دعوت الی اللہ کا ذریعہ … الفضل
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم حکیم منور احمد عزیز صاحب بیان کرتے ہیں کہ موضع کیلے ضلع شیخوپورہ میں ایک نہایت مخلص احمدی اَن پڑھ دوست میاں عبدالعزیز صاحب گائوں میں اکیلے احمدی تھے۔ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور احمدیت کے سچے شیدائی تھے۔ احمدیت سے عشق کا یہ حال تھا کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود الفضل کا پرچہ لگوا رکھا تھا۔ جو بھی آپ کی دکان پر آکر بیٹھتا تو آپ اسے کہتے ذرا یہ اخبار کا ورق مجھے پڑھ کر سنائو۔ ایک دن ایک غیراز جماعت مولوی ماسٹر میاں غوث محمد کی نظر الفضل پر پڑی تو اُس پرچہ پر لکھے ہوئے قرآنی الفاظ نے اُن کا دل روشن کر دیا اور انہوں نے اخبار الفضل کا مطالعہ باقاعدہ شروع کر دیا۔ تب حضرت میاں عبدالعزیز صاحب نے میاں غوث محمد صاحب کا رابطہ میرے والد محترم حکیم عبدالعزیز صاحب آف چک چٹھہ ضلع حافظ آباد سے کروا دیا۔ میاں غوث محمد صاحب سکول ٹیچری کے علاوہ فن طبابت سے بھی تعلق رکھتے تھے اس لیے آپ کی ملاقات جناب حکیم عبدالعزیز صاحب سے ہونے کی دلچسپی اَور بھی بڑھ گئی اور وہ چھٹی کے دن آکر کئی کئی گھنٹے حکیم صاحب سے تبادلہ خیالات کرتے۔ آخر 1959ء میں انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پُرجوش داعی الی اللہ بن گئے۔ آپ با اثر اہل علم، خوش مزاج، عمدہ گفتگو کرنے والے اور دانش مند انسان تھے۔آج ان کی اولاد بھی احمدی ہے ۔ کیا ہی مبارک اخبار الفضل کا وہ پرچہ تھا جو پورے خاندان کے لیے ہدایت کا موجب بنا۔
والد محترم حکیم عبدالعزیز صاحب اخبار الفضل کے مستقل قاری تھے۔ سرکاری بندش کی وجہ سے جب اخبار الفضل بند ہو گیا تو آپ نے اسے بہت محسوس کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب الفضل کا ضمیمہ شائع ہوا تو آپ کمزوری کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کے بیٹے مکرم حکیم قاضی نذر محمد نے اخبار الفضل کا ضمیمہ دکھاتے ہوئے کہا: ابا جی اخبار الفضل آگئی۔ آپ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور ہاتھ بڑھا کر کہا کہ مجھے الفضل دو۔ الفضل کا پرچہ دیکھ کر آپ کو ایسی خوشی ہوئی کہ ایسے معلوم ہوا کہ آدھی بیماری اس کو دیکھ کر ہی غائب ہو گئی۔
