خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 13؍ اگست 2004ء

اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، لکھا کرو
جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کی تکلیف دور ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ تنگدست مقروض کو سہولت دے
(قرض اور لین دین کے بارہ میں قرآن کریم، احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت اقد س مسیح موعودؑ کے حوالہ سے ایمان افروز بیان)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
13؍ اگست2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن (یو۔ کے)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ۔ وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَایَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ۔ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا۔ فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْضَعِیْفًا اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بِالْعَدْلِ۔ وَاسْتَشْھِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ۔ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَ تٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآء اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰ ھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰ ھُمَا الْاُخْرٰی۔ وَلَا یَابَ الشُّھَدَآء اِذَا مَا دُعُوْا۔ وَلَا تَسْئَمُوْا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقْوَمُ لِلْشَّھَادَۃِ وَاَدْنٰٓیٰ اَلَّا تَرْتَابُوْٓا اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَھَا بَیْنَکُمْ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا۔ وَاَشْھِدُوْا اِذَا تَبَایَعْتُمْ وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَاشَھِیْدٌ۔ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ۔ وَاتَّقُوْااللّٰہَ۔ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْء عَلِیْمٌ (سورۃ البقرہ آیت 283)

ہماری تمدنی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ آپس کا لین دین کا معاملہ ہے۔ انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ لیکن یہی لین دین جب قرض کی صورت میں ہو تو بے انتہاء معاشرتی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں ہو جاتی ہیں، دوستوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں اور جب بڑے پیمانے پر کاروباری اداروں اور بنکوں سے قرض لئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ سب کچھ لٹنے اور ذلت و رسوائی تک نوبت آ جاتی ہے۔
تو ایک مومن کو، ایسے شخص کو جو خداتعالیٰ کا عبد کہلانے کا دعویٰ رکھتا ہے، معاشرے کی اس برائی سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور پھر طریق بھی فرما دیا کہ کس طرح لڑائی جھگڑوں اور ذلت و رسوائی کی باتوں سے بچا جا سکتا ہے، اسلام نے قرض دینے والوں کوبھی بتا دیا کہ کس طرح قرض دینے کے بعد واپس لینے کا تقاضا کرنا ہے اور لینے والوں کو بھی بتا دیا کہ تم نے کس طرح حسن ادائیگی کی طرف توجہ دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے یا اپنا مقام بلند کرنا ہے۔ قرآن کریم نے اتنی گہرائی میں جا کر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے لین دین جو قرض کی صورت میں ہو اس کا حساب رکھنے کا طریق سکھایا ہے کہ اگر نیت نیک ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فریقین کو کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ

کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی، ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں- لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ
بے اعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر دُوری پیدا ہو گی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی۔ اور ہمار ے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے۔ تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خرا ب ہوتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوں گے تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے۔ بعض دفعہ یہ لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹی رقم کا لین دین ہے اس کو کیا لکھنا ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اتنی چھوٹی سی رقم کے بارے میں لکھیں کہ اتنا قریبی تعلق ہے اور اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے تحریر لی جائے۔ یا پھر کوئی چیز استعمال کے لئے لی ہے اس کے بارے میں تحریر لی جائے مثلاً بعض دفعہ بیاہ شادیوں وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کے لئے لی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں- وہ بھی لکھ لینی چاہئیں کیونکہ ان میں بھی بعض دفعہ بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں- بعد کی بدظنیوں سے بچنے کے لئے بہترین طریق ہے کہ چھوٹی سی تحریر بنا لی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ان جھگڑوں سے بچنا ہے تو لکھا کرو۔ جیسا کہ فرمایا کہ

وَلَا تَسْئَمُوآ اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا

اِلٰٓی اَجَلِہ ٖکہ لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد پر یعنی جب تک کا معاہدہ ہے وہ بھی لکھو اور معاہدے کی تفصیل بھی لکھو، اور اس سے اکتانا نہیں چاہئے۔ یا اس کو معمولی چیز نہیں سمجھنی چاہئے۔ کیونکہ اکتانے کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کسی وقت بھی تمہارے اندر بدظنیاں پیدا کر دے گا اور بظاہر جو تم بلند حوصلگی کا مظاہرہ کر رہے ہو یا جو تم نے کیا ہے یہ تمہیں ایک وقت میں ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دے گا کہ بلند حوصلگی تو ایک طرف رہی تم ادنیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کر رہے ہو گے۔ اور اس طرح عموماً ہوتا ہے، عموماً یہ باتیں ہوتی ہیں- یعنی تصور میں باتیں نہیں میں کر رہا ایسے معاملات آتے ہیں اور کئی جگہ ایسے لین دین میں،ایسے معاملوں میں کئی لوگوں کے قضا میں، امور عامہ میں، جماعت میں یا ملکی عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اورچلے جاتے ہیں- وہی جو ایک وقت میں ہم پیالہ ہم نوالہ ہوتے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تھے، اکٹھے کھاتے تھے، پیتے تھے، بڑی پکی دوستیاں ہوتی تھیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوئے ہوتے ہیں- ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بھی تلاش کرنی پڑیں تو تلاش کر رہے ہوتے ہیں- تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جس کو اپنی مخلوق کا علم ہے کہ کس قسم کے ذہن ہیں ایسے لین دین کی تحریر لکھنے کا طریق بھی بتا دیا کہ کس طرح لکھی جائے اور کون لکھوائے۔ تو تحریر لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ڈال دی ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ

وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا-

یعنی وہ لکھوائے جس کے ذمے دوسرے کا حق ہے۔ اور لکھوانے والا اللہ، اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ لکھوائے۔ اس کی وجہ مثلاً ایک تو یہ ہے کہ جس کے ذمے قرض ہے وہ خود ہی وضاحت کرے کہ اتنا قرض میں نے لیا ہے اور اس قرض کی جو رسید بنے اس میں واپسی کی شرائط بھی اس طرح ہی لکھی جائیں جس طرح قرض لینے والے نے کہی ہیں مثلاً اگر قسطیں ہیں تو لکھا جائے کہ اتنی قسطیں ہیں- عرصہ معین ہے تو لکھا جائے کہ اتنا عرصہ ہے وغیرہ۔ تاکہ قرض لینے والا یہ نہ کہے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ اور زبردستی یا دھوکے سے بعض الفاظ گھما پھرا کر معاہدے میں ایسے لکھ دئیے گئے ہیں جو مجھ پر اثر انداز ہو رہے ہیں- تو اس سے بچنے کے لئے کہا کہ قرض لینے والا خود ہی الفاظ بنا لے اور یہ بات بھی صرف آپ کو اسلامی معاشرے میں ہی نظر آئے گی، اسلام کی تعلیم میں ہی نظر آئے گی پھر قرض دینے والے کو ثواب کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ کہ اگر وہ قرض دیتے وقت سہولت والی شرطیں منظور کر لے تو اس کو ثواب ملے گا۔ آجکل دنیا میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ قرض دینے والا، اپنی شرطیں ڈکٹیٹ کرا رہا ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیم میں قرض لینے والا اپنی شرائط پہ قرض لے رہاہے۔ اور قرض دینے والے کو یہ حکم ہے کہ تم شرائط مان لو تم کو اس کا بڑا اجر ملے گا۔ (آگے اس بارے میں کچھ حدیثوں کا ذکر کروں گا)۔
پھر یہ کہ قرض لینے والا جب اپنی شرائط پر قرض لے لے گا تو پھر پابند بھی ہو گا کہ ان کوپورا کرے۔ اس کوپھر یہ شکوہ نہیں ہو گا اور نہ ہونا چاہئے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے۔ پھر قرض خواہ کے خلاف کسی قسم کی شکایت نہیں ہو گی۔ تو یہ اسلامی معاشرے کی خوبصورتی ہے کہ ضرورت مند کے لئے ضرور ت مہیا کرنے کے ضرورت باہم پہنچانے کے سامان پیدا کئے گئے ہیں- پھر یہ کہ اگر دونوں کو لکھنا نہ آتا ہو تو اپنے واقفوں میں سے اپنے قریبیوں میں سے اپنے عزیزوں میں سے کسی کو تلاش کر لو جو لکھنا جانتا ہو تو اس سے تحریر لکھواؤ۔ اور اس بات کو اتنی اہمیت دی ہے کہ لکھنے والے کو بھی کہہ دیا کہ ایک تو انصاف سے لکھو انصاف سے تحریر بناؤ، کسی کی قرابت داری یا عزیزداری تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تحریر میں کسی فریق کی ناجائز حمایت کر دو اور پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو علم دیا ہے یعنی لکھنا سکھایا ہے تو وہ تمہیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی تحریر لکھوانے کا معاملہ تمہارے پاس آئے تو تم نے انکار نہیں کرنا۔ سارے معاشرے کو اکٹھا جوڑ دیا ہے۔ پھر یہ بھی کہ جس نے قرض لیا ہے اس بات کی طاقت نہیں رکھتا اتنا پڑھا لکھا نہیں یا ذہنی طور پر کم ہے تو اس کی کم علمی یا بیوقوفی سے فائدہ اٹھا کر کوئی قرض دینے والا اس کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اس لئے فرمایا کہ اس کا کوئی قریبی عزیز یا ولی اس کی طرف سے تحریر لکھوائے۔ یا بعض دفعہ بعض نابالغ ایسے ہوتے ہیں جن کی جائیداد ہوتی ہے ان سے بھی بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں-اس طرح بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی کو قرض کی تھوڑی سی رقم دے کر،بے وقوف بناکر، اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس سے کئی گنا سود منافع کا نام دے کر لے لیتے ہیں اس سے بھی بچانا فرض ہے۔ پھر اتنی احتیاط کی گئی ہے کہ کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب کسی قسم کی بدظنیاں پید اہو جائیں ہر کوئی اپنے مطلب کی بات کرنے لگ جائے اور جھگڑے اور رنجشیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں تو اس سے بچنے کے لئے فرمایا کہ جب یہ تحریر مکمل ہو جائے تو اس پر گواہوں سے گواہی بھی ڈلو ا لو جیسا کہ فرماتا ہے

وَاسْتَشْھِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ

یعنی اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہراؤ۔ اور پھر آگے فرمایا اگر دو مرد نہ ہوں تو دو عورتیں، ایک مرد کی جگہ دو عورتیں گواہی ڈال سکتی ہیں- دو کی شرط اس لئے رکھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسرا اس کو یاد کروا دے۔ تو یہاں ایک اور بھی مسئلہ حل ہو گیا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ تو دیکھیں کتنی تاکید کی گئی ہے اس طرح پورا طریق کا ر بتا دیا گیا ہے۔ اور پھر اسی آیت میں دو دفعہ فرمایا کہ اگر تم اس طریق کار پر عمل کرنے والے نہیں تو پھر تم تقویٰ سے بھی دور جانے والے ہو گے۔ اور یہ تقویٰ کی تلقین فریقین کو بھی کی، لکھنے والے کو بھی کی اور گواہوں کو بھی کی۔ اور آخر پر یہ بھی فرما دیا کہ شاید کسی طرح ایک دوسرے کو دھوکہ دے سکو یا حقوق دبا لو یا احسن طریق پر ادا نہ کرو، کسی طرح گواہوں پر پریشر ڈال کر دباؤ ڈال کر جس طرح آجکل اکثر ہوتا ہے اپنے مطلب کی بات کہلوا لو تو یاد رکھو کہ لوگوں کو تو شاید دھوکہ دے لو لیکن اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اسے علم ہے اصل لین دین کن شرائط پر ہوا تھا اس کے علم میں ہے اصل تحریر کیا تھی، اگر تحریر میں کوئی ردو بدل کرو گے تو وہ تمہیں ضرور پکڑے گا۔ یا گواہوں پر دباؤ ڈالو گے تو تمہیں اس کی بھی سزا ملے گی کیونکہ یہ بھی گناہ ہے۔
اس لئے ہر ایک کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے وہ کاروباری لین دین ہو یا ذاتی لین دین سوائے نقد لین دین کے کہ وہاں اجازت ہے اس کے علاوہ جس قسم کا بھی اور جب بھی کوئی ایسا لین دین ہو جس میں کچھ وقفہ پڑتا ہو، جہاں بھی ادھا ر یا قرض کی صورت بنے تو ایک تحریر ہونی چاہئے۔ آجکل بہت سے کاروبار زبانی باتوں پر ہو رہے ہوتے ہیں- اور پھر ادھار بھی چل رہے ہوتے ہیں- اور اکثر اس طرح ہوتا ہے کہ جو پارٹی شریف ہوتی ہے جس کے پاس بڑا جتھہ نہیں ہوتا (کیونکہ کاروباری لوگوں نے بہت بڑے بڑے جتھے بنائے ہوتے ہیں) تو ان کی رقمیں ماری جاتی ہیں-
تو احمدیوں کو چاہئے کہ زمانے کے رواج کو چھوڑیں- جو خدا کا حکم ہے اس کے مطابق ایسے لین دین کی کارروائی کیا کریں اور اسی میں سب کی بچت ہے۔ پھر بعض دفعہ بعض روزمرہ کی ضروریات کے لئے یا سفر کے دوران ضرورت کے پیش آنے پر کوئی شاپنگ کی اور رقم کم ہو گئی یا خرید و فروخت کی ہے اور رقم کم ہو گئی یا کوئی چیز پسند آئی تو خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی اور کسی دوست سے کسی عزیز سے کسی رشتہ دار سے قرض لے لیا، یہاں ایک چیز واضح کر دوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تھوڑی سی رقم ادھار لی تھی۔ ان کے نزدیک ادھار اور قرض میں فرق ہے، حالانکہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں- یہاں بھی بعض اوقات بعض لوگ یا دوست آتے ہیں پھر اپنے دوستوں سے رقمیں بھی لے لیتے ہیں کہ واپس جا کے ادا کردیں گے یا اگر کسی نے اپنے وہاں کسی عزیز کو رقم دینی ہو تو کہہ دیتے ہیں اتنی رقم مجھے دے دو میں پاکستان جا کے اس کو روپوں میں دے دوں گا۔ یا کسی ملک میں بھی جہاں رہتے ہوں وہاں جا کر تمہارے عزیز رشتہ دار کو وہاں کی مقامی کرنسی میں دے دوں گا۔ اور پھر بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ واپس پہنچ کے ٹال مٹول سے کام لینے لگ جاتے ہیں کہ ابھی انتظام نہیں ہوا اگلے مہینے یا دو مہینے بعد دے دوں گا۔ تو بعض دفعہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں پھر رنجشیں پیدا کرتی ہیں- بہر حال ایسی صورت میں بھی تحریر بنا لینی چاہئے اور دینے والا جس کو رقم دی گئی ہے اس سے تحریر لکھوائے کہ اتنی رقم فلاں کرنسی میں فلاں رشتہ دار کو دینی ہے۔ اس طرح کی کوئی تحریر بن سکتی ہے۔ اس طرح کریں گے تو بہت سارے جھگڑے، رنجشیں ختم ہو جائیں گی بلکہ پیدا ہی نہیں ہوں گی۔ یہاں بھی اکثر تو مہمان چلے گئے ہیں کچھ ٹھہرے بھی ہوئے ہیں جلسے پہ بھی لوگ آتے ہیں-جلسے پہ مہمان آئے ہوتے ہیں- ان سے میں یہی کہوں گا کہ وہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں یا دوستوں سے سوائے اشد مجبوری کے کسی بھی قسم کی رقم کا مطالبہ نہ کریں- قرض یا ادھار سے بچنے کی کوشش کریں، جتنا زیادہ پرہیز کریں گے اتنا ہی زیادہ بہتر ہو گا۔
ادھار کے ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ شروع میں جب ربوہ آباد ہوا ہے، چند ایک اس وقت ربوہ میں دکانیں ہوتی تھیں- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار سودا لینے کے لئے گئے، ان کے ساتھ خدمتگار تھا۔ تو میاں صاحب نے بازار سے کچھ سودا خریدا۔ جب رقم کی ادائیگی کرنے لگے تو رقم دیکھی تو پوری نہیں تھی۔ خیر جو صاحب ساتھ تھے،جو خدمتگار ساتھ تھے انہوں نے وہ رقم ادا کردی اور سامان کا بیگ اٹھا لیا۔ گھر پہنچے تو انہوں نے وہ بیگ اندر دینا چاہا تو میاں صاحب نے کہا۔ نہیں ٹھہریں، دروازے کے باہر رکیں- میں آتا ہوں- اندر گئے اور اندر سے جا کے رقم لے کر آئے اور ان کے ہاتھ پر رکھ دی اور پھر سامان کا تھیلا پکڑ لیا اور فرمایا کہ اب مجھے دے دو کیونکہ جب تک میں نے تمہیں پیسے نہیں دیئے تھے،یہ سامان میرا نہیں تھا۔ یہ تمہارا تھا اور اب پیسے میں نے ادا کردیئے ہیں، اس لئے یہ اب مجھے دے دو۔ تو ایسی مثالیں اگر معاشرے میں قائم ہونے لگ جائیں تو بہت سارے جھگڑے فساد کبھی پیدا ہی نہ ہوں- تو یہ چند باتیں تھیں جو میں نے قرض دینے والے اور قرض لینے والے کو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے، اس کے بارے میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا طریق سکھایا ہے، جس پر عمل کرکے ہم معاشرے میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہونے دیں-
اب اس ضمن میں چند باتیں اور کرنا چاہتا ہوں کہ قرض دینے والا اپنے مقروض سے کیا سلوک کرے اور جس نے قرض دینا ہے اس نے کس طرح اس کی واپسی کی فکر کرنی چاہئے تاکہ باہم محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم رہے کسی بھی قسم کے لڑائی جھگڑے اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے تو پہلے جو قرض خواہ یا قرض دینے والا ہے اس کے بارے میں کچھ کہوں گا کہ اس کو کس حد تک اپنے قرض کے مطالبے میں نرمی کرنی چاہئے، سہولت دینی چاہئے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ

وَاِنْ کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ۔ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:281)

جب کوئی تنگدست ہو تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کردو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم کچھ علم رکھتے ہو یعنی قرض خواہ کو کہا گیا ہے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ قرض دار بہت تنگدست ہو تو بہتر یہ ہے کہ یا تو اس کو سہولت دو کہ وہ آسان قسطوں پر قرض واپس کردے یا پھر اگر وہ بہت ہی زیادہ مجبور ہے اور تم اس قابل ہو کہ اس کا قرض معاف کرسکو اور تمہارے حالات ایسے ہیں کہ تمہیں کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ معاف کردو اور یاد رکھو کہ تمہیں یہ پتہ ہونا چاہئے اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو گے۔ اور اگر تم اپنے مقروض کو تنگ کرو گے سختی کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بہت سارے تم پر احسانات ہیں- تمہاری ضروریات پوری کررہا ہے۔ یہ بھی اگر اس طرح حساب لینا شروع کردے تو پھر تو تم مشکل اور مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔ اس لئے ہمیشہ نرمی کا سلوک کرو۔
ایک حدیث میں آتا ہے’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی سے قرض کی رقم لینی ہو اور وہ اس کو مقررہ میعاد گزرنے کے بعد بھی مہلت دیتا ہے تو ہر وہ دن جو مہلت کا گزرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہو گا‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ 442مطبوعہ بیروت)
تو یہ اس قرآنی حکم کی مزید تشریح ہو گئی کہ تمہاری یہ مہلت، تمہاری یہ سہولت جو تم نے اپنے مقروض بھائی کے لئے مہیا کی ہے تمہارے ثواب میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ ایک تو قرض کا ثواب کما رہے ہو، دوسرے صدقے کا ثواب کمارہے ہو۔ کیونکہ قرض دینے کا بھی ثواب ہے اور صدقے سے زیادہ کا ثواب ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسراء والی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقے کی جزادس گنا ہو گی اور قرض دینے کی جزا اٹھارہ گنا ملے گی۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! قرض صدقہ سے افضل کیوں ہے؟(تو جبرائیل نے) جواب دیا کہ سائل اس حال میں سوال کرتا ہے کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے جبکہ قرض لینے والا صرف ضرورت کے وقت ہی قرض مانگتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب القرض)۔ تو اس میں قرض لینے والوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، نصیحت ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے قرض نہ مانگیں ورنہ ان کا شمار بھی صدقہ کھانے والوں میں ہو گا۔
’’آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کی تکلیف دور ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ تنگدست مقروض کو سہولت دے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ23 مطبوعہ بیروت)
تو تنگدست مقروض بھائیوں کی ضرور مدد کرنی چاہے لیکن بعض لوگوں نے جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ قرض لینے کو بھی پیشہ بنا لیا ہے۔ کام کچھ نہیں کریں گے، مانگنے کا ذرا بہتر طریقہ یہ اختیار کرلیا کہ قرض دے دو اور اتارنے کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
حضرت ابو قتادہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ’’ ایک مسلمان پر ان کا کچھ قرض تھا تو جب یہ تقاضا کرنے جاتے تو یہ چھپ رہتا تھا،(چھپ جا تا تھا)۔ تو ایک روز گئے تو اس شخص کے لڑکے سے معلوم ہوا کہ گھر میں بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں (تو اس کو انہوں نے)آواز دے کر کہا کہ باہر نکلو مجھے معلوم ہو گیا ہے (کہ تم اندر ہو)اب چھپنا بے کار ہے اور پھر جب وہ باہر آئے تو چھپنے کی وجہ معلوم کی۔ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں بڑا تنگدست ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے اس کے ساتھ عیال دارہوں،(بچے بھی بہت ہیں، خاندان بھی بڑا ہے، تو انہوں نے)پوچھا واقعی تمہارا یہی ہے تو اس نے کہا خدا کی قسم میرا یہی حال ہے تو اس پہ ابو قتادہ آبدیدہ ہو گئے اور انہوں ے اس کو سارا قرض معاف کردیا‘‘۔ (سیر صحابہ جلد3 صفحہ200)۔ یہاں جو صورت نظر آرہی ہے اس میں دوسرے مسلمان کا شرمندگی کا پہلو نظر آرہا ہے۔ اس خیال سے کہ میں وعدے کے مطابق قرض نہیں اتار سکا کوئی صورت نظر نہیں آرہی،سامنے جاؤں گا تو باتیں بھی سنوں گا، شرمندگی بھی اٹھانی پڑے گی تو اس وجہ سے وہ چھپے رہتے تھے لیکن صحابہؓ جن کی ٹریننگ آنحضرت ﷺ سے براہ راست ہوئی تھی ان کے دل بھی نرم تھے اور وہ پہنچانتے بھی تھے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ان میں کافی فراست ہوتی تھی تو انہوں نے اس کا جائزہ لیا۔ اس سے بات کی اور پھر قرض معاف کردیا۔ یہ آجکل کے لوگ بعض لوگوں کی طرح نہیں ہیں کہ قرض بھی لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ ابھی حالات نہیں،ابھی واپس نہیں کر سکتے اور واپس کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرنے والے (سخی) آدمی پر رحم فرمائے جب وہ خریدو فروخت کرتا ہے اور جب وہ قرضے کی واپسی کا تقاضا کرتا ہے‘‘۔ (بخاری کتاب البیوع با ب السہولۃ والسماجۃ فی الشراء والبیع ومن طلب حقا فلیطلبہ فی عفاف)۔ یعنی کاروبار میں بھی ناجائز منافع لوٹ مار نہیں کرتا بلکہ مناسب منافع رکھتا ہے اور جب کسی قرضدار سے قرض واپس نہیں ہوتا اس سے نرمی کا سلوک کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی اللہ تعالی کے بندوں پر رحم کررہا ہوتا ہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے پھر رحم کا سلوک فرماتا ہے۔
پھر ایک روایت ہے ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو جنت میں داخل کیا جو خریدتے وقت اور بیچتے وقت قرض دیتے وقت اور قرض کا تقاضا کرتے وقت آسانی پیدا کرتا تھا‘‘۔ (سنن نسائی کتاب البیوع باب حسن المعاملۃ والرفق فی المطالبۃ)
پھر ایک روایت آتی ہے آپؐ نے فرمایا کہ’’ جس شخص نے تنگدست مقروض کو قرضہ کی ادائیگی میں مہلت دی یا معاف کردیا تو قیامت کے دن جب اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے عرش کے نیچے سایہ عطا فرمائے گا‘‘۔ (ترمذی کتاب البیوع ما جاء فی انظار المعسر والرفق بہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ’’ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اگر وہ کسی تنگدست شخص کو دیکھتا تو اپنے ملازموں کو کہتا اس سے صرف نظر کرو۔ شاید اللہ تعالیٰ ہم سے بھی صرف نظر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے صرف نظر فرمایا‘‘۔ (بخاری کتاب البیوع با ب من انظر موسراً)۔ پس جن کو توفیق ہو ان کو جس حد تک ممکن ہو سہولت مہیا کرنی چاہئے، بجائے لڑائی جھگڑوں اور عدالتوں کے۔
اب میں جو قرض لینے والے ہوتے ہیں ان کو کس قسم کا نمونہ دکھانا چاہئے، ان کے بارے میں کچھ بتاؤں گا کہ قرض کی واپسی کس طرح کرنی چاہئے۔ اور کتنی فکر سے اور کتنی جلدی کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں تو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کا اپنا نمونہ ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور آپؐ سے(قرض کی واپسی کا) تقاضا کیا اور شدت سے کام لیا،سختی سے بات کی تو صحابہؓ نے اس کو مارنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو صاحب حق ہے۔ (یعنی جس نے قرض لینا ہو) اس کو کہنے کا حق ہے پھر فرمایا اس کے اونٹ کی مانند اس کو اونٹ دے دو تو صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ ہے (ویسا نہیں بلکہ اس سے بہتر ہیں) تو آپؐ نے فرمایا اس کو وہی دے دو، تم میں سے بہتر وہ ہے جو(قرض کی)ادائیگی میں بہترین انداز اپنا تا ہے۔ (بخاری کتا ب الوکالۃباب الوکالۃ فی قضاء الدیوان)۔ تو قرض لینے والے بھی یاد رکھیں کہ جب قرض لیں تو اس نیت سے لیں کہ ایک تو جلد واپس کرنا ہے اور جب واپس کرنا ہے تو احسن طریق پر کوشش کر کے،اگر بڑھا کے واپس کرنا ہے تو یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ اور یہ بڑھا کر واپس دینا سود نہیں ہے بلکہ یہ احسان ہے۔ وہ شکریہ کے جذبات ہیں کہ ضرورت کے وقت کوئی شخص آپ کے کام آیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کر تا ہے۔ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ سود میں داخل نہیں ہے، وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے۔ پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ(نہ) دے دیا ہو۔ یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملے وہ سود میں داخل نہیں ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ167-166۔ جدید ایڈیشن)
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ’’ دولت مند کا(قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اگر تم میں سے کسی کو ٹال مٹول کرنے والے کا پیچھا کرنے کو کہا جائے تو چاہئے کہ وہ(اس ٹال مٹول کرنے والے کا) پیچھا کرے‘‘۔ (بخاری کتاب الحوالۃ باب الحوالۃ وھل یرجع فی الحوالۃ)۔ یعنی اس کو مجبور کر کے اس کوقرض واپس دلوائے۔ تو بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ قرض لے لیا اور واپس نہیں کرتے۔ بینکوں سے لے لیتے ہیں اور نیت یہی ہوتی ہے کہ بہت ہی کوئی پیچھے پڑے گا تو واپس کر یں گے ورنہ نہیں کریں گے۔ پاکستان وغیرہ اور ایسے ملکوں میں بڑے بڑے لوگ یہی کرتے ہیں قرض لے لیتے ہیں اور پھر سالوں ان کے پیچھے بینک پھرتے رہتے ہیں پھر جب کبھی زور چلا تو مل ملا کے معاف کروا لیا۔ اگر ایسے لوگوں کو کوئی کہے کہ صدقہ لے لو تو بڑا برا منائیں گے کہ ہمیں کہہ رہے ہو، اتنے امیر آدمی کو صدقہ لے لو، لیکن قرض جو اس طرح مارنے والے ہیں وہ صدقہ کھانے والے ہی ہیں یاقرض لینا بھی ایک قسم کا صدقہ ہی ہے،اس کو ہضم کر جاتے ہیں اور کوئی فکر نہیں ہوتی، بہرحال جماعت میں بھی بعض اوقات بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت ان کو حق دلوانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ سارے احتیاط سے کام لیں-
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’ قرض ادا کر سکنے والے کا ٹال مٹول کرنا (یعنی جس کو توفیق ہوکہ قرض ادا کر سکے اس کا پھر ٹال مٹول کرنا) اس کی آبرو اور اس کی سزا کو حلال کر دیتا ہے۔ (ابوداؤد)۔ تو ایسے لوگوں کے خلاف جماعت کے اندر جب نظام جماعت حرکت میں آتا ہے تو کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہماری خاندانی عزت سے کھیلا گیا۔ فلاں عہدیدار نے ہماری بے عزتی کی یا قضا نے ہمیں غلط سزا دی۔ تو ایسے لوگ جو صاحب استطاعت ہوں، استطاعت رکھتے ہوں اور پھر تعاون نہ کریں تو اس حدیث کی رو سے ان سے ایسا سلوک جائز ہے۔ اگر ان کی بے عزتی بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں اور جب نظام جماعت ایسا سلوک کرتا ہے تو ان کو پھر شورمچانے کا بھی کوئی حق نہیں ان کو پہلے ہوش کرنی چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے ’’جس شخص نے لوگوں سے واپس کرنے کی نیت سے مال(قرض پر) لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادائیگی کر ا دے گا۔ اور جو شخص مال کھا جانے اور تلف کر جانے کی نیت سے لے گا اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا‘‘۔ (بخاری کتاب الاستقراض واداء الدیوان۔ باب من اخذ اموال الناس یرید اداء ھا واتلافھا)۔ تو نیت نیک ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے اور اگر بری نیت ہوگی تو اس میں برکت بھی نہیں ہوگی۔ پس نیتوں کو صاف رکھنا چاہئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ بعض لوگ صرف قرض اس لئے لے لیتے ہیں کہ چلوسہولت میسر آ گئی ہے، کہیں سے لے لو واپس تو کرنا نہیں تو ایسے لوگ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتے بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد ٹھہرتے ہیں- آنحضرت ﷺ تو مقروض کے بارے میں اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ آپؐ جنازہ بھی نہیں پڑھایا کرتے تھے۔
حضرت سلمیٰ بن اَکْوَع رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا اور نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی آپؐ نے پوچھا اس کے ذمہ قرض ادا کرنا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں (پھر)پوچھا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں- آپؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر ایک اور جنازہ لایا گیا، صحابہؓ نے درخواست کی یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھیں آپؐ نے پوچھا کیا اس کے ذمے قرض ادا کرنا ہے؟ عرض کیا گیا ہاں ! (پھر) پوچھا کیا کوئی چیز اس نے ترکے میں چھوڑی ہے؟ عرض کیا تین دینار، آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا صحابہ نے عرض کیا حضور اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں آپؐ نے فرمایا کیا اس نے کوئی چیز(ترکہ میں) چھوڑی ہے۔ صحابہ نے کہا نہیں، پھر دریافت کیا کیا اس کے ذمے کوئی قرض ہے، صحابہ نے عرض کیا تین دینار ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ (یعنی آپؐ نے نہیں پڑھائی اور کہا کہ دوسرے پڑھ لیں)۔ تو ابوقتادہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس کا جنازہ پڑھا دیں- اس کا قرض میرے ذمہ ہے اس پر آنحضورؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی‘‘۔ (بخاری کتاب الحوالۃ با ب ان احال دین المیت علی رجل جاز)
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو سعیدؓ خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں (یہ آپؐ دعا کررہے تھے) ایک شخص نے عرض کی یا رسو ل اللہ! کیا قرض کا معاملہ کفر کے برابر کیا جائے گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل مسند باقی المکثرین)۔ بہت بڑا انذار ہے۔ ایک طرف تو ہم ایمان لانے کا دعویٰ کریں مومنوں میں شمار ہونے کی خواہش کریں دوسری طرف بلاوجہ قرضوں میں پھنس کر دین سے دور ہٹ رہے ہوں- قرض ادا کرنے کے معاملے میں لیت ولعل سے کام لینے والے ہوں اور کفر کی طرف بڑھ رہے ہوں- اللہ تعالیٰ سب کومحفوظ رکھے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں گناہوں اور قرض سے تیری پناہ چاہتا ہوں کسی کہنے والے نے عرض کی یا رسو ل اللہ!آ پ اللہ تعالیٰ سے قرض کے بارے میں کتنی ہی زیادہ پناہ طلب کرتے ہیں- اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک شخص جب مقروض ہو جاتا ہے تو بات کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرکے خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔ (بخاری کتاب الاستقراض واداء الدیوان باب من استعاذ من الدین)
اس سے پہلی حدیث کی بھی مزید وضاحت ہو گئی تو پھر جھوٹ اور وعدہ خلافی جب بڑھنے شروع ہوتے ہیں یہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کیلئے عدل کا حکم ہے اس لئے نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبا لوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہو گا کہ اب تو قانونی طو رپر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں، عدل کا تقاضایہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے سے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔
(فرمایا) مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں- یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد4 صفحہ607 جدید ایڈیشن)
آپؑ کا اپنا نمونہ کیا تھا۔ ایک پیش کرتا ہوں- ایک دفعہ آپؑ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے پانچ سو روپے قرض لیا تو اس کے بعد آپؑنے ان کو خط لکھا اس میں لکھا کہ باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ کیونکہ اس عاجز نے پانچ سو روپے آں محب کا قرض دینا ہے، مجھے یاد نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیا ہے اور قرضے کا ایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے۔ میرا حافظہ اچھا نہیں- یا د پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کتنے برس گز ر گئے ہوں گے۔ عمر کا کچھ اعتبار نہیں- آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے تا حتی الوسع اس کا فکر رکھ کر بتوفیق باری تعالیٰ میعاد کے اندر اندر ادا ہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہو سکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں (یعنی قسطیں مقر ر کر دوں)۔ امید ہے کہ جلدا س سے مطلع فرمائیں گے تا میں اس فکر میں لگ جاؤں کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلاؤں میں سے ایک سخت بلا ہے۔ اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے‘‘۔ (حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ۔ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے، صفحہ 762 تا 764)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکامات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہر کام میں وہ اعلیٰ نمونے قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جن کی ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ قرضوں کی لین دین کی شرائط ان احکامات کے مطابق کرنے والے ہوں اور قرضوں کی واپسی کا تقاضا بھی ہم تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے کرنے والے ہوں- اور قرضوں کے حصول کی کوشش بھی صرف اس وقت ہو جب اشد مجبوری ہو۔ اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کی بھی فکر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے ان قرضوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے جھکنے والے ہوں- ان معاشرے کے بہت سے فساد اسی لین دین کی وجہ سے ہوتے ہیں- اللہ تعالیٰ سب کو ان سے بچائے۔ اور جماعت احمدیہ کے معاشرے کو ان بکھیڑوں سے پاک رکھے۔ جب اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں گے اور کوشش بھی یہ ہوگی کہ قرضے ادا کرنے ہیں اور ان کی فکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی سامان بھی اپنے فضل سے پیدا فرمادیا کرتا ہے۔
ایک نسخہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی روایت میں ملتا ہے’’ کسی شخص نے آپؓ سے کہا کہ 25ہزار روپے کا مقروض ہو گیا ہوں تو آپؓ نے فرمایا اس کے تین علاج ہیں (بہت زیادہ)(۱) استغفار کرو،(۲) فضول خرچی چھوڑ دو۔ (سارے اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہی باتیں سامنے آتی ہیں) اور(۳) ایک پیسہ بھی ملے تو قرض خواہ کو دے دو۔ (حیات نور۔ مرتبہ مولانا عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل)۔ یعنی یہ نہیں کہ پوری رقم ملے گی کہیں سے تو قرض ادا ہوگا بلکہ جتنی کم سے کم بھی رقم ملتی ہے کوشش یہ کرو کہ قرض ادا کرنا ہے اور اس کی ادائیگی کرتے چلے جاؤ۔ تو جو بھی مقروض ہیں وہ یہ نسخہ بھی آزمائیں- بہت سوں نے اس کو آزمایا ہے، کئی روایتیں ہیں، بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو قرضے کی مشکلات سے نکالے اور اپنی رضا کی راہوں پر ہمیں چلائے۔ (آمین)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں