خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 18؍جولائی2003ء

سب مہمانوں کو واجب الاحترام جان کر ان کی مہمان نوازی کاحق ادا کریں
شرکاء جلسہ سالانہ ذکر الٰہی اور درود شریف میں وقت گزاریں اور کارکنان سے تعاون کریں
(جلسہ سالانہ برطانیہ کے حوالہ سے میزبانوں اور مہمانوں کو زریں نصائح اور ہدایات)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۱۸؍جولائی۲۰۰۳ء مطابق۱۸؍وفا ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَایَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ۔وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ الحشر :۱۰)۔

اگلے جمعہ سے انشاء اللہ یوکے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہاہے۔ گویہ یوکے کا جلسہ سالانہ ہے مگر خلیفہ ٔ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی بڑے شوق سے اس میں شمولیت کے لئے آتے ہیں-جس میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور بیمار بھی اور اپنی بیماری کے باوجود تکلیف اٹھا کر جلسہ میں شامل ہوتے ہیں-پھر مختلف ممالک کے لوگ ہیں ، مختلف نسلوں کے لو گ ہیں ،مختلف قوموں کے لوگ ہیں ،بالکل مختلف مزاجوں کے جن کا کھانا پینا، رہن سہن بھی مختلف ہوتاہے تو اس وجہ سے قدرتی طورپر میزبانوں کو فکر ہوتی ہے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے،کوئی کوتاہی نہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ کئی سالوں سے انگلستان کی جماعت کو اس مہمان نوازی کی توفیق مل رہی ہے اور اللہ کے فضل سے وہ مہمان نوازی کا حق بھی ادا کر رہے ہیں اور اب تو ماشاء اللہ اتنے تربیت یافتہ ہو چکے ہیں کہ کارکن بھی میسر آ جاتے ہیں اور کارکن بھی بڑے ذوق سے بڑے شوق سے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں- اور ابھی کچھ مہینہ پہلے ہی آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات پر ہنگامی طورپربھی تمام انتظامات کو ان کارکنوں نے خوب سنبھالا اور مہمان نوازی کی۔ لیکن جلسہ کے موقع پر میزبان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اس پر آنے والے مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں ان کو حتی المقدور آرام پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ مرکزی انتظامیہ کو یہ فکر ہوتی ہے کہ مہمانوں کی خدمت بجا لانے والے تمام کارکن کیونکہ Volunteers ہوتے ہیں اور مختلف مزاج کے ہوتے ہیں تو کسی کارکن سے کسی مہمان کے لئے کوئی زیادتی کاکلمہ منہ سے نہ نکل جائے، کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔ اس لئے عموماً یہی روایت چلی آ رہی ہے کہ کارکنوں کو توجہ دلانے کے لئے کہ کس طرح انہوں نے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے جلسہ سے ایک جمعہ پہلے اس بارہ میں کچھ ہدایات دی جاتی ہیں-لیکن اس کے ساتھ ہی میزبانوں کو بھی یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ کیونکہ یہ سارا عارضی انتظام ہوتاہے کیونکہ کارکنان بڑی محنت سے خدمت بجا لاتے ہیں لیکن اگر بعض جگہ کہیں کمی یا خامی رہ جائے تو ان کو برداشت کریں-
کارکنان کے لئے مَیں اب کچھ باتیں پیش کروں گا جس سے یہ احساس ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہم سے مہمانوں کی خدمت کے بارہ میں ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں- یہاں ایک بات کی اور وضاحت کردوں کہ جس طرح تمام کارکنان کے لئے جلسہ میں شامل ہونے والا ہر شخص مہمان کی حیثیت رکھتاہے اسی طرح انگلستان کی پوری جماعت کے لئے دوسرے ملکوں سے آنے والے سب احمدی مہمان کی حیثیت رکھتے ہیں- پس اگر ایسا کوئی موقعہ پیدا ہو کہ جہاں آپ کو قربانی دینی پڑے تو غیر ملکیوں کے لئے، جو باہر سے آنے والے مہمان ہیں ، ان کے لئے یہاں کے مقامی لوگ قربانی دیں-
ایک حدیث پیش کرتاہوں- حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺکے پاس آیا۔ آپ نے اپنی ازواج کی طرف پیغام بھجوایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو پانی کے سوا کچھ نہیں-اس پر حضور ﷺنے صحابہ ؓسے فرمایا کہ اس مہمان کے کھانے کا بندوست کون کرے گا؟ ایک انصاری نے عرض کیا حضور مَیں انتظام کرتاہوں- چنانچہ وہ اس کے ساتھ گھر گیااور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت ﷺکے مہمان کی خاطر مدارات کا انتظام کرو۔ بیوی نے جواباً کہاکہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ اس انصاری نے کہا کہ کھانا تیار کرو، پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کاوقت آئے تو ان کو بہلا کر سلادو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا ہی سلا دیا۔پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور چراغ بجھا دیا۔اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانـے کی آوازیں نکالتے اور چٹخارے لیتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہاہے۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سو رہے۔ صبح جب وہ ا نصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐنے فرمایا کہ تمہارے رات والے عمل سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنس دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں-اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں- (بخاری، کتاب المناقب)
اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس خاندان کی اتنی بڑی قربانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کراپنے پیارے نبی ﷺ کو بھی اس کی اطلاع دی۔ تو یہ ہیں وہ مہمان نوازی کے معیار جو ا سلامی معاشرہ میں نظر آنے چاہئیں-اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی معاشرہ میں نظر آتے ہیں لیکن کیونکہ یاددہانی اور نصیحت کابھی حکم ہے اس لئے یاددہانی کروائی جاتی ہے۔
اب میں چندمزید احادیث کی روشنی میں مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو ان کی ذمہ داریوں کے بارہ میں بتاؤں گا۔ حدیث ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتاہے وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتاہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتاہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (صحیح مسلم)
اس میں تین باتیں بتائی گئی ہیں-پہلی دو تو جلسے پر آنے والے مہمانوں اور میزبانوں دونوں کے لئے ہیں جبکہ تیسری صرف میزبان کے لئے ہے۔خلاصۃً بتاتاہوں- فرمایا کہ اچھی بات کہو یا خاموش رہو۔ اب مہمان بھی اگر کہیں کوتاہی دیکھیں تو نرمی سے توجہ دلادیں-کسی قسم کا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنے وسیع انتظامات ہوتے ہیں-تھوڑی بہت کمیاں رہ جاتی ہیں وہ برداشت کرنا چاہئے اور صرف نظر کرنا چاہئے۔ اور غصہ کو دبانے کا بھی ایک ثوا ب ہے۔اسی طرح کارکنان بھی اگر مہمان کا غصہ دیکھیں تو انتہائی نرمی سے معذرت کر کے تکلیف دور کرنے کی کوشش کریں لیکن یاد رکھیں کہ مہمان سے سختی سے بات نہیں کرنی۔
پھر ہے پڑوسی کی عزت۔ یہاں اس ماحول میں چند د نوں کے لئے جو بھی لوگ، مہمان آ رہے ہیں ، قیام گاہوں میں اکٹھے رہ رہے ہیں- وہ ایک دوسرے کے پڑوسی بن جاتے ہیں-تو وسیع اور عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے تمام سہولتیں جیسے کہ مَیں نے عرض کیاہے میسر نہیں آ سکتیں-تو کسی قسم کی اگر اونچ نیچ ہو جائے۔ بعض دفعہ اکٹھے جب رہ رہے ہوں تو مثلاً کھانے کے وقت میں ہی یا صبح کے وقت غسل خانے جاناہو،تھوڑی تعداد میں ٹائلٹس وغیرہ ہوتی ہیں اس وقت بھی یا اور بعض باتیں ہوتی ہیں ایسی تو اگر اونچ نیچ ہو جائے تو آپس میں مہمان جو ہیں وہ یہاں ایک دوسرے کے پڑوسی کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اس لئے ایک دوسرے کا احترام کریں ، ا ور عزت کریں اور اگر کسی سے کوئی اونچ نیچ ہو بھی جائے تو شکوہ زبان پر نہ لائیں- اسی طرح جہاں مہمانوں اور کارکنوں کے لئے بھی ہے کہ مہمانوں سے عزت سے پیش آئیں- اپنے ساتھی کارکنوں سے بھی عزت اور احترام سے پیش آئیں- آپس میں محبت سے سارے کام اور ڈیوٹیاں سرانجام دیں-
پھر تیسری بات تو بہرحال ہر کارکن پر لازم ہے۔اوپر مَیں ذکر بھی کر چکاہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں چاہے چھوٹا ہے یا بڑا ہے،امیر ہے یاغریب ہے، سب سے ایک طرح یکساں احترام سے پیش آئیں-ان کی عزت کریں اور ان کی ضرورت کو جس حد تک انتظام اجازت دیتاہے پوری کرنے کی کوشش کریں-اگر نہیں کرسکتے تو اپنے سے بالاافسر تک پہنچائیں لیکن مہمان کااحترام اور اس سے آرام سے بات کرنا بہرحال ہروقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔
ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ کونسا اسلام سب سے بہتر ہے۔ فرمایا(ضرورت مندوں کو) کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کہو۔(صحیح البخاری۔ کتاب الایمان، باب وإِطعام الطعامِ من الاسلام)
اس حدیث میں ایک حسین معاشرہ کا نقشہ کھینچا گیاہے کہ کھانا کھلاؤ۔دوسرے ہرشخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کرو۔تو جلسہ کے دنوں میں جہاں ایک دینی ماحول ہوگا،ـ دعاؤں کی طرف توجہ ہوگی،وہاں سلام کو بھی ہرشخص کو چاہئے کہ مہمان ہو یا میزبان ہو رواج دے۔ تو ان تین دنوں میں محبت اور بھائی چارہ اتنا انشاء اللہ بڑھ جائے گاکہ جس کا اثر بعد تک بھی قائم رہے گا۔دوسرے اس کا فائدہ کارکنان کے لئے بھی ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے، آرام کی کمی کی وجہ سے بلاوجہ طبیعت میں بعض دفعہ تیزی اور تندی پیدا ہو جاتی ہے تو جب یہ ایک دوسرے کو سلامتی بھیج رہے ہوں گے تو اس مزاج میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ نرمی آئے گی۔
پھر ایک حدیث ہے،حضرت ابو ذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تیرا مسکرانا تیرے لئے صدقہ ہے۔ تیرا امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا بھی ایک صدقہ ہے۔ اور بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا بھی تیرے لئے صدقہ ہے اور کسی نابینا کی راستہ چلنے میں مدد کرنا تیرے لئے صدقہ ہے اور پتھر، کانٹا یا ہڈی رستہ سے ہٹا دینا بھی تیرے لئے صدقہ ہے۔ اور اپنے ڈول میں سے اپنے بھائی کے ڈول میں کچھ ڈال دینا بھی تیرے لئے صدقہ ہے۔(جامع ترمذی)۔
عام طورپر ہر ا حمدی کو اپنے اوپر اس حدیث میں بیان کردہ احکامات اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے جس سے ایک حسین معاشرہ جنم لے لیکن جلسے کے تین دنوں میں تو بہرحال اس طرف توجہ کی جائے۔ کیونکہ اس سے بھی تربیت کے رستے کھلتے ہیں- پہلے فرمایاکہ مسکراتے رہو۔ مسکرانے سے تمہارا تو کچھ نہیں بگڑایا تمہارا تو کچھ نہیں جاتا۔ایک دوسرے سے ملو تو مسکراتے ہوئے ملو۔اگر کوئی رنجشیں تھیں تو ان تین دنوں میں اپنی مسکراہٹوں سے اسے ختم کردو۔ دوسری بات یہ کہ نیکیوں کو پھیلاؤ،نیکیوں کی تلقین کرو اور بری باتوں سے روکو۔ تو یہ جلسہ کی غرض وغایت بھی ہے۔اس لئے جو جلسہ پر آئے ہیں وہ اِدھر اُدھر پھرنے کی بجائے جلسہ کے پروگراموں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ، اس میں بھرپور حصہ لیں-پھر خدمت خلق کے کام ہیں- یہ ضروری نہیں ہیں کہ خدمت خلق پر معمور کارکن ہی یہ کام کریں-تمام کارکنان کا فرض ہے کہ کسی کو مدد کی اگر ضرورت ہے،راستہ دکھانے کی ضرورت ہے تو اس ضرورت کو پورا کریں-پھر راستہ کی صفائی کا حکم ہے۔ جلسہ کے دنوں میں راستوں کی صفائی کے علاوہ گراؤنڈ میں بھی اور جلسہ گاہ میں بھی بچے اور بڑے گند کر دیتے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ کس کی ڈیوٹی ہے جو بھی گند دیکھے ا س کو ا ٹھا کر جہاں بھی کوڑا پھینکنے کے لئے ڈسٹ بن یا ڈبے وغیرہ رکھے گئے ہیں ان میں پھینکیں- اور مہمان بھی اور میزبان بھی دونوں ان چیزوں کا خیال رکھیں- یعنی یہ صرف کارکنان یا میزبانوں کا کام نہیں ہے بلکہ جو بھی دیکھے جلسہ میں جو بھی شامل ہونے آیاہے اگر گندگی دیکھے تو اس کو صاف کرے۔کوئی ڈبے پڑے ہیں ،گلاس پڑے ہیں ، کوئی ریپر پڑے ہیں ، کوئی اس قسم کی چیز فوراً اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالیں-
ابوداؤد کی ایک حدیث ہے حضرت ابو شریح ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن رات تک اس کی خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی جبکہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی۔ اس کے بعد (کی خدمت) صدقہ ہے۔ اور اس (مہمان) کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کو تکلیف میں ڈالے۔(ابو داؤد۔ کتاب الاطعمۃ باب الضیافۃ)
یہاں کیونکہ دو ر دور سے مہمان آتے ہیں اس لئے کوشش ہوتی ہے کہ جتنا رک سکتے ہیں رکیں-لیکن پھر بھی یہی کوشش کرنی چاہئے اگر جماعتی نظام کے تحت آ پ ٹھہرے ہوئے ہیں توجلسے کے بعد جتنی جلدی واپس جا سکتے ہیں چلے جائیں- لیکن کارکنان پر بہرحال یہ لازم ہے، جو میزبان ہیں ، اور ان کا یہ فرض ہے کہ مہمان کی مہمان نوازی اسی طرح خوش خلقی سے کرتے رہیں جب تک انتظام کے تحت اس مہمان نوازی کا انتظام ہے۔ یہ نہیں کہ ادھر جلسہ ختم ہوا اور ادھر ڈیوٹی والے کارکن غائب۔ پتہ نہیں کہاں گئـے۔ اور انتظامیہ پریشان ہو رہی ہو۔ تو جو بھی ڈیوٹی دیں پوری محنت اور دیانتداری سے دیں- اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔ لیکن یہاں ایک وضاحت کردوں کہ جو مہمان آتے ہیں اور اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرتے ہیں وہاں و ہ قرابت داروں کا سلوک ہو گا۔ تو ایسے عزیزوں رشتہ داروں کے پاس جو مہمان ٹھہرے ہیں وہ ان کی مہمان نوازی بہرحال کریں-
صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے۔حضرت ابوذر ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے مجھے ارشاد فرمایا کہ معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کی ہی نیکی ہو۔ (صحیح مسلم۔کتاب البِرِّ وَالصِّلَۃِ باب اِسْتِحْبَابُ طَلَاقَۃِ الْوَجْہِ عِنْدَ الِّلقَآء)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی مہمان نوازی کے کیا اندازتھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتاً بہتر تھی، آپؑ اکثر مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران میں ہر قسم کی بے تکلّفانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دسترخوان بھی بچھ جاتا تھا۔ ایسے موقعوں پر آپ عموماً ہرمہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے تھے اور اِس بات کی نگرانی فرماتے تھے کہ اگر کبھی دسترخوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوں تو ہر شخص کے سامنے دسترخوان کی ہر چیز پہنچ جائے۔ عموماً ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے یا لسی یا پان کی عادت تو نہیں- اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اُس کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے۔ بعض اوقات اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دسترخوان پر نہیں ہوتا تھا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اندر سے اچار لاکر ایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ اور چونکہ آپؑ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہو جاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپؑ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرّے اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے تاکہ کوئی مہمان اِس خیال سے کہ آپؑ نے کھانا چھوڑ دیا ہے دسترخوان سے بھوکا ہی نہ اُٹھ جائے۔ (سیرت طیبہ۔ صفحہ ۱۱۳)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پاکر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں- یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اِن سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کردئے گئے۔ اور اُن کی کمزوری کو دور کردیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اور مؤثر اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے‘‘۔(فتح اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد سوم۔ صفحہ ۱۴،۱۵)
پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمانوں نواز ی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ مہمانوں کی خاطر داری کا بہت اہتمام رکھا کرتے تھے۔ جب تک تھوڑے مہمان ہوتے تھے آپؑ خود اُن کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے۔ جب مہمان زیادہ ہونے لگے تو خدام حافظ حامد علی صاحب، میاں نجم الدین صاحب وغیرہ کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ دیکھو مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اُن کی تمام ضروریات، خورونوش و رہائش کا خیال رکھا کرو۔ بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں- اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ۔ صفحہ ۱۹۵)
پھر اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ :
’’لنگرخانہ کے مہتمم کو تاکید کردی جاوے کہ وہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مدّنظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اور کام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اُسے خیال نہ رہتا ہو، اس لیے کوئی دوسرا شخص یاد دلا دیا کرے۔ کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دست کش نہ ہونا چاہیے، کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو یہ ہمارا حق ہے کہ اُن کی ہر ایک ضرورت کو مدّنظر رکھیں- بعض وقت کسی کو بیت الخلا کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اُسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے۔ مَیں تو اکثر بیمار رہتا ہوں ، اس لیے معذور ہوں- مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائمقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں- (اخبار ’’الحکم‘‘ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ئ۔ صفحہ ۱،۲)
پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اُوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے۔ اُس وقت ایک احمد ی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور اُن کے کپڑے بھی پھٹے پُرانے تھے، حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور اُن کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جُوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے۔ اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے، جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے، ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اُٹھالیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں-‘‘ یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضورؑ نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالے میں کھانا کھایا۔ اُس وقت میاں نظام دین خوشی سے پُھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعودؑ کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ ۱۸۸)
پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں :-
جب مَیں ۱۹۰۱ء میں ہجرت کرکے قادیان چلا آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا۔ …ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصّہ سنایا۔ چونکہ مَیں بالکل ملحقہ کمرے میں تھا اور کواڑوں کی ساخت پرانے طرز کی تھی جن کے اندر سے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے۔ اس واسطے مَیں نے اس سارے قصّہ کو سنا۔ فرمایا۔ دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی۔ رات اندھیری تھی۔ قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا۔ اُس درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا۔ پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں- مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کرکے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں ، ہم اپنا آشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تاکہ وہ ان لکڑیوں کو جلاکر آگ تاپ لے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کرکے نیچے پھینک دیا اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں کو تنکوں کو جمع کرکے آگ جلائی اور تاپنے لگا۔ تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سینکنے کا سامان مہیا کیا۔ اب ہمیں چاہئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں- اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں-ہم خود ہی اس آگ میں جا گریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمارا گوشت کھالے۔ چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔‘‘ (ذکرحبیب صفحہ ۸۵ تا ۸۷ مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)
تو یہ ہے حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کا طریق واسلوب مہمان نوازی۔ اور یہ توقعات ہیں-ہم سے تو خدا کا مسیح نہ آشیانے کی قربانی مانگ رہاہے نہ جان کی قربانی مانگ رہاہے۔ صرف کچھ وقت ہے اور تھوڑی سی بے آرامی کی قربانی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے جو ہم نے کرنی ہے اور اتنی سی قربانی سے ہی آپ اور یہ تمام کارکنان جو ہیں آپ کی آمد کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر مہمانوں کی خدمت کرنے کی تمام کارکنوں کو توفیق عطا فرمائے۔
ا ب کچھ انتظامی اور تربیتی ہدایات ہیں جومیزبانوں اور مہمانوں دونوں کے لئے ہیں- و ہ میں ابھی آپ کو بتاتاہوں- او ر کوشش کریں کہ تمام امور کو خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے لئے ان پر عمل کیا جائے۔
نمبرایک یہ ہے کہ مسجد میں اور مسجد کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں-اب جلسہ سالانہ کے دنوں میں اسلام آباد میں ہی تمام انتظامات ہوں گے۔تو جو مارکی جلسہ کے لئے لگائی جاتی ہے اسی میں نمازیں ہوں گی۔اس لئے اس وقت کے لئے اس کو آپ کو مسجد کا ہی درجہ دینا ہوگا۔اور مکمل طورپر وہاں اس تقدس کا خیال رکھنا ہوگا۔
پھر یہ ہے کہ جلسہ کے ایام بالخصوص ذکر الٰہی اور د رود پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ نمازوں کی پابندی کریں- اب اتنی دور سے مہمان تشریف لائے ہیں تو اگر نمازیں بھی نہ پڑھیں اور ان کی پابندی نہ کی توپھر فائدہ کوئی نہیں ہوگا۔ اسی طرح انتظامیہ کے لئے یہ ہے کہ لنگر خانہ میں یا ایسی ڈیوٹیاں جہاں سے ہلنا ان کے لئے مشکل ہے وہاں نماز کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے۔اور ان کے افسران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں-
انگلستان کے احمدیوں کو چاہئے کہ ذوق و شوق کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہوں- یہ آپ کا جلسہ سالانہ ہے۔ بغیر کسی عذر کے کوئی غیر حاضر نہ رہے۔ بعض لوگ تین دن کی بجائے صرف دو دن یا ایک دن کے لئے آ جاتے ہیں اور ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ جلسہ کی برکات کے حصول کے بجائے میل ملاقات ہو۔ حالانکہ جلسہ کے برکات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو تین دن حاضر ر رہنا ضرور ی ہے۔ جس حد تک ممکن ہو جلسہ کی تقاریر اور باقی پروگرام پوری توجہ اور خاموشی سے سنیں اور وقت کی قدر کرتے ہوئے کسی بھی صورت اسے ضائع نہ کریں-
پھر ہے کہ نماز کے دوران بعض اوقات بچے رونے لگ جاتے ہیں جس سے بعض لوگوں کی نماز میں بہرحال توجہ بٹتی ہے،خراب ہوتی ہے۔جو نماز کاتعلق تھا وہ جاتا رہتاہے۔تو اس صورت میں والدین کو چاہئے اگر والد کے پاس بچہ ہے یا والدہ کے پاس بچہ ہے کہ وہ اس کو باہر لے جائیں- یہ بہترہے کہ اس اکیلے کی نماز خراب ہو،بجائے اس کے کہ پورے ماحول میں بچے کے شور کی وجہ سے رونے کی وجہ سے نمازیوں کی نماز خراب ہو رہی ہو۔ نیز اگر چھوٹی عمر کے بچے ہیں تو مائیں جو ہیں اگر یا باپوں کے پاس ہے توباپ،پہلی صفوں میں بیٹھنے کی کوشش نہ کریں-بلکہ پیچھے جا کر بیٹھیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو نکلنا بھی آسان ہو۔
اسی طرح نمازوں کے دوران اپنے موبائل فون بھی بند رکھیں- بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ فون لے کر نمازوں پر آ جاتے ہیں اور پھر جب گھنٹیاں بجنا شروع ہوتی ہیں توبالکل توجہ بٹ جاتی ہے نماز سے۔ اور جلسہ کی تقریروں کے درمیان بھی مائیں اپنے بچوں کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتی رہیں اور اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ پیچھے جاکر بیٹھیں-
فضول گفتگو سے اجتناب کریں- باہمی گفتگو میں دھیماپن اور وقار قائم رکھیں- تلخ گفتگو سے اجتناب کریں- جیساکہ مَیں پہلے بھی اوپر ذکرکر چکاہوں کہ آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں ، کسی بھی قسم کی تلخی پیدا نہیں ہونی چاہئے۔نہ مہمانوں کی آپس میں نہ مہمانوں اور میزبانوں کی، اور نہ میزبانوں کی آپس میں- تو کسی بھی شکل میں کوئی تلخی نہ ہو۔ بلکہ ایک روحانی ماحول ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آتاہو۔ اور پھر یہ ہے کہ بعض لوگ بلند آواز سے عادتاً تُوتُو مَیں مَیں کرکے باتیں کررہے ہوتے ہیں یا ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ کر قہقہے لگارہے ہوتے ہیں-تو ان تین دنوں میں ان تمام چیزوں سے جس حد تک پرہیز کر سکتے ہیں کریں بلکہ مکمل طورپر پرہیز کرنے کی کوشش کریں-ویسے بھی یہ کوئی ایسی اچھی عادت نہیں-
دوسرے مختلف قسم کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہوتے ہیں-بعض اونچا سننے والے ہیں ، بعض زبان نہ سمجھنے والے ہیں تو دیکھنے والا بعض دفعہ باتیں کررہاہوتاہے اور ان کی طرف دیکھ کرہنس رہاہوتاہے جس سے بلاوجہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو ان چیزوں سے بچنا چاہئے، پرہیز کرنی چاہئیـ۔
ایک اور ضرور ی ہدایت یہ ہے کہ بازار بھی جلسہ کے دوران بند رہیں گے۔ تو مہمان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ بلاوجہ جن لوگوں نے دکانیں بنائی ہوئی ہیں یا سٹال لگائے ہیں ان کو مجبور نہ کریں کہ اس دوران دکانیں کھولیں یا آپ وہاں بیٹھے رہیں- اگرمجبوری ہو تو چند ضروری چیزیں مہیا ہو سکتی ہیں لیکن انتظامیہ اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کس حد تک اجازت دینی ہے۔
پھر ہے کہ اسلام آباد کے ماحول میں تنگ سڑکوں پر چلنے میں احتیاط اور شوروغل سے پرہیز کریں- یہ باہر سے آنے والوں کے لئے خاص طورپر یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ماحول میں یہ نہ سمجھیں کہ آبادی نہیں ہے۔تھوڑی بہت آبادی تو ہوتی ہے تو بلا وجہ شوروغل نہیں ہونا چاہئے۔
پھر گاڑیاں پارک کرتے وقت خیال رکھیں کہ وہ لوگوں کے گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں- نہ بیت الفضل کی سڑکوں پر اور نہ ا سلام آباد میں-
ٹریفک کے قواعد کو ملحوظ رکھیں اور جلسہ گاہ میں شعبہ پارکنگ کے منتظمین سے مکمل تعاون کریں- یہاں قیام کے دوران دوسرے ملکی قوانین کی بھی پوری پاسداری کریں ،پوری پابندی کریں اور بالخصوص ویزا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے ضرور واپس تشریف لے جائیں-اور جو دوست جلسہ سالانہ کی نیت سے ویزا لے کر یہاں آئے ہیں انہیں بہرحال اس کی بہت سختی سے پابندی کرنی ہوگی۔
پھر صفائی کے آداب ہیں- ٹائلٹ میں صفائی کو ملحوظ رکھیں- یادرکھیں کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے۔ پھر یہ ہے کہ خواتین کے لئے ہدایت ہے کہ خواتین گھومنے پھرنے میں احتیاط اور توجہ کی رعایت رکھیں-تاہم جو خواتین احمدی مسلمان نہیں اور پردے کی ایسی پابندی نہیں کرتیں ان سے صرف پردے کی درخواست کرنا ہی کافی ہے۔ہرگز کوئی زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہونی چاہئے۔اگر کسی وجہ سے کسی احمدی کو بھی نقاب کی دقت ہو تو پھر ایسی خواتین میک اپ میں نہیں ہونی چاہئیں- سادہ رہیں کیونکہ میک اپ کرنا بہرحال مناسب نہیں- سرڈھانپے کی عادت کو اچھی طرح سے رواج دیں- ایک ایسا ماحول پیدا ہو، خواتین کی طرف سے نظر آنا چاہئے کہ روحانی ماحول میں ہم یہ دن بسر کر رہے ہیں- پردہ نہ کرنے کے بہانے نہیں تلاش ہونے چاہئیں- اگر کوئی مجبوری ہے توبہرحال جس حد تک حجاب ہے اس کو قائم رکھنا چاہئے اور یہ حکم بھی ہے۔
پھر ایک ہدایت ان لوگوں کے لئے ہے جو بعض دفعہ، عموما ً ٰتو یہ نہیں ہوتا، لیکن بعض دفعہ بعض مقامی لوگ لفٹ دیتے ہیں مہمانوں کو اور پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں-تو بہرحال مہمان نوازی کے پیش نظر اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
پھر مہمانوں کی عزت و احترام اور خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور محبت خلوص اور ایثار وقربانی کے جذبہ سے ان کی بے لوث خدمت کریں- یہ پہلے بھی مَیں کہہ آیاہوں-کارکنان کو مہمانوں کے ساتھ نرم لہجہ اور خوش دلی سے بات کرنی چاہئے۔ اس میں پہلے بھی حدیث کے حوالے سے عرض کرچکاہوں- نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے بھرپور تعاون کریں اور ان کی ہرطرح سے اطاعت کریں- پھر ایک چیز یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ان دنوں میں بعض دفعہ کھانے کا بہت ضیاع ہوتاہے۔ کھانے کے آدا ب میں تو یہ ہے کہ جتنا پلیٹ میں ڈالیں اس کو مکمل ختم کریں- کوئی ضیاع نہیں ہونا چاہئے۔بلاوجہ حرص میں آ کر زیادہ ڈال لیا یا دیکھا دیکھی ڈال لیا۔ اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہئے جس کا دوسروں پر برا اثر پڑ رہاہو۔ اور یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ کھانا جو ضائع ہو رہاہوتاہے اکثر کارکنان کا یہ قصور نہیں ہوتا بلکہ لینے والے کا قصور ہوتاہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کیاہے اتناہی لیں جتناآپ ختم کر سکیں- لیکن کارکنان کے لئے بہرحال یہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی مطالبہ کرتا ہے کہ مزید دو اور زیادہ لے لیتا ہے تو اسے نرمی سے سمجھائیں- سختی سے کسی مہمان کو بھی انکار نہیں کرنا اور نہ یہ کسی کارکن کا حق ہے۔ پیار سے کہہ سکتے ہیں کہ ختم ہو جائے تو دوبارہ آ کر لے لیں-
پھر صفائی کے متعلق پہلے بھی مَیں نے کہا تھا۔غسل خانوں کی صفائی۔یہاں یہ ہے کہ عمومی صفائی۔کھانا جہاں آپ کھارہے ہوں ان جگہوں پر بعض لوگ کھانا کھاکر خالی برتنوں کو وہیں رکھ جاتے ہیں اور ڈسٹ بن میں نہیں ڈالتے۔ اور یہ معمولی سی بات ہے۔ ایک تو کارکنان کا کام بڑھ جاتاہے۔ اس عرصہ میں وہ کوئی اور کام کرسکتے ہیں- دوسرے گندگی پھیلتی ہے جو ویسے بھی حکم ہے کہ صفائی بھی ایمان کا حصہ ہے۔تو جیسا کہ پہلے مَیں نے عرض کیاتھاکہ سڑکوں کی اور گراؤنڈ ز کی اور جلسہ گاہ کی صفائی کریں- توہر جگہ پورے ماحول کی صفائی کی ضرورت ہے۔ اور صفائی کا خاص طورپر خیال رکھیں-ا س ماحول میں ظاہری صفائی کا بہت خیال رکھا جاتاہے۔ تو بلاوجہ انتظامیہ کو بھی اعتراض کا موقع نہ دیں اور اپنی یادداشت میں محفوظ کرلیں کہ صفائی کو ہر صورت میں آپ نے قائم رکھناہے۔
پھر یہ جماعتی جلسہ ہے کوئی میلہ نہیں ہے اور نہ اس میں میلہ سمجھ کر شمولیت ہونی چاہئے۔اور نہ یہ صرف میل ملاقات اور خریدوفروخت یا فیشن کااظہار ہونا چاہئے۔بعض دفعہ خواتین میں یہ دیکھا گیاہے کہ عورتیں اکٹھی ہوئیں ،باتیں کیں اور بس ختم۔ اور یہ پتہ ہی نہیں ہوتاکہ کیا تقریریں ہوئیں اور کیا کہاگیا، کس قسم کے تربیتی پروگرام تھے۔ تو ا نتظامیہ اس بات کی خاص نگرانی رکھے۔اب دنیا میں ہر جگہ، بعض اور جگہوں سے بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ جلسوں میں یہ یہ بدانتظامی ہوئی۔ تو ہمارے احمدی ماحول میں دنیا میں ہرجگہ جہاں بھی جلسے ہو رہے ہوں اس بات کا خاص اہتمام ہونا چاہئے کہ خواتین بھی،بچے بھی خاموشی سے بیٹھ کر جلسہ سنیں اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں-
پھر بعض دفعہ شکایات آ جاتی ہیں کہ باہر سے آنے والے یہاں اپنے عزیزوں سے، تعلق والوں سے، رشتہ داروں سے قرض لینا شروع کر دیتے ہیں شاپنگ کرنے کے لئے۔تو یہ بھی قناعت کی صفت کو گدلا کرنے والی بات ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔اتنا ہی خرچ کرنا چاہئے جتنی توفیق ہے آپ کو۔ اب یہاں کوئی شاپنگ کرنے کے لئے تو نہیں آئے۔جس غرض کے لئے آئے ہیں وہ جلسہ سالانہ ہے،اپنی تربیت کے لئے ایک روحانی ماحول میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں تو اسی روحانی مائدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور دنیا کو چھوڑیں-
جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کیا تھامہمان نوازی کے سلسلہ میں کہ تین دن کی مہمان نوازی تو ہے لیکن جو لوگ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں تو اگر وہ شوق سے ان کو ٹھہرابھی لیا جائے تو ہرگز مہمان نوازی نہیں بلکہ اقرباء کے حق میں آتے ہیں- ا ن کو جتنا ٹھہرا سکتے ہیں ٹھہرائیں- یہ نہیں کہ انتظامیہ نے کہہ دیا تھاکہ تین دن سے زیادہ نہ ٹھہروتو اپنے تعلقات ہی بگاڑ لیں-
پھر ایک بہت اہم چیزہے حفاظتی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرنا۔اپنے ماحول پر گہری نظر رکھنا۔ ہرایک کا فرض ہے کہ اگر اجنبی آدمی ہو تو متعلقہ شعبہ کو اس کی اطلاع کردیں- خود کسی سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ جہاں ہر آدمی جو جلسہ میں شامل ہو رہاہے وہ اپنے ماحول پر نظر رکھے اور اگر اطلاع کرنا ہو انتظامیہ کو تو اس کے متعلق خبردار رہنا چاہئے تاکہ ہر حرکت کی فوری کارروائی آپ دیکھ سکیں ، نوٹ کرسکیں اور جو کاروائی ہو سکے، کسی ساتھ والے کو بتا سکیں جو انتظامیہ تک پہنچا دے۔ اس کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی زیادہ دور تک نظر تو نہیں رکھ سکتا۔ مگر اپنے دائیں بائیں اپنے ساتھیوں پر بہرحال نظر رکھیں جن کو آپ جانتے نہ ہوں- تو یہی بہت بڑی سیکیورٹی ہے جماعت احمدیہ کی۔
شاید بعض وجوہ کی بنا پر انتظامیہ اپنا چیکنگ کا نظام اس دفعہ جلسہ پر سخت کرے۔ تو ان سے مکمل تعاون کریں اورخاص طورپر خواتین۔ ان میں صبر کچھ کم ہوتاہے، جلدی بے صبر ہو جاتی ہیں- تو ان کو بھی مکمل تعاون کرنا چاہئے۔ یہ بھی ہماری ٹریننگ کا ایک حصہ ہے۔اور آ پ کے فائدے کے لئے ہی ہے۔تو اس بارہ میں خاص تعاون کی اپیل ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں داخلہ سے قبل متعلقہ حفاظتی عملہ کے سامنے خود ہی چیکنگ کے لئے پیش ہو جایاکریں- حفاظت کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ اور یہ تأثر نہ پڑے کہ آپ مجبوراً آمادہ کئے گئے ہیں-ہر وقت شناختی کارڈ لگاکر رکھیں- اوراگر کوئی اس کے بغیرنظر آئے تو اس کو بھی نرمی سے توجہ دلادیں- اس سے ایک تو انتظامیہ کو پتہ لگتا رہے گاکہ ہرایک کو کارڈ Issue ہوا ہوا ہے۔اور یہ تو پتہ ہی ہے کہ ہر ایک کو کارڈ Issue ہے۔ اس سے یہ پتہ لگ جائے گاکہ جو کارڈ کے بغیر ہے اس کی چیکنگ کرنی ہے۔دوسرے ہر آنے والا مہمان یا جو بھی شامل ہو رہاہے جلسہ میں اس کو بھی احساس ہوگا کہ یہ کارڈ کے بغیرہے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
پھر یہ ہے کہ قیمتی اشیاء اور نقدی وغیرہ کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں- اور یہ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے انتظامیہ ہرگز اس کی ذمہ دار ی نہیں لیـ گی۔
اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس جلسہ کو ہرگز عام دنیاوی جلسوں یا میلوں کی طرح نہ سمجھا جائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خوامخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحتِ نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں-‘‘(مجموعہ اشتہارات۔ جلد اوّل۔ صفحہ۴۴۰۔۴۴۳)
تو ان ساری باتوں کو مدنظر رکھیں اور سب سے اہم دعاہے۔ دعاؤں پر زور دیں-جلسہ پر آتے بھی اور جاتے بھی دعاؤں سے سفر شروع کریں اور سفر کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں اور بعض دفعہ یہ ہوتاہے کہ جلسوں میں شمولیت کی خاطر گھر سے دیر سے نکلے اور جلسہ میں شامل ہونے کی جلد ی ہوتی ہے تو اگر تھکے ہوئے ہیں یا بے آرامی ہے کسی بھی صورت میں آرام کئے بغیر سفر شروع نہ کریں- خاص طورپر وہ لوگ جو خود ڈرائیو کر رہے ہوں بہت احتیاط کریں- ذرا سی بے احتیاطی سب کی تکلیف کا باعث بن جاتی ہے اور راستے میں بھی اگر تھکاوٹ یا نیند محسوس کریں تو جو بھی قریبی سروس آئے وہاں رک کر آرام کر لیں- ٹریفک کے قوانین کا جیسے میں نے پہلے کہا تھا احترام کریں- Speed Limit کی پابندی کریں- ا ن دعاؤں کو یاد رکھیں جو آنحضر تﷺ سفر سے پہلے کیا کرتے تھے۔ حدیث میں آتاہے کہ حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺسفر کے ارادہ سے اونٹ پر بیٹھ جاتے تو تین بار تکبیر کہتے اور پھر یہ دعا مانگتے

’’سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَاھٰذَا وَمَاکُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ۔ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْن‘‘َ۔

یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا حالانکہ ہم میں اسے قابو میں رکھنے کی طاقت نہیں تھی۔ہم اپنے رب کی طرف جانے والے ہیں- اے ہمارے خدا ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں- تو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں-اے ہمارے خدا تو ہمارا یہ سفر آسان کردے اور اس کی دوری کو لپیٹ یعنی جلد طے ہو جائے،آرام سے طے ہو جائے۔ اے ہمارے خدا تو سفر میں ہمارے ساتھ ہو اور پیچھے گھر میں بھی خبر گیر ہو۔ اے ہمارے خدا مَیں تیری پناہ مانگتاہوں سفر کی سختیوں سے،ناپسندیدہ اور بے چین کرنے والے مناظر سے،مال اور اہل وعیال میں برے نتیجہ سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے۔پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تویہی دعا مانگتے اوراس میں یہ زیادتی فرماتے کہ ہم واپس آئے ہیں توبہ کرتے ہوئے،عبادت گزار اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان بن کر۔ اللہ کرے کہ تمام مہمان یہاں آئیں اورجلسے کے تمام فیوض سے فیضیاب ہوں ،برکات سے فیضیاب ہوں اوراپنی جھولیاں بھر کرجائیں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں