خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 28؍مئی2004ء

ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہئے۔ پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح نازل ہوتے ہیں
جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔
زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے۔ نصاب اور شرح کے مطابق زکوٰۃ کو ادا کرنا چاہئے۔
احمدی خواتین کو زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف خاص طورپرتوجہ دینی چاہئے۔
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
28؍مئی2004ء بمقام گروس گراؤ۔ جرمنی

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْء فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (سورۃ ٰال عمران آیت نمبر93:)

جماعت کا مالی سال 30؍ جون کو ختم ہوتا ہے، اور دو تین مہینے پہلے سے ہر ملک کا جو مال کا شعبہ ہے ان کو اپنے لازمی چندہ جات کا بجٹ پورا کرنے کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اور آخری ایک مہینہ میں تو یہ فکر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور فکر کے اظہار کے خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دعا کریں بڑی فکر ہے، بجٹ میں اتنی کمی ہے، اتنی کمی ہے۔ بہرحال ان کی یہ فکر اپنی جگہ لیکن یہ بھی تسلی رہتی ہے کہ یہ الٰہی سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہماری ضرورتوں کا خوب اندازہ ہے۔ اس لئے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ان ضروریات کو پورا کرنے کے بھی اسی طرح سامان پیدا فرمائے گا جس طرح ضروریات کو بڑھا رہا ہے۔ تاہم کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نصیحت اور یاددہانی کرواتے رہو اس لئے اس حکم کے ماتحت آج کے خطبے میں مَیں اس طرف کچھ توجہ دلاؤں گا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پہ مالی قربانی کی طرف توجہ بھی دلائی ہے اور ترغیب بھی دلائی ہے اور مومن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے نہیں گھبراتے۔ اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے یہی فرمایا کہ تم نیکی کو ہرگز حاصل نہیں کر سکتے، تمہیں نیکیاں بجا لانے کی توفیق ہرگز نہیں مل سکتی جب تک تمہارے دل کی کنجوسی اور بُخل دُور نہیں ہوتا اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی مخلوق کی راہ میں وہ مال خرچ نہیں کرتے جو تمہیں بہت عزیز ہے۔،جب تک تم اپنے خرچ کے حساب کو صاف نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے حساب کو صاف نہیں رکھتے، جب تک تم اس مال میں سے جو تمہیں بہت عزیز ہے، جس سے تمہیں بڑی محبت ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور یہ مال جو ہے اپنا جب تک تم اپنے مال کو صرف اپنے پر خرچ کرنے کی سوچتے رہو گے یا سنبھال کر تجوریوں میں بند کر لو گے، ان کنجوسوں اور بخیلوں کی طرح جو اپنی آل اولاد پر بھی بعض اوقات مال خرچ نہیں کرتے اور جمع کرتے رہتے ہیں اور آخر کار اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور مال ان کے کچھ بھی کام نہیں آتا۔ فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ جو تم خرچ کرتے ہو اور جتنا تم بجٹ لکھواتے ہو اور جتنی تمہاری آمد ہے یہ سب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اس لئے اس سے معاملہ ہمیشہ صاف رکھو۔ نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ سے حاصل کرنے کے لئے اپنی تشخیص بھی صحیح کرواؤ اور ادائیگیاں بھی صحیح رکھو تاکہ تمہاری روحانی حالت بھی بہتر ہو اور تم نیکیوں میں ترقی کرسکو۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:
’’ پھر روحانی طور پر اس انفاق کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ دین میں مضبوط ہوتا جاتا ہے اسی وجہ سے میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بار ہا کہا ہے۔ کہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اور نیکیوں میں حصہ نہ لے سکے اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ مال خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہو گی اور اس کی جرأت اور دلیری بڑھے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۱۲)
ایک حدیث میں آتا ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃباب قول اللہ فاما من اعطی واتقی…)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جو خرچ کرنے والے سخی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اخراجات کم کریں اور اپنے معیار قربانی کو بڑھائیں اور عموماً کم آمدنی والے لوگ قربانی کے یہ معیار حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں- میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ اندازے سے بجٹ لکھوا دیتے ہیں خاص طور پر ہماری جماعت میں زمیندار طبقہ ہے ان کو صحیح طرح پتہ نہیں ہوتا اور خاص طور پر پاکستان میں زمینداری کا انحصار نہری علاقوں میں جہاں جاگیرداروں اور وڈیروں نے پانی پر مکمل طور پر قبضہ کیا ہوتا ہے اور اپنی زمینیں سیراب کر رہے ہوتے ہیں پانی کو آگے نہیں جانے دیتے اور چھوٹے زمیندار بیچارے پانی نہ ملنے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں-( آپ میں سے اکثر یہاں زمینداروں میں سے بھی آئے ہوئے ہیں خوب اندازہ ہو گا۔) تو نتیجۃً ان کی فصلیں بھی اچھی نہیں ہوتیں لیکن ایسے مخلصین بھی ہیں کیونکہ بجٹ لکھوا دیا ہوتا ہے اس لئے قرض لے کر بھی اس کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اور جب ان کو کہا جائے کہ رعایت شرح لے لو کیونکہ اگر آمد نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ اگر قرض لے کر ہم اپنی ذات پہ خرچ کر سکتے ہیں تو قرض لے کر اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کیوں نہیں کر سکتے۔ اور ان کا یہی نقطۂ نظر ہوتا ہے کہ شاید اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ فصلوں میں برکت ڈال دے۔ لیکن بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ بہرحال یہ تو ہر ایک کا اللہ تعالیٰ سے معاملہ ہے، توکّل کا معاملہ ہے، ہر ایک کا اپنا اپنامعیار ہوتا ہے اس لئے مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ قرض لے کر اپنے چندے ادا کرو۔ طاقت سے بڑھ کر بھی اپنے اوپر تکلیف وارد نہیں کرنی چاہئے، اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ لیکن جہاں تک اخراجات میں کمی کرکے اپنے اخراجات کو، ایسے اخراجات کو جن کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے جو ملتوی کئے جا سکتے ہوں ان کو ٹالا جا سکتا ہو ان کو ٹال کر اپنے چندے ضرور ادا کرنے چاہئیں، خاص طور پر موصی صاحبان کے لئے مَیں یہاں کہتا ہوں، ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے۔ اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے۔ کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے۔ پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کر سکیں- اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہو سکتیں- اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں- تو اس لئے پہلے ہی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں- اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے، 1/16حصہ، اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ ادا کرتے رہا کریں-
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جا رہا تھا۔ بادل گھرے ہوئے تھے اس نے بادل میں سے ایک آواز سنی کہ اے بادل! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر۔ وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا اور پھر پتھریلی سطح مرتفع پر بارش برسی، (کوئی چھوٹی سی پہاڑی تھی) اور پھر بارش کے نتیجہ میں پانی چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا۔ وہ شخص بھی اس نالے کے ساتھ ساتھ اس کے کنارے کنارے چلنا شروع ہو گیا اور وہ نالہ جا کے ایک باغ میں داخل ہوا، وہاں اس نے دیکھا باغ کا مالک کدال لے کر پانی ادھر ادھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے سنا تھا، ایک نظارے میں آواز اس کو آئی تھی۔ پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تم مجھ سے میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا میں نے اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگا رہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل! فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر۔ تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے کہ جس کا تجھ کو یہ بدلہ مل رہا ہے۔ باغ کے مالک نے کہا کہ اگر پوچھتے ہیں تو سنیں کہ میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، ایک تہائی اپنے اہل و عیال کے گزارے کے لئے رکھتا ہوں، اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں ‘‘۔ (مسلم کتاب الزھد۔ باب الصدقۃ فی المساکین)
آج کل بھی کئی لوگوں کا یہ طریق ہے، کئی کاروباری لوگوں نے بتایا کہ وہ روزانہ کی آمد یا ماہوار آمد میں سے جو بھی ہو چندہ نکال کر الگ رکھ دیتے ہیں یا جب بھی وہ اپنے آمد و خرچ کا حساب کرتے ہیں اور اپنے منافع کو الگ کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ چندہ بھی علیحدہ کر دیتے ہیں- بعض ماہوار خرچ کے لئے اپنے کاروبار سے رقم لیتے ہیں اس میں سے چندہ ادا کر دیتے ہیں- اور سال کے آخر میں جب آخری فائنل حساب کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اگر کوئی بچت ہو تو اس میں سے وہ چندہ ادا کر دیتے ہیں- تو اس طرح ایک تو ان پر زائد بوجھ نہیں پڑتا کہ سال کے آخر میں چندہ یا چند مہینوں بعد یہ چندہ کس طرح ادا کیا جائے۔ انسان پر ایک بوجھ ہوتا ہے۔ کیونکہ پھر اس صورت میں بڑی رقم نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسرے بقایا دار ہونے کی فکر نہیں رہتی کہ بقایادار ہوں گے تو جماعت میں بھی اور مرکز میں بھی سبکی ہو گی۔ اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے کاروبار میں بھی بے انتہاء برکت ڈالتا ہے۔ اور بعض بتاتے ہیں کہ ان کو یہ فائدہ ہے کہ بے انتہا برکتیں ہوتی ہیں کہ ان کو خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ روپیہ آ کہاں سے رہا ہے، یہ کمائی آ کہاں سے رہی ہے۔ بہرحال یہ تو اللہ تعالیٰ کے دینے کے طریقے ہیں انسان بھلا کہاں اللہ تعالیٰ کی دین تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے تم میری راہ میں خرچ کرو تو میں تمہیں سات سو گنا تک بڑھ کر دیتا ہوں بلکہ فرمایا کہ

وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآء

کہ اللہ جسے چاہے جتنا چاہے بڑھا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ میں سات سو گنا سے بھی زیادہ بڑھا کر دینے کی طاقت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پابند نہیں ہے کہ صرف سات سو گنا تک ہی بڑھائے۔ اس کے تو خزانے محدود نہیں ہیں- اس لئے ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہئے اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح نازل ہوتے ہیں، کس طرح برستے ہیں-
اب بعض لوگوں میں یہ غلط تصور ہے کہ کیونکہ قواعد میں یہ شرط ہے کہ کسی بھی عہدے کے لئے یا ویسے عام طور پر پوچھا جاتا ہے تو تب بھی کہ چھ مہینے سے زیادہ کا بقایا دار نہ ہو اس لئے ضروری ہے کہ چھ مہینے کے بعد ہی چندہ ادا کرنا ہے،بلاوجہ چھ چھ مہینے تک چندہ ادا نہیں کرتے تو یہ چھ مہینے کی جو شرط ہے صرف زمینداروں کے لئے ہے جن کی آمد کیونکہ زمیندارے پر ہے اور عموماً چھ ماہ کے بعد ہی زمیندار کو آمد ہوتی ہے۔ اس لئے یہ رعایت ان سے کی جاتی ہے۔ ماہوار کمانے والے ہوں ملازم پیشہ یا کاروباری لوگ، ان کو تو ماہوار ادائیگی کرنی چاہئے تاکہ بعد میں پھر بوجھ نہ رہے جیسا کہ میں نے کہا، بلاوجہ کی سبکی کا بھی احساس رہتا ہے۔ اور سب سے بڑا چندہ ادا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہتے ہیں- تو بہرحال اگر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پوری شرح یعنی 1/16سے چندہ عام ادا نہیں کر سکتے تو اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں- یہ ان کے لئے ہے کہ وہ کم شرح سے بھی چندہ دے سکتے ہیں لیکن بہرحال غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے اور بقایادار نہیں ہونا چاہئے۔
اور یہاں میں جو جماعتی عہدیداران ہیں، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فرد جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لئے اس کو باہر نکال کر امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے، یا مجلسوں میں بلاوجہ ذکر کرکے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے۔ رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہدیداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں- یہ نہیں ہے کہ پھر اس غریب کو جتاتے پھریں کہ تم نے رعایت لی ہوئی ہے اس لئے اس کو حقیر سمجھا جائے۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں،۔اول تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ رعایت لیتے ہیں ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اپنی رعایت کی اجازت کو ختم کروا دیں اور چندہ پوری شرح سے ادا کریں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس نظام میں شامل ہو جائیں جہاں پوری شرح پہ چندہ دیا جا سکے۔ ایسے لوگ بہت سارے ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ہر ایک شخص کا خود بھی فرض بنتا ہے کہ اپنا جائزہ لیتا رہے تاکہ جب بھی توفیق ہو اور کچھ حالات بہتر ہوں جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ دینے کی کوشش کی جائے، اللہ تعالیٰ سب کی توفیق میں اضافہ کرے۔
بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں کہ مثلاً ملازمت چھوٹ گئی یا کوئی اور وجہ بن گئی، زمینداروں کی مثال میں پہلے دے آیا ہوں، کاروباری لوگوں کے بھی کاروبار مندے ہو جاتے ہیں یا بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں کہ کاروبار کو فروخت کرنا پڑتا ہے، بیچنا پڑتا ہے، ختم کرنا پڑتا ہے۔تو گو یہ ساری باتیں انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہوتی ہیں- اس کا نتیجہ انسان بھگتتا ہے،یہ تو ایک علیحدہ مضمون ہے۔ بہرحال ایسے حالات سے بھی مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے بلکہ کچھ نہ کچھ کرتے رہناچاہئے،ہاتھ پیر مارتے رہنا چاہئے، چاہے چھوٹا موٹا کام ہی ہو، انسان کو کسی بھی کام کو ضرور کرنا چاہئے۔ کئی لوگ ایسے ملتے ہیں جو بہت زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں او رپریشانی کا شکار ہوتے ہیں، ان کو بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے۔ اور اس سے مدد مانگتے ہوئے جو بھی چھوٹا موٹا کوئی کام ملے یا کاروبار ہو اس کو دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا چاہئے۔ اور کسی کام کو بھی عار نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر اس نیت سے یہ کام شروع کریں گے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ چندے دینے ہیں پھر چندے پورے کرنے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان چھوٹے کاروباروں میں بھی بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے، بالکل معمولی کاروبار شروع کیا، وسیع ہوتا گیا اور دکانوں کے مالک ہو گئے چھابڑی لگاتے لگاتے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہوتے ہیں اگر نیت نیک ہو اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کے ارادے سے ہو۔ تو پھر وہ برکت بھی بے انتہا ڈالتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو مسعودؓ انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے (بعض دفعہ کوئی تحریک ہوتی) تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اُسے اجرت کے طور پر ایک مُد، تھوڑا سا، اناج ملتامزدوری کا، تو کہتے ہیں وہی صدقہ کر دیا کرتے تھے۔ اور کہتے ہیں اب ہم میں سے وہ لوگ جو اس طرح محنت مزدوری کرتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے ان میں سے تقریباً تمام کا یہ حال ہے کہ بعضوں کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار تک ہیں-(بخاری کتاب الاجارۃ۔ باب من اجر نفسہ لیحل علی ظہرہ ثم صدق بہ…)
تو یہ صرف پرانے قصے نہیں ہیں کہ اس زمانے میں ان صحابہؓ پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اب نہیں ہو رہا بلکہ اب بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی نیک نیتی کی وجہ سے اور محنت کی وجہ سے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں-
پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا سے بے رغبتی اور زُہد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے اور اپنے مال کو برباد کر دے(یعنی اپنے پاس مال نہ رکھے)بلکہ زُہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو۔(جامع ترمذی۔ عن ابی ذر)
مال ہو بھی تو یہ نہ سمجھو کہ مال ہمارے پاس ہے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں یا اب ہمیں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا یا اب ہم کوئی چیز بن گئے ہیں بلکہ نیت ہمیشہ نیک رہنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمیشہ جھکتے رہنا چاہئے اور جھکے رہنا چاہئے اور اسی پر توکل ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر اور ثواب ملنے والا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعہ ثوا ب سمجھو۔ اب کبھی مشکلات آتی ہیں تو پھر چیخنے چلاّنے یا مایوس ہونے کی بجائے یا خداتعالیٰ کا انکار کرنے کی بجائے (بعض لوگ اس صدمے میں نمازیں بھی پڑھنی چھوڑ دیتے ہیں ) اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس امتحان میں سے ہر ایک کو سرخرو ہو کر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تو اگر اللہ تعالیٰ کے آگے ہر انسان جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتا رہے تو دیکھتے ہیں کہ پھر وہ اللہ تعالیٰ کے کتنے بے انتہا فضلوں کا وارث بن جاتا ہے۔ جو اس دنیا میں بھی ظاہرہوتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی بلکہ آئندہ نسلوں میں بھی وہ فضل ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں- اس لئے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، کبھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اس کے حضور اور زیادہ جھکتے ہوئے اس سے مدد چاہنی چاہئے اور اس کی عبادات کو پہلے سے بڑھ کر ادا کرنا چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا۔ اپنے روپوؤں کی تھیلی کا منہ بند کرکے نہ بیٹھ جاؤ یعنی کنجوسی اور بخل سے کام نہ لو ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا( یعنی اگر کوئی روپیہ اس سے نکلے گا نہیں تو اس میں آئے گا بھی نہیں-( اس لئے) جتنی طاقت ہے( اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) دل کھول کر خرچ کرنا چاہئے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب التحریص علی الصدقۃ)
الحمدللہ کہ اس طرح دل کھول کر خرچ کرنے کے نظارے جماعت میں بے شمار نظر آتے ہیں- اب خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر میں نے سو مساجد کی تعمیر میں سستی جو عموماً جماعت میں نظر آ رہی ہے، خدام الاحمدیہ کو صرف توجہ دلائی تھی، عمومی طور پر جماعت کو بھی میں نے یہی کہنا تھا کہ اس طرف توجہ دیں- تو اگلے روز ہی خدام الاحمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال کے اپنے وعدے اور وصولی کے لئے ایک ملین یورو(Euro) کا،دوسری دنیا میں ہمارے ملکوں میں سمجھ نہیں آتی اس لئے 10لاکھ یورو (Euro)کا وعدہ کر دیا اور پہلے جبکہ یہ وعدہ ڈھائی لاکھ یورو کا تھا۔ اور ابھی جو انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تقریباً جو پہلا وعدہ تھا اتنی تواب ایک ہفتے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصولی بھی ہو چکی ہے۔ دل کھول کر چندے دینے کے اور روپوؤں کی تھیلیوں کو کھول کر رکھنے کے یہ نظارے ہمیں جماعت میں بے انتہا نظر آتے ہیں- بلکہ ایک مخلص نے تو یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین کی خریدسمیت ایک مسجد کا مکمل خرچ ادا کریں گے۔
جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے، بہت سے ایسے ہیں جو بعض اوقات اپنے اوپر بوجھ بھی ڈال کے چندے ادا کرتے ہیں- اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ کیونکہ میں آج لازمی چندہ جات کی بات کر رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ یہ جو چندہ جات ہیں ان تحریکات کی ادائیگیوں کا اثر آپ کے لازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہئے۔ وہ اپنی جگہ ادا کریں اور یہ زائد تحریکات کے وعدوں کو اپنی جگہ ادا کریں- اور پھر اللہ تعالیٰ بھی آپ پر انشاء اللہ تعالیٰ بے انتہا فضل فرمائے گا۔ کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں، اس کے دین کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے کس قدر خوشخبری فرمائی ہے۔ ہر خوف خدا رکھنے والے کو اپنی عاقبت کی عموماً فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں نہ جانے کیا سلوک ہو گا۔ تو آپؐ نے چندہ ادا کرنے والوں کو اس فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ:’’ قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہیں گے‘‘۔(مسند احمد بن حنبل )۔ یعنی کہ جو بھی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے قیامت کے دن تک اس کے سائے میں آپ رہیں گے۔ لیکن یہ بھی دوسری جگہ فرما دیا کہ انفاق سبیل اللہ دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کا پیار حاصل کرنے کی خاطر ہی قربانیوں کی توفیق دے۔
ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوٰۃ ہے۔ پھر بنک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوٰۃ ہے۔ اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے۔ اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں- لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے۔ باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے۔ اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوٰۃ ادا کیا کریں- بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہننے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو۔ اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوٰۃ ادا کر دیا کریں-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو حضرت اماں جانؓ کے بارے میں فرمایا کہ وہ باوجود اس کے کہ غرباء کو بھی زیور پہننے کے لئے دیتی تھیں لیکن پھر بھی زکوٰۃ ادا کیا کرتی تھیں-تو احمدی خواتین کو زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ اور جب عورتوں کی کوئی آمد نہیں ہوتی اور اکثر عورتوں کی آمد نہیں ہے تو ظاہر ہے پھر اس زکوٰۃ کی ادائیگی میں مردوں کو مدد کرنی ہو گی۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں جب بھی دینی ضروریات کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس زمانے میں بھی عارضی طور پر تحریک ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر خلفاء کے زمانے میں بھی تو باوجود اس کے کہ زکوٰۃ لی جاتی تھی، ان تحریکات میں صحابہ بھی حصہ لیتے تھے۔ اس لئے باوجود اس کے کہ جماعت میں چندوں کا ایک نظام جاری ہے اور جو چندے ادا کرتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو زکوٰۃ کی شرح ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک فرض ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اور نصاب اور شرح کے مطابق زکوٰۃ کو ادا کرنا چاہئے۔ اور خاص طور پر جس طرح میں نے کہا عورتیں اس طرف توجہ کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ زکوٰۃ کی رقم میں بھی کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمروؓ بن شعیب اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی، اس کی بیٹی نے سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے۔ حضورؐ نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا ان کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ! تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے؟۔ یہ سن کر اس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اتار لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے لئے ہیں، جہاں چاہیں آپ خرچ فرمائیں-(سنن ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الکفرما ھو وزکوٰۃ الحلی) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم یہ نہ دیتیں تو آگ کے کنگن پہنائے جاتے۔ اس روایت کے بعد خاص طور پر جن پر زکوٰۃ واجب ہے ا ن کو توجہ دینی چاہئے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا عورتوں پر زیادہ واجب ہوتی ہے ان کے خاوندوں کو ان کی مدد کرنی چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ سو اے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتاہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانے کی جو خداتعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل او ر ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے۔ اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حقِ خدمت ادا کرنا چاہئے۔ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری چندہ دینا چاہتا ہے وہ اس کو حقِّ واجب اور دَینِ لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضے کو خالصتاً للہ نذر مقرر کرکے اس کے ادا میں تخلّف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے‘‘۔ (یعنی کسی قسم کی سستی وغیرہ نہ ہونی چاہئے)۔’’ اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے۔ لیکن یاد رہے کہ اصل مدّعا جس پر اس سلسلے کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے (یعنی بغیر کسی روک کے چلنا چاہئے) وہ یہی انتظام ہے کہ سچے خیر خو اہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے (اپنی طاقت کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے) ایسی سہل رقم ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کرسکیں ‘‘۔ (یعنی اگر کوئی اتفاقی حادثہ نہ پیش آ جائے آمدنی میں کمی نہ ہو جائے، کاروبار میں نقصان نہ ہو جائے سوائے اس کے کہ ایسا کوئی اتفاقی حادثہ پیش آ جائے ضرور ہے،لازمی ہے کہ ماہوار چندہ ادا کیا کریں )۔ پھر فرمایا :’’ہاں جس کو اللہ جلّشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندے کے اپنی وسعت، ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے‘‘۔یعنی ماہوار چندہ ادا کرنے کے علاوہ جو بھی توفیق ہو اسے جو بھی طاقت ہے اور آمدنی ہے اس کے حساب سے پھر اگر اکٹھی رقم بھی دینی پڑے تو دی جائے۔
پھرفرمایا :’’ اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خداتعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے۔ لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا۔ تاکہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں ‘‘۔(فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۳۔۳۴)
ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی جب باقاعدہ ایک نظام قائم ہوا اور چندہ عام کی شرح 1/16اس وقت سے قائم ہے۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشاد سے استنباط کرکے یہ شرح مقرر کی تھی۔ تو بہرحال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ماہوار چندے کے علاوہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اکٹھی رقم بھی تم دے سکتے ہو اور اس کے لئے جماعت میں مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں- اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں- لیکن جیسا کہ میں نے بتایا،پہلے بھی کہا ہے کہ اس نیت سے اور اس ارادے سے ہر ادائیگی، ہر چندہ اور ہر وعدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے نہ کہ کسی بناوٹ کی وجہ سے۔ اور ہمیشہ جب بھی خرچ کریں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں ہر نئی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق دی یا فرض ماہوار چندہ کو ادا کرنے کی توفیق دی، بجٹ پورا کرنے کی توفیق دی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا تعالیٰ سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے۔ اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ار ادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا‘‘۔ یعنی جو اس نیت سے چھوڑتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ اب 1/16جو چندہ ہے جو یہ سمجھے میری آمد میں سے 15حصے تو میرے ہیں یہ 16واں حصہ خداتعالیٰ کا ہے تو آپؑ فرماتے ہیں وہ ضرور اس سے حصہ پائے گا۔’’ لیکن جو شخص مال سے محبت کرکے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا‘‘۔ یعنی ایک احمدی ہونے کے بعد پھر اگر ایسی سوچ ہو گی تو آپؑ فرماتے ہیں اس کا مال ضائع بھی ہو گا۔ ’’یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خداتعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اُس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے۔ اور میں سچ سچ کہتاہوں کہ اگر تم سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ پس ایسا نہ ہوکہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں- میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرّہ محتاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۴۹۷۔۴۹۸۔ منقول از ضمیمہ ریویو آف ریلیجنزاردو۔ ستمبر ۱۹۰۳ء)
اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترتے رہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں- اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں- اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والے بنتے رہیں- اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں