دروازے کے اُس پار کی خاموشی

(عمر ہارون)

دوپہر کے پانچ بجے، دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔

پہلی گھنٹی… دوسری گھنٹی… تیسری گھنٹی پر اندر سے ایک آواز آتی ہے: “کون ہے؟”

باہر کھڑا شخص کہتا ہے: “کیا آپ گھر پر ہیں؟”

اندر سے جواب آتا ہے: “نہیں، ہم تو گھر پر نہیں ہیں۔”

وہ شخص پھر کہتا ہے: “آپ کے پاس میری امی کا نمبر ہے؟ یا میرے والد کا نمبر ہے؟”

جواب آتا ہے: “نہیں، ہمارے پاس تو نہیں ہے۔”

باہر والا پھر بھی امید سے کہتا ہے: ** لیکن اندر سے اواز اتی ہے کہ میں گھر پر نہیں ہوں، ۔”*

اندر سے آواز آتی ہے: “کیوں؟ کیا بات ہے؟”

اور پھر باہر کھڑا ہوا شخص … کہتا ہے:

• مجھے میرے ہی گھر سے نکال دیا گیا۔
•میری زندگی کی ساری کمائی لے لی۔
•میرے بچے لے لیے۔
•میری ماں چھین لی۔
•میرا ضمیر مجھ سے لے لیا۔
• میری عزتِ نفس،
•میری جان،
•میرا تحفظ،
• میرے فیصلہ کرنے اور میرے سوچنے کی طاقت
•میری مثبت سوچ
•سب کچھ چھین لیا۔
•اب میرے اندر صرف ایک خالی پن ہے۔
•ایک سناٹا،
•جو چیختا ہے۔
* *اب میرے اندر صرف منفی خیالات باقی ہے۔”*
جب اندر نے پوچھا، “کیوں؟ کیا ہوا؟” تو وہ(باہر کھڑا شخص) پھر سے وہی جواب دہراتا رہا —
بالکل ایسے جیسے پرانا گراموفون بار بار ایک ہی دُھن بجا رہا ہو… ایک ہی جملہ، ایک ہی درد، سارا دن، ساری رات، ہر لمحہ۔ہر پل ،
*یہ صرف ایک دروازہ نہیں ہے*
یہ دروازہ، یہ گھنٹی، یہ سوال و جواب — یہ سب حقیقت کی علامت نہیں، بلکہ اُس شخص کی اندرونی کیفیت کی تصویر ہے جسے اس کے “اپنوں” نے چھوڑ دیا ہو۔

گھر بس ایک عمارت نہیں، بلکہ ایک امید ہے، ایک پناہ ہے، لیکن جب وہی جگہ انسان کے لیے اجنبی ہو جائے — جب اپنے دروازے بند کر لیں — تو انسان کے اندر بس ایک جنگ باقی رہ جاتی ہے، جس میں وہ ہارنے کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے، مگر جیتنے کی خواہش مر چکی ہوتی ہے۔
وہ انسان جس کا سب کچھ چھین لیا گیا ہو:
یادیں
عزت
خواب
اعتماد
خود پر یقین
زندگی جینے کا جذبہ
مستقبل کا تصور
محبت کرنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت

اب جب بھی وہ دستک دیتا ہے، تو کوئی دروازہ نہیں کھلتا — کیونکہ وہ خود اپنے وجود کا دروازہ بند کر چکا ہوتا ہے۔ اور اگر کبھی کوئی دروازہ کھلتا بھی ہے، تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

اور اکثر، یہ دروازے بند کرنے والے خون کے رشتے ہوتے ہیں۔

جذباتی زخم اور روحانی تھکن کا علاج – باخ فلور ریمیڈیز

ایسی گہری تکلیف، تنہائی اور جذباتی تباہی کے لیے مندرجہ ذیل باخ فلور ریمیڈیز مددگار ہو سکتی ہیں:

1. Sweet Chestnut
ایسے وقت میں جب انسان مکمل مایوسی اور اندھیری کھائی میں گر چکا ہو، جہاں امید کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہے — یہ دوا روح کو سہارا دیتی ہے اور اندھیرے میں روشنی کی پہلی کرن لاتی ہے۔

2. Honeysuckle
جب انسان ماضی میں جینے لگے، ان لمحوں میں جو کبھی واپس نہیں آ سکتے — یہ دوا اُسے حال میں لاتی ہے تاکہ وہ زندگی کی نئی شروعات کر سکے۔

3. Willow
ایسے لوگ جو خود کو مظلوم سمجھتے ہیں، جن کے دل میں شکایتیں اور کڑواہٹ بھر گئی ہو — یہ دوا اُن کے دل سے شکوے دور کر کے قبولیت اور سکون دیتی ہے۔

4. Larch
جب خود اعتمادی مکمل ختم ہو جائے، اور انسان خود کو ناکام، نالائق، اور بے کار سمجھے — یہ دوا اندر کا اعتماد بحال کرتی ہے۔

5. **Gorse
مایوسی کے ان لمحوں میں جب انسان ہر دروازہ بند محسوس کرے — یہ دوا امید جگاتی ہے اور زندگی کی نئی سمت دکھاتی ہے۔

6. Rescue Remedy
(ہنگامی حالتوں میں) کسی شدید جذباتی دھچکے، صدمے یا ذہنی بےچینی کی حالت میں فوری سکون دینے والی دوا.

نوٹ: ہومیوپیتھی دواؤں کی پوٹینسی ہر کیس کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے آپ اپنے علاقہ کے کسی ہومیوپیتھ سے رابطہ کریں یا ہمیں میسیج کرکے مضمون نگار کا فون نمبر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

دروازے کے اُس پار کی خاموشی” ایک تبصرہ

  1. مضمون تو اپ کے اچھے ہوتے ہیں دوائیاں بتانے کے لیے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر آپ کوئی بھی دوائی تجویز کرتے ہیں تو سب سے پہلے مریض کی اندرونی کیفیت کو جاننا بہت ضروری ہوتا ہے جس کے پیچھے جو تمام چیزیں چھپی ہوتی ہیں۔ جب مریض اپنی باتوں کو ایکسپریس کرتا ہے تو اس کے اندر کا ڈپریشن اور انگزائٹی، یعنی غصہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ اپنی باتوں کو وہ لکھ کر بھی بیان کر سکتا ہے یا وہ کسی اچھے دوست کے ساتھ شیئر بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا تعالی قران کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی بھی ایسی بیماری نہیں ہے جس کا علاج پیدا نہیں کیا گیا۔ خدا تعالی کا کلام بھی بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے اس لیے وہاں سے بھی تھوڑی بہت راہنمائی لینی چاہیے۔ بلکہ اگر ہم اپنی زندگی کو اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں تو یہی اچھی بات ہے۔ بیسکلی نفسیاتی بیماریاں اس لیے ہوتی ہیں کہ ہم لوگوں سے امید لگالیتے ہیں اور وہ امید جب ٹوٹتی ہے تو ٹوٹنے کی اواز تو نہیں آتی لیکن انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پس ہمیں لوگوں سے امید نہیں لگانی چاہیے بلکہ کبھی بھی اپنے بچوں کے ساتھ یا بیوی کو شوہر کے ساتھ اور شوہر کو بیوی کے ساتھ امید نہیں لگانی چاہیے۔ اگر ہم بچے پال رہے ہیں یا پڑھا رہے ہیں تو بس ہم یہ سمجھیں کہ یہ ہمارا فرض ہے جو ادا کرنا ہے۔ وہ اگر اپنا فرائض انجام نہیں دے رہے تو شاید ہماری تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ یاد رکھیں کہ چوٹ وہیں پہ لگتی ہے جہاں پہ امید ہوتی ہے اور جب امید ہی ختم ہو جائے گی تو چوٹ لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں