نے اپنے آپ کو ڈھانکنے کی کوشش کی تھی جب شیطان نے اسے بہکایا تھا۔ پس آدم کی اولاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت اور تقویٰ ہر وقت پیش نظر رہے گا اور استغفار اور توبہ اور دعاؤں سے اس کی حفاظت کی کوشش کرتے رہو گے تو دنیا میں جو بے انتہا لغویات ہیں ان سے بھی بچ کر رہو گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچہ

لِبَاسُ التَّقْوٰی

قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ 210)۔ یعنی گہرے سے گہرے مطلب باریک مطلب کو تلاش کرے اور پھر عمل کرنے کی کوشش کرے‘‘۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے‘‘۔
پس یہ کم از کم معیار ہے جو ہمارا ہونا چاہئے کہ تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے کہ ہماری زینت ظاہری لباسوں، دولت کو جمع کرنے یا اعلیٰ گھر بنانے اور ان کو صرف سجانے میں نہیں ہے بلکہ اصل زینت جو روحانی زینت ہے۔ اس لباس سے ہے جو تقویٰ کا لباس ہے اور یہی ایک احمدی کامطمح نظر ہونا چاہئے۔ اور یہ لباسِ تقویٰ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اللہ سے کئے گئے عہد کا پوراحق ادا کرتے ہوئے اور بندوں کے حقوق بھی صحیح طرح ادا کرو‘‘۔
ایک احمدی کے لئے یہ حق ادا کرنے کا کیا طریق ہے، اس کے لئے ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائط بیعت کی صورت میں لائحہ عمل رکھ دیا ہے۔ ہم نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ ہم ان شرائط کے پابند رہنے کی حتی الوسع کوشش بھی کرتے رہیں گے۔ تو اس پہ پھر کوشش کرنی چاہئے۔ پہلی شرط مختصراً مَیں بتا دیتا ہوں۔ یہ کہ کسی بھی حال میں شرک نہیں کرنا۔ اب شرک ظاہری بھی ہے اور مخفی بھی ہے۔ روزمرہ کی بہت سی مصروفیات میں ہمیں خداتعالیٰ کی عبادت سے غافل کر دیتی ہیں۔ لیکن ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری اصل زینت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہے۔ ہمارا حقیقی مفاد اس میں ہے کہ ہم ان مخفی شرکوں سے بچیں جو آئے دن ہمارے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پھر دوسری شرط میں تمام وہ برائیاں آگئیں جو انسان کو روز مرہ کے معاملات میں پیش آتی رہتی ہیں اور ایک مومن کا ان سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ یعنی جھوٹ ہے، بدنظری ہے، زناہے۔ اب زنا صرف یہی نہیں کہ ضرور عملی طورپر زنا کیاجائے، گندے خیالات کا ذہن میں باربار آنا اور ان سے ذہنی حظ اٹھانا بھی ایک زنا کی قسم ہے۔ پھر فسق و فجور ہے۔ ہر ایسی حرکت جس سے معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلے فسق و فجور میں شامل ہیں۔ ظلم ہے، خیانت ہے، فساد ہے، بغاوت ہے، چاہے وہ حکومتی نظام کے خلاف ہو، چاہے جماعتی نظام سے متعلق باتیں کی جائیں۔ اس کے علاوہ غلط باتوں کے لئے بھی جب بھی نفس کسی بھی انسان کو ابھارے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم بچیں گے۔
پھر تیسری شرط میں پانچ وقت کی نمازیں ہیں۔ اللہ اور رسول اکے حکم کے مطابق ان کو ادا کرنا ہے اور اب مسجد کی تعمیر کے بعد تو خاص طورپر آپ کو اس بات کی یاددہانی ہوتی رہنی چاہئے اور پھر تقویٰ میں بڑھنے کے لئے صرف فرض نمازیں ہی نہیں۔ فرمایا کہ تہجد پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہو، آنحضرت ﷺ کی طرف درود بھیجنے کی طرف بھی توجہ رہے کیونکہ ہماری دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے وسیلہ آنحضرت ﷺ کی ذات کو بنایا ہے اگر درُود نہیں تو دعائیں بھی بے فائدہ ہیں اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہماری تبلیغ بھی کامیابی کی منزلیں طے کرے گی۔ یہ درُود ہی ہے جو ہماری روحانی حالتوں کو ترقی کی طرف لے جائے گا۔ پھر استغفار میں باقاعدگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر اس کی حمد اور تعریف ہے۔
چوتھی شرط یہ کہ عام طور پر تمام انسانوں، اللہ کے تمام بنی نو ع انسان اور خاص طور پر مسلمانوں کو نفسانی جوشوں سے، جوش، غصے، اور غضب سے تکلیف نہیں پہنچانی۔ اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو تمام ذاتی رنجشیں دور ہو جائیں اور یہ دنیا بھی جنت نذیر بن جائے۔
پھر پانچویں شرط یہ کہ ہر حال میں خداتعالیٰ سے وفا کا تعلق رکھنا ہے۔ جو کچھ حالات ہو جائیں اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں چھوڑنا۔
چھٹی شرط یہ کہ تمام دنیاوی خواہشات کو ختم کرکے وہی عمل کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔
ساتویں بات یہ کہ تکبر اورخود پسندی کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے۔ عاجزی اور دوسروں سے ہمیشہ نرمی اور خوش خلقی سے پیش آنا ہے۔
پھر ایک عہد یہ ہم نے کیا ہے کہ اسلام اور اسلام کی عزت اپنی جان، اپنے مال، اپنی اولاد سے زیادہ کریں گے۔
اور نویں بات یہ کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو گی۔
اور آخری بات یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کامل اطاعت کا تعلق ہو گا اور اس کے ساتھ محبت بھی ایسی ہو گی کہ کسی دوسرے رشتے میں وہ محبت نہ ہو۔
اور پھر اب آپ کے بعد یہ عہد خلافت احمدیہ کے ساتھ بھی ہے۔ ہمیں نبھانا ہو گا کہ ہر معروف فیصلہ جو خلیفۂ وقت دے گا وہ مانوں گا۔ اور جب خلافت پر یقین ہے کہ یہ خداتعالیٰ کا انعام ہے تو خلافت کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق اور معروف فیصلہ ہی ہو گا۔
پس مَیں نے مختصراً یہ ذکر کیا ہے اس عہد کا جو تقویٰ کی شرط ہے اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے ضروری ہے اور اس عہد کی تکمیل کرتے ہوئے جب ہم عبادت کے لئے مسجدوں میں جائیں گے جیسا کہ خداتعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے۔ کہ

یٰبَنِیٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ َ (سورۃ الاعراف: 32)

کہ اے ابنائے آدم ہر مسجد میں اپنی زینت کے یعنی لباس تقویٰ کے ساتھ جایا کرو۔ اپنی زینت سے مراد تو یہی لباس تقویٰ ہے، جیسا کہ مَیں نے ترجمہ میں پڑھاہے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اگر ہم ان شرائط پر غور کریں جو بیعت کی ہیں۔ جن کا خلاصہ مَیں نے ابھی بیان کیا ہے اور جس پر پابندی کا ہم عہد کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے جب ہم خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے، جھکیں گے اور جھکنے کے لئے مسجدوں میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے بنیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو۔ جب تک خوف الٰہی کی حالت نہ ہو تو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔ کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ۔ جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچا لئے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔ انسان اپنی چالاکیوں، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہرگز نہیں بچ سکتا‘‘۔ فرمایا’’یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہیں ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کی دو قسم ہیں ایک علم کے متعلق اور دوسرا عمل کے متعلق‘‘۔ فرمایا’’علوم دین نہیں آتے اور حقائق و معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو‘‘۔ پس اپنی عبادتوں کی قبولیت کے لئے ہمیں تقویٰ پر قدم مارنا ہو گا۔ فرمایا اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو۔ پس اپنی عبادتوں کی قبولیت کے لئے ہمیں تقویٰ پر قدم مارنا ہو گا اور تقویٰ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد اور امانتوں کو جب ہم پورا کریں گے۔ تب ہمارے اندر پیدا ہو گا اور بندوں سے کئے گئے عہد اور امانتیں بھی ہم نے پوری کرنی اور لوٹانی ہیں۔ تب ہم تقویٰ پر صحیح قدم مارنے والے ہوں گے۔ تب ہم ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جو خداتعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اپنی مسجدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے اور مسجدوں کے حق ادا کرنے میں خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچانا بھی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی فرمایا کہ اس کے ذریعہ سے تبلیغ کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام برکات کا مورد بنائے جو اس مسجد سے وابستہ ہیں۔ نیکیوں اور اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے والے ہوں۔ عہدیدار بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے۔ عاجزی، انکساری، پیار اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے والے ہوں اور افراد جماعت بھی نظام جماعت کو سمجھتے ہوئے اطاعت کا نمونہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ پرانے احمدیوں کا بھی خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق بڑھائے اور نئے آنے والے جن میں سے کافی تعداد میں کل میرے ساتھ اجتماعی ملاقات میں شامل تھے جن کے چہروں، باتوں اور عمل سے خلافت کے لئے وفا، اخلاص، پیار، گہرا تعلق اور اطاعت اور محبت پھوٹی پڑ رہی تھی اللہ تعالیٰ ان کے اس تعلق کو بھی مزید بڑھاتا چلا جائے۔ احمدیت کے لئے وہ مفید وجود بننے والے ہوں۔ تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں۔
مجھے آنے سے پہلے ماجد صاحب (عبدالماجد طاہر صاحب) نے بتایا کہ 28دسمبر 1984ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ فرانس کے دوران اپنے اس کشفی نظارے کا پہلی د فعہ ذکر کیا تھا جس میں گھڑی پر دس کے ہندسے کو چمکتے دیکھا تھا اور آپ کے ذہن میں اس کے ساتھ آیا تھا کہ یہ Friday the 10th کی تاریخ ہے۔ وقت نہیں ہے۔ تو آج بھی اتفاق سے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ Friday the 10th ہے اور فرانس کی پہلی مسجد کا افتتاح ہو رہا ہے۔ خدا کرے کہ وہ برکات جو Friday the 10th کے ساتھ وابستہ ہیں، جن کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کو بھی خوشخبری دی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ ایک بات کو کئی رنگ میں پورا فرماتا ہے اور کئی طریقوں سے ظاہر فرماتا ہے اللہ کرے کہ وہ اس مسجد کے ساتھ بھی وابستہ ہوں اور یہ مسجد جماعت کی ترقی کے لئے اس ملک میں ایک سنگ میل ثابت ہو۔
کئی صدیاں پہلے جو ہم تاریخ دیکھتے ہیں تو فرانس میں مسلمان سپین کے راستے داخل ہوئے تھے لیکن یہاں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور دنیاداری بھی آچکی تھی اور سرحدوں کے قریب کے علاقے سے ہی انہیں پسپا ہونا پڑا کیونکہ اس وقت دنیاداری بھی غالب آرہی تھی روحانیت کم ہو رہی تھی، لیکن مسیح محمدی کو جو پیار اور محبت اور دعاؤں کا ہتھیار دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا کار گر ہتھیار ہے جو دلوں کو گھائل کرنے والا ہے جس کو کبھی پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ زخم ایسا ہے جو زندگی بخشتا ہے۔ پس یہاں کے احمدی اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں کہ آپ مسیح محمدی کے غلاموں میں سے ہیں۔ اس دفعہ یہ حملہ جو دلوں کو جیتنے کے لئے ہے، باہر سے اندر کی طرف نہیں ہو رہا بلکہ فرانس کے مرکز سے تمام ملک میں کرنے کے اللہ تعالیٰ نے سامان آپ کو بہم پہنچائے ہیں۔ پس اس موقع کو ضائع نہ کریں اور اپنی عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق اور تبلیغ کے معیار پہلے سے بہت بلند کر دیں تاکہ سعید فطرت لوگوں کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے جلد سے جلد لے آئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:
دو وفاتوں کی افسوسناک اطلاع ہے جن کے جنازے ابھی مَیں جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا۔ ایک تو ہیں ہمارے مولانا بشیر احمدصاحب قمرؔ جو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظر تعلیم القرآن و وقف عارضی تھے۔ ان کی کل 9؍ اکتوبر کو وفات ہوئی ہے، آپ کی عمر 74 سال تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اور آخروقت تک اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی، کچھ عرصہ پہلے یا چند دن پہلے ان کو انفیکشن ہوا۔ اس کے بعد نمونیہ ہو گیا تھا جو وفات کی وجہ بنا۔ آپ نے 1950ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی۔ 1958ء میں شاہد کا امتحان پاس کیا اور پھر پاکستان میں، غانا میں، فجی میں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کو 1999ء میں ناظر تعلیم القرآن مقرر کیا گیا تھا۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے، بہت سادہ مزاج تھے، افریقہ میں میرے ساتھ بھی رہے ہیں، مَیں نے دیکھا کہ افریقن لوگوں کے ساتھ بڑا پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ بڑے انتھک محنتی اور اکیلے رہے اور کوئی شکوہ نہیں اور خود ہی کھانا پکا بھی لیتے تھے، مختصر سی خوراک، بڑے دعا گو، نیک اور متقی انسان تھے۔ وفات سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھے اپنی صحت کے بارہ میں مختصر خط لکھا بڑے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں اور ساتھ لکھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک، مددگار اورتعاون کرنے والے لوگ ہمیشہ مہیا فرماتا رہے۔ بڑا درد تھا، بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور بے نفس ہو کر خدمت کرنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ وہ ہمارے لندن میں جو وکیل اشاعت ہیں، نصیر احمد قمر ؔصاحب، ان کے والد تھے۔ ان کا ایک اور بیٹا ہے جو سب سے چھوٹا ہے وہ صدر انجمن احمدیہ میں کارکن ہے مظفر احمد قمرؔ۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے، ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
دوسرے بھی ہمارے واقف زندگی مبلغ مکرم عبدالرشید رازی صاحب جو 29ستمبر کو آسٹریلیا میں 76سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ بھی تحریک جدید میں اور آئیوری کوسٹ، تنزانیہ، فجی اور گھانا میں مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے۔ بڑے سادہ مزاج آدمی تھے اور تقریباً سال پہلے ہی اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیاجا کر آباد ہونے کا خیال تھا۔ ابھی ان کامعاملہ پراسس میں ہی تھا کہ وفات ہو گئی۔ ان کو اچانک ایک کینسر ڈائیگنوز (Diagnose) ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ان کی تدفین سڈنی میں ہی عمل میں آئی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں