خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 10؍ستمبر 2004ء

ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھے۔
اپنی پوری استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ نیکیاں کرنے کی طرف توجہ دیں
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
10؍ ستمبر2004ء بمقام بیت السلام،برسلز(بلجیم)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ۔ اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللہُ جَمِیْعًا۔ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْء قَدِیْرٌ (سورۃ البقرہ آیت 149:)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک د وسرے پر سبقت لے جاؤ، تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ یقینا اللہ ہر ایک چیزپر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ نیکیوں پر قائم ہو اور نہ صرف نیکیوں پر قائم ہو بلکہ ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے۔ تو جب آپس میں ایمان لانے والوں کو نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم ہے تو پھر یہ کس طرح برداشت ہو سکتا ہے کہ غیروں کے مقابلے میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی نیکی ان کی کم ہو اور وہ دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں- کیونکہ نیکی کرنا اور نیک اعمال بجا لانا تو صرف مومن کا ہی خاصہ ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک بہترین مخلوق ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ۔ اُوْلٰئِٓکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ (البینۃ: 8)

یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے یہی ہیں وہ جوبہترین مخلوق ہیں- کیونکہ اب اسلام قبول کرکے اور ان لوگوں میں شامل ہو کر جن میں شامل ہونے کی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی تھی، حکم دیا تھا، مسیح و مہدی کو مان کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ مضبوط بندھن اور تعلق کا اگر دعویٰ کرتے ہیں تو آپ کے لئے اگر کامیابی کی کوئی راہ ہے اور آپ اگر اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر صرف اور صرف یہی راستہ ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھیں- یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر تم مسلمان ہو اور پکے مسلمان ہو تو تمہیں خوشی سے اچھلنا چاہئے، خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک راستہ دکھا دیا جو اس کی طرف لے جانے والا ہے۔ دنیامیں مختلف تنظیمیں بنتی ہیں، ایسوسی ایشنیں بنتی ہیں ان کا کوئی نہ کوئی مطمح نظر ہوتا ہے، کوئی ماٹو ہوتا ہے۔ اور کوشش کرتی ہیں کہ اس کو حاصل کریں اور پھر انفرادی طور پر بھی انسان اپنی زندگی کو ایک مقصد بناتا ہے، اس کے بارے میں سوچتا ہے اور پھر اس کے حصول کے لئے کوشش بھی ہوتی ہے۔ لیکن ان سب کا جو مقصد ہے وہ دنیا داری ہے کیونکہ کسی کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہیں ہے کہ یہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد تمہارا انجام بخیر ہو گا۔ کوئی ضمانت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم اسلام پر اسی طرح عمل کر رہے ہو جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاہے اور اس کی وضاحت اور تشریح زمانے کے امام نے کی ہے تو نہ صرف یہ نیکیاں قائم کرکے تم دنیا میں بہترین مخلوق ہو بلکہ اگلے جہان میں بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہو، فلاح پانے والے ہو۔ چنانچہ دیکھ لیں یہ تنظیمیں بظاہر جو بڑے بڑے مقاصد لے کر اٹھتی ہیں، ملکوں میں صلح کرانے کا دعویٰ لے کر اٹھتی ہیں، بظاہر نیک کام کے لئے بنی ہوتی ہیں لیکن کیونکہ یہ خداتعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی نہیں اس لئے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی تھیں کہ ہم دنیا میں نیکیوں کو پھیلائیں گے اور امن قائم کریں گے، کچھ بھی نہ کر سکیں- کیونکہ نیکی تو اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کیونکہ ان میں نہیں تھی اس لئے نیکیوں پر قائم نہ رہ سکے۔ ذاتی، ملکی اور ہر قوم کے قومی مفاد آڑے آ گئے اور دوسری جنگ عظیم کو بھی نہ روک سکے۔ اور پھر یو این او (U.N.O) بنی لیکن وہ بھی دیکھ لیں اب چند قوموں کے ہاتھوں میں ہے۔ اب پھر حالات اسی نہج پر چل رہے ہیں، غریب ملکوں کو ایک طر ح سے یرغمال بنا کر ان پر ظلم کئے جا رہے ہیں- ان کے وسائل کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی من مانی شرطیں منوائی جاتی ہیں- اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے ان کو نام نہاد امداد دی جاتی ہے۔ پھر ان کے وسائل کو اپنے ملکوں کی ترقی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور غریب ملکوں کے عوام غربت اور فاقے کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور کر رہے ہیں- اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے بندوق کی نوک پہ چپ کرایا جاتا ہے۔ اور پھر یہ دعویٰ کہ ہم دنیا میں امن قائم کر رہے ہیں اور نیکی پھیلا رہے ہیں، غریب انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، یہ سب جھوٹے دعوے اور ڈھکونسلے ہیں- یہ لوگ اس طرح کر ہی نہیں سکتے۔ آج اگر حقیقت میں نیکیاں قائم کر سکتے ہیں تو پکے اور سچے مسلمان ہی کرسکتے ہیں- اور سچے مسلمان سوائے احمدی کے کوئی نہیں- کیونکہ انہوں نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام کو مانا ہے۔
چنانچہ دیکھ لیں تمام مسلمان ممالک باوجود اس کے کہ بعض کے پاس وسائل بھی ہیں، نیکیاں نہیں کر سک رہے۔ ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھ سک رہے۔ غریب کی امیر ملک کوئی خدمت نہیں کرتے۔ ان کی ان کے دل میں کوئی فکر نہیں- اپنی امارت سے غریب بھائیوں کی، غریب ملکوں کی مدد کرنے کی بجائے خود اپنے نفس کی ہوس میں مبتلا ہیں- اور جتنے پیسے والے مسلمان ممالک ہیں ان کو دیکھ لیں یہ سوائے اپنی دولت اکٹھی کرنے کے یا غریب ملک میں جس کو اختیار مل جائے وہ اپنی ذات کے لئے دولت اکٹھی کرنے کے اور کچھ نہیں کرتا۔ نہ حقوق اللہ کی فکر ہے، نہ حقوق العباد کی فکر ہے۔ اور اگر ان میں سے کوئی اسلام کی خدمت کا دعویدار ہے بھی، اگر کوئی دعویٰ لے کر اٹھتا بھی ہے تو وہ صرف یہ سمجھتا ہے کہ تشدد سے ہی اسلام کا غلبہ ہو گا۔ اور صرف تشدد پسندی توپ، بندوق کے گولے کے علاوہ بات نہیں کرتا۔ اور یہ لوگ اسلام کے حسن کو دکھانے کی بجائے اس کی نہایت بھیانک شکل پیش کرنے والے ہیں- تو یہ لوگ تو نیکیاں قائم کرنے والے نہیں ہیں اور ہو بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ جب انہوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی نافرمانی کی اور آپؐ کے غلام صادق کو اور آپؐ کے عاشق صادق کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ اس کی مخالفت بھی کی اور اس میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور اپنے ذاتی اور دنیاوی مفاد کو دین پر مقدم رکھتے ہوئے انہیں کو ترجیح دی اور اس کے علاوہ کوئی ذہن میں خیال نہیں ہے۔ پھر یہ کہ دینی معاملے میں بھی جو تھوڑا بہت دین تھا اس میں بھی دنیا غالب آگئی۔ اور خدا کے خوف کے بجائے، خدا کے خوف سے زیادہ مُلّاں کے خوف کو دل میں جگہ دیتے ہوئے مُلّاں کے پیچھے چل پڑے تو پھر کس طرح نیکیوں میں بڑھنا ان کا مطمح نظر ہوسکتا ہے۔
آج اگر نیکیوں میں بڑھنا کسی کا مطمح نظر ہے تو صرف احمدی کا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا نیکیاں کیا ہیں جن میں بڑھنا ہے، جن میں د وسروں سے آگے نکلنا ہے۔ کیا نیکیاں دوسرے نہیں کر رہے اور آج ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کرے۔ وہ نیکیاں یہ ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہو۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کیا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگیاں یہ ہیں کہ اللہ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے اس کی عبادات بجا لائیں اور کوئی موقع اس کی عبادت کا اس کا قرب پانے کا اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر کرنے کا نہ چھوڑیں-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازوں کو جو اس کا حق ہے اس طرح ادا کرو۔ مردوں کے لئے نمازوں کا یہ حق ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جا کے باجماعت ادا کی جائیں- بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ ادا کرنی مشکل ہیں، ہر جگہ مسجد نہیں ہوتی۔ مسجد نہیں ہوتی تو کوئی نہ کوئی جگہ تو ہوتی ہے۔ مسلمان کے لئے تو ساری زمین ہی مسجد بنائی گئی ہے۔ کام کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت کام چھوڑنا بڑا مشکل کام ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ نہیں تھا کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں ملازم پیشہ کو اور کاروباری لوگوں کو کام بہت زیادہ کرنا پڑے گا اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے اس کے تو علم میں ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور سو سال کے بعد کیا ہونے والا ہے اور ہزار سال کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ اور اس کے بعد کیا ہونا ہے اور کیسا زمانہ آنا ہے لیکن اس کے باوجود فرمایا کہ نمازوں کی طرف توجہ کرو گے تو نیکیوں پر قدم مارنے والے کہلاؤ گے، نیکیوں پر چلنے والے کہلاؤ گے۔ ورنہ مسیح و مہدی کو ماننے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کے باوجود کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا ہے، نیکیاں قائم کرنے والے اور نیکیوں پر عمل کرنے والے نہیں ہو گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبڑا واضح حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔

وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَ وَاٰتُواالزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (النور:57)۔

نماز قائم کرو۔ اس کو مسجد میں جا کر ادا کرو۔ زکوٰۃ دو۔ رسول کی اطاعت کرو۔ زکوٰۃ بھی ایک قربانی ہے ایک نیکی ہے۔ رسول کی اطاعت یہی ہے کہ جو بھی احکامات دئیے وہ کرو۔ تم اس طرح یہ نیکیاں کرو گے، نمازیں وقت پہ اور با جماعت ادا کرو گے تو پھر تم پر رحم کیا جائے گا۔ ورنہ نہ تم رحم کی توقع رکھو اور نہ ہی تمہارا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ہم نیکیوں پر قائم ہیں- کیونکہ نیکی پر چلنے والے، نیکی میں بڑھنے والے اس وقت کہلاؤ گے جب وقت پر نماز ادا کر رہے ہو گے، کیونکہ وقت پر نماز ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء:104)

کہ نمازیقینا مومنوں پر وقت پر ادا کرنا فرض ہے۔ تو نیکی یہی ہے کہ ایک تو نمازیں باجماعت ادا کی جائیں، دوسرے وقت پر ادا کی جائیں- اگر دنیا کی چکا چوند، کام کی مصروفیت، پیسے کمانے کا لالچ نمازوں سے روکتا ہے تو یہ نیکی نہیں ہے۔ اس لئے اپنی فکر کرو۔
صحابہ کرامؓ نیکیوں میں بڑھنے میں کس قدر فکر کیا کرتے تھے۔ ایک حدیث سے پتہ لگتا ہے۔ کہ ایک دفعہ مالی لحاظ سے کم اور غریب صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے شکوے اورشکایت کے رنگ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح امراء بھی نمازیں پڑھتے ہیں- جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں- اسی طرح امراء بھی روزے رکھتے ہیں- جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں اسی طرح امراء بھی جہاد کرتے ہیں- مگر یا رسول اللہ! ایک زائد کام وہ کرتے ہیں- وہ صدقہ خیرات بھی دیتے ہیں جو ہم اپنی غربت اور ناداری کی وجہ سے نہیں دے سکتے۔ ہمیں کوئی ایسا طریقہ بتائیں جس پر چل کر ہم اس کمی کو پورا کر سکیں- آپؐ نے فرمایا تم ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللہ، تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ لیا کرو۔ یہ صحابہؓ بڑے خوش کہ اب ہم بھی امراء کے برابر نیکیوں میں آ جائیں گے۔ انہوں نے اس طریق پر عمل شروع کر دیامگر کچھ دنوں کے بعد امیروں کو، اس طریقہ ٔ عبادت کا بھی پتہ لگ گیا۔ اور انہوں نے بھی اسی طرح تسبیح و تحمید شروع کر دی۔ یہ صحابہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور شکایت کی کہ ان امراء نے بھی یہ طریق شروع کر دیاہے۔ اور پھر ہمارے سے آگے نکل گئے ہیں- تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نیکی کی توفیق دے رہا ہے تو میں اس کو کس طرح روک سکتا ہوں-
تو دیکھیں اس تڑپ کے ساتھ صحابہ نیکیوں میں بڑھنے کے لئے نیکی کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے کاروباری بھی تھے، بڑے پیسے والے بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم کہ’ نیکیوں میں سبقت لے جاؤ‘ اس حکم پر اس طرح ٹوٹ کر عمل کرتے تھے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی نیکیوں کی کس طرح قدر کی ہے اور انفرادی اور جماعتی دونوں طرح سے انہیں خوب نوازا۔ تو جیسا کہ اس حدیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے تحت صحابہؓ امیر ہوں یا غریب نماز، روزہ،جہاد، صدقات ہر ایک نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔
حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے تھے اور حقوق العباد بھی ادا کرنے والے تھے۔ اپنے مالوں کو بھی صدقہ و خیرات کرکے اللہ کی مخلوق کی خدمت کیا کرتے تھے۔ تو یہ نیکیوں میں بڑھنا آج ہم احمدیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنی نمازوں کو بھی قائم کرنا ہوگا، ان کو بھی سنوارنا ہو گا اور حقوق العباد بھی ادا کرنے ہوں گے۔
یہ حقوق العباد کیا ہیں ؟ اپنے رشتہ داروں سے، عزیزوں سے حسن سلوک کرنا۔ پھر ان میں سب سے پہلے اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنا، بیویوں کو خاوند کے حقوق ادا کرنا، میاں بیوی کو ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا، غرباء کی دیکھ بھال کرنا، جماعت میں بھی اس کا ایک وسیع نظام موجود ہے۔ اس کے تحت مالی قربانی کریں- اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے وسیع پیمانے پر غرباء اور بیوگان کی مدد کی جاتی ہے، یتامیٰ کی مدد کی جاتی ہے اس میں حصہ لیں- لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا۔ کاروباری شراکتوں میں بھی بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ جھگڑوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک احمدی کو تو کبھی سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ وہ دھوکے سے کسی دوسرے کا مال کھائے گا اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس لئے ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے، اس سے بچنے کے لئے خداتعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے۔ جب اس طرح توجہ سے ہر احمدی نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرے گا تبھی وہ اس دعوے میں سچا ہو سکتا ہے کہ ہم نہ صرف نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں بلکہ اس کو پھیلانے والے ہیں- اور نیکیوں کو اختیار کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے ہیں- ورنہ تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ آج کل کے دنیا داروں اور دنیاوی تنظیموں کی مثال ہو گی۔ ہمارا بھی وہی حال ہو جائے گا، خدا نہ کرے کہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں-
یہاں مجھے یاد آ گیا۔ یورپ کے ایک ملک کے بڑے منجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں، مجھے ملنے آئے کہ میں ابھی ایک ملک سے جنیوا سے یا کسی اور جگہ سے دورہ کرکے آرہا ہوں-اور ایک کمیٹی یورپین ملکوں کی بنائی گئی ہے کہ کس طرح غریب ملکوں کی مدد کی جائے اور ہم نے بڑا پلان بنایا ہے اور منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ بڑی اچھی نیکی کی بات ہے، ضرور کرنا چاہئے۔ امیر ملکوں کو غریب ملکوں کی مدد کرنی چاہئے لیکن یہ بتائیں کہ یہ ان یورپین ممالک کا پہلا منصوبہ ہے یا پہلے بھی ماضی میں اس جیسے منصوبے بن چکے ہیں- تو انہوں نے کہا ہاں ہاں ماضی میں بھی بہت منصوبے بنے ہیں- میں نے کہا مجھے پہلے یہ بتائیں کہ ماضی کے جو منصوبے ہیں، ان منصوبوں کا کیا انجام ہوا۔ کتنے ملکوں کی یا کتنے لوگوں کی آپ نے اس منصوبے کے تحت غربت ختم کی ہے۔ کیا یہ منصوبے سنجیدگی سے چلے؟ تو کہنے لگے بڑا مشکل سوال ہے۔ ان کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں- وہ بھی ہنس پڑیں کہ اب جواب دو اس کا۔ ان کی اہلیہ نے ذاتی طور پر خود، این جی او (N.G.O) بنائی ہوئی ہے اس کے ذریعہ افریقن ممالک میں جا کرمدد کرتی ہیں- بعض بڑے دور دراز علاقوں میں بھی گئی ہوئی ہیں- میں نے جا کے جب پتہ کیا تو پتہ لگا کہ وہاں وہ واقعی آتی ہیں-
تو بہرحال اگر ذاتی طور پر کوئی سنجیدگی بھی ہے تو کیونکہ ملکوں کی تنظیم کے ساتھ یہ سارا کاروبار وابستہ ہے اس لئے وہ خود کچھ نہیں کر سکتا۔ تو یہ دنیاوی تنظیمیں جو ہیں اپنے مفاد کی خاطر خدمت بھی کرتی ہیں، نہ کہ نیکی کے لئے،نہ کہ نیکی میں آگے بڑھنے کے لئے۔ جیسا کہ میں نے کہا بعض لوگ ان میں انفرادی طورپر نیک بھی ہو سکتے ہیں- لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ اور ان تنظیموں کے پروگرام بھی اس وقت تک چلتے ہیں جب تک اپنے مفاد ہوں- نہیں تو اگر مفاد نہ ہو اور خدمت کا جذبہ ہو تو ان ملکوں میں بے انتہا کھانے پینے کی چیزیں ضائع ہوتی ہیں- ان کو ضائع کرنے کی بجائے ان غریب ملکوں میں بھیجنے کا انتظام کر دیں تو بہت سوں کے پیٹ بھر سکتے ہیں- انسانیت کی بے انتہا خدمت ہو سکتی ہے۔ لیکن مقصد ان کے یہ نہیں ہیں- کیونکہ نیکیاں کرکے اللہ کی رضا تومقصد نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس کی بڑی تفسیر فرمائی ہے۔ اس میں سے کچھ خلاصہ بیان کرتا ہوں- یہ حکم جو ہے کہ

فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَاتِ

اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ درحقیقت اسلام اور دوسرے مذاہب میں جہاں اور بہت سے امتیاز ات ہیں جو اس کی فضیلت کو نمایاں طور پر ثابت کرتے ہیں وہاں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب صرف نیکی کی طرف بلاتے ہیں مگر اسلام استباق کی طرف بلاتا ہے۔ اول تو نیکی اختیار کرو اور پھر نیکیوں میں استباق کرو۔ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں استباق کا لفظ رکھا ہے جس میں بظاہر سرعت اور تیزی نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ لغت کے لحاظ سے دو آدمی اگر سست بھی چل رہے ہوں لیکن ایک دوسرے سے آگے نکل جائے تو اس نے استباق کر لیا۔ فرماتے ہیں کیونکہ یہاں ہر شخص کے لئے حکم ہے کہ وہ استباق کرے۔ اب اگر ایک شخص کوشش سے آگے بڑھے تو دوسرے کے لئے بھی حکم ہے کہ وہ بھی آگے بڑھے تو جب وہ اس سے آگے بڑھے گا تو پہلے والے کی کوشش ہو گی کہ اس سے آگے بڑھے تو ہر ایک کو کیونکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کا حکم ہے اس طرح نیکیاں کرنے کی ایک دوڑ ہوگی۔ جس طرح جو روایت بیان کی ہے اس میں آتا ہے کہ صحا بہؓ نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اور جیسا کہ روایت بیان کی گئی ہے بڑے پریشان ہوتے تھے کہ فلاں ہمارے سے آگے کیوں نکل گیا۔
پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اس تعلیم کے مطابق نیکیوں میں آگے بڑھے اور اس بڑھنے کی طرف کوشش کریں، توجہ دیں- اور اپنی پوری استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ نیکیاں کرنے کی طرف توجہ دیں- ہر ایک کی اللہ تعالیٰ نے مختلف استعدادیں رکھی ہیں- کم از کم ان کے مطابق تو ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے۔ اور پھر یہ ہے کہ ان نیکیوں میں بڑھنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد بھی کریں- ایک جب نیکیوں کے مقام پر پہنچے تو دوسرے کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کرے کیونکہ وہ بھی حکم ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ تو اس طرح نیکیوں میں بڑھنے کی دوڑ بھی لگی رہے گی۔ اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے نیکی کی جاگ بھی لگے گی۔ اس میں حسد نہیں ہو گا۔ کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہو گی بلکہ نیکی کرنے کی کوشش ہو گی۔ اس طرح جب آپ تبلیغ کریں گے اور جب نیکیاں کرنے کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور برائی کے خاتمے کی کوشش کریں گے تو فرمایا جب اس طرح کرو گے تو تم یہ نہ سمجھو کہ اگر تم نیکیاں نہیں کرو گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہیں، بلکہ ایک دن تم نے اللہ کے پاس آنا ہے اور تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کرکے اپنے پاس لے آئے گا۔ اگر تم سست ہو نیکیوں کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہو تو تمہیں ان غفلتوں کا جواب دینا ہو گا کہ تم نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہو کر نیک اعمال بجا لائیں گے۔ شرائط بیعت کی پوری پابندی کریں گے۔ لیکن عملاً تمہاری حالت ایک غافل انسان کی سی ہے۔ نہ تم نے حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ کی، نہ تم نے حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دی اور اگر تم یہ کر رہے ہو تو پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ تم فلاح پانے والے ہو گے، کامیاب ہوگے۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے اور اپنی کمزوریوں کے باوجود یہ نیکیاں کر رہے ہو گے۔ تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے تمہیں نیکیوں کی توفیق دیتا چلا جائے گا کیونکہ وہ قادر خدا ہے۔ پس اب بھی وقت ہے، نیکیاں کرنے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دیں- اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ آہستہ آہستہ نیکیوں میں آگے بڑھتے رہیں- اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی صلاحیتوں اور استعدادوں کا بھی علم ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں- وہ یہ نہیں کہتا کہ تم نے ایک ہی چھلانگ میں تمام نیکیاں حاصل کر لینی ہیں، تمام نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کر لینے ہیں- وہ کہتا ہے کہ تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ تسلسل کے ساتھ نیکیوں میں قدم بڑھاتے رہو۔ تمہارے قدم رکیں نہیں- برائیوں کو پیچھے چھوڑتے جاؤ اور نیکیوں میں بڑھتے جاؤ۔ اور پھر ہر ایک اپنے سے زیادہ نیکی کی طرف، نیک عمل کرنے والے کی طرف دیکھے۔ یہی حکم ہے اور اس سے نیکیوں میں مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے۔ لیکن وہی جیسا کہ میں نے پہلے کہا مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے۔ ایک تسلسل سے کام کرنا ہو گا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر انسان استقلال کے ساتھ قائم رہے جو حالت بطور ایک دورہ کے ہوتی ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ ایک مرض کا نشان ہوتی ہے۔ جس طرح ایک دماغی مرض والا انسان کبھی ہنسے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہے، رونے لگے تو روتا ہی چلا جاتا ہے، کھانے لگتا ہے تو کھاتا ہی رہتا ہے، اگر سوتا ہے تو سوتا ہی رہتا ہے اور جاگنے لگے تو ہفتوں اسے نیند نہیں آتی۔ ان تمام باتوں میں اُس کے ارادے کا دخل نہیں ہے۔ اور کسی فعل پر اسے سزا نہیں دی جاتی۔ اسے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس قدر روتا یا ہنستا کیوں ہے بلکہ اس کا علاج کرتے ہیں اس کا رونا رنج پر اور ہنسنا خوشی پر دلالت نہیں کرتا۔ سونا غفلت کی اور بیداری ہوشیاری کی دلیل نہیں ہوتی۔ اسی طرح روحانی حالت میں بھی انسان پر ایسے اوقات آتے ہیں جب وہ کسی بیرونی اثر یا دماغی نقص کی وجہ سے ایک خاص حالت کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر نماز پڑھنی شروع کرتا ہے تو حد ہی کر دیتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اگر اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بالکل چھوڑ چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نمازیں پڑھنا روحانی حالت کی ترقی کی وجہ سے نہ تھا۔ کیونکہ اگر خدا کے لئے وہ پڑھتا تو چھوڑ نہ دیتا۔ وہ ایک بیماری تھی، جس طرح زیادہ کھانے اور زیادہ سونے کی بیماری ہوتی ہے۔ اس طرح زیادہ نمازیں پڑھنے کی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ (خطبات محمود جلد نمبر 13 صفحہ 432) تو نیکی یہ نہیں ہے کہ کچھ وقت کے لئے کی اور بے انتہا کی اور چھوڑ دی۔ بلکہ مستقل مزاجی سے کی جائے، اس میں استقلال ہو۔ پس نیکی کرو اپنی طاقت کے مطابق کرو اور پھر اس میں بڑھتے چلے جاؤ۔ مستقل مزاجی دکھاؤ۔ بعض لوگوں کوجیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا دورہ کی طرح نیکیاں کرنے کا جنون ہوتا ہے۔ نہ بھی کوئی دماغی عارضہ ہو تب بھی ایک فیز(Phase) آتی ہے اور پھر بالکل ہی جنون میں دوسری طرف نکل جاتے ہیں- اور اگر نمازیں نہ پڑھنے کا کسی آدمی کی وجہ سے دھکا لگ جائے، کسی عہدیدار کی وجہ سے، امام الصلوٰۃ کی وجہ سے، کسی لڑائی کی وجہ سے، کسی سے کسی رنجش کی وجہ سے تو پھر اللہ کی عبادت کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں- ایسی کئی مثالیں سامنے آجاتی ہیں یا بعض لوگ ایسے بناوٹی نیک ہوتے ہیں کہ انہیں خیال آ جاتا ہے کہ ہم نے بہت نیکیاں کر لیں،اب ضرورت نہیں ہے۔ تو فرمایا کہ یہ نہیں ہے، نیکی وہ ہے جس میں بڑھتے چلے جاؤ اور مرتے دم تک نیکیاں کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ اور ان میں بڑھنے کی کوشش کرتے جاؤ۔ اسی میں تمہاری فلاح ہے، اسی میں تمہاری کامیابی ہے اور اسی سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف روایات میں مختلف نیکیوں کو ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے کہ کس طرح ان کو ادا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے اور اس میں خوشخبریاں بھی دی ہیں- چند روایات پیش کرتا ہوں-
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا گُر بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز باجماعت پڑھو، زکوٰۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو۔ (مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان الذی یدخلہ بہ الجنۃ)۔ تو پہلی شرط تو ایک مومن کے لئے یہی ہے کہ خدا کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، کام، کاروبار، ملازمت، بیوی، بچے، دنیاوی تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں روک نہ بنیں- اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں روک نہ بنیں- اور اس کے بعد سب سے اہم حکم یہ ہے کہ نماز پڑھو جیسا کہ پہلے بھی میں بتا آیا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دو۔ زکوٰۃ دو، مالی قربانی کرو تاکہ جماعتی ضروریات کا بھی خیال رکھا جا سکے اور غرباء کی بھی مدد ہو سکے۔ اس کے لئے جماعت میں چندے کا نظام بھی قائم ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے لے کر آج تک خلفاء مختلف وقتوں میں چندوں کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں- کچھ عارضی تحریکیں ہوتی تھیں، کچھ مستقل ہوتی تھیں- بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک احمدی کو ماہوار باقاعدہ بھیجنا چاہئے۔ زکوٰۃ تو ایسا چندہ ہے جو ہر ایک پر لاگو بھی نہیں ہوتا، ہر ایک کے لئے واجب بھی نہیں ہے۔ لیکن جماعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے چندوں کا نظام جماعت میں قائم ہے۔ اس طرف پوری توجہ دینی چاہئے۔ مالی قربانی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکموں میں سے ایک ہے۔ قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے

یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ

کے بعد فرمایا ہے

وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ-

مومن وہی ہیں اور نیکیاں بجا لانے کی دوڑ میں شامل وہی لوگ ہیں جو اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ یہ نہیں کہ جب مالی قربانی کا سوال اٹھے تو بہانے بنانے شروع کر دئیے کہ ہم خود ہی جماعت کی براہ راست فلاں فلاں قربانی کر رہے ہیں- کام کر رہے ہیں یا اپنے کسی عزیز کی خدمت کر رہے ہیں اس لئے ہمیں چندوں سے چھوٹ مل جانی چاہئے۔ تو یہ نیکیوں میں پیچھے رہنے والی باتیں ہیں اور نفس کے بہانے ہیں-پھر فرمایا کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو۔ ان کا خیال رکھو، ان کے جذبات کا بھی خیال رکھو، ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھو۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ وہ مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دو ر رکھے، آپؐ نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے۔ فرمایا: توُ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ نماز پڑھ،۔ باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کر،۔ رمضان کے روزے رکھ۔ اگر زادراہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر، اگر اجازت ہو، وسائل بھی ہوں اور امن بھی ہو تو حج کرو۔ پھرآپؐ نے یہ فرمایا:’ کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازے کے متعلق تجھے نہ بتاؤں-سنو روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے۔ صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی

تَتَجَافٰی جُنْوُبُھْم عَنِ الْمَضَاجِعِ (السجدہ:17)

کہ اُن کے پہلو اُن کے بستروں سے تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے الگ ہو جاتے ہیں-پھرآپؐ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا: دین کی جڑ اسلام ہے۔ اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا :کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں- میں نے عرض کیا :جی ہاں یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپؐ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس کا بھی ہم سے مؤاخذہ ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا:عربی کا محاورہ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’ تیری ماں تجھ کو گم کرے‘۔ یعنی جب کسی کو افسوس سے کچھ کہنا ہو یا تاسف سے اس وقت یہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں-(ترمذی ابواب الایمان باب فی حرمۃ الصلوٰۃ)
اس میں پہلی روایت کے علاوہ بھی چندباتوں کا ذکر ہے۔ یعنی رمضان کے روزے اور حج۔ پھر کیونکہ آپؐ میں امت کو سیدھے راستے اختیار کروانے کے لئے نیکیوں پر قائم کرنے کے لئے ایک تڑپ تھی اس لئے اور بہت سی نیکیوں کی باتیں آپؐ نے خود کھول کھول کربیان کر دیں- کہ روزہ تمہیں گناہوں سے بچائے گا صدقہ خیرات، مالی قربانی تمہیں آگ سے بچائے گی، تہجد پڑھنا بہت بڑے اجر کا باعث ہو گا، پھر اس کی چوٹی جہاد بتایا اور اس زمانے میں جہاد کیا ہے، کیونکہ تلوار کا جہاد تو حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کے بعد اب ختم ہو گیا جنگ اور قتال کو تو آپؑ نے دین کے لئے حرام قرار دے دیا۔ یہاں جہاد سے مراد اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے۔ نفس کو برائیوں سے روک کر نیکیو ں پر قائم کرنے کا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا جہاد یہاں مرادہے۔ مالی قربانیوں کا جہاد مراد ہے۔ دلائل سے دشمن کا منہ بند کرنے کا جہاد مراد ہے۔ آج دجال نے اپنی چالوں سے مسلمانوں کو اپنے دین سے لاتعلق کر دیا ہے۔ اس دجال کے خلاف اسی طرح کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے، اس سے وہ جہاد کرنا مراد ہے۔ وہ تو اپنے لٹریچر کے ذریعے سے جہاد کر رہے ہیں- تو جماعت احمدیہ بھی لٹریچر کے ذریعہ سے ہی جہاد کرتی ہے،
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جہاد مراد ہے۔ اور انہی چیزوں کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ پھر جو دین کا خلاصہ آپ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ اپنی زبان سے ہمیشہ اچھے کلمات نکالو۔ نیکی کی تعلیم دو۔ لوگوں کو کبھی اپنی زبان سے دکھ نہ دو، کبھی کسی کے جذبات کو کوئی کڑوی بات کہہ کر دکھ نہ پہنچاؤ۔ کیونکہ تمہاری باتیں ہی ہیں جو تمہیں جہنم میں لے جانے والی ہیں- بعض دفعہ مظلوم کی آہ لگ جاتی ہے۔ اور وہ ایک آہ ساری زندگی کی نیکیوں کو ختم کر دیتی ہے نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں کی زبانیں ہمیشہ پاک صاف رہتی ہیں-
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حق ہیں- سلام کا جواب دینا، بیمارہو جائے تو اس کی عیادت کرنا، فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شامل ہونا، اس کی دعوت قبول کرنا اور اگر وہ چھینک مارے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب یَرْحَمُکَ اللہ کی دعا کے ساتھ دینا۔ ایک اور روایت میں زائد بات یہ ہے کہ جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہے اور جب وہ تجھ سے خیر خواہانہ مشورہ مانگے تو خیر خواہی اور بھلائی کا مشورہ دے۔
تو یہ ہیں نیکیاں پھیلانے اور ان پر بڑھنے کے طریقے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بتائے ہیں- اگر غور کریں تو دیکھیں ان باتوں پر عمل کرکے ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو گا۔ جو صرف نیکی کرنے والا معاشرہ ہوگا، جو صرف نیکی پھیلانے والا معاشرہ ہو گا،جو صرف نیکیوں میں آگے بڑھنے والا معاشرہ ہو گا۔ جہاں ایک دوسرے کو دعائیں بھی دے رہے ہوں گے اور خیر خواہی اور بھلائی کے مشورے بھی دے رہے ہوں گے۔ نیکی میں پیچھے رہ جانے والوں کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بھی ملا رہے ہوں گے۔
پھر ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں جس نیکی میں ممتاز ہوا اسے اس نیکی کے دروازے میں جنت کے اندر آنے کے لئے کہا جائے گا۔ اسے آواز آئے گی، اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ تیرے لئے بہتر ہے۔ اسی سے اندر آؤ۔ اگر وہ نماز پڑھنے میں ممتاز ہوا تو نماز کے دروازے سے اسے بلایا جائے گا۔ اگر جہاد میں ممتاز ہوا تو جہاد کے دروازے سے۔ اگر روزے میں ممتاز ہوا تو روزے کے دروازے سے۔ اگر صدقہ میں ممتاز ہوا تو صدقے کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ حضورؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا،اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں جسے اس دروازے میں سے کسی ایک سے بلایا جائے اسے کسی اور دروازے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے آواز پڑے گی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہو۔ (بخاری کتاب الصوم باب الریان للصائمین)
تو یہ ہے اصل نیکیوں میں بڑھنے والوں کا رویہ اور خواہش کہ کاش وہ ہر دروازے سے داخل ہوں اور کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ہر قسم کی نیکی بجا لائی جائے۔ کیونکہ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم کے بھی دروازے ہیں اور بعض گناہگاروں کو جہنم کے دروازے جنت میں داخل ہونے سے روک بن سکتے ہیں- نمازیں پڑھنے والوں کے بارے میں جو آیا ہے کہ نمازیں ان پہ الٹا دی جائیں گی وہ اسی لئے ہے کہ اگر ایک نیکی کر رہے ہیں تو دوسری نیکیوں میں بھی بڑھنے کی کوشش کرنی ہے لیکن ایک نیکی انتہا تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو اس دروازے سے آواز پڑ جاتی ہے۔ تو اس لئے یہ نہیں کسی کو سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ بھی کررہا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، باقی نیکیاں نہ بھی کررہا ہو، اگر کسی کے حقوق سلب کررہا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نمازیں پڑھ لو۔ موقع کے لحاظ سے بات کی گئی ہے اور دوسری جگہوں پہ اور باتیں بھی آرہی ہیں- تو اس لئے ہر قسم کی نیکی میں بڑھنے کی اور برائیوں کو چھوڑنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اور پھر اگر کوئی کمی رہ گئی ہے پھر اللہ تعالیٰ جس میں زیادہ توجہ ہو آواز دے دے گا بلکہ اللہ کا فضل ہے بغیر اس کے بھی آواز دے سکتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ ایک ترغیب دلانے کے لئے بتایا گیا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہا :اے اللہ کے رسول! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو۔ غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں ایسی دیر نہ کر مبادا جب جان حلق تک پہنچ جائے تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا۔ وہ فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔ یعنی مرنے والے کا اختیار تو اس سے نکل گیا۔ (بخاری کتاب الزکوٰ ۃ باب فضل صدقۃالشحیح الصحیح)۔ تو وصیت کے ضمن میں بھی میں یہی کہنا چاہتا ہوں بعض لوگ جوانی میں یا اچھی عمر میں جب اچھی کمائی ہورہی ہو، مال ہو، اس وقت وصیت نہیں کرتے اور بڑھاپے کے وقت جب مرنے کا بالکل قریب وقت ہوتا ہے تووصیت کے فارم فل (Fill)کرتے ہیں اور شکوہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری وصیت منظور نہیں ہوئی تو نیکی جب کرنی ہے تو نیکی کرنے کی عمر یہی ہے کہ اچھے حالات میں نیکی کی جائے جب خیال ہو کہ مجھے اس کی ضرورت ہے تب 1/10حصہ کی قربانی کی جائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’انسان کو چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے۔ الہام کرنا اور رؤیا دکھانا یہ تو خداتعالیٰ کا فعل ہے۔ اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے اعمال کو درست کرنا چاہئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ۔ اُوْلٰئِٓکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃ (البینۃ: 8)

یہ نہیں کہا کہ جن کو کشوف اور الہامات ہوتے ہیں وہ خیرالبریہ ہیں’‘۔ (الحکم جلد نمبر 11نمبر 41مورخہ 17؍نومبر1907ء صفحہ13)۔ بلکہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے ہی خیرالبریہ ہیں-
تو فرمایا ہے کہ یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ بعض لوگوں کو چار سچی خوابیں آ جائیں تو سمجھتے ہیں ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں- نیکیوں میں آگے بڑھنے سے مراد صرف وہ شخص نہیں جس کو سچی خواب آ جائے۔ لوگ بھی ایسے لوگوں کو بعض دفعہ خراب کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو بڑی سچی خوابیں آتی ہیں اس لئے دعا کروانے کے لئے اس کے پاس جاؤ۔ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں، الہام بھی ہوتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ وہ کسی کو سچی خوابیں دکھا دے۔ تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھو، اگر سچی خوابیں آبھی گئیں تو کسی قسم کی بڑائی نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ وہ بھی مزید اللہ کی طرف جھکانے والی اور نیکیوں میں بڑھانے والی ہوں-کیونکہ آ پ نے فرمایا کہ صرف سچی خوابیں دیکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں :’’پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پرپھیل گئے۔ تو خدا نے ان کی سہولت کے تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کر دیااور ہر ایک قوم کے لئے اس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیساکہ وہ فرماتا ہے

لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا…… فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَاتِ-(المائدہ:49)

…ہر ایک قوم کے لئے ہم نے ایک مشرب اورمذہب مقرر کیاتا ہم مختلف فطرتوں کے جوہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے ظاہر کردیں- پس تم اے مسلمانو! عام بھلائیوں کو دوڑ کر لو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں’‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 146)
فرمایا کہ: چونکہ اے مسلمانوں تمہارے اندر تمام قوموں کا مجموعہ ہے اس لئے تمام قوموں کی نیکیاں بھی تمہارے اندر ہونی چاہئیں-اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو۔ پس آج ہم احمدیوں کے لئے ہی یہ حکم ہے جن میں مختلف قوموں کے نیک فطرت لوگ داخل ہو رہے ہیں اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ جو بھی ایک دوسرے کی نیکیاں ہیں وہ اپنائیں-
پھر آپ فرماتے ہیں :’’اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں، ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ، مُقْتَصِدٌ اور سَابِقٌ بِالْخَیْرَات۔ ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امّارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ وہ اس حالت سے نجات پائیں-مُقْتَصِدٌ وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں- ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں- پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی۔ مگر سَابِقٌ بِالْخَیْرَات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں- ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے۔ گویا ان کے نفس امارہ پر بالکل موت آ جاتی ہے۔ اور وہ مطمئنہ حالات میں ہوتے ہیں- ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے۔ اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں’‘۔ (الحکم جلد 9 نمبر39 مورخہ10 ؍نومبر1905ء صفحہ6-5)۔ یعنی بعض دفعہ ایسے جو اللہ تعالیٰ کے اتنے قرب میں پہنچ جاتے ہیں ان کے لئے بعض ایسی باتیں جو ایک عام آدمی کے لئے نیکی ہو وہ بھی ان کے نزدیک گناہ ہوتی ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں :’’بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ نص صریح ہے

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ-

جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہوسکتے ہو۔ کیا صحابۂ کرامؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کو حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں توپھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟۔ بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں- خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پرواہ نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ1897ء صفحہ79)۔ فرمایا کہ اگر تم نیکیاں اس لئے کر رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو تو پھر محنت کرنی پڑے گی۔ ہر قسم کی نیکی کرنی ہوگی اور اس کے لئے مستقل مزاجی کی کوشش کرنی ہو گی۔ اور پھر جب اس طرح اپنی تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نیکیاں کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر ہی ہمیشہ کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ: ـ ’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے۔ اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے لئے حصن حصین ہے‘‘۔ یعنی ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ’’ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بعض اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں’‘۔ (ایام ا لصلح۔ روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۴۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہ صرف نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں بلکہ ان نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے تقویٰ کے بھی اعلیٰ مدارج حاصل کریں- ہماراہر قول، ہر فعل، ہمارا اٹھنا بیٹھنااللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ جلسے کے ان دنوں میں جو آج سے شروع ہو چکا ہے آپ کو اس کی برکات حاصل کرنے والا بنائے۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بنائے۔ مہمان بھی اور میزبان بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے اور جس مقصد کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں یعنی نیکیوں کو سیکھنے کے لئے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لئے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں- عبادات کے بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں- اور مالی قربانیوں کے بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں-
اللہ تعالیٰ سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو آپؑ نے اپنے ماننے والوں کے لئے کی ہیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں